• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مکتوبات احمدیہ

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مکتوب نمبر(۵۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل کی ڈاک میں آں محب کا عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ آپ کی محبت اور اخلاص اور ہمدردی میں کچھ شک نہیں ۔ہاں میں ایک استاد کی طرح جو شاگردوں کی ترقی چاہتا ہوں۔ آیندہ کی زیادہ قوت کے لئے اپنے مخلصوں کے حق میں ایسے الفاظ بھی استعمال کرتا ہوں جن سے وہ متبنہ ہو کر اپنی اعلیٰ سے اعلیٰ قوتیں ظاہر کریں اور دعا ہی کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ان کی کمزوریاں دور فرمائے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس دنیا کا تمام کاروبار اور اس کی نمائش اور عزتیں جناب کی طرح ہیں اور نہایت سعادت مندی اسی میں ہے کہ پورے جوش سے اور پوری صحت کے ساتھ دین کی طرف حرکت کی جائے اورمیرے نزدیک بڑے خوش نصیب وہ ہیں کہ اس وقت اور میری آنکھوں کے سامنے دکھ اٹھا کر اپنے سچے ایمان کے جوش دکھاویں۔ مجھے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس زمانہ کے لئے تجھے گواہ کی طرح کھڑا کروں گا۔ پس کیا خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے بارے میں اچھی طرح گواہی ادا کر سکوں۔ اس لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ خد اکا خوف بہت بڑھا لیا جائے۔ تا اس کی رحمتیں نازل ہوں اورتا وہ گناہ بخشے۔ آپ کے دو خط آنے کے بعد ہمارے اس جگہ کے دوستوں نے اس رائے کو پسند کیا کہ جو زمانہ گھر کے حصہ مغربی کے مکانات کچے اور دیوار کچی ہے۔اس کو مسمار کر کے اس کی چھت پر مردانہ مکان تیار ہو جائے اور نیچے کامکان بدستور گھر سے شامل رہے۔ چنانچہ حکمت الٰہی سے یہ غلطی ہو گئی کہ وہ کل مکان مسمار کر دیا گیا۔ اب حال یہ ہے کہ مردانہ مکان تو صرف اوپر تیار ہو سکتا ہے اور زنانہ مکان جو تمام گرایا گیا ہے۔ اگر نہایت ہی احتیاط اور کفایت سے اس کو بنایا جائے تو شاید ہے کہ آٹھ سو روپیہ تک بن سکے۔ کیو نکہ اس جگہ انیٹ اور دوہری قیمت خرچ ہوتی ہے اور مجھے یقین نہیں کہ چار سور وپیہ کی لکڑی آکر بھی کام ہوسکے۔ بہرحال یہ پہلی منزل اگر تیار ہو جائے تو بھی بیکار ہے۔ جب تک دوسری منزل اس پر نہ پڑے کیوں کہ مردانہ مکان اسی چھت پر پڑ گیا اور چونکہ ایک حصہ مکان گرنے سے گھر بے پردہ ہورہا ہے اور آج کل ہندو بھی قتل وغیرہ کے لئے بہت کچھ اشتہارات شائع کر رہے ہیں۔ اس لئے میں نے کنویں کے چندہ میں سے عمارت کو شروع کرا دیا ہے۔ تاجلد پردہ ہو جائے گا۔ا گر اس قدر پکا مکان بن جائے جو پہلے کچا تھا توشاید آیندہ کسی سال اگر خداتعالیٰ نے چاہا تو اوپر کا مردانہ حصہ بن سکے۔ افسوس کہ لکڑی چھت کی محض بیکار نکلی اور ایسی بوسیدہ کہ اب جلانے کے کام میں آتی ہے۔ لہذا قریباً چار سو روپیہ کی لکڑی چھت وغیرہ کے لئے درکار ہو گی۔ خدا تعالیٰ کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں۔ اگر اس نے چاہا ہے تو کسی طرح سے انجام کر دے گا۔ یقین کہ مولوی صاحب کاعلیحدہ خط آپ کو پہنچے گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۶؍ اپریل ۱۸۹۶ء
مکتوب نمبر(۵۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قادیان میں تیزی سے طاعون شروع ہو گئی ہے۔ آج میاں محمد افضل ایڈیٹر اخبار البدر کا لڑکا جاں بلب ہے۔ نمونیا پلیگ ہے۔ آخری دم معلوم ہوتا ہے۔ ہر طرف آہ وزاری ہے۔ خدا تعالیٰ فضل کرے۔ ایسی صورت میں میرے نزدیک بہت ہے کہ آپ آخیر اپریل ۱۹۰۵ء تک ہرگز تشریف نہ لاویں۔ دنیا پر ایک تلوار چل رہی ہے۔ خدا تعالیٰ رحم فرمائے۔ باقی خداتعالیٰ کے فضل سے سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج مولوی مبارک علی صاحب جن کی نسبت آپ نے برخاستگی کی تجویز کی تھی۔ حاضر ہو گئے ہیں۔ چونکہ وہ میرے استاد نادہ ہیں اور مولوی فضل احمد صاحب والد بزرگوار ان کے جو بہت نیک اور بزرگ آدمی تھے۔ ان کے میرے پر حقوق استادی ہیں۔ میری رائے ہے کہ اب کی دفعہ آپ ان کی لمبی رخصت پر اغماض فرماویں۔ کیونکہ وہ رخصت بھی چونکہ کمیٹی کی منظوری سے تھی کچھ قابل اعتراض نہیں۔ ماسوا اس کے چونکہ وہ واقعہ( میں ) ہم پر ایک حق رکھتے ہیں اور عفو اور کرم سیرت ابرار میں سے ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واعفو اوا صفحوا الا اتحبون ان یغفر اللہ لکم واللہ غفور الرحیم یعنی عفو اور درگزر کی عادت ڈالو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدابھی تمہاری تقصیر میں معاف کرے اورخداتو غفور رحیم ہے۔ پھر تم غفور کیوں نہیں بنتے۔ اس بناء پر ان کا یہ معاملہ درگزر کے لائق ہے۔ اسلام میں یہ اخلاق ہرگز نہیں سکھلائے گئے۔ ایسے سخت قواعد نصرانیت کے ہیں اور ان سے خداہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔ ماسوا اس کے چونکہ میں ایک مدت سے آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ان کے گناہ معاف کرتا ہوں جو لوگوں کے گناہ معاف کرتے ہیں اور یہی میرا تجربہ ہے۔ پس ایسانہ ہو کہ آپ کی سخت گیری کچھ آپ ہی کی راہ میں سنگ راہ ہو۔ ایک جگہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص فوت ہوگیا۔ جس کے اعمال کچھ اچھے نہ تھے۔ اس کو کسی نے خواب میںدیکھا کہ خداتعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا ۔ اس نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بخش دیا اورفرمایا کہ تجھ میں یہ صفت تھی کہ تو لوگوں کے گناہ معاف کرتا تھا اس لئے میں تیرے گناہ معاف کرتا ہوں۔ سو میری صلاح یہی ہے کہ آپ اس امر سے درگزر کرو تا آپ کو خداتعالیٰ کی جناب میں درگزر کرانے کا موقعہ ملے۔ اسلامی اصول انہی باتوں کا چاہتے ہیں۔ دراصل ہماری جماعت کے ہمارے عزیز دوست جو خدمت مدرسہ پر لگائے گئے ہیں وہ ان طالب علم لڑکوں سے ہمیں زیادہ عزیز ہیں۔ جن کی نسبت ابھی تک معلوم نہیں کہ نیک معاش ہوں گے یا بدمعاش۔
یہ سچ ہے کہ آپ تمام اختیارات رکھتے ہیں۔ مگر یہ محض بطور نصیحتاً للہ لکھا گیا ہے۔ اختیارات سے کام چلانا نازک امرہے۔ اس لئے خلفاء راشدین نے اپنے خلافت کے زمانہ میں شوریٰ کوسچے دل سے اپنے ساتھ رکھا تا اگر خطا بھی ہو تو سب پر تقسیم ہوجائے نہ صرف ایک کی گردن پر۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایسے وقت آپ کاعنایت نامہ مجھ کو ملا کہ میں دعا میں مشغول ہوں اور امیدوار رحمت ایزوی حالات کے معلوم کرنے سے میری بھی یہی رائے ہے کہ ایسی حالت میں قادیان میں لانا مناسب نہیں ۔ امید کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد وہ دن آئے گا کہ با آسانی سواری کے لائق ہو جائیںگے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ جس وقت عزیزی عبدالرحمن ڈاکٹروں کی رائے سے ریل کی سواری کے لائق ہو جائیں۔ تو بٹالہ میں پہنچ کر ڈولی کاانتظام کیا جائے۔ کیونکہ یکہ وراستہ وغیرہ ضعف کی حالت میں ہرگز سواری کے لائق نہیں ہیں۔ میںخداتعالیٰ کے فضل اور توفیق سے بہت توجہ سے کرتا رہوں گا۔
دو خاص وقت ہیں (۱) وقت تہجد (۲) اشراق ماسوا اس کے پانچ وقت نماز میں انشاء اللہ دعا کروں گا اور جہاں تک ہو سکے آپ تازہ حالات سے ہرروز مجھے اطلاع دیتے رہیں کیونکہ اگرچہ اسباب کی رعایت بھی ضروری ہے۔ مگر حق بات یہ ہے۔ کہ اسباب بھی تب ہی درست اور طیب کو بھی تب ہی سیدھی راہ ملتی ہے۔ جب کہ خداتعالیٰ کا ارادہ ہو اور انسان کے لئے بجز دعا کے کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو خداتعالیٰ کے ارادہ کو انسان کی مرضی کے موافق کردے ایک دعا ہی ہے کہ اگر کمال تک پہنچ جائے توایک مردہ کی طرح انسان زندہ ہوسکتا ہے۔ خداتعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ دعا کمال کو پہنچ جائے وہ نہایت عمدہ چیز ہے۔ یہی کیمیا ہے اگر اپنے تمام شرائط کے ساتھ متحقق ہوجائے۔ خداتعالیٰ کا جن لوگوں پر فرض ہے اور جو لوگ اصطفا اوراجتباء کے درجہ تک پہنچے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کوئی نعمت ان کو نہیں دی گئی کہ اکثر دعائیں ان کی قبول ہوجائیں۔ گو مشیت الٰہی نے یہ قانون رکھا ہے کہ بعض دعائیں مقبولوں کی بھی قبول نہیں ہوتیں لیکن جب دعا کمال کے نقطہ تک پہنچ جاتی ہے۔ جس کا پہنچ جانا محض خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہ ضرور قبول ہوجاتی ہے۔ یہ کبریت احمر ہے جس کا وجود قلیل ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی عنہ
از قادیان
مکتوب (۵۶) نمبرملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ جو کچھ آپ نے مجھ کو لکھا ہے اس سے مجھے بکلی اتفاق ہے۔ میںنے مفتی محمد صادق صاحب کو کہہ دیا ہے کہ آپ کے منشاء کے مطابق جواب لکھ دیں اورآپ ہی کی خدمت میں بھیج دیں۔ آپ پڑھ کر اور پسند فرما کر روانہ کر دیں۔ ہاں ایک بات میرے نزدیک ضروری ہے گو آپ کی طبیعت اس کو قبول کرے یا نہ کرے اوروہ یہ ہے کہ ہمیشہ دو چار ماہ کے بعد کمشنر صاحب وغیرہ حکام کو آپ کا ملنا ضروری ہے۔ کیو نکہ معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ بعض شکی مزاج حکام کو جو اصلی حقیقت سے بے خبر ہیں ہمارے فرقہ پر سوء ظن ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی حکام کو نہیں ملتا اورمخالف ہمیشہ ملتے رہتے ہیں۔ پس جس حالت میں آپ جاگیردار ہیں اور حکام کو معلوم ہے کہ آپ فرقہ میں شامل ہیں۔ اس لئے ترک ملاقات سے اندیشہ ہے کہ حکام کے دل میں یہ بات مرکوز نہ ہو جائے کہ یہ فرقہ اس گورنمنٹ سے بغض رکھتا ہے۔گو یہ غلطی ہو گی اورکسی وقت رفع ہو سکتی ہے۔ مگر تا تریاق ازعرق آوردہ شود مار گزیدہ مردہ شود باقی سب طرح سے خیریت ہے۔ میں انشاء اللہ بروز جمعرات قادیان سے روانہ ہوں گا۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ خاکسار بباعث کثرت پیشاب اور دوران سر اور دوسرے عوارض کے خط لکھنے سے قاصر رہا۔ ضعف بہت ہو رہاہے۔ یہاں تک کہ بجز دو وقت یعنی ظہر اور عصر کے گھر میں نماز پڑھتا ہوں۔ آپ کے خط میں جس قدر ترددات کا تذکرہ تھا پڑھ کر اور بھی دعا کے لئے جوش پیدا ہوا۔ میںنے یہ التزام کر رکھا ہے کہ پنچ وقت نماز میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اورمیںبہ یقین دل جانتا ہوں کہ یہ دعائیں بیکار نہیں جائیںگی۔ ابتلائوں سے کوئی انسان خالی نہیں ہوتا۔ اپنے اپنے قدر کے موافق ابتلاء ضرور آتے ہیں اور وہ زندگی بالکل طفلانہ زندگی ہے جو ابتلائوں سے خالی ہو۔ ابتلائوں سے آخر خد اتعالیٰ کا پتہ لگ جاتاہے۔ حوادث دھر کاتجربہ ہو جاتاہے اور صبر کے ذریعہ سے اجر عظیم ملتا ہے۔ اگر انسان کوخداتعالیٰ کی ہستی پر ایمان ہے تو اس پر بھی ایمان ضرور ہوتا ہے کہ وہ قادر خدابلائوں کے دور کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ میرے خیال میں اگرچہ وہ تلخ زندگی جس کے قدم قدم میں خارستان مصائب و حوادث و مشکلات ہے۔ بسا اوقات ایسی گراں گزرتی ہے کہ انسان خود کشی کا ارادہ کرتا ہے۔ یا دل میں کہتا ہے کہ اگر میں اس سے پہلے مر جاتا تو بہتر تھا۔ مگر درحقیقت وہی زندگی قدرتا ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ سے سچا او رکامل ایمان حاصل ہوتا ہے۔ ایمان ایوب نبی کی طرح چاہئے کہ جب اس کی سب اولاد مر گئی اور تمام مال جاتا رہا تو اس نے نہایت صبر اور استقلال سے کہا کہ میں ننگا آیا اور ننگا جائوں گا۔
پس اگر دیکھیں تو یہ مال اورمتاع جو انسان کو حاصل ہوتا ہے صرف خدا کی آزمائش ہے۔ اگر انسان ابتلاء کے وقت خدا تعالیٰ کا دامن نہ چھوڑے۔ تو ضرور وہ اس کی دستگیری کرتا ہے۔ خداتعالیٰ درحقیقت موجود ہے اور درحقیقت وہ ایک مقرر وقت پر دعا قبول کرتا ہے اورسیلاب ہموم وغموم سے رہائی بخشتا ہے۔ پس قوی ایمان کے ساتھ اس پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ وہ دن آتا ہے کہ یہ تمام ہموم وغموم صرف ایک گزشتہ قصہ ہو جائے گا۔ آپ جب تک مناسب سمجھیں لاہور رہیں۔ خدا تعالیٰ جلد ان مشکلات سے رہائی بخشے۔ آمین۔
اپیل مقدمہ جرمانہ دائر کیا گیا ہے۔ مگر حکام نے مستغیث کی طرف سے یعنی کرم دین کی مدد کے لئے سرکاری وکیل مقرر کر دیا ہے۔ یہ امر بھی اپیل میں ہمارے لئے بظاہر ایک مشکل کا سامنا ہے۔ کیو نکہ دشمن کو وکیل کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں وہ بہت خوش ہو گا اور اس کو بھی اپنی فتح سمجھے گا۔ ہر طرف دشمنوں کا زور ہے۔ خون کے پیاسے ہیں۔ مگر وہی ہو گا جو خواستئہ ایزوی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲؍ دسمبر ۱۹۰۶ء
مکتوب نمبر (۵۸) دستی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
رات مجھے مولوی صاحب نے خبر دی کہ آپ کی طبیعت بہت بیمارتھی۔ تب میں نماز میں آپ کے لئے دعا کرتارہا۔ چند روز ایک دینی کام کے لئے اس قدر مجھے مشغولی رہی کہ تین راتیں میں جاگتا رہا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو شفاء بخشے۔ میں دعا میں مشغول ہوں او بیماری مومن کے لئے کفارہ گناہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شفا بخشے آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ یہ مکتوب حضرت نواب صاحب قبلہ کے ایک خط کے جواب میں ہے جوحسب ذیل ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم
مجھ کو اس دفعہ نزلہ کچھ عجیب طرح کا ہوا ہے۔ بالکل بخار کی سی کفیت رہتی ہے۔ پہلے زکام ہوا۔ اس سے ذرا افاقہ ہوا۔میں نے سمجھا کہ اب آرام ہو گیا۔ مگر اسی روز کھانسی ہوگئی ۔ اب سینہ میں جس طرح چھری سے کھرچتے ہیں۔ اس طرح خراش ہو رہی ہے اورسر میں بدن میں کسل۔ کمر میں درد ہو گیا۔ چونکہ قبض بھی رہتی ہے۔ اس لئے سرمیں غبار رہتا ہے۔ کل ذرا طبیعت بحال ہوئی تھی۔ مگر آج باقی استدعائے دعا۔ (راقم محمد علی خاں)
مکتوب نمبر (۵۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمام خط میںنے پڑھا۔ اصل حال یہ ہے کہ جو کچھ میں نے لکھا تھا وہ اس بناء پر تھا کہ نور محمد کی بیوی نے میرے پاس بیان کیا کہ نواب صاحب میرے خاوند کو یہ تنخواہ چار روپیہ ماہوار کوٹلہ میں بھیجتے ہیں اور اس جگہ چھ روپیہ تنخواہ تھی اور روٹی بھی ساتھ تھی۔ اب ہماری تباہی کے دن ہیں اس لئے ہم کیا کریں۔ یہ کہہ کر وہ روپڑی۔ میں توجانتا تھا کہ اس تنزل تبدیلی کی کوئی اسباب ہوںگے اور کوئی ان کا قصور ہو گا۔ مگر مجھے خیال آیا کہ ایک طرف تو میں نواب صاحب کے لئے پنج وقت نماز میں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ان کی پریشانی دور کرے اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن کی شکایت ہے کہ ہم اب اس حکم سے تباہ ہو جائیںگے تو ایسی صورت میں میری دعا کیا اثر کرے گی۔ گو یہ سچ ہے کہ خدمت گار کم حوصلہ اور احسان فراموش ہوتے ہیں۔ مگر بڑے لوگوں کے بڑے حوصلے ہوتے ہیں۔ بعض وقت خدا تعالیٰ اس بات کی پرواہ نہیںرکھتا کہ کسی غریب بادار خدمت گار نے کوئی قصور کیا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ صاحب دولت نے کیوں ایسی حرکت کی ہے کہ اس کی شکر گزاری کے برخلاف ہے۔ اس لئے میں نے آپ کو ان دلی رنجش کے برے اثر سے بچانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب کو لکھا تھا۔ ورنہ میں جانتا ہوں کہ اکثر خدمت گار اپنے قصور پر پردہ ڈالتے ہیں اوریوں ہی واویلا کرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے میں نے مہمان کے طور پر اس کی بیوی کو اپنے گھر میںرکھ لیا ۔ تاکوئی امر ایسانہ ہو کہ جو میری دعائوں کی قبولیت میں حرج ڈالے اور حدیث شریف میں آیا ہے۔ ارحمو افی الارض ترحمو افیالسماء زمین میں رحم کرو تا آسمان پر تم پر رحم ہو۔ مشکل یہ ہے کہ امراء کے قواعد انتظام قائم رکھنے کے لئے اور ہیں اور وہاں آسمان پر کچھ اور چاہتے ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۶۰) دستی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اشتہار کے بارے میں جو مدرسہ کے متعلق لکھا ہے۔ چند دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ لکھوں اور ایک دفعہ یہ مانع اس میں آیا کہ وہ حال سے خالی نہیں کہ یا تو یہ لکھا جائے کہ جس قدر مدد کا لنگر خانہ کی نسبت ارادہ کیا جاتا ہے۔ اسی رقم میں سے مدرسہ کی نسبت ثلث یا نصف ہونا چاہئے۔ تواس میں یہ قباحت ہے کہ ممکن ہے اس انتظام سے دونوں میں خرابی پید اہو۔ یعنی نہ تو مدرسہ کا کام پورا ہو اور نہ لنگر خانہ کا۔ جیسا کہ دو روٹیاں دو آدمیوں کو دی جائیںتو دونوں بھوکے رہیںگے اور اگر چندہ والے صاحبوں پر یہ زور ڈالا جائے کہ وہ علاوہ اس چندہ کے وہ مدرسہ کے لئے ایک چندہ دیں تو ممکن ہے کہ ان کو ابتلاء پیش آوے اور وہ اس تکلیف کو فوق الطاقت تکلیف سمجھیں۔ اس لئے میںنے خیال کیا کہ بہتر ہے کہ مارچ اور اپریل دو مہینے امتحان کیا جائے کہ اس تحریک کے بعد جو لنگر خانہ کے لئے کی گئی ہے۔ کیا کچھ ان دو مہینوں میں آتا ہے۔ پس اگر اس قدر روپیہ آگیا جو لنگرخانہ کے تخمینی خرچ سے بچت نکل آئے تو وہ روپیہ مدرسہ کے لئے خرچ ہو گا۔ میرے نزدیک ان دو ماہ کے امتحان سے ہمیں تجربہ ہو جائے گا کہ جو کچھ انتظام کیا گیاہے۔ کس قدر اس سے کامیابی کی امید ہے۔ اگر مثلاً ہزار روپیہ ماہوار چندہ کا بندوبست ہو گیا تو آٹھ سو روپیہ لنگر خانہ کے لئے نکال کر دو سو روپیہ ماہوار مدرسہ کے لئے نکل آئے گا۔ یہ تجویز خوب معلوم ہوتی ہے کہ ہر ایک روپیہ جو ایک رجسٹر میں درج ہوتا رہے اور پھر دو ماہ بعد سب حقیقت معلوم ہوجائے۔
غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۶۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں اس جگہ آکر چند روز بیمار رہا۔ آج بھی بائیں آنکھ میں درد ہے۔ باہر نہیں جا سکتا۔ ارادہ تھا کہ اس شہر کے مختلف فرقوں کو سنانے کے لئے کچھ مضمون لکھوں۔ ڈرتا ہوں کہ آنکھ کا جوش زیادہ نہ ہو جائے خدا تعالیٰ فضل کرے۔
مرزا خد ابخش کی نسبت ایک ضروری امر بیان کرنا چاہتا ہوں۔ گو ہر شخص اپنی رائے کا تابع ہوتا ہے۔ مگر میں محض آپ کی ہمدردی کی وجہ سے لکھتا ہوں کہ مرزا خد ابخش آپ کا سچا ہمدرد اورقابل قدر ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ کئی لوگ جیسا کہ ان کی عادت ہوتی ہے۔ اپنی کمینہ اغراض کی وجہ سے یا حسد سے یا محض سفلہ پن کی عادت سے بڑے آدمیوں کے پاس ان کے ماتحتوں کی شکایت کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ میںنے سناہے کہ ان دنوں میں کسی شخص نے آپ کی خدمت میں مرزا خدا بخش صاحب کی نسبت خلاف واقعہ باتیں کہ کر آپ پر ناراض کیا ہے۔ گویا انہوں نے میرے پاس آپ کی شکایت کی ہے اور آپ کی کسر شان کی غرض سے کچھ الفاظ کہے ہیں مجھے اس امر سے سخت ناراضگی حاصل ہوئی اور عجیب یہ کہ آپ نے ان پر اعتبار کر لیا ایسے لوگ دراصل بد خواہ ہیں نہ کہ مفید۔ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ مرز اخد ابخش کے منہ سے ایک لفظ بھی خلاف شان آپ کے نہیں نکلا اور مجھے معلوم ہے کہ وہ بے چارہ دل وجان سے آپ کا خیر خواہ ہے اور غائبانہ دعا کرتا ہے اور مجھ سے ہمیشہ آپ کے لئے دعا کی تاکید کرتا رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ چند روزہ زندگی آپ کے ساتھ ہو۔ رہی یہ بات کہ مرزا خدا بخش ایک بیکار ہے۔ یا آج تک اس سے کوئی کام نہیں ہو سکا۔ یہ قضائو قدر کا معاملہ ہے۔ انسان اپنے لئے خود کوشش کرتا ہے اوراگر بہتری مقدر میں نہ ہو تو اپنی کوشش سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ایسے انسانوں کے لئے جوایک بڑا حصہ عمر کاخدمت میں کھو چکے ہیں اور پیرانہ سالی تک پہنچ گئے ہیں۔ میرا تو یہی اصول ہے کہ ان کی مسلسل ہمدردیوں کو فراموش نہ کیا جائے۔ کام کرنے والے مل جاتے ہیں۔ مگر ایک سچا ہمدرد انسان حکم کیمیا رکھتا ہے۔وہ نہیں ملتے۔ ایسے انسانوں کے لئے شاہان گزشتہ بھی دست افسوس ملتے رہے ہیں۔ اگر آپ ایسے انسانوں کی محض کسی وجہ سے بے قدری کریں تو میری رائے میں ایک غلطی کریں گے۔ یہ میری رائے ہے کہ جومیں نے آپ کی خدمت میں پیش کی ہے اور آپ ہر ایک غائبانہ بد ذکر کرنے والوں سے بھی چوکس رہیں کہ حاسدوں کا جو وجود دنیا میں ہمیشہ بکثرت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
مکرر یاد دلاتا ہوں کہ میرے کہنے سے مرزا خد ابخش چند روز کے لئے لاہور میرے ساتھ آئے تھے۔
مکتوب نمبر (۶۲) ملفوف
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزہ امۃ الحمید بیگم زاہ عمرہا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط مجھ کو ملا۔ میں نے اوّل سے آخر تک اس کوپڑھ لیا ہے۔ یاد رہے کہ میں آپ کی نسبت کسی قسم کی بات نہیں سنتا۔ ہاں مجھے یہ خیال ضرور ہوتا ہے کہ جن کو ہم عزیز سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین اور دنیا میں ان کی بھلائی ہو۔ ان کی نسبت ہمیں یہ جوش ہوتا ہے کہ کوئی غلطی ان میں ایسی مذر ہے۔ جو خداتعالیٰ کے سامنے گناہ ہو یا جس میں ایمان کا خطرہ ہو اور جس قدر کسی سے میری محبت ہوتی ہے اسی قدر

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
عرض حال
میں اپنی زندگی کایہ بھی ایک مقصد سمجھتا ہوںکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر قسم کی پرانی تحریروںکو جو کبھی شائع نہیں ہوئی ہیں۔نایاب ہو چکی ہیں اورلوگوںکو خبر بھی نہیں ……کروںاور جمع کرتا رہوں۔ اس سلسلہ میں اب تک بہت کچھ شائع ہو چکاہے اورابھی کچھ باقی ہے۔ میںخد اکا بہت شکر کرتا ہوں کہ مکتوبات احمدیہ کے سلسلہ میں پانچویں جلد( جو حضرت کے ان مکتوبات پر مشتمل ہے۔ جو آپ نے اپنے دوستوں کو لکھے)کا چوتھا نمبر شائع کر رہا رہوں۔ یہ مکاتیب نواب محمد علی خان صاحب قبلہ کے نام اور ممکن ہے کہ آپ کے نام کے اور خطوط بھی ہوں۔ مگر مجھے جو مل سکے ہیں میں نے شائع کردئیے ہیں اور اگر اور مکتوبات میسر آئے تو وہ بھی نمبر کے ضمیمہ کے طور پر شائع کر سکوں گا۔ وباللہ التوفیق۔
مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ افسوس ہے ابھی تک جماعت میں ایسے قدر کی تعداد بہت کم ہے۔ جوبیش قیمت موتیوں کی اصل قدر کریں۔
بہرحال میں اپنا کام جس رفتار سے ممکن ہے کرتا رہوں گا۔ جب تک خدا تعالیٰ توفیق دے۔ تاہم دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے مدد گار ہوں۔
والسلام
خاکسار
عرفانی کنج عافیت قادیان دارلامان
یکم فروری ۱۹۲۳ء

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م کے مکتوبات حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیرکوٹلہ کے نام
مکتوب نمبر( ۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از طرف عاید باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ وایدباخویم محمد علی خان صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کاخط پہنچا۔ اس عاجز نے جو بیعت کے لئے لکھا تھا۔ وہ محض آپ کے پہلے خط کے حقیقی جواب میں واجب سمجھ کر تحریر ہوا تھا۔ کیونکہ آپ کاپہلا خط اس سوال پر متضمن تھا کہ پر معصیت حالت سے کیونکر رستگاری ہو۔ سو جیسا کہ اللہ جلشانہ نے اس عاجز پر الفا کیا تحریر میں آیا اورفی الحقیقت جذبات نفانیہ سے نجات پانا کسی کے لئے بجز اس صورت کے ممکن نہیں کہ عاشق زار کی طرح خاکپائے محبان الٰہی ہو جائے اور بصدق ارادت ایسے شخص کے ہاتھ میں دے جس کی روح کو روشنی بخشی جاوے تا اسی کے چشمہ صافیہ سے اس فردماندہ کو زندگی کا پانی پہنچے اور اس تر وتازہ اور درخت کی ایک شاخ ہوکر اس کے موافق پھل لاوے۔ غرض آپ نے پہلے خط میں نہایت انکسار اور تواضع سے اپنے روحانی علاج کی درخواست کی تھی۔ سو آپ کو وہ علاج بتلایا گیا۔ جس کو سعید آدمی بصد شکریہ قبول کرے گا۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ ابھی آپ کاوقت نہیں آیا۔ معلوم نہیں ابھی کیا کیا دیکھنا ہے اورکیا کیا ابتلا درپیش ہے اوریہ جو آپ نے لکھا ہے کہ میں شیعہ ہوں اس لئے بیعت نہیں کرسکتا ۔ سو آپ کو اگر صحبت فقراء کاملین میسر ہو تو آپ خود ہی سمجھ لیں کہ شیعوں کا یہ عقیدہ کہ ولایت اور امامت بارہ شخص پر محدود ہو کر آیندہ قرب الٰہی کے دروازو ںپر مہر لگ جائے تو پرپھر اس سے تمام تعلیم عبث ٹھہرتی ہے اور اسلام ایک ایسا گھر ویران اور سنسان ماننا پڑتا ہے۔ جس میں کسی نوع کی برکت کانام نشان نہیں اور اگر یہ سچ ہے کہ خد اتعالیٰ تمام برکتوں اور امامتوں اور ولایتوں پر مہر لگا چکا ہے اور آیندہ کے لئے وہ راہیں بند ہیں۔ توخدا تعالیٰ کے سچے طالبوں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی دل توڑنے والا واقعہ نہ ہو گا۔ گویا وہ جلتے ہی مر گئے اور ان کے ہاتھ میں بجز چند خشک قصوں کے اور کوئی مفروار نہیں اور اگر شیعہ لوگ اس عقیدہ کو سچ مانتے ہیں تو پھر پنج وقت نماز میںیہ دعا پڑھتے ہیں
اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم
کیونکہ اس دعا کے تو یہ معنی ہیںکہ اے خدائے قادر ہم کو وہ راہ اپنے قرب کا عنایت کر جو تونے نبیوں اور اماموں اور صدیقوں اور شہیدوں کو عنایت کیا تھا۔ پس یہ آیت صاف بتلائی ہے کہ کمالات امامت کا راہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا۔ اس عاجز نے اسی راہ کے اظہار ثبوت کے لئے بیس ہزار اشتہار مختلف دیار امصار میں بھیجا ہے۔
اگر یہی کھلا نہیں تو پھر اسلام میں فضیلت کیا ہے
یہ تو سچ ہے کہ بارہ امام کامل اور بزرگ اور سید القوم تھے۔ مگر یہ ہرگز سچ نہیں کہ کمالات میں ان کے برابر ہونا ممکن نہیں۔
خداتعالیٰ کے دونوں ہاتھ رحمت اور قدرت کے ہمیشہ کے لئے کھلے ہیں اور کھلے رہیں گے اور جس دن اسلام میں یہ برکتیں نہیں ہوں گی۔ اس دن قیامت آجائے گی۔ خداتعالیٰ ہر ایک کو راہ راست کی ہدائت کرے۔
پرانا عقیدہ ایسا مو ثر ہوتا ہے کہ بجائے دلیل ماناجاتا ہے اور اس سے کوئی انسان بغیر فضل خداتعالیٰ نجات نہیں پاسکتا۔ ایک آدمی آپ لوگوں میں سے کسی کو خیال آتا ہے۔ کہ اس کی آزمائش کروں۔
٭ کتاب براہین احمدیہ کا اب تک حصہ پنجم طبع نہیں ہوا ہے۔ امید کہ خداتعالیٰ کے فضل سے جلد سامان طبع کا پیدا ہوجائے۔ صرف کتاب کے چند نسخے باقی ہیں اور بطور پیشگی دئے جاتے ہیں اور بعد تکمیل طبع باقی انہی کو ملیں گے۔ جو اول خریدار ہوچکے ہیں ۔ قیمت کتاب سوروپیہ سے پچیس روپیہ حسب مقدرت ہے۔ یعنی جس کو سو روپیہ کی توفیق ہے وہ سوروپیہ ادا کرے اور جس کو کم توفیق ہے وہ کم مگر بہرحال پچیس روپیہ سے کم نہ ہواور نادار کو مفت للہ ملتی ہے۔ آپ جس صیغہ میں چاہیں لے سکتے ہیں اور چاہیں تو مفت بھیجی جاوے۔
والسلام
احقر عباد اللہ غلام احمد
ازلودہانہ محلہ اقبال گنج
شہزادہ حیدر
۷؍اگست ۱۸۹ء
مکتوب نمبر (۲) ملفوف
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہٰ الکریم۔
بخدمت اخویم عزیزی خان صاحب محمد علی خاں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ متضمن بہ دخول درسلسلہ بیعت این عاجز موصول ہوا۔ دعا ثبات و استقامت درحق آں عزیز کی گئی۔
ثبلتکم علی للتقویٰ والا یمان وافتح لکم ابواب الخلوص و المجتہ والفرقان امین ثم امین۔
اشتہار شرائط بیعت بھیجا جاتا ہے۔ جہاں تک وسعت و طاقت ہو اس پر پابند ہوں اور کمزوری دور کرنے کے لئے خداتعالیٰ سے مدد چاہتے رہیں۔ اپنے رب کریم سے مناجات خلوت کی مداومت رکھیں اور ہمیشہ طلب قوت کرتے رہیں۔
جس دن کا آنا نہایت ضروری اور جس گھڑی کا وارد ہوجانا نہایت یقینی ہے۔ اس کو فراموش مت کرو اور ہروقت ایسے رہو کہ گویا تیار ہو کیونکہ نہیں معلوم کہ وہ دن اور گھڑی کس وقت آجائے گی۔ سو اپنے وقتوں کے محافظت کرو اور اس اس سے ڈرتے رہو۔ جس کے تصرف میں سب کچھ ہے۔ جو شخص قبل از بلا ڈرتا ہے۔ اس کے امن دیا جائے گا۔ کیونکہ جو شخص بلا سے پہلے دنیا کی خوشیوں میں مست ہورہا ہے۔ وہ ہمیشہ کے لئے دکھوںمیں ڈالا جائے گا۔ جو شخص اس قادر سے ڈرتا ہے۔ وہ اس کے حکموں کی عزت کرتاہے۔ پس اس کو عزت دی جائے گی۔ جو شخص نہیں ڈرتا اس کو ذلیل کیا جائے گا۔ دنیا بہت ہی تھوڑا وقت ہے۔
بے وقوف وہ شخص ہے جو اس سے دل لگا وے اور نادان ہے وہ آدمی جو اس کے لئے اپنے رب کریم کو ناراض کرے۔ سو ہو شیار ہو جائو تا غیب سے قوت پائو۔ دعا بہت کرتے رہو اورعاجزی کو اپنی خصلت بنائو۔ جو صرف رسم اور عادت کے طور پر زباں سے دعا کی جاتی ہے۔ کچھ بھی چیز نہیں۔ جب دعا کرو تو بجز صلوٰۃ فرض کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جائو اوراپنی زبان میں نہایت عاجزی کے ساتھ جیسے ایک اونیٰ سے ادنیٰ بندہ ہوتا ہے۔خدا ئے تعالیٰ کے حضور میں دعا کرو۔
اے رب العالمین ! تیرے احسان کا میں شکر نہیں کر سکتا۔
تونہایت رحیم وکریم ہے اور تیرے بے نہایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جائوں ۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پودہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا۔ جن سے تو راضی ہو جائے۔ میں تیرے وجہ سے کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دین وآخرت کی بلائوں سے مجھے بچاکہ ہر ایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔آمین ثم آمین۔
آپ کی اس بیعت کی کسی کو خبر نہیں دی گئی اور بغیر آ پ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن مناسب ہے کہ اس اخفا کو صرف اسی وقت تک رکھیں کہ جب تک کوئی اشد مصلحت درپیش ہو۔ کیونکہ اخفا میں ایک قسم کا ضعف ہے اور نیز اظہار سے گویا قولاً نصیحت للخلق ہے۔
آپ کے اظہار سے ایک گروہ کو فائدہ پہنچتا ہے ا ور غبت الی الخیر پیدا ہو تی ہے۔ خداتعالیٰ ہر ایک کام میں مدد گار ہو کہ بغیر اس کی مدد کے انسانی طاقتیں ہیچ ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
نوٹ:۔اس خط کی تاریخ تو معلوم نہیں۔ لیکن واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے نواب صاحب کو بیعت کی تحریک فرمائی تھی۔ مگر ا س وقت وہ اس کے لئے تیار نہ تھے اور اپنی جگہ بعض شکوک ایسے رکھے تھے جو مزید اطمینان کے لئے رفع کرنے ضروری تھے۔ جب وہ شکوک رفع ہوئے تو انہوں نے تامل نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں نواب صاحب کے ایک خط کا اقتباس دیا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ
ابتدا میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا۔ لیکن صرف اس قدر کہ آپ اور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے موید نہیں ہیں۔ بلکہ مخالفین اسلام کے مقابل پر کھڑے ہیں۔ مگر الہامات کے بارے میں مجھ کو نہ اقرار تھا نہ انکار۔ پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور ان پر غالب نہ ہو سکا تو میں سوچا کہ آپ نے بڑے بڑے دعوے کئے ہیں۔ یہ سب جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط وکتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی اور جب قریباً اگست میں آپ سے لودہانہ ملنے گیا تواس وقت میری تسکین خوب ہو گئی اور آپ کو باخدابزرگ پایا اور بقیہ شکوک کو پھر بعد کی خط وکتابت میں میرے دل سے بکلی دھویا گیا اور جب مجھے یہ اطمینان دی گئی کہ ایک ایسا شیعہ جو خلفائے ثلثہ کی کسر شان نہ کرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو سکتا ہے۔ تب میں نے آپ سے بیعت کر لی۔ اب میں اپنے آپ کو نسبتاً بہت اچھا پاتا ہوں اور آپ گواہ رہیں کہ میں نے تمام گناہوں سے آیندہ کے لئے توبہ کی ہے۔ مجھ کو آپ کے اخلاق اور طرز معاشرت سے کافی اطمینان ہے کہ آپ سچے مجدو اوردنیا کے لئے رحمت ہیں۔
جیساکہ پہلے خط سے ظاہر حضرت اقدس اگست ۱۸۹۰ء میں لودھانہ ہی تھے۔ اس لئے کہ وہ خط لودہانہ سے ہی حضرت نے لکھا ہے۔ پس ۱۸۹۰ء کی آخری سہ۶ماہی میں غالباً نواب صاحب کے شکوک وغیرہ صاف ہو گئے اور آپ نے سلسلہ بیعت میں شمولیت اختیار کی۔ اگر میں صحیح تاریخ بیعت بھی معلوم کر سکا تو وہ کسی دوسری جگہ درج کردی جائے گی۔وباللہ التوفیق۔عرفانی۔
مکتوب نمبر(۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
مشفقی عزیزی محبی نواب صاحب سردار محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ آج کی ڈاک میں مجھ کو ملا۔ الحمد للہ والمنۃ کہ خداتعالیٰ نے آپ کو صحت بخشی اللہ جلشانہ آپ کو خوش رکھے اور عمر اور راحت اورمقاصد دلی میںبرکت اور کامیابی بخشے۔ اگرچہ حسب تحریر مرزا خدابخش صاحب آپ کے مقاصد میں سخت پیچدگی ہے۔ مگر ایک دعا کے وقت کشفی طور پر مجھے معلوم ہو اکہ آپ میرے پاس موجود ہیں اورایک دفعہ گردن اونچی ہو گئی ا ورجیسے اقبال اورعزت کے بڑھنے سے انسان اپنی گردن کو خوشی کے ساتھ ابھارتا ہے۔ ویسی ہی صورت پیدا ہوئی۔ میں حیران ہوں کہ یہ بشارت کس وقت اور کس قسم کے عروج سے متعلق ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس صورت کے ظہور کا زمانہ کیا ہے۔ مگر میں کہہ سکتا ہوں کہ کسی وقت میں کسی کا اقبال اور کامیابی اور ترقی عزت اللہ جلشانہ کی طرف سے آپ کے لئے مقررہے۔ اگر اس زمانہ نزدیک ہو یا دور ہو سو میں آپ کے پیش آمدہ ملال سے گو پہلے غمگین تھا۔ مگر آج خوش ہوں۔ کیونکہ آپ کے مال کار کی بہتری کشفی طور پر معلوم ہوگئی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
میں پہلے خط میں لکھ چکا ہوں کہ ایک آسمانی فیصلہ کے لئے میں مامور ہوں اور اس کے ظاہری انتظام کے دست کرنے کے لئے میں نے ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۱ء کو ایک جلسہ تجویز کیا ہے۔ متفرق مقامات سے اکثر مخلص جمع ہوں گے۔ مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ آں محب بوجہ ضعف و نقاہت ایسے متبرک جلسہ میں شریک نہیں ہو سکتے۔ اس حالت میں مناسب ہے کہ آں محب اگر حرج کار نہ ہو تو مرزا خدا بخش صاحب کو روانہ کر دیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۲؍ دسمبر ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر(۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
میرے پیارے دوست نواب محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت عین انتظار میں مجھ کو ملا۔ جس کو میں نے تعظیم سے دیکھا اور ہمدردی اور اخلاص کے جوش سے حرف حرف پڑھا۔ میری نظر میں طلب ثبوت اور استکشاف حق کا طریقہ کوئی ناجائز اور ناگوار طریقہ نہیں ہے۔ بلکہ سعیدوں کی یہی نشانی ہے کہ وہ ورطہ مذبذبات سے نجات پانے کے لئے حل مشکلات چاہتے ہیں۔ لہذا یہ عاجز آپ کے اس طلب ثبوت سے ناخوش نہیں ہوا۔ بلکہ نہایت خوش ہے کہ آپ میں سعادت کی وہ علامتیں دیکھتا ہوں جس سے آپ کی نسبت عرفانی ترقیات کی امید بڑھتی ہے۔
اب آپ پر یہ واضح کرتا ہوں کہ میں نے مباہلہ سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا۔ا گر امر متنازعہ فیہ میں قرآن اورحدیث کی رو سے مباہلہ جائز ہو تو میں سب سے پہلے مباہلہ کے لئے کھڑا ہوں ۔ لیکن ایسی صورت میں ہرگز مباہلہ جائز نہیںجب کہ فریقین کا یہ خیال ہو کہ فلاں مسئلہ میں کسی فریق کی اجتہاد یا فہم یا سمجھ کی غلطی ہے۔ کسی کی طرف سے عمداً افتدا یہ دروغ باقی نہیں کیونکہ مجرو ایسے اختلافات ہیں۔جو قطع نظر مصیبت یا محظی ہونے کے صحت نیت اور اخلاص اور صدق پر مبنی ہیں۔مباہلہ جائز ہوتا اور خداتعالیٰ ہر ایک جزئی اختلاف کی وجہ سے محظی پر عندالمباہلہ عذاب نازل کرتا تو آج تک تمام انسان کا روئے زمین سے خاتمہ ہو جاتا۔ کیونکہ کچھ شک نہیں کہ مباہلہ سے یہ غرض ہوتی ہے کہ جو فریق حق پر نہیں اس پر بلا نازل ہو اور یہ بات ظاہر ہے کہ اجتہادی امور میں مثلاً کسی جزئی میں حنفی حق پر نہیں اور کسی میں شافعی حق پر اور کسی میں اہل حدیث اب جب کہ فرض کیا جائے کہ سب فرقے اسلام کی جزئی اختلاف کی وجہ سے باہم مباہلہ کریں اورخداتعالیٰ اس جو حق پر نہیں عذاب نازل کرے تو اس کانتیجہ یہ ہو گا کہ اپنی اپنی خطا کی وجہ سے تمام فرقے اسلام کے روئے زمین سے نابود کئے جائیں۔ اب ظاہر ہے کہ جس امر کے تجویز کرنے سے اسلام کا استیصال تجویز کرتا پڑتا ہے۔ وہ خداتعالیٰ کے نزدیک جو حامی اسلام اورمسلمین ہے۔ کیوں کر جائز ہو گا۔ پھر کہتا ہوں کہ اگر اس کے نزدیک جزئی اختلاف کی وجہ سے مباہلہ جائز ہوتا تو وہ ہمیں یہ تعلیم نہ دیتا ربنا اغفرلنا والا خواننا یعنی اے خداہماری خطا معاف کراور ہمارے بھائیوں کی خطا بھی عفوفرما۔ بلکہ لا یُصب اور محظی کا تصفیہ مباہلہ پر چھوڑتا اور ہمیں ہر ایک جزئی اختلاف کی وجہ سے مباہلہ کی رغبت دیتا لیکن ایسا ہر گز نہیں اگر اس امت کے باہمی اختلافات کاعذاب سے فیصلہ ہوناضروری ہے تو پھر تمام مسلمانوں کے ہلاک کرنے کے لئے دشمنوں کی نظر میں اس سے بہتر کوئی حکمت نہیں ہو گی کہ ان تمام جزئیات مختلف میں مباہلہ کرایا جائے۔ تاایک ہی مرتبہ سب مسلمانوں پر قیامت آجائے۔ کیونکہ کوئی فرقہ کسی خطا کی وجہ سے ہلاک ہو جائے گااور کوئی کسی خطا کے سبب سے مورد عذاب و ہلاکت ہوگا۔ وجہ یہ کہ جزئی خطا سے تو کوئی فرقہ بھی خالی نہیں۔
اب میں یہ بیان کرتا چاہتا ہوں کہ کس صورت میں مباہلہ جائز ہے۔ سو واضح ہو کہ وہ صورت میں مباہلہ جائز ہے۔
(۱)اوّل اس کافر کے ساتھ جو یہ دعویٰ رکھتا ہے کہ مجھے یقینا معلوم ہے کہ اسلام حق پر نہیں اور جو کچھ غیراللہ کی نسبت خدائی کی صفتیں میں مانتاہوں وہ یقینی امر ہے۔
(۲)دوم اس ظالم کے ساتھ جو ایک بے جا تہمت کسی پر لگا کر اس کو ذلیل کرنا چاہتا ہے۔ مثلاً ایک مستورہ کو کہتا ہے۔ کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ عورت زانیہ ہے۔ کیونکہ میں نے بچشم خود اس کا زنا کرتے دیکھا ہے۔ یا مثلاً ایک شخص کو کہتا ہے کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ شراب خور ہے اور بچشم خود اس کو شراب پیتے دیکھا ہے۔ سوا س حالت میں بھی مباہلہ جائز ہے کیونکہ اس جگہ کوئی اجتہادی اختلاف نہیں بلکہ ایک شخص اپنے یقین اور رؤیت پر بنا رکھ کر ایک مومن بھائی کو ذلت پہنچانا چاہتا ہے۔ جیسے مولوی اسمٰعیل صاحب نے کیاتھا اور کہا تھا کہ یہ میرے ایک دوست کی چشم دید بات ہے۔ کہ مرزا غلام احمد یعنی یہ عاجز پوشیدہ طورپر آلات نجوم اپنے پاس رکھتا ہے اورا نہیں کے ذریعہ سے کچھ کچھ آئندہ کی خبریں معلوم کرکے لوگوں کو کہہ دیتا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے۔ مولوی اسمٰعیل صاحب نے کسی اجتہادی مسئلہ میں اختلاف نہیں کیا تھا بلکہ اس عاجز کی دیانت اور صدق پر ایک تہمت لگائی تھی جس کی اپنے ایک دوست کی رؤیت پر بنا رکھی تھی۔ لیکن بنا صرف اگر اجتہاد پر ہو اور اجتہادی طو پر کوئی شخص کسی مومن کو کافر کہے یا ملحد نام رکھے ۔ تو یہ کوئی تعجب نہیں ۔ بلکہ جہاں تک اس کی سمجھ اور اس کا علم تھا۔ اس کے موافق اس نے فتویٰ دیا ہے۔ غرض مباہلہ صرف ایسے لوگوں سے ہوتا ہے۔جو اپنے قول کی قطعی اور یقین پر بنا رکھ کر دوسرے کو مفتری اور زانی وغیرہ قرار دیتے ہیں۔
پس انا نحن فیہ میں مباہلہ اس وقت جائز ہوگا۔ کہ جب فریق مخالف یہ اشتہار دیں کہ ہم اس مدعی کو اپنی نظر میں اس قسم کا مخطی نہیں سمجھتے کہ جیسے اسلام کے فرقوں میں مصیب بھی ہوتے ہیں اور مخطی بھی اور بعض فرقے بعض سے اختلاف رکھتے ہیں بلکہ ہم یقین کلی سے اس شخص کو مفتری جانتے ہیں اور ہم اس بات کے محتاج نہیں کہ یہ کہیں کہ امر متنازعہ فیہ کہ اصل حقیقت خدا تعالیٰ جانتا ہے۔ بلکہ یقینا اس پیشگوئی کی سب اصل حقیقت ہمیں معلوم ہوچکی ہے۔ اگر یہ لوگ اس قدر اقرار کردیں۔ توپھرکچھ ضرورت نہیں کہ علماء کا مشورہ اس میں لیا جائے وہ مشورہی نقصان علم کی وجہ سے طلب نہیںکیا گیا۔ صرف اتمام حجت کی غرض سے طلب کیا گیاہے۔ سو اگر یہ مدعیان ایسا اقرار کریں کہ جو اوپر بیان ہو چکا ہے تو پھر کچھ حاجت نہیں کہ علماء سے فتویٰ پوچھا جائے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جوشخص آپ ہی یقین نہیں کرتا۔ وہ مباہلہ کس بناء پر کرناچاہتا ہے؟ مباہل کا منصب یہ ہے کہ اپنے دعوے میں یقین ظاہر کرے صرف ظن اور شبہ پر بنا نہ ہو۔ مباہل کو یہ کہنا ماننا پڑتا ہے کہ جو کچھ اس امر کے بارے میں خداتعالیٰ کو معلوم ہے وہی مجھ کو یقینی طور پر معلوم ہوگیا ہے۔تب مباہلہ کی بنیاد پیدا ہوتی ہے۔پھر یہ بات بھی ہے کہ مباہلہ سے پہلے شخص مبلغ کا وعظ بھی سن لینا ضروری امر ہے۔ یعنی جو شخص خداتعالیٰ سے مامور ہو کرآیا ہے۔ اسے لازم ہے کہ اوّل دلایل بینہ سے اشخاص منکرین کو اپنے دعوے کی صداقت سمجھا دے اور اپنے صدق کی علامتیں ان پر ظاہر کرے۔ پھر اگر اس کے بیانات کو سن کرا شخاص منکرین باز نہ آویں اور کہیں کہ ہم یقینا جانتے ہیںکہ مفتری ہے تو آخر الحیل مباہلہ ہے۔ یہ نہیں کہ ابھی نہ کچھ سمجھا نہ بوجھا نہ کچھ سنا پہلے مباہلہ ہی لے بیٹھے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مباہلہ کی درخواست کی تواس وقت کی تھی کہ جب کئی برس قرآن شریف نازل ہو کرکامل طور پر تبلیغ ہوچکی تھی۔ مگر یہ عاجز کئی برس نہیں چاہتا۔ صرف یہ چاہتا ہے کہ ایک مجلس علماء کی جمع ہو اور ان میں وہ لوگ بھی جمع ہوں جو مباہلہ کی درخواست کرتے ہیں۔ پہلے یہ عاجز انبیاء کے طریق پر شرط نصیحت بجا لائے اور صاف صاف بیان سے اپنا حق ہونا ظاہر کرے جب اس وعظ سے فراغت ہو جائے تو درخواست کنندہ مباہلہ اٹھ کر یہ کہے کہ وعظ میں نے سن لیا۔ مگر میں اب بھی یقینا جانتا ہوں کہ یہ شخص کاذب اور مفتری ہے اور اس یقین میں شک و شبہ کو راہ نہیں بلکہ روئیت کی طرح قطعی ہے۔ ایسا ہی مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ جو کچھ میںنے سمجھا ہے وہ ایسا شک و شبہ سے منزہ ہے کہ جیسے روئیت تب اس کے بعد مباہلہ شروع ہو۔ مباہلہ سے پہلے کسی قدر مناظرہ ضروری ہوتا ہے۔ تا حجت پوری ہو جائے۔ کبھی سنا نہیں گیاکہ کسی نبی نے ابھی تبلیغ نہیں کی اور مباہلہ پہلے ہی شروع ہو گیا۔ غرض اس عاجز کومباہلہ سے ہرگز انکار نہیں۔ مگر اسی طریق سے جو اللہ تعالیٰ نے اس کا پسند کیا ہے۔ مباہلہ کی بناء یقین ہوتی ہے نہ اجتہادی خطا و صواب پر جب مباہلہ سے غرض تائید دین ہے۔ تو کیونکر پہلا قدم ہی دین کے مخالف رکھا جائے۔
یہ عاجز انشاء اللہ ایک ہفتہ تک ازالۃ الااوہام کے اوراق مطبوعہ آپ کے لئے طلب کرے گا۔ مگر شرط ہے کہ ابھی تک آپ کسی پر ان کو ظاہر نہ کریں۔ اس کامضمون اب تک امانت رہے۔ اگرچہ بعض مقاصد عالیہ ابھی تک طبع نہیں ہوئے اور یک جائی طور پر دیکھنا بہتر ہوتا ہے۔ تا خدانخواستہ قبل ازوقت طبیعت سیر نہ ہو جائے۔ مگر آپ کے اصرار سے آپ کے لئے طلب کروں گا۔ چونکہ میرا نوکر جس کے اہتمام اور حفاظت میں یہ کاغذات ہیں۔ اس جگہ سے تین چار روز تک امرتسر جائے گا۔ اس لئے ہفتہ یا عشرہ تک یہ کاغذات آپ کی خدمت میں پہنچیں گے۔ آپ کے لئے ملاقات کرنا ضروری ہے۔ ورنہ تحریر کے ذریعہ سے وقتاً فوقتاً استکشاف کرنا چاہئے۔
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ نہیں ہے۔ لیکن ازالہ اوہام کی طبع کا چونکہ ذکر ہے۔ اس سے پایا جاتا ہے کہ ۱۸۹۱ء کا یہ مکتوب ہے۔ نواب صاحب قبلہ نے آپ کو مباہلہ کی درخواست منظور کرنے کے متعلق تحریک کی تھی۔ جو عبدالحق غزنوی وغیرہ کی طرف سے ہوئی تھی۔اس کے جواب میں آپ نے یہ مکتوب لکھا۔ ا س مکتوب سے آپ کی سیرۃ پر بھی ایک خاص روشنی پڑتی ہے اور آپ کے دعا وہی پر بھی جب مباہلہ کے لئے آپ کھڑے ہونے کی آمادگی ظاہر کرتے ہیں۔ تو صاف فرماتے ہیں کہ پہلے یہ عاجز انبیاء کے طریق پر شرط نصیحت بجا لائے اپنے سلسلہ کو ہمیشہ منہاج نبوت پر پیش کیا ہے۔ دوسرے آپ استکشاف حق کے لئے کسی سوال اور جرح کو برا نہیں مانتے۔ بلکہ سایل کو شوق دلاتے ہیں کہ وہ دریافت کرے۔ اس لئے کہ اسے آپ سعیدوں کی نشانی قرار دیتے ہیں۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سردار محمد علی خان سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ …… ۲۸۱ روپیہ آں محب کل کی ڈاک میں مجھ کو مل گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ جس وقت آپ کا روپیہ پہنچا ہے مجھ کو اتفاقاً نہایت ضرورت درپیش تھی۔ موقعہ پر آنے کی وجہ سے میں جانتا ہوں کہ خداووند کریم و قادر اس خدمت للہی کا آپ کو بہت اجردے گا۔ واللہ یحب المحسین۔آج مجھ کو صبح کی نماز کے وقت بہت تضرع اور ابتہال سے آپ کے لئے دعا کرنے کا موقعہ ملا۔ یقین کہ خداتعالیٰ اس کو قبول کرے گا اور جس طرح چاہے گا اس کی برکات ظاہر کرے گا۔ میں آپ کوخبر دے چکا ہوں کہ میں نے پہلے بھی بشارت کے طور پر ایک امر دیکھا ہوا ہے۔ گو میں ابھی اس کو کسی خاص مطلب یا کسی خاص وقت سے منسوب نہیں کرسکتا۔ تاہم بفضلہ تعالیٰ جانتا ہوں کہ وہ آپ کے لئے کسی بہتری کی بشارت ہے اور کوئی اعلیٰ درجہ کی بہتری ہے۔ جو اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
خداوند ذوالجلال کی جناب میں کوئی کمی نہیں۔ اُس کی ذات میں بڑی بڑی عجائب قدرتیں ہیں اور وہی لوگ ان قدرتوں کو دیکھتے ہیں۔ کہ جووفاداری کے ساتھ اس کے تابع ہو جاتے ہیں۔ جو شخص عہد وفا کو نہیںتورٹا اور صدق قدم سے نہیں ہارتا اورحسن ظن کو نہیں چھوڑتا۔ اس کی مراد پوری کرنے کے لئے اگر خداتعالیٰ بڑے بڑے محالات کوممکنات کر دیوے تو کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ ایسے بندوں کا اس کی نظر میںبڑی ہی قدر ہے۔ کہ جو کسی طرح اس کے دروازہ کو چھوڑتا نہیں چاہتے اور شتاب بازو اور بے وفانہیں ہیں۔
یہ عاجز انشاء اللہ العزیز ۲۰؍ جنوری ۱۸۹۲ء کو لاہور جائے گا اورارادہ ہے کہ تین ہفتہ تک لاہور رہے۔ اگر کوئی تقریب لاہور میں آپ کے آنے کی اس وقت پید اہو تو یقین کہ لاہور میں ملاقات ہو جائے گی۔
والسلام
راقم خاکسار
غلام احمد از قادیان
۹؍ جنوری ۱۸۹۲ء
مشفقی اخویم مرزا خدابخش صاحب کو السلام علیکم
مکتوب نمبر(۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک ہفتہ سے بلکہ عشرہ سے زیادہ گزر گیا کہ آں محب کا محبت نامہ پہنچا تھا۔ چونکہ اس میں امور مستفسرہ بہت تھے اور مجھے بباعث تالیف کتاب آئینہ کمالات اسلام بغایت درجہ کی کمی فرصت تھی۔ کیونکہ ہر روز مضمون تیار کر کے دیاجاتا ہے۔ اس لئے جواب لکھنے سے معذور رہا اور ّآپ کی طرف سے تقاضا بھی نہیں تھا۔ آج مجھے خیال آیا کہ چونکہ آپ خالص محب ہیں اور آپ کا استفسار سراسر نیک ارادہ اور نیک نیتی پر مبنی ہے۔ اس لئے بعض امور سے آپ کو آگا ہ کرنا اور آپ کے لئے جو بہتر ہے۔ اُس سے اطلاع دینا ایک امر ضروری ہے۔ لہذا چند سطور آپ کی آگاہی کے لئے ذیل میں لکھتا ہوں۔
یہ سچ ہے کہ جب سے اس عاجز نے مسیح موعودہونے کادعویٰ بامر اللہ کیا ہے۔ تب سے وہ لوگ جو اپنے اندر قوت فیصلہ نہیں رکھتے عجب تذب ذب اور کشمش میں مبتلا پڑ گئے ہیں اور آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ کوئی نشان بھی دکھلانا چاہئے۔
(۱) مباہلہ کی نسبت آپ کے خط سے چند روز پہلے مجھے خود بخود اللہ جلشانہ نے اجازت دی ہے اور یہ خداتعالیٰ کے ارادہ سے آپ کے ارادہ کا توارد ہے کہ آپ کی طبیعت میں یہ جنبش پید ا ہوئی۔ مجھے معلوم ہوتا کہ اب اجازت دینے میں حکمت یہ ہے کہ اوّل حال میں صرف اس لئے مباہلہ ناجائز تھا کہ ابھی مخالفین کو بخوبی سمجھایا نہیں گیا تھا اور وہ اصل حقیقت سے سراسر ناواقف تھے اور تکفیر پر بھی ان کاجوش نہ تھا۔ جو بعد ا س کے ہوا۔ لیکن اب تالیف آئینہ کمالات اسلام کے بعد تفہیم اپنے کمال کو پہنچ گئی اور اب اس کتاب کے دیکھنے سے ایک ادنیٰ استعداد کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ مخالف لوگ اپنی رائے میں سراسر خطا پر ہیں۔اس لئے مجھے حکم ہو اہے کہ مباہلہ کی درخواست کو کتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ شائع کردوں۔ سو وہ درخواست انشاء اللہ القدیر پہلے حصے کے ساتھ ہی شائع ہوگی۔ اوّل دنوں میں میرا یہ بھی خیال تھا کہ مسلمانوں سے کیونکر مباہلہ کیا جائے۔ کیونکہ مباہلہ کہتے ہیں کہ ایک دوسرے پر * بھیجنا اور مسلمانوں پر * بھیجنا جائز نہیں۔مگر اب چونکہ وہ لوگ بڑے اسرار سے مجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اورحکم شرع یہ ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو کافر ٹھہراوے اگر وہ شخص درحقیقت کافر نہ ہو توکفر الٹ کر اسی پر پڑتا ہے۔ جو کافر ٹھہراتا ہے۔ اسی بناء پر مجھے یہ حکم ہو ا ہے کہ جو لوگ تجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اور انباء اور نساء رکھتے ہیں اور فتویٰ کفر کے پیشوا ہیں ان سے مباہلہ کی درخواست کرو۔
(۲) نشان کے بارے جو آپ نے لکھا ہے کہ یہ بھی درخواست ہے درحقیقت انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اوّل وہ جو زیرک اور زکی ہیں او راپنے اندر قوت فیصلہ رکھتے ہیں اور متخاصمین کی قیل وقال میں سے جو تقریر حق کی عظمت اور برکت پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس تقریر کو پہچان لیتی ہے اور باطل جو تکلیف اور بناوٹ کی بدبو رکھتا ہے۔ وہ بھی ان کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہتا۔ ایسے لوگ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شناخت کے لئے اس بات کے محتاج نہیں ہو سکتے کہ ان کے سامنے سوٹی کا سانپ بنایا جائے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شناخت کے لئے حاجت مند ہو سکتے ہیں کہ ان کے ہاتھ سے مفلوجوں اور مجذوبوں کو اچھے ہوتے دیکھ لیں اورنہ ہمارے سیدو مولیٰ حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایسے اعلیٰ درجہ کے لوگوں نے کبھی معجزہ طلب نہیں کیا کوئی ثابت نہیںکرسکتا کہ صحابہ کبار رضی اللہ عنہم کوئی معجزہ دیکھ کر ایمان لائے تھے بلکہ وہ زکی تھے اور نور قلب رکھتے تھے انہوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ دیکھ کر ہی پہچان لیاتھا کہ یہ جھوٹوں کامنہ نہیں ہے اس لئے خداتعالیٰ کے نزدیک صدیق اور راستباز ٹھہرے انہوں نے حق کو دیکھا اور ان کے دل بول اٹھے کہ یہ منجانب اللہ ہے۔
دوسرے قسم کے وہ انسان ہیں جو معجزہ او ر کرامت طلب کرتے ہیں اور ان کے حالات خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں تعریف کے ساتھ نہیں بیان کئے اور اپنا غضب ظاہر کیا ہے جیسا کہ ایک جگہ فرماتاہے واقسمو ا باللہ جھد ایمانھم لئن جاء تھم ایۃ لیومنن بھاقل انما الا یات عنداللہ ومایشعر کم انھا اذا جائت لایومنون یعنی یہ لوگ سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر کوئی نشان دیکھیں تو ضرور ایمان لے آئیں گے ان کو کہہ دے کہ نشان تو خداتعالیٰ کے پاس ہیں اور تمہیں خبر نہیں کہ جب نشان بھی دیکھیںگے تو کبھی ایمان نہ لائیںگے۔ پھر فرماتا ہے یوم یاتی بعض ایات ربک لا ینفع نفسا ایمانھا لم تکن امنت من قبل یعنی جب بعض نشان ظاہر ہوں گے تو اس دن ایمان لانا بے سود ہو گا اور جو شخص صرف نشان کے دیکھنے کے بعد ایمان لاتا ہے اس کو وہ ایمان نفع نہیں دے گا پھر فرماتا ہے ویقولون متی ھذا لوعذان کنتم صادقین قل لا املک لنفسی ضراً ولا نفعاً الا ماشاء اللہ کل امۃ اجل الخ۔ یعنی کافر کہتے ہیں کہ وہ نشان کب ظاہر ہوں گے اوریہ وعدہ کب پورا ہو گا۔ سو ان کہہ دے کہ مجھے ان باتوں میں دخل نہیں۔نہ میں اپنے نفس کے لئے ضرر کا مالک ہوں نہ نفع کا۔ مگر جو خدا چاہے۔ ہر ایک گروہ کے لئے ایک وقت مقرر ہے جوٹل نہیں سکتا اور پھر اپنے رسول کو فرماتا ہے وان کان کبرعلیک اعراضھم فان اسطعت ان تبتغی نفقافی الارض ااوسلما فی السما فتاتیھم بایۃ ولوشاء اللہ لجعھم علیٰ الھدی فلا تکونن من الجاھلین۔یعنی اگر تیرے پر اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں کا اعراض بہت بھاری ہے ۔ سو اگر تجھے طاقت ہے تو زمین میں سرنگ کھود کر یا آسمان پر زینہ لگا کر چلاجا اور ان کے لئے کوئی نشان لے آ اور اگر خدا چاہتا تو ان سب کو جونشان مانگتے ہیں ہدائت دیتا تو جاہلوں میں سے مت ہو۔ اب ان تمام آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کافر نشان مانگا کرتے تھے۔ بلکہ قسمیں کھاتے تھے کہ ہم ایمان لائیں گے۔ مگر جلشانہ‘ صاف صاف فرماتا ہے کہ جو شخص نشان دیکھنے کے بعد ایمان لاوے اس کا ایمان مقبول نہیں۔ جیسا کہ ابھی آیت لا یِنفع نفسا ایمانھا تحریر ہوچکی ہے اور اسی کے قریب قریب ایک دوسری آیت ہے اور وہ یہ ہے۔ ولقد جا ء تھم رسلھم با لبینات فما کانو الیومنوا بما کذبو امن کذالک یطبع اللہ قلوب الکا فرین یعنی پہلی امتوں میں جب ان کے نبیوں نے نشان دکھلائے تو ان نشانوں کو دیکھ بھی لوگ ایمان لائے ۔ کیونکہ وہ نشان دیکھنے سے پہلے تکذیب کرچکے تھے۔ اسی طرح خدا ان لوگوں کے دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے۔ جوا س قسم کے کافر ہیں جو نشان سے پہلے ایمان نہیں لاتے ۔
یہ تمام آیتیں اور ایسا ہی اوربہت سی آیتیں قرآن کریم کی جن کا اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے با لا تفاق بیان فرما رہیں ہیں کے نشان کو طلب کرنے والے مورد غضب الہی ہوتے ہیں اور جو شخص نشان دیکھنے سے ایمان لاویں اس کا ایمان منظور نہیں اس پردو اعتراض وار ہوتے ہیں اول یہ کے نشان طلب کرنے والے کیوں مورد غضب الٰہی ہیں۔ جو شخص اپنے اطمنان کے لئے یہ آزمائش کرنا چاہتا ہے کہ یہ شخص منجانب اللہ ہے یا نہیں بظاہر وہ نشان طلب کرنے کا حق رکھتا ہے تا دھوکہ نہ کھاوے اور مرداہ الٰہی کو قبول الٰہی خیال نہ کرے۔
اس وہم کا جواب یہ ہے کہ تمام ثواب ایمان پر مترتب ہوتا ہے اور ایمان اسی بات کا نام ہے کہ جو بات پردہ غیب میں ہو۔ اس کو قراین مرحجہ کے لحاظ سے قبول کیا جاوے۔ یعنی اس قدر دیکھ لیا جائے کہ مثلاً صدق کے وجوہ کذب کے وجوہ پر غالب ہیں اور قراین موجودہ ایک شخص کے صادق ہونے پر بہ نسبت اس کے کاذب ہونے کے بکثرت پائے جاتے ہیں۔
یہ تو ایمان کی حد ہے لیکن اگر اس حدسے بڑھ کر کوئی شخص نشان طلب کرتا ہے تو وہ عنداللہ فاسق ہے اور اسی کے بارہ میں اللہ جلشانہ‘ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کو ایمان نفع نہیں دے گا یہ بات سوچنے سے جلد سمجھ میں آسکتی ہے کہ انسان ایمان لانے سے کیوں خداتعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرتا ہے اس کی وجہ یہی ہے جن چیزوں کو ہم ایمانی طور پر قبول کر لیتے ہیں وہ بکل الوجود ہم پر مکشوف نہیں ہوتیں۔مثلاً خد ائے تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے مگر اس کو دیکھا نہیں۔ فرشتوں پر بھی ایمان لاتا ہے مگر وہ بھی نہیں دیکھے۔ بہشت اور دوخ پر بھی ایمان لاتا ہے اور وہ بھی نظر سے غائب ہیں محض حسن ظن سے مان لیتا ہے اس لئے خداتعالیٰ کے نزدیک صادق ٹھہر جاتا ہے اور یہ صدق اس کے لئے موجب نجات ہوجاتا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بہشت اور دوخ ملایک مخلوق خداتعالیٰ کی ہے ان پر ایمان لانا نجات سے کیا تعلق رکھتا ہے جو چیز واقعی طور پر موجود ہے اور بد یہی طور پر اس کا موجود ہونا ظاہر ہے اگر ہم اس کو موجود مان لیں تو کس اجر کے ہم مستحق ٹھہر سکتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم یہ کہیں کہ ہم آفتاب کے وجود پر بھی ایمان لائے اور زمین پر بھی ایمان لائے کہ موجود ہے اور چاند کے موجود ہونے پر بھی ایمان لائے اور اس بات پرایمان لائے کہ دنیا میں گدھے بھی ہیں اور گھوڑے بھی خچر بھی اور بیل بھی اور طرح طرح کے پرند بھی تو کیا اس ایمان سے کسی ثواب کی توقع ہوسکتی ہے پھر کیا وجہ سے کہ جب ہم مثلاً ملایک کہ وجود پر ایمان لاتے ہیں تو خداتعالیٰ کے نزدیک مومن ٹھہر تے ہیں اور مستحق ثواب بنتے ہیں اور جب ہم ان تمام حیوانات پر ایمان لاتے ہیں جو زمین پر ہماری نظر کے سامنے موجود ہیں تو ایک ذرہ بھی ثواب نہیں ملتا حالانکہ ملایک اور دوسری سب چیزیں برابر خداتعالیٰ کی مخلوق ہیں ۔ پس اس کی یہی وجہ ہے کہ ملایک پر وہ غائب میں ہیں اور اور دوسری چیزیں یقینی طور پر ہمیں معلوم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن ایمان لانا منظور نہیں ہو گا یعنی اگر اس وقت کوئی شخص خداتعالیٰ کی تجلیات دیکھ کر اور اس کے ملایک اور بہشت اور دوزخ کا مشاہدہ کرکے یہ کہے کہ اب میں ایمان لایا تو منظور نہ ہو گا۔ کیوں منظور نہ ہو گا؟ اسی وجہ سے کہ اس وقت کوئی پردہ غیب درمیان نہ ہو گا تا اس سے ماننے والے کاصدق ثابت ہو۔
اب پھر غور کر کے ذرا اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ ایمان کس بات کو کہتے ہیں اور ایمان لانے پر کیوں ثواب ملتا ہے امید ہے کہ آپ بفضلہ تعالیٰ تھوڑا سا فکر کرکے اس بات کاجلد سمجھ جائیں گے کہ ایمان لانا اس طرز قبول سے مراد ہے کہ جب بعض گوشے یعنی بعض پہلو کسی حقیقت کے جس پر ایمان لایا جاتا ہے مخفی ہوں اور نظر دقیق سے سو چکر اور قراین مرحجہ کو دیکھ کر اس حقیقت کو قبل اس کے کہ وہ تجلی کھل جائے قبول کرلیا جائے یہ ایمان ہے جس پر ثواب مترتب ہوتا ہے اور اگرچہ رسولوں اور انبیاء اور اولیاء کرام علیہم السلام سے بلاشبہ نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ مگر سعید آدمی جو خداتعالیٰ کے پیارے ہیں۔ ان نشانوں سے پہلے اپنی فراست صحیحہ کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں اور جولوگ نشانوں کے بعد قبول کرتے ہیں۔ وہ لوگ خدا ئے تعالیٰ کی نظر میں ذلیل اوربے قدر ہیں۔ بلکہ قرآن کریم بآواز بلند بیان فرماتا ہے کہ جولوگ نشان دیکھنے کے بغیر حق کوقبول نہیں کر سکتے وہ نشان کے بعد بھی قبول نہیں کرتے اور کیونکہ نشان کے ظاہر ہونے سے پہلے وہ بالجہر منکر ہوتے ہیں اور علانیہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ شخص کذاب اور جھوٹا ہے۔ کیونکہ اس نے کوئی نشان نہیں دکھلایا اور ان کی ضلالت کا زیادہ یہ موجب ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ بھی بباعث آزمائش اپنے بندوں کے نشان دکھلانے میں عمداتاً خیر اور توقف ڈالتا ہے اور وہ لوگ تکذیب اور انکار میں بڑھتے جاتے ہیں اور دعویٰ سے کہنے لگتے ہیں کہ درحقیقت یہ شخص کذاب ہے۔ مفتری ہے۔ مکار ہے۔ دردغگو ہے۔ جھوٹا ہے اور منجانب اللہ نہیں ہے۔ پس جب وہ شدت سے اپنی رائے کو قائم کر چکتے ہیں اور تقریروں کے ذریعہ سے اور تحریروں کے ذریعہ سے اور مجلسوں میں بیٹھ کر اور منبروں پر چڑھ کر اپنی مستقل رائے دنیا میں پھیلا دیتے ہیں کہ درحقیقت یہ شخص کذاب ہے۔ تب اس پر عنایت الٰہی توجہ فرماتی ہے کہ اپنے عاجز بندے کی عزت اورصداقت ظاہر کرنے کے لئے کوئی اپنا نشان ظاہر کرے۔ سو اس وقت کوئی غیبی نشان ظاہر ہوتا ہے جس سے صرف لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جو پہلے مان چکے ہیں اور انصار حق میں داخل ہو گئے تھے۔ یاد جنہوں اپنی زبانوں اور اپنی قلموں سے اپنے خیالات کو مخالفانہ اظہار سے بچا لیاتھا۔ لیکن وہ بدنصیب گروہ جو مخالفانہ رائوں کو ظاہر کر چکے تھے۔ وہ نشان دیکھنے کے بعد بھی اس کو قبول نہیں کرسکتے کیونکہ وہ تو اپنی رائیں علیٰ رئوس الاشہاد شائع کرچکے ۔ اشتہار دے چکے مہریں لگا چکے کہ یہ شخص درحقیقت کذاب ہے۔ اس لئے اب اپنی مشہور کردہ رائے سے مخالف اقرار کرنا ان کے لئے مرنے سے بھی زیادہ سخت ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس سے ان کی ناک کٹتی ہے اورہزاروں لوگوں پر ان کی حمایت ثابت ہوتی ہے کہ پہلے تو بڑے زور شور سے دعوے کرتے تھے کہ شخص ضرور کاذب ہے ضرور کاذب ہے اور قسمیں کھاتے اور اپنی عقل اور علمیت جتلاتے تھے اور اب اسی کی تائید کرتے ہیں۔
میں پہلے اس سے بیان کرچکا ہوں کہ ایمان لانے پر ثواب اسی وجہ سے ملتا ہے کہ ایمان لانے والا چند قراین صدق کے لحاظ سے ایسی باتوں کو قبول کر لیتا ہے کہ وہ ہنوز مخفی ہیں۔ جیسا کہ اللہ جلشانہ نے مومنوں کی تعریف قرآن کریم میں فرمائی ہے یومنون بالغیب یعنی ایسی بات کو مان لیتے ہیں کہ وہ ہنوز در پردہ غیب ہے۔ جیساکہ صحابہ کرام نے ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا اور کسی نے نشان نہ مانگا اور کوئی ثبوت طلب نہ کیا اورگو بعد اس کے اپنے وقت پر بارش کی طرح نشان برسے اور معجزات ظاہر ہوئے۔ لیکن صحابہ کرا م ایمان لانے میں معجزات کے محتاج نہیں ہوئے اوراگر وہ معجزات کے دیکھنے اپر ایمان موقوف رکھتے تو ایک ذرہ بزرگی ان کی ثابت نہ ہوتی اور عوام میں سے شمار کئے جاتے تو خداتعالیٰ کے مقبول اور پیارے بندوں میں داخل نہ ہوسکتے کیونکہ جن لوگوں نے نشان مانگا خداتعالیٰ نے ان پر عتاب ظاہر کیا اور درحقیقت ان کاانجام اچھا نہ ہوا اور اکثر وہ بے ایمانی حالت میں ہی مرے۔ غرض خداتعالیٰ کی تمام کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نشان مانگنا کسی قوم کے لئے مبارک نہیں ہوا اور جس نے نشان مانگا وہی تباہ ہوا۔ انجیل میں بھی حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ اس وقت کے حرامکار مجھ سے نشان مانگتے ہیں ان کوکوئی نشان نہیں دیا جائے گا۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بالطبع ہر شخص کے دل میں اس جگہ یہ سوال پید اہو گا کہ بغیر کسی نشان کے حق اور باطل میں انسان کیونکر فرق کر سکتا ہے او راگر بغیر نشان دیکھنے کے کسی کو منجانب اللہ قبول کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس قبول کرنے میں دھوکا ہو۔
اس کاجواب وہی ہے جو میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ خداتعالیٰ نے ایمان کا ثواب اکبر اسی امر سے مشروط کر رکھا ہے کہ نشان دیکھنے سے پہلے ایمان ہو اور حق و باطل میں فرق کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ چند قراین جو وجہ تصدیق ہو سکیں اپنے ہاتھ میں ہوں او رتصدیق کاپلہ تکذیب کے پلہ سے بھاری ہو۔ مثلاً حضرت صدیق اکبر ابوبکر رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو انہوںنے کوئی معجزہ طلب نہیں کیا او رجب پوچھا گیا کہ کیوں ایمان لائے۔ توبیان کیاکہ میرے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاامین ہونا ثابت ہے اور میں یقین رکھتاہوں کہ انہوں نے کبھی کسی انسان کی نسبت بھی جھوٹ استعمال نہیں کیا چہ جائیکہ خداتعالیٰ پر جھوٹ باندھیں۔ ایسا ہی اپنے اپنے مذاق پر ہر ایک صحابی ایک ایک اخلاقی یا تعلیمی فضلیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھ کر اور اپنی نظر دقیق سے اس کو وجہ صداقت ٹھہرا کر ایمان لائے تھے اور ان میں سے کسی نے بھی نشان نہیں مانگا تھا اور کاذب اور صادق میں فرق کرنے کے لئے ان کی نگاہوں میں یہ کافی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تقوے کے اعلیٰ مراتب پر ہیں۔ اپنے منصب کے اظہار میں بڑی شجاعت اور استقامت رکھتے ہیں اور جس تعلیم کو لائے ہیں وہ دوسری تعلیموں سے صاف تراور پاک تر اور سراسرا نور ہے اور تمام اخلاق حمیدہ میں بے نظیر ہیں اور للہی جوش ان میں اعلیٰ درجے کے پائے جاتے ہیں اور صداقت ان کے چہرہ پر برس رہی ہے۔ پس انہیں باتوں کو دیکھ کر انہو ں نے قبول کر لیا کہ وہ درحقیقت خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ اس جگہ یہ نہ سمجھا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معجزات ظاہر نہیںہوئے۔ بلکہ تمام انبیاء سے زیادہ ظاہر ہوئے لیکن عادت اللہ اسی طرح پر جاری رہے کہ اوائل میں کھلے کھلے معجزات اور نشان مخفی رہتے ہیں۔ تا صادقوں کا صدق اور کاذبوں کا کذب پرکھا جائے یہ زمانہ ابتلاکا ہوتاہے اور اس میں کوئی کھلا نشان ظاہر نہیں ہوتا۔پھر جب ایک گروہ صافی دلوں کااپنی نظر دقیق سے ایمان لاتا لے آتا ہے اورعوام کا لانعام باقی رہ جاتے ہیں۔ تو ان پر حجت پوری کرنے کے لئے یا ان پر عذاب نازل کرنے کے لئے نشان ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ مگر ان نشانوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیںجو پہلے ایمان لا چکے تھے اور بعد میں ایمان لانے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہر روز تکذیب سے ان کے دل سخت ہوجاتے ہیں اور اپنی مشہور کردہ رائوں کو وہ بدل نہیں سکتے۔ آخر اسی کفر اور انکار میں واصل جہنم ہوتے ہیں۔
مجھے دلی خواہش ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ درحقیقت ایمان کے مفہوم کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ پوشیدہ چیزوں کو مان لیا جائے اور جب ایک چیز کی حقیقت ہر طرح سے کھل جائے یا ایک وافر حصہ اس کا کھل جائے۔ تو پھر اس کو مان لینا ایمان میں داخل نہیں مثلاً اب جو دن کاوقت ہے۔ اگر میں کہوں کہ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ اب دن ہے رات نہیں ہے۔ تو میرے اس ماننے میں کیا خوبی ہو گی اور اس ماننے میں مجھے دوسروں پر کیا زیادت ہے۔ سعید آدمی کی پہلی نشانی یہی ہے کہ اس بابرکت بات کو سمجھ لے کہ ایمان کس چیز کو کہا جاتا ہے۔ کیونکہ جس قدر ابتدائے دنیاسے لوگ انبیاء کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ ان کی عقلوں پر یہی پردہ پڑا ہو اتھا کہ وہ ایمان کی حقیقت کانہیں سمجھتے تھے اورچاہتے تھے کہ جب تک دوسرے امور مشہودہ محسوسہ کی طرح انبیاء کی نبوت اور ان کی تعلیم کھل نہ جائے۔ تب تک قبول کرنا مناسب نہیں اور وہ بیوقوف یہ خیال کرتے تھے کہ کھلی ہوئی چیز کو ماننا ایمان میں کیونکر داخل ہو گا۔ وہ تو ہندسہ اور حساب کی طرح ایک علم ہوا نہ کہ ایمان۔ پس یہی حجاب تھا کہ جس کی وجہ سے ابوجہل اور ابولہب وغیرہ اوایل میں ایمان لانے سے محروم رہے اور پھر جب اپنی تکذ یب میں پختہ ہو گئے اور مخالفانہ رائوں پر اصرار کر چکے۔اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے کھلے کھلے نشان ظاہر ہوئے تب انہوں کہا کہاب قبول کرنے سے مرنا بہتر ہے۔ غرض نظر دقیق سے صادق کے صدق کو شناخت کرنا سعیدوں کا کام ہے اورنشان طلب کرنا نہایت منحوس طریق اور اشقیا کا شیوہ ہے۔ جس کی وجہ سے کروڑ ہا منکر ہیزم جنہم ہو چکے ہیں۔ خداتعالیٰ اپنی نسبت کو نہیں بدلتا۔ وہ جیسا کہ اس نے فرمادیا ہے۔ ان ہی کے ایمان کو ایمان سمجھتا ہے۔ جو زیادہ ضد نہیں کرتے اور قرآن مرحجہ کودیکھ کر اور علامات صدق پا کر صادق کوقبول کرلیتے ہیں اورصادق کا کلام اورصادق کی راستبازی۔ صادق کی استقامت اورخود صادق کا منہ ان کے نزدیک اس کے صدق پر گواہ ہوتا ہے۔ مبارک وہ جن کو مردم شناسی کی عقل دی جاتی ہے۔
ماسوا اس کے جو شخض ایک نبی متبوع علیہ السلام کا متبع ہے اور اس کے فرمودہ پر اور کتاب اللہ پر ایمان لاتا ہے۔ اس کی آزمائش انبیاء کی آزمائش کی طرح کرنا سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ انبیاء اس لئے آتے ہیں کہ تا ایک دین سے دوسرے دین میں داخل کریں اور ایک قبلہ سے دوسرا قبلہ مقرر کراویں اور بعض احکام کومنسوخ کریں اوربعض نئے احکام لاویں۔ لیکن اس جگہ تو ایسے انقلاب کادعویٰ نہیں ہے وہی اسلام ہے جو پہلے تھا۔ وہ ہی نمازیں ہیں جوپہلے تھیں۔وہ ہی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو پہلے تھا اور وہی کتاب ہے جو پہلے تھی۔ اصل دین سے کوئی ایسی بات چھوڑنی نہیں پڑی جس سے اس قدر حیرانی ہو۔ مسیح موعود کادعویٰ اس وقت گراں اورقابل احتیاط ہوتا کہ جب اس دعوے کے ساتھ نعوذباللہ کچھ دین کے احکام کی کمی بیشی ہوتی اور ہماری عملی حالت دوسرے مسلمانوں سے کچھ فرق رکھتی۔ اب جبکہ ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں۔ صرف مابہ التراع حیات مسیح اور وفات مسیح ہے اور مسیح موعود کا دعویٰ اس مسئلہ کی درحقیقت ایک فرع ہے اور اس دعویٰ سے مراد کوئی عملی انقلاب نہیں اورنہ اسلامی اعتقادات پر ا س کا کوئی مخالفانہ اثر ہے۔ تو کیا اس دعویٰ کے تسلیم کرنے کے لئے کسی بڑے معجزہ یا کرامت کی حاجت ہے؟ جس کا مانگنا رسالت کے دعویٰ میں عوام کا قدیم شیوہ ہے۔ ایک مسلمان جسے تائید اسلام کے لئے خداتعالیٰ نے بھیجا۔ جس کے مقاصد یہ ہیں کہ تا دین اسلام کی خوبیاں لوگوں پر ظاہر کرے اورآج کل کے فلسفی وغیرہ الزاموں سے اسلام کا پاک ہونا ثبوت کر دیوے اور مسلمانوں کو اللہ و رسول کی محبت کی طرف رجوع دلا وے۔ کیا اس کاقبول کرنا ایک منصف مزاج اور خدا ترس آدمی پر کوئی مشکل امر ہے؟
مسیح موعود کادعویٰ اگر اپنے ساتھ ایسے لوازم رکھتا جن سے شریعت کے احکام اور عقائد پر کچھ اثر پہنچتا۔ تو بے شک ایک ہولناک بات تھی۔ لیکن دیکھنا چاہئے کہ میں نے اس دعویٰ کے ساتھ کس اسلامی حقیقت کو منقلب کر دیا ہے کون سے حکام اسلام میں سے ایک ذرہ بھی کم یا زیادہ کردیا ہے ہاں ایک پیشگوئی کے وہ معنی کئے گئے ہیں جو خداتعالیٰ نے اپنے وقت پر مجھ پر کھولے ہیں او رقرآن کریم ان معنوں کے صحت کے لئے گواہ ہے اور احادیث صحیحہ بھی ان کی شہادت دیتے ہیںپھر نہ معلوم کہ اس قدر کیوں شور وغوعا ہے۔
ہاں طالب حق ایک سوال بھی اس جگہ کر سکتا ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود کا دعویٰ تسلیم کرنے کے لئے کون سے قرائن موجود ہیںکیوں اس مدعی کی صداقت کو ماننے کے لئے قراین تو چاہئے خصوصاً آج کل کے زمانہ میں جو مکرو فریب او ربد دیانتی سے بھرا ہوا ہے اور دعاوی باطلہ کا بازار گرم ہے۔
اس سوال کے جواب میں مجھے یہ کہنا کافی ہے کہ مندرجہ زیل امور طالب حق کے لئے بطور علامات اور قراین کے ہیں۔
(۱) اوّل وہ پیشگوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو تواتر معنوی تک پہنچ گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہر ایک صدی کے سر پر وہ ایسے شخص کو معبوث کرے گا جودین کو پھر تازہ کر دے گا اس کی کمزوریوں کا دور کرکے پھر اپنی اصلی طاقت اور قوت پر اس کو لے آئے گااس پیشگوئی کی رو سے ضرور تھا کہ کوئی شخص اس چودہویں صدی پر بھی خداتعالیٰ کی طرف سے معبوث ہوتا اور موجوہ خرابیوں کی اصلاح کے لئے درپیش قدمی دکھلاتا سو یہ عاجز عین وقت پر مامور ہوا۔ اس لئے پہلے صدہا اولیاء نے اپنے الہام سے گواہی دی تھی کہ چودہویں صدی کا مجدو مسیح ہو گا اوراحادیث صحیحہ ……پکار پکار کرکہتی ہے کہ تیرہویںصدی کے بعد ظہور مسیح ہے۔ پس کیا اس عاجز کا یہ دعویٰ اس وقت اپنے محل اور اپنے وقت پر نہیں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ فرمودہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطا جاوے۔ میں نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اگر فرض کیا جائے کہ چودہویں صدی کے سر پر مسیح موعود پید انہیں ہوا۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی پیشگوئیاں خطاجاتی ہیں اور صدہا بزرگوار صاحب الہام جھوٹے ٹھہرتے ہیں۔
(۲) اس بات کو بھی سوچنا چاہیئے کہ جب علماء سے یہ سوال کیا جائے کہ چودھویں صدی کا مجدد ہونے کے لئے بجز اس احقر کے اور کس نے دعویٰ کیا ہے اور کس نے منجانب اللہ آنے کی خبر دی ہے اورملہم ہونے اور مامور ہونے کا دعویٰ ملہم من اللہ اور مجدد من اللہ کے دعویٰ سے کچھ بڑا نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جس کو یہ رتبہ حاصل ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کا ہمکلا م ہو ۔ اس کا نام منجانب اللہ خوا ہ مثیل مسیح خوا ہ مثیل موسی ہو یہ تمام نام اس کے حق میں جائز ہیں ۔ مثیل ہونے میں کوئی اصلی فضیلت نہیں۔ اصلی اور حقیقی فضیلت ملہم من اللہ اور کلیم اللہ ہونے میںہے۔ پھر جس شخص مکالمہ الہٰیہ کی فضیلت حاصل ہوگی اور کسی خدمت دین کے لئے مامور من اللہ ہوگیا۔ تواللہ جلشانہ‘ وقت کے مناسب حال اس کا کوئی نام رکھ سکتا ہے۔ یہ نام رکھنا تو کوئی بڑی بات نہیں ۔ اسلام میں موسیٰ عیسیٰ ۔داؤد۔ سلیمان۔ یعقوب وغیرہ بہت سے نام نبیوں کے نام پر لوگ رکھ لیتے ہیں۔ اس تفادل کی نیت سے کہ ان کے اخلاق انہیں حاصل ہوجائیں۔ پھر اگر خدا تعالیٰ کسی کو اپنے مکالمہ کا شرف دے کر کسی موجودہ مصلحت کے موافق اس کا کوئی نام بھی رکھ دے۔ تو کیااس میں استبعادہے؟
اور اس زمانہ کے مجدد کا نام مسیح موعود رکھنا اس مصلحت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ اس مجدد کا عظیم الشان کام عیسائیت کا غلبہ توڑنا اور ان کے حملوں کو دفع کرنا اور ان کے فلسفہ کو جو مخالف قرآن ہے۔ دلائل قویہ کے ساتھ توڑنا اور ان پر اسلام کی حجت پوری کرنا ہے کیونکہ سب سے بڑی آفت اس زمانہ میں اسلام کے لئے جو بغیر تائید الہٰی دور نہیں ہوسکتی۔ عیسائیوں کے فلسفیانہ حملے اور مذہبی نکتہ چینیاں ہیں۔ جن کے دورکرنے کے لئے ضرور تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی آوے اور جیسا کہ میرے پر کشفاً کھولا گیا ہے۔ حضرت مسیح کی روح ان افتراؤں کی وجہ سے جو ان پر اس زمانہ میں کئے گئے۔ اپنے مثالی نزول کے لئے شدت جوش میں تھی اور خداتعالیٰ سے درخواست کرتی تھی کہ اس وقت مثالی طور پر اس کا نزول ہو سو خدا تعالیٰ نے اس کے جوش کے موافق اس کی مثال کو دنیا میں بھیجا تا وہ وعدہ پورا ہو جو پہلے سے کیا گیا تھا۔
یہ ایک سراسرارا الہٰیہ میں سے ہے کہ جب کسی رسول یا نبی کی شریعت اس کے فوت ہونے کے بعد بگڑ جاتی ہے اور اور اس اصل تعلیموں اور ہدایتوں کے بدلا کر بہیودہ اور بیجا باتیں اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اور ناحق کا جھوٹ افتراکرکے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ تمام کفر اور بدکاری کی باتیں اس نبی نے ہی سکھلائی تھیں تواس نبی کے دل میں ان فساد اور تہمتوں کے دور کرنے کے لئے ایک اشد توجہ اور اعلیٰ درجہ کا جوش پیدا ہو جاتا ہے تب اس نبی کی روحانیت تقاضا کرتی ہے کہ کوئی قائم مقام اس کا زمین پر پید اہو۔
اب غور سے اس معرفت کے دقیقہ کو سنو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دومرتبہ یہ موقعہ پیش آیا کہ ان کی روحانیت نے قائم مقام طلب کیا اوّل جبکہ ان کے فوت ہونے پر چھ سو برس گزر گیا اور یہودیوں نے اس بات پر حد سے زیادہ اصرار کیا کہ وہ نعوذ بااللہ مکار اور کاذب تھا اور اس کا ناجائز طور پر غلو کیا کہ وہ خدا تھا اور اسی لئے وہ مصلوب ہوا اور عیسائیوں نے اس بات پر غلو کیا کہ وہ خدا تھا اور خدا کا بیٹا تھا اور دنیا کو نجات دینے کے لئے اس نے صلیب پر جان دی پس جبکہ مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت شان میں نابکار یہودیوں نے نہایت خلاف تہذیب جرح کی اور اوبموجب توریت کے اس آیت کے جو کتاب استفاء میں ہے کہ جو شخص صلیب پر کھینچا جائے وہ * ہوتا ہے نعوذ بااللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو * قرار دیا اور مفتری اور کاذب اور باپاک پیدائش والا ٹھہرایا اور عیسائیوں نے ان کی مدح میں اطراء کر کے ان کوخدا ہی بنا دیا اور ان پر یہ تہمت لگائی کہ یہ تعلیم انہی کی ہے تب یہ اعلام الٰہی مسیح کی روحانیت جوش میں آئی اور اس نے ان تمام الزاموں سے اپنی بریت چاہی اور خداتعالیٰ سے اپنا مقام چاہا تب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے جن کی بعثت کی اغراض کثیرہ میں سے ایک یہ بھی غرض تھی کہ ان تمام بیجا الزاموں سے مسیح موعود کا دامن پاک صاف کریں اور اس کے حق میں صداقت کی گواہی دیں کہ یہی وجہ ہے کہ خود مسیح موعود نے یوحنا کی انجیل کے ۱۶ باب میں کہا ہے کہ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ تمہارے لئے میرا جانا ہی مفید مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو تسلی دینے والا (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پاس نہیں آئے گا پھر اگر ملیں جائوں تو اسے تم پاس بھیج دو ں گا اور وہ آکر دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے نقصیر وار ٹھہرائے گا گناہ سے اس لئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لائے راستی سے اس لئے کہ میں اپنے باپ پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے عدالت سے اس لئے کہ اس جہان کے سردار پر حکم کیا گیا ہے جب وہ روح حق آئے گی تو تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا دے گی اورروح حق میری بزرگی کرے گی اس لئے وہ میری چیزوں سے پائے گی (۱۴) وہ تسلی دینے والا جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب چیزیں سکھائے گا۔ لوکا ۱۴؍ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ مجھ کو نہ دیکھو گے۔ اس وقت تک کہ تم کہو گے مبارک ہے وہ جو خدا وند کے نام پر یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے نام پر آتا ہے۔
ان آیات میں مسیح کا یہ فقرہ کہ میں اسے تم پاس بھیج دوں گا۔ اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ مسیح کی روحانیت اس کے آنے کے لئے تقاضا کرے گی اور یہ فقرہ کہ باپ اس کو میرے نام سے بھیجے گااس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آنے والا مسیح موعود کی تمام روحانیت پائے گا اور اپنے کمالات کی ایک شاخ کے رو سے وہ مسیح ہو گا۔ جیسا کہ ایک شاخ کی رو سے وہ موسیٰ ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے نام اپنے اندر جمع رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ وجود پاک جامع کمالات متفرقہ ہے۔ پس وہ موسیٰ بھی ہے اور عیسیٰ بھی اورآدم بھی اورابراہیم بھی اور یوسف بھی اور یعقوب بھی اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے۔ فبہدی ھم اقتدہ یعنی اے رسول اللہ تو ان تمام ہدایات متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کرلے۔ جو ہر ایک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ پس اس سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء کی شاخیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں شامل تھیںاور درحقیقت محمد کانام صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ محمد کے یہ معنی ہیںکہ بغایت تعریف کیا گیا اور غایت درجہ کی تعریف تب ہی متصور ہو سکتی ہے کہ جب انبیاء کے تمام کمالات متفرقہ اورصفات خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم کی بہت سی آیتیں جن اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے اسی پر دلالت کرتی بلکہ بصراحت بتلاتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک باعتبار اپنی صفات اور کمالات کے مجموعہ انبیاء تھی اور ہر ایک نبی نے اپنے وجود کے ساتھ مناسب پاکر یہی خیال کیا کہ میرے نام پر آنے والاہے اور قرآن کریم ایک جگہ فرماتا ہے کہ سب سے زیادہ ابراہیم سے مناسبت رکھنے والا یہ نبی ہے اور بخاری میں ایک حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسیح سے یہ شدت مناسبت ہے اور اس کے وجود سے میرا وجود ملا ہو اہے پس اس حدیث میں حضرت مسیح موعود کے اس فقرہ کی تصدیق ہے کہ وہ نبی میرے نام پر آئے گا سو ایسا ہی ہو اکہ ہمارا مسیح صلی اللہ علیہ وسلم جب آیا تو اس نے مسیح ناصری کے ناتمام کاموں کو پورا کیا اور اس کی صداقت کے لئے گواہی دی اور ان تہمتوں سے اس کو بری قرار دیا یہود اورنصاریٰ نے اس پر لگائی تھیں او رمسیح کی روح کو خوشی پہنچائی۔ یہ مسیح ناصری کی روحانیت کا پہلا جوش تھا جو ہمارے سید ہمارے مسیح خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے اپنی مراد کو پہنچا۔ فالحمداللہ۔
پھر دوسری مرتبہ مسیح کی روحانیت اس وقت جوش میں آئی کہ جب نصاریٰ میں دجالیت کی صفت اتم اور اکمل طور پر آگئی جیسا کہ لکھا ہے کہ دجال نبوت کا دعویٰ بھی کرے گا اور خدائی کا بھی ایسا ہی انہوں نے کیا نبوت کا دعویٰ اس طرح پر کیا کہ کلام الٰہی میں اپنی طرف سے وہ دخل دئیے تو وہ قواعد مرتب کئے اور وہ تنسیخ و ترمیم کی جو ایک نبی کا کلام تھا۔ جس حکم کو چاہا قائم کر دیا اور اپنی طرف سے عقائد نامے اورعبادت کے طریقے گھڑ لئے اور ایسی آزادی سے مداخلت بیجا کی کہ گویا ان باتوں کے لئے وحی الٰہی ان پر نازل ہو گئی سو الٰہی کتابوں میں اس قدر بیجا دخل دوسرے رنگ میں نبوت کادعویٰ ہے اور خدائی کا دعویٰ اس طرح پر کہ ان کے فلسفہ والوں نے یہ ارادہ کیا کہ کسی طرح تمام کام خدائی کے ہمارے قبضہ میں آجائیں۔ جیساکہ ان کے خیالات اس ارادہ پر شائد ہیں کہ وہ دن رات ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ہم بھی مینہ برسائیں اور نطفہ کو کسی آلہ میں ڈال کر اوررحم عورت میں پہنچا کر بچے بھی پید اکر لیں اور ان کاعقیدہ ہے کہ خداکی تقدیر کچھ چیز نہیں ناکامی ہماری بوجہ غلطی تدبیر تقدیر ہو جاتی ہے اور جوکچھ دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ پہلے زمانہ کے لوگوں کو ہر ایک چیز کی طبع اسباب معلوم نہیں تھے اور اپنے تھک جانے کی انتہاء کا نام خدا اور خدا کی تقدیر رکھا تھا اب عللہ طبیعت کا سلسلہ جب بکلی لوگوں کو معلوم ہو جائے گا تو یہ خام خیالات خود بخود ور ہو جائیں گے۔ پس دیکھنا چاہئے کہ یورپ اور امریکہ کے فلاسفروں کے یہ اقوال خدائی کا دعویٰ ہے یا کچھ اور ہے اسی وجہ سے ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح مرد بھی زندہ ہوجائیں اور امریکہ میں ایک گھر وہ عیسائی فلاسفروں کا انہیں باتوں کا تجربہ کر رہا ہے اور مینہ برسانے کا کارخانہ تو شروع ہو گیا اور ان کا منشاء ہے کہ بجائے اس کے کہ لوگ مینہ کے لئے خداتعالیٰ سے دعا کریں یا استقاء کی نمازیں پڑھیں گورنمنٹ میں ایک عرضی دے دیں کہ فلاں کھیت میں مینہ برسا یا جائے اور یورپ میں یہ کوشش ہو رہی ہے کہ نطفہ رحم میں ٹھہرانے کے لئے کوئی مشکل پید ا نہ ہو اور نیز یہ بھی کہ جب چاہیں لڑکا پید ا کرلیں اور جب چاہیں لڑکی اور ایک مرد کا نطفہ لے کر اور کسی پچکاری میں رکھ کر کسی عورت کے رحم میں چڑہا دیں اور اس تدبیر سے اس کو حمل کر دیں۔ اب دیکھنا چاہئے کہ یہ خدائی پر قبضہ کرنے کی فکر ہے یا کچھ اور ہے اور یہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ دجال اوّل نبوت کا دعویٰ کرے گا پھر خدائی کا اگر اس کے یہ معنی لئے جائیں کہ چند روز نبوت کا دعویٰ کر کے پھر خدا بننے کا دعویٰ کرے گا تو یہ معنی صریح باطل ہیں کیونہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا اس دعویٰ میں ضرور ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرے اور نیز خلق اللہ کو وہ کلام سنا وے جو اس پر خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور ایک اُمت بنادے جو اس کو ہی سمجھتی اور اس کی کتاب کو کتاب اللہ جانتی ہے اب سمجھنا چاہئے کہ ایسا دعویٰ کرنے والا اسی اُمت کے روبرو خدائی کا دعویٰ کیونکر کر سکتا ہے کیونکہ وہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ بڑا مفتری ہے پہلے تو خداتعالیٰ کا اقرار کرتا تھا اور خداتعالیٰ کا کلام سناتا تھا اور اب اس سے انکار ہے اور اب آپ خدابنتا ہے پھر جب اوّل دفعہ تیرے ہی اقرار سے تیرا جھوٹ ثابت ہو گیا تو دوسرا دعویٰ کیونکر سچا سمجھا جائے جس نے پہلے خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کر لیا اور اپنے تئیں بندہ قرار دے دیا اور بہت سا الہام اپنا لوگوں میں شائع کر دیا کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے وہ کیو نکر ان تمام اقرارات سے انحراف کر کے خدا ٹھہر سکتا ہے اور ایسے کذاب کو کون قبول کر سکتا ہے۔ سو یہ معنی جو ہمارے علماء لیتے ہیں بالکل فاسد ہیں صحیح معنی ہیں کہ نبوت کے دعویٰ سے مراد خل در امور نبوت اورخدائی کے دعویٰ دخل در امور خدائی ہے جیسا کہ آجکل عیسائیوں سے یہ حرکات ظہور میں آرہی ہیں ایک فرقہ ان میں سے انجیل کو ایساتوڑ مروڑ رہا ہے کہ گویا وہ نبی ہے اور پر آیتیں نازل ہو رہی ہیں اور ایک فرقہ خدائی کے کاموں میں اس قدر دخل دے رہا ہے کہ گویاخدائی کو اپنے قبضے میں کرنا چاہتا ہے۔
غرض یہ دجالیت عیسائیوں کی اس زمانہ میں کمال درجہ تک پہنچ گئی ہے اور اس کے قائم کرنے کے لئے پانی کی طرح انہوں نے اپنے مالوں کو بہادیا ہے اور کروڑ ہا مخلوقات پر بد اثر ڈالا ہے۔ تقریر سے تحریر سے مال سے عورتوں گانے سے بجانے سے تماشے دکھلانے سے ڈاکٹر کھلائے سے غرض ہر ایک پہلو سے ہر ایک طریق سے ہر ایک پیرایہ سے ہر ایک ملک پر انہوں نے اثر ڈالا ہے چنانچہ چھ کروڑ تک ایسی کتاب تالیف ہو چکی ہے جس میں یہ غرض ہے کہ دنیا میں یہ ناپاک طریق عیسیٰ پرستی کا پھیل جائے پس اس زمانہ میں دوسری مرتبہ حضرت مسیح کی روحانیت کو جوش آیا اور انہوں نے دوبارہ مثالی طور پر دنیا میں اپنا نزول چاہا اور جب ان میں مثالی نزول کے لئے اشد درجہ کی توجہ اور خواہش پید اہوئی تو خداتعالیٰ نے اس خواہش کے موافق دجال موجودہ کے نابود کرنے کے لئے ایسا شخص بھیج دیا جو ان کی روحانیت کا نمونہ تھا۔ وہ نمونہ مسیح علیہ السلام کاروپ بن کر مسیح موعود کہلایا۔ کیونکہ حقیقت عیسویہ کا اس میں حلول تھا۔ یعنی حقیقت عیسویہ اس سے متحد ہو گئے تھے اور مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے وہ پید اہوا تھا۔ پس حقیقت عیسویہ اس میں ایسی منعکس ہو گئی جیسا کہ آئینہ میں اشکال اور چونکہ وہ نمونہ حضرت مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے ظہور پذیر ہوا تھا۔اس لئے وہ عیسیٰ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ کیوکہ حضرت عیسیٰ کی روحانیت نے قادر مطلق غزاسمہ سے بوجہ اپنے جوش کے اپنی ایک شبیہہ چاہی اور چاہا کہ حقیقت عیسویہ اس شبیہہ میں رکھی جائے۔ تا اس شبیہہ کا نزول ہو۔ پس ایسا ہی ہو گیا۔ اس تقریر میں اس وہم کا بھی جواب ہے کہ نزول کے لئے مسیح کو کیوں مخصوص کیا گیا۔ یہ کیوں نہ کہا گیا کہ موسیٰ نازل ہو گا یا ابراہیم نازل ہو گا یا دائود نازل ہو گا۔ کیونکہ اس جگہ صاف طور پر کھل گیا کہ موجودہ فتنوں کے لحاظ سے مسیح کا نازل ہونا ہی ضروری تھا۔ کیونکہ مسیح کی ہی قوم بگڑی تھی اور مسیح کی قوم میں ہی دجالیت پھیلی تھی۔ اس لئے مسیح کی روحانیت کو ہی جوش آنا لائق تھا۔ یہ وہ دقیق معرفت ہے کہ جو کشف کے ذریعہ سے اس عاجز پرکھلی ہے اور یہ بھی کھلا کہ یوں مقدر ہے کہ ایک زمانے کے گزرنے کے بعد کہ خیر اوراصلاح اور غلبہ توحید کا زمانہ ہو گا پھر دنیا میں فساد اور شرک اور ظلم عود کرے گا اور بعض کو کیڑوں کی طرح کھائیں گے اور جاہلیت غلبہ کرے گی اور دوبارہ مسیح کی پرستش ہو جائے گی اور مخلوق کو خدابنانے کی جہالت بڑی زور سے پھیلے گی اوریہ سب فساد عیسائی مذہب سے اس آخری زمانہ کے آخری حصہ میں دنیا میں پھیلیں گے تب پھر مسیح کی روحانیت سخت جوش میں آکر جلالی طور پر اپنا نزول چاہے گی تب کہ قہری شبیہہ میں اس کا نزول ہو کر اس زمانہ کا خاتمہ ہو جائے گا تب آخر ہو گا اور دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی اس سے معلوم ہوا ہے کہ مسیح کی امت کی نالائق کرتوتوں کی وجہ سے مسیح کی روحانیت کے لئے یہی مقدر تھا کہ تین مرتبہ دنیا میں نازل ہو۔
اس جگہ یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت بھی اسلام کے اندورنی مفاسد کے غلبہ کے وقت ہمیشہ ظہور فرماتی رہتی ہے اورحقیقت محمدیہ کا حلول ہمیشہ کسی کامل متبع میں ہوکر جلوہ گر ہوتا ہے اور جو احادیث میں آیا ہے مہدی پید اہو گا او راس کا نام میرا ہی نام ہو گا اور اس کا خلق ہوگا۔ اگر یہ حدیثیں صحیح ہیں تو یہ معنی اسی نزول روحانیت کی طرف اشارہ ہے لیکن وہ نزول کسی خاص فرد میں محدود نہیں صدہا ایسے لوگ گزرے ہیں کہ جن میں حقیقت محمدیہ متحتق تھی اور عنداللہ ظلی طور پر ان کا نام محمد یا احمد تھا لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت مرحومہ ان فسادوں سے بفضلہ تعالیٰ محفوظ رہی ہے جو حضرت عیسیٰ کی امت کو پیش آئے اور آج تک ہزار ہا صلحا اور اتفیاس امت میں موجود ہیں کہ قحبہ دنیا کی طرف پشت دے کر بیٹھے ہوئے ہیں پنج وقت توحید کی اذان مسجد میں ایسی گونج پڑتی ہے کہ آسمان تک محمدی توحید کی شعاعیں پہنچتی ہیں پھر کون موقع تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کو ایسا جوش آتا جیسا کہ حضرت مسیح کی روح عیسائیوں کے دل آزاد عظوں اور نفرتی کاموں اور مشترکہ تعلیموں اور نبوت میں بیجا دخلوں اور خداتعالیٰ کی ہمسری کرنے نے پید اکردیا اس زمانہ میں یہ جوش حضرت موسیٰ کی روح میں بھی اپنی امت کے لئے نہیں آسکتا تھا کیونکہ وہ تونابود ہو گئی اور اب صفحہ دنیا میں ذریت ان کی بجز چند لاکھ کے باقی نہیں اور وہ بھی ضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ کے مصداق اور اپنی دنیا داری کے خیالات میں غرق اور نظروں سے گرے ہوئے ہیں لیکن عیسائی قوم اس زمانہ میںچالیس کروڑ سے کچھ زیادہ ہے اور بڑے زور سے اپنے دجالی خیالات کو پھیلا رہی ہے اور صدہا پیرایوں میں اپنے شیطانی منصوبوں کو دلوں میں جاگزین کر رہی ہے بعض واعظوں کے رنگ میں پھرتے ہیں بعض گوئیے بن کر گیت گاتے ہیں بعض شاعر بن کر تثلیت کے متعلق غزلیں سناتے ہیں بعض جوگی بن کر اپنے خیالات کو شائع کرتے پھرتے ہیں بعض نے یہی خدمت لی ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں اپنی محرف انجیل کا ترجمہ کر کے اور ایسا ہی دوسری کتابیں اسلا م کے مقابل پر ہر ایک زبان میں لکھ کر تقسیم کرتے پھرتے ہیں بعض تھٹیر کے پیرایہ میں اسلام کی بری تصویر لوگوں کے دلوں میں جماتے ہیں اور ان کاموں میں کروڑ ہا روپیہ ان کا خرچ ہوتا ہے اور بعض ایک فوج بناکر اور مکتی فوج اس کانام رکھ کر ملک بہ ملک پھرتے ہیں اور ایسا ہی اور کاروایئوں نے بھی جو ان کے مرد بھی کرتے ہیں اور ان کی عورتیں بھی کروڑ ہا بند گان خداکو نقصان پہنچایا ہے اور بات انتہا تک پہنچ گئی ہے۔ اس لئے ضرور تھا کہ اس زمانہ میں حضرت مسح کی روحانیت جوش میں آتی اور اپنی شبیہہ کے نزول کے لئے جو اس حقیقت سے متحد ہو تقاضا کرتی۔ سو اس عاجز کے صدق کی شناخت کے لئے ایک بڑی علامت ہے مگر ان کے لئے جو سمجھتے ہیں اسلام کے صوفی جو قبروں سے فیض طلب کرنے کے عادی ہیں اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ایک فوت شدہ نبی یا ولی کی روحانیت کبھی ایک زندہ مرد خدا سے متحد ہو جاتی ہے۔ جس کو کہتے ہیں فلاں ولی موسیٰ کے قدم پر ہے اور فلاں ابراہیم کے قدم پر یا محمدی المشرب اور ابراہیمی المشرب نام رکھتے ہیں۔ وہ ضرور اس دقیقہ معرفت کی طرف توجہ کریں۔
(۳)تیسری علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ بعض اہل اللہ نے اس عاجز سے بہت سے سال پہلے اس عاجز کے آنے کی خبر دی ہے۔ یہاں تک کہ نام اور سکونت اور عمر کا حال تبصریح بتلایا ہے۔ جیسا کہ ’’نشان آسمانی‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔
(۴) چوتھی علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ اس عاجز نے بارہاہزار کے قریب خط اور اشتہار الہامی برکات کے مقابلہ کے لئے مذاہب غیر کی طرف روانہ کئے۔ بالخصوص پادریوں میں سے شاید ایک بھی نامی پادری یورپ اور امریکہ اور ہندوستان میں باقی نہیں رہے گا۔ جس کی طرف خط رجسڑی کرکے نہ بھیجا ہو۔ مگر سب پر حق کا رعب چھا گیا۔اب جو ہماری قوم کے مُلا مولوی لوگ اس دعوت میں نکتہ چینی کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ ان کی دو وغگوئی اور نجاست خواری ہے مجھے یہ قطعی طور بشارت دی گئی ہے کہ اگر کوئی مخالف دین میرے سامنے مقابلہ کے لئے آئے گا تو اس میں اس پر غالب ہوں گا اور وہ ذلیل ہوگا۔ پھر یہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں او ر میری نسبت شک رکھتے ہیں کیوں اس زمانہ کے پادری سے میرا مقابلہ نہیں کراتے۔ کسی پادری یا پنڈت کو کہہ دیں کہ یہ شخص درحقیقت مفتری ہے۔ اس کے ساتھ مقابلہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں ہم ذمہ دار ہیں۔ پھر خداتعالیٰ خود فیصلہ کردے گا۔ میں اس بات پر راضی ہوں کہ جس دنیا کی جائیداد یعنی اراضی وغیرہ بطور رواثت میرے قبضہ میں آئی ہے۔ بحالت در وغگو نکلنے کے وہ سبب اس پادری یا پنڈت کو دے دوں گا۔ا گر وہ دروغگو نکلا تو بجز اس کے اسلام لانے کے میں اس سے کچھ نہیں مانگتا۔ یہ بات میں نے اپنے جی میں جزماً ٹھہرائی ہے اورتہ دل سے بیان کی ہے اور اللہ جلشانہ کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ میں اس مقابلہ کے لئے تیار ہوں اوراشتہار دینے کے لئے مستعد بلکہ میں نے بارہ اشتہار شائع کر دیا ہے۔ بلکہ میں بلاتا بلاتا تھک گیا کوئی پنڈت پادری نیک نیتی سے سامنے نہیں آتا۔ میری سچائی کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ میں اس مقابلہ کے لئے ہر وقت حاضر ہوںاور اگر کوئی مقابلہ پر کچھ نشان دکھلانے کا دعویٰ نہ کرے تو ایسا پنڈت یا ایسا پادری صرف اخبار کے ذریعہ سے یہ شائع کر دے کہ میں صرفر ایک طرفہ کوئی امر غارق عادت دیکھنے کو تیار ہوں اور اگر امر خارق عادت ظاہر ہو جائے اور میں اس کا مقابلہ نہ کر سکوں تو فی الفور اسلام قبول کر لوںگا تو یہ تجویز بھی مجھے منظور ہے کہ کوئی مسلمان میں سے ہمت کرے اور جس شخص کو کافر بیدین کہتے ہیں اور دجال نام رکھتے ہیں بمقابل کسی پادری کے اس امتحان کر لیں اور آپ صرف تماشا دیکھیں۔
(۵)پانچویں علامت اس جز کے صدق کی یہ ہے کہ مجھے اطلاع دی گئی کہ میں ان مسلمانوں پر بھی اپنے کشفی او ر الہامی علوم میں غالب ہوں ان کے ملہوں کو چاہئے کہ میرے مقابل پر آویں پھر اگر تائید الٰہی میں اور فیض سماوی ہیں او رآسمانی نشانوں میں مجھ پر غالب ہو جائیں تو جس کا رو سے چاہیں مجھ کو ذبح کر دیں مجھے منظور ہے اور اگر مقابلہ کی طاقت نہ ہوتو کفر کے فتوی دینے والے جو الہاماً میرے مخاطب ہیں یعنی جن کو مخاطب ہونے کے لئے الہام الٰہی مجھ کو ہو گیاہے پہلے لکھ دیں او رشائع کرا دیں کہ اگر کوئی خارق عادت امر دیکھیں تو بلا چون و چرا دعوی کو منظور کر لیں۔ میں ا س کام کے لئے بھی حاضرہوں اورمیرا خدا وند کریم میرے ساتھ ہے لیکن مجھے یہ حکم ہے کہ میں ایسا مقابلہ صرف المۃ الکفر سے کروں انہی سے مباہلہ کروں اور انہی سے اگر وہ چاہیں یہ مقابلہ کروں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ہر گز مقابلہ نہیں کریں گے کیونکہ حقانیت کے ان کے دلوں پر دعب ہیں اور وہ اپنے اور زیادتی کو خوب جانتے ہیں وہ ہر گز مباہلہ نہیں کریں گے مگر میری طرف عنقریب کتاب وافع الوساوس میں ان کے نام اشتہار جاری ہو جائیں گے۔
رہے احادالناس کہ جو امام اور فضلاء علم کے نہیں ہیں اور نہ ان کافتویٰ ہے ان کے لئے مجھے حکم ہے کہ اگر وہ خوارق دیکھنا چاہتے ہیں تو صحبت میں رہیں۔ خداتعالیٰ غنی بے نیاز ہے جب تک کسی میں تذلل اور انکسار نہیں دیکھتا اس کی طرف توجہ نہیں فرماتا۔ لیکن وہ اس عاجز کو ضائع نہیں کرے گا اور اپنی حجت دنیاپر پوری کردے گا اورکچھ زیادہ دیر نہ ہو گی کہ وہ اپنے نشان دکھلادے گا۔ لیکن مبارک وہ جو نشانوں سے پہلے قبول کر گئے۔ وہ خداتعالیٰ کے پیارے بندے ہیں او روہ صادق ہیں جن میں دغا نہیں۔ نشانوں کے مانگنے والے حسرت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے کہ ہم کو رضائے الٰہی اور اس کی خوشنودی حاصل نہ ہوئی جوا ن بزرگ لوگوں کو ہوئی جنہوں نے قرائن سے قبول کیا اور کوئی نشان نہیں مانگا۔
سو یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خداتعالیٰ اپنے اس سلسلہ کو بے ثبوت نہیں چھوڑے گا۔ وہ خود فرماتا ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے کہ :۔
دنیا میں ایک نذیر آیا۔ ہر دنیا نے ا س کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدااسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا۔ جن لوگوں نے انکار کیا اور جو انکار کے لئے مستعد ہیں۔ ان کے لئے ذلت اور خواری مقدر ہے۔ انہوںنے یہ بھی سوچا کہ اگر یہ انسان کا افرا ہوتا تو کب کا ضائع ہوجاتا۔ کیونکہ خداتعالیٰ مفتری کا ایسا دشمن ہے کہ دنیا میں ایسا کسی کا دشمن نہیں۔ وہ بے وقوف یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ کیا یہ استقامت اور جرات کسی کذاب میں ہو سکتی ہے۔ وہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ جو شخص ایک غیبی پناہ سے بول رہا ہے وہ اس بات سے مخصوص ہے کہ اس کے کلام میں شوکت اور بیعت ہو اور یہ اسی کا جگر اور دل ہوتا ہے کہ ایک فرد تمام جہاں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ یقینا منتظر رہو کہ وہ دن آتے ہیں بلکہ نزدیک ہیں کہ دشمن رو سیاہ ہو گا اور دوست نہایت ہی بشاش ہوں گے کون ہے دوست؟ وہی جس نے نشان دیکھنے سے پہلے مجھے قبول کیا اور جس نے اپنی جان اور مال اور عزت کو ایسا فدا کردیا ہے کہ گویا اس نے ہزاروں نشان دیکھ لئے ہیں۔ سو یہی میری جماعت ہے اور میرے ہیں جنہوں نے مجھے اکیلا پایا اور میری مدد کی اور مجھے غمگین دیکھا اورمیرے غمخوار ہوئے اور ناشنا سا ہو کر آشنائوں کا ادب بجا لائے۔ خداتعالیٰ کی ان پر رحمت ہو۔اگر نشانوں کے دیکھنے کے بعد کوئی کھلی صداقت کو مان لے گا تو مجھے کیا اور اس کو اجر کیا اور حضرت عزت میں اس کی عزت کیا۔ مجھے درحقیقت انہوں نے ہی قبول کیا ہے۔ جنہوں نے دقیق نظر سے مجھ کو دیکھا اور فراست سے میری باتوں ک وزن کیا اور میرے حالات کو جانچا اور میرے کلام کو سنا اور اس میں غور کی تب اسی قدر قرائن سے حق تعالیٰ نے ان کے سینوں کو کھول دیا اور میرے ساتھ ہوگئے۔ میرے ساتھ وہی ہے۔ جو میری مرضی کے لئے اپنی مرضی کو چھوڑتا ہے اوراپنے نفس کے ترک اور اخذ کے لئے مجھے حکم بتاتا ہے اور میری راہ پر چلتا ہے اوراطاعت میں فانی ہے اور امانیت کی جلد سے باہر آگیا ہے۔ مجھے آہ کھینچ کر یہ کہنا پڑتاہے کہ کھلے نشانوں کے طالب وہ تحسین کے لائق خطاب اورعزت کے لائق مرتبے خداوند کی جناب میں نہیں پا سکتے۔ جو ان راستبازوں کو ملیں گے۔ جنہوں نے چھپے ہوئے بھید کو پہنچان لیا اورجو اللہ جلشانہ کی چادر کے تحت میں ایک چھپا ہو ا بندہ تھا ۔ اس کی خوشبو ان کو آگئی۔ انسان کا اس میں کیا کمال ہے کہ مثلاً ایک شہزادہ کو اپنی فوج اور جاہ جلال میں دیکھ کر پھر اس کو سلام کر ے باکمال وہ آدمی ہے جو گدائوں کے پیرایہ میں اس کوپاوے اور شناخت کر لے۔ مگر میرے اختیار میں نہیں کہ یہ زیرکی کسی کو دوں ایک ہی ہے جو دیتا ہے۔ وہ جس کو عزیز رکھتا ہو ایمانی فراست اس کو عطا کرتا ہے۔ انہیں باتوں سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں اور یہی باتیں ان کے لئے جن کے دلوں میں کجی ہے۔ زیادہ تر کجی کا موجب ہو جاتی ہیں۔ اب میں جانتا ہوں کہ نشانوں کے بارہ میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں اور خداتعالیٰ جانتا ہے کہ یہ بات صحیح اور راست ہے کہ اب تک تین ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ وہ امور میرے لئے خداتعالیٰ سے صادر ہوئے ہیں۔ جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہیں اور آیندہ ان کا دروازہ بند نہیں۔ ان نشانوں کے لئے ادنیٰ ادنیٰ میعادوں کا ذکر کرنا یہ ادب سے دور ہے۔ خداتعالیٰ غنی بے نیاز ہے جب مکہ کے کافر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے کہ نشان کب ظاہر ہوں گے تو خداتعالیٰ نے کبھی یہ جواب نہ دیا کہ فلاں تاریخ نشان ظاہر ہوں گے۔ کیونکہ یہ سوال ہی بے ادبی سے پر تھا اور گستاخی سے بھرا ہوا تھا۔ انسان اس نابکار اور بے بنیاد دنیا کے لئے سالہا سال انتظاروں میں وقت خرچ کردیتا ہے۔ ایک امتحان دینے میں کئی برسوں سے تیاری کرتا ہے۔ وہ عمارتیں شروع کرا دیتا ہے جوبرسوں میں ختم ہوں۔ وہ وپودے باغ میں لگاتا ہے۔ جن کا پھل کھانے کے لئے ایک دور زمانہ تک انتظار کرنا ضروری ہے پھر خداتعالیٰ کی راہ میں کیوں جلدی کرتا ہے۔ اس کا باعث بجز اس کے کچھ نہیں کہ دین کو ایک کھیل سمجھ رکھا ہے انسان خداتعالیٰ سے نشان طلب کرتا ہے اوراپنے دل میں مقرر نہیں کر تا کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کی راہ میں کونسی جانفشانی کروں گا اور کس قدر دنیا کو چھوڑ دوں گا اورکہاں تک خدا تعالیٰ کے مامور بندے کے پیچھے ہوچلوں گا۔ بلکہ غافل انسان ایک تماشا کی طرح سمجھتا ہے حواریوں نے حضرت مسیح سے نشان مانگا تھا کہ ہمارے لئے مائدہ اترے تابعض شبہات ہمارے جو آپ کی نسبت ہیں دور ہو جائیں۔ پس اللہ جلشانہ قرآن کریم میں حکایتاً حضرت عیسیٰ کو فرماتا ہے کہ ان کو کہہ دے کہ میں اس نشان کو ظاہرکروں گا۔ لیکن پھر اگر کوئی شخص مجھ کو ایسا نہیں مانے گا کہ جو حق ماننے کا ہے۔ تو میں اس پر وہ عذاب نازل کروں گا جو آج تک کسی پر نہ کیا ہو گا۔ تب حواری اس بات کو سن کر نشان مانگنے سے تائب ہو گئے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جس قوم پر ہم نے عذاب نازل کیا ہے نشان دکھلانے کے بعد کیا ہے اور قرآن کریم میں کئی جگہ فرماتا ہے کہ نشان نازل ہونا عذاب نازل ہونے کی تہمید ہے۔ وجہ یہ کہ جو شخص نشان مانگتا ہے اس پر فرض ہو جاتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد یک لخت دینا سے دست بردار ہو جائے اور فقیرانہ دلق پہن لے او رخداتعالیٰ کی حکمت اور ہیبت دیکھ کر اس کا حق اد اکرے۔ لیکن چو نکہ غافل انسان اس درجہ کی فرمابراداری کر نہیں سکتا۔ اس لئے شرطی طور پر نشان دیکھنا اس کے حق میں وبال ہو جاتا ہے۔ کیونکہ نشان کے بعد خداتعالیٰ کی حجت اس پر پوری ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر پھر کامل اطاعت کے بجالانے میں کچھ کسر رکھے تو غضب الٰہی مستولی ہوتا ہے اور اس کا نابود کر دیتاہے۔
تیسرا سوال آپ کا استخارہ کے لئے ہیں جو درحقیقت استخبارہ ہے۔ پس آپ پر واضح ہو کہ جو مشکلات آپ نے تحریر فرمائی ہیں۔ درحقیقت استخارہ میں ایسی مشکلات نہیں ہیں۔ میری مراد میری تحریر میں صرف اس قدر ہے کہ استخارہ ایسی حالت میں ہو کہ جب جذبات محبت اور جذبات عداوت کسی تحریک کی وجہ سے جوش میں نہ ہوں۔ مثلاً ایک شخص کسی شخص سے عداوت رکھتا ہے اورغصہ اور عداوت کے اشتعال میں سو گیا ہے۔ تب وہ شخص اس کا دشمن ہے۔ اس کو خواب میں کتے یاسور کی شکل میں نظر آیا ہے یا کسی اور درندہ کی شکل میں دکھائی دیا ہے۔ تو وہ خیال کرتا ہے کہ شائد درحقیقت یہ شخص عنداللہ کتا یا سو ر ہی ہے۔ لیکن یہ خیال اس کا غلط ہے۔ کیونکہ جوش عداوت میں جب دشمن خواب میں نظر آئے تو اکثر درندوں کی شکل میں یا سانپ کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ درحقیقت وہ بد آدمی ہے کہ جو ایسی شکل میں ظاہر ہوا ایک غلطی ہے بلکہ چونکہ دیکھنے والے کی طبیعت اور خیال میں وہ درندوں کی طرح تھا۔ اس لئے خواب میں درندہ ہو کر اس کو دکھائی دیا۔ سو میرا مطلب یہ ہے کہ خواب دیکھنے والا جذبات نفس سے خالی ہو اور ایک آرام یا فتہ اور سراسر روبحق دل سے محض اظہار حق کی غرض سے استخارہ کرے۔ میں یہ عہد نہیں کر سکتاکہ ہر ایک شخص کو ہر ایک حالت نیک یا بد میں ضرور خواب آجائے گی۔ لیکن آپ کی نسبت میں کہتا ہوں کہ اگر چالیس روز تک روبحق ہو کر بشرائط مندرجہ آسمانی استخارہ کریں تو میں آپ کے لئے دعاکروں گا۔ کیا خوب ہو کہ یہ استخارہ میرے روبرو ہو۔تا میری توجہ زیادہ ہو۔ آپ پر کچھ بھی مشکل نہیں۔ لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں۔ مگر اس جگہ نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطرہ۔ کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی۔
سچی خواب اپنی سچائی کے آثار آپ ظاہر کردیتی ہے اوردل پر ایک نور کااثر ڈالتی ہے اور میخ آہنی کی طرح اندر کھب جاتی ہے اوردل اس کو قبول کرلیتا ہے اور اس کی نورانیت اور ہیبت بال بال پر طاری ہوجاتی ہے۔ میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر آپ میرے روبرو میری ہدایت اور تعلیم کے موافق اس کار میں مشغول ہوں تو آپ کے لئے بہت کوشش کروں گا۔ کیونکہ میرا خیال آپ کی نسبت بہت نیک ہے اور خداتعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ آپ کو ضائع نہ کرے اور رشد اور سعادت میں ترقی دے۔ اب میں نے آپ کا بہت وقت لے لیا۔ ختم کرتا ہوں۔ والسلام ۔ علیٰ من اتبع الہدیٰ۔
آپ کا مکرر خط پڑھ کر ایک کچھ زیادہ تفصیل کی محتاج معلوم ہوئی اور یہ ہے کہ استخارہ کے لئے ایسی دعاکی جائے کہ ہر ایک شخص کا استخارہ شیطان کے دخل سے محفوظ ہو۔ عزیز من یہ بات خداتعالیٰ کے قانون قدرت کے برخلاف ہے کہ وہ شیاطین کو ان کے مواضع مناسبت سے معطل کر دیوے۔ اللہ جلشانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وما ارسلنا من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطن فی امنیۃ فینسخ اللہ مایلقی الشیطان ثم یحکم اللہ ایۃواللہ علیھم الحکیمیعنی ہم نے کوئی ایسا رسول اور نبی نہیں بھیجا کہ اس کی یہ حالت نہ ہو کہ جب وہ کوئی تمنا کرے۔ یعنی اپنے نفس سے کوئی بات چاہے تو شیطان اس کی خواہش میں کچھ نہ ملاوے۔ یعنی جب کوئی رسول نہ کوئی نبی اپنے نفس کے جوش سے کسی بات کو چاہتا ہے تو شیطان اس میں بھی دخل دیتا ہے۔ تب وحی متلو جو شوکت اور ہبیت اور روشنی نام رکھتی ہے۔ اس دخل کو اٹھا دیتی ہے اور منشاء الٰہی کو مصفا کرکے دکھلا دیتی ہے۔ یہ بات اس کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کے دل میںجو خیالات اٹھتے ہیں اور جو کچھ خواطر اس کے نفس میں پید اہوتی ہے۔ وماینطق عن الھویٰ ان ھو الاوحی یوحیٰ لیکن قرآن کی وحی دوسری وحی سے جو صرف منجانب اللہ ہوتی ہیں تمیز کلی رکھتی ہے اور نبی کے اپنے تمام اقوال وحی غیر متلّو میں داخل ہوتے ہیں۔ کیونکہ روح القدس کی برکت اور چمک ہمیشہ نبی کے شامل حال رہتی ہے اور ہر ایک بات اس کی برکت سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ برکت روح القدس سے اس کلام میں رکھی جاتی ہے۔ لہذا ہر ایک جو نبی کی توجہ نام سے اور اس کے خیال کی پوری مصروفیت سے اس کے منہ سے نکلتی ہے۔ وہ بلا شبہ وحی ہوتی ہے۔ تمام احادیث اسی درجہ کی وحی میں داخل ہیں۔ جن کو غیر متلوو حی ہوتی ہے۔ اب اللہ جلشانہ‘ آیت موصوفہ ممدوحہ میں فرماتا ہے کہ اس ادنی درجہ کی وحی جو حدیث کہلاتی ہے۔ بعض صورتوں میں شیطان کا دخل بھی ہوجاتا ہے اور وہ اس وقت کہ جب نبی کا نفس ایک بات کے لئے تمنّا کرتا ہے تو اس کا اجتہاد غلطی کرجاتا ہے اور نبی کی اجتہادی غلطی بھی درحقیقت وحی کی غلطی ہے کیونکہ نبی تو کسی حالت میں وحی سے خالی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے نفس سے کھویا جاتا ہے اور خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ایک اٰ لہ کی طرح ہوتا ہے۔ پس چونکہ ہر ایک بات جو اس کے منہ سے نکلتی ہے وحی کہلائے گی نہ اجتہاد کی اب خدا تعالیٰ اس کا جواب قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کبھی نبی کی اس قسم کی وحی جس کو دوسرے لفظوں میں اجتہادی بھی کہتے ہیں مس شیطان سے مخلوط ہوجاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب بنی کوئی تمنّا کرتا ہے کہ یوں ہوجائے۔ تب ایساہی خیال اس کے دل میں گزرتا ہے۔ جس پر نبی مستقل رائے قائم کرنے کے لئے ارادہ کرلیتا ہے تب فی الفور وحی اکبر جو کلام الہیٰ اور وحی متلوّ شیطان کی دخل سے بکلی منزّہ ہوتی ہے کیونکہ وہ سخت ہیبت اور شوکت اور روشنی اپنے اندر رکھتی ہے اور قول ثقیل اور شدید النزول بھی ہے اور اس کی تیز شعائیں شیطان کو جلاتی ہے ۔ اس لئے شیطان اس کے نام سے دور بھاگتا ہے اور نزدیک نہیں آسکتااور نزدیک ملائک کی کامل محافظت اس کے ارد گرد ہوتی ہے لیکن وحی غیر متلوّ جس نبی کا اجتہاد بھی داخل ہے یہ قوت نہیں رکھتی ۔ اس لئے تمنّا کے وقت جو کھبی شاذ و نادر اجتہاد ک سلسلہ میں پیدا ہو جاتی ہے ۔ شیطان بنی یا رسول کے اجتہاد میں دخل دیتا ہے۔ پھر وحی متلوّ اس دخل کو اٹھادیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے بعض اجتہادات میں غلطی بھی ہوگئی ہے ۔ جو بعد میں رفع کی گئی۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ کا یہ قانون قدرت ہے کہ بنی بلکہ رسول کی ایک قسم کی وحی میں بھی جو وحی غیر متلّوہے۔ شیطان کا دخل بموجب قرآن کی تصریح کے ہوسکتا ہے تو پھر کسی دوسرے شخص کو کب یہ حق پہنچتا ہے کہ اس قانون قدرت کی تبدیلی کی درخواست کرے۔ ماسواس کے صفائی اور راستی خواب کی اپنی پاک باطنی اور سچائی اور طہارت پر موقوف ہے۔ ہی قدیم قانون قدرت ہے جو اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت ہم تک پہنچا ہے کہ سچی خوابوں کے لئے ضرور ہے کہ بیداری بیداری کی حالت میں انسان ہمیشہ سچا اور خدا تعالیٰ کے لئے راستبازہو اور کچھ شک نہیں کہ جو شخص اس قانون پر چلے گا اور اپنے دل کو راست گوئی اور راست روی اور راست منشیٰ کا پورا پابند کرلے گا۔ تواس کی خوابیں سچی ہوں گی۔ اللہ جل شانہ‘ فرماتا ہے قَد اَفلَحَ مَن زَکَّھَا یعنی جو شخص باطل خیالات اور باطل نیات اور باطل اعمال اور باطل عقائد سے اپنے نفس کو پاک کر لیوے۔ وہ شیطان کی بند سے رہائی پاجائے گا۔ آخرت میں عقو بات اخروی سے رستگار ہوگا اور شیطان اس پر غالب نہیں آسکے گا۔ ایسا ہی ایک دوسری جگہ فرماتا ہے انّ عبادی لیس لک علیھم سلطا یعنی اے شیطان میرے بندے جو ہیں جنہوں نے میری مرضی کی راہوں پر قدم مارا ہے۔ ان پر تیرا تسلط نہیں ہوسکتا۔ سوجب تک انسان تمام کجیوں اورنالائق خیالات اور بہیودہ طریقوں کو چھوڑ کر صرف آستانہ الٰہی پر گرا ہوا نہ ہوجائے۔ جب تک وہ شیطان کی کسی عادت سے مناسبت رکھتا ہے اور شیطان مناسبت کی وجہ سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس پر دوڑتا ہے۔
اورجب کہ یہ حالت ہے تو میں الٰہی قانون قدرت کے مخالف کون سی تدبیر کرسکتا ہوں کہ کسی سے شیطان اس کے خواب میں دور رہے۔ جو شخص ان راہوں پر چلے گا جو رحمانی راہیں ہیں خود شیطان شیطان اس سے دور رہے گا۔
اب اگر یہ سوال ہو کہ جبکہ شیطان کے دخل سے بکلی امن نہیں تو ہم کیوں کر اپنی خوابوں پر بھروسہ کرلیں کہ وہ رحمانی ہیں۔ کیا ممکن نہیں کہ ایک خواب کو ہم روحانی سمجھیں اور در اصل وہ شیطانی ہو اور یا شیطانی خیال کریں اور دراصل وہ رحمانی ہو توا س وہم کا جواب یہ ہے کہ رحمانی خواب اپنی شوکت اور برکت اور عظمت اور نورانیت سے خود معلوم ہو جاتی ہے۔ جو چیز پاک چشمہ سے نکلی ہے وہ پاکیزگی اور خوشبو اپنے اندر رکھتی ہے اور چیز ناپاک اور گندے پانی سے نکلی ہے اس کا گند اور اس کی بدبو فی الفور آجاتی ہے۔ سچی خوابیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ وہ ایک پاک پیغام کی طرح ہوتی ہیں۔ جن کے ساتھ پریشان خیالات کا کوئی مجموعہ نہیں ہوتا اور اپنے اندر ایک اثر ڈالنے والی قوت رکھتے ہیں اور دل ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں اور روح گواہی دیتی ہے کہ یہ منجانب اللہ ہے کیونکہ اس کی عظمت اور شوکت ایک فولادی میخ کی طرح دل کے اندر دھس جاتی ہے اور بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص سچی خواب دیکھتا ہے اور خداتعالیٰ اس کے کوئی ہمشکل دکھلاتا ہے۔ تب اس خواب کو دوسرے کی خواب سے قوت مل جاتی ہے۔ سو بہتر ہے کہ آپ کسی اپنے دوست کو رفیق خواب کر لیں جو صلاحیت اور تقویٰ رکھتا ہو اور اس کا کہہ دیں کہ جب کوئی خواب دیکھے لکھ کر دکھلا دے اور آپ بھی لکھ کر دکھلا دیں۔ تب امید ہے کہ اگر سچی خواب آئے گی تو ا س کے کئی اجزاء آپ کی خواب میں اور اس رفیق کی خواب میں مشترک ہوں گے اورایسا اشتراک ہو گا کہ آپ تعجب کریں گے افسوس کہ اگر میرے روبرو آپ ایساارادہ کرسکتے ہیں تو میں غالب امید رکھتا تھا کہ کچھ عجوبہ قدرت ظاہر ہوتا میری حالت ایک عجیب حالت ہے۔ بعض دن ایسے گزرتے ہیں کہ الہامات الٰہی بارش کی طرح برستے ہیں اور بعض پیشگوئیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک منٹ کے اندر ہی پوری ہو جاتی ہیں اور بعض مدت دراز کے بعد پوری ہوتی ہیں۔ صحبت میں رہنے والا محروم نہیں رہ سکتا۔ کچھ نہ کچھ تائید الٰہی دیکھ لیتا ہے۔ جو اس کی باریک بین نظر کے لئے کافی ہوتی ہے۔ اب میں متواتر دیکھتا ہوں کہ کوئی امر ہونے والا ہے۔ میں قطعاً نہیں کہہ سکتا کہ وہ جلد یا دیر سے ہو گا۔ مگر آسمان پر کچھ تیاری ہورہی ہے۔ تاخداتعالیٰ بدظنوں کو ملزم اور رسوا کرے۔ کوئی دن یا رات کم گزرتی ہے۔ جو مجھ کو اطمینان نہیں دیا جاتا۔ یہی خط لکھتے لکھتے یہ الہام ہوا۔ الحی الحق ویکشف الصدق ویخسر الخاسرون یاتی قمر الانبیاء وامرک بتائی ان ربک فعال لما یرید یعنی حق ظاہر ہو گا اور صدق کھل جائے گا اور جنہوں نے بدظنیوں سے زیان اٹھایا وہ ذلت اوررسوائی کا زیان بھی اٹھائیں گے۔ نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام ظاہر ہو جائے گا۔ تیرا رب جو چاہتا ہے کہ کرتا ہے مگر میں نہیں جانتا کہ یہ کب ہوگا اور جو شخص جلدی کرتا ہے۔ خداتعالیٰ کو اس کی ایک ذرہ بھی پرواہ نہیں وہ غنی ہے دوسرے کا محتاج نہیں۔ اپنے کاموں کو حکمت اور مصلحت سے کرتا ہے اورہر ایک شخص کی آزمائش کر کے پیچھے سے اپنی تائید دکھلاتا ہے کہ پہلے نشان ظاہر ہوتے تو صحابہ کبار اور اہل بیت کے ایمان اور دوسرے لوگوں کے ایمانوں میں فرق کیا ہوتا۔ خداتعالیٰ اپنے عزیزوں اور پیاروں کی عزت ظاہر کرنے کے لئے نشان دکھلانے میں کچھ توقف ڈال دیتا ہے۔ تا لوگوں پر ظاہر ہو کہ خداتعالیٰ کے خاص بندے نشانوں کے محتاج نہیں ہوتے اور تا ان کی فراست اور دوربینی سب پر ظاہر ہو جائے اور ان کے مرتبہ عالیہ میں کسی کا کلام نہ ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہتر آدمی اوائل میں اس بد خیال سے پھر گئے اور مرتد ہو گئے کہ آپ نے ان کو کوئی نشان نہیں دکھلاتا۔ ان میں سے بار ہ قائم رہے اور بارہ میں سے پھر ایک مرتد ہو گیا اور جو قائم رہے انہوںنے آخر میں بہت سے نشان دیکھے اور عنداللہ صادق شمار ہوئے۔
مکرر میں آپ کو کہتاہوں کہ اگر آپ چالیس روز تک میری صحبت میں آجائیں تو مجھے یقین ہے کہ میرے قرب وجوار کا اثر آپ پر پڑے اور اگرچہ میں عہد کے طور پر نہیں کہہ سکتا۔ مگر میرا دل شہادت دیتا ہے کہ کچھ ظاہر ہو گا جو آپ کو کھینچ کر یقین کی طرف لے جائے گا اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کچھ ہونے والا ہے۔ مگر ابھی خداتعالیٰ اپنی سنت قدیمہ سے دو گروہ بنانا چاہتا ہے۔اگر ایک وہ گروہ جو نیک ظنی کی برکت سے میری طرف آتے جاتے ہیں۔ دوسرے وہ گروہ جو بد ظنی کی شامت سے مجھ سے دور پڑتے جاتے ہیں۔
میں نے آپ کے اس بیان کو افسوس کے ساتھ پڑھا جو آپ فرماتے ہیں کہ مجرو قیل وقال سے فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ میں آپ کو ازراہ تو دودو مہربانی و رحم اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اکثر فیصلے دنیا میں قیل و قال سے ہی ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ صرف باتوں کے ثبوت یا عدم ثبوت کے لحاظ سے ایک شخص کو عدالت نہایت اطمینان کے ساتھ پھانسی دے سکتی ہے اور ایک شخص کو تہمت خون سے بری کر سکتی ہے۔ واقعات کے ثبوت یا عدم ثبوت پر تمام مقدمات فیصلہ پاتے ہیں۔ کسی فریق سے یہ سوال نہیں ہوتاکہ کوئی آسمانی نشان دکھلاوے۔ تب ڈگری ہو گی یا فقط اس صورت میں مقدمہ ڈسمس ہوگا کہ جب مدعا علیہ سے کوئی کرامت ظہور میں آوے بلکہ اگر کوئی مدعی بجائے واقعات کے ثابت کرنے کے ایک سوٹی کا سانپ بنا کر دکھلا دیوے یا ایک کاغذ کا کبوتر بنا کر عدالت میں اڑ دے تو کوئی حاکم صرف ان وجوہات کی رو سے اس کو ڈگری نہیں دے سکتا۔ جب تک باقاعدہ صحت دعویٰ ثابت نہ ہو اور واقعات پرکھے نہ جائیں۔ پس جس حالت میں واقعات کا پرکھنا ضروری ہے اور میر ایہ بیان ہے کہ میرے تمام دعاوی قرآن کریم اور احادیث نبویہ اور اولیاء گزشتہ کی پیشگوئیوں سے ثابت ہیں اور جو کچھ میری مخالف تاویلات سے اصل مسیح کو دوبارہ دنیا میں نازل کرنا چاہتے ہیں نہ صرف عدم ثبوت کا داغ ان پر ہے۔ بلکہ یہ خیال بہ بداہت قرآن کریم کی نصوص بینہ سے مخالف پڑا ہوا ہے اور اس کے ہرایک پہلو میں ا س قدر مفاسد ہیں اور اس قدر خرابیاں ہیں کہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص ان سب کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر پھر اس کو بدیہی البطلان نہ کہہ سکے۔ تو پھر ان حقائق اور معارف اور دلائل اوربراہین کو کیونکر فضول قیل و قال کہہ سکتے ہیں۔ قرآن کریم بھی تو بظاہر قیل وقال ہی ہے جو عظیم الشان معجزہ اور تمام معجزات سے بڑھ کر ہے۔ معقولی ثبوت تو اوّل درجہ پر ضروری ہوئے ہیں۔ بغیر اس کے نشان ہیچ ہیں۔ یاد رہے کہ جن ثبوتوں پر مدعا علیہ کو عدالتوں میں سزائے موت دی جاتی ہے وہ ثبوت ا ن ثبوتوں سے کچھ بڑھ کرنہیں ہیں۔ جو قرآن اور حدیث اور اقوال اکابر او راولیاء کرام سے میرے پاس موجود ہیں۔ مگر غور سے دیکھنا اور مجھ سے سننا شرط ہے۔
میں نے ان ثبوتوں کو صفائی کے ساتھ کتاب آئینہ کمالات اسلام میں لکھا ہے اور کھول کر دکھلاتا ہے کہ جو لوگ اس انتظار میں اپنی عمر او ر وقت کو کھوتے ہیںکہ حضرت مسیح پھر اپنے خاکی قالب کے ساتھ دنیامیں آئیں گے وہ کس قدر منشاء کلام الٰہی سے دور جا پڑے ہیںاور کیسے چاروں طرف کے فسادوں او رخرابیوں نے ان کو گھیر لیا ہے۔ میں نے ا س کتاب میں ثابت کر دیا ہے مسیح موعود کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور دجال کا بھی۔ لیکن جس طرز سے قرآن کریم میں یہ بیان فرماتا ہے وہ جبھی صحیح اور درست ہو گا جب مسیح موعود سے مراد کوئی مثیل مسیح لیا جائے جو اسی امت میں پید اہو اور نیز دجال سے مراد ایک گروہ لیا جائے او ردجال خود گروہ کو کہتے ہیں بلاشبہ ہمارے مخالفوں نے بڑی ذلت پہنچانے والی غلطی اپنے لئے اختیار کی ہے گویا قرآن اورحدیث کو یک طرف چھوڑ دیا ہے۔ وہ اپنی نہایت درجہ کی بلاہت سے اپنی غلطی پر متنبہ نہیں ہوتے اور اپنے موٹے اور سطحی خیالات پر مغرور ہیں۔ مگر ان کو شرمندہ کرنے والا وقت نزدیک آتا جاتا ہے۔
میں انہیں جانتا کہ میرے اس خط کا آپ کے دل پر کیا اثر پڑے گا۔ مگر میں نے ایک واقعی نقشہ آپ کے سامنے کھینچ کر دکھلا دیا ہے۔ ملاقات نہایت ضروری ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جس طرح ہو سکے ۲۷؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کے جلسہ میں تشریف لاویں۔ انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے بہت مفید ہو گا اور للہ سفر کیا جاتا ہے۔ وہ عنداللہ ایک قسم عبادت کے ہوتا ہے۔ اب دعا پر ختم کر تاہوں۔ ایدکم اللہ من عندہ ورحمکم فی الدنیا والاخیر۔
والسلام
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۱۰؍ دسمبر ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔ اس خط کو کم سے کم تین مرتبہ غور سے پڑھیں۔ یہ خط اگرچہ بظاہر آپ کے نام ہے اس بہت سی عبارتیں دوسروں کے اوہام دور کرنے کے لئے ہیں۔ گو آپ ہی مخاطب ہیں۔
مکتوب نمبر(۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سردار محمد علی خاں صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ مجھ کو آج کی ڈاک میں ملا۔ آتھم کے زندہ رہنے کے بارے میں میرے دوستوں کے بہت خط آئے۔ لیکن یہ پہلا خط ہے جو تذبذب او رتردد اور شک اور سو ظن سے بھر اہوا تھا ایسے ابتلاء کے موقعہ پر جو لوگ اصل حقیقت سے بے خبر تھے جس ثابت قدمی سے اکثر دوستوں نے خط بھیجے ہیں تعجب میں ہوں کہ کس قدر سوز یقین کا خداتعالیٰ نے ان کے دلوں میں ڈال دیا اوربعض نے ایسے موقعہ پر نئے سرے کی اس نیت سے تا ہمیں زیادہ ثواب ہو( ان سے دوبارہ بیعت کرنے والوں میں چودہری رستم علی رضی اللہ عنہ کا نام مجھے معلوم ہے۔ عرفانی) بہرحال آپ کا خط پڑھنے سے اگرچہ آپ کے ان الفاظ سے بہت رنج ہوا۔ جن کے استعمال کی نسبت ہرگز امید نہ تھی۔ لیکن چونکہ دلوں پر اللہ جل شانہ کا تصرف ہے اس لئے سوچا کہ کسی وقت اگر اللہ جلشانہ نے چاہا تو آپ کے لئے دعا کی ہے۔ نہایت مشکل یہ ہے کہ آپ کو اتفاق ملاقات کا کم ہوتا ہے اور دوست اکثر آمد ورفت رکھتے ہیں۔ کتنے مہینوں سے ایک جماعت میر ے پا س رہتی ہے۔ جو کبھی پچاس کبھی ساٹھ اور کبھی سو سے بھی زیادہ ہوتے ہیںا ورمعارف سے اطلاع پاتے رہتے ہیں اور آپ کا خط کبھی خواب خیال کی طرح آجاتا ہے اور اکثر نہیں۔
اب آپ کے سوال کی طرف توجہ کر کے لکھا ہوں کہ جس طرح آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں بلکہ درحقیقت یہ فتح عظیم ہے۔ مجھے خداتعالیٰ نے بتلایا ہے کہ عبداللہ آتھم نے حق کی عظمت قبول کر لی اور سچائی کی طرف رجوع کرنے کی وجہ سے سزائے موت سے بچ گیا ہے اور اس کی آزمائش یہ ہے کہ اب اس سے ان الفاظ میں اقرار لیا جائے تا اس کی اندورنی حالت ظاہر ہو۔ یا اس پر عذاب نازل ہو۔ میں نے اس غرض سے اشتہار دیا ہے کہ آتھم کو یہ پیغام پہنچایا جائے کہ اللہ جلشانہ کی طرف یہ خبر ملی ہے کہ تو نے حق کی طرف رجوع کیا ہے اور اگر وہ اس کا قائل ہوجائے تو ہمارا مدعا حاصل ورنہ ایک ہزار روپیہ نقد بلاتوقف اس کو دیا جائے کہ وہ قسم کھاجائے کہ میں نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا اور اگروہ اس قسم کے بعد ایک برس کے بعد (تک عرفانی) ہلاک نہ ہو تو ہم ہرطرح سے کاذب ہیں اور اگر وہ قسم نہ کھائے تو وہ کاذب ہے آپ اس کا سمجھ سکتے ہیں کہ اگر تجربہ سے اس نے مجھ کو کاذب یقین کر لیاہے اور وہ اپنے مذہب پر قائم ہے تو قسم کھانے میں اس کا کچھ حرج نہیں۔ لیکن اگر اس نے قسم نہ کھائی اور باوجود یہ کہ وہ کلمہ کے لئے ہزار روپیہ اس کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اگر وہ گریز کر گیا تو آپ کیا سمجھیں گے۔ اب وقت نزدیک ہے۔ اشتہار آئے چاہتے ہیں۔ میں ہزار روپیہ کے لئے متردد تھاکہ کس سے مانگوں۔ ایسا دیندار کون ہے جو بلاتوقف بھیج دے گا۔ آخر میں نے ایک شخص کی طر ف لکھا ہے اگر اس نے دے دیا تو بہتر ہے ورنہ یہ دنیا کی نابکار جائیداد و بیچ کر خود اس کے آگے جاکر رکھوں گا۔ تا کامل فیصلہ ہو جائے۔
اور جھوٹوںکا منہ سیاہ ہو جائے اور خداتعالیٰ نے کئی دفعہ میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اس جماعت پرایک ابتلاء آنے والا ہے۔ تا اللہ تعالیٰ دیکھے کہ کون سچا ہے اورکون کچا ہے اور اللہ جلشانہ کی قسم ہے کہ میرے دل میں اپنی جماعت کا انہیں کے فائدہ کے لئے جوش مارتا ہے۔ ورنہ اگر کوئی میرے ساتھ نہ ہوتو مجھے تنہائی میں لذت ہے۔ بے شک فتح ہو گی۔ اگر ہزار ابتلاء درمیان ہو تو آخر ہمیں فتح ہو گی۔ اب ابتلائوں کی نظیر آپ مانگتے ہیں ان کی نظیریں بہت ہیں۔ آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بادشاہ ہونے کا جو وعدہ کیا اور وہ ان کی زندگی میں پورا نہ ہوا۔ تو ستر آدمی مرتد ہو گئے۔ حدیبہ کے قصبہ میں تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ کئی سچے آدمی مرتد ہو گئے۔ وجہ یہ تھی کہ اس پیشگوئی کی کفار مکہ کو خبر ہو گئی تھی اس لئے انہوں نے شہر کے اندر داخل نہ ہونے دیا اور صحابہ پانچ ہزار سے کم نہیں تھے۔ یہ امر کس قد رمعرکہ کا امر تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے صادقتوں کو بچایا۔ مجھے اور میرے خاص دوستوں کو آپ کے اس خط سے اس قدر افسوس ہو ا کہ اندازہ سے زیادہ ہے۔ یہ کلمہ آپ کا کہ مجھے ہلاک کیا کس قدر اس اخلاص سے دور ہے جو آپ سے ظاہر ہوتا رہا۔
ہمارا تو مذہب ہے کہ اگر ایک مرتبہ نہیں کروڑ مرتبہ لوگ پیش گوئی نہ سمجھیں۔ یا اس رات کے طور پر ظاہر ہو تو خداتعالیٰ کے صادق بندوں کا کچھ بھی نقصان نہیں۔ آخر وہ فتح یاب ہو جاتے ہیں۔ میں نے اس فتح کے بارے میں لاہور پانچ ہزار اشتہار چھپوایا ہے اور ایک رسالہ تالیف کیا ہے۔ جس کانام انوارالسلام ہے وہ بھی پانچ ہزار چھپے گا۔ آپ ضرور اشتہار اور رسالہ کو غور سے پڑھیں۔ اگر خداتعالیٰ چاہے تو آپ کو اس سے فائدہ ہوگا۔ ایک ہی وقت میں اور ایک ہی ڈاک میں آپ کا خط اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کاخط پہنچا۔ مولوی صاحب کا اس صدق اور ثبات کا خط جس کا پڑھ کر رونا آتا تھا۔ ایسے آدمی ہیں جن کی نسبت میں یقین رکھتا ہوں کہ اس جہاں میں بھی میرے ساتھ ہوں گے اور اس جہاں میں بھی میرے ساتھ ہوں گے۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ اس خط پر کوئی تاریخ نہیں اور لفافہ بھی محفوظ نہیں تاہم خط کے مضمون سے ظاہر ہے کہ ستمبر ۱۸۹۴ء کاخط ہے۔ حضرت نواب صاحب نے جس جرات اور دلیری سے اپنے شکوک کو پیش کیا ہے۔ اس سے حضرت نواب صاحب کی ایمانی اور اخلاقی جرات کا پتہ چلتا ہے۔ انہوںنے کسی چیز کو اندھی تقلید کے طور پر ماننا نہیں چاہا۔ جو شبہ پید اہوا اس کو پیش کر دیا۔ خداتعالیٰ نے جو ایمان انہیں دیا ہے۔ وہ قابل رشک ہے۔خداتعالیٰ نے اس کا ا جر انہیں یہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نسبت فرزندی کی عزت نصیب ہوتی۔ یہ موقعہ نہیں کہ حضرت نواب صاحب کی قربانیوں کا میں ذکر کروں جو انہوںنے سلسلہ کے لئے کی تھیں۔
بہت ہیں جن کے دل میں شبہات پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان کو اخلاقی جرات کی کمی کی وجہ سے اگل نہیں سکتے۔ مگر نواب صاحب کو خداتعالیٰ نے قابل رشک ایمانی قوت اور ایمانی جرات عطا کی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر کسی شخص کے دل میں کوئی شبہ پید اہو تو اسے قے کی طرح باہر نکال دینا چاہئے۔ اگر اسے اندر سے رہنے دیا جائے تو بہت برا اثر پیدا کر تا ہے۔ غرض حضرت نواب صاحب کے اس سوال سے جو انہوں نے حضرت اقدس سے کیا۔ ان کے مقام اور مرتبہ پر کوئی مضر اثر نہیں پڑتا بلکہ ان کی شان کو بڑھاتا ہے اور واقعات نے بتا دیا کہ وہ خداتعالیٰ کے فضل اور رحم سے اپنے ایمان میں سے بڑے مقام پر تھے۔ اللم زدفزد۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ چونکہ اس عاجز نے پانچ سو روپیہ آں محب کا قرض دینا ہے۔ مجھے یا د نہیں کہ میعاد میں سے کیا باقی رہ گیاہے اور قرضہ کاایک نازک اور خطرناک معاملہ ہوتا ہے۔ میرا حافظہ اچھا نہیں یاد پڑتا ہے کہ پانچ برس میں ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا اور کتنے برس گزر گئے ہوں گے۔ عمر کا کچھ اعتبار نہیں۔ آپ براہ مہربانی اطلاع بخشیں کہ کس قدر میعاد باقی رہ گئی ہے۔ تاحتی الوسع اس کافکر رکھ کر توفیق بار یتعالیٰ میعاد کے اندر اندر اد اہو سکے اور اگر ایک دفعہ نہ ہوسکے تو کئی دفعہ کر کے میعاد کے اندر بھیج دوں۔ امید کہ جلد اس سے م مطلع فرماویں۔ تا میں اس فکر میں لگ جائوں۔ کیونکہ قرضہ بھی دنیا کی بلائوں میں سے ایک سخت بلاہے اور راحت اسی میں ہے کہ اس سے سبکدوشی ہو جائے۔
دوسری بات قابل استفسار یہ ہے کہ مکرمی اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب قریباً دو ہفتہ سے قادیان تشریف لائے ہوئے ہیں اور آپ نے جب آپ کا اس عاجز کا تعلق اور حسن ظن تھا۔ بیس روپیہ ماہوار ان کو سلسلہ کی منادی اور واعظ کی غرض سے دنیا مقرر کیا گیاتھا۔ چنانچہ آپ نے کچھ عرصہ ان کودیا امید کہ اس کا ثواب بہرحال آپ کو ہوگا۔ لیکن چند ماہ سے ان کو کچھ نہیں پہنچا۔ اب اگر اس وقت مجھ کو اس بات کے ذکر کرنے سے بھی آپ کے ساتھ دل رکتا ہے۔ مگر چونکہ مولوی صاحب موصوف اس جگہ تشریف رکھتے ہیں۔ اس لئے آپ جو مناسب سمجھیں میرے جواب کے خط میں اس کی نسبت تحریر کردیں۔ حقیقت میں مولوی صاحب نہایت صادق دوست اور عارف حقائق ہیں۔ وہ مدراس اور بنگلور کی طرف دورہ کر کے ہزار ہا آدمیوں کے دلوں سے تکفیر اور تکذیب کے غبار کو دور کر آئے ہیں اور ہزار ہا کو ا س جماعت میں داخل کر آئے ہیں اور نہایت مستفیم اور قوی الایمان اور پہلے سے بھی نہایت ترقی پر ہیں۔
ہماری جماعت اگرچہ غرباء اور ضعفاء کی جماعت ہے۔ لیکن العزیز یہی علماء اور محققین کی جماعت ہے اور انہی کو میں متقی اور خداترس اور عارف حقائق پاتا ہوں اورنیک روحوں اور دلوں کو دن بدن خدا تعالیٰ کھینچ کر اس طرف لاتا ہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۹؍ دسمبر ۱۸۹۴ء
مکتوب نمبر(۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مولوی صاحب کو کل ایک دورہ مرض پھر ہوا۔ بہت دیر تک رہا۔ مالش کرانے سے صورت افاقہ ہوئی۔ مگر بہت ضعف ہے۔ا للہ تعالیٰ شفا بخشے۔
اس جگہ ہماری جماعت کا ایک قافلہ تحقیق السنہ کے لئے بہت جوش سے کام رہا ہے اور یہ اسلام کی صداقت پرایک نئی دلیل ہے۔ جو تیرہ سو برس سے آج تک کسی کی اس طرف توجہ نہیں ہوئی۔ اس مختصر خط میں آپ کو سمجھا نہیںسکتا کہ یہ کس پایہ کا کام ہے۔ اگر آپ کو ایک ماہ تک اس خدمت میں مرزا خدابخش صاحب کوشریک کریں اور وہ قادیان میں رہیں تو میری دانست میں بہت ثواب ہو گا۔ آیندہ جیسا کہ آپ کی مرضی ہو۔ دنیا کے کام نہ تو کسی نے پورے کئے اور نہ کرے گا۔ دنیا دار لوگ نہیں سمجھتے کہ ہم کیوں دنیامیں آئے اور کیوں جائیں گے۔ کون سمجھائے جبکہ خداتعالیٰ نے سمجھایا ہو۔ دنیا کے کام کرنا گناہ نہیں۔ مگر مومن وہ ہے جودرحقیقت دین کو مقدم سمجھے اورجس طرح اس ناچیز اور پلید دنیا کی کامیابیوں کے لئے دن رات سوچتا یہاں تک کہ پلنگ پر لیٹے بھی فکر کرتا ہے اور اس کی ناکامی پر سخت رنج اٹھاتا ہے۔ ایسا ہی دین کی غمخواری میں بھی مشغول رہے۔ دنیا سے دل لگانا بڑا دھوکا ہے۔ موت کاذرا اعتبار نہیں موت ہر ایک سال نئے کرشمے دکھلاتی رہتی ہے۔ دوستوں ک دوستوں سے جد اکرتی اور لڑکوں کو باپوں سے، اور باپوں کو لڑکوں سے علیحدہ کر دیتی ہے۔
مورکھ وہ انسان ہے جو اس ضروری سفر کا کچھ بھی فکر نہیں رکھتا۔ خداتعالیٰ اس شخص کی عمر بڑھا دیتا ہے۔ جو سچ مچ اپنی زندگی کاطریق بدل کر خد ا تعالیٰ ہی کاہو جاتا ہے۔ ورنہ اللہ جلشانہ فرماتاہے۔ قل ما یعباء بکم ربی لوکا دعاء کم
یعنی ان کو کہہ دو کہ خدا تعالیٰ تمہاری پرواہ کیا رکھتا ہے۔ا گر تم اس کی بندگی و اطاعت نہ کرو۔ سو جاگنا چاہئے اور ہوشیار ہو جانا چاہئے اور غلطی نہیں کھانا چاہئے کہ گھر سخت بے بنیاد ہے۔ میں نے اس لئے کہا کہ میں اگر غلطی نہیں کرتا تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان دنوں میں دنیوی غم وہم یں اعتدال سے زیادہ مصروف ہیں اور دوسرا پلہ ترازو کا کچھ خالی سا معلوم ہوتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ تحریریں آپ کے دل کیا اثر کریں یا کچھ بھی نہ کریں۔ کیونکہ بقول آپ کے وہ عتقادی امر بھی اب درمیان نہیں جو بظاہر پہلے تھے۔ میں نہیں چاہتا کہ ہماری جماعت میں سے کوئی ہلاک ہو۔ بلکہ چاہتا ہوں کہ خود خداتعالیٰ قوت بخشے اور زندہ کرے۔ کاش اگر ملاقات کی سرگرمی بھی آپ کے دل میں باقی رہتی تو کبھی کبھی ملاقات سے کچھ فائدہ ہو جاتا۔ مگر اب یہ امید بھی مشکلات میں پڑ چکی ہے۔ کیونکہ اعتقادی محرک باقی نہیں رہا۔اگر کوئی لاہور وغیرہ کسی انگریز حاکم کا جلسہ ہو جس میں خیالی طور پر داخل ہونا آپ اپنی دنیا کے لئے مفید سمجھتے ہوں تو کوئی دنیا کاکام آپ کو شمولیت سے نہیں روکے گا۔ خداتعالیٰ قوت بخشے۔
بیچارہ نورالدین جو دنیاکو عموماً لات مار کر اس جنگل قادیان میں آبیٹھا ہے بے شک قابل نمونہ ہے۔ بہتری تحریکیں اٹھیں کہ آپ لاہور میں رہیں اور امرتسر میں رہیں۔ دنیاوی فائدہ طباعت کی رو سے بہت ہو گا۔ مگر کسی کی بات انہوں نے قبول نہیں کی۔ میں یقینا سمجھتا ہون کہ انہوں نے سچی توبہ کر کے دین پر مقدم رکھ لیا ہے۔ خد اتعالیٰ ان کو شفاء بخشے اور ہماری جماعت کو توفیق عطا کرے کہ ان کے نمونہ پر چلیں آمین۔ کیا آپ بالفعل اس قدر کام کر سکتے ہیں کہ ایک ماہ کے لئے اور کاموں کو پس انداز کر کے مرزا خد ابخش صاحب کو ایک ماہ کے بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۸؍ اپریل ۱۸۹۵ء
نوٹ:۔ آتھم کی پیشگوئی پر حضرت نواب صاحب کو بتلایا تھا اور انہیں کچھ شکوک پید ا ہوئے تھے۔ مگر وہ بھی اخلاص اور نیک نیتی پر منبی تھے۔ وہ ایک امر جوان کی سمجھ میں نہ آوے ماننا نہیں چاہتے تھے اور اسی لئے انہوں نے حضرت اقدس کو ایسے خطوط لکھے ہیں جن سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ گویا کوئی تعلق سلسلہ سے باقی نہ رہے گا۔ مگر خداتعالیٰ نے انہیں ضائع نہیں کیا اپنی معرفت بخشی اور ایمان میں قوت عطا فرمائی۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزی محبی اخویم خان صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا محبت نامہ پہنچا۔ میں بوجہ علالت طبع کچھ لکھ نہیں سکا۔ کیونکہ دورہ مرض کا ہو گیاتھا اور اب بھی طبیعت ضعیت ہے۔ خداتعالیٰ آپ کو اپنی محبت میں ترقی بخشے اور اپنی اس جادوانی دولت کی طرف کھینچ لیوے جس پر کوئی زوال نہیں آسکتا کبھی کبھی اپنے حالات خیریت آیات سے ضرور اطلاع بخشا کریں کہ خط بھی کسی قدر حصہ ملاقات کا بخشتا ہے۔ مجھے آپ کی طرف سے دلی خیال ہے اور چاہتا ہوں کہ آپ کی روحانی ترقیات بحشپم خود دیکھوں مجھے جس وقت جسمانی قوت میں اعتدال پید اہوا تو آپ کے لئے ہمیشہ توجہ کاشروع کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل اور توفیق شامل حال کرے۔ آمین۔
والسلام
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍ دسمبر ۱۸۹۵ء
روز پنجشنبہ
مکتوب نمبر(۱۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویمنواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ دو سو روپیہ کے نصف نوٹ آج کی تاریخ آگئے۔ عمارت کا یہ حال ہے کہ تخمینہ کیا گیاہے کہ نو سو رپیہ تک پہلی منزل جس پر مکان مقصود بنانے کی تجویز ہے ختم ہو گی۔ کل صحیح طورپر تخمینہ کو جانچا گیا ہے۔ اب تک …… روپیہ تک لکڑی اور انیٹ اور چونہ اور مزدوروں کے بارے میں خرچ ہوا ہے۔ معماران کی مزدوری ……سے الگ ہے۔ اس لئے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ پہلی منزل کے تیار ہونے کے بعد بالفعل عمارت کو بند کردیا جائے۔ کیونکہ کوئی صورت اس کی تکمیل کی نظر نہیں آتی۔ یہ اخراجات گویا ہرروز پیش آتے ہیں۔ ان کے لئے اوّل سرمایہ ہو تو پھر چل سکتے ہیں۔ شائد اللہ جلشانہ اس کا کوئی بندوبست کر دیوے۔ بالفعل اگر ممکن ہو سکے تو آں محب بجائے پانچ سو روپیہ کے سات سو روپیہ کی امداد فرما دیں۔ دو سو روپیہ کی جو کمی ہے وہ کنویں کے چندہ میں سے پوری کر دی جائے گی اور بالفعل کنواں بنانا موقوف رکھا جائے گا۔ پس اگر سات سو روپیہ آپ کی طرف سے ہو اور دو سو روپیہ کنویں کے اس طرح پر نو سو روپیہ تک منزل انشاء اللہ پوری ہو جائے گی اور کیا تعجب ہے کچھ دنوں کے بعد کوئی اور صاحب پیدا ہو جائیں تو وہ دوسری منزل اپنے خرچ سے بنوا لیں۔ نیچے کی منزل مردانہ رہائش کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ وہ زنانہ مکان سے ملی ہوئی ہے۔ مگر اوپر کی منزل اگر ہوجائے تو عمدہ ہے۔
مکان مردانہ بن جائے جس کی لاگت بھی اسی قدر یعنی نوسو یا ہزار روپیہ ہو گا۔ میں شرمندہ ہوں کہ آپ کو اس وقت میں نے تکلیف دی اور ذاتی طور پر مجھ کو کسی مکان کی حاجت نہیں۔ خیال کیا گیا تھا کہ نیچے کی منزل میں ایسی عورتوں کے لئے مکان تیار ہو گا جو مہمان کے طور پر آئیں اور اوپر کی منزل مردانہ مکان ہو۔ سو اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس خیال کو پورا کر دے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۴؍ مئی ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔ جب یہ مکان بن رہا تھا تو خاکسار عرفانی ان ایام میں یہاں تھا۔ گرمی کو موسم تھا۔ گول کمرے میں دوپہر کا کھانا حضرت کھایا کرتے تھے اور دستر خوان پر گڑنبہ ضرور آیا کرتا تھا۔ حضرت ان ایام میں بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ ذاتی طورپر ہمیں کسی مکان کی ضرورت نہیں۔ مہانوں کو جب تکلیف ہوتی ہے تو تکلیف ہوتی ہے۔ یہ لوگ خدا کے لئے آتے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ان کے آرام کا فکر کریں۔
خداتعالیٰ نے جیسا کہ اس خط میں آپ نے ظاہر فرمایا تھا ۔ آخر وہ تمام مکانات بنوا دئیے اور وسع مکانک کی پیشگوئی ہمیشہ پوری ہو تی رہتی ہے اور اس کی شان ہمیشہ جد اہوتی ہے۔ مبارک وہ جن کو اس کی تکمیل میں حصہ ملتا ہے۔ ابتدائی ایام میں حضرت نواب صاحب کو سابق ہونے کا اجر ملا۔ جزاہم اللہ احسن الجزا۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخو یم نو اب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آخر مولوی صاحب کی وہ پیاری لڑکی جس کی شدت سے بیماری کی وجہ سے مولوی صاحب آنہ سکے کل نماز عصر سے پہلے اس جہان فانی سے کوچ کر گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔اس کی والدہ سخت مصیبت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو صبر بخشے۔
والسلام
خاکسار
مرزا اغلام احمد عفی اللہ عنہ
۱۷؍ اپریل ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔یہ لڑکی حضرت حکیم الامۃ کی چھوٹی لڑکی ایک سال کی تھی اور اس کی وفات کے متعلق حضرت حکیم الامۃ کو خدا تعالیٰ نے ایک رویا کے ذریعہ پہلے ہی بتا دیا تھا۔ یوں تو حضرت حکیم الامۃ خد اتعالیٰ کی مقادیر سے پہلے ہی مسالمت تامہ رکھتے تھے۔ مگر خداتعالیٰ نے جب قبل از وقت ان کو بتا دیا تھا تو انہیں نہ صرف ایک راحت بخش یقین اور معرفت پید اہوئی۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے اس انعام اورفضل پر انہوں نے شکریہ کا اظہار کیا تھا۔ ان ایام میں نواب صاحب نے مولوی صاحب کو بلایا تھا۔ اسی وجہ سے آپ نہیں جا سکے تھے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
افسوس کہ مولوی صاحب اس قدر تکلیف کی حالت میں ہیں کہ اگر اور کوئی سبب بھی نہ ہوتا تب بھی اس لائق نہیں تھے کہ اس شدت گرمی میں سفر کرسکتے۔ ہفتہ میں ایک مرتبہ سخت بیمار ہوجاتے ہیں۔ پیرانہ سالی کے عوارض ہیں اور مولوی صاحب کی بڑی لڑکی سخت بیمار ہے کہتے ہیں اس کو بیماری سل ہو گئی ہے۔ علامات سخت خطرناک ہیں۔ نواسی بھی ابھی بیماری سے صحت یاب نہیںہوئی۔ ان وجوہ کی وجہ سے درحقیقت وہ سخت مجبور ہیں اور جو د وآدمی نکالے گئے تھے۔ یعنی غلام محی الدین اور غلام محمد۔ وہ کسی کی نمامی کی وجہ سے نہیں نکالے گئے۔ بلکہ خود مجھ کو کئی قراین سے معلوم ہوگیا تھاکہ ان کاقادیان میں رہنا خطرناک ہے اور مجھے سرکاری مخبر نے خبر دے دی تھی اور نہایت بد اور گندے حالات بیان کئے اور وہ مستعد ہو ا کہ میں ضلع میں رپورٹ کرتا ہوں۔ کیونکہ اس کے یہ کام سپرد ہے اور چاروں طرف سے ثبوت مل گیا کہ ان لوگوں کے حالات خراب ہیں۔ تب سخت ناچار ہو کر نرمی کے ساتھ ان کو رخصت کر دیا گیا۔ لیکن باوجود اس قدر نرمی کے غلام محی الدین نے قادیان سے نکلتے ہی طرح طرح کے افتراء اور میرے پر بہتان لگانے شروع کر دئیے۔ بٹالہ میں محمد حسین کے پاس گیا اور امرتسر میں غزنویوں کے گروہ میں گیا اور لاہور میں بد گوئی میں صدہا لوگوں میں وعظ کیا۔ چنانچہ ایک اشتہار زٹلی کا آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں ۔ جس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ شخص کس قسم کا آدمی ہے اور چونکہ سرکاری مخبر بھی ہماری جماعت کے حال لکھتے ہیں۔ اس لئے مناسب نہ تھا کہ ایسا آدمی قادیان میں رکھا جاتا اور دوسرا آدمی اس کا دوست تھا۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی اللہ عنہ
نوٹ:۔ ا س خط پر کوئی تاریخ درج نہیں ہے۔ مگر نفس واقعات مندرجہ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مئی ۱۸۹۸ء کا مکتوب ہے۔ اس میں غلام محی الدین نام جس شخص کا ذکر ہے وہ راہوں ضلع جالندھر کاباشندہ تھا اورخاکی شاہ اس کا عرف تھا۔ وہ عیسائی بھی رہ چکا تھا۔ قادیان میں آکر اور اپنی اس اباحتی زندگی کو جو عیسائیت میں رہ چکا تھا۔یہاں بھی جاری رکھنا چاہا۔ مگر حضرت اقدس تک جب اس کی شکایت پہنچی تو آپ نے اسے نکال دیا۔ اس کے ساتھ جس شخص غلام محمد کاذکر ہے۔ خو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مکتوب میں اس کے متعلق اس قدر فرمایا ہے کہ وہ اس کادوست تھا۔ دراصل ہم وطنی اور ہم صحبتی نے اسے بھی اس وقت اس بہشت سے نکالا۔ لیکن چونکہ اس میں اخلاص اور سلسلہ کے لئے سچی محبت تھی۔ خدا نے اس کو ضائع نہیں کیا۔ وہ اور اس کاسارا خاندان خد اکے فضل اوررحم سے نہایت مخلص ہے۔ خاکی شاہ جیسا کہ خود حضرت نے لکھ دیا ہے۔ یہاں سے نکل کر اپنی بد باطنی سے عملی اظہار کر دیا۔ آخر وہ خائب خاسر رہ کر مر گیا۔ اب اس کامعاملہ خداتعالیٰ سے ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نوا ب صاحب سلمہ تعالیٰ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کی شفاء کے لئے نماز میں اور خارج نماز میں دعا کرتا ہوں۔ خد اتعالیٰ کے فضل و کرم پر امید ہے کہ شفاء عطا فرمائے آمین ثم آمین۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیچک خاص طور کے دانے ہوں گے۔ جن میں تبزی نہیں ہوتی ۔ یہ خد ا تعالیٰ کا رحم ہے کہ چیچک کے موذی سم سے بچایا ہے اور چیچک ہو یاخسرہ ہو دونوں طاعون کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے نکلنے سے طاعون کا مادہ نکل جاتاہے اور اس کے بعد طاعون سے امن رہتا ہے۔ امیدہے کہ آں محب ۵؍ اگست ۱۸۹۸ء سے پہلے مرزا خد ا بخش صاحب کو ادائے شہادت کے لئے روانہ قادیان فرمائیںگے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
۲۶؍ جولائی ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بکلی عطافرمائے۔ چونکہ ان دنوں بباعث ایام برسات موسم میں ایک ایسا تغیر ہے۔ جو تپ وغیرہ پیدا کرتا ہے۔ا س لئے درحقیقت یہ سفر کے دن نہیں ہیں۔ میں اس سے خوش ہوں کہ اکتوبر کے مہینہ میں آپ تشریف لائیں۔ افسوس کہ مولوی صاحب کے لئے نکاح ثانی کا کچھ بندوبست نہیں ہو سکا۔اگر کوٹلہ میں یہ بندوبست ہو سکے تو بہتر تھا۔ آپ نے سن لیا ہو گا کہ مولوی صاحب کی جوان لڑکی چند خورد سال بچے چھوڑ کر فوت ہو گئی ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ
۴؍ ستمبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آں محب کے چار خط یکے بعد دیگرے پہنچے۔ آپ کے لئے دعا کرنا تو میںنے ایک لازمی امر ٹھہرا رکھا ہے۔ لیکن بے قرار نہیں ہونا چاہئے کہ کیوں اس کااثر ظاہر نہیں ہوتا۔ دعائوں کے لئے تاثیرات ہیں اور ضرور ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک جگہ حضرت ابوالحسن خرقانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تیس برس میں نے بعض دعائیں کیں جن کا کچھ بھی اثر نہ ہوا اور گمان گزرا کہ قبول نہیں ہوئیں۔ آخر تیس برس کے بعد وہ تمام مقاصد میسر آگئے اور معلوم ہوا کہ تمام دعائیں قبول ہو گئیں ہیں۔ جب دیر سے دعا قبول ہوتی ہے تو عمر زیادہ کی جاتی ہے۔
جب جلد کوئی مراد مل جاتی ہے تو کمی عمر کااندیشہ ہے میں اس بات کو درست رکھتا ہوں کہ مطلب کے حصول کی بشارت خدا تعالیٰ کی طرف سے سن لوں۔ لیکن وہ مطلب دیر کے بعد حاصل ہونا موجب طول عمر ہو۔ کیو نکہ طول عمر او ر عمال صالحہ بڑی نعمت ہے۔
آپ نے اپنے گھر کے لوگوں کی نسبت جو لکھا تھا کہ بعض امور میں مجھے رنج پید ا ہوتا ہے۔ سو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ میرا یہ مذہب نہیں ہے۔ میں اس حدیث پر عمل کرنا علامت سعادت سمجھتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور وہ یہ ہے
خیر کم خیر کم لا ھلہیعنی تم میں سب سے اچھا وہ آدمی ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہو۔ عورتوں کی طبیعت میں خداتعالیٰ نے ا س قدر کجی رکھی ہوئی ہے کہ کچھ تعجب نہیںکہ بعض وقت خدا اور رسول یا اپنے خاوند یا خاوند کے باپ یا مرشد یا ماں یا بہن کو بھی برا کہہ بیٹھیں اور ان کے نیک ارادہ کی مخالفت کریں۔ سو ایسی حالت میں بھی کبھی مناسب رعب کے ساتھ اور کبھی نرمی سے ان کو سمجھا دیں اور ان کی تعلیم میں بہت مشغول رہیں۔ لیکن ان کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کریں۔
اشتہار رشتہ کے لئے آپ کی شرط موجود نہیں۔ ایم۔ اے صاحب اگرچہ بہت صالح نیک چلن جوان خوش رو جنٹلمین ہر طرح سے لائق نیک چلن بہت سی نیک صفات اپنے اندر رکھتے ہیں۔ مگر افسوس کہ وہ نہ پٹھان ہیں نہ مغل۔ نہ سید نہ قریشی۔ بلکہ اس ملک کے زمینداروں میں سے ہیں۔ غریب خاندان میں سے ہیں۔ میری بیوی کا برادر حقیقی محمد اسمٰعیل اٹھارہ سالہ خاندانی سید ہے ایف۔ اے میں پڑھتا ہے۔ مگر افسوس کہ کوئی آمدنی ان کے پاس نہیں اوّل شائد سلاطین اسلامیہ کی طرف پچیس ہزار کی جاگیر تھی۔ وہ ۱۸۵۷ء میں ضبط ہو گئی اور کچھ تھوڑا ان لوگوں کو ملتا ہے۔ جس میں سے …… ماہوار میر صاحب کی والدہ کو ملتا ہے بس۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۱۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ الحمدللہ والمنۃ کہ آپ کو اس نے اپنے فضل و کرم سے شفابخشی۔ میں نے آپ کے لئے اب کی دفعہ غم اٹھایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جگہ قادیان میں جس بڑی عمر کے آدمی کو جو اسّی برس سے زیادہ کی عمر کاتھا۔ چیچک نکلی وہ جانبر نہ ہو سکا۔ ہمارے ہمسایوں میں دو جوان عورتیں اس مرض سے راہی ملک بقاہوئیں۔ آپ کو اطلاع نہیں دی گئی۔ یہ بیماری اس عمر میں نہایت خطرناک تھی۔ بالخصوص ا ب کی دفعہ یہ چیچک وبائی طرح پر ہوئی ہے۔ اس لئے نہایت اضطراب اور دلی درد سے نماز پنچگانہ میں اور خارج نماز گویا ہر وقت دعا کی گئی ۔ اصل باعث عاقبت خدا کا فضل ہے جو بموجب وعدہ اللہ سے بہت سی امیدیں اس کے فضل کے لئے ہو جاتی ہیں مجھے کثرت مخلصین کی وجہ سے اکثر زمانہ غم میں ہی گزرتا ہے۔ ایک طرف فراغت پاتا ہوں۔ دوسری طرف سے پریشانی لاحق حال ہو جاتی ہے۔ خداتعالیٰ کی بہت سی عنایات کی ضرورت ہے۔ جس کو میں مشاہدہ بھی کرتا ہوں۔ اب یہ غم لگا ہوا ہے کہ چند دفعہ الہامات اور خوابوں سے طاعون کاغلبہ پنجاب میں معلوم ہو اتھا۔ جس کے ساتھ یہ بھی تھا کہ لوگ توبہ توبہ کریں گے اورنیک چلن ہو جائیںگے۔ تو خد اتعالیٰ اس گھر کو بچا لے گا۔ لیکن نیک ہونے کاکام بڑا مشکل ہے اگرچہ بدچلن بدمعاش اور طرح طرح کے جرائم ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر پنجاب میں وبائے طاعون یا ہیضہ یا پھوٹا تو بڑی مصیبت ہوگی بہت سے گھروں میں ماتم ہو جائیں گے۔ بہت سے گھر ویران ہو جائیںگے۔ مرزا خد ابخش صاحب پہنچ گئے۔ ان کے گھر بیماری ہے۔ تپ روز چڑھتا ہے اور جگر اور معدہ ضعیف معلوم ہوتا ہے۔ مولوی صاحب کی دوسری لڑکی انہی دنوں سے بیمار ہے۔ جب کہ آپ نے بلایا تھا۔ اب بظاہر ان کی زندگی کی چنداں امید نہیں۔ حواس میں بھی فرق آگیا ہے اورمولوی صاحب بھی ہفتہ میں ایک مرتبہ بیمار ہوجاتے ہیں۔ بعض دفعہ خطرناک بیماری ہوتی ہے میرے دل میں خیال ہے کہ اپنے اور اپنی جماعت کے لئے خاص طو ر پر ایک قبرستان بنایا جائے جس طرح مدینہ میں بنایا گیا تھا۔ بقول شیخ سعدی۔ کہ ہداں رابہ نیکاں بہ بخشد کریم
یہ بھی ایک وسیلہ مغفرت ہوتا ہے۔ جس کو شریعت میں معتبر سمجھا گیاہے۔ اس قبرستان کی فکر میں ہوں کہ کہاں بنایا جائے امید کہ خداتعالیٰ کوئی جگہ میسر کر دے گا او راس کے اردگرد ایک دیوار چاہئے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۶؍اگست ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ معہ مبلغ دو سو روپیہ مجھ کو ملا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ایک مرض اور غم سے نجات بخشے۔ آمین ثم آمین۔ خط میں سو روپیہ لکھا ہو اتھا اور حامل خط نے دو سو روپیہ دیا۔ اس کا کچھ سبب معلوم نہ ہوا۔ میں عنقریب دوائی طاعون آپ کی خدمت میں مع مرہم عیسیٰ روانہ کرتاہوں اور جس طورسے یہ دوائی استعمال ہو گی آج اس کااشتہار چھاپنے کی تجویز ہے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اشتہار ہمراہ بھیج دوں گا۔ بہتر ہے کہ یہ دوا ابھی سے آپ شروع کر دیں۔ کیونکہ آیندہ موسم بظاہر وہی معلوم ہوتا ہے۔ جو کچھ الہاماً معلوم ہوا تھا۔ وہ خبر بھی اندیشہ ناک ہے۔ میرے نزدیک ان دنوں میں دینا کے غموم و ہموم کچھ مختصر کرنے چاہئیں۔ د ن بہت سخت ہیں جہاں تک ممکن ہوآپ اپنے بھایئوں کو بھی نصیحت کریں اور اگر باز نہ آئیں تو آپ کا فرض ادا ہو جائے گا اور جو گلٹیاں آپ کے نکلی ہیں۔ وہ ماشاء اللہ سنیک دینے اور دوسری تدبیروں سے جو مولوی صاحب تحریر فرمائیں گے اچھی ہو جائی گی۔ ان دنوں التزام نماز ضروری ہے مجھے تو یہ معلوم ہو ا ہے کہ یہ دن دنیا کے لئے بڑی بڑی مصیبتوں اور موت اور دکھ کے دن ہیں۔ اب بہرحال متبہ ہونا چاہئے۔ عمر کا کچھ اعتبار نہیں میں نے خط کے پڑھنے کے بعد آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور امید ہے کہ خد اتعالیٰ قبول فرمائے گا۔ مجھے اس بات کا خیال ہے کہ
اس شور قیامت کے وقت جس کی مجھے الہام الٰہی سے خبر ملی ہے۔ حتی الوسع اپنے عزیز دوست قادیان میں ہوں۔مگر سب بات خداتعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ جولائی ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبیعزیزی اخویم نواب سردار محمد علی خاں صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خداتعالیٰ فرزند نوزاد کومبارک اور عمر دراز کرے آمین ثم آمین۔ میں نے سنا ہے کہ جب کم دنوں میں لڑکا پید اہوتا ہے تو دوسرے تیسرے روز ضرور ایک چمچہ کیسڑائل دے دیتے ہیں اور لڑکے کے بدن پر تیل ملتے رہتے ہیں۔ حافظ حقیقی خود حفاظت فرماوے اور آپ کے لئے مبارک کرے۔ آمین ثم آمین۔ دعا میں آپ کے لئے مشغول ہوں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرماوے
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۲۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی بیوی مرحومہ کے لئے توجہ اور الحاح سے دعائے مغفرت کروں گا۔ اس جگہ موسمی بخار سے گھر میں اور بچوں کو بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے اور مرزا خدابخش صاحب کی بیوی بھی تپ ……اب طاعون بھی ہمارے ملک سے نزدیک آگئی ہے۔ خداتعالیٰ کارحم درکار ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
مکتوب نمبر(۲۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خسرہ کا نکلنا ایک طرح پر جائے خوشی ہے کہ اس سے طاعون کا مادہ نکلتا ہے اور انشاء اللہ تین سال امن کے ساتھ گزرتے ہیں۔ کیونکہ طبی تحقیق سے خسرہ اور چیچک کا مادہ اور طاعون کا مادہ ایک ہی ہے۔ آپ تین تین چار چار رتی جدوار رگڑ کر کھاتے رہیںکہ اس مادہ اور طاعون کے مادہ کایہ ترق ہے۔ میں ہر وقت نماز میں اورخارج نماز کے آپ کے لئے دعاکرتا ہوں۔ خط پہنچنے پر تردد ہوا۔ اس لئے جلدی مرزا خدا بخش آپ کی خدمت میں پہنچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد شفا بخشے۔ آمین ثم آمین۔
میرے پر عدالت ضلع گورداسپور کی طرف سے تحصیل میں ایک مقدمہ انکم ٹیکس ہے۔ جس میں مولوی حکیم نورالدین صاحب اور چھ سات اور آدمی اور نیز مرزا خدا بخش صاحب میری طرف سے گواہ ہیںامید کہ تاریخ سے تین چار روز پہلے ہی مرزا صاحب کو روانہ قادیان فرماویں اور حالات سے جلد از جلد مطلع فرماتے رہیں۔ خد ا تعالیٰ حافظ ہو۔
(نوٹ:۔ اس خط پر حضرت اپنا نام بھول گئے ہیںاور تاریخ بھی درج نہیں ہوئی۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۲۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ معہ دوسرے خط کے جو آپ کے گھر کے لوگوں کی طرف سے تھا۔ جس میں صحبت کی نسبت لکھا ہوا تھا پہنچا۔ بعد پڑھنے کے دعا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین۔ ہمدست مرزا خدابخش صاحب مبلغ تین سو روپیہ کے نوٹ بھی پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ا ن کے لڑکے کا حال ابھی قابل اطمینان نہیں ہے۔ گو پہلی حالت سے کچھ تخفیف ہے۔ مگر اعتبار کے لائق نہیں۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ
مکتوب نمبر(۲۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم (۱۸؍اپریل ۱۸۹۹) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ا گرچہ آں محبت کی ملاقات پر بہت مدت گزر گئی ہے اور دل چاہتا ہے کہ او ر دوستوں کی طرح آپ بھی تین چارماہ تک میرے پاس رہ سکیں۔ لیکن اس خانہ داری کے صدمہ سے جو آپ کو پہنچ گیا ہے۔ بڑی مشکلات پید اہو گئی ہیں۔ یہ روک کچھ ایسی معلوم نہیں ہوتی کہ ایک دو سال تک بھی دور ہو سکے بلکہ یہ دائمی اور اس وقت تک ہے کہ ہم دنیا سے چلے جائیں۔ غرض سخت مزاحم معلوم ہوتی ہے۔ صرف یہ ایک تدبیر ہے کہ آپ کی طرف سے ایک زنانہ مکان بقدر کفالت قادیان میں تیار ہو اور پھر کبھی کبھی معہ قبائل اور سامان کے اس جگہ آجایا کریں اوردو تین ماہ تک رہا کریں لیکن یہ بھی کسی قدر خرچ کا کام ہے اور پھر ہمت کاکام ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اسباب پیدا کردے اوراپنی طرف سے ہمت اور توفیق بخشے۔ دنیا گذشتنی و گذاشتتنی ہے وقت آخر کسی کو معلوم نہیں۔ اس لئے دینی سلسلہ کو کامل کرنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے۔ دانشمند کے لئے فخر سے شام تک زندگی کی امید نہیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے کسی سے یہ عہد نہیں کیا کہ اس مدت تک زندہ رہے گا۔ ماسوا اس کے ہمارے ملک میں طاعون نے ایسے ہی پیرجمائے ہیں کہ دن بدن خطرناک حالت معلوم ہوتی ہے۔ مجھے ایک الہام میں معلوم ہوا تھا کہ اگر لوگوں کے اعمال میں اصلاح نہ ہوئی تو طاعون کسی وقت جلد پھیلے گی اور سخت پھیلے گی۔ ایک گائوں کو خدامحفوظ رکھے گا۔ وہ گائوں پریشانی سے بچایا جائے گا۔ میں اپنی طرف سے گمان کرتاہوں کہ وہ گائوں غالباً قادیان ہے اوربڑا اندیشہ ہے کہ شائد آیندہ سال کے ختم ہونے تک خطرناک صورت پر طاعون پھیل جائے اس لئے میں نے اپنے دوستوں کو یہ بھی صلاح دی تھی کہ وہ مختصر طور پر قادیان میں مکان بنا لیں۔ مگر یہی وقت ہے اور پھر شائد وقت ہاتھ سے جاتارہے۔ سو آں محب بھی ا س بات کو سوچ لیں اور عید کی تقریب پر اکثر احباب قادیان آئیں گے اور بعض دینی مشورے بھی اس دن پر موقوف رکھے گئے ہیں۔ سو اگر آں محب آنہ سکیں جیسا کہ ظاہر ی علامات ہیں تو مناسب ہے کہ ایک ہفتہ کے لئے مرزا خد ابخش صاحب کو بھیج دیں تا ان مشوروں میں شامل ہو جائیں۔ باقی سب خیریت ہے۔ مرزا خدا بخش صاحب کے گھر میں سب خیریت ہے۔
والسلام
راقم مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان
مکتوب نمبر(۲۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم (۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل سے میرے گھر میں بیماری کی شدت بہت ہو گئی ہے او رمرزا خدا بخش صاحب کے گھر میں بھی تپ تیز چڑھتا ہے۔ا سی طرح تمام گھر کے لوگ یہاں تک کہ گھر کے بچے بھی بیمار ہیں۔ اگر مرزاخدابخش صاحب آجائیں تو اپنے گھر کی خبر لیں۔ اس قدر بیماری ہے کہ ایک شخص دوسرے کے حال کا پرساں نہیں ہو سکتا۔ حالات تشویش ناک ہیں۔ خداتعالیٰ فضل کرے امید ہے کہ آپ حسب تحریر میرے استقامت اور استواری سے کام لے کر جلد تر تجویز شادی فرماویں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مکتوب نمبر(۲۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم (۱۸؍اپریل ۱۸۹۹) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج صدمہ عظیم کی تار مجھ کو ملی اور اس کے عوض کوئی آپ کو بھاری خوشی بخشے۔ میں اس درد کو محسوس کرتاہوں۔ جو ا س ناگہانی مصیبت سے آپ کو پہنچا ہو گا اور میں دعا رکرتا ہوں کہ آیندہ خدا تعالیٰ ہر ایک بلاسے آپ کو بچائے اورپردہ غیب سے اسباب راحت آپ کے لئے میسر کرے۔ میرا اس وقت آپ کے درد سے دل درد ناک ہے او ر سینہ غم سے بھرا ہے۔ خیال آتا ہے کہ
دنیا کیسی بے بنیاد ہے۔
ایک دم میں ایسا گھر کہ عزیزوں اور پیاروں سے بھرا ہو اہو ویران بیایان دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اس رفیق کو غریق رحمت کرے اور اس کی اولاد کو عمر اور اقبال اور سعادت بخشے۔ لازم ہے کہ ہمیشہ ان کو دعائے مغفرت میں یاد رکھیں۔ میری یہ بڑی خواہش رہی کہ آپ ان کو قادیان میں لاتے اور اس خواہش سے مدعا یہ تھا کہ وہ بھی سلسلہ بیعت میں داخل ہوکر اس گروہ میں شریک ہو جاتے کہ جو خداتعالیٰ تیار کررہا ہے۔ مگر افسوس کہ آپ کی بعض مجبوریوں سے یہ خواہش ظہور میں نہ آئی۔ اس کا مجھے بہت افسوس ہے۔
میں نے کچھ دن ہوئے خواب میں آپ کی نسبت کچھ بلا اور غم کو دیکھاتھا۔ ایسے خوابوں اور الہاموں کو کوئی ظاہر نہیں کرسکتا۔ مجھے اندیشہ تھا آخر اس کایہ پہلو ظاہر ہوا۔ یہ تقدیر مبرم تھی۔ جو ظہور میں آئی۔ معلوم ہوتا ہے علاج میں بھی غلطی ہوئی۔ یہ رحم کی بیماری تھی اوربباعث کم دنوں میں پید اہونے کے زہریلا مواد رحم میں ہو گا۔ اگر خداتعالیٰ چاہتا تو علاج یہ تھاکہ ایسے وقت پچکاری کے ساتھ رحم کی راہ سے آہستہ آہستہ یہ زہر نکالا جاتا اورتین چار دفعہ روز پچکاری ہوتی اور کیسڑائل سے خفیف سی تلین طبع بھی ہوتی اور عنبر اور مشک وغیرہ سے ہر وقت دل کو قوت دی جاتی اوراگر خون نفاس بند تھا تو کسی قدر رواں کیا جاتا اور اگر بہت آتا تھاتو کم کیا جاتا اور نربسی اورہینگ وغیرہ سے تشنج اور غشی سے بچایا جاتا۔ لیکن جب کہ خدا تعالیٰ کاحکم تھا تو ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔ پہلی دو تاریں ایسے وقت میں پہنچیں کہ میرے گھر کے لوگ سخت بیمار تھے اور اب بھی بیمارہیں۔ تیسرا مہینہ ہے دست اور مروڑ ہیں۔ کمزور ہو گئے ہیں۔ بعض وقت ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ ڈرتا ہوں کہ غشی پڑ گئی اورحاملہ کی غشی گویاموت ہے۔دعا کرتا ہوں مجھے افسوس ہے کہ آپ کے گھر کے لوگوں کے لئے مجھے دعا کا موقعہ بھی نہ ملا۔ تاریں بہت دیر سے پہنچیں۔ا ب میں یہ خط اس نیت سے لکھتا ہوں کہ آپ ہی بہت نحیف ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ بہت غم سے آپ بیمار نہ ہو جائیں۔اب اس وقت آپ بہادر بنیں اور استقامت دکھلائیں۔ ہم سب لوگ ایک دن نوبت بہ نوبت قبر میں جانے والے ہیں۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ غم کودل پر غالب ہونے نہ دیں۔ میں تعزیت کے لئے آپ کے پاس آتا۔ مگر میری بیوی کی ایسی حالت ہے کہ بعض وقت خطرناک حالت ہو جاتی ہے۔ مولوی صاحب کے گھر میں بھی حمل ہے۔ شاید چھٹا ساتواں مہینہ ہے۔ وہ بھی آئے دن بیمار رہتے ہیں۔ آج مرزا خدا بخش صاحب بھی لاہور سے قادیان آئے۔ شاید اس خط سے پہلے آپ کے پاس پہنچیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۸؍ نومبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۲۶)ملفوف
یہ خط مرزا خدا بخش صاحب کے نام ہے۔ چونکہ نواب صاحب کے ہی کے خط میں دوسرے ورق پر لکھ دیا گیاہے۔ اس لئے میں نے بھی اسی سلسلہ میں اسے درج کردیا ہے۔(عرفانی)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم مرزا خدابخشصاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل میرے گھر میں والدہ محمود کو تپ او رگھبراہٹ اور بدحواسی کی سخت تکلیف ہوئی اورساتھ ہی عوارض اسقاط حمل کے ظاہر ہوئے۔ معلوم ہوتا تھا کہ گویا چند منٹوں کے بعد خاتمہ زندگی ہے۔ا ب اس وقت کسی قدر تخفیف ہے۔ مگر چونکہ تپ نوبتی ہے۔ا س کل اندیشہ ہے اور آپ کے گھر میں سخت تپ چڑھتا ہے۔ا ندیشہ زیادہ ہے۔اگر رخصت لے کر آجائیںتو بہتر ہے۔ آج کے تپ اندیشناک ہیں۔ اطلاعاً لکھا گیا ہے اور آتے وقت ایک روپیہ کے انار بیدانہ لے آویں اور کچھ نہ لاویں کہ تمام بچے بیمار ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ نومبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۲۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت حفظ ماتقدم کے طور پر امراض خون کے لئے گولیاں بھیجتا ہوں۔ جن سے انشاء اللہ القدیر مادہ جذام کا استیصال ہوتاہے۔ شرط یہ ہے کہ ایک گولی جو بقدر تین فلفل کے ہو۔ ہمراہ آپ زلال مہندی کھائی جائے۔ا س طرح پر کہ ایک ماشہ برگ حنا یعنی مہندی رات کو بھگویا جائے اور پانی صرف تین چار گھونٹ ہو صبح اس پانی کو صاف کر کے ہمراہ اس گولی کے پی لیں۔ شرینی نہیں ملانی چاہئے۔ پھیکا پانی ہو پانی تلخ ہوگا۔ مگر ضروری شرط ہے کہ پھیکا پیا جائے۔ یہ رعایت رکھنی چاہئے کہ ایک ماشہ سے زیادہ نہ ہو۔ جب برداشت ہو جائے تو دو ماشہ تک کرسکتے ہیں۔ ہر ایک میٹھی چیز سے حتی الوسع پرہیز رہے۔ کبھی کبھی کھالیں اور مہینہ میں ہمیشہ دس دن دوا کھا لیں کریں۔ بیس دن چھوڑ دیا کریں۔ یہ دوا انشاء اللہ نہایت عمدہ ہے ایسے امراض میں حفظ ماتقدم کے طور پر ہمیشہ دوا کو استعمال کرنا ضروری ہے۔ یعنی مہینہ میں دس دن۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ اس خط پر کوئی تاریخ نہیں اور یہ خط بذریعہ ڈاک نہیں بھیجا گیا۔ بلکہ جیسا کہ اس خط پر ایک نوٹ سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہمدسے میاں کریم بخش بھیجا گیا۔ مگر دوسرے خط سے جو اس دوائی کے متعلق ہے کہ جون ۱۸۹۹ء کا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۲۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں بباعث علالت طبع چند روز جواب لکھنے سے معذور رہا۔ میری کچھ ایسی حالت ہے کہ ایک دفعہ ہاتھ پیر سرد ہو کر اور نبض ضعیف ہو کرغشی کے قریب قریب حالت ہو جاتی ہے اوردوران خون تک دفعہ ٹھہرجاتا ہے۔جس میں اگر خداتعالیٰ کافضل نہ ہوتو موت کا اندیشہ ہوتا ہے۔ تھوڑے دنوں میں یہ حالت دو دفعہ ہو چکی ہے۔ آج رات پھر اس کاسخت دورہ ہوا۔ا س حالت میں صرف عنبر یا مشک فائدہ کرتا ہے۔ رات دس خوراک کے قریب مشک کھایا پھر بھی دیر تک مرض کا جوش رہا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ صرف خدا تعالیٰ کے بھروسہ پر زندگی ہے۔ ورنہ دل جو رئیس بدن ہے۔ بہت ضعیف ہو گیا ہے۔
آپ نے دوا کے بارے میں جو دریافت کیاتھا۔ ایام امید میں دوا ہرگز نہیں کھانی چاہئے اور نہ ہمیشہ کھانی چاہئے۔ کبھی ایک ہفتہ کھاکر چھوڑ دیں اور ایک دو ہفتہ چھوڑ کر پھرکھانا شروع کریں۔ مگر ایام حمل میں قطعاً ممنوع یعنی ہر گز نہیں کھانی چاہئے۔ جب تک بچہ ہوکر دو مہینہ نہ گزر جائیں۔ اگر سرعت تنفس با اختلاج قلب ہو تو تدبیر غذا کافی ہے۔ یعنی دودھ مکھن چوزہ کا پلائو استعمال کریں۔ بہت شیرینی سے پرہیز کریں۔ شیرہ بادام۔ مقشر الائچی سفید ڈال کر پیویں۔ موسم سرما میں اسکائش ایمکیش استعمال کریں۔ یعنی مچھلی کا تیل جوسفید اور جما ہوا شہد کی طرح یا دہی کی طرح ہوتا ہے۔ بدن کو فربہ کرتاہے۔ دل کو مقوی ہے۔ پھیپڑہ کوبہت فائدہ کرتا ہے۔ چہرہ پر تازگی اور رونق اور سرخی آتی ہے۔ لاہور سے مل سکتا ہے۔ مگر میری دانست میں ان دنوں میں استعمال کرنا جائز نہیں۔ کسی قدر حرارت کرتا ہے۔ ان دنوں سادہ مقوی غذائیں مکھن۔ گھی۔ دودھ اور مرغ پلائو استعمال کرنا کافی ہے اور کبھی کھبی شیرہ بادام استعمال کرنا وہ دوا یعنی گولیاں وہ ہمیشہ کے استعمال کے لئے نہیں ہے۔ ایک گولی خوراک کافی ہے۔ا گر مہندی کاپانی بھی پی سکیں تو یونہی کھا لیں۔ مگر یاد رہے کہ مہندی بھی ایک زہر کی قسم ہے۔اگر پانی پیا جائے تو صرف احتیاط ہے ایک ماشہ برگ مہندی بھگوئیں وزن کر کے بھگوئیں۔ ہر گز اس سے زہر نہ ہو۔ کیوں کہ زیادہ سخت تکلیف دہ ہے۔اس پانی کے ساتھ گولی کھائیں اوراگر پانی مہندی کا پیا نہ جائے تو عرق گائوزبان کے ساتھ کھائیں۔ ہمیشہ کثرت شیرینی سے پرہیز رکھنا ضروری ہے۔ زیادہ خیریت ہے اس وقت میری طبیعت بحال نہ تھی۔ لیکن بہرحال یہ خط میں نے لکھ دیا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ جون ۱۸۹۹ء
مکتوب نمبر(۲۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجھے منظور ہے کہ مرزا خد ا بخش صاحب کی روانگی ۱۰؍ ستمبر ۱۸۹۹ء تک ملتوی رکھی جائے اور آپ کی قادیان میں تشریف آوری کے لئے میں پسند نہیں کرتا کہ ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۹ء کے پہلے آپ تشریف لاویں۔ کیونکہ ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۹ء سے پہلے سخت گرمی اورپریشانی اور بیماریوں کے دن ہیں۔ ریل کی سواری بھی ان دنوں میں ایک عذاب کی صورت معلوم ہوتی ہے اورمعدہ ضعیف اور وبائی ہو احرکت میں ہوتی ہے۔ لیکن ۲۲؍ستمبر کے بعد موسم میں ایک صریح انقلاب ہو جاتا ہے اوررات کے وقت اندر سوسکتے ہیںاور اطمینان کے ساتھ حالت رہتی ہے۔ا س موسم میں ارادہ کو۲۲؍ستمبر پر مصمم فرماویں اوراس سے پہلے موسم کچا اور سفر کرنا خطرناک ہے یہی صلاح بہتر ہے۔ کوئی ایسی تجویز ہو آپ کے لئے اس جگہ کوئی سامان تیار ہو جائے۔ خدا تعالیٰ ہر ایک شے پر قادر ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
اس خط پر کوئی تاریخ تو درج نہیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ جولائی کے آخر یا اگست ۱۸۹۹ء کے شروع کا ہے۔ حضرت اقدس نے جو خواہش نواب صاحب کے لئے مکان کی فرمائی تھی۔ خداتعالیٰ نے وہ بھی پوری کر دی۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۳۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حال یہ ہے اگرچہ عرصہ بیس سال سے متواتر اس عاجز کوجو الہام ہو اہے اکثر دفعہ ان میں رسول یا نبی کا لفظ آگیاہے۔ جیسا کہ یہ الہام ھوالذی ارسل رسولہ یالھدی و دین الحق اورجیساکہ یہ الہام جری اللہ فی خلل لانبیاء اور جیسا کہ یہ الہام دنیا میں ایک نبی آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔
نوٹ:۔ایک قرات اس الہام کی یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایک قدیر آیا اور یہی قرات براہین احمدیہ میں درج ہے اور فتنہ سے بچنے کے لئے یہ دوسری قرات درج نہیں کی گئی۔
ایسے ہی بہت سے الہام ہیں۔ جن میںاس عاجز کی نسبت نبی یا رسول کا لفظ آیا ہے۔ لیکن وہ شخص غلطی کرتا ہے۔ جو ایسا سمجھتا ہے۔ جو اس نبوت اور رسالت سے مراد حقیقی نبوت اور رسالت مراد ہے۔ جس سے انسان خود صاحب شریعت کہلاتا ہے۔ بلکہ رسول کے لفظ سے تو صرف اس قدر مرا د ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا اور نبی کے لفظ سے صرف اس قدر مراد ہے کہ خد ا سے علم پا کر پیشگوئی کرنے والا یا معارف پوشیدہ بتانے والا۔ سو چونکہ ایسے لفظوں سے جو محض استعارہ کے رنگ میں ہیں۔ اسلام میں فتنہ ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ سخت بد نکلتا ہے۔ اس لئے اپنی جماعت کی معمولی بول چال اور دن رات کے محاورات میں یہ لفظ نہیں آنے چاہئیں اور دلی ایمان سے سمجھ لینا چاہئے کہ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین او ر اس آیت کاانکار کرنا یا استحفاف کی نظر سے اس کودیکھنا درحقیقت اسلام سے علیحدہ ہونا ہے۔ جو شخص انکار میں حد سے گزر جاتا ہے۔ جس طرح کہ وہ ایک خطرناک حالت میں ہے۔ ایسا ہی وہ بھی خطرناک حالت میں ہے۔ شیعوں کی طرح اعتقاد میں حد سے گزر جاتا ہے۔
جاننا چاہئے کہ خداتعالیٰ اپنی تمام نبوتوں اور رسالتوں کو قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا ہے اور ہم محض دین اسلام کے خادم بن کر دنیا میں آئے اوردنیا میں بھیجے گئے نہ اس لئے کہ اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور دین بناویں۔ ہمیشہ شیاطین کی راہ زنی سے اپنے تیئں بچانا چاہئے اوراسلام سے سچی محبت رکھنی چاہئے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو پھیلانا چاہئے۔ ہم خادم دین اسلام ہیں اور یہی ہمارے آنے کی علت غائی ہے اور نبی اور رسول کے لفظ استعارہ اور نجاز کے رنگ میں ہیں۔ رسالت *** عرب میں بھیجے جانے کو کہتے ہیںاور نبوت یہ ہے کہ خد اسے علم پا کر پوشیدہ باتوں یا پوشیدہ حقائق اور معارف کو بیان کرنا۔ سو اس حد تک مفہوم کو زہن میں رکھ کر دل میں اس کے معنی کے موافق اعتقاد کرنا مذموم نہیں ہے۔ مگر چونکہ اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں۔ یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں۔ یا نبی سابق کی امت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفاضہ کسی نبی کے خداتعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس لئے ہوشیار رہنا چاہئے کہ ا س جگہ بھی یہی معنی نہ سمجھ لیں۔ کیو نکہ ہماری کوئی کتاب بجز قرآن شریف نہیں ہے اور ہمار ا کوئی رسول بجز محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں ہے اور ہم بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے۔ سو دین کو بچوں کا کھیل نہیں بنانا چاہئے اور یا د رکھنا چاہئے کہ ہمیں بجز خادم اسلام ہو نے کے اور کوئی دعویٰ بالمقابل نہیں ہے اور جو شخص ہماری طرف یہ منسوب کرے۔ وہ ہم پر افتراء کرتا ہے۔ ہم اپنے نبی کریم کے ذریعہ فیض برکات پاتے ہیں اورقرآن کریم کے ذریعہ سے ہمیں فیض معارف ملتا ہے۔ سو مناسب ہے کہ کوئی شخص اس ہدایت کے خلاف کچھ بھی دل میں نہ رکھے۔ ورنہ خد اتعالیٰ کے نزدیک اس کا جواب دہ ہو گا اگر ہم اسلام کے خادم نہیں ہیں تو ہمارا سب کاروبار عبث اور مردود اور قابل مواخذہ ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
۷؍ اگست ۱۸۹۹ء
نوٹ:۔ اس مکتوب میں حضور نے اپنے دعوے نبوت و رسالت کی حقیقت کو خوب کھول کر بیان کر دیا ہے۔ آپ نے اپنے اس دعوی سے کبھی انکار نہیں کیا۔ البتہ اس کا مفہوم اور منطوق بھی کبھی قرار نہیں دیا۔ جو آپ کے معاندین ومنکرین نے آپ کی طرف منسوب کیا۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۳۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کسی قدر تریاق جدید کی گولیاں ہمدست مرزا خدا بخش صاحب آپ کی خدمت میں ارسال ہیں اورکسی قدر اس وقت دے دوں گا۔ جب آپ قادیان آئیںگے یہ دوا تریاق الٰہی سے فوائد میں بڑھ کر ہے۔ اس میں بڑی بڑی قابل قدر دوائیں پڑی ہیں۔ جسیے مشک۔ عنبر۔ نرلسبی۔ مروارید۔ سونے کاکشتہ۔ فولاد یا قوت احمر۔ کونین۔ فاسفورس۔ کہربا۔ مرجان۔ صندل۔ کیوڑہ۔ زعفران یہ تمام دوائیں قریب سے کے ہیں اور بہت سا فاسفورس اس میں داخل کیا گیا ہے۔ یہ دوا علاج طاعون کے علاوہ مقوی دماغ۔ مقوی جگر۔ مقوی معدہ۔ مقوی باہ اور مراق کو فائدہ کرنے والی مصفی خون ہے۔ مجھ کو اس کے تیار کرنے میں اوّل تامل تھا کہ بہت سے روپیہ پر اس کاتیا ر کرنا موقوف تھا۔ لیکن چونکہ حفظ صحت کے لئے یہ دوا مفید ہے۔ اس لئے اس قدر خرچ گوارا کیا گیا۔ چالیس تولہ سے کچھ زیادہ اس میں یا قوت احمر ہے۔ا گر خریدا جاتا تو شاید کئی سو روپیہ سے آتا۔ بہرحال یہ دوا خدا تعالیٰ کے فضل سے تیار ہو گئی ہے گو بہت ہی تھوڑی ہے۔ لیکن اس قدر بھی محض خدا تعالیٰ کی عنایت سے تیار ہوئی۔ خوراک اس کی اوّل استعمال میں دو رتی سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ تاگرمی نہ کرے۔ نہایت درجہ مقوی اعصاب ہے اور خارش اور ثبورات اور جذام اور ذبابیطس اور انواع و اقسام کے زہر ناک امراض کے لئے مفید ہے اور قوت باہ میں اس کو ایک عجیب اثر ہے۔ سرخ گولیاں میں نے نہیں بھیجی۔ کیونکہ صرف بواسیر اور جذام کے لئے ہیں اور ذیابیطیس کو بھی مفید ہے۔ا گر ضرورت ہو گی تو وہ بھی بھیج دوں گا موجود ہیں۔
مرزا خد ابخش کونصیبین میں بھیجنے کی پختہ تجویز ہے۔ خداتعالیٰ کے راضی کرنے کے کئی موقعے ہوتے ہیں۔ جو ہروقت ہاتھ نہیں آتے۔ کیا تعجب کہ خداتعالیٰ آپ کی اس خدمت سے آپ پر راضی ہو جائے اور دین اور دنیا میں آپ پر برکات نازل کرے کہ آپ چند ماہ اپنے ملازم خاص کوخد اتعالیٰ کاملازم ٹھہرا کر اور بد ستور تمام بوجھ اس کی تنخواہ اورسفر کا خرچ اپنے ذمہ پر رکھ کر اس کو روانہ نصیبین وغیرہ ممالک بلا و شام کریں۔ میرے نزدیک یہ موقعہ ثواب کا آپ کے لئے وہ ہو گا کہ شائد پھر عمر بھر ایسا موقعہ ہاتھ نہ آوے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جانے سے پہلے دس بیس میرے پاس رہیں تا وقتاً فوقتاً ضروری یا داشتیں لکھ لیں۔ کیونکہ جس جگہ جائیں گے وہاں ڈاک نہیں پہنچ سکتی۔ جو کچھ سمجھایا جائے گا پہلے ہی سمجھایا جائے گا اور میرے لئے یہ مشکل ہے کہ سب کچھ مجھے ہی سمجھانا ہوتا ہے اور ابھی تک ہماری جماعت کے آدمی اپنے دماغ سے کم پید اکرتے ہیں۔ سو ضروری ہے کہ دو تین ہفتہ میرے پاس رہیں اور میں ہر ایک مناسب امر جیسا کہ مجھے یا د آتا جائے ان کی یاداشت میں لکھا دوں۔ جس وقت آپ مناسب سمجھیں ان کو اس طرف روانہ فرمادیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۹ء تک آپ قادیان میں ضرور تشریف لاویں گے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۹؍ اگست ۱۸۹۹ء
مکتوب نمبر(۳۲)ملفوف
اللہ ۹؍ نومبر ۱۸۹۹ء
محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خاں صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پانچ سو روپیہ کا نوٹ اور باقی روپیہ یعنی ……۷۵ پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء دو آدمی جو نصیبین میں بر فاقت مرزا خدا بخش صاحب بھیجے جائیںگے۔ ان کے لئے پانچ سو روپیہ کی ضرورت ہو گی۔ لہذا تحریر آں محب اطلاع دی گئی ہے کہ پانچ سو روپیہ ان کی روانگی کے لئے چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ نومبر ۱۸۹۹ء تک آں محب تشریف لائیں گے باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
نوٹ:۔اس خط میں نواب صاحب کے آنے کی جو تاریخ لکھی ہے۔ وہ صاف پڑھی نہیں گئی۔ غالباً آخر نومبر کی کوئی تاریخ ہو گی نصیبین کا مشن بعد میں بعض مشکلات کی وجہ سے بھیجا نہ جاسکا۔ گو اس مقصد کو اللہ تعالیٰ نے پورا کر دیا۔
اس خط پر جیسا کہ حضرت کا عام معمول تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی نہیں لکھا۔ مگر وہ نشان جس کے گرد میں نے حلقہ دے دیا ہے۔ جواللہ پڑھا جاتا ہے۔ درج ہے۔ بہرحال آپ نے بسم اللہ ہی اس کو شروع کرفرمایا ہے۔ (عرفانی)

مکتوب نمبر(۳۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم(۲۹؍ جنوری ۱۹۰۰) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
یہ دوبارہ ہی لکھا ہے۔
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ ہمدست مولوی محمد اکرم صاحب مجھ کو ملا اور دل سے آخر تک پڑھا گیا۔ دل کو اس سے بہت درد پہنچا کہ ایک پہلو سے تکالیف اور ہموم و غموم جمع ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ان سے مخلصی عطا فرماوے۔ مجھ کو (جہاں تک انسان کو خیال ہو سکتا ہے) یہ خیال جوش مار رہا ہے کہ آپ کے لئے ایسی دعا کروں جس کے آثار ظاہر ہوں۔ لیکن میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں اور حیران ہو ں کہ باوجود یہ کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور آپ کو ان مخلصین میں سے سمجھتا ہوں جو صرف چھ سات آدمی ہیں۔ پھر بھی ابھی تک مجھ کو ایسی دعا کا پورا موقعہ نہیں مل سکا۔ دعا تو بہت کی گئی اور کرتا ہوں۔ مگر ایک قسم کی دعا ہوتی ہے جو میرے اختیار میں نہیں۔ غالباً کسی وقت کسی ظہور میں آئی ہو گی اور اس کااثر یہ ہو اہو گا کہ پوشیدہ آفات کو خدا تعالیٰ نے ٹال دیا۔ لیکن میری دانست میں ابھی تک اکمل اور اتم طور پر ظہور میں نہیں آئی۔ مرزا خدا بخش صاحب کا اس جگہ ہونا بھی یا ددہانی کا موجب ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ کسی وقت کوئی ایسی گھڑی آجائے گی کہ یہ مدعا کامل طور پر ظہور میں آجائے گا۔
اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز کرے اور کامل طور پر قوت ایمان عطا فرماوے اور ہر طرح سے امن میں رکھے۔تب اس کے باقی ہموم وغموم کچھ چیز نہیں۔ میر ادل چاہتا ہے کہ آپ دو تین ماہ تک میرے پاس رہیں۔ نہ معلوم کہ یہ موقعہ کب ہاتھ آئے گا اورمدرسہ کے بارے میں انشاء اللہ استخارہ کروں گا۔ا گر کچھ معلوم ہوا تو اطلاع دوں گا۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام ۔خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۳۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم(۷؍ اگست ۱۹۰۰)نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاتحفہ پارچات نفیس و عمدہ جو آپ نے نہایت درجہ کی محبت اور اخلاص سے عطا فرمائے تھے مجھ کو مل گئے ہیں اس کا شکریہ اد اکرتا ہوں۔ ہر ایک پارچہ کو دیکھ کر معلوم ہو تا ہے کہ آں محب نے بڑی محبت اور اخلاص سے ان کوتیار کرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے عوض میں اپنے بے انتہاء اور نہ معلوم کرم اور فضل آپ پر کرے اور لباس التقویٰ سے کامل طور سے اولیاء اور صلحاء کے رنگ سے مشرف فرماوے ایک بڑی خواہش ہے کہ آپ فرصت پا کر تشریف لاویں۔ کیونکہ اب تک ایک سوئی او رمخالطب کی صحت کا آپ کو اتفاق نہیں ہوا اورجو کچھ آن محب نے صاحب کمشنر کی زبانی سنا تھا۔ اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے۔ ہمارا عقیدہ اور خیال انگریزی سلطنت کی نسبت بخیر اور نیک ہے۔اس لئے آخر انگریزوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب کچھ تہمیتں ہیں۔ کوئی تردد کی جگہ نہیں اور علالت طبیعت کے بارے میں جو آپ نے لکھا تھا۔ خدا تعالیٰ کافضل درکار ہے۔ سب خیر ہے۔ میں بہت دعا کرتا ہوں۔ بہتر ہے کہ اکثر مچھلی کے تیل کا استعمال شروع رکھیں اورجو تریاق الٰہی میں نے بھیجا تھا۔ ان میں سے یعنی دونوں قسموں سے کھایا کریں بہت مفید ہے اور جو آپ نے اپنے گھر کی نسبت لکھا تھا کہ مجھ کوکچھ بہت خوش نہیں رکھتیں۔ اس میں میری طرف سے یہی نصیحت ہے کہ آپ اپنے گھر کے لوگوں سے بہت احسان اور خلق اور مدارت سے پیس آیا کریں اور غائبانہ دعا کریں۔ حدیث شریف میں ہے کہ خیر کم خیر لاہلہ۔
انشاء اللہ بہت سی خوبیاں پید اہوجائیںگی۔ دنیا ناپائیدار ہے۔ ہر ایک جگہ اپنی مروت اور جوان مردی کانمونہ دکھلانا چاہئے اورعورتیں کمزور ہیں وہ اس نمونہ کی بہت محتاج ہیں۔ حدیث سے ثابت ہے کہ مرد خلیق پرخدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے۔ میں یہ سبب ایام صیام اور عید کے خط نہیں لکھ سکا۔ آج خط لکھا ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
ایک ضروری نوٹ از خاکسار ایڈیٹر
مکتوبات کا یہ حصہ جو میں یہاں دے رہا ہوں۔ یہ مکرمی خان صاحب میاں عبدالرحمن خاں صاحب خلف الرشید حضرت نواب صاحب قبلہ کے ذریعہ مجھے میسر آیا۔ مجھے افسوس ہے کہ ان خطوط کے لفافہ نہیں رکھے گئے۔ ورنہ ہر خط (جس پر تاریخ درج نہیں تھی) تاریخ کابا آسانی پتہ لگ سکتاتھا۔ اب بھی واقعات کے تاریخی سلسلہ سے ان کی تاریخ کاپتہ لگانا مشکل نہیں۔ مگر میں دارلامان قادیان سے دور ساحل بمبئی پر انہیں ترتیب دے رہاہوں۔ جہاں اس قسم کا سامان مجھے میسر نہیںہے۔ اس لئے ہر خط پر نوٹ دینے کی بجائے میں نے مناسب سمجھا کہ ایک نوٹ ان خطوط سے پہلے دے دوں تاکہ پڑھنے والوں کو آسانی ہو۔ اگر کسی خط پر مزید صراحت کی ضرورت ہوئی ہے تو وہاں بھی میں نے نوٹ دے دیا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۳۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دس روز کے قریب ہو گیا کہ آپ کودیکھا نہیں۔ غانبانہ آپ کی شفاء کے لئے دعا کرتا ہوں۔ مگر چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس آکر سنت عیادت کا ثواب بھی حاصل کروں۔ آج سرگردانی سے بھی فراغت ہوئی ہے اورلڑکی کو بھی بفضلہ تعالیٰ آرام ہے۔
والسلام ۔خاکسار
مرزا غلام احمد
۶؍ اگست ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر(۳۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ مضمون پڑھ کر عزیزی عبدالرحمن خاں کو پھر بخار ہو گیاہے۔ نہایت قلق ہوا۔ خدا تعالیٰ شفا بخشے۔ اب میں حیران ہوں کہ اس وقت جلد آنے کی نسبت کیا رائے دوں۔ پھر دعا کرنا شروع کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ شفاء بخشے۔ اس جگہ طاعون سخت تیزی پر ہے۔ ایک طرف انسان بخار میں مبتلا ہوتا ہے اورصرف چند گھنٹوں میں مر جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کب تک یہ ابتلا دور ہو۔ لوگ سخت ہراساں ہو رہے ہیں زندگی کا اعتبار اٹھ گیا ہے۔ ہر طرف چیخوں اور نعروں کی آواز آتی ر ہتی ہے۔ قیامت برپا ہے۔ اب میں کیا کہوں اور کیا رائے دوں۔ سخت حیران ہوں کہ کیا کروں۔ اگر خد اتعالیٰ کے فضل سے بخار اتر گیا ہے اور ڈاکٹر مشورہ دے دے کہ اس قدر سفر میں کوئی حرج نہیں۔ تو بہت احتیاط اور آرام کے لحاظ سے عبدالرحمن کو لے آویں۔ مگر بٹالہ سے ڈولی کا انتظام ضرور چاہئے۔ اس جگہ نہ ماجیور ڈولی بردار ملتا ہے نہ ڈولی کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ بٹالہ سے کرنا چاہئے۔ آپ کے گھر میں ہر طرح خیریت ہے۔ ام حبیبہ مرزا خدا بخش کی بیوی برابر آپ کے گھر میں سوتی ہے اوربچے چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ وہ اکثر روتے چیختے رہتے ہیں۔ کوئی عورت نہیں جوا ن کی حفاظت کرے اس لئے یہ تجویز خیال میں آتی ہے کہ اگر ممکن ہوتو چند روز مرزا خدا بخش آکر اپنے بچوں کو سنبھال لیں اوروہ بالکل ویرانہ حالت میں ہیں۔ باقی سب طرح خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکرر یہ کہ آتے وقت ایک بڑا بکس فینائل کا جو سولہ بیس روپیہ کا آتا ہے ساتھ لے آویں۔ اس کی قیمت اس جگہ دی جائے گی اور علاوہ اس کے آپ بھی اپنے گھر کے لئے فینائل بھیج دیں اورڈس انفکٹ کے لئے رسکپوراس قدر بھیج دیں۔ جو چند کمروں کے لئے کافی ہو۔
مکتوب نمبر(۳۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ مجھ کو ملا الحمد اللہ والمنۃ کہ اس نے اپنے فضل وکرم سے عزیزی عبدالرحمن خان کو صحت بخشی۔ گویا نئے سرے زندگی ہوئی ہے۔ اب میرے نزدیک تو یہی بہتر ہے کہ جس طرح ہو سکے قادیان میں آجائیں۔ لیکن ڈاکٹر کو مشورہ ضروری ہے۔ کیونکہ مجھے دور بیٹھے معلوم نہیں کہ حالات کیا ہیں اورصحت کس قدر ہے۔ بظاہر اس سفر میں چنداں تکلیف نہیں۔ کیوں کہ بٹالہ تک تو ریل کا سفر ہے اور پھر بٹالہ سے قادیان تک ڈولی ہو سکتی ہے اور گو ڈولی میں بھی کسی قدر حرکت ہوتی ہے۔ لیکن اگر آہستہ آہستہ یہ سفر کیا جائے تو بظاہر کچھ حرج معلوم نہیں ہوتا اور قادیان کی آب وہوا نہ نسبت لاہور کے عمدہ ہے۔ آپ ضرور ڈاکٹر سے مشورہ لے لیں اور پھر ان کے مشورہ کے مطابق بلا توقف قادیان میں چلے آویں۔ باقی اس جگہ زور طاعون کا بہت ہو ر ہا ہے۔ کل آٹھ آدمی مرے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل وکرم کرے۔ آمین
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍ اپریل ۱۹۰۴ء
مکتوب نمبر(۲۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللہ والمنۃ عزیز عبدالرحمن خاں صاحب کی طبیعت اب روبہ صحت ہے الحمدللہ ثم الحمد للہ اب میرے نزدیک (واللہ اعلم) مناسب ہے کہ اگر ڈاکٹر مشورہ دیں تو عبدالرحمن کو قادیان میں لے آویں۔ اس میں آب وہوا کی تبدیلی ہو جائے گی۔ ریل میں تو کچھ سفر کی تکلیف نہیں۔ بٹالہ سے ڈولی کی سواری ہو سکتی ہے۔ بظاہر بات تو یہ عمدہ ہے۔ تفرقہ دور ہو جائے گا اس جگہ قادیان میں آج کل طاعون کا بہت زور ہے۔ ارد گرد کے دیہات تو قریباً ہلاک ہو چکے ہیں۔ باقی اس جگہ سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۳۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج کی ڈاک میں آپ کا خط مجھ کو ملا اس وقت تک خدا کے فضل و کرم اور جود اور احسان سے ہمارے گھر اور آپ کے گھر میں بالکل خیروعافیت ہے۔ بڑی غوثان کو تپ ہو گیا تھا۔ا س کوگھر سے نکال دیا ہے۔ لیکن میری دانست میں اس کو طاعون نہیں ہے۔ احتیاطاً نکال دیا ہے اورماسٹر محمد دین کوتپ ہو گیا اور گلٹی بھی نکل آئی ۔ اس کوبھی باہر نکال دیا ہے۔ غرض ہماری اس طرف بھی کچھ زور طاعون کا شروع ہے بہ نسبت سابق کچھ آرام ہے۔ میں نے اس خیال سے پہلے لکھا تھا کہ اس گائوں میں اکثر وہ بچے تلف ہوئے ہیں۔ جو پہلے بیمار یا کمزور تھے۔ اسی خیال نے مجھے اس بات کے کہنے پر مجبور کیا تھا کہ وہ د وہفتہ تک ٹھہر جائیں یا اس وقت تک کہ یہ جوش کم ہو جائے۔ اب اصل بات یہ ہے کہ محسوس طور پر تو کچھ کمی نظر نہیں آتی۔ آج ہمارے گھر میں ایک مہمان عورت کو جو دہلی سے آئی تھی بخار ہو گیا ہے۔ لیکن اس خیال سے کہ آپ سخت تفرقہ میں مبتلا ہیں۔ اس وقت یہ خیال آیا کہ بعد استخارہ مسنونہ خدا تعالیٰ پر توکل کرکے قادیان آجائیں۔ میں تو دن رات دعا کررہا ہوں اور اس قدر زور اور توجہ سے دعائیں کی گئی ہیں کہ بعض اوقات میں ایسا بیمار ہو گیا کہ یہ وہم گزرا کہ شاید دو تین منٹ جان باقی ہے اورخطرناک آثار ظاہر ہو گئے۔ اگر آتے وقت لاہور سے ڈس انفکیٹ کے لئے کچھ رسکپور اور کسی قدر فلنائل لے آویں اور کچھ گلاب اور سرکہ لے آویں تو بہتر ہو گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۶؍ اپریل ۱۹۰۴ء
مکتوب نمبر(۴۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاخط آج کی ڈاک میں پہنچا پہلے اس سے صرف بہ نظر ظاہر لکھا گیا تھا۔ اب مجھے یہ خیال آیا ہے کہ توکلا علی اللہ اس ظاہرکو چھوڑ دیں۔ قادیان ابھی تک کوئی نمایاں کمی نہیں ہے۔ ابھی اس وقت جو لکھ رہاہوں ایک ہندو بیجاتھ نام جس کاگھرگویا ہم سے دیوار بہ دیوار ہے۔ چند گھنٹہ بیمار رہ کر راہی ملک بقا ہوا۔ بہرحال خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کر کے آپ کو اجازت دیتا ہوںکہ آپ بخیروعافیت تشریف لے آویں۔ شب بیداری اور دلی توجہات سے جو عبدالرحمن کے لئے کی گئی میرا دل ودماغ بہت ضعیف ہو گیا ہے۔ بسا اوقات آخری دم معلوم ہوتا تھا۔ یہی حقیت دعا ہے۔ کوئی مرے تا مرنے والے کو زندہ کرے۔ یہی الٰہی قانون ہے۔ سو میں اگرچہ نہایت کمزور ہوں لیکن میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ آپ جب آویں تو پھر چند روز درد انگیز دعائوں سے فضل الٰہی کو طلب کیا جائے۔ خدا تعالیٰ صحت اور تندرستی رکھے۔ سو آپ بلا توقف تشریف لے آویں۔ اب میرے کسی اورخط کا انتظار نہ کریں۔
والسلام ۔خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزہ سعیدہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں نے آپ کاخط غور سے پڑھ لیا ہے اور جس قدر آپ نے اپنی عوارض لکھی ہیں غور سے معلوم کر لئے ہیں۔ انشاء اللہ صحت ہو جائے گی۔ میں نہ صرف دوا بلکہ آپ کے لئے بہت توجہ سے دعا بھی کرتا ہوں۔مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو پوری شفاء دے گا۔ یہ تجویز جو شروع ہے۔ آپ کم سے کم چالیس روز تک اس کو انجام دیں اوردوسرے وقت کی دوا میں آپ ناغہ نہ کریں۔ وہ بھی خون صاف کرتی ہے اور دل کی گھبراہٹ کو دو رکرتی ہے اورآنکھوں کوبھی مفید ہے۔ مگر آپ بیچ میں ناغہ کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ کل آپ نے دوا نہیں پی۔ ناغہ نہیں ہونا چاہئے اور نیز مصالحہ۔ مرچیں اورلونگ او رلہسن وغیرہ نہیں کھانا چاہئے یہ آنکھوں کے لئے مضر ہیں۔
آپ کے لئے یہ غذا چاہئے۔ انڈا۔ دودھ۔ پلائو گوشت ڈال کر۔ گوشت جس میں کچھ سبزی ہے۔ ثقیل یعنی بوجھل چیزوں سے پرہیز چاہئے۔ کچھ میٹھا یعنی شیرینی نہیں کھانی چاہئے۔ ایک جگہ بیٹھے نہیں رہنا چاہئے۔ کچھ حرکت چاہئے۔ عمدہ ہوار ربیع کی لینی چاہئے۔ غم نہیں کرنا چاہئے۔ اس علاج سے پھنسیاں وغیرہ انشاء اللہ دور ہو جائیں گی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خط میں نے پڑھا۔ اصل بات یہ ہے کہ اس بات کے معلوم ہونے سے کہ جس قدر بوجہ ہمسائیگی ہمدردی ضروری ہے۔ وہ آپ سے ظہور میں نہیں آئی۔ یعنی والدہ محمود جو قریباً دس ماہ تک تکالیف حمل میں مبتلا ہیں اور جان کے خطرہ سے اللہ تعالیٰ نے بچایا۔ اس حالت میں اخلاق کا تقاضا یہ تھا کہ آپ سب سے زیادہ ایسے موقعہ پر آمدور فت سے ہمدردی ظاہر کرتے اور اگر وہ موقعہ ہاتھ آناضروری تھا۔ بلکہ اس موقعہ پر برادرانہ تعلق کے طور پر آنا ضروری تھا۔ بلکہ اس موقع پر کم تعلق والی عورتیں بھی مبارک باد کے لئے آئیں۔ مگر آپ کی طرف سے ایسادروازہ بند رہا کہ گویا سخت ناراض ہیں۔اس سے سمجھا گیا کہ جب کہ اس درجہ تک آپ ناراض ہیں۔ تو پھر دروازہ کا کھلا رہنا نا مناسب ہے۔ ایسے دروازے محض آمدورفت کے لئے ہوتے ہیں اورجب آمدورفت نہیں تو ایسا دروازہ ایسی ٹہنی کی طرح ہے۔ جس کو کبھی کوئی پھل نہ لگتا ہو۔اس لئے اس دروازہ کو بند کر دیا گیا۔ لیکن خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سخت بیمار تھے۔ اس وجہ سے آنے سے معذوری ہوئی۔اس عذر کے معلوم ہونے کے بعد میں نے وہ دروازہ کھلا دیا ہے اوردرحقیقت ایسی بیماری جس سے زندگی سے بھی بیزاری ہے کہی ایسی سخت بیماری کی حالت میں کیونکر آسکتے تھے۔ امید ہے کہ جس طرح نواب صاحب سچی ہمدردی رکھتے ہیں۔ آپ بھی اس میں ترقی کریں۔ خداتعالیٰ ہرایک آفت اور بیماری سے بچاوے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سید عنایت علی صاحب کو اس نوکری کی پرواہ نہیں ہے۔ ورنہ باوجود اس قدر بار بارلکھنے کے کیا باعث کہ جواب تک نہ دیا۔ اس صورت میں آپ کو اختیار ہے جس کو چاہیں مقرر کر دیں اور یہ بھی آپ کی مہربانی تھی۔ ورنہ نوکروں کے معاملہ میں بار بار کہنے کی کیا ضرورت تھی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جب کہ وہ خود استعفاء بھیجتا ہے تو آپ حق ترحم ادا کرچکے۔ اس صورت میں اس جگہ بھیج سکتے ہیں۔ آپ پر کوئی اعتراض نہیں کہ آپ نے موجودہ حالت کے لحاظ سے یہ انتظام کیا ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت تار کے نہ پہنچنے سے بہت تفکر اور تردد ہوا۔ خد اتعالیٰ خاص فضل کر کے شفاء بخشے۔اس جگہ دور بیٹھے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اصل حالت کیا ہے۔ اگر کوئی صورت ایسی ہو کہ عبدالرحمن کو ساتھ لے کر قادیان آجاویں۔ تو روبرو دیکھنے سے دعا کے لئے ایک خاص جوش پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شفاء بخشے اوروہ آپ کے دل کا ددر دور کرے۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۵؍ مارچ ۱۹۰۴ء
مکتوب نمبر(۴۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میںاس کام میں بالکل دخل نہیں دیتا۔ آپ کا کلی اختیار ہے۔ اس وقت مجھے وہی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد آتی ہے۔ انتم اعلم بدنیا کم اور سرمایہ لنگر خانہ کا یہ حال ہے کہ گھر میں دیکھتا ہوں کہ کوئی ایسا دن نہیں گزرا کہ کچھ روپیہ نہیں دیا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اس کاخرچ متفرق ہوتا رہا۔ میرے پاس اس وقت شائد پانچ سوروپیہ کے قریب ہوگا۔ جو لنگر خانہ کے لئے جمع تھے۔ باقی سب خرچ ہوچکا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ یہ بھی ایک ابتلاء ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ روپیہ بہت جمع ہوتا ہے اور میرے پاس کچھ بھی نہیں رہتا۔ اگر کوئی ان اخراجات کا ذمہ وار ہو جو ہر ایک پہلو سے ہو رہے ہیں تو وہ اس روپیہ کو اپنے پاس رکھے تو مجھے اس رنج و بلا سے سبکدوشی ہو۔ خواہ مخواہ تفرقہ طبیعت ہر وقت لگا رہتا ہے اور موجب آزار ٹھہرتا ہے۔
مکتوب نمبر(۴۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا۔ اس کا پڑھ کر اس قدر خوشی ہوئی کہ اندازہ سے باہر ہے۔ مجھے اوّل سے معلوم ہے کہ نور محمد کے لڑکے کی شکل اچھی نہیں ا ور نہ ان لوگوں کی معاشرت اچھی ہے۔اگر سادات میں کوئی لڑکی ہو۔جو شکل اور عقل میں اچھی ہو تو اس سے کوئی امر بہتر نہیں۔ا گر یہ نہ ہو سکے تو پھر دوسری شریف قوم میں سے ہو۔ مگر سب سے اوّل اس کے لئے کوشش چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو جلد ہونا چاہئے۔ا گر ایسا ظہور میں آگیا تو مولوی صاحب کے تعلقات کوٹلہ سے پختہ ہوجائیںگے اور اکثر وہاںکے رہنے کا بھی اتفاق ہو گا۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے اور چند ہفتہ میں یہ مبارک کام ظہور میں آئیں تو کیا تعجب ہے کہ یہ عاجز بھی اس کارخیر میں مولوی صاحب کے ساتھ کوٹلہ میں آوے۔ سب امر اللہ تعالیٰ کے اخیتار میں ہے۔ امیدکہ پوری طرح آں محب کوشش فرماویں۔ کیونکہ یہ کام ہونا نہایت مبارک امرہے۔ خدا تعالیٰ پوری کر دیوے۔ آمین ثم آمین۔
اس عاجز نے دوسو روپیہ آں محب سے طلب کیا ہے۔ انیٹوں کی قیمت اور معماروں کی اجرت میں برسات اب سر پر ہے۔اگر اس وقت تکلیف فرما کر ارسال فرماویں تواس غم سے کہ ناگہانی طور پر میرے سر پر آگیا ہے مجھے نجات ہو گی ۔ مجھے ایسی عمارات سے طبعاً کراہت اور سخت کراہت ہے۔ اگر آپ کی نیت درمیان نہ ہوتی تو میں کجا اور ایسے بیہودہ کام کجا۔ آپ کی نیت نے یہ کام شروع کرایا۔ مگر افسوس اس وقت تک یہ بیکار ہے جب تک کہ اورپر کی عمارت نہ ہو۔ عمارت کے وقت تو یہ شعر نصب العین رہتا ہے۔
عمارت در سرائے دیگر انداز۔ کہ دنیا را اساسے نیست محکم
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
۱۸۹۷ء
مکتوب نمبر(۴۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ خداتعالیٰ آپ کوان مشکلات سے نجات دے۔ علاوہ اور باتوں کے میں خیال کرتا ہوں کہ جس حالت میں شدت گرمی کا موسم ہے اور بباعث قلنت برسات یہ موسم اپنی طبعی حالت پر نہیں اور آپ کی طبیعت پر سلسلہ اعراض اور امراض کا چلا جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ آپ درحقیقت بہت کمزور ا ور نحیف ہو رہے ہیںا ور جگر بھی کمزور ہے۔ عمدہ خون بکثرت پید انہیں ہوتا ۔ تو ایسی صورت میں آپ کاشدائد سفر تحمل کرنا میری سمجھ میں نہیں آتا۔ کیوں اور کیا وجہ کہ آپ کے چھوٹے بھائی سردار ذولفقار علی خاںجو صحیح اور تندرست ہیں۔ ان تکالیف کاتحمل نہ کریں۔اگر موسم سرما ہوتا تو کچھ مضائقہ بھی نہ تھا۔ مگر یہ بے صبری اور بیجا شتاب کاری سے دور نہیں ہو سکتیں۔ صبر اور متانت اور آہستگی اور ہوش مندی سے ان کا علاج کرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ اس خطرناک موسم میں سفر کریں اور خدانخواستہ کسی بیماری میں مبتلا ہو کر موجب شماتت اعدا ہوں۔ پہلے سفر میں کیسی کیسی حیرانی پیش آئی تھی اور لڑکے بیمار ہونے سے کس قدر مصائب کا سامنا پیش آگیا تھا۔ کیا یہ ضروری ہے کہ کمشنر کے پاس آپ ہی جائیں اور دوسری کوئی تدبیر نہیں۔ غرض میری یہی رائے ہے کہ یہ کاروبار آپ پر ہی موقوف ہے تو اگست اور ستمبر تک التوا کیا جائے اور اگر ابھی ضروری ہے تو آپ کے بھائی یہ کام کریں۔ ڈرتا ہوں کہ آپ بیمار نہ ہوجائیں۔ خط واپس ہے۔ اس وقت مجھے بہت سردرد ہے۔ زیادہ نہیں لکھ سکتا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ‘
مکتوب نمبر(۴۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہٰ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
میں نے آپ کے تمام خطوط مرسلہ پڑھ لئے۔ میرے نزدیک اب کفالت شعاری کے اصول کی رعایت رکھنا ضروریات سے ہے۔ اس لئے اب جواب کافی ہے۔ یعنی نسبت میر عنایت علی کہ چونکہ وقت پر وہ حاضر نہیں ہوسکے اس لئے بالفعل گنجائش نہیں اور آئندہ اگر گنجائش ہوئی تو اطلاع دے سکتے ہیں اور مرزا خدا بخش صاحب کے صاحبزادے چونکہ بباعث کمی استعداد تعلیم پانے کے لائق نہیں۔ ان کو بہ توقف رخصت کرنا بہتر ہے۔ ناحق کی زیر باری کی کیا ضرورت ہے اور افسوس کہ جس قدر آپ نے اپنے کاروبار میں تخفیف کی ہے۔ ابھی وہ قابل تعریف نہیں۔ شاید کسی وقت پھر نظر ثانی کریں تو اور تخفیف کی صورتیں پیدا ہو جائیں اور دعا تو کی جاتی ہے۔ مگر وقت پر ظہور اثر موقوف ہوتا ہے۔ خد اتعالیٰ تکالیف سے آپ کو نجات بخشے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۵۰)ملفوف
(اصل خط نواب صاحب)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
التجا ہے کہ بعد ملا خطہ کل عریضہ حکم مناسب سے مطلع فرمایا جاوے۔
سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجھ کو جب کسی ملازم کو موقوف کرنا پڑتا ہے تو مجھ کو بڑی کوشش و پنج ہو تی ہے اور دل بہت کڑھتا ہے۔ اس وقت بھی مجھ کو دو ملازموں کو برخاست کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ ایک قدرت اللہ خاںصاحب اور دوسرے عنایت علی صاحب۔ یہ دونوں صاحب احمدی بھی ہیں۔ اس سے اور بھی طبیعت میں بیج وتاب ہے۔ میراجی نہیںچاہتا کہ کوئی لائق آدمی ہو اور اس کو بلاقصور موقوف کر دوں۔ اب وقت یہ پیش آئی ہے کہ سید عنایت علی کوئی پانچ سال سے میرے ہاں ملازم ہیں۔ مگر کام کی حالت ان کی اچھی نہیں۔ اب تک جس کام پر ان کو میں نے لگایا ہے ۔ اس کی سمجھ اب تک ان کو نہیں آئی اور انہوں نے کوئی ترقی نہیں کی اورمیرے جیسے محدود آمدنی کے لئے ایسے ملازم کی ضرورت ہے کہ جو کئی سال کام کرسکے۔ وہ اپنا مفوضہ کام پوری طرح نہیں چلا سکے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ نیک اور دیانت دار ہیں۔ مگر کام کے لحاظ سے بالکل ندارد ہیں اور اس پانچ سال کے تجربہ نے مجھے اس نتیجہ پر پہنچا دیا ہے کہ میں ان کی علیحدہ کر دوں۔ یہ میری سال گزشتہ سے منشاء تھی۔مگر صرف ا س سبب سے کہ وہ نیک ہیں۔دیانت دار ہیںا وراحمدی ہیں میں رکا تھا۔ مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ جوفائدہ ان کی دیانت سے ہے اس سے زیادہ نقصان ان کی عدم واقفیت کام سے ہوتا ہے۔ پس اب میں نہایت ہی مترددہوںکہ ان کو موقوف کردوں کہ نہیں۔ کاش وہ میرا کام چلا سکتے تو بہت اچھا ہوتا۔ ایک وقت ہے کہ میںنے ان سے مختلف صیغوں میں کام لیا۔ مگر وہر جگہ ناقابل ہی ثابت ہوئے۔
مکتوب نمبر(۵۱)ملفوف (نواب صاحب کاخط)
سیدی مولانیٰ مکرمی معظمی طبیب روحانی سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم۔ جو رنج اور قلق اس واقعہ سے جو ہماری بد قسمتی اور بے سمجھی سے پیش آیا ہے۔ یعنی میرے گھر سے حضور کی علالت کے موقعہ پر حاضر نہیں ہوئے۔ اب اس کے وجوہات کچھ بھی ہوں ہم کو اپنے قصور کا اعتراف ہے۔
ہم اپنی روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔ اب تک جو معافی قصور کے لئے درخواست کرنے میں دیر ہوئی۔ وہ میرے گھر کے لوگوں کو یہ سبب ایسے واقعات کے کبھی پیش نہ آنے کی وجہ سے اور زیادہ حجاب واقع ہو گیا اور ان کو شرم ہر ایک سے آنے لگی میں اب خاموش رہا کہ جب تک اس جھوٹی شرم سے خودہی باز نہ آئیں گے۔ جب تک میں خاموش رہوں۔ تاکہ دل سے ان کو یہ محسوس ہو اور خود دل سے معافی چاہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک پرچہ اپنے حال کا لفافہ میں رکھ کر بھیجا ہے تاکہ حضور کی خدمت میں پیش کروں۔ پس اب عرض ہے۔ بقول برما منگر یر کرم خویش مگر از خورد ان خطا واز بزرگان عطا۔ آپ میری بیوی کا یہ قصور معاف فرمادیں۔ (راقم محمدعلی خاں )
حضرت اقدس کا مکتوب
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جو کچھ میں نے رنج ظاہر کیا تھا۔ وہ درحقیقت ایساہی تھا جیسا کہ باپوں کو اپنی اولاد کے ساتھ ہوتا ہے۔ چونکہ میں تربیت کے لئے مامور ہوں۔ سو میری فطرت میں داخل کیا گیا ہے کہ میں ایک معلم ناصح اورشفیق مربی کی طرح اصلاح کی غرض سے کبھی رنج بھی ظاہر کر وں اور خطا کو معاف نہ کرنا خود عیب میں داخل ہے۔ اس لئے میں پورے دل کی صفائی سے اس خطا کومعاف کرتاہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو اور آپ کے اہل بیت کو اپنے فضل سے سچی پاکیزگی اور سچی دینداری سے پورے طور پر متمنع فرمائے۔ آمین ثم آمین اور اپنی محبت اور اپنے دین کی التقات عطا فرمائے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام ا حمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۵۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل کی ڈاک میں آں محب کا عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ آپ کی محبت اور اخلاص اور ہمدردی میں کچھ شک نہیں ۔ہاں میں ایک استاد کی طرح جو شاگردوں کی ترقی چاہتا ہوں۔ آیندہ کی زیادہ قوت کے لئے اپنے مخلصوں کے حق میں ایسے الفاظ بھی استعمال کرتا ہوں جن سے وہ متبنہ ہو کر اپنی اعلیٰ سے اعلیٰ قوتیں ظاہر کریں اور دعا ہی کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ان کی کمزوریاں دور فرمائے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس دنیا کا تمام کاروبار اور اس کی نمائش اور عزتیں جناب کی طرح ہیں اور نہایت سعادت مندی اسی میں ہے کہ پورے جوش سے اور پوری صحت کے ساتھ دین کی طرف حرکت کی جائے اورمیرے نزدیک بڑے خوش نصیب وہ ہیں کہ اس وقت اور میری آنکھوں کے سامنے دکھ اٹھا کر اپنے سچے ایمان کے جوش دکھاویں۔ مجھے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس زمانہ کے لئے تجھے گواہ کی طرح کھڑا کروں گا۔ پس کیا خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے بارے میں اچھی طرح گواہی ادا کر سکوں۔ اس لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ خد اکا خوف بہت بڑھا لیا جائے۔ تا اس کی رحمتیں نازل ہوں اورتا وہ گناہ بخشے۔ آپ کے دو خط آنے کے بعد ہمارے اس جگہ کے دوستوں نے اس رائے کو پسند کیا کہ جو زمانہ گھر کے حصہ مغربی کے مکانات کچے اور دیوار کچی ہے۔اس کو مسمار کر کے اس کی چھت پر مردانہ مکان تیار ہو جائے اور نیچے کامکان بدستور گھر سے شامل رہے۔ چنانچہ حکمت الٰہی سے یہ غلطی ہو گئی کہ وہ کل مکان مسمار کر دیا گیا۔ اب حال یہ ہے کہ مردانہ مکان تو صرف اوپر تیار ہو سکتا ہے اور زنانہ مکان جو تمام گرایا گیا ہے۔ اگر نہایت ہی احتیاط اور کفایت سے اس کو بنایا جائے تو شاید ہے کہ آٹھ سو روپیہ تک بن سکے۔ کیو نکہ اس جگہ انیٹ اور دوہری قیمت خرچ ہوتی ہے اور مجھے یقین نہیں کہ چار سور وپیہ کی لکڑی آکر بھی کام ہوسکے۔ بہرحال یہ پہلی منزل اگر تیار ہو جائے تو بھی بیکار ہے۔ جب تک دوسری منزل اس پر نہ پڑے کیوں کہ مردانہ مکان اسی چھت پر پڑ گیا اور چونکہ ایک حصہ مکان گرنے سے گھر بے پردہ ہورہا ہے اور آج کل ہندو بھی قتل وغیرہ کے لئے بہت کچھ اشتہارات شائع کر رہے ہیں۔ اس لئے میں نے کنویں کے چندہ میں سے عمارت کو شروع کرا دیا ہے۔ تاجلد پردہ ہو جائے گا۔ا گر اس قدر پکا مکان بن جائے جو پہلے کچا تھا توشاید آیندہ کسی سال اگر خداتعالیٰ نے چاہا تو اوپر کا مردانہ حصہ بن سکے۔ افسوس کہ لکڑی چھت کی محض بیکار نکلی اور ایسی بوسیدہ کہ اب جلانے کے کام میں آتی ہے۔ لہذا قریباً چار سو روپیہ کی لکڑی چھت وغیرہ کے لئے درکار ہو گی۔ خدا تعالیٰ کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں۔ اگر اس نے چاہا ہے تو کسی طرح سے انجام کر دے گا۔ یقین کہ مولوی صاحب کاعلیحدہ خط آپ کو پہنچے گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۶؍ اپریل ۱۸۹۶ء
مکتوب نمبر(۵۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قادیان میں تیزی سے طاعون شروع ہو گئی ہے۔ آج میاں محمد افضل ایڈیٹر اخبار البدر کا لڑکا جاں بلب ہے۔ نمونیا پلیگ ہے۔ آخری دم معلوم ہوتا ہے۔ ہر طرف آہ وزاری ہے۔ خدا تعالیٰ فضل کرے۔ ایسی صورت میں میرے نزدیک بہت ہے کہ آپ آخیر اپریل ۱۹۰۵ء تک ہرگز تشریف نہ لاویں۔ دنیا پر ایک تلوار چل رہی ہے۔ خدا تعالیٰ رحم فرمائے۔ باقی خداتعالیٰ کے فضل سے سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج مولوی مبارک علی صاحب جن کی نسبت آپ نے برخاستگی کی تجویز کی تھی۔ حاضر ہو گئے ہیں۔ چونکہ وہ میرے استاد نادہ ہیں اور مولوی فضل احمد صاحب والد بزرگوار ان کے جو بہت نیک اور بزرگ آدمی تھے۔ ان کے میرے پر حقوق استادی ہیں۔ میری رائے ہے کہ اب کی دفعہ آپ ان کی لمبی رخصت پر اغماض فرماویں۔ کیونکہ وہ رخصت بھی چونکہ کمیٹی کی منظوری سے تھی کچھ قابل اعتراض نہیں۔ ماسوا اس کے چونکہ وہ واقعہ( میں ) ہم پر ایک حق رکھتے ہیں اور عفو اور کرم سیرت ابرار میں سے ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واعفو اوا صفحوا الا اتحبون ان یغفر اللہ لکم واللہ غفور الرحیم یعنی عفو اور درگزر کی عادت ڈالو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدابھی تمہاری تقصیر میں معاف کرے اورخداتو غفور رحیم ہے۔ پھر تم غفور کیوں نہیں بنتے۔ اس بناء پر ان کا یہ معاملہ درگزر کے لائق ہے۔ اسلام میں یہ اخلاق ہرگز نہیں سکھلائے گئے۔ ایسے سخت قواعد نصرانیت کے ہیں اور ان سے خداہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔ ماسوا اس کے چونکہ میں ایک مدت سے آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ان کے گناہ معاف کرتا ہوں جو لوگوں کے گناہ معاف کرتے ہیں اور یہی میرا تجربہ ہے۔ پس ایسانہ ہو کہ آپ کی سخت گیری کچھ آپ ہی کی راہ میں سنگ راہ ہو۔ ایک جگہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص فوت ہوگیا۔ جس کے اعمال کچھ اچھے نہ تھے۔ اس کو کسی نے خواب میںدیکھا کہ خداتعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا ۔ اس نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بخش دیا اورفرمایا کہ تجھ میں یہ صفت تھی کہ تو لوگوں کے گناہ معاف کرتا تھا اس لئے میں تیرے گناہ معاف کرتا ہوں۔ سو میری صلاح یہی ہے کہ آپ اس امر سے درگزر کرو تا آپ کو خداتعالیٰ کی جناب میں درگزر کرانے کا موقعہ ملے۔ اسلامی اصول انہی باتوں کا چاہتے ہیں۔ دراصل ہماری جماعت کے ہمارے عزیز دوست جو خدمت مدرسہ پر لگائے گئے ہیں وہ ان طالب علم لڑکوں سے ہمیں زیادہ عزیز ہیں۔ جن کی نسبت ابھی تک معلوم نہیں کہ نیک معاش ہوں گے یا بدمعاش۔
یہ سچ ہے کہ آپ تمام اختیارات رکھتے ہیں۔ مگر یہ محض بطور نصیحتاً للہ لکھا گیا ہے۔ اختیارات سے کام چلانا نازک امرہے۔ اس لئے خلفاء راشدین نے اپنے خلافت کے زمانہ میں شوریٰ کوسچے دل سے اپنے ساتھ رکھا تا اگر خطا بھی ہو تو سب پر تقسیم ہوجائے نہ صرف ایک کی گردن پر۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایسے وقت آپ کاعنایت نامہ مجھ کو ملا کہ میں دعا میں مشغول ہوں اور امیدوار رحمت ایزوی حالات کے معلوم کرنے سے میری بھی یہی رائے ہے کہ ایسی حالت میں قادیان میں لانا مناسب نہیں ۔ امید کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد وہ دن آئے گا کہ با آسانی سواری کے لائق ہو جائیںگے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ جس وقت عزیزی عبدالرحمن ڈاکٹروں کی رائے سے ریل کی سواری کے لائق ہو جائیں۔ تو بٹالہ میں پہنچ کر ڈولی کاانتظام کیا جائے۔ کیونکہ یکہ وراستہ وغیرہ ضعف کی حالت میں ہرگز سواری کے لائق نہیں ہیں۔ میںخداتعالیٰ کے فضل اور توفیق سے بہت توجہ سے کرتا رہوں گا۔
دو خاص وقت ہیں (۱) وقت تہجد (۲) اشراق ماسوا اس کے پانچ وقت نماز میں انشاء اللہ دعا کروں گا اور جہاں تک ہو سکے آپ تازہ حالات سے ہرروز مجھے اطلاع دیتے رہیں کیونکہ اگرچہ اسباب کی رعایت بھی ضروری ہے۔ مگر حق بات یہ ہے۔ کہ اسباب بھی تب ہی درست اور طیب کو بھی تب ہی سیدھی راہ ملتی ہے۔ جب کہ خداتعالیٰ کا ارادہ ہو اور انسان کے لئے بجز دعا کے کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو خداتعالیٰ کے ارادہ کو انسان کی مرضی کے موافق کردے ایک دعا ہی ہے کہ اگر کمال تک پہنچ جائے توایک مردہ کی طرح انسان زندہ ہوسکتا ہے۔ خداتعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ دعا کمال کو پہنچ جائے وہ نہایت عمدہ چیز ہے۔ یہی کیمیا ہے اگر اپنے تمام شرائط کے ساتھ متحقق ہوجائے۔ خداتعالیٰ کا جن لوگوں پر فرض ہے اور جو لوگ اصطفا اوراجتباء کے درجہ تک پہنچے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کوئی نعمت ان کو نہیں دی گئی کہ اکثر دعائیں ان کی قبول ہوجائیں۔ گو مشیت الٰہی نے یہ قانون رکھا ہے کہ بعض دعائیں مقبولوں کی بھی قبول نہیں ہوتیں لیکن جب دعا کمال کے نقطہ تک پہنچ جاتی ہے۔ جس کا پہنچ جانا محض خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہ ضرور قبول ہوجاتی ہے۔ یہ کبریت احمر ہے جس کا وجود قلیل ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی عنہ
از قادیان
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مکتوب (۵۶) نمبرملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ جو کچھ آپ نے مجھ کو لکھا ہے اس سے مجھے بکلی اتفاق ہے۔ میںنے مفتی محمد صادق صاحب کو کہہ دیا ہے کہ آپ کے منشاء کے مطابق جواب لکھ دیں اورآپ ہی کی خدمت میں بھیج دیں۔ آپ پڑھ کر اور پسند فرما کر روانہ کر دیں۔ ہاں ایک بات میرے نزدیک ضروری ہے گو آپ کی طبیعت اس کو قبول کرے یا نہ کرے اوروہ یہ ہے کہ ہمیشہ دو چار ماہ کے بعد کمشنر صاحب وغیرہ حکام کو آپ کا ملنا ضروری ہے۔ کیو نکہ معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ بعض شکی مزاج حکام کو جو اصلی حقیقت سے بے خبر ہیں ہمارے فرقہ پر سوء ظن ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی حکام کو نہیں ملتا اورمخالف ہمیشہ ملتے رہتے ہیں۔ پس جس حالت میں آپ جاگیردار ہیں اور حکام کو معلوم ہے کہ آپ فرقہ میں شامل ہیں۔ اس لئے ترک ملاقات سے اندیشہ ہے کہ حکام کے دل میں یہ بات مرکوز نہ ہو جائے کہ یہ فرقہ اس گورنمنٹ سے بغض رکھتا ہے۔گو یہ غلطی ہو گی اورکسی وقت رفع ہو سکتی ہے۔ مگر تا تریاق ازعرق آوردہ شود مار گزیدہ مردہ شود باقی سب طرح سے خیریت ہے۔ میں انشاء اللہ بروز جمعرات قادیان سے روانہ ہوں گا۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ خاکسار بباعث کثرت پیشاب اور دوران سر اور دوسرے عوارض کے خط لکھنے سے قاصر رہا۔ ضعف بہت ہو رہاہے۔ یہاں تک کہ بجز دو وقت یعنی ظہر اور عصر کے گھر میں نماز پڑھتا ہوں۔ آپ کے خط میں جس قدر ترددات کا تذکرہ تھا پڑھ کر اور بھی دعا کے لئے جوش پیدا ہوا۔ میںنے یہ التزام کر رکھا ہے کہ پنچ وقت نماز میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اورمیںبہ یقین دل جانتا ہوں کہ یہ دعائیں بیکار نہیں جائیںگی۔ ابتلائوں سے کوئی انسان خالی نہیں ہوتا۔ اپنے اپنے قدر کے موافق ابتلاء ضرور آتے ہیں اور وہ زندگی بالکل طفلانہ زندگی ہے جو ابتلائوں سے خالی ہو۔ ابتلائوں سے آخر خد اتعالیٰ کا پتہ لگ جاتاہے۔ حوادث دھر کاتجربہ ہو جاتاہے اور صبر کے ذریعہ سے اجر عظیم ملتا ہے۔ اگر انسان کوخداتعالیٰ کی ہستی پر ایمان ہے تو اس پر بھی ایمان ضرور ہوتا ہے کہ وہ قادر خدابلائوں کے دور کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ میرے خیال میں اگرچہ وہ تلخ زندگی جس کے قدم قدم میں خارستان مصائب و حوادث و مشکلات ہے۔ بسا اوقات ایسی گراں گزرتی ہے کہ انسان خود کشی کا ارادہ کرتا ہے۔ یا دل میں کہتا ہے کہ اگر میں اس سے پہلے مر جاتا تو بہتر تھا۔ مگر درحقیقت وہی زندگی قدرتا ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ سے سچا او رکامل ایمان حاصل ہوتا ہے۔ ایمان ایوب نبی کی طرح چاہئے کہ جب اس کی سب اولاد مر گئی اور تمام مال جاتا رہا تو اس نے نہایت صبر اور استقلال سے کہا کہ میں ننگا آیا اور ننگا جائوں گا۔
پس اگر دیکھیں تو یہ مال اورمتاع جو انسان کو حاصل ہوتا ہے صرف خدا کی آزمائش ہے۔ اگر انسان ابتلاء کے وقت خدا تعالیٰ کا دامن نہ چھوڑے۔ تو ضرور وہ اس کی دستگیری کرتا ہے۔ خداتعالیٰ درحقیقت موجود ہے اور درحقیقت وہ ایک مقرر وقت پر دعا قبول کرتا ہے اورسیلاب ہموم وغموم سے رہائی بخشتا ہے۔ پس قوی ایمان کے ساتھ اس پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ وہ دن آتا ہے کہ یہ تمام ہموم وغموم صرف ایک گزشتہ قصہ ہو جائے گا۔ آپ جب تک مناسب سمجھیں لاہور رہیں۔ خدا تعالیٰ جلد ان مشکلات سے رہائی بخشے۔ آمین۔
اپیل مقدمہ جرمانہ دائر کیا گیا ہے۔ مگر حکام نے مستغیث کی طرف سے یعنی کرم دین کی مدد کے لئے سرکاری وکیل مقرر کر دیا ہے۔ یہ امر بھی اپیل میں ہمارے لئے بظاہر ایک مشکل کا سامنا ہے۔ کیو نکہ دشمن کو وکیل کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں وہ بہت خوش ہو گا اور اس کو بھی اپنی فتح سمجھے گا۔ ہر طرف دشمنوں کا زور ہے۔ خون کے پیاسے ہیں۔ مگر وہی ہو گا جو خواستئہ ایزوی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲؍ دسمبر ۱۹۰۶ء
مکتوب نمبر (۵۸) دستی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
رات مجھے مولوی صاحب نے خبر دی کہ آپ کی طبیعت بہت بیمارتھی۔ تب میں نماز میں آپ کے لئے دعا کرتارہا۔ چند روز ایک دینی کام کے لئے اس قدر مجھے مشغولی رہی کہ تین راتیں میں جاگتا رہا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو شفاء بخشے۔ میں دعا میں مشغول ہوں او بیماری مومن کے لئے کفارہ گناہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شفا بخشے آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ یہ مکتوب حضرت نواب صاحب قبلہ کے ایک خط کے جواب میں ہے جوحسب ذیل ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم
مجھ کو اس دفعہ نزلہ کچھ عجیب طرح کا ہوا ہے۔ بالکل بخار کی سی کفیت رہتی ہے۔ پہلے زکام ہوا۔ اس سے ذرا افاقہ ہوا۔میں نے سمجھا کہ اب آرام ہو گیا۔ مگر اسی روز کھانسی ہوگئی ۔ اب سینہ میں جس طرح چھری سے کھرچتے ہیں۔ اس طرح خراش ہو رہی ہے اورسر میں بدن میں کسل۔ کمر میں درد ہو گیا۔ چونکہ قبض بھی رہتی ہے۔ اس لئے سرمیں غبار رہتا ہے۔ کل ذرا طبیعت بحال ہوئی تھی۔ مگر آج باقی استدعائے دعا۔ (راقم محمد علی خاں)
مکتوب نمبر (۵۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمام خط میںنے پڑھا۔ اصل حال یہ ہے کہ جو کچھ میں نے لکھا تھا وہ اس بناء پر تھا کہ نور محمد کی بیوی نے میرے پاس بیان کیا کہ نواب صاحب میرے خاوند کو یہ تنخواہ چار روپیہ ماہوار کوٹلہ میں بھیجتے ہیں اور اس جگہ چھ روپیہ تنخواہ تھی اور روٹی بھی ساتھ تھی۔ اب ہماری تباہی کے دن ہیں اس لئے ہم کیا کریں۔ یہ کہہ کر وہ روپڑی۔ میں توجانتا تھا کہ اس تنزل تبدیلی کی کوئی اسباب ہوںگے اور کوئی ان کا قصور ہو گا۔ مگر مجھے خیال آیا کہ ایک طرف تو میں نواب صاحب کے لئے پنج وقت نماز میں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ان کی پریشانی دور کرے اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن کی شکایت ہے کہ ہم اب اس حکم سے تباہ ہو جائیںگے تو ایسی صورت میں میری دعا کیا اثر کرے گی۔ گو یہ سچ ہے کہ خدمت گار کم حوصلہ اور احسان فراموش ہوتے ہیں۔ مگر بڑے لوگوں کے بڑے حوصلے ہوتے ہیں۔ بعض وقت خدا تعالیٰ اس بات کی پرواہ نہیںرکھتا کہ کسی غریب بادار خدمت گار نے کوئی قصور کیا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ صاحب دولت نے کیوں ایسی حرکت کی ہے کہ اس کی شکر گزاری کے برخلاف ہے۔ اس لئے میں نے آپ کو ان دلی رنجش کے برے اثر سے بچانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب کو لکھا تھا۔ ورنہ میں جانتا ہوں کہ اکثر خدمت گار اپنے قصور پر پردہ ڈالتے ہیں اوریوں ہی واویلا کرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے میں نے مہمان کے طور پر اس کی بیوی کو اپنے گھر میںرکھ لیا ۔ تاکوئی امر ایسانہ ہو کہ جو میری دعائوں کی قبولیت میں حرج ڈالے اور حدیث شریف میں آیا ہے۔ ارحمو افی الارض ترحمو افیالسماء زمین میں رحم کرو تا آسمان پر تم پر رحم ہو۔ مشکل یہ ہے کہ امراء کے قواعد انتظام قائم رکھنے کے لئے اور ہیں اور وہاں آسمان پر کچھ اور چاہتے ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۶۰) دستی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اشتہار کے بارے میں جو مدرسہ کے متعلق لکھا ہے۔ چند دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ لکھوں اور ایک دفعہ یہ مانع اس میں آیا کہ وہ حال سے خالی نہیں کہ یا تو یہ لکھا جائے کہ جس قدر مدد کا لنگر خانہ کی نسبت ارادہ کیا جاتا ہے۔ اسی رقم میں سے مدرسہ کی نسبت ثلث یا نصف ہونا چاہئے۔ تواس میں یہ قباحت ہے کہ ممکن ہے اس انتظام سے دونوں میں خرابی پید اہو۔ یعنی نہ تو مدرسہ کا کام پورا ہو اور نہ لنگر خانہ کا۔ جیسا کہ دو روٹیاں دو آدمیوں کو دی جائیںتو دونوں بھوکے رہیںگے اور اگر چندہ والے صاحبوں پر یہ زور ڈالا جائے کہ وہ علاوہ اس چندہ کے وہ مدرسہ کے لئے ایک چندہ دیں تو ممکن ہے کہ ان کو ابتلاء پیش آوے اور وہ اس تکلیف کو فوق الطاقت تکلیف سمجھیں۔ اس لئے میںنے خیال کیا کہ بہتر ہے کہ مارچ اور اپریل دو مہینے امتحان کیا جائے کہ اس تحریک کے بعد جو لنگر خانہ کے لئے کی گئی ہے۔ کیا کچھ ان دو مہینوں میں آتا ہے۔ پس اگر اس قدر روپیہ آگیا جو لنگرخانہ کے تخمینی خرچ سے بچت نکل آئے تو وہ روپیہ مدرسہ کے لئے خرچ ہو گا۔ میرے نزدیک ان دو ماہ کے امتحان سے ہمیں تجربہ ہو جائے گا کہ جو کچھ انتظام کیا گیاہے۔ کس قدر اس سے کامیابی کی امید ہے۔ اگر مثلاً ہزار روپیہ ماہوار چندہ کا بندوبست ہو گیا تو آٹھ سو روپیہ لنگر خانہ کے لئے نکال کر دو سو روپیہ ماہوار مدرسہ کے لئے نکل آئے گا۔ یہ تجویز خوب معلوم ہوتی ہے کہ ہر ایک روپیہ جو ایک رجسٹر میں درج ہوتا رہے اور پھر دو ماہ بعد سب حقیقت معلوم ہوجائے۔
غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۶۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں اس جگہ آکر چند روز بیمار رہا۔ آج بھی بائیں آنکھ میں درد ہے۔ باہر نہیں جا سکتا۔ ارادہ تھا کہ اس شہر کے مختلف فرقوں کو سنانے کے لئے کچھ مضمون لکھوں۔ ڈرتا ہوں کہ آنکھ کا جوش زیادہ نہ ہو جائے خدا تعالیٰ فضل کرے۔
مرزا خد ابخش کی نسبت ایک ضروری امر بیان کرنا چاہتا ہوں۔ گو ہر شخص اپنی رائے کا تابع ہوتا ہے۔ مگر میں محض آپ کی ہمدردی کی وجہ سے لکھتا ہوں کہ مرزا خد ابخش آپ کا سچا ہمدرد اورقابل قدر ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ کئی لوگ جیسا کہ ان کی عادت ہوتی ہے۔ اپنی کمینہ اغراض کی وجہ سے یا حسد سے یا محض سفلہ پن کی عادت سے بڑے آدمیوں کے پاس ان کے ماتحتوں کی شکایت کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ میںنے سناہے کہ ان دنوں میں کسی شخص نے آپ کی خدمت میں مرزا خدا بخش صاحب کی نسبت خلاف واقعہ باتیں کہ کر آپ پر ناراض کیا ہے۔ گویا انہوں نے میرے پاس آپ کی شکایت کی ہے اور آپ کی کسر شان کی غرض سے کچھ الفاظ کہے ہیں مجھے اس امر سے سخت ناراضگی حاصل ہوئی اور عجیب یہ کہ آپ نے ان پر اعتبار کر لیا ایسے لوگ دراصل بد خواہ ہیں نہ کہ مفید۔ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ مرز اخد ابخش کے منہ سے ایک لفظ بھی خلاف شان آپ کے نہیں نکلا اور مجھے معلوم ہے کہ وہ بے چارہ دل وجان سے آپ کا خیر خواہ ہے اور غائبانہ دعا کرتا ہے اور مجھ سے ہمیشہ آپ کے لئے دعا کی تاکید کرتا رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ چند روزہ زندگی آپ کے ساتھ ہو۔ رہی یہ بات کہ مرزا خدا بخش ایک بیکار ہے۔ یا آج تک اس سے کوئی کام نہیں ہو سکا۔ یہ قضائو قدر کا معاملہ ہے۔ انسان اپنے لئے خود کوشش کرتا ہے اوراگر بہتری مقدر میں نہ ہو تو اپنی کوشش سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ایسے انسانوں کے لئے جوایک بڑا حصہ عمر کاخدمت میں کھو چکے ہیں اور پیرانہ سالی تک پہنچ گئے ہیں۔ میرا تو یہی اصول ہے کہ ان کی مسلسل ہمدردیوں کو فراموش نہ کیا جائے۔ کام کرنے والے مل جاتے ہیں۔ مگر ایک سچا ہمدرد انسان حکم کیمیا رکھتا ہے۔وہ نہیں ملتے۔ ایسے انسانوں کے لئے شاہان گزشتہ بھی دست افسوس ملتے رہے ہیں۔ اگر آپ ایسے انسانوں کی محض کسی وجہ سے بے قدری کریں تو میری رائے میں ایک غلطی کریں گے۔ یہ میری رائے ہے کہ جومیں نے آپ کی خدمت میں پیش کی ہے اور آپ ہر ایک غائبانہ بد ذکر کرنے والوں سے بھی چوکس رہیں کہ حاسدوں کا جو وجود دنیا میں ہمیشہ بکثرت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
مکرر یاد دلاتا ہوں کہ میرے کہنے سے مرزا خد ابخش چند روز کے لئے لاہور میرے ساتھ آئے تھے۔
مکتوب نمبر (۶۲) ملفوف
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزہ امۃ الحمید بیگم زاہ عمرہا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط مجھ کو ملا۔ میں نے اوّل سے آخر تک اس کوپڑھ لیا ہے۔ یاد رہے کہ میں آپ کی نسبت کسی قسم کی بات نہیں سنتا۔ ہاں مجھے یہ خیال ضرور ہوتا ہے کہ جن کو ہم عزیز سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین اور دنیا میں ان کی بھلائی ہو۔ ان کی نسبت ہمیں یہ جوش ہوتا ہے کہ کوئی غلطی ان میں ایسی مذر ہے۔ جو خداتعالیٰ کے سامنے گناہ ہو یا جس میں ایمان کا خطرہ ہو اور جس قدر کسی سے میری محبت ہوتی ہے اسی قدر

.........................................................

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ اللّٰہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مکتوبات احمدیہ (جلد پنجم نمبر پنجم )
(مختلف احمدی احباب و خدام کے نام )
مکتوبات احمدیہ کی پانچویں جلد کے چوتھے نمبر میںحضرت حجتہ اللہ نواب محمد علی خاں مدظلہہ العالی کے نام کے مکتوبات میںنے شائع کئے تھے اس پانچویں جلد میں حضرت کے دو مکتوبات میںشریک ہیںجو آپ نے اپنے مخلص خدام کے نام لکھے ۔جن احباب کے نام خطوط کا ایک مخصوص ذخیرہ تھا وہ میںنے جداگانہ ہر ایک کے نام شائع کردیا اب اس جلد کے پانچویں نمبر میںمختلف احباب کے نام خطوط کو جمع کر رہا ہوں اور جتنی جلدیں شائع ہوچکی ہیںاگر اس سلسلہ کے بعض خطوط رہ گئے ہوںگے وہ بھی اس میںشائع ہوجائیں گے وبا للہ التوفیق ۔ یہ سب تالیفات (جیسا کہ میںمتعدد مرتبہ بیان کرچکاہوں) حضرت اقدس علیہ الصلوٰتہ والسلام کے سوانح حیات اور سیرتہ مظہرہ کی کڑیاںہیں۔اس لئے میںنے تالیف کی سہولتوںکو مدنظر رکھ کر مختلف حصص شائع کئے۔مثلاً سوانح حیات میں حیات احمدکے نام سے متعد د حصص و سیرتہ و شمائل کے کئی حصے اور مکتوبات کی کئی جلد یں۔
اللہ تعالی جو عالم السردانیات ہے جانتاہے کہ میری غرض اس کی رضا ہے۔اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰتہ والسلام کے نام بلند کرنے کاآپ وعدہ دیا میںنے چاہا کہ ان اسباب و ذرائع میںمیرا بھی حصہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ا س نابکار کو موقع دیاکہ الحکم کے ذریعہ آپ کی سیرتہ و سوانح اور آپ کے ملفوظات اور الہامات اور تا ریخ سلسلہ کو محفوظ کرنے کی توفیق روزی ہوئی وہ کام میری جوانی کے آغاز سے شروع ہوااور اب جبکہ میںاپنی طبعی عمر کوپہنچ چکا یعنی ستر سال کاہوچکا اسی کے فضل اور توفیق سے چاہتا ہوںکہ اسی خدمت میںآخری وقت تک مصروف رہوں تامیری نجات کا یہی ذریعہ ہوجائے۔ اسی پر میرا بھروسہ ہے اوراسی سے توفیق چاہتاہوں ۔ھونعم المولیٰ ونعم النصیر۔
خاکسار
یعقوب علی (عرفانی کبیر)
سکندرآباد۱۰؍جون۱۹۴۴ء







(۱)احباب لودہانہ کے نام
لودہانہ کو تاریخ سلسلہ میں بہت بڑی اہمیت ہے اورخداتعالیٰ کو اس وحی میں جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازم ہوئی لودہانہ کاذکر ہے چنانچہ ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء کو جو اشتہار آپ نے مختلف اخبارات میںعلیحدہ شائع کیا اور ریاض ہندو پریس امرتسر میںطبع ہوا۔ اس میںارشاد ہوتاہے ۔
’’میں نے تیری تضرعات کوسنا اور تیری دعائوںکو قبولیت کی جگہ دی اور تیرے سفر کو (جوہوشیار پور اور لودہانہ کاسفر ہے ) تیرے لئے مبارک کردیا‘‘
اور یہی وہ مقام ہے جہاںحضرت اقدس نے با علام الٰہی سلسلہ بیعت شروع کیا چنانچہ ۴؍مارچ ۱۸۸۹ء کوجو اعلان آپ نے فرمایا کہ تاریخ ہذا سے ۲۴؍ مارچ ۱۸۸۹ء تک یہ عاجز لودہانہ محلہ جدید میںمقیم ہے اس عرصہ میںاگر کوئی صاحب آنا چاہیںتو لودہانہ میں۲۰ تاریخ کے بعد آجائیں ۔یہ مکان جہاںبیعت ہوئی حضرت منشی احمد خان رضی اللہ عنہ کے مکان کا ایک حصہ تھا اور اب وہاں دارالبیعت کے نام سے سلسلہ کی ملکیت میں ایک شاندار عمارت ہے اور ۲۳؍ مارچ ۱۹۴۴ء کو حضرت مسیح موعود ایدہ اللہ الو دود کے دعوی و اظہار میںجلسہ ہوچکاہے۔
پھر لودہانہ کویہ بھی فضلیت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ براہین احمدیہ کے آغاز میںاسی شہر کے ایک فرد میرعباس علی صاحب کے اللہ تعالیٰ نے اشاعت براہین کے لئے کھڑا کردیا افسوس ہے کہ ان کاانجام کسی پنہانی معصیت کی وجہ سے ارتداد پر ہوا ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے مسیح موعود ہونے کااعلان بھی پہلی مرتبہ لودہانہ ہی سے کیا اور لودہانہ میںہی وہ عظیم الشان مباحثہ ہوا، جو مباحثہ لودہانہ کے نام سے الحق میںشائع ہو ا۔جس میںمولوی محمد حسین بٹالوی کو خطرناک شکست ہوئی ۔
اور جس میں اس کی علمی اور اخلاقی پردہ دری ہوئی۔لودہانہ میںحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دعوی سے پیشتر لودہانہ والوں کی متواتر درخواستوں اور التجائوں پر۱۸۸۳ء میں تشریف لائے اور محلہ صوفیاں میںڈپٹی امیر علی صاحب کے مکان میںحسب تجویز میر عباس علی صاحب قیام فرمایا تھا۔ لودہانہ کے متعلق آپ کے بعض رؤیا اور کشوف بھی ہیں جو اپنے اپنے موقعہ پر پورے ہوئے ان کی تفصیل کی اس جگہ ضرورت نہیں اپنے ان کا مناسب ذکر آئے گا بسلسلہ مکتوبات میں جس کے شائع کرنے کی خاکسار کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے توفیق ملی۔ پہلی جلد لودہانہ ہی کے میر عباس علی صاحب کے نام کے مکتوبات ہیں۔
میر صاحب کامعمول اور اعتقاد اس وقت اس حد تک تھا کہ وہ باوضو ہوکر ان مکتوبات کو پڑھتے اور ان کی نقل کرتے تھے میر صاحب کا مختصر تذکرہ میںجلد اوّل میںکرچکا ہوں یہ جلد اوّل نہایت بیش قیمت حقایق و معارف کی دنیاہے ۔
چونکہ وہ قریباً ختم ہوچکی ہے دوسرے ایڈیشن کو اس موجود ہ تقطیع ہی نہایت احتیاط سے شائع کردیاجائے گا۔ انشاء اللہ اور اس میںمندرجہ ذیل پیشگوئیاں جو چوری ہوچکی ہیںان کی تفصیل بھی دی جائے گی۔بہر حال لودہانہ سلسلہ کی تاریخ میںبہت بڑی اہمیت اور امتیاز رکھتا ہے جیسے اولاً اسی شہر میں معاونین کی ابتدا ہوئی اسی شہر سے اوّل الکافرین کی خطرناک جماعت بھی پید ا ہوئی اور انہوں نے اس سلسلہ کے مٹانے اور فنا کردینے کے لئے اپنی تمام طاقتوں اور حیلوں کو استعمال کیا مگر وہ نامراد وناکام رہے۔ پھر اس زمانے میںیعنی حضرت امیر المومنین مصلح موعود کے عہد خلافت میںان کی ذرّیت نے بڑے فرعونی دعا وی کے ساتھ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے اعلان کئے اور خدا تعالیٰ کے مقرہ کردہ خلیفہ نے اعلان کیا کہ ان کے پائوں کے نیچے سے زمین کا نکلتے دیکھتا ہوں اور آخر وہی ہوا جواس نے با علام الٰہی کہا تھا اور شیطان کو اس جنگ میں دوبارہ شکست ہوئی۔ اللہ محمد ۔اب میںبغیر کسی مزید تمہید تشریح کے احباب لودہانہ کے نام متفرق خطوط کو جو اس وقت تک مجھے مل سکتے ہیںدرج کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کو دنیا کی ہدایت اورمیری اس خدمت کوقبول فرمائے ۔آمین
(خاکسار عرفانی کبیر)
حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ کے نام
(تعارفی نوٹ )
حضرت منشی احمد جان رضی اللہ لودہانہ محلہ جدید میںایک صاحب ارشاد بزرگ تھے اور ان کے مریدوںکی بہت بڑی تعداد تھی ان کامفصل تذکرہ کتاب تعارف میںانشاء اللہ العزیز آئے گا خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کے متعلق حضرت حکیم الامۃ خلیفہ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ کو ایک مکتوب مورخہ ۲۳ جنوری ۱۸۸۸ء میںمختصر تذکرہ لکھا ہے اور اس وقت حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی شادی کی تجویز حضرت منشی صاحب کی صاحبزادی صغریٰ بیگم صاحبہ مدظلہا سے ہو رہی تھی ۔حضرت نے تحریر فرمایا کہ :۔
باب میںتھوڑا ساحال منشی احمد جان صاحب کا سناتا ہوںمنشی صاحب مرحوم اصل میںمتوطن دہلی کے تھے ۔شاید ایام مفسد ہ ۱۸۵۷ء میں لودہانہ آکر آباد ہوئے۔ کئی دفعہ میری ان سے ملاقات ہوئی نہایت بزرگوار خوبصورت۔ خوب سیرۃ۔ صاف باطن۔متقی۔ باخدا اور متوکل آدمی تھے مجھ سے اس قدر دوستی اورمحبت کرتے تھے کہ اکثر ان کے مریدوں نے اشارتاً اور صراحتاً بھی سمجھایاکہ آپ کی اس میں کسر شان ہے۔مگر انہوں نے ان کو صاف جواب دیاکہ مجھے کسی شان سے غرض نہیںاور نہ مجھے مریدوںسے کچھ غرض ہے۔اس پر بعض نالائق خلیفے ا ن کے منحرف بھی ہوگئے۔مگر انہوں نے جس اخلاص و عیبت پر قدم ماراتھا۔آخیر تک نباہا اور اپنی اولاد کوبھی یہی نصیحت کی۔ جب تک زندہ رہے خدمت کرتے رہے اور دوسرے تیسرے مہینے کسی قدر روپے اپنے رزقِ خداداد سے مجھے بھیجتے رہے ۔اور میر ے نام کی اشاعت کے لئے یہ دل وجان ساعی رہے اور پھر حج کی تیاری کی۔ اور جیساکہ انہوںنے اپنے ذمہ مقدر کررکھا تھا۔جاتے وقت بھی پچیس روپے بھیجے اور ایک بڑا لمبا اور دردناک خط لکھا۔ جس کے پڑھنے سے رونا آتا تھا۔اور حج سے آتے وقت راہ میں بیمار ہوگئے اور گھر آتے ہی فوت ہوگئے۔ اس میںکچھ شک نہیں کہ منشی صاحب علاوہ اپنی ظاہری علمیت وخوش تقریری و وجاہت کے جو خداداد انہیں حاصل تھی ۔مومن صادق اور صالح آدمی تھے۔جو دنیا میںکم پائے جاتے ہیں۔ چونکہ وہ عالی خیال اور بھونی تھے۔اس لئے ان میںتعصب نہیںتھا۔میری نسبت وہ خوب جانتے تھے کہ یہ حنفی تقلید پر قائم نہیںہیں اور نہ اِسے پسند کرتے ہیں۔ پھر بھی یہ خیال انہیں محبت واخلاص سے نہیںروکتا تھا۔
غرض کچھ مختصر حال منشی احمد جان صاحب مرحوم کایہ ہے اور لڑکی کابھائی صاحبزادہ افتخار احمد صاحب بھی نوجوان صالح ہے ۔جواپنے والد مرحوم کے ساتھ حج بھی کرآئے ہیں۔
حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ کی فراست مومنانہ نے بہت پہلے دیکھ لیاتھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خداتعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود بن کر معبوث ہوں گے چنانچہ انہوں نے جو اعنان براہین احمدیہ کی اعانت کے لئے شائع کیا اس میںلکھا ہے ۔
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
اگرچہ وہ اعلان بیعت سے پہلے فوت ہو گئے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان مبا یعین میںشریک قرار دیا اور ان کے اخلاق و عقیدت کو انعام میںداخل فرمایا ۔حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنی اولاد اور مریدوںکو قبول سلسلہ کی وصیت فرمائی اور خدا کے فضل وکرم سے آپ کاسارا خاندان سلسلہ احمدیہ میں شریک اور صدق ووفا کے اعلیٰ مقام پر ہے اور حضرت موصوف کی صاحبزادی صغریٰ بیگم صاحبہ کو یہ شرف حاصل ہواکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ لصلوٰۃ والسلام کی تحریک سے اس جلیل القدر انسان کے نکاح میں آئیں جس کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ۔
چہ خوش بودے اگرہرایک زامت نوردین بودے
ہمیں بودے اگر ہردل از پُر نور الیقین بودے
اور جس کے اخلاص وایثار اور قربانی کایہ ثمر اس دنیا میںہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد آپ کے خلیفہ اوّل منتخب ہوئے اور حضرت منشی احمد جان رضی اللہ عنہ کی نواسی کویہ شرف ہوا کہ ایک خلیفہ کی بیٹی اور ایک خلیفہ کی اہلیہ ہوں۔
میںسمجھتا ہوںکہ اس قدر تعارفی نوٹ کافی ہے تفصیل انشاء اللہ کتاب تعارف میں آئے گی جس کی پہلی جلد اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اس سال شائع ہوگی۔اب میں ان کے نام کے مکتوبات درج کرتاہوں۔وباللہ التوفیق ۔




حضرت منشی احمد جان رضی اللہ عنہ کے نام
(۱) مخدومی مکرمی اخو یم منشی احمد جان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
اسلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذاآں مخدوم کے دونوںعنایت نامہ مع اشتہار پہنچ گئے جزاکم اللّٰہ احسن الجزاء۔ خدا وندکریم آپ صاحبوںکی کوشش میںبرکت ڈالے اور آپ کووہ اَجر بخشے جو آپ کے خیال سے باہر ہو۔ آںمخدوم نے جوکچھ اس عاجز کی اپنی نسبت لکھا ہے وہ عاجز کے دل میں ہے۔ مشت خاک کی کیا حقیقت ہے کہ کچھ دعوے کرے یازبان پر لاوے ۔لیکن اگر خداوند کریم نے چاہا اور توفیق بخشی توحضرت احدیت میںعاجزانہ دعا کروں گا۔آپ اپنے کام میںجہاں تک ممکن ہو سرگرمی سے متوجہ ہوں۔ کیونکہ ایسی محبت مستحق ہوتی ہے اور حصہ چہارم کے صفحہ ۵۱۹ میں ایک الہام یہ ہے من ربکم علیکم واحسن الٰی احیاکم یہ الہام اگرچہ بصورت ماضی ہے لیکن اس سے استقبال مراد ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ خداتعالیٰ تم پر احسان کرے گا اور تمہارے دوستوں سے نیکی کرے گا اور پھر حصہ چہارم صفحہ ۲۴۲میں الہام ہوا وبشرالذین امنو ان لھم قذم صدقٍ عند ربھم اس کے معنی ہیںکہ جو لوگ ارادت سے رجوع کرتے ہیںان کا عمل مقبول ہے اور ان کے لئے قدم صدق ہے ۔پھر صفحہ ۲۴۱ میںایک الہام ہے ۔ ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء یعنی تیری مد د وہ کریں جن کے دلوں میںہم آپ ڈالیںگے۔
سو ان سب الہامات سے خوشنودی حضرت احدیت کی نسبت سمجھی جاتی ہے۔جن کو خدا نے اس طرف رجوع بخشا ہے اس سے زیادہ ذریعہ حصول سعادت اور کوئی نہیںکہ جومرضی مولا ہے اس کے موافق کام کیاجائے اور مولا کریم کی ایک نظر عنایت انسان کے لئے کافی ہے ۔میںیقیناً سمجھتا ہوںکہ جو اخوان مومنین اس بات کی توفیق دے گئے ہیں۔ جو انہوں نے صدق دل سے اس احقر عباد کاانصار ہونا قبول کیا ان کے لئے حضرت احدیت کے بڑے بڑے اَجر ہیں اور میں اجمالی طور پر ان کو عجیب نور سے منور دیکھتا ہوں اور میںدیکھ رہاہوں کہ وہ نہایت سعید ہیں اور دنیا کی روشنی ہیں۔
ایک الہام حصہ چہارم کے صفحہ ۵۵۶ کی آخری سطر میںدرج ہے اور وہ یہ ہے۔ وجا عل الذین ابتعوک فوق الذین کفروا الی یوم ا لقیامۃ ۔
یہ الہام اس کثرت سے باربار ہوا تھا جس کی تعداد خدا ہی کو معلوم ہے۔اس میں انواع اقسام کاوعدہ ہے ۔
غرض کریم میزبان تب کسی کو اپنی طرف بُلاتاہے کہ جب اس کے طعام کابندوبست کر لیتا ہے اور وہی لوگ اس کے خوانِ نعمت پر بُلائے جاتے ہیںجن کو اس عالم الغیب نے اپنی نظر عنایت سے چن لیاہے۔
سوجن کواس نے پسند کرلیاہے ان کووہ رد نہیںکرے گا اور ان کے خطیات کومعاف فرمائے گا۔اور ان پر راضی ہوگا ۔کیونکہ وہ کریم ورحیم اور بڑا وفادار اور نہایت ہی محسن مولی ہے۔ فسبحان للہ وبحمد ہ سبحان اللہ العظیم ۔
( ۶ ؍مارچ ۱۸۸۴ء م ۷؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۱ھ)
(نوٹ ) اس مکتوب میںحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرۃ مطہرہ اور تعلق باللہ کی ایک شان نمایاںہے اور آپ کی جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت کے وعدہ ہیں جن کو آج ہم پورا ہوتے دیکھتے ہیں۔ الحمد للّٰہ علی ذالک۔
(۲) مخدومی مکرمی اخویم منشی احمد جان صاحب سلمہ للہ تعالیٰ
اسلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا کارڈ آں مخدوم پہنچا۔ سوال آپ کی طرف سے یہ ہے کہ اس کارخیر میںکتنے لوگ بصدق دل ساعی ہیں۔سو واضح ہو کہ آں مخدوم کے سوا چار آدمی ہیںکہ ارادت اور حسن ظن سے ساعی ہیں۔ پٹیالہ میںمنشی عبدالحق صاحب اکونٹنٹ دفتر نہر ،سرہند۔ ڈیرہ غازی خان میں منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ پشاور میںمولوی غلام رسول صاحب صدر قانون گو ۔انبالہ میںمنشی محمد بخش صاحب، ان چاروںصاحبوں نے سعی میںکچھ فرق نہیں کیا۔منشی عبدالحق صاحب نے سب سے پہلے اس کارِخیر کی طرف قدم رکھا اور جانفشانی سے کام کیا اور ان کی کوشش سے لاہور اور انبالہ اور کئی شہروں میںخریداری کتاب کی ہوئی اور اب بھی وہ بدستور سرگرم ہیں۔ کچھ حاجت کہنے کہانے کی نہیں۔ منشی الٰہی بخش صاحب نے سعی اور کوشش میں کچھ دریغ نہیں کیا اور منشی محمد بخش صاحب بھی بدل وجان مصروف ہیںاور حتی الوسع اپنی خدمت ادا کرچکے ہیں۔مگر پھر سے دوبارہ منشی عبدالحق صاحب و منشی الٰہی بخش صاحب کولکھا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ سعی میںکچھ فرق نہ کریںگے او رنہ کیاہے۔
اور ان کے سوا دو تین آدمی او ر بھی ہیں کہ جنہوںنے حسب مقدار جوش اپنے کچھ خدمت کی ہے۔مگر بہتر ہے کہ ان کی اسی قدر خدمت پر قناعت کی جائے تا موجب کسی ابتلاء کانہ ہو ۔
( ۱۵؍مارچ ۱۸۸۴ء ۱۶؍جمادی الاوّل ۱۳۰۱ھ)
ضروری نوٹ
مندرجہ بالا مکتوب کے متعلق مجھے نہایت درد دل کے ساتھ ایک ضروری امر کااظہار کرنا پڑتا ہے اور یہ مقام خوف ہے ۔جن بزرگوں کا اس مکتوب میںحضرت اقدس نے ذکر فرمایا ہے سوائے مولوی غلام رسول صاحب کے میں تینوںبزرگوں سے ذاتی واقفیت رکھتاہوں۔ یہ لوگ مولوی عبداللہ غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے ملنے والوں میںسے تھے ۔جہاں تک ظاہر کاتعلق ہے ا ن کی زندگیاں حتی الوسع شریعت کے مطابق تھیں۔ صوم وصلوٰۃکے پابند تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانے میں فدائیوں میںسے تھے اور ہرخدمت کوبجالانا اپنی سعادت اور خوشی بختی سمجھتے تھے بعض حالتوں میں طبع کتب کے سلسلے میں یا اور ایسی ہی دینی ضرورتوں کے لئے حضرت اقدس منشی الٰہی بخش یا عبدالحق سے قرض بھی لے لیاکرتے تھے۔ ا س وقت وہ اپنے اخلاص میں بے نظیر تھے۔لیکن حضرت کے دعو ے مسیحیت کی ابتداء تک ان کی یہی حالت چلی گئی۔ منشی الٰہی بخش صاحب کوا لہام ہونے کادعویٰ تھا لیکن ان کی طبیعت میں خشونت اور ضد بے حد تھی۔ رفتہ رفتہ ان میںتکبر اور رعونت پید اہونے لگی۔میں اس وقت ساری داستان نہیںلکھ سکتا اگرچہ میں پورے طور سے شاہد عینی کے طور پر اس سے واقف ہوں۔اس تکبر اور رعونت نے انہیں حق سے دُور ڈالنا شروع کردیا۔ آخری مرتبہ وہ منشی عبدالحق کوساتھ لیکر قادیان آئے اور حضرت اقدس سے ملاقات کی اور اپنے الہام وغیرہ سناتے رہے ۔
شام کے وقت بغیر کسی ارادے اور تجویز کے حضرت مخدوم الملۃ مولانا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کہ بلعم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں باوجود اپنی نیکی کے کیوںرد کردیاگیا؟
اس پر حضرت اقدس نے ایک تقریر کی لیکن منشی الٰہی بخش نے یہ سمجھا کہ مجھ کو بلعم یا عور بنایا گیا۔ اس غصے میںبیچ وتاب کھاتاہوا آخر و ہ یہاںسے چلاگیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہی ایام میں ضرورت امام شائع کی لیکن وہ بھی الٰہی بخش کے زیغ کاعلاج نہ کرسکی۔بلکہ یضل بہ کثیراکاباعث ہوگئی۔آخر وہ اس سلسلے سے کٹ گیا اوراس نے مخالفت پر قمر باندھی۔مگر اس کا جو درد ناک انجام ہوا۔وہ بہت عبرتناک ہے اس کاکچھ ذکر میرے مکر م ومحترم مخلص بھائی بابو فضل دین صاحب اوور سیرنے ایک عینی شاہد کی حیثیت سے لکھا ہے۔میرا مقصد اس واقعہ کے بیان کرنے سے صرف اس قدر ہے کہ انسا ن اپنی خدمات پر نہ اِتراے بلکہ مومن کاخاصہ ہے کہ جس قدر اسے نیکی کی توفیق ملتی ہے اُسی قدر وہ شرمندہ ہوتا ہے۔ اس میںکچھ شک نہیں کہ ان لوگوں نے حضرت کے ابتدائی زمانے میںبڑی خدمات کیں مگر خدا جانے کہ ان کے ساتھ ان کے نفس کی کیسی بُری ملونی تھی کہ ان کاخاتمہ قابل افسوس ہوا۔منشی عبدالحق کی طبیعت الٰہی بخش سے مستغائر واقع ہوئی تھی۔مگر اسے اس کی دوستی نے تباہ کیا۔ بابو محمد صاحب آخیر وقت تک سلسلے میںرہے گو اُن کو کچھ شکوک سلسلے کے بعض اخراجات کے متعلق پیدا ہوگئے تھے۔ انہوں نے کبھی تعلق کونہ توڑ ا او ر آخیر وقت تک اسے قائم رکھا پس مقام خوف ہے۔انسان اپنی نیکی اور خدمت پر اِترائے نہیں اور ہمیشہ حسن خاتمہ کے لئے دعا کرتارہے ۔اس مقصد سے میںنے عبرت انگیز واقعہ کولکھا۔
(عرفانی )
(۳) مخدومی مکرمی اخویم منشی احمد جان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ وجزاکم اللّٰہ خیرا لجزاء۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آں مخدوم کاعنایت نامہ پہنچا۔ خداوند کریم کے احسانات کاشکر ادا نہیںہوسکتا جس نے اس احقرا لعباد کے لئے ایسے ولی احباب میسرکیے۔ جن کاوجود اس ناچیز کے لئے موجب عزت وفخر ہے۔ خداوند کریم آپ کوخوش وخرم رکھے اور آپ کو ان دلی توجہات کااجر بخشے ۔یہ عاجز سخت ناکارہ اور حقیر ہے اور حضرت ارحم الراحمین کاسراسر منت اور احسان ہے کہ اس نالائق پر بغیر ایک ذرہ استحقاق کے تفضلات کثیرہ کی بارش کررہاہے قصور پر تصور پاتا ہے اور احسان پر احسان کرتاہے اور ظلم پرظلم دیکھتا ہے اورانعام پر انعام کرتاہے۔فی الحقیقت وہ نہایت رحیم وکریم ہے۔ ایسی زباںکہا ںسے لائو ںجو اس کاشکر ادا کرسکوں ۔یہ عاجز ہیچ ذلیل اور بے بضالت اور سراسر مفلس ہے۔ اس نے خاک میںمجھے پایا اور اُٹھا لیا اورنالائق مخلص دیکھا اور میری پردہ پوشی کی۔ میرے ضعف پرنظر کرکے مجھ کو آپ قوت دی اور میری نادانی کو دیکھ کر مجھ کوآپ علم بخشا۔ میرے حال پروہ عنایتیں کیں جن کومیں گن نہیں سکتا اوراس کی عنایات کاایک یہ ظہور ہے کہ آپ بزرگ بھائیوں کے دلوں میں اس احقر کی محبت ڈال دی۔ سو اس کے احسانات سے تعلق ہے کہ اس حب کوترقی دے گا اور ان سب پر فضل کرے گا جن کو اس مُلک میںمنسلک کیا ہے۔
اس خط کے تحریر کے بعد یہ شعر کسی بزرگ کاا لہام ہوا ۔
ہر گز نمیرو آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
(۲۸؍مارچ ۸۴ء م ۲۹؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۱ھ)
(نوٹ ) اس مکتوب سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل پر محبت وعظمت الٰہی کابے انتہا غلبہ ہے اور اپنی فرو تنی مسکینی اور خاکساری کاکمال نمایاں ہے انہی تفضلات اور انعامات پر شکر گزاری کی روح آپ کے اندر بول رہی ہے اور جو عشق ومحبت آپ کوحضرت باری غراسمہ سے ہے اس کی صداقت اس الہام باری سے ہوتی ہے جو اس مکتوب کی تحریر کے بعدآپ کوہوا ۔
ہرگز نمیرو آں کہ ولش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غیر فانی اور اَبدی زندگی اور دنیا میںشہرت دوام اور امٹ ہونے کی عظیم الشان پیشگوئی کولئے ہوئے ہے۔آج ساٹھ برس بعد اس کی شہادت روئے زمین کے بسنے والے ہر ملک اور ہرقوم میںدے رہے ہیں اور دنیا کی ہر زبان میں یہ نام مبارک پہنچ چکا ہے۔اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم۔
ّ(۴) از عاجز عاید باللہ الصمد غلام احمد ،با اخویم مخدوم ومکرمی منشی احمد جان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ آں مخدوم پہنچا۔اس عاجز کی غرض پہلے خط سے حج بیت اللہ کے بارے میںصرف اسی قدر تھی کہ سامان سفر میسر ہوناچاہئے اب چونکہ خداتعالیٰ نے زاد راہ میسر کردیا اور عزم مصمم ہے اور ہرطرح سامان درست ہے۔ اس لئے اب یہ دعاکرتاہوںکہ خداوند کریم آپ سے یہ عسل قبول فرمائے اور آپ کایہ قصد موجب خوشنودی حضرت عزاسمہ ہو او رآپ خیروعافیت اورسلامتی سے جائیں اور خیروعافیت او ر سلامتی سے بہ تحصیل مرضات اللہ واپس آئیں۔یا ربّ العالمین ۔اور انشاء اللہ یہ عاجز آپ کے لئے بہت دعا کرے گا اور آپ کے پچیس روپے پہنچ گئے ہیں آپ نے اس ناکارہ کی بہت مدد کی ہے اور خالصۃً للہ اپنے قول اور فعل اورخدمت سے حمایت اور نصرت کاحق بجالائے۔جزاکم اللّٰہ خیر الجزا واحسن الیکم فی الدنیا والعقبی۔ یہ عاجز یقین رکھتاہے کہ آپ کا یہ عمل بھی حج سے کم نہیںہوگا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ دل تو آپ کی اس قدر جدائی سے محزون اور مغموم رہے گا لیکن آپ جس دولت اور سعادت کو حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں اس نورِ عظیم پر نظر کرنے سے انشراح خاطر ہے ۔ خداتعالیٰ آپ کاحافظ اور حامی رہے اور یہ سفر من کل الوجوہ مبارک کرے ۔آمین
ا س عاجز ناکارہ کی ایک عاجزانہ التماس یاد رکھیںکہ جب آپ کو بیت اللہ کی زیارت بفضل اللہ تعالیٰ میسر ہو تو اس مقام محمود مبارک میں اس احقر عباد اللہ کی طرف سے انہیں لفظوں جسے مسکنت وغربت کے ہاتھ بحضور اُٹھا کرگزارش کریںکہ :۔
اے ارحم الراحمین! ایک تیرا بندہ عاجز و ناکارہ پُر خطا اور نالائق غلام احمد جوتیر ی زمین ملک ہند میںہے ۔ اس کی یہ غرض ہے کہ اے ارحم الراحمین تو مجھ سے راضی ہو اور میرے خطیات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفورا ور رحیم ہے اور مجھ سے وہ کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہوجائے۔مجھ میں اور میرے نفس میںمشرق اور مغرب کی دوری ڈال اور زندگی اور میری موت اور میری ہر ایک قوت جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میںکرا اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل محبین میں اُٹھا ۔اے ارحم الراحمین ! جس کام کی اشاعت کے لئے تونے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تونے میرے دل میںجوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک ……اور عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر …… جو اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر اور اس عاجز اور ……اور مخلصوں اور ہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کے …… حمایت میںرکھ کر دین اور دنیا میںان کامستقل … اور سب کو اپنے دارالرضا میںپہنچا اور اپنے … اور اس کے آل واصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام نازل کر۔ آمین یارب العلمین۔
یہ دعا ہے جس کے لئے آپ پرفرض ہے کہ ان ہی الفاظ سے بلا تبدل وتغیر بیت اللہ میں حضرت ارحم الراحمین میںاس عاجز کی طرف سے کریں ۔والسلام ۔خاکسار غلام احمد ۱۳۰۳ھ ۔
(نوٹ) یہ خط آپ نے حضرت منشی احمد جان رضی اللہ عنہ کو جب کہ وہ حج بیت اللہ کے لئے جارہے تھے اور آپ نے جیسا کہ مکتوب مبارک سے ظاہر ہے بیت اللہ میںاس دعا کے لئے تاکید کی تھی چنانچہ حضرت صوفی احمد جان رضی اللہ عنہ نے اپنی جماعت کے ساتھ بیت اللہ اور عرفات میں دعاکی۔
اس سال حج اکبر ہوا یعنی جمعہ کے دن حج سے فراغت پاکر بخیروعافیت جیساکہ حضرت اقدس نے تحریر فرمایاتھا۔ واپس تشریف لائے اور گیارہ بارہ روز زندہ رہ کر ۱۳۰۳ھ میںلودہانہ میں وفات ہائی۔یہ اس دعا کی قبولیت کا ایک نشان ہے۔حضرت اقدس نے منشی صاحب کی بخیروعافیت واپسی کے لئے دعا کی تھی۔اس دعا کی قبولیت تو ان کی مع الخیر واپسی سے ظاہر ہے اور یہی ثبوت ہے کہ دعا جواس خط میںدرج ہے۔وہ بھی قبول ہوئی اور بعد کے واقعات اور حالات نے اس کی قبولیت کا مشاہدہ کرادیا۔
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے
اس خط کے بوسیدہ ہوجانے کی وجہ سے کچھ حصہ اُڑگیا ہے۔جہاں نقطے دے دیئے ہیں۔ مگر یہ ضائع شدہ الفاظ مضمون کے مطالعہ سے معلوم ہوسکتے ہیں ۔تقاضا ئے ادب مجھے مجبور کرتاہے کہ میںان الفاظ کو( جو سیاق وسباق عبارت سے باآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں) اپنی طرف سے نہ لکھوں۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دعا آپ کی سیرت آپ کے ایمان علی اللہ اورجوش تلیغ اور قبولیت دعا پر ایمان کے مختلف شعبوںکو ظاہر کرتی ہے ۔
(عرفانی کبیر)
یہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت میںایک مبسوط باب کامتن ہے ۔میںقارئین کرام سے باربار درخواست کروں گا کہ وہ اِس کو پڑھیںکہ کیا یہ اس کی تصویربن سکتی ہے ۔جس کو کاذب اور مفتری کہاجاتاہے؟ یااس ضمیر پر تنویر کامرقع ہے جو غیر فانی جوش اپنے قلب میںرکھتا ہے اور وہ اس شعور سے بول رہا ہے کہ خدا نے اسے کھڑا کیاہے اور اس کی زندگی کامقصد صرف ایک ہے کہ میرا مولی مجھ سے راضی ہوجائے اگر یہ صحیح ہے اور ضرور صحیح ہے تو اس کے بعد اس کی تکذیب سمجھ لو کیا نتیجہ پیدا کرے گی ۔یہی وہ دعاہے جن کے لئے خداتعالیٰ نے اس پر شعر الہام کہاہے ۔
دلم می بلر زد چو یاد آورم
مناجات شوریدہ اندر حرم




حضرت نواب علی محمد خان (رضی اللہ عنہ )
آف جہجر کے نام




تعارفی نوٹ
حضرت نواب علی محمدؐ خان صاحب آف جہجر (جوفتنہ عذرکے بعد لودہانہ آکر مقیم ہوچکے تھے) جہجر کے حکمران خاندان میں سے تھے ۱۸۵۷ء کے عذرکے بعد جہجر کے خاندان پر بھی الزام آیا اوراس کا نتیجہ اس خاندان کا عزل تھا۔ نواب علی محمدؐ خان صاحب لودہانہ آکر آباد ہوئے اورانہوں نے اپنی رہائش کیلئے ایک عالیشان کوٹھی معہ باغ تعمیر کی اوراس کے ساتھ ہی ایک مسجد عبادت کے لئے اور ایک سرائے تعمیر کی تاکہ وہ آ مدنی کا ذریعہ ہو۔ رقم الحروف خاکسار عرفانی کو بفضل تعالیٰ نواب محروم سے سعادت ملاقات وہم نشینی اس وقت سے حاصل ہوئی جب کہ وہ ۱۸۸۹ء میں لودہانہ کے بورڈ سکول کا ایک طالب علم تھا اور روزانہ ظہر کی نماز ان کی مسجد میں پڑھتا تھا اورنواب صاحب باقاعدہ شریک جماعت ہوتے تھے۔ سرائے میں ایک مدرسہ عربیہ بھی قائم تھا جس کی صدر مُدرسی حضرت مولوی عبدالقادر صاحب رضی اللہ عنہ کے سپردتھی اسی عہد کے بعض یاراں قدیم الحمداللہ سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شریک ہوگئے جیسے مولوی ابوالبقا محمد ابراہیم صاحب بقاپوری اورا ن کے برادرمحترم حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ۔ حضرت نواب علی محمد خان صاحب ایک نہایت دیندار۔ خداترس مخیر اورشب زندہ داربزرگ تھے۔ عذر کے حوادث اور انقلابات ان کی طبیعت میں دنیا کی بے ثباتی اور دُینوی شان وشوکت اورمال ومتال کی حقیقت کو نمایاں کردیا تھا۔ عذر مصائب اورانقلابات نے انہیں یقین دلا دیا تھا کہ مسلمانوں کا بقا صرف مسلمان ہوکر رہنے میں ہے۔ اگرچہ جیسا کہ ان کے واقف کاروں نے بتایا کہ وہ ہمیشہ سے ایک پرہیزگار اور متقی انسان تھے مگر اس انقلاب کے بعد ان کی زندگی میں بھی ایک غیر معمولی انقلاب پیدا ہوا اور ان کا اکثر وقت عبادت اورذکر الٰہی اورمطالعہ کتب دینیہ میں گزرتا تھا اورحمایت اسلام کی اعانت میںاکثر جلسے ان کے ہی مکان پر ہوا کرتے تھے۔ وہ ایک لمبیقد کے خوش رو انسان تھے اور ان کے چہرہ کودیکھ کر ہی ان کی متقیانہ زندگی کااثر ہوتا تھا۔ ڈاڑھی کو حناکرتے تھے لباس نہایت سادہ ہوتا تھا اور چلتے پھرتے ذکر الٰہی میںمصروف رہتے تھے چونکہ پرانی طرز کے صوفی تھے اس لئے ہر وقت تسبیح ہاتھ میںرہتی تھی۔ نہایت خوش اخلاق ملنسار، منکسرالمزاج اور خندہ پیشانی رکھتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام سے آپ کی اردت ۸۲۔۱۸۸۳ء میںشروع ہوئی اور یہ براہین احمدیہ کااثر تھا۔ نواب صاحب خود صاحب علم تھے اور علوم عربیہ دینیہ اور تصوف کے ماہر تھے۔ میر عباس علی صاحب (اللہ تعالیٰ ان کی خطائوںکومعاف کرے ) اس وقت بڑے سرگرم معاونین میں سے تھے اور ان معاونین کی جماعت میںنواب علی محمد خان بھی پیش تھے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت تک اس پایہ کاکوئی آدمی بھی حضرت اقدس کے ارادت مندوں میںشریک نہ ہوا تھا ۔
اس لئے کہ گو اس وقت ان کی وہ خاندانی حکومت کاجاہ جلال باقی تھا مگر ابھی اس دورِ حکومت کے اثرات باقی تھے اور وہ اپنی خاندانی عظمت کے علاوہ اپنی علمی زندگی اور ہمدردی اسلام کے سچے جوش کی وجہ سے مشار الیہ تھے ۔
چونکہ حضرت قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرمون کااڈا پاس ہی تھا اور وہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بڑے بے دیا اور مخلص اور جان نثار اور دلیر انسان تھے اکثر نواب صاحب کے ہاںان کی نشست وبرخاست رہتی اور حضرت اقدس کے حالات اور تازہ واقعات کا تذکرہ رہتا۔ نواب صاحب کو حضرت اقدس کے ساتھ غایت درجہ کاعشق اور محبت تھی۔ا س لئے کہ انہوں نے خود اپنی ذات میںان نشانات دایات کامشاہدہ کیاتھا جو خد اکے مرسلوںکے سوا کسی اور کونہیںدیئے جاتے۔ حضرت اقدس ان نشانات کا اپنی تصانیف میںبھی ذکر فرمایاہے اور ان خطوط میںبھی جومیںذیل میںدرج کر رہا ہوں بعض نشانات کاثبوت ملے گا۔نواب علی محمد خان صاحب بیعت اولیٰ میں شریک تھے اور سابقین الاوّلین کی اس جماعت میںممتاز تھے۔چونکہ صوفی مشرب تھے اور حضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحب جمالی نعمانی کے خاندان سے بھی انہیں ارادت وعقیدت تھی اس لئے صاحبزادہ صاحب جب بھی لودہانہ آتے ان کے ہاںقیام فرماتے ان کے خاندان کے بعض لوگ پیر صاحب کے سلسلے میںمرید بھی تھے۔اگرچہ اس تعارفی نوٹ کامقصد سوانح حیات کابیان نہیں تا ہم میںاس نوٹ کوبھی درج کردینا ضروری سمجھتا ہوں جو صاحبزادہ مرحوم نے مغفور نواب صاحب کے متعلق اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے تاکہ احباب کو ایسے بزرگ کے لئے جوسلسلہ کی بنیادی اینٹوں میں سے ایک ہیں اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اور حضرت اقدس جن سے محبت رکھتے تھے دعا کی خاص تحریک ہو اور میں اذکرو اموتاکم بالخیر کے ارشاد کی تعمیل کاثواب حاصل کرسکوں۔ وباللّٰہ التوفیق۔
نواب صاحب موصوف حکمت اور تصوف میں اور علوم شرعیہ میں ید طولیٰ رکھتے تھے اور خصوصاً تصوف میںایسی معرفت رکھتے تھے کہ میںنے سینکڑوں درویش صوفی دیکھے مگر یہ معلومات اور دستگاہ نہیںدیکھی۔ نواب صاحب اہل اللہ کے بڑے معتقد تھے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق جانباز تھے ہروقت درود شریف پڑھتے رہتے۔ باوجود اس قدروسیع معلومات اور تصوف میں ماہر ہونے کے حضرت اقدس علیہ السلام سے اعلیٰ درجہ کا عشق تھا اورپورا اعتقاد رکھتے تھے۔ نواب صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ جوبات میں نے مرزاغلام احمد صاحب قادیانی میں دیکھی۔ وہ کسی میں نہیں دیکھی۔ بعدآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اگرکوئی شخص ہے تویہی ہے۔ اس کی تحریر میں نور اور ہدایت، اس کے کلام میں اس کے چہرہ میں نورہے۔ ایک روز میں نے نواب صاحب سے اپنا کشف بیان کیا جو آگے آوے گا۔ تواس کو سن کر نہایت خوش ہوئے اور وہ کشف لوگوں سے بیان کیا اوروہ کشف حضرت اقدس کی تصدیق میں تھا۔
حضرت اقدس علیہ السلام بھی کبھی کبھی نواب صاحب سے ملنے جایا کرتے تھے اورنواب صاحب بھی آپ سے ملنے اکثر آیا کرتے تھے۔ نواب صاحب کے انتقال کے وقت حضرت اقدس علیہ السلام لودہانہ میں تشریف رکھتے تھے۔ بوقت انتقال نواب صاحب نے دعاء سلامتی ایمان اورنجات آخرت کے لئے ایک آدمی حضرت اقدس کی خدمت میں بھیجا اورجوں جوں وقت آتا جاتا تھا۔ آدھ آدھ گھنٹہ اوردس دس منٹ کے بعد آدمی بھیجتے رہے اورکہتے رہے کہ میں بڑا خوش ہوں کہ آپ آخیر وقت میں لودہانہ تشریف رکھتے ہیں اورمجھے دعا کرانے کا موقع ملا۔پھر بیہوشی طاری ہوگئی لیکن جب ذرا بھی ہوش آتا توکہتے کہ حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں آدمی جاوے اورعاقبت بخیر اوراچھے انجام کے لئے عرض کرے اورجب حالت نزع طاری ہوئی تویہ وصیت کی کہ میرے جنازہ کی نماز حضرت مرزا صاحب پڑھائیں تاکہ میری نجات ہو۔اِدھر حضرت اقدس بھی نواب صاحب کے لئے بہت دعائیں کرتے رہے اورہربار آدمی سے یہی فرماتے رہے کہ ہاں ہاں تمہارے واسطے دعائیں کیں اورکررہا ہوں اور یہ وصیت نماز جنازہ بھی حضرت اقدس تک پہنچاد ی اورنواب صاحب مرحوم کا انتقال ہوگیا جب نواب صاحب کا انتقال ہوا تونواب صاحب کے اقربا۔ ان کی اولاد اوران کے بھائی مولویوں کے زیراثر اورمرعوب تھے اورمولوی محمد اورمولوی عبداللہ اورمولوی عبدالعزیز یہ تینوں حضرت اقدس علیہ السلام کے مکفر اورمکفرین اوّلین میں سے تھے۔ تینوں یہود صفت بلکہ ان سے بھی بڑھ چڑھ کر تھے اوراُس وقت سے مکفر اورسخت مخالف تھے کہ جب سے براہین احمدیہ شائع ہوئی تھی تمام مولوی خاموش یاموافق تھے۔ مگر یہ بدقسمت اور ایک بدبخت مولوی غلام دستگیر تصوری مخالف تکفیر کے علاوہ سُب وشتم کرنے والے تھے اوران مولویوں کی یہ عادت تھی کہ جومولوی درویش لودہانہ میں آیا اور ان سے مل لیا تو خیر اور جو نہ ملا توبس اُس کو کفر کا نشانہ بنایا۔ یہ تینوں مثلث مولوی اس آیت کے مصداق تھے کہ اِنْطَلَقُوْا الٰی ظِلٍّ ذِیْ ثلٰثِ شُعُبٍ لَا ظَلِیلَ وَلَا یُغْنُی مِنَ اللھَبَ۔چلو اُس تین رخے سایہ کی طرف جس میں ……………ہے اورنہ گرم لپٹ سے بچاؤ کی کوئی صورت ہے ……… اُس زمانہ میں حضرت اقدس علیہ السلام کی مخالفت میں ایک قیامت برپا کررکھی تھی۔ ان مولویوں کو بھی خبر نواب صاحب کی وصیت نماز جنازہ پہنچ چکی تھی۔ ان مولویوں اورمعتقدوں نے نواب صاحب کے اقربا کو کہلا بھیجا کہ اگر مرزا (امام موعودعلیہ السلام) جنازہ پر آیا تو ہم اورکوئی مسلمان جنازہ پر نہ آئیں گے اور تم پر کفر کا فتویٰ لگ جاوے گا اور آئندہ تم میں سے جومرے گا تو نماز جنازہ کوئی نہ پڑھے گا۔ وہ بیچارے ڈرگئے اوریہ خیال نہ کیا کہ ان یہود صفت مولویوں کی کیا مجال ہے کہ ایسا کرسکیں کیا یہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اورکیا اور کوئی بندہ خدا کا نماز جنازہ پڑھانے والا نہ ملے گا اورحضرت اقدس علیہ السلام کے مرید لودہانہ میں نہیں ہیں۔ ان کی کمزوری اورضعف ایمانی نے ان کو ڈبودیا ۔وہ مرحوم بھی ان سے متنفرتھا اورجب ان مولویوں کا ذکر کبھی ان کے روبرو کوئی کرتا تومرحوم کی پیشانی پر بَل پڑجاتے تھے اور وہ اُن کو بدتر سے بدتر خیال کرتا تھا۔ ان اشرالناس مولویوں کی نماز سے توبے نماز ہی جنازہ رہتا تو بہتر تھا اس لئے کہ مسیح وقت علیہ السلام خود دعائیں کرچکا اورمرحوم دعائیں کراچکااورنماز جنازہ بھی توایک دعاہی ہے۔ ایمان ایک ایسی شے بے بہا ہے کہ کوئی شے اس کو دُورنہیں کرسکتی۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰہ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی ایمان پر اس دنیا سے رخصت ہو تو اس کو بول وبراز میں پھنیک دے تواس کا کچھ نہیں بگڑتا اوراگر کوئی ایمان،بے ایمان مرے توکیسے ہی اُس کو عطر وگلاب میں رکھے تواس کو کچھ فائدہ نہیں پہنچتا۔ پھر حدیث شریف پڑھتے۔اَلْقَبَرْرُوْضَۃً مِنْ رِیَاضٍ الجنّۃِ اوحَضَرۃٌ مِنْ حُضَر النیرّانِ ۔
الغرض حضرت اقدس نے نواب صاحب کے جنازہ کی نماز اپنے مکان پرپڑھی اور دعا ومغفرت و رحمت بہت کی۔ جنازہ کی نماز جو حضرت اقدس علیہ السلام پڑھاتے تھے۔سبحان اللہ کیسی عمدہ اور باقاعدہ موافق سنت پڑھاتے تھے۔
مکتوب نمبر۱؍۵
( اوپر کا نمبر سلسلہ کاہے اور نیچے کا مکتوب الیہ کے نام مکتوب کا ۔عرفانی کبیر)
مخدومی مکرمی عنایت فرمائے این عاجز نواب صاحب علی محمد خاں صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا س عاجزنے ماہ صفر ۱۳۰۰ء میںآپ کے حق میںبہت دعائیں کیں اور میںامید نہیں رکھتا کہ کوئی گدا حضرت کریم میںاس قد ر دعائیں کرکے بھی محروم رہے۔سو اگرچہ تعین نہیں ہو گی۔ مگر امید واثق ہے کہ خدا وند کریم آپ کے حال پر جس طرح چاہے گا کسی وقت رحم کرے گا۔ وھو ارحم الرحمین ۔
میںنے قریب صبح کے کشف کے عالم میںدیکھا کہ ایک کاغذ میرے سامنے پیش کیاگیا اس پر لکھا ہے کہ ایک ارادت مند لدھیانہ میںہے۔ پھر اس کے مکان کا مجھے پتہ بتایا گیا جو مجھے یاد نہیں اور پھر اس کی ارادت اور قوت ایمانی کی یہ تعریف اسی کاغذ میںلکھی ہوئی دکھائی۔اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء مجھے معلوم نہیں۔
وہ کون شخص ہے۔ مگر مجھے شک پڑتا ہے کہ شاید خداوند کریم آپ ہی میںوہ حالت پیدا کرے یاکسی اورمیں۔واللّٰہ اعلم بالصواب۔ اپنی خیروعافیت سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
الراقم عاجز
غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور مورخہ ۱۸؍جنوری ۱۸۸۳ء
نوٹ: اس نوٹ میںحضرت حجتہ اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لودہانہ کے ایک شخص کے اخلاص و ارادت کے متعلق اطلاع دی گئی ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا پتہ نشان بتا دیاتھا مگر اپنی مشیت خاصہ کے تحت اسے بھلا دیا۔ ایک وقت میںآپ اس کامصداق میر عباس علی صاحب کوبھی سمجھتے رہے اس وجہ سے وہ خدمت دین میں بظاہر کامل اخلاص وارادت کا اظہار کر رہا تھا لیکن اس کے انجا م نے ثابت کردیا کہ وہ اس کامصدق نہ تھا اورحضرت اقدس کے مکتوب سے پتہ چلتاہے کہ آپ نے نواب علی محمد خان آف جہجر کوبھی اس مصداق سمجھا اور واقعات نے اس کی تصدیق کی کہ وہ آخر وقت تک اخلاص و ارادت کا ایک پیکر بنا رہا ۔
حضرت اقدس نے جنوری ۱۸۸۲ء میںہی ایک مکتوب میر عباس علی صاحب کے نام لکھا جو مکتوبات احمدیہ کی جلد اوّل میںمکتوب نمبر ۳ کے عنوان سے طبع ہوا ہے اس میںفرمایا:
’’ خصوص ایک عجیب کشف سے جومجھ کو ۳۰؍ دسمبر ۱۸۸۲ء بروز شنبہ کو یک دفعہ ہوا۔ آپ کے شہر کی طرف نظر لگی ہوئی تھی اور ایک شخص نامعلوم الاسم کی ارادت صادقہ خدا نے میرے پر ظاہر کی جو باشندہ لودہانہ ہے اس عالم کشف میںاس کاتمام پتہ و نشان سکونت بتلادیا جو اب مجھ کو یاد نہیںرہا صرف اتنا یاد رہا کہ سکونت خاص لودہانہ اور اس کے بعد اس کی صفت میںیہ لکھا ہو اپیش کیا گیا۔
سچا ارادت مند اصلہا ثابت و فرعہافی السماء
یعنی اس کی ارادت اتنی قوی اور کامل ہے کہ جس میںکچھ نہ تزلزل ہے نہ نقصان بعض لوگ میرعباس علی صاحب کے ارتداد پر اب بھی کبھی اعتراض کردیتے ہیںکہ اس کے متعلق یہ الہام ہوا تھا، یہ غلط ہے لودہانہ کے شخص کے متعلق ہو اتھا اور اس کا نام و پتہ اللہ تعالیٰ نے بتلا کرپھر حافظ سے اسے محو کردیا اور ۱۸ ؍جنوری ۱۸۸۳ء کوجو مکتوب آپ نے نواب علی محمد خان صاحب کے نام لکھا اس میںآپ نے اپنا خیال نواب صاحب میںہی اس حالت کے پید اہوجانے کاظاہر فرمایا اور واقعات نے بتایاکہ اس کے مصداق نواب علی محمد خان رضی اللہ عنہ ہی تھے ۔
اس مکتوب سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ نواب صاحب کے تعلقات حضرت اقدس سے ۱۸۸۳ء سے قائم ہوچکے تھے اوریہ زمانہ ثالیف براہین احمدیہ ہے ۔
(عرفانی کبیر)
مکتوب نمبر ۲/۶
یہ حصہ مکتوب دراصل میرعباس علی صاحب کے مکتوب کا ایک حصہ تھامگر چونکہ نواب صاحب کے متعلق تھااس لئے میںنے اسے علیحدہ نمبر دے کر یہاںدرج کردیا۔
(عرفانی کبیر)
نواب صاحب کے بارے میںجو آپ نے دریافت فرمایاہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ نواب صاحب کے لئے یہ عاجز مدت تک بہت تضرع سے دعا کرتا رہاہے۔ ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ نواب صاحب کی حالت غم سے خوشی کی طرف مبدل ہوگئی ہے اور آسودہ حال اور شکر گزار ہیںاور نہایت عمدگی اورصفائی سے خواب آئی اور یہ خواب بطور کشف تھی چنانچہ اسی صبح نواب صاحب کو اس خواب کی اطلاع دی گئی۔ پھر ایسااتفاق ہوا کہ ایک صاحب الٰہی بخش نام اکونٹنٹ نے جواس کتاب کے معاون ہیںکسی اپنی مشکل میںدعا کے لئے درخواست کی اور بطور خدمت پچاس روپے بھیجے اورجس روز خواب آئی اس دن سے دوچار دن سے پہلے ان کی طرف سے دعا کے لئے مشغول تھا۔ اس لئے ان کے لئے دعا کرنے کو کسی اور وقت پر موقوف رکھا جس روز نواب صاحب کے لئے بشارت دی گئی تو اس دن خیال آیا کہ آج منشی الٰہی بخش کے لئے بھی توجہ سے دعاکریں۔ سو بعد نماز عصر وقت صفا پایا اور دعاکاارادہ کیاگیاتو پھر بھی دل یہی چاہاکہ اس دعا میںنواب صاحب کو بھی شامل کرلیا جائے۔ سو اس وقت نواب صاحب اور منشی الٰہی بخش دونوںکے لئے دعاکی گئی۔ بعد اسی جگہ الہام ہوا کہ نخبی ھما من الغم ہم ان دنوںکو غم سے نجات دیں گے۔ چونکہ یہ عاجز اسی دن صبح کے وقت نواب صاحب کی خدمت میںخط روانہ کر چکا تھا اوربذریعہ رؤیا صادقہ نواب صاحب کو بہت تسلی دی گئی تھی۔ اسی لئے اسی خط پر کفایت کی گئی اور منشی الٰہی بخش کو اس الہام سے اطلاع دی گئی اور بروقت صدور اس الہام کے چند نمازی موجود تھے اور اتفاقاً دو ہندو ملاوامل اور شرمپت نامی بھی اکثر آیا جایا کرتے تھے۔ عین اس وقت پر موجود تھے ان کوبھی اسی وقت اطلاع دی گئی اورکئی مہمان آئے ہوئے تھے ان کوبھی خبر دی گئی۔پھر چند روز کے بعد نواب صاحب کاخط آگیا کہ سرائے کاکام جاری ہوگیاہے سو چونکہ یہ دعا اسی کام کے لئے کی گئی تھی۔ پھر اطلاع دینا فضول سمجھا گیا۔ مگر خداوند کریم کابڑا شکر ہے کہ مجمع کثیر میںیہ الہام ہوا اور جیسا کہ میںنے بیان کیا ہے عین الہام کے صدور کے وقت دو ہندو موجود تھے ۔جن کو اسی وقت مفصل بتایاگیااوردوسرے نمازیوںکوبھی خبر کردی گئی اور منشی الٰہی بخش کو بھی لکھا گیا۔
نواب علی محمد خان صاحب کی ارادت اور محبت اور دلی توجہ اور اخلاص قابل تعریف ہے۔ خدا تعالیٰ نے ان کو ہر غم سے خلاصی بخشے اورحسن عاقبت عطافرمائے۔ آپ نواب صاحب کوبھی اطلاع دیں کہ مالیر کوٹلہ سے نواب ابراہیم علی خان صاحب والئے مالیر کوٹلہ کے ایک سررشتہ دار کاخط آیا کہ وہ پچاس روپے بطور امداد بھیجیں گے ابھی نہیںآئے۔
مکتوب نمبر ۳/۷
مخدومی مکرمی حضرت والا شا ن نواب صاحب بہادر سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا والانامہ آنحضرت عین انتظار میںاس احقر العباد کو پہنچا۔ خدا وند کریم کے لطف و احسان کا شکر یہ ادا کیا جائے۔جس نے اس ناچیز کی دعا کوقبول فرمایا الحمدللّٰہ ثم الحمد للّٰہ۔ آں مخدوم کا منی آرڈر بھی پہنچ گیا۔ جزاکم اللّٰہ احسن الجزا و احسن الیکم فی الدنیا والاخرۃ۔ آں مخدوم نے اپنے دلی اعتقا د سے بہت کچھ مدد فرمائی خدا تعالیٰ آپ کو خوش خرم رکھے اور آپ کی عمر و عزت اور عافیت میںبرکت اور ترقی بخشے۔ حضرت خدا وند کریم کی قبولیت کی ایک یہ نشانی ہے کہ بعض اوقات آپ ترقیات کی مجھ کو وہ خبر دیتارہتاہے اور برسوں کے دن بھی ایک عجیب بات ہوئی کہ ابھی آںمخدوم کا منی آرڈر نہیں پہنچا تھا کہ ایک منی آرڈر آپ کی طرف سے برنگ زرد مجھ کو حالت کشفی میں دکھایا گیا اور پھر آںمخدوم کے خط سے اس عاجز کو بذریعہ الہام اطلاع دی گئی اور آپ کے مافی الضمیر اور خط کے مضمون سے مطلع کیاگیا۔ جس میں بہ پیرایہ الہامی عبادت بطور حکایت آںمخدوم کی طرف تھا میرے خیال میںیہ آپ ہی کی توجہ کااثر ہے۔ چنانچہ یہ خط کامضمون اور مافی الضمیر کا منشاء تین ہندوئوں اور بہت سے مسلمانوں کو بھی بتلایا گیا اور زاںبعد آپ کامنی آرڈر اور خط بھی آگیا۔ سو حضرت خداوند کریم کا پیش از وقوع آپ کے نام اور آپ کے منی آرڈر اور آپ کے خط اور آپ کے مضمون خط اور آپ کے مافی الضمیر سے مطلع فرمایا اس بات پر دلیل ہے کہ حضرت ارحم الرحمین کی آپ کے حال پر رحمت شامل ہے۔ فالحمدللّٰہ علیٰ ذلک آںمخدوم کے لئے یہ عاجز دعا کرے گا اور آپ کادلی اعتقاد اور ربط بھی قائم مقام دعا کاہی ہو رہاہے اور دلی دعا اور ربط کوخاص مدعا میںبہت دخل ہے اور جس سے دلی ربط اور توجہ ہو اگر چہ اس کے حق میںکسی وقت دعا نہ کرے ۔ تب بھی اثر ہوجاتاہے مجھ کویاد ہے اور شائد عرصہ تین ماہ یا کچھ کم وبیش ہوا ہے کہ اس عاجز کے فرزند نے ایک خط لکھ کرمجھ کو بھیجا کہ جو میںنے امتحان تحصیلداری کا دیا ہے اس کی نسبت دعاکریںکہ پاس ہو جائے اور بہت کچھ انکساری اور تذلل ظاہر کیاکہ ضروری دعا کریں مجھ کو وہ خط پڑھ کر بجائے دعا کے غصہ آیا کہ اس عاجز نے وہ خط پڑھتے ہی تمام تر نفرت اور کراہت چاک کردیا اور دل میںکہا کہ دنیوی غرض اپنے مالک کے پیش کروں۔ اس خط کے چاک کرتے ہی الہام ہوا ’’پاس ہوجائے گا ‘‘ وہ عجب الہام بھی اکثر لوگوںکوبتایاگیا ۔چنانچہ وہ لڑکاپاس ہوگیا۔فالحمدللّٰہ ۔سو خداوند کریم کی عالیشان صادر ہوتی ہے تو قبول ہوجاتی ہے اور ربط محبت واعتقاد کرنا ان معاملات میںبہت کچھ دخل ہے صاحب محبت اور ارادت کے بہت سے ایسے آفاق اور مکروبات باباعث عین محبت دور کئے جاتے ہیںکہ اس کی اس کوخبر نہیںہوتی۔ نواب صاحب مالیر روئلہ کا جب تک کچھ روپیہ نہیںآتا۔ مناسب ہے کہ آں مخدوم تاکید ی طور پر ان کویاد دلائیں ۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد ؐ از قادیان
۱۱ ؍مئی ۱۸۸۴ء
(نوٹ ) اس مکتوب میںجس لڑکے کاذکر آپ نے فرمایاہے وہ حضرت مرزا سلطان احمد ؐ صاحب رضی اللہ عنہ آپ کے سب سے بڑے بیٹے تھے ان ایام میںوہ نائب تحصیلدار تھے۔ اس مکتوب میںآپ نے دعا قبولیت کے لئے یہ بھی ایک گُر بنایا ہے کہ تعلقات اور ربط ایک ایسی چیز ہے جس کا قبولیت دعا سے بہت گہر اتعلق ہے نواب علی محمد خان مرحوم اس خط کو اپنی نوٹ بک میںرکھتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اور آپ کے مقام قرب کے اظہار کے لئے ہر اس شخص کو دکھاتے تھے جن سے وہ حضرت اقدس کاذکرکرتے تھے وہ آپ کی دلائل صداقت میںاپنے اس ذاتی نشان کا ذکر فرماتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نشان کا ذکر اپنی کتاب نزول المسیح کے نشان نمبر ۹۳ میںکیاہے۔ اس کو میں یہاںاس لئے درج کررہاہوں کہ تا پراپنے وامے کاا یمان بُراہے اور جس روک کے اٹھائے جانے کا ذکر ہے۔ مکتوب نمبر ۲ میںاس کے متعلق صاف ذکرموجود ہے ۔
علی محمد خان صاحب نواب جہجر نے لدھیانہ میں ایک غلہ منڈی بنائی تھی کسی شخص کی شرارت کے سبب ان کی منڈی بے رونق ہوگئی اور بہت نقصان ہونے لگا تب انہوں نے دعا کے لئے میری طرف سے رجوع کیا پیشتر اس کے کہ نواب صاحب کی طرف سے میرے پاس کوئی خط اس خاص امر کے لئے دعا کے بارے میںآتا میںنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر پائی کہ ا س مضمون کا خط نواب موصوف کی طرف آ ئے گا چنانچہ میں نے اس واقعہ کی خبر اپنے خط کے ذریعے سے نواب محمد علی خان مرحوم کو قبل از وقت دے دی اور ایسا اتفاق ہوا کہ اس طرف سے تو میر اخط روانہ ہوا اور اسی دن ان کی طرف سے اسی مضمون کاخط میری طرف روانہ ہوگیا جو میںنے خواب میںدیکھا تھا جس کی روانگی کی میں نے اسی وقت ان کوخبر دے دی تھی کہ گویا ایک ہاتھ سے وہی خط میرا ان کومل گیا جس میںاس روانہ شدہ چٹھی کا مع مضمون اس کا ذکر تھا……تو نواب محمد علی خان خط کوپڑھ کرایک عالم سکتہ میںآگئے اور تعجب کیا کہ یہ راز کاخط جس کومیں نے ابھی ڈاک میں روانہ کیا کیونکہ اس کاحا ل ظاہر کیا گیا اس علمِ غیب نے امن کے ایمان کو بہت قوت دی چنانچہ انہوںنے بارہا مجھے بتلایا کہ اس خط سے خدا پر میرا ایمان بہت بڑھ گیا اُس خط کو وہ ہمیشہ اپنی کتاب جیبی میں بطور تبرک رکھا کرتے تھے ایک مرتبہ انہوںنے خلیفہ محمد حسین کو بھی جو وزیر اعظم پٹیالہ تھے بڑی تعجب سے وہ خط دکھایا اور موت سے ایک دن پہلے پھر اس خط کو مجھے دکھلایا کہ میںنے اپنی جیبی کتاب میںرکھ لیا تھا اور اس نشان کے ساتھ دوسرا نشان یہ ہے کہ جب عالمِ کشف میں ان کادوسرا خط مجھ کو ملا جس میںبہت بے قراری ظاہر کی گئی تھی تو میں نے اس جواب کے خط کوپڑھ کر ان کے لئے دعا کی اور مجھ کو الہام ہوا کہ کچھ عرصے کے لئے یہ روک اُٹھا دی جائے گی اور ان کو اس غم سے نجات دے دی جائے گی۔ یہ الہام ان کو اسی خط میںلکھ کر بھیجا گیا تھا جو زیادہ تر تعجب کاموجب ہوا چنانچہ وہ الہام جلد تر پورا ہوا اور تھوڑے دنوںکے بعد ان کی منڈی بہت عمدہ طور پر بارونق ہوگئی اور روک اُٹھ گئی۔ اس نشان میںدو نشان ظاہر ہوئے۔ اوّل قبل ا ز وقت اطلاع دینا کہ ایسا واقعہ پیش آنے والا ہے۔ دوئم قبولیت دعا سے اطلاع ہونا کہ منڈی پھر بارونق ہو جائے گی۔ ۱ ؎
۴/۸ ایک گشتی مکتوب
یہ ایک مکتوب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بظاہر حضرت حکیم الامۃ مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح اوّل ؓکے نام بشیراوّل کی وفات پر لکھتا تھا مگر اس مکتوب کی متعدد و نقول میاں شمس الدین ساکن قادیان (جو حضرت اقدس کے استا د اوّل میاںفضل الٰہی کے بیٹے تھے۔ ابتداً اور عموماً حضرت اقدس کے مسوّدات کو خوشخط صاف کیا کرتے تھے) نے کی تھیں اور حضر ت اقدس نے ایک نقل لودہانہ کپور تھلہ کے احباب اور بعض رحص احباب کو روانہ فرمائی تھیں۔ میں نے حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓکے مکتوبات میں اسے چھوڑ دیا تھا اس لئے وہ حقانی تقریر کے مضمون کا خلاصہ تھا اور میںنے اس جلد کے آخر میں اس کاذکر بھی کیا تھا لیکن چونکہ یہ مکتوب متعدد احباب کو بھیجا گیا تھا اس لئے میںاس متفرق مکتوبات کے سلسلے میں اسے شائع کر دینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ وہ سلسلے کے ریکارڈ میںمحفوظ ہوجائے۔ اس مکتوب میںحضرت نے بعض احباب کے اخلاص خاص کاذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے کہ’’ یہ بشیر درحقیقت ایک شفیع کی طرح پیدا ہوا اور اس کی موت ان سچے مومنوں کے گناہوں کا کفارہ ہے جن کو اس کے مرنے پر للہ غم ہوا۔ یہاں تک کہ بعض نے کہا کہ اگر ہماری ساری اولاد مر جاتی اور بشیر جیتا رہتا تو ہمیں کچھ رنج نہ تھا۔‘‘
یہ بزرگ جس نے اس اخلاص کا اظہار کیا وہ حضرت منشی محمد خان صاحب افسر بگہی خانہ کپور تھلہ رضی اللہ عنہ تھے نوراللہ مرقدہ۔
حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ ہمیشہ حضرت منشی محمد خان صاحب کے اس اخلاص پر رشک فرمایا کرتے تھے اور بارہا فرمایا کہ بشیر اوّل کی وفات پر جوشخص ہم سب سے آگے نکل گیا وہ محمد خان تھا رضی اللہ عنہ۔ حقیقت میںبڑا فضل اور بڑاکرم ربّ کریم کا ان پر تھا اور اس اخلاص و عقیدت کا ایک بیّن ثبوت دنیا نے دیکھ لیا کہ ان کی وفات پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوبشارت دی کہ اولاد سے نیک سلوک کیا جا ئے گا چنانچہ سب کے سب معزز خوشحال ہونے اور اپنے اپنے رنگ میںاخلاص کا بہترین نمونہ ہیں۔ اب میںاس مکتوب کو درج کر دیتا ہوں غور سے پڑھو اور مصلح موعود (جس کو خدا نے اب ظاہر کردیاہے) کے مقام اور شان کو سمجھو۔
(عرفانی کبیر)
ایک عام مکتوب
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم مخدوم مکرم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمٰہ اللہ تعالیٰ۔ بعد از السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کالفظ لفظ قوۃ ایمانی پر شاہد ناطق ہے عادۃ اللہ قدیم سے جاری ہے کہ وہ اپنے بندوں کو بغیر آزمائش کے نہیں چھوڑتا اور ایسے ایمان کوقبول نہیں کرتا جو آزمائش سے پہلے انسان رکھتا ہے اگر بشیر احمد کی وفات میں ایک عظیم الشاں حکمت نہ ہوتی تو خدا تعالیٰ ایسا رحیم وکریم تھا کہ اگر بشیر عظم رمیم بھی ہوتا۔ تب بھی اس کو زندہ کردیتا مگر اللہ جل شانہ نے یہی چاہا تھا اس کے وہ سب کام پورے ہوں جن کااس نے ارادہ کیاہے۔ بشیر احمد کی وفات کاحادثہ ایسا امر نہیں ہے کہ جو ایک صفا باطن اور دانا انسان کی ٹھوکر کھانے کا باعث ہو سکے۔ جب بشیر پیدا ہوا تو اس کی پیدائش کے بعد صدہا خطوط پنجاب اور ہندوستان سے اس مضمون کے پہنچے کہ آیا یہ وہی لڑکا ہے جس کے ہاتھ پر لوگ ہدایت پائیں گے تو سب کو ہی یہی جواب دیا گیا کہ اس بارہ میں صفائی سے اب تک کوئی الہام نہیں ہوا۔ ہاں گمان غالب ہے کہ یہی ہو کیونکہ اس کی ذاتی بزرگی الہامات میں بیان کی گئی ہے۔ایسے جوابات کی یہ بھی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس پسر متوفی کے استعدادی کمالات اس عاجز پر کھول دیئے تھے اور اس بناء پر قیاسی طور پرگمان کیا گیا تھا کہ غالباً یہی مصلح موعود ہے۔ کیونکہ ذاتی استعداد اور مقدس اور مطہر ہونے کی حالت جو اس کی پیدائش کے بعد الہامات میں بیان کی گئی۔ وہ مصلح موعود کے برابربلکہ اس سے کہیں بڑھ کر تھی۔مگر پیدائش کے بعد ایسا الہام نہیں ہوا کہ یہی مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے اوراسی تصفیہ کی غرض سے سراج منیر کے چھاپنے میں توقف در توقف ہوتی گئی۔
الہامات جو اس پسر متوفی کی نسبت اس کی پیدائش کے بعد ہوئے ان سے خود مترشح ہوتا ہے کہ وہ خلق اللہ کے لئے ایک ابتلائے عظیم کا موجب ہو گا۔ جیسا کہ یہ الہام۔ انا ارسلنک شاھد او مبشر اونذیرا ۔ کصیب من السماء فیہ ظلمات ورعد وبرق۔۔ پس اس الہام میں صاف فرما دیا کہ وہ اَبر رحمت ہے مگر اس میں تاریکی ہے اس تاریکی سے وہی آزمائش کی تاریکی مراد ہے۔ جو لوگوںکو اس کی موت سے پیش آئی اور ایسے سخت ابتلاء میں پڑ گئے جو ظلمات کی طرح تھا یہ سچ ہے اور بالکل سچ کہ یہ عاجز اجتہادی غلطی سے اس خیال میں پڑ گیا تھا کہ غالباً یہ لڑکا مصلح موعود ہو گا جس کی صفائی باطنی اور روشنی استعداد اور تطہیر اور پاکیزگی کی اس قدر تعریف کی گئی ہے مگر اجتہادی کوئی امر ایسا نہیںہے کہ نفس الہام پر کوئی دھبہ لگا سکے۔ ایسی غلطیاںاپنے مکاشفات کے سمجھنے میں نبیو ں سے بھی ہوتی رہی ہیں۔ با ایں ہمہ جب لوگ پوچھتے رہے کہ کیا یہ لڑکا مصلح موعود ہے تو ان کوبھی جواب دیاگیا کہ ہنوزیہ امر قیاسی ہے چونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا تھا کہ لوگوں کو ایک ابتلائے عظیم میں ڈالے اور سچوں اور کچوں میں فرق کر کے دکھلا وے۔ اس وجہ سے یہ عاجز کہ ایک ضعیف بشیر ہے اس ارادہ کا مغلوب ہو گیا اور یوں ہوا کہ اس لڑکے کی پیدائش کے بعد اس کی طہارت باطنی اور صفائی و استعد اد کی تعریفیں الہام میں بیان کی گئیں اور پاک نور اللہ اور ید اللہ اور مقدس اور بشیر اور خدا باماست اس کانا م رکھا گیا۔ سو ان الہامات نے یہ خیالات پید اکئے کہ غالباً یہ وہی مصلح موعود ہوگا۔
مگر پیچھے سے کھل گیا کہ مصلح موعود نہ تھا۔ مگر مصلح موعود کابشیر تھا اور روشن فطرتی اور کمالات استعداد میں یہ بہت بڑھا ہوا تھا اور وہ ہزاروں مومنوں کے لئے جو اس کی موت کے غم میں شریک ہوتے بطور فرط کے ہوگا۔ پس یہ نہیں کہ وہ بے فائدہ آیا بلکہ خدا تعالیٰ نے ظاہر کر دیا کہ اس کی موت عظیم الشان ابتلاء کاایک بھاری حلہ تھا۔ وہ ان کو جو اس حملہ کی برداشت کر گئے۔ عنقریب ایک تازہ زندگی بخشے گی اور اپنی حالت میں وہ ترقی کرجائیں گے۔ یہ بشیر درحقیقت ایک شفیع کی طرح پیدا ہوااور اس کی موت ان سچے مومنوںکاکفارہ ہے جن کو اس کے مرنے پر مخص للہ غم ہوا ۔ یہاں تک کہ بعض نے کہا اگر ہماری ساری اولاد مر جاتی اور بشیر زندہ رہتا تو ہمیںکچھ رنج نہ تھا۔ پس کیا ایسے لوگوں کے گناہوں کاوہ کفارہ نہ ہوگا کیا انیسوں کے لئے وہ پاک اور معصوم شفیع نہیں ٹھہرے گا اور اس کی موت نے ایسے مومنوں کی زندگی بخشی ہے غرض وہ مومنوںاور ثابت قدموں کے لئے جو اس کی موت کے غم میں مخص للہ شریک ہوئے ۔ ایک ربانی مبشر تھا۔ اللہ جل شانہ کے انزال رحمت اور روحانی مومنوں کوبرکت دینے کے لئے ان طریقوں میں سے ایک عمدہ طریقہ ہے۔ گو کوئی شخص اس عاجز پر اعتقاد رکھے یا نہ رکھے اور اس ضعیف کو ہم سمجھے یا نہ سمجھے مگر بشیر کی موت سے اگر مخص للہ اس کو غم پہنچا ہے تو بلاشبہ اور اس کے لئے فرط اور شفیع ہوگا ۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں جو کہ بظاہر ایک لڑکے کی بات پیشگوئی سمجھی گئی تھی۔ درحقیقت وہ ۲ لڑکوں کی بابت پیشگوئی تھی یعنی اشتہار مذکورہ کی پہلی یہ عبادت کہ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔ اس کانام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے وہ جس سے (یعنی گناہ سے )پاک ہے۔ وہ نور اللہ ہے مبارک ہے۔ جو آسمانوں سے آتا ہے۔ یہ تمام عبادت اس پسر متوقی کے حق میں ہے اور مہمان کا لفظ جو اس کے حق میں استعمال کیا گیا ہے یہ اس کی چند روزہ زندگی کی طر ف اشارہ ہے کیونکہ مہمان وہی ہوتا ہے جو چند روز رہ کر چلا جائے اور دیکھتے دیکھتے رخصت ہوجائے اور بعد کافقرہ مصلح موعود کے طرف اشارہ ہے اور اخیر تک اس کی تعریف ہے۔ چنانچہ آپ کو اور اجمالاً سب کو معلوم ہے کہ بشیر کی موت سے پہلے ۱۰ ؍جولائی ۱۸۸۷ء کے اشتہار میں پیشگوئی شائع ہو چکی ہے کہ ایک اور لڑکا پید اہونے والا ہے جو اولوالعزم ہو گا اور ۸؍ اپریل ۱۸۸۷ء کے اشتہار میں وہ فقرہ الہامی کہ انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے۔ یا ہم دوسرے کی راہ تکیں۔ اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بشیر کی موت سے پہلے آپ قادیان میں ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ تو زبانی بھی اس آنے والے لڑکے کے بارے میںالہام سنا دیا گیا۔ یعنی یہ ایک اولوالعزم پیدا ہوگا یخلق مایشاء وہ حسن اور احسان میں تیر انظیر ہوگا۔ سو الہام الٰہی نے پہلے سے ظاہر کردیا کہ ایک لڑکا ایک نہیںبلکہ دو ہیں۔ ہاں کسی مدت تک یہی اجتہادی غلطی رہی کہ لڑکا ایک ہی سمجھا گیا۔ ۲۰ ؍ فروری ۱۸۸۶ء پیشگوئی جو لڑکے کی بابت تھی۔ وہ درحقیقت دو پیشگوئیوں پر مشتمل تھی۔ جوغلطی سے ایک سمجھی گئی اور پھر بعد میں بشیر کی موت سے پہلے خود الہام نے اس غلطی کو رفع کردیا گیااگر الہام اس غلطی کو بشیر کی موت سے پہلے رفع نہ کرتا تو ایک غبی کو شہادت پیدا ہونے کاممکن تھے۔ مگر اب کوئی گنجائش شبہہ کی نہیں۔ حضرت مسیح موعود نے اجتہادی طور بعض اپنی پیشگوئیوںکو ایسے طور سے سمجھ لیا تھاکہ اس طور سے وقوع میں نہیں آئیں اور حضرات حواریاں بھی جو عیسائیوں کے نبی کہلاتے ہیں۔ کئی دفعہ پیشگوئیوں کے سمجھنے میںغلطی کرتے رہے حالانکہ ان غلطیوں سے ان کی شان میں کچھ فرق نہیں آتا۔ اجتہادی غلطی جیسے علمائوں کو پیش آتی ہے۔ ایسے ہی علماء باطن کو بھی پیش آجاتی ہے اور پاک دل آدمی ان امور سے ذرہ بھی متغیر نہیں ہوتے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کوایسی حالت میںکب چھوڑتا ہے اور اپنے انوار کو صرف اسی حد تک کب ختم کردیتا ہے بلکہ بعض وقت کی یہ اجتہادی غلطی خلق اللہ کے لئے موجب نفع عظیم کی ہوئی ہے اور جب فرستادہ الٰہی کی سچائی کی کرنیں چاروں طرف سے کھلنی شروع ہوتی ہیں تب سالک کے لئے یہ اجتہادی غلطی ایک دقیق معرفت کا نکتہ معلو م ہوتا ہے۔ جس شخص کو خداتعالیٰ سے کچھ غرض نہیں اور معرفت الٰہی سے کچھ واسطہ نہیں اور اس کا دین مخص ہنسی اور ٹھٹھا ہے اور اس کا مبلغ علم صرف موٹی باتوں اور سطحی خیالات تک محدود ہے۔ ایسے شخص کی نکتہ چینی اور اعتراضات کیا حقیقت رکھتے ہیں۔ وہ حباب کی طرح جلد کم ہوجاتے ہیں اور نور حقانیت اور بریان صداقت جب پورا پورا اپنا پر تور کہلاتے ہیں۔ تو ایسے ظلماتی اعتراضات کہ ایک غبی اور مردہ دل کے منہ سے نکلتے ہیں۔ ساتھ ہی ایسے معدوم ہوجاتے ہیںکہ گویا وہ کبھی ظہور پذیر نہیں ہوئے تھے۔ محجوب لوگ جیسے خدا تعالیٰ کو شناخت نہیںکرسکتے ایسے ہی اس کے خالص بندوں کی شناخت سے قاصر ہیںاور ایسوںکے اپنے ایمان اور اپنی معرفت کے پورا کرنے کی پرواہ بھی نہیںہوتی۔ وہ کبھی آنکھ اٹھا کرنہیں دیکھتے کہ ہم دنیا میںکیوںآئے اور ہمارا اصلی کمال کیا ہے جس کو ہمیںحاصل کرنا چاہئے وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر مذہب کے پابند رہتے ہیں اور صرف رسمی جوش سے قوم کے حامی یا مذہب کے ریفارمر بن بیٹھے ہیں۔ وہ کبھی اس طرح خیال نہیںکرتے کہ سچا یقین حاصل کرنے کے لئے کرنا چاہئے اور کبھی اپنی حالت کو نہیں ٹٹولتے کہ وہ کیسے سچائی کے طریق سے گری ہوئی ہے اور تعجب یہ ہے کہ وہ آپ تو حق کے بھوُکے اور پیاسے نہیں ہوتے۔ باایں ہمہ یہ مرض ایسی طبیعت ثانی کا حکم ان میںپیدا کر لیتی ہے کہ وہ اسی مرض کو صحت سمجھتے ہیں اور ایسا اس کی تائید میںزور دیتے ہیں کہ اگر ممکن ہوتو برگزیدوں کو بھی اپنی اس حالت کے طرف کھنیچ لائیں۔سو ایسوں کے اعتراضات کچھ چیز نہیں۔ ہمارے نزدیک اگر وہ مسلمان بھی کہلائیں بلکہ اگر مولوی اور عالم کے نام سے موسوم کئے جائیں تب بھی ان کاایمان ایک ایسی حقیر چیز ہے جس سے ہر ایک طالب عالی ہمت بالطبع متنضر ہو گا۔ ہم ایسے لوگوں سے جھگڑنانہیں چاہتے اور ان کا اور اپنا تصفیہ فیصلہ کے دن پر چھوڑتے ہیں او ر لکم دینکم ولی دینکہہ کر ان کو رخصت کرتے ہیں۔
یہ بالکل سچ اور سر اسر سچ ہے کہ رجوع اور سچا یقین بجز سچی معرفت کے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ بالکل غیر ممکن ہے۔ یہ کام مجرو عقلی دلایل سے ہرگز نہیں ہوسکے گا۔وہ تم اور اکمل مرتبہ معرفت جو مدار نجات ہے۔ فقط عقلی دلایل سے ہر گز نہیں ہوسکتا بلکہ فقط عقلی طور پر اپنے جسم کو ساکت کرنا ایک ناقص اور ناتمام فتح ہے ہمیشہ حقیقی فائدہ خلق اللہ کے ایمان کو اکابر کی برکات روحانیہ سے ہوتا رہا ہے او ر اگر کبھی ان کی پیشگوئی کسی کے ٹھوکر کھا نے کا موجب ہوئی تھی تو دراصل خود اسی کا قصور تھا جس نے بوجہ قلت معرفت عادۃاللہ ٹھوکر کھائی۔ یہ بات ہر ایک وسیع المعلومات شخص پر ظاہر ہے کہ اپنے مکاشفات کے متعلق اکثر نبیوں سے بھی اجتہادی غلطیاں ہوتی ہیں اور ان کے شاگروں میںسے بھی جیسا کہ حضرت ابوبکر نے بضع کے لفظ کو جو آیت سیغلبون فی بضع سنین میں داخل ہے۔ تین برس میں محدود سمجھ لیا تھا اور غلطی تھی جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قبنہ کیا اور اسرائیلی نبیوں اجتہادی ؎۱ غلطیاں تو خود ظاہر ہیں جن سے عیسائی بھی انکار نہیں کر سکتے۔ پس کیا و ظہور کسی اجتہادی غلطی کے ان پاک نبیوں کے وفادار اور روشن ضمیر پر وا نہیں یہ صلاح دے سکتے تھے کہ آپ اپنے وعظ اور پند کو صرف عقلی طریق تک محدود رکھیں اور دعوے نبوت او ر پیشگوئیوں کے بیان کرنے سے دستکش ہو جائیںکہ یہ حق کے طالبوں کے لئے فائد ہ مند چیز نہیں۔ ان بزرگوں نے ہر گز ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بقابل ان روحانی برکات کے جو خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں سے صادر وہوتی ہیں۔ ایک آدھ اجتہادی غلطی کوئی چیز نہیں۔ میں قطعاً و یقینا کہتا ہوں او ر علے وجہ الیصرت کہتا ہوں کہ مجرو عقلی دلایل کا ذخیرہ اس شیریں او راطمینان بخش معرفت تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس سے انسان بکلی خدا تعالیٰ کے طرف منجدب ہو جاتا ہے بلکہ اس مرتبہ کے حاصل کرنے کے لئے فقط آیات آسمانی و مکالمات ربانی ذریعہ ہیں۔ اس ذریعہ کو وہی منجون الرحمٰن ڈھونڈتا ہے جو اپنے اندر سچی آگ تلاش کی پاتا ہے اور اپنے تئیں رسمی ایمان پر اکتفاکر کے دھوکہ دنیا میں نہیں چاہتا۔ فقط رسمی ایمان پر خوش ہونا ان لوگوں کا طریق ہے جن کے دل محبت دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں اور جو کبھی دن کو یا رات کو اور چلنے یا پلنگ پر لیٹے ہوئے اپنے ایمان کی آزمائش نہیں کرتے کہ کس قدر اس میں قوت ہے اور زبان کی چالاکی اور شعلہ منطق نے کہاں تک ان کے دلوں کومنور کرکے سیدھی راہ پر لگادیا ہے اور کس درجہ تک جام یقین پلاکر محبت مولٰی بخش دی ہے۔ شاید بعض لوگ میری تقریر مندرجہ بالا کو پڑھ کر جو میں نے صفائی استعداد اور عالی فطرتی متوقی کی بابت لکھا ہے اس حیرت میں پڑیں گے کہ جو بچہ صغیر سنی میں مر جائے اس کے علو ا ستعداد کے کیا معنے ہیں۔ سو میں ان کی تسکین کے لئے کہتا ہوں کہ کمال استعداد ی اور پاک جوہر ی کے لئے زیادہ عمر پانا کچھ ضروری نہیں اور یہ بات عندا لعقل بد یہی ہے کہ بچوں کی استعداد میں ضرور باہم تغاوت ہوتا ہے گو بعض ان میں سے مریں یا زندہ رہیں۔ وہ اندورنی قوتیں اور طاقتیں جو انسان اس مسافر خانہ میں ساتھ لاتا ہے وہ بچوں میں کبھی برابر نہیں ہوئیں۔ ایک بچہ دیوانہ سا اور غبی معلوم ہوتا ہے اور منہ سے رال ٹپکتی ہے اور ایک ہوشیار دکھائی دیتا ہے بعض بچے جو کسی قدر عمر پاتے ہیں اور مکتب میں پڑھتے ہیں۔ نہایت ذہین اور فہیم ہوتے ہیں مگر عمر وفا نہیں کرتی اور صغیر سنی میں مر جاتے ہیں۔ پس لغاوت استعدادات میں کس کو انکار ہوسکتا ہے اور جس حالت میں صد ہا بچے فہیم ا ور ذہین اور ہوشیار مرتے نظر آتے ہیں تو کون کہہ سکتا ہے کہ کمالات استعداد یہ کے لئے عمر طبعی تک پہنچتا ایک ضروری امر ہے سّید نا ومولانا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابراہیم اپنے لخت جگر کی نسبت بیان کرنا کہ اگر وہ جیتا رہتا تو صدیق یا نبی ہوتا۔ بعض احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ سو اسی طرح خدائے عزوجل نے مجھ پر کھول دیاہے کہ بشیر جو فوت ہو گیا ہے کمالات استعداد یہ میں اعلٰی درجے کا تھا اور اس کے استعدادی کمالات دوسرے عالم میں نشوونما پائیں گے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
قصیر العمر ہونا اس کے جوہر کے لئے مضر نہیں بلکہ اس کا پاک آنا اور پاک جانا اور گناہ سے بکلی مقصوم رہنا اس کے شرف پر ایک بدیہی دلیل ہے اور جیسا کہ الہام نے بتلایا تھا کہ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اور وہ گناہ سے پاک ہے۔ ایسا ہی وہ مہمان کی طرح چند روز دے کر پاکی اور معصومیت کی حالت میںاٹھایا گیا اور موت کے وقت بطور فارق اور عادت اس کاچہرہ چمکا اور اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور سو گیا یہی اس کی موت تھی جو معمولی موتوں سے دوُر اور نہایت پاک و صاف تھی۔
اس جگہ یہ بھی تحریر کے لائق ہے کہ اس کی موت سے اللہ جل شانہ نے پہلے اس عاجز کو پوری بصیرت بخش دی تھی کہ یہ لڑکا اپنا کام کرچکا ہے اور اب فوت ہو جائے گا۔ اسی وجہ سے اس کی موت نے اس عاجز کی قوت ایمانی کو بہت ترقی دی اور آگے قدم بڑھایا۔ اس کی موت کی تقریب پر بعض مسلمانوں کی نسبت یہ اس الہام ہوا۔احسب الناس ان یترکوان یقونوا امنا وھم لا یفتنون۔ قالو ا باللہ تفتو ا تذکریوسف حتی تکون حرضاً اوتکون من الھا الکین شاھت الو جوہ فتول عنہم حتی حین ان الصابرین یوفی اجر ھم بغیر حساب ۔اب خدا تعالیٰ نے ان آیات میں صاف بتلا دیا کہ بشیر کی موت لوگوں کی آزمائش کے لئے آزمائش کے لئے ایک ضروری امر تھا جو کچے تھے وہ مصلح موعود کے ملنے سے نو مید ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ تو اسی طرح اس یوسف کی باتیں ہی کرتا رہے گا۔ یہاں تک کہ قریب المرگ ہو جائے گا یا مر جائے گا۔ سو خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ ایسوں سے اپنا منہ پھیرلے جب تک وہ وقت پہنچ جائے اور بشیر کی موت پر جو ثابت قدم رہے ان کے لئے بے اندازہ اجر کا وعدہ ہوا۔ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں اور کہ ۔۔۔کی نظر میں حیرت ناک۔
کوتہ میں لوگ یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ جس حالت میں اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء میں پیشگوئی شائع کی گئی تھی کہ بعض لڑکے کم عمری میں فوت ہوں گے تو کیا یہ ضرور نہ تھا کہ یہ پیشگوئی پوری ہوتی۔ فی الحقیقت بشیر کی خورو سالی اور اس کی موت نے ایک پیشگوئی کو پورا کیا جو اس کی موت سے تین سال پہلے کی گئی تھی۔ سو دانا کے لئے زیادہ معرفت کا یہ محل ہے نہ انکار و حیرت کا۔
اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے پسر متوقی کے اپنے الہام میں کئی نام رکھے۔ ان میں سے ایک بشیر اور ایک عنموائیل اور ایک خدا با ماست ورحمت حق اور ایک ید اللہ تجلال وجمال ہے او را س کی تعریف میں ایک الہام ہو ایہ جاء ک النور وھو افضل منک یعنی کمالات استعدادیہ میں وہ تجھ سے افضل ہے کیونکہ اس پسر متوقی کو اس آنے والے فرزند سے تعلقات شدید تھے اور اس کے وجود کے لئے یہ بطور ارہاص تھا۔ اس لئے الہامی عبارات میں جو ۲۰؍۱۸۸۶ء کے اشتہار میں درج تھی۔ ان دونوں کے ذکر کو ایسا مخلوط کیا گیا کہ گویا ایک ہی ذکر ہے۔ ایک الہام میں اس دوسرے فرزند کا نام بھی بشیر رکھا ہے چنانچہ فرمایا کہ دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا یہ وہی بشیر ہے جس کا دوسر انام محمود ہے جس کی نسبت فرمایا کہ وہ اولو العزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیر انظیر ہوگا۔ خلیق مایشاء یہی حال ہے جو میں نے آپ کے لئے لکھی۔ و افوض امری الی للہ واللہ بصیر بالعبادالراقم۔
خاکسار
غلام احمد ازقادیان











احباب کپور تھلہ کے نام




تعارفی نوٹ
جماعت کپور تھلہ کے وہ بزرگ (جو جماعت مذکورہ کے بانیوں میں سے تھے اور جنہوں نے اپنے عشق و وفا کا عملی ثبوت دیا کہ خدا کے برگزیدہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں جنت میں اپنے ساتھ ہونے کاوعدہ دیا۔ گویا وہ لوگ تھے جو وعشرہ مبشرہ کے نمونہ کے تھے) ان کا تذکرہ تو سیرۃ صحابہ میں انشاء اللہ ہوگا اورکسی قدر ہر ایک بزرگ کے متعلق الحکم میں مختلف اوقات میں لکھا بھی گیا ہے یہاں صرف ان مکتوبات کا اندراج مقصود ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ان مخلصین وصادقین کو لکھے۔ میری تحقیقات میں کپور تھلہ کی جماعت کے آدم حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ تھے اور ان کے اخلاص اور عملی زندگی نے دوسروں کو شیدائے مسیح موعود کردیا اور پھر یہ کہنا مشکل ہو گیا کہ کون پہلے ہے اور کون پیچھے۔ ہرایک اپنے رنگ میں بے نظیر اور واجب التقلید تھا اللہ تعالیٰ ان سب پر رحم وکرم کے بادل برسائے اور جنت الفردوس میں اعلٰی مقامات دے اور ہمیں ان کی عملی زندگی کی توفیق۔ جماعت کپور تھلہ کے مخلصین کے نام مکتوبات بہت کم ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ عشق ومحبت کے یہ پروانے ذرا فرصت پاتے تو قادیان پہنچ جاتے اور خط وکتابت کی نوبت ہی نہ آتی جہاں حضرت جاتے یہ ساتھ جاتے تاہم جو تبرکات ان سے حاصل ہوئے وہ درج ذیل ہیں۔
(عرفانی کبیر)
(۱)حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور کے نام
حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب دو قالب دیک جان تھے حضرت منشی صاحب کے بزگوار حاجی ولی اللہ صاحب براہین احمدیہ کے خریدار تھے اور ان ایام میں خوش عقیدت بھی تھے ان کی کتاب براہین احمدیہ نے حضرت ظفر المظفر (حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ منشی ظفر احمد صاحب کو اسی نام سے عام گفتگو میں پکارا کرتے تھے) کو کھینچا اور پھر یہ دونوں بزرگ حضرت اقدس میں ہو کر۔
ایک ہی باپ کے توام بیٹے ہوگئے
حاجی پور ان ہی صاحب کا آباد کیا ہو ا گائوں تھا جہاں کے رئیس منشی صاحب مغفور تھے (عرفانی کبیر)
۱/۹ مشفقی مجی اخویم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ،
محبت نامہ پہنچ کر آپ کے ترودات کا حال دریافت کر کے بہت غم ہوا۔ دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو تمام ترودات سے مخلصی عطا فرمائے۔ آپ نے بہت ثواب کا کام کیا کہ دس رسالے مفت تقسیم کئے۔ جزاکم اللہ۔ اب عنقریب انشاء اللہ رسالہ وافع الوسادس بھی شائع ہو جائے گا میں یقینا کہتا ہوں کہ آپ کی خواب نہایت عمدہ ہے منشی ظفر احمد صاحب موجو د تھے اس سے مراد انشاء اللہ ظفر ہے۔ یعنی فتح آپ کو ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد۴؍ جنوری ۱۸۹۲ء
۲/۱۰ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔نحمدہ،و نصلی
محبی اخویم منشی حبیب الرحمن صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،
آپ کا محبت نامہ پہنچا۔ آپ کی علالت کی خبر سن کر تفکر ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جلد صحت کامل عطا فرمائے۔ نہایت آرزو ہے کہ آپ ۲۷ ؍ دسمبر ۱۸۹۲ء کے جلسہ میں تشریف لائیں۔ اگر آٹھ نو روز تک صحت کامل ہو جائیں تو آپ آسکتے ہیں امید ہے کہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں مرض کی حالت میں قصر نماز کرنہیں چاہئے البتہ اگر طاقت کھڑے ہونے کی نہ ہوتو بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں۔
والسلام
۱۹؍ دسمبر ۱۸۹۲ء
۳/۱۱ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ، و نصلی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ ڈیڑھ میل تک شہر میں اپنے گائو ں سے آنا بخیر حرج کے متصور نہیں چونکہ گائوں میں مسجد ہے اگر شہر کے نزدیک بھی ہے تب بھی ایک محلہ کا حکم رکھتاہے۔ کسی حدیث صحیح میں اس ممانعت کا نام ونشان نہیں۔ بلاشبہ جمعہ جائز ہے۔ خدا تعالیٰ کے دین میں حرج نہیں۔ کتاب دافع الوساوس چھپ رہی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۳۰؍اگست ۹۲ء
۴/۱۲ مشفقی محبی اخویم منشی حبیب الرحمن صاحب سلٰمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ، عنایت نامہ پہنچ کر بد دریافت واقعہ ہائلہ حادثۃ وفات آپ کی ہمشیرہ کے بہت غم و اندوہ ہو ا انا للہ وانا الیہ راجعون۔ خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے اور آپ مرحومہ کو راضیات جنت میں داخل فرمائے آمین ثم آمین۔ باقی بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد۱۷؍ مئی ۹۲ء
۵/۱۳ محبی شفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ، مدت کے بعد آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ ایک رسالہ آپ کے نام روانہ ہوگیا ہے۔ دافع الوسادس بعد اس کے شائع ہوگا۔ زیورات کی نسبت جو آپ نے دریافت کیا ہے یہ اختلافی مسئلہ ہے۔ مگراکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ جو زیور متعمل ہو اس کی زکوہ نہیں۔ مگر بہتر ہے کہ دوسرے کو عاریتاً کبھی دے دیا کریں مثلا ً دو تین دن کے لئے کسی دعوت کو اگر عاریتاً پہننے کے لئے دے دیا جائے تو پھر بالاتفاق ساقط ہو جاتی ہے۔ خواب آپ کی نہایت عمدہ ہے۔
والسلام
راقم خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۲ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ، و نصلی
۶/۱۵ محبی عزیزی اخویم منشی حبیب الرحمن صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،
جوتا جو آپ نے بھیجا نہایت عمدہ تھا صرف اس قدر فرق تھا کہ وہ کچھ مردانہ قطع تھی دوسرے جیسا کہ زنانہ جوتیاں ہوا کرتی ہیں نازک …کا حصہ انچان لم ہے اور بقدر ایک جو اس پہلی جوتی کے چھوٹی ہے اور اس لئے …
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۹؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء
(نوٹ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عموما ً لودہانہ کا بنا ہوا نرم نری کا سرخ رنگ کاجوتا پہنا کرتے تھے اور منشی حبیب الرحمن مرحوم کی یہ عادت تھی کہ وہ عموماً لودہانہ سے جوتا بنوا کر پیش کیا کرتے تھے۔ ان کے گائوں میں دیمک کی کثرت تھی اکثر کاغذات اور کتب ان کے تباہ ہوگئے۔ یہ خط بھی ایک دو جگہ سے صاف نہیں پڑھا جاتا۔ البتہ یہ سمجھ میں آتا تھا کہ اس مرتبہ جو جوتا آپ نے پیش کیا اس میں بعض بقایص رہ گئے۔ تاہم حضور نے اس کی اولا اس کی خوبی اور عمدگی کو بیان کیا تاکہ جس اخلاص اور محبت سے انہوں نے بنا کربھیجا تھا اس کو ٹھیس نہ لگے اور اس میں جو واقعی نقص رہ گیا تھا وہ اس وجہ سے اصل غرض پوری نہ ہو سکتی تھی اس کا بھی ذکر فرمایا دیا۔
(عرفانی کبیر )
(۲) حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے نام
تعارفی نوٹ
حضرت منشی احمد صاحب رضی اللہ عنہ میری تحقیقات میں کپور تھلہ کی جماعت کے آدم ہیں عین عنفوان شباب میں انہوں نے براہین احمدیہ کو پڑھا او راس سے نور سے حصہ لیا۔ ان کا تاریخی نام انظار حسین تھا۔ وہ ضلع مظفر نگر (یو۔پی) کے اصل باشندے تھے اور ایک شریف معزز اور عالم خاندان کے فرد تھے۔ خاندان میں شرافت کے علاوہ دینداری کا ہمیشہ چرچا رہا اس لئے کہ یہ خاندان عرصہ دراز سے خاندان مغلیہ کے عہد میں مسلمان ہوچکا تھا اور اس عہد کی تاریخوں میں اس خاندان کے تذکرے آتے ہیں۔ یہ قانون گو کہلاتے تھے۔ قرآن کریم کے حفظ کرنے کابھی شوق اس خاندان میں پایا جاتا ہے چنانچہ خود منشی صاحب کے والد صاحب۔ دادا صاحب۔ پردادا صاحب۔
سب حافظ قرآن تھے مگر خدا تعالیٰ نے حضرت منشی صاحب کو قرآن کریم کے حقایق و معارف کے ایک چشمہ جاریہ پر لا کر کھڑا کر دیا اور سیراب ہو گئے اور دوسروں کو سیراب کرتے رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عشاق میں سے تھے او راہل بیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت اور ان کے ایمان کاجزو اعظم تھا اس جگہ مجھے ان کی زندگی کے واقعات کی تفصیل مطلوب نہیں سرسری تعارف زیر نظر ہے۔ بزرگان ملت حضرت خلیفۃ اوّل رضی اللہ عنہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ اور دوسرے اصحاب کیا آپ کے ساتھ محبت رکھتے تھے جو دراصل خود ان کی اس محبت کا عکس تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کا ذکر ان الفاظ میںفرمایا۔
منشی ظفر احمد صاحب۔ یہ جوان صالح کم گو اور اخلاق سے بہرادقیق الفہم آدمی تھے استقامت کے آثار وانوار اس میں ظاہر ہیں وفاداری کی علامات وآثارات اس میں پیدا ہیں۔ ثابت شدہ صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے اور ان سے لذت اٹھاتا ہے اور حسن طن جو اس راہ کامرکب ہے۔ دونوں سیرتیں اس میں پائی جاتی ہیں۔ جزاکلہ اللہ خیر الجز ۔
(ازالہ دہام طبع اوّل صفحہ ۸۰۰) ۱۹۲۰ء بکری کے قریب قصبہ باغپت میں پید اہوئے اور ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۴۱ء کو کپور تھلہ میں فوت ہوئے اور وہاں سے ان کاجنازہ قادیان لایا گیا اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے (رضی اللہ عنہ)
(خاکسار عرفانی کبیر)
۱/۱۶ بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدو نصلے علی رسول الکریم
از عاجز عاید باللہ الصمد غلام احمد باخویم مکرم منشی ظفر احمد صاحب بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، عنایت نامہ آپ کا پہنچا حرف حرف اس کاپڑھا گیا ا ور آپ کے لئے دعا کی گئی۔
قبض اور بے ذوقی میں کیا کرنا چاہئے
قبض او ر بے مزگی اور بے ذوقی کی حالت میں مجاہدات شافہ بجا لا کر اپنے مولا کو خوش کرنا چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ وہ مجاہد ہ جس کے حصول کے لئے قرآن شریف میں ارشادو ترغیب ہے اور جو مورد کشود کاہے۔
وہ مشرط بے ذوقی و بے حضوری ہے۔
مجاہدہ حقیقی
اور اگر کوئی عمل ذوق اور بسط اور حضور اور لذت سے کیا جائے اس کو مجاہد نہیں کہہ سکتے اور اس پر کوئی ثواب مترتب ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ خود ایک لذت اور نعیم ہے اورتغم اور تلذو کے کاموں سے کوئی شخص اجر نہیں ہوسکتا۔ ایک شخص شیریں شربت پی کر اس کے پینے کی مزدوری نہیں مانگ سکتا، سویہ ایک نکتہ نہایت باریک ہے کہ بے ذوقی اور بے مزگی، تلخی اور مشقت کے ختم ہونے سے وہیں ثواب اور اجر ختم ہوتا ہے اور عبادات عبادات نہیں رہتیں۔
نکتہ معرفت۔ بلکہ ایک روحانی غذا کا حکم پیدا کرلیتی ہیں سو حالت قبض جو بے ذوقی اور بے مزگی سے مراد ہے یہی ایک ایسی مبارک حالت ہے جس کی برکت سے سلسلہ ترقیات کا شروع رہتا ہے۔ ہاں بے مزگی کی حالت میں اعمال صالحہ کا بجا لانا نفس پر نہایت گراں ہوتا ہے۔ مگر ادنی خیال سے اس گرانی کو انسان اٹھا سکتا ہے جیسے ایک مزدور خوب جانتا ہے کہ اگر میں نے آج مشقت اٹھا کر مزدوری نہ کی تو پھر فاقہ ہے اور ایک یقین رکھتا ہے کہ میں نے تکالیف سے ڈر کر نوکری چھوڑ دی تو پھر گزاراہ ہونا مشکل ہے۔ اسی طرح انسان سمجھ سکتا ہے کہ
فلاح آخرت بجز اعمال صالحہ کے نہیں
اعمال صالحہ۔ اور اعمال صالحہ وہ ہوں جو خلاف نفس اور مشقت سے ادا کئے جائیں اور عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ دل سے کام کے لئے مصحم عزم کیاجائے۔ اس کے انجام کے لئے طاقت مل جاتی ہے۔ سو مصحم عزم اور عہدواثق سے اعمال کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور نماز میں اس دعا کو پڑھنے میں کہ
اھد نا الصراط المستقیم
(طریق دعا)
بہت خشوع اور خضوع سے زور لگانا چاہئے اور بار بار پڑھنا چاہئے۔ انسان بغیر عبادت کچھ چیز نہیں بلکہ جانوروں سے بدتر ہے اور شرابریہ ہے۔ وقت گزر جاتا ہے اور موت در پیش ہے اور جو کچھ عمر کا حصہ ضائع طور پر گزر گیا وہ ناقابل تلافی ہے اور سخت حسرت کا مقام ہے۔ دعا کرتے رہو اورتھکو مت لا تیئو امن روح اللہ
(کامیابی کے گُر)
یہ عاجز آپ کے لئے دعا کرتے رہے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ہر ایک بات کے لئے ایک وقت ہے۔ صابر اور منتظر رہنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ صبر میں کچھ فرق آجائے کیونکہ استعجال سم قاتل ہے اگر فرصت ہو تو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہئے۔ غور سے ترجمہ قرآن کریم کا دیکھا کرو۔
(منشی صاحب کاخواب)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آپ نے خواب میں دیکھا یہ بہتر ہے فاروق کی زیارت قوت و شجاعت دین حاصل ہوتی ہے۔
(فقر کا مفہوم)
میر ی دانست میں فکر کے یہ معنی ہیں کہ اعمال کی ضرورت ہے نہ نسبت کی۔ یہ پوچھا جائے گا کہ کیا کام کیا۔ یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ کس کا بیٹا ہے۔
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کس طرح ہو)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے مناسبت و پیروی و محبت اور پھر کثرت درود شریف شرط ہے یہ باتیں بالعرض حاصل ہو جاتیں ہیں۔ خدا تعالیٰ کے راضی ہو جانے کے بعد اور با آسانی یہ امور طے ہوجاتے ہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد قادیان۱۱؍۱۸۸۹ء
نوٹ۔: ا س مکتوب میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی ایک رویا کا ذکر بھی حضرت نے فرمایا جس میں انہوں نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا اور حضرت نے اس کی تعبیر عام بھی فرما دی ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ حقیقی تعبیر ہے۔ لیکن میں اپنے ذوق پر اس کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس میں حضرت منشی صاحب کو قبل از وقت بشارت دی تھی کہ وہ اس عصر سعادت کے فاروق فضل ِ عمر کو دیکھ لیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں ایک یہ بھی ہے کہ :۔
فیک مادۃ فاروقیہ
اس میں کیا شبہہ ہے کہ حضرت بجائے خود بھی فاروق ہی تھے۔ لیکن اس وحی میں یہ ہے کہ تجھ میں فاروقی مادہ ہے اور اس کا ظہور آپ کی صبلی اولاد میں سے ایک اولوالعزم مولود کے ذریعہ ہونے والا تھا ،جو زبان وحی میں فضل عمر کہلایا۔
بہر حال حضرت منشی ظفر احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ وہ اس عہد کے فاروق کو دیکھیں گے اور یہ خواب اسی سال کا ہے جب کہ وہ مولود بشر موعود عالم وجود میں آچکا تھا
یعنی ۱۸۸۹ء۔
پس میرے ذو ق میں اس خواب کی تعبیر واقعات کے رنگ میں نمایاں ہے اور میں حضرت ظفر کو مبارک باد دیتا ہوں کہ انہوں نے ا س عہد مبارک کو پا لیا اور حضرت فضلِ عمر کو دیکھ لیا۔
(عرفانی کبیر )

خان صاحب عبدالمجید خاں صاحب کے نام
تعارفی نوٹ
خان صاحب عبدا لمجید خاں صاحب ریٹائرڈ ڈسرکٹ مجسٹریٹ کپور تھلہ حضرت منشی محمد خاں صاحب رضی اللہ عنہ کے فرزند اکبر میں حضرت منشی محمد خاں صاحب کپورتھلہ کی جماعت کے ان مثاق میں سے تھے جواپنی عقیدت واخلاص اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ محبت و ایثار میں بہت بلند درجہ رکھتے ہیں۔ منشی محمد خان صاحب کا ذکر میں پہلے اس گشتی مکتوب میں کر آیا ہوں جوبشیر اوّل کی وفات پر حضرت نے لکھا تھا اورتفصیلی تذکرہ کتاب تعارف میں ا نشاء اللہ مزید آئے گا۔ منشی محمدخان صاحب افسر بگیخانہ کپور تھلہ تھے جب ان کی وفات ہوئی۔ اس جگہ کے لئے کپور تھلہ کے کئی شخص امیدوار تھے اور حالت یہ تھی کہ حضرت منشی محمد خاں صاحب کی علالت کی طوالت کے باعث حساب کتاب بھی نا مکمل تھا، اور مختلف قسم کے خطرات در پیش تھے مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بذریعہ وحی بتا دیا تھا کہ اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا چنانچہ منشی عبد المجید خاں صاحب افسر بگیخانہ مقرر ہوئے اور بالاخر ترقی کرتے کرتے وہ ڈسڑکٹ مجسڑیٹ ہوئے اور اسی عہدہ سے پنشن پائی۔ خان صاحب عبدالمجید صاحب اپنے اخلاص وارادت میں اپنے والد مرحوم کے نقش قدم پر ہیں اور اس سلسلہ کی خدمت کے لئے ہمیشہ تیار رہنا اپنی سعادت اور خوش قسمتی یقین کرتے ہیں اللہم زدفزد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خطوط سے پہلے میں ایک مکتوب مکرمی مفتی فضل الرحمن صاحب مرحوم کا درج کرتا ہوں اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشان کا ایک شاہد ہے۔
(عرفانی کبیر )
۱/۱۷ مفتی صاحب کا خط حضرت منشیٰ روڑیخاں ؓ کے نام
مکرمی منشی صاحب۔ السلام علیکم۔ خاکسار کل ۲ بجے یہاں پہنچا حضور علیہ السلام سے غرض کیا گیا فرمایا مجھے ۲ ؍ جنوری کوایسی حالت طاری ہوئی جیسے کوئی نہایت عزیز مر جاتا ہے ساتھ ہی الہام ہوا۔
اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا
اطلاعاً عرض ہے دعا کے واسطے کہا گیا حضور کوبہت سخت رنج ہوا ہے۔ میرے بعد میرے والد صاحب کی دوتاریں آئی تھیں اس لئے آج بہیرو جاتا ہوں کل سے بارش شروع ہے ۱۳؍ تاریخ انشاء اللہ گورداس پور پہنچ جائو ں گا اور خیریت ہے عبدالمجید خاں وغیرہ سب کو
السلام علیکم
خاکسار
فضل الرحمن از قادیان
(نوٹ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام والسلام کے مکتوبات درج کئے جاتے ہیں۔ عرفانی کبیر)
۲/۱۸ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔نحمدو، ونصلی
محبی اخویم میاں عبدالمجید خاں صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، چاول اور آم مرسلہ آپ کے پہنچ گئے جزاکم اللہ خیرا۔ ایک گھوڑی نہایت عہدہ نسل کی دہنی کھیپ کے علاقے کی ہے۔ عمدہ قد کی اور خوب چالاک اورساری خوبیاں اس کے اندر ہیں اور عمر کی جوان بچھڑی۔ یعنی نوجوان۔ صرف یہ بات ہے کہ ذرا ڈرتی ہے اور ہمارے بچے کمزور ہیں۔ میں خود اندیشہ کرتا ہوں کہ اس چالاک گھوڑی پر سواری ان کے مناسب نہیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی پاس شدہ ہے اور اس پر ای۔آئی کاکمپنی کاداغ دیا ہوا ہے۔ صرف یہ باعث خوف و ڈر اس کے میر ایہ ارادہ ہے کہ اس کے عوض کوئی اور گھوڑی اصیل جو ڈرتی نہ ہو اور ناخن نہ لیتی ہو اور ہد لگام نہ ہوا اور چک گیر نہ ہو۔ چال بہت صاف بغیر ٹھوکر کے ہو خرید لی جائے اور میرے خیال میں آپ اس کام کو بخوبی انجام دے سکتے ہیں اور آپ کا اختیار ہے کہ اس جگہ اور گھوڑی بدلا کر بھیج دیں یااس کو بیچ کر اور گھوڑی عمدہ خرید کر بھیج دیں اور ضرور توجہ کرکے اس کام کو انجام دیں۔ نہایت تاکید ہے اور آپ ایک ہوشیار آدمی بھیج کر گھوڑی منگوا لیں اور ہم اس جگہ بھی اس کے ہمراہ اپنا ایک آدمی کردیں گے۔
والسلام
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۶؍ اگست ۱۹۰۶ء
(نوٹ) اس مکتوب سے ظاہر ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اعلٰی درجے کے شاہ سوار تھے جو ہدایات آپ نے گھوڑی کی خرید کے متعلق دی ہیں ان سے اس علم کاپتہ چلتا ہے کہ گھوڑوں کی خوبی کے متعلق آپ کو تھا۔ نیز اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے بچپن ہی سے صاحبزادوں کی تربیت ایک ایسے رنگ میں فرمائی جو ان کی آئندہ زندگی کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتا ہے خصوصیت سے حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی تربیت میں آپ کو خاص شغف تھا۔ یہ گھوڑی حضرت امیر المومنین ہی کی سواری کے لئے لی گئی تھی اور حضرت امیر المومنین ایک عمدہ شاہ سوار ہیں۔
۳/۱۹ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ، و نصلی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط پہنچا میری یہ حالت ہے کہ میں قریباً تین روز سے بیمار ہوں کھانسی کی بہت شدت ہے دوسرے عوارض بھی ہیں اس وقت میں ایسا کمزور ہو گیا ہوں کہ دعا میں پور امجاہدہ اور کوشش نہیں کرسکتا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو شخص مذکور کے لئے دعا کروں گا اللہ تعالیٰ رحم فرما دے میں اس قدر کمزور ہو گیا ہوں کہ اس قدر تحریر بھی مشکل سے کی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کے اختیار میںہے کہ اگر میری صحت میں خدا نخواستہ کچھ زیادہ خلل ہوا تو حتی المقدر دعا کروں گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
مرزا غلام احمد
۱۰؍ فروری ۱۹۰۸ء
(نوٹ) اس مکتوب سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خطوط کے جواب میں کس قدر محتاط اور مستعد تھے اور آپ انسان کی فطرت کو سمجھتے تھے کہ خطوط کے جواب کے لئے وہ کسی قدر مغطرب رہتا ہے۔ دوسرے آپ نے دعا کے متعلق بھی قبول ہونے والی دعا کا راز بتایا کہ وہ ایک خاص مجاہدہ اور کوشش کو چاہتی ہے۔ سوم آپ کی طبیعت پر صداقت کس قدر غالب ہے۔ نمائش اور ریا سے آپ پاک ہیں چونکہ بوجہ علالت شدید و غا ء کے لئے وہ حالات میسر نہیں صاف اعتراف فرمایا کہ اس وقت دعا نہیں کر سکتا۔ اس مکتوب کے ہر لفظ سے آپ کا توکل علٰی للہ نمایاں ہے۔
(عرفانی کبیر )
۴/۲۰بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علٰی رسول الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
ہر ایک خط کے پہنچنے پر دعا کی گئی انشاء اللہ بعد میں کئی دعائیں کی جائیں گی خدا تعالیٰ ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
والسلام
مرزا غلام احمد عفی اللہ ۴؍جون ۱۹۰۷ء
۵/ ۲۱ محبی فی اللہ عبد المجید خاں۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے واسطے دعا کی جاتی ہے حساب سرکاری میں اللہ تعالیٰ سہولت عطا فرمائے۔ والسلام۔ انشاء اللہ القدیر دعا کروں گا آپ کا قریباً ہر روز خط پہنچتا ہے اور دعا بھی کی جاتی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۲؍ جون ۱۹۰۷ء
(نوٹ) خط نمبر ۵ کا ابتدائی حصہ مفتی محمد صادق صاحب قبلہ کا قلمی ہے جو ان ایام میں حضور کے کاتب خطوط تھے یا آجکل کی اصطلاح میں پرائیویٹ سیکرٹری ان کی عادت میں تھا کہ جن خطوط کے جواب کے لئے خصور اس نیت اور مقصد سے پیش کردیتے کہ حضرت بھی خود کوئی جملہ یا کم از کم اپنا دستخط ہی کردیں جس کے خدام طلب گار رہتے۔ ان ایام میں حضرت منشی محمد خاں صاحب رضی اللہ عنہ کے ایام علالت کا حساب ہو رہا تھا اور حضرت منشی روڑیخاں صاحب اور منشی حبیب الرحمن صاحب رضی اللہ عنہا یہ کام کررہے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق حساب میں سہولت اور اولاد کے لئے نرم سلوک کے انوار ظاہر کردئیے مرحوم منشی صاحب ہی کا کچھ روپیہ ایصال طلب ثابت ہوا اور حکومت کپور تھلہ نے اسے ادا کردیا حضرت مرحوم اپنی دیانت امانت اور تقوی و طہارت نفس میں ایک بے نظیر آدمی تھے۔ باوجود اتنے بڑے عہدہ پر مامور ہونے کے اپنی زندگی درویشانہ گزارتے تھے جو ملتا تھا اس میں سے صرف قوت لایموت رکھ کر سلسلہ کی نذر کردیتے تھے اللہ اللہ کیا لوگ تھے۔ رضی اللہ عنہم ورضولغہ ،
(عرفانی کبیر)
۶/ ۲۲ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہر ایک خط پہنچنے پر دعا کی گئی۔ انشاء اللہ بعد میں کئی دن دعا میں کوشش کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
مرزا غلام احمد
۲؍ جنوری ۱۹۰۷ء
(نوٹ) اس خط سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک خاص عادت کا پتہ ملتا ہے اور میں اس کو ذاتی علم اور بصیرت سے بھی جانتا ہوں۔ حضرت اقدس کا معمول تھا کہ جب ڈاک آئی تو ایک اجمالی دعا کے لئے کرتے اور پھر خط کو پڑھتے وقت کھولتے وقت صاحب خط کے مقاصد کے لئے دعا کرتے اور اس کے بعد یہ بھی انتظام تھا کہ ایسے تمام ارباب کی فہرست تیار ہو کر حضور کی خدمت میں بھیجی جاتی تھی۔ خاں صاحب عبدالمجید خان صاحب کے نام اس خط میں آپ نے ہر بلا سے محفوظ رکھے جانے کی دعا کی ۔۔۔۔۔اور دوران ملازمت میں دشمنوں کی ہر مخالفت اور منصوبے سے جو ان کو نقصان پہنچانے کا کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو محفوظ رکھا وللہ الحمد۔
(عرفانی کبیر )
۷/۲۳ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی خاں صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج آپ کا خط مجھے ملا۔ جس میں آپ تاکید فرماتے ہیں کہ حضرت کے نام جو آپ کا خط ہو اس کاجواب آپ سوائے حضرت کے اور کسی کے ہاتھ نہیں چاہتے ساتھ حضرت نے آج مجھ سے دریافت فرمایا ہے کہ عبدالمجید صاحب کے خط کا جواب کیوں نہیں دیا جاتا۔
میں تعجب کرتا ہوں کہ حضرت کے نام آپ کے خطوط کا جواب فوراً دیا جاتا ہے اور عموماً میں خود لکھتا ہوں بلکہ حضرت کی تحریر بھی آپ کو روانہ کرتا ہوں۔ پھر بھی آپ نے حضور کوا یسے الفاظ لکھے ہیں جن سے حضور کو یہ خیال ہوا ہے کہ گویا آپ کو خطوط کا جواب ہی نہیں دیا جاتا۔ آپ کو چاہئے تھا کہ وضاحت لکھتے کہ میرے خطوط کا جواب حضور کی طرف سے بہ دستخط محمد صادق پہنچتا ہے۔ مگر مجھے اس کی ضرورت نہیں۔
اور اب بھی حضرت کو اطلاع کر دیں اور کھول کر اب رہی یہ بات کہ ہم آپ کے خطوط کا جواب لکھا کریں یا نہ لکھا کریں۔ سو اس کے متعلق یہ گزارش ہے کہ مجھے آپ کا حکم مانتے بھی کبھی تامل ہوتا۔ مگر میں خود علیہ السلام کے حکم سے مجبور ہوں مجھے جب حکم ہوتا ہے کہ میں ایک خط کا جواب لکھوں تو مجھے ضرور لکھنا پڑتا ہے خواہ کسی کو پسند ہو یا نا پسند۔ اس کا خیال نہیں اطاعت حکم سے مطلب ہے آج حضور نے مجھے حکم دیا کہ اس کا جواب لکھو۔ میرے عرض کرنے پر پھر فرمایا کہ اچھا اب میں بھی لکھوں گا۔ مگر آپ بھی لکھو۔ فرمائیے اب میں کیا کروں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل آپ کے شامل حال ہو۔
والسلام
خادم محمد صادق عفی اللہ عنہ قادیان
اس واقعہ سے محبت اور اطاعت کے گراں قدر جذبے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
از کپور تھلہ ۲۰؍ مارچ ۱۸۰۷ء
۸/۲۴ جناب عالی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضور ! عاجز کئی ایک عرلضیہ جات خدمت بابرکت میں گزارش کر چکا ہے۔ مگر اس وقت تک کوئی جواب غلام کو نہیں ملا۔ اس صورت میں طبیعت بے قراری ہو جاتی ہے اس لئے بار بار تکلیف دی جاتی ہے۔ یہاں پلینگ بڑی سخت ہے۔ حضور ہمارے لئے دعا فرما دیں۔ باد گاہ الٰہی میں مخص حضور کے تعلق کو جتا جتا کر دعا کی جاتی ہے ورنہ ہماری روحانی حالت بہت گندی ہے۔ حضور کے جواب کامنتظر۔
عبدالمجید خاں
حضور کا خادم
۸/۲۴ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب لکھ دیں کہ خط آپ کے پہنچتے ہیں میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو مع تمام عزیزوں کے طاعون سے محفوظ رکھے۔
والسلام
برادرم السلام علیکم۔
بشارت نامہ ارسال خدمت ہے۔ خدا تعالیٰ کا فضل آپ کے ساتھ ہو۔
خادم۔ محمد صادق
(نوٹ) اس کے بعد کے خطوط میں خاں صاحب کے اصل خط بھی درج کر دئیے گئے جن کے جوابات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے دئیے گئے ہیں۔
(عرفانی کبیر )
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
از کپور تھلہ ۱۶ ؍ مارچ ۱۹۰۸
۹/۲۵ جناب عالی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عاجز اپنے چھوٹے بھائی عزیز بشیر احمد کو سہار نپور کے کالج متعلقہ باغات کی اور سیر کلاس میں داخل کرنا چاہتا ہے۔ مگر بجز حضور کی اجازت حاصل کئے اور اس کے داخلہ کے قبل دعا کرائے بغیر ہر گز اس کو وہاں پر پہنچ نہیں سکتا۔ اجازت حاصل کرنے کے واسطے ایک عریضہ بذریعہ ڈاک گزارش کرچکا ہوں جس کاجواب عاجز کو موصول نہیں ہوا اور اگر حضور اجازت دیں تو وقت داخلہ تھوڑا ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ بذریعہ عریضہ دستی اجازت کی درخواست کی جائے اور دعا کے لئے خواستکار ہوں۔ چنانچہ حامل عریضہ ہذا کو حضور کی خدمت میں بھیجتا ہوں کہ کالج مذکور میں سہ سالہ پڑھائے ہیں اور گورنمنٹ ملازمت دینے کی ذمے دار ہے اورجو تعلیم پوری کر کے ملازمت کریں ان کو گورنمنٹ ابتدائی تنخواہ ( ؎۶۰) روپیہ کے قریب دے گی۔ کالج نیا ہے شروع میں وظیفہ بھی پڑھائی کے لئے سرکار سے قریباً کل لڑکوں کو ملتا ہے۔ اگر حضور پسند فرمائیں تو اجازت فرمادیں اور دعا فرماکر فخر بخشیں تاکہ عزیز بشیر احمد کے داخل کرانے کا جلد انتظام کیا جائے۔ ورنہ جیسا حکم ہو کیا جائے۔ حضور کے جواب باصواب کا منتظر عاجز غلام۔ بندہ عبدالمجید نائب مہتمم۔
(حضور میں اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھوں گا اگر حضور کسی چیز کے لئے حکم کریں جو کہ ۲۰ماہ حال کو یعنی جب قادیان حاضر ہوں ہمراہ لیتا آئوں۔ عاجز غلام احمد۔ بندہ عبدالمجید )
۱۰/۲۶ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا ڈاک میں بھی خط پہنچا تھا مجھے چونکہ دورہ کے طور پر بیماری لاحق ہو جاتی ہے اس وقت جواب لکھنے سے معذور ہو جاتا ہوں آج لکھنا چاہتا تھا کہ آج بھی بیمار رہا میرے نزدیک کچھ مضایقہ نہیں تو کلاً علی اللہ داخل کرایا جائے میں انشاء اللہ دعا کروں گا کہ خدا تعالیٰ کامیاب کرے اور بلائوں سے محفوظ رکھے محمود احمد اس جگہ نہیں ہے خط ا س جگہ رکھ لیا ہے وہ امرتسر جواب ضرور لکھ دیں کہ ہم دعا میں مشغول ہیں۔ تسلی رکھیں۔
والسلام
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۱/۲۷ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
از کپور تھلہ۔ ۱۴ ؍ فروری ۱۹۰۸ء
جناب عالی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضور کی علالت طبع کا سن کر دل کو صدمہ ہوا خدا تعالیٰ جلد صحت کلّی عطا فرمائے۔ حضور جان ہیں اور کل جہاں جسم ہے حضور کی بیماری کی خبر سخت چینی کا موجب ہوتی ہے۔ حضور بواپسی ڈاک اپنی صحت سے اطلاع بخشیں۔ اس معاملہ میں جس کے لئے حضور نے توجہ فرمائی تھی۔ دعا اب درست معلوم ہوتا ہے یعنی صاحب بہادر نے جو استفادہ دیا تھا وہ اب واپس لینے کے قریب ہے۔ حضور کی خدمت میں بطور یاد دہانی بعد عجز التماس ہے کہ حضور دعا فرمادیں کہ سری حضور دام اقبالہ، یعنی مہاراجہ صاحب بہادر کے دل میں نرمی پیدا ہو اور وہ صاحب بہادر کی دلجوئی کر دیں۔ اتنے میں صاحب خوش ہو جائیں گے اور کام بد ستور بنا رہے گا۔
صاحب بہادر کی میم حضور کی خدمت میں بعد عجز دعا کے لئے التماس کرتی ہے۔ خود حاضر ہونے کو تیار ہیں۔ مگر حالات موجودہ اجازت نہیں دیتے۔ بعد میں وہ اس معاملہ میں کوشش کریں گے۔
حضور کے جواب کا منتظر۔
عاجز غلام
بندہ عبدالمجید نائب مہتمم
۱۲/۲۸ برادرم مکرم خان صاحب
السلام علیکم۔ حضور جب آپ کے واسطے دعا میں مشفول ہیں تو تمام مشکلات خود ہی حل ہو جائیں گے۔ آپ کے مضطر بانہ خط پڑھ کر عاجز نے دعا کی ہے۔ مگر حضور کی دعا کے بعد کسی دعا کی ضرورت نہیں۔ مگر حصول ثواب کے واسطے اور آپ کی تکلیف کو محسوس کر کے محبت دلی سے بے اخیتار دعا ہوتی ہے۔ اپنے حال سے روزانہ اطلاع کیا کریں۔ تازہ الہام ظفر کم اللہ ظفر اً بیناً۔
خادم
محمد صادق عفی اللہ عنہ،
۱۳/۲۹ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
محبی اخویم عبدالمجید خاں سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ، آپ کا خط پہنچا میں انشاء اللہ پھر دعا کروں گا۔ خدا تعالیٰ ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے اسی طرح بار بار یاد دلاتے رہیں تا دعا کا سلسلہ جاری رہے باقی سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ،
۹ ؍ جولائی ۱۹۰۶ء
۱۴/ ۳۰ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ،
آپ کا خط ملا۔ باباعث علالت طبع میں جلد تر جواب نہیں لکھ سکا۔ آپ کے (پڑھا نہیں گیا) سے بہت رنج ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صبر بخشے اور نعم البدل عطا فرمائے دنیا کی بنا انہیں عموم پر ہے اور ہر ایک مصیبت کو ثواب بھی خدا تعالیٰ کا کرم و رحم ہے آپ کے بھائی بخیریت و عافیت پہنچ گئے ہیں۔ بخدمت منشی عبدا لرحمن صاحب السلام علیکم باقی سب طرف سے خیریت ہے۔
والسلام
مرزا غلام احمد
۱۰ ؍ جولائی ۱۹۰۶ء
(نوٹ) مزید مکتوبات اگر میسر آئے بطور ضمیمہ درج ہوں گے۔
(عرفانی کبیر)



متفرق احباب کے نام



حضرت مرزا سراج الحق جمالی نعمانی سرساوی (رضی اللہ عنہ،)
کے نام
(تعارفی نوٹ)
حضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحب سابقون الاولون میں سے ہیں اوراس میں کچھ شبہہ نہیں کہ انہوں نے سلسلہ کے لئے بہت بڑی قربانی کی تھی وہ ایک سجادہ نشین خاندان کے رکن تھے اوراپنے مریدوں کابھی ایک وسیع حلقہ رکھتے تھے۔ لیکن جب ان پر سلسلہ کی صداقت کھل گئی تو انہوں نے اس عظمت و راحت کو لات مار دی اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دروازہ پردھونی رمالی میں انشاء اللہ العزیز صاحبزادہ صاحب کی زندگی پر بہت جلد ایک مضمون لکھنے کا عزم رکھتا ہوں۔ ایک شخص جس کی عمر کا بہت بڑا حصہ نازو نعمت میں گزرا ہو اور جو اپنے خاندان اور اپنے مریدوں میں اکرام واحترام کا مرکز ہو سلسلہ احمدیہ میں آنے کے بعد اس کی زندگی میں حیرت انگیز تعیز ہوا۔ وہ فی الحقیقت ایک درویش کی زندگی بسر کر تا تھا۔ آخری وقت تک اس نے کوشش کی کہ وہ اپنی محنت سے روٹی کمائے۔ کتابت کے ذریعہ کچھ عرصہ تک وہ اپنی قوت لایموت پیدا کرتے رہے۔ لیکن جب قویٰ نے جواب دے دیا اوراس کام کو نہ نبھاسکے توحضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز خصوصیت سے ان کی ضروریات کا لحاظ رکھتے تھے۔ لیکن اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ ان کی زندگی کا آخری دور نہایت عسرت اور امتحان کو دور تھا۔ مگر وہ اس دور میں پورے ثابت قدم رہے اوراس امتحان میں کامیاب ہوئے۔ ان کی زندگی کا آخری کارنامہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حالات زندگی لکھ رہے تھے۔ جو انہیں یاد تھے۔ میں ان کی زندگی میں چاہتا تھا کہ اس مسودہ کو دیکھوں۔ انہوں نے خواہش بھی کی۔ لیکن مجھے اپنے بکھیڑوں سے فرصت نہ ملی۔ وہ اکثر بیمار رہتے تھے۔ مگر نہایت صبر وحوصلہ سے اس بیماری کو برداشت کرتے جب ذرا افاقہ ہوجاتا توباہر نکل آتے۔ آخر عمرمیں لوگوں سے مصافحہ کرنے سے گھبراتے تھے۔ اس لئے کہ لوگ جومحبت سے ہاتھ کودباتے تووہ اس شدت کو برداشت نہ کرسکتے تھے۔ مجھے بعض احباب کے متعلق یہ حسرت رہے گی کہ میں ان کی آخری سامات میں ان کے ساتھ نہ تھا۔ غرض کاغذات میں کچھ مکتوبات مل گئے۔ جن میں صاحبزادہ صاحب کی یاد تازہ رکھنے کو ذیل میں درج کرتا ہوں۔
(عرفانی)
۱/۳۱ از عایذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
عنایت نامہ آں مخدوم پہنچا موجب خوشی ہوئی۔ خداوند کریم آنمکرم کو خوش و خرم رکھے۔ یہ عاجز کچھ عرصے تک بیمار رہا اور اب بھی اس قدر ضعف ہے کہ کوئی محنت کا کام نہیں ہو سکتا۔ اسی باعث سے ابھی کام حصہ پنجم شروع نہیں ہوا بعد درستی و صحت انشاء اللہ شروع کیا جائے گا۔ آپ نے جو سورۃ فاتحہ پڑھنے کی اجازت چاہی ہے یہ کام صرف اجازت سے نہیں ہو سکتا بلکہ امر ضروری ہے کہ سورۃ فاتحہ کے مضمون سے مناسبت حاصل ہو۔ جب انسان کو ان باتوں پر ایمان اور اثبات قدم حاصل ہوجائے جو سورۃ فاتحہ کا مضمون ہے تو برکات سورۃ فاتحہ سے مستفیض ہو گا۔ آپ کی فطرت بہت عمدہ ہے اور میں بھی امید کرتا ہوں کہ خدا وند کریم جل شانہ، آپ کی جدوجہد پر ثمرات مرتب کرے گا۔ وقال اللہ تعالی والذین جاھدو فینا لھذ سینھم سلینا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۷ ؍ مارچ ۱۸۸۵ء
(نوٹ) یہ مکتوب شریف تقریباً پانچ سال پہلے کا ہے۔ پیر صاحب چونکہ ایک سجادہ نشین کے بیٹے تھے اور عملیات اورچلہ کشیوں کو ہی معراج سلوک و معرفت یقین کرتے تھے۔ اس لئے انہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس زمانے میں جب کے ابھی بیعت بھی نہیں لیتے تھے سورت فاتحہ کے برکات اور فیوض کو بطورفتر حاصل کرنے کے لئے اجازت چاہی جیساکہ آج کل کے مروجہ پیروں اور سجدہ نشیوں میں یہ طریق جاری ہے۔ مگرحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ جب انسان اس روح کو اپنے اندر پیدا نہ کر لے جوسورت فاتحہ میں رکھی گئی ہے مخص منتر جنتر کے طور پر پڑھنے سے وہ برکات حاصل نہیں ہو سکتے۔ یہ عجیب نکتہ معرفت ہے اوراس سے آپ کی ایمانی اور عملی قوت کا پتہ چلتا ہے کہ معرفت الہیہ کے کس بلند مقام پر آپ پہنچے ہوئے تھے۔
۲/۳۰ دوسر امکتوب
از عامذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدوم مکرم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہٰ۔ اسلام علیکم ورحمتہ اللہ برکاتہ۔ کل ایک خط خدمت میں روانہ کر چکا ہوں۔ مگر آپ کے سوال کا جواب رہ گیا تھا سو اب لکھتا ہوں۔ علماء اس سوال کے جواب میں اختلاف میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے من کان منکم مریضاً اوعلیٰ سفرفعدۃ من ایام اخر اگر تم مریض ہو یاکسی سفر قلیل یا کثیر ہو تواسی قدر روزے اور دنوں میں رکھ لو۔ سواللہ تعالیٰ نے سفر کی کوئی حد مقرر نہیں کی اورنہ احادیث نبوی میں حد پائی جاتی ہے۔ بلکہ محاورہ عام میں جس قدر مسافت کانا م سفر رکھتے ہیں وہی سفر ہے ایک منزل جو کم حرکت ہو اس کو سفر نہیں کہا جا سکتا۔ والسلام۔
عاجز غلام احمد عفی عنہ،
۲۱ ؍جون ۱۸۸۵ء
(نوٹ) سفرمیں روزہ کے متعلق بڑی عجیب و غریب بحثیں ہیں اور سفر کے تعین اور مقدار میں مختلف آرائے ہیں مگر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک ایسا آسان اور عام فہم اصل تعلیم فریاد ہے جس سے ایک عام آدمی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور حقیقت میں الدین یُسر کے یہی معنی ہیں خود سفر اور حالت بیماری میں روزہ کو خدا تعالیٰ نے یُسر کے ر نگ میں بیان کیا ہے پھر اس میں …نئے مشکلات پیدا کرتا ہے یہ حضرت کے نکتہ کا ایک بین ثبوت اور امتیاز ہے۔
(عرفانی کبیر)
۳/۳۱(یہ مکتوب ناقص ہے اورکچھ حصہ کاغذات میں مل گیا ہے عرفانی)
آپ کی تشریف آوری کا انتظار ہے خداتعالیٰ آپ کی ملاقات نصیب کرے۔ مولوی عبدالکریم ؓ صاحب اور عرب صاحب اس جگہ ہیں اور آپ کے منتظر ہیں منشی محمد اعظم صاحب کا خط بھی میں نے پڑھ لیا اوران کے حق میں دعا کی گئی۔ ان کو اطلاع دیں اور کہہ دیں کہ استغفار بہت پڑھیں اور ہر نماز کے بعد کم از کم گیارہ دفعہ لاحول پڑھا کریں۔ والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۶؍ستمبر ۱۸۹۲ء
۴/۳۲ مکرمی محبی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
عنائت نامہ مجھ کو قادیان میں ملا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس نواح میں اشاعت حق کے لئے بڑی سرگرمی سے کام کرتے ہوں گے لیکن ترتب اثر وقت پر موقوف ہے۔ آپ نے جو انسپکٹر کے نام حنہیذ میں کتاب روانہ کروائی تھی۔ وہ شخص بڑی کراہت کے ساتھ کتاب لینے سے انکار کر گیا اورکتاب واپس آئی آئندہ آپ کو اگر کوئی شخص خریداری کتاب کا شوق ظاہر کرے تو اوّل خوب آزما لینا چاہئے کہ آیا فی الواقع سچے دل سے خریدنے کے لئے مستعد ہے یا صرف لاف و اگذاف کے طور پر بات کرتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ آج کل لوگوں کے دلوں میں سخت کینہ پیدا ہو رہا ہے اوربجائے اخلاص کہ بعض وعداوت میں ترقی کر رہے ہیں۔
آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے۔ دیکھئے کب میسر آتی ہے۔ امید ہے کہ تا دم ملاقات اپنی خیروعافیت سے مطمئن و مسرور فرماتے رہے گے باقی خیریت۔
والسلام
الراقم خاکسار
غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپور۲۶؍نومبر ۱۸۹۱ء
۵/۳۳ مکرمی اخویم صاحبزادہ صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ،
ایک بڑی بھاری بحث مولوی نذیر حسین صاحب سے پیش ہے اگر آپ اس بحث پر تین چار روز تک پہنچ سکیں تو عین خوشی اور تمنا ہے مگر آنے میں توقف نہیں چاہئے۔ آپ کے آنے سے بہت مدد ملے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ۱۱؍ اکتوبر ۱۸۹۲ئمقام دہلی بازار بلیمار ان کوٹھی نواب نوہارد۔
(نوٹ) صاحبزادہ سراج الحق صاحب نے اپنے سفر نامہ میں دہلی آنے اور مباحثہ کے متعلق بعض حالات کا تذکرہ لکھا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خدام کو شریک ہونے کا ہرموقعہ دیا کرتے تھے۔ صاحبزادہ کو اس موقعہ پر اس خدمت میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ دہلی کے علماء نے فیصلہ کیا کہ حضرت اقدس کو اگر کسی کتاب کی ضرورت پڑی تو نہ دی جائے۔ حق پوشی کے اس مظاہرے سے انہوں نے اپنی جگہ سمجھا تھا کہ وہ
حق کا مقابلہ کرسکیں گے
لیکن خدا تعالیٰ نے غیب سے کتابوں کے میسر آنے کے سامان تو پیدا کردئیے مگر ان دشمنان حق کو باوجود اپنے ہر قسم کے سازوسامان کے آنے کی جرات نہ ہوئی اور سید نذیر حسین اوستاذا لکل کہلانے کے باوجود مقابلہ سے فرار کر گیا۔
یہ واقعات خود بہت دلچسپ ہیں اور انشاء اللہ سوانح حیات میں آجائیں گے۔
اسی سلسلہ میں سید نذیر حسین صاحب کے ایک واقعہ کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا اور وہ یہ ہے کہ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ دوسری شادی جو اللہ تعالیٰ کے عظیم الشاں نشانوں کے ماتحت دہلی میں ہوئی تو یہی نذیر حسین حضور کا نکاح پڑھنے کے لئے آئے تھے اور انہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا نکاح بڑے فخر کے ساتھ پڑھا تھا۔ اس تقریب پر دستور کے موافق پانچ روپے بھی اور ایک جانماز ان کو دئیے گئے تھے۔
(عرفانی کبیر )
۶/۳۴ مخدومی مکرمی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ،
آں مخدوم کا عنایت نامہ جو محبت سے بھر اہوا (تھا پہنچا )جزاکم اللہ خیر الجزاء و احسن الیکم فی الدنیا و العقبی۔ یہ عاجز حضرت عزاسمہ میں شکر گزار ہے کہ ایسے مخلص دوست اسی نے میرے لئے میسر کئے۔ فاالحمد اللہ۔
ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں اور اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب خیریت سے ہے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۸ ؍دسمبر ۱۸۸۴ء
(نوٹ) اس مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحب ۱۸۸۴ء میں حضرت کی خدمت میں پہنچ چکے تھے اور اخلاق وعقیدت کی منزلوں کو طے کر رہے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر تو اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح کا اثر غالب تھا اور وہ ہرامر کو فعل باری ہی نتیجہ یقین کرتے تھے۔ حضور کے مکتوبات کے پڑھنے سے یہ بھی نمایاں ہو تا ہے کہ حضور اپنے خدام اور غلاموں کو کس محبت اور ادب سے خطاب کرتے تھے۔ آپ کے اعلیٰ اخلاص کا ایک نمونہ ہے۔ خدام اور وابستگان وامن آپ کی روحانی اوالاد تھی اور آپ اکرمو اوالا وکم کے تحت ہر شخص سے نہ محبت و اکرام پیش آتے تھے۔
(عرفانی کبیر )
۷/۳۵ مکرمی مخدومی اخویم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ نیزیک دستار ہدیہ آں پہنچا حقیقت میں عمامہ نہایت عمدہ خوبصورت ہے جو آپ کی دلی محبت کاجوش اس سے مترتح ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔ (آمین ) اور اب یہ عاجز شاید ہفتہ تک اس جگہ ٹھہرے گا۔ زیادہ نہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہٗاز ہوشیار پور۹؍ مارچ ۱۸۸۶ء
(نوٹ) حضرت اقدس کا سفر ہوشیار پور ایک تاریخی سفر ہی نہیں بلکہ اس سفر کے ساتھ بہت سے نشانات دابستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ایک تحریک حفی کے ماتحت کچھ عرصے کے لئے ضلع گورداسپور کے پہاڑی علاقہ (سو جان پور ) کی طرف جا کر عبادت کرنا چاہتے تھے۔ لیکن پھر خدا تعالیٰ کی صاف صاف وحی نے آپ کو ہوشیار پور جانے کا ایما فرمایا اور اس شہر کا نام بتایا۔ اس سفر میں تحریر کا ایک خاص کام بھی زیر نظر تھا۔ چنانچہ حضور نے مرحوم چوہدری رستم علی خان صاحب کو لکھا تھا کہ
حسب ایما ء خدا وند کریم بضیہ کام رسالہ کے لئے اس شرط سے سفر کا ارادہ کیا ہے کہ شب وروز و تنہائی ہی رہے اور کسی کی ملاقات نہ ہو اور خدا وند کریم جلشانہٗ نے اس شہر کا نام بتا دیا ہے کہ جس میں کچھ مدت بطور خلوت رہنا چاہئے اور وہ شہر ہوشیار پور ہے۔ الاخرہ یہ سفر حضرت نے قادیان سے سیدھا ہوشیار پور کو کیا گیا تھا۔
چنانچہ ۱۹ ؍ جنوری ۱۸۸۶ء کو حضور معہ حضرت حافظ حامد علی صاحب و حضرت منشی عبداللہ صاحب و میاں فتح خاں (یہ شخص بعد میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے اثر میں آگیا ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا تھا) روانہ ہوئے اور بروز جمعہ ہوشیار پور پہنچ کر طویلہ شیخ مہر علی صاحب میں فروکش ہوئے تھے۔ اسی سفر میں ماسٹر مرلیدھر سے مباحثہ ہوا جو کتاب سرمہ چشم آریہ کی صورت میں شائع ہوا۔
اس سفرکے برکات عظیم الشاں ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں فرمایا تھا اور تیرے سفر کو جو ہوشیار پور اور لودہانہ کاسفر ہے تیرے لئے مبارک کر دیا۔ (اشتہار ۱۰؍ فروری ۱۸۸۲ء) ان عظیم الشاں برکات میں سے ایک وہ ہے جو مصلح موعود اور پھر بشیر کے متعلق ہے اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ مکتوبات کی اس جلد کے شائع کرتے وقت حضرت مرز ا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ خدا تعالیٰ کی وحی اور الہام سے مشرف ہو کر مصلح موعود ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے اور اس کا اعلان دنیا میں ہو چکا ہے اسی سلسلہ میں ہوشیار پور لاہور اور دہلی میں کامیاب جلسے ہو چکے ہیں۔ خدا کا فضل اور رحم ہے کہ خاکسار۔ عرفانی کبیرتو عرصہ دراز سے اس موعود کے متعلق ایمان رکھتا تھا جیسا کہ اس کی تحریروں سے ظاہر ہے مگر اب کشف عطاء ہو گیا اور منکرین کے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ تاہم ہدایت اللہ تعالیٰ ہی کے طرف سے آئی ہے آنکھ کے اندھوں کے لئے بنیات اور حقایق کام نہیں آتے۔
(عرفانی کبیر)
۸/۳۶ مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
مبلغ (…) پہنچ گئے۔ آپ اپنی محبت برادرانہ سے اس عاجز کی تائید میں بہت کوشش کر رہے ہیں اور خلوص و محبت کے آثار بارش کی طرح آپ کے وجود سے ظہور میں آتے جاتے ہیں۔ اللہ جلشانہ آپ کو خوش رکھے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۴؍ جون ۱۸۸۶ء
(نوٹ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام چونکہ شکور خدا کے عبدشکور تھے۔ اس لئے اپنے خدام کی ہر خدمت کو نہایت عزت وقدر سے دیکھا کرتے تھے۔ معمولی سے معمولی کام بھی کوئی کرتا تو جزاکم اللہ احسن الجزا فرماتے اور اس کو قدر عزت کی نظر سے دیکھتے۔ اس چیز نے آپ کے صحابہ میں اخلاص کی ایک عملی روح پید اکردی تھی اور ایک صادق چاہتا تھا کہ خدمت کے لئے آگے بڑھے۔
صاحبزادہ سراج الحق صاحب اب ہمارے درمیان نہیں وہ خود ایک پیرزادہ تھے اور لوگوں سے نذرانہ لیتے اور ایسی فضاء میں ان کی تربیت اور اٹھان ہوئی تھی کہ خدمت اسلام کے لئے کچھ خرچ کرنے کا موقعہ نہ تھا۔ لیکن جب خدا تعالیٰ نے انہیں راہ حق دکھایا تو انہوں نے اپنے اخلاص کا ہر رنگ میں ثبوت دیا۔
جزاکم اللہ احسن الجزا۔
(عرفانی کبیر)
۹/۳۷ مخدومی مکرمی اخویم صاحبزادہ صاحب سراج الحق صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج عنایت نامہ پہنچ کر طبیعت کو نہایت بشاشت ہوئی اور خوشی ہوئی۔ خدا وند کریم آپ کے فرزند دل بند کی عمر دراز کرے اور آپ کے لئے مبارک کرے۔ آمین ثم آمین۔ آن مخدوم نے اوّل مجھ کو ہدیہ عمامہ خوب و عطر عمدہ بھیجا اور اب مہندی اور جوتہ کے لئے آپ نے لکھا ہے چونکہ مخص محبت اور اخلاص کی راہ سے آپ لکھتے ہیں اس لئے مجھے منظور ہے۔ یہ تاگا جوخط کے درمیان بھیجتا ہوں اس عاجز کے جوتہ کی نوک تک آتا ہے کل لمبائی جوتہ کی یہی ہے۔ افسوس کہ اشتہار موجود نہیں۔ انشاء اللہ اگر مل گئے تو روانہ کر دوں گا۔ زیادہ خیریت
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۰/۳۸ مکرمی محبی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ قادیان میں مجھ کو ملا مجھے یقین ہے کہ آپ اس نواح میں اشاعت حق کے لئے بڑی سرگرمی سے سعی کرتے ہوں گے لیکن مترتب اثر وقت پر موقوف ہے آپ نے جو انسپکٹر کے نام جنید میں کتاب روانہ کرائی تھی بڑی کراہت کے ساتھ کتاب لینے سے انکار کر گیا اور کتاب واپس آئی آیندہ اگر آپ سے کوئی شخص خریداری کتاب کا شوق ظاہر کرے تو اوّل خوب آزما لینا چاہئے کہ آیا فی الواقع سچے دل سے خریدنے کے لئے مستعد ہے یا صرف لاف و گذاف کے طور پر بات کرتا ہے وجہ یہ ہے کہ آج کل لوگوں کے دلوں میں سخت کینہ پید اہو رہا ہے اور بجائے اخلاص کے بعض وعداوت میں ترقی کررہے ہیں آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے دیکھئے کب میسر آتی ہے امید کہ تادم ملاقات اپنی خیرو عافیت سے مطمئن و مسرور الوقت فرماتے رہیں زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
راقم خاکسار
غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپور ۲۶؍ نومبر ۹۱ء
۱۱/۳۹ مکرمی اخویم صاحبزادہ صاحب سلمہٰ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک بڑی بھاری بحث مولوی نذیر حسین صاحب سے پیش ہے اگر آپ اس بحث پر تین چار روز تک پہنچ سکیں تو عین خوشی سے و تمنا ہے مگر آنے میں توقف نہیں چاہئے آپ کے آنے سے بہت مدد ملے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ اکتوبر ۹۱ء از مقام دہلی بازار بلیماران کوٹھی نواب لوہارڈ۔
۱۲/۴۰ مخدومی مکرمی اخویم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ نزدیک دستارہدیہ آں مخدوم پہنچا حقیقت میں یہ عمامہ نہایت عمدہ و خوبصورت ہے جو آپ کی دلی محبت کا جوش اس سے مترشح ہے اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے آمین اور اب یہ عاجز شاید ہفتہ عشرہ تک اس جگہ ٹھہرے گا زیادہ نہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہاز ہوشیار پور۹؍ مارچ ۸۶ء
۱۳/۴۱ مخدومی مکرمی اخویم سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ (…) پہنچ گئے اپنی محبت برادرانہ سے اس عاجز کی تائید میں بہت کوشش کر رہے ہیںاور خلوص او رمحبت کے آثار بارش کی طرح آپ کے وجود سے ظہور میں جاتی ہیں اللہ جلشانہ آپ کو خوش رکھے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار غلام احمد ۴؍ جون
۱۴/۴۲ مخدومی مکرمی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مدت مدید ہوئی کہ حال آں محبت سے بالکل بے خبر ہوں بلکہ رسالہ سر بہ چشم جو آپ کی خدمت میں بھیجا گیا تھا اس کے رسید بھی نہیں آئی میں آج تک اسی جگہ چھائونی انبالہ میں ہوں اور میرا پتہ یہ ہے کہ مقام انبالہ چھائونی صدر بازار امید ہے کہ آپ اپنی خیریت سے مطلع فرما دیں گے اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز صدر بازار
۴؍ نومبر ۸۷ء
۱۵/۴۳ مخدومی مکرمی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کئی دن کے بعد آج عنایت نامہ آں مخدوم پہنچا خدا تعالیٰ آپ کو ہمیشہ اور ہر جگہ خوش وخرم رکھے فتح خاں سے اشتہار لے کر بلا توقف بھیجا جاتا لیکن فتح خاں مدت تیئس روز سے لاہور گیا ہوا ہے۔ ایک ادنی کام دو تین روز کا ہے نہایت اندیشہ کی بات ہے کہ اب تک واپس نہیں آیا لاہور امرتسر میں بیماری بکثرت پھیلی ہوئی ہے اور ہیضہ بکثرت ہے ایسا نہ ہو کہ بیمار ہو گیا ہو۔ جب فتح خاں بخیروعافیت واپس آتا ہے تو اشتہار لے کرارسال خدمت کروں گا جنید سے اب تک روپیہ تک نہیں آیا اورنہ فروسی سے آیا شاید کل پرسوں تک آجائے آں مخدوم نے جو سوجلد کتاب سراج منیر کی فروخت اپنے ذمہ ڈال لی خدا تعالیٰ آپ کو اس کا اجر بخشے اور آپ کو دنیا و آخرت میں مرادات دلی تک پہنچا دے اور ہمیشہ خیرو عافیت سے مطلع فرمایا کریں اور سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از قادیان ضلع گورداسپور
۱۶/۴۴ مخدومی مکرمی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا موجب خوشی ہوئی اللہ جلشانہ آپ کی دلی مراد پوری کرے آمین۔ کچھ تھوڑا عطر کیوڑہ یا جو اس سے بھی عمدہ معلوم ہو یہ آپ کی مرضی پر موقوف ہے بمقام لدھیانہ محلہ صوفیاں پاس میر عباس شاہ علی ارسال فرمادیں کہ یہ عاجز دس روز تک لودہانہ میں رہنا چاہتا ہے تکلیف دینے کو دل نہیں چاہتا مگر چونکہ آپ نے دوستانہ طور پر بلا تکلف لکھا ہے اس آپ کی اخوت اورمحبت سے تحریر کیا گیا اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے اورکل یہ عاجز لودہانہ کی طرف روانہ ہو جائے گاپتہ یہی لکھا جائے محلہ صوفیان پاس میر عباس علی شاہ صاحب زیادہ خیریت ہے اورجب تک آپ جی پور میں تشریف رکھیں ضرور کبھی کبھی اپنی خیریت سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍اکتوبر ۸۷ء
۱۷/۴۵از عاجز عابد باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم مخدومی و مکرم مجی صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
اس جگہ بفضلہ تعالیٰ ہرایک طرح سے خیریت ہے خداوند کریم آں محب مخلص کو خوش رکھے عنایت نامہ جس وقت آیا دوسرے روز یہاں سے جواب لکھ کر روانہ کیا گیا تھا مگر کل کے عنایت نامہ سے جو وارد ہو کر موجب خوشی ہوئی معلوم ہوا کہ وہ پہلا خط اس عاجز کا نہیں پہنچا یہ عاجز آپ کی توجہ کا بہت شکر گزار تھے اورآپ کے ملنے کو دل چاہتا ہے مگر موقوف بر وقت ہے آپ بلا تکلیف کاروبار متعلقہ اس طرف سے مسرور فرمایا کریں حصہ پنجم انشاء اللہ اب عنقریب چھپنے والا ہے ایک خبر تازہ خبر یہ ہے ااندر مین مراد آبادی نے جوایک بڑا مخالف اسلام ہے دعویٰ کیا تھا کہ اگر چوبیس سو روپیہ میرے لئے سرکار میں جمع کرادیا جائے تو میں ایک سال تک قادیان میں کوئی نشان دیکھنے کے لئے ٹھہرو ں گا اوراسی غرض سے اس نے اوّل نابہہ سے اورپھر لاہور میں آ کر خط لکھا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے شکت کھا کر بھاگ گیا یعنی چوبیس روپیہ ایک مسلمان نے اُس کے ایک سال کے لئے اس عاجز کو دے دئیے کہ تا حسب منشی اندرمین سرکار میں جمع کرائی جائیں آخر وہ اس بات کا نام سنتے ہی فراری ہوا۔
فالحمد للہ علی ذالک۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۹ ؍جون ۵۸ء
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
۱۸/۴۶ مشفقی مکرمی محبی صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
سرفراز نامہ سامی صادر ہوا عمامہ و عطر آپ کا پہنچا خدا وند کریم آپ کو اس خدمت یا اخلاص کا اجر نیک عطا فرمائے۔ اس ہندو کے بارے میں اطلاع دی جاتی ہے کہ جیسا کہ اس نے خواہش ظاہر کی ہے ویسا کرنے کے واسطے جدوجہد اور دعا و توجہ کی اشد ضرورت ہے اور یہ عاجزاس وقت بسبب بیمار رہنے کے ایک عرصے تک جدوجہد سے مجبور ہے۔ میرا کوئی ایسا اشتہار نہیں ہے جو موافق خیال ہندو مذکور کے ہو یعنی یہ کہ جو کچھ وہ خواہش کرے اس کی خواہش کے مطابق کوئی خرق عادت خدا وند کریم ظاہر فرما دے بلکہ اشتہاریہی ہے کہ جیسا خداوند کو منطور ہو کوئی خرق عادت ظہور میں آئے گا جو انسانی طاقتوں سے باہر ہو۔ طلب اسلام میں بدید خرق عادت کے اسی خرق عادت کا طالب ہونا جس کو مدعی خود درخواست کرے اور کسی دوسرے امر پر تابع نہ ہو جو خدا کریم کی مرضی سے ظاہر ہو ایک قسم کی ہٹ دھری ہے اگر اس کو اسلام کی خواہش ہے اور وہ میرے اشتہار کے مضمون پر بہ تحمل آنا چاہتا ہے تو اس کی تسلی کے واسطے میں تیار ہوں اور اگر وہ دنیا طلبی کے پیرا یہ میں دین کا طالب ہونا چاہتا ہے یہ امر اگرچہ محالات سے نہیں ہے مگر تاہم مشکلات سے معلوم ہوتا ہے امید ہے کہ آپ نے بھی اشتہار شرطیہ کو دیکھا ہو گا اور اس لئے بھی آپ اس کو اس کامطلب اچھی طرح پر سمجھا دیں پھر اگر اس کو خواہش سچی ہو تو وہ اپنی تسکین کر سکتا ہے علی من اتبع الھدی۔ زیادہ زیادہ
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۷؍ نومبر ۹۰ء
۱۹/۴۷ از عاجز باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم صاحبزادہ سراج الحق سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ واقعہ وفات آپ کی والدہ ماجدہ سے حزن واندوہ ہوا
انا للہ وانا الیہ راجعون خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے اس میں کیا شک ہے کہ آپ کے قائل ہیں اور حقیقت ولایت کو بدلی اعتقاد مانتے ہیں عجب خیال کے وہ لوگ ہیںکہ کاملین کو منکرین قرار دیں اور تکفرین مستعمل ہوں ایک مولوی صاحب نے میری تکفر کے لئے مکہ معظمہ تک تکلیف کشی کی کسی کے کافر کہنے سے کب کوئی کافر بن سکتا ہے کافر وہ ہے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک کا فر ٹھہرتا ہے جو شخص مسلمان کو کافر کہے درحقیقت وہی خدا تعالیٰ کے نزدیک ٹھہرتا ہے ایسے لوگوں کی باتوں سے مضطرب نہیں ہونا چاہئے میرے نزدیک مومن کی یہی نشانی ہے کہ نادان لوگ اس کو کافر کہیں فرعون نے حضرت موسی سے کہا تھا وفعلت فعلتک التی فعلت وانت من الکا فرین۔ صرف اس مضمون کے چند کلمے شامل کر دئیے جائیں کہ بھائیو ہم مسلمان اور اولیا کے وجود کے قائل اور درحقیقت دلایت کے معترف ہیں جو شخص ہم پر یہ الزام لگاتا ہے وہ جھوٹا ہے۔
علی من التبع الھدی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۰ء
۲۰/۴۸ مخلصی محبی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا موجب خوشی اور شکر گزاری ہوئی آپ کی استقامت اور حسن ظن اور فراست کی بہ برکت ہے کہ آپ کو ایسے پر آشوب وقت میں کوئی تزلزل پیش نہیں آیا خدا تعالیٰ آپ کو دن بدن مراتب محبت اور اخلاص میں ترقی بخشے اور آپ کے ساتھ میں آپ کی ملاقات کا بہت مشتاق ہوں اگر رمضان کے بعد ماہ شوال میں آپ کی زیارت ہو تو مجھے بہت خوشی ہو گی میں انشاء اللہ القدیر دو تین ماہ تک ابھی اس جگہ لدھیانہ میں ہوں رسالہ ازالہ اوہام طبع ہو رہا ہے درمیان میں طرح طرح کے حرجونکے باعث ہے اب تک توقف ہوا امید کی جاتی ہے کہ انشاء اللہ القدیر بہت جلد نکل آئے زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہاز لدھیانہ اقبال گنج
۸؍ مئی ۹۱ء بروز جمعہ
۲۱/۴۹ از عاجز عابذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مکرم صاحبزادہ سراج الحق صاحب۔
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
عنایت نامہ پہنچا جو کچھ آپ نے بطور تحفہ عمامہ وعطر ارسال فرمایا ہے اس ہدیہ دوستانہ کا آپ سے شکر گزار ہوں جزاکم اللہ خیرالجزا واحسن الیکم فی الدنیا والعقبیٰ۔ خداتعالیٰ آپ کو بہت خوش رکھے اورمکروہات دنیا سے بچاوے آمین ثم آمین جس ہندو کے بارے میں آپ نے لکھا ہے جنش رحمت اس کے اعتقاء اوراخلاص پر موقوف ہے اللہ جلا شانہ غنی بے نیاز ہے بحبز قد م خلوص و نیاز مندی اورکوئی حیلہ اس درگاہ میں پیش نہیں جاتا شرط کے طور پر اس کی راہ میں کچھ دنیا ایک رشوت کا طریق ہے خداتعالیٰ نے رشوت ستاں نہیں ہے ہاں اس کی جناب میں کچھ درخواست کرنے کے لئے کسی متمول حاجت مند کے لئے یہ طریق ہے کہ اپنے خلوص اورنیاز مندی کے اثبات کے لئے اُس کی راہ میں اوراُس کے کام کی امداد میں کوئی نذرحسب حیثیت پیش کرے اوراگرچہ ظاہر کرے توجو کچھ اُس کے حق میں خیر یا شر مقدر ہے یا جو کچھ اُ س کے امر کا انجام کار ہے اُمید قوی ہے کہ …ظاہر ہو جاوے لیکن یہ جد وجہد کا کام ہے شاید ہفتہ عشرہ اس طرف مشغول اور توجہ کرنی پڑے سو توجہ بھی سخت محنت پر موقوف ہے ہرایک کے لئے نہیں ہوسکتی اورناحق کی تضیع اوقات معصیت میں داخل ہے ہاں ایسے شخص سے اگر کوئی دینی امداد پہنچ جائے اور وہ کوئی ہدیہ امدادی فی سبیل اللہ داخل کر سکے تو محنت ہو سکتی ہے ورنہ نہیں سو اُس ہندو کو آپ سمجھا دیں کہ اگر وہ اپنے نفس میں طاقت پاتا ہے اورحسب حیثیت امداد دین میں خدمت بجا لا سکتا ہے تو اُس کے لئے توجہ کر سکتے ہیں اُس توجہ میں اگرچہ غالب امید استجابت دعا ہے لیکن اگر ناکامی کے لئے تقدیر مبرم ہے تو پھر مجبوری ہو گی زیادہ خیریت
والسلام
راقم خاکسار
غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپور۲۵؍اکتوبر ۱۸۹۰ء
۲۲/۵۰ محبی مکرمی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مدت دراز کے بعد عنایت پہنچا اب یہ عاجز قادیان میں ہے اور انشاء اللہ القدیر ابھی رہائش قادیان میں ہی ہے یہ عاجز آپ کے اخلاص اور محبت کا نہایت شکر گزار ہے اور خدا تعالیٰ سے بھی امید رکھتا ہے کہ آپ سے ہر ایک ابتلاء میں اوّل درجہ استقلال اور ثابت قدمی ظہور میں آتی رہے گی۔ آپ کے نواح کے طرف اگر کسی نے یہ خبر مشہور کی ہے کہ گویا اس عاجز نے دعوی مسیح موعود سے توبہ کی ہے کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ آج ہمارے مخالفوں کا دن رات افترائوں پر گزارہ ہے۔ یہ مخالف لوگ اگر انصاف پر ہوں تو خود ان کو حضرت مسیح کے دعوی حیات سے جو قرآن کریم اور احادیث صحیح سے ہر خلاف ہے تو بہ کرنا چاہئے نہ کہ ایسے ایسے افترا کریں جس قدر آپ مخص اللہ کوشش اور مباحثہ کر رہے ہیں خدا تعالیٰ اس کاآپ کو اجر بخشے۔ آپ کی ملاقات کو بہت عرصہ گزر گیا ہے کبھی ملاقات بھی چاہئے اس وقت میں نے ایک رسالہ طبع کرانا چاہا ہے جس کانام نشان آسمانی ہے وہ رسالہ طبع ہو رہاہے شاید دو ہفتہ تک طبع ہو میرے پاس آجائے دو ہفتہ کے بعد آپ مجھ کو ضرور یاد دلائیں تا وہ رسالہ آپ کی خدمت میں بھی بھیج دوں زیادہ خیریت ہے
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۱؍ جون ۹۴ء
۲۳/۵۱ اخوی مکرم معظم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عرض خدمت ہے کہ آپ کا عنایت نامہ معہ خط مولوی رشید احمد صاحب پہنچا حال مندرجہ معلوم ہوا لوگوں کے ولولہ اور شوروغل سے ڈرنا نہ چاہئے دین وانوار کی اشاعت میں کسی قسم کا رنج اور مصیبت پیش آجائے توعین راحت ہے مولوی رشید احمد کے خط کاجواب روانہ کردیا نقل واسطے ملاخط بلف ہذا روانہ خدمت ہے یہاں مرض ہیضہ چند روز سے کچھ زیادتی پر ہے اس عاجز کی بڑی عصمت نام اسی مرضی سے برسوں فوت ہو گئی انا اللہ وانا الیہ راجعون۔
راقم غلام احمد
بقلم عباس علی
۱۹؍ ستمبر ۹۱ء
(نوٹ) اس مکتوب میں مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کے نام خط کاذکر ہے اور اس کے بعد نمبر ۲۴ میں وہ خط بھی سلسلہ میں درج کر دیا ہے۔ واقعات کے متعلق مزید واقفیت کی غرض سے میں یہاں صاحبزادہ سراج الحق صاحب رضی اللہ عنہ کا بیان بھی درج کردینا ضروری سمجھتا ہوں اس سے مولوی رشید احمد صاحب کی مباحثہ پر آمادگی اور پھر فرار کے اسباب اور محرکات کا پتہ لگ جائے گا۔
۲۴/۵۲ مخدوم مکرم معظم مولوی رشید احمد صاحب سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم وحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا عرض خدمت ہے کہ صاحبزادہ سراج الحق نے آپ کا خط امجنبسہ میرے پاس بھیج دیا حرف بحرف ملا خط کیا گیا۔ آپ جو اس عاجز کو واسطے بحث کے سہار نپور بلاتے ہیں مجھ کو کچھ عذر نہیں مگر اتنی بات خدمت میں عرض کرنی ہے کہ امن قائم کرنے کے واسطے آپ نے کیا بندوبست کیا ہے ڈپٹی کمشنر صاحب کی تحریری اجازت ہونی ضروریات سے ہے اور مجالس بحث میں سپرنڈنٹٹ یا اور کسی حاکم با اختیار کا ہونا بھی امر ضروری ہے بنا برین اس قسم کی تسلی بخش تحریر ہمارے پاس بھیج دیں تو بندہ واسطے بحث کے حاضر خدمت ہو جائے گا۔ اگرلاہور آپ تشریف لے چلیں تو تسلی بخش تحریر امن قائم کرنے کی آپ کے پاس ہم بھیج دیں پس اس تحریر کے جواب میں جیسا آپ مناسب سمجھیں اطلاع دیں۔
راقم غلام احمد
بقلم عباس علی
۲۵/۵۳ مخدومی مکرمی اخویم سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلے آج ہی ایک خط روانہ خدمت ہو چکا ہے اب دوبارہ اس لئے تحریر خدمت کرتا ہوں کہ جو نسخہ جات براہین احمدیہ صرف بیس عدد میرے پا س موجود ہیں اس لئے قرین مصلحت یہ ہے کہ اگر کم سے کم (…) فی نسخہ پر خریداران حید ر آبادی صاحب کو منطور ہو تو جس قدر خریداری کا پختہ اور قطعی طور پر ارادہ ہو اس سے وعدہ جلد دیں بطور دلیو پے امیل بھیجے جائیں یہ مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ اُس جگہ جمع رہیں کیونکہ مجاظ ضخامت کتاب (…) ایک ادنی قیمت ہے اور ممکن ہے کہ ان جلدوں کے روانہ کرنے کے بعد اس طرف بعض عمدہ خریدار پید اہوجا ئیں جو سو روپیہ فی نسخہ پر کتاب لینے کو تیار ہوں تب اگر اس جگہ کوئی کتاب ہی نہ ہو توکیا کیا جائے اور یہ نہایت صاف انتظام ہے کہ حیدر آباد میں جیسے جیسے کوئی خریدار کم سے کم (…) پر پیدا ہو اس کی وہا ں سے اطلاع آجائے اور فی الفور بذریعہ دلیوپے امیل وہاں کتاب بھیجی جائے تا کوئی حرج عائد نہ ہو کیونکہ حساب کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الحقیقت دراصل سو روپیہ قیمت کی کتاب ہو گی اور جو کچھ کم قیمت پر کتابیں فروخت ہوتی ہیں ان کا حرج اٹھاتا رہوں گا۔ اوّل میرا خیال تھا کہ شاید صندوق میں کتابیں بہت ہوں گی اور روپیہ کی ضرورت تھی تو اس دھوکہ سے لکھا گیا تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ کتابیں تو ختم ہو چکیں آپ مفضل حال دریافت کر کے اطلاع دیں اور اس وقت تک کتابیں روانہ نہیں ہو سکتیں کہ اس حرج متصور ہے جب تک پختہ بات نہ ہو تب تک نا حق کے جھگڑے کا اندیشہ ہے پہلے کئی جگہ ایسا معاملہ پیش آ چکا ہے اور چار جلدیں ایک نسخہ کی ارسال خدمت میں ان کی رسید سے مطلع فرما دیں
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از مقام صدر انبالہ حاطہ ناکر ہپنی منضل محلہ کوہستان بنگلہ شیخ محمد لطیف۔۵؍ دسمبر۸۶ء
۲۶/۵۴ از عاجز عابذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ آں مخدوم پہنچا موجب خوشی ہوا خدا وند کریم آں مکرم کو خوش وخرم رکھے یہ عاجز کچھ عرصے تک بیمار رہا اب بھی اس قدر ضعف ہے کہ کوئی محنت کا کام نہیں ہو سکتا اسی وجہ سے ابھی کام کا حصہ پنجم شروع نہیں بعد درستی و صحت طبیعت انشاء اللہ شروع کیا جائے گا آپ نے جو سورۃ فاتحہ کے پڑھنے کی اجازت چاہی ہے یہ کام صرف اجازت سے نہیں ہو سکتا بلکہ امر ضروری یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ کے مضمون سے مناسبت حاصل ہو جائے۔ انسان کو ان باتوں پر ایمان اور ثبات قدم حاصل ہو جائے جو سورۃ فاتحہ کا مضمون ہے تو برکات سورۃ فاتحہ سے مستقبل ہو گا آپ کی فطرت بہت عمدہ ہے اور میں بھی امید رکھتا ہوں کہ خدا وند کریم جلشانہ آپ کی جدوجہد پر ثمرات حسنہ مرتب کر دے گا۔ وقال اللہ تعالیٰ والذین جاھد وافینالنھد منہم میلنا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۷؍ مارچ ۱۸۸۵ء
مولوی رشید احمد گنگوہی سے مباحثہ کی تحریک اور اس کا انکار
میں نے ایک بار حضرت اقدس علیہ السلام سے غرض کیا کہ یہ مولوی رہ گئے اور سب کی نظر مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی طرف لگ رہی ہے۔ اگر حکم ہو تو مولوی رشید احمد صاحب کو لکھوں کہ وہ مباحثہ کے لئے آمادہ ہوں۔ فرمایا اگر تمہارے لکھنے سے مولوی صاحب مباحثہ کے لئے ضرور آمادہ وہوں تو ضرور لکھ دو اور یہ لکھ دو کہ مرزا غلام احمد قادیانی آج کل لودھیانہ میں ہیں۔ انہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا ہے اور کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ہو گئی وہ اب نہیں آئیں گے اور جس عیسی کے اس اُمت میں آنے کی خبر تھی۔ وہ میں ہوں۔
اور مولوی تو مباحثہ نہیں کرتے ہیں۔ چونکہ آپ بہت سے مولویوں اور گروہ اہل سنت والجماعہ کے پیشوا ور مقتدا مانے گئے ہیں اور کثیر جماعت کے آپ پر نظرہے آپ مرزا صاحب سے اس بارہ میں مباحثہ کر لیں چونکہ آپ کو محدث اور صوفی ہونے کا بھی دعوی ہے اور ماسوا اس کے آپ مدعی الہام بھی ہیں۔ مدعی الہام اس واسطہ کر کے کہ مولوی شاہدین اور مولوی مشتاق احمد اور مولوی عبدالقادر صاحب نے گنگوہ مولوی رشید احمد صاحب متوقی کے پاس جا کر حضرت اقدس علیہ السلام کے الہامات جو براہین احمدیہ میں درج ہیں سناتے تھے مولوی رشید احمد صاحب نے چند الہام سن کر جواب دیا تھا کہ الہام کاہونا کیا بڑی بات ہے۔ ایسے ایسے الہام تو ہمارے مریدوں کو بھی ہوتے ہیں۔ اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آپ کے مریدوں کو اگر ایسے الہام ہوتے ہیں تو وہ الہام ہمارے سامنے پیش کرنے چاہیئں تاکہ ان الہاموں کا یا آپ کے الہاموں کا کیونکہ مریدوں کو جب الہام ہوں تو مرشد کو تو ان اعلی الہام ہوتے ہوں گے موازنہ اور مقابلہ کریں اور لو تقول علینا بعض الا قاویل کی وعید سے ڈریں مولوی صاحب نے کہنے کو کہہ دیامگر کوئی الہام اپنا یا کسی اپنے مرید کا پیش نہیں کیا کہ یہ الہام ہمارے ہیں اور یہ ہمارے مریدوں کے ہیں۔ غرض کہ اب آپ کا حق ہے کہ اس بحث میں پڑیں اور مباحثہ کریں اور کسی طرح سے پہلو ہی نہ کریں کس لئے کہ ادھر تو حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کا زور شور سے بیان کرنا وفات کا دلیلوں یعنی لشوص صریحہ قرآنیہ اور حدیثیہ نے ثابت کرنا اور علماء اور آئمہ سلف کی شہادت پیش کرنا اور پھر مدعی مسیحیت کا کھڑا ہونا اور لوگوں کا رجوع کرنا اور آپ جیسے اور آپ سے بڑھ کر علماء ؎ کے مرید ہونے سے دنیا میں ہل چل مچ جاتی ہے اور بحث اصل مسئلہ میں ہونی چاہئے یعنی عیسی علیہ السلام کی حیات و وفات میں۔ بس میں نے یہ خط لکھااور حضرت اقدس علیہ السلام کو ملاخط کراکے روانہ کر دیا ؎۔
اور آپ نے اس دستخط کر دئیے او رراقم سراج الحق نعمانی و جمالی سرساوی لکھا گیا مجھے مولوی رشید احمد صاحب کو لکھنا اس واسطے ضروری ہوا تھا کہ میں او رمولوی صاحب ہمزلف ہیں او رباوجود اس رشتہ ہمز لف ہونے کے تعارف اور ملاقات بھی تھی اور قصبہ سرسادہ او ر قصبہ گنگوہ ضلع سہارنپور میں ہیں اور ان دونوں قصبوں میں پندرہ کوس کا فاصلہ ہے اور ویسے برادرانہ تعلق بھی ہیں اور سری خوشد امن اور سسرال کے لوگ ان سے بعض مرید بھی ہیں۔ بس یہ میرا خط مولوی صاحب کے پا س گنگوہ جانا تھا اور مولوی صاحب او ران کے معتقدین اور شاگردوں میں ایک شور برپا ہونا تھا اور لوگوں کو ٹال دینا تو آسان تھا۔ لیکن اس خاکسار کوکیسے ٹالتے اور کیا بات بتائے پھر اس کے کہ مباحثہ کو قبول کرتے۔
مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میں لکھا کہ مخدوم مکرم پیر سراج الحق صاحب پہلے میں اس بات کا افسوس کرتا ہوں کہ تم مرزا کے پا س کہاں پھنس گئے۔ تمہارے خاندان گھرانے میں کس چیز کی کمی تھی اور میں بحث کو مرزا سے منظور کرتا ہوں۔ لیکن تقریری اور صرف زبانی تحریری مجھ کو ہر گز منطور نہیں ہے اور عام جلسہ میں بحث ہو گی او روفات و حیات مسیح میں کہ یہ فرع ہے بحث نہیں ہو گی۔ بلکہ بحث نزول مسیح میں ہو گی جو اصل ہے کتبہ رشید احمد گنگوہی۔
یہ خط مولوی صاحب کا حضرت اقدس علیہ السلام کو دکھلایا۔ فرمایا خیر شکر ہے کہ اتنا تو تمہارے لکھنے سے اقرار کیا کہ مباحثہ کے لئے تیار ہوں گو تقریری سہی ورنہ اتنا بھی نہیں کرتے تھے۔ اب اس کے جواب میں یہ لکھ دوکہ مباحثہ میں غلط مجث کرنا درست نہیں بحث تحریری ہونی چاہئے تاکہ غائبین کو بھی سوائے حاضرین کے پورا پورا حال معلوم ہو جائے اور تحریر میں غلط بحث نہیں ہوتا او ر زبانی تقریر میں ہو جاتا ہے تقریر کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اور اس کا اثر کسی پر پڑتا ہے اور نہ پورے طور سے یا درہ سکتی ہے اور تقریر میں ایسا ہونا ممکن ہے کہ ایک بات کہہ کر اور زبان سے نکال کر پھر جانے اور مکر جانے کا موقع مل سکتا ہے اور بعد بحث کے کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا اور ہر ایک کے معتقید کچھ کا کچھ بنا لیتے ہیں کہ جس سے حق و باطل میں التباس ہو جاتا ہے اور تحریر میں فائدہ ہے کہ اس میں کسی کو کمی بیشی کرنے یا غلط بات مشہور کرنے کی گنجائش نہیں رہتی ہے اور اب جو فرماتے ہیں کہ مباحثہ اصل میں جو نزول مسیح ہے ہونا چاہئے سوا س میں التماس ہے کہ مسیح اصل کیوں کر ہے اور وفات وحیات مسیح فرع کس طرح سے ہوئی اصل مسئلہ تو وفات حیات مسیح ہے۔ اگر حیات مسیح کی ثابت ہو گئی تو نزول بھی ثابت ہو گیا اور جو وفات ثابت ہو گئی تو نزول خود بخود باطل ہو گیا۔ جب ایک عہدہ خالی ہو تو دوسرا اس عہدہ پر نامور ہو۔ ہمارے دعوے کی بناء ہی وفات مسیح پر ہے اگر مسیح کی زندگی ثابت ہو جائے تو ہمارے دعوے میں کلام کرنا فضول ہے مہربانی فرماکر آپ سوچیں اور مباحثہ کے لئے تیار ہوجائیں کہ بہت لوگوں اور نیز مولویوں کی آپ کی طرف سے نظر لگ رہی ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے اس پر دستخط کر دئیے اور میں نے اپنے نام سے یہ خط مولوی صاحب کے نام گنگوہ بھیج دیا۔
مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میں یہ لکھا کہ افسوس ہے مرزا صاحب کو اصل کو فرع اورفرع کوا صل قرار دیتے ہیں مباحثہ بجائے تقریری کے تحریری مباحثہ میںنہیں کرتا اور ہمیں کیا غرض ہے اور ہمیں کیاغرض ہے کہ ہم اس مباحثہ میں پڑیں۔ یہ خط بھی میں نے حضرت اقدس علیہٰ الصلوۃ والسلام کو سنا دیا۔ آپ نے یہ فرمایا کہ ہمیں افسوس کرنا چاہیے نہ مولوی صاحب کیونکہ ہم نے تو ان کے گھر یعنی عقائد میں ہاتھ مارا ہے اور ان کی جائیداد پالی ہے اور حضرت عیسیٰ علیہٰ السلام کو جن پر ان کی بڑی بڑی امیدیں وابستہ تھیں اوران کے آسماں سے اترنے کی آرزو رکھتے تھے مار ڈالا ہے جس کو آسمان میں بٹھائے ہوئے تھے اس کو ہم نے زمین میں دفن کردیا ہے اوران کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے اورمقبول ان مولویوں کے اسلام میں رخنہ ڈال دیا ہے اورلوگوں کو گھیر گھار کر اپنی طرف کر لیا ہے جس کا نقصان ہوتا ہے وہی روتا ہے اور چلاتا ہے یہ مولوی حامیان دین اورمحافظ اسلام کہلا کر اتنا نہیں سمجھتے کہ اگر کوئی ان کی جائیداد دبالے اورمکان اور اسباب پر قبضہ کر لے تو یہ لوگ عدالت میں جا کھڑے ہوں اورلڑنے مرنے سے بھی نہ ہٹیں اور نہ ٹلیں اور جب تک کہ عدالت فیصلہ نہ کرے اورآپ یہ بہانے بتاتے ہیں۔ کہ ہمیں کیا غرض ہے۔ گویا یوں سمجھو کہ ان کو دین اسلام اور ایمان سے کچھ غرض نہیں رہی اوراب یہ حیلہ و بہانہ کرتے ہیں کہ ہمیں کیا غرض ہے۔ اگران کے پا س کوئی دلیل نہیں اوران کے ہاتھ پلے کچھ نہیں ہے اوردر حقیقت کچھ نہیں ہے۔ ان کے باطل اعتقاد کا خرمن جل کر راکھ ہو گیا یہ اگر اس بحث میں پڑیں توا ن کی مولویت کو بٹہ لگتا ہے اوران کے علم و فضل کو سیاہ دھبہ لگتا ہے۔ ان کی پیروی پر آفت آتی ہے۔ ان کو لکھو کہ مولوی صاحب آپ تو علم لدنی اورباطنی کے بھی مدعی ہیں اگر ظاہری علم آپ کو مدد نہ دے باطنی اورلدنی علم سے ہی کام لیں یہ کس دن کے واسطے رکھا ہوا ہے۔
پس میں نے یہ تقریر حضرت اقدس علیہٰ السلام کی اور کچھ اور تیز الفاظ نمک مرچ لگا کے قلم بند کر کے مولوی صاحب کے پاس بھیج دی۔
اس کے جواب میں مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے یہ لکھا میںتقریری بحث کرنے کو تیار ہوں اور مرزا صاحب تحریری بحث کرنا چاہیں تو ان کا اختیار ہے میں تحریری بحث نہیں کرتا۔ لاہور سے بھی بہت سے لوگوں کی طرف سے ایک خط مباحثہ کے لئے آیا ہے۔ مرزا چاہے تقریری بحث کرے۔ جب کسی مولوی صاحب کو مقرر کی جگہ نہ رہی اور سراج الحق سے مخلصی نہ ہوئی اور لاہور کی ایک بڑی جماعت کا خط پہنچا اور ادھر حضرت اقدس کی خدمت میں بھی اس لاہور کی جماعت کی طرف سے مولوی رشید احمد کے مباحثہ کے لئے درخواست آ گئی اور اس جماعت نے یہ بھی لکھا کہ مکان مباحثہ کے لئے اور خورد و نوش کا سامان ہمارے ذمہ ہے اور میں نے بھی مولوی صاحب کو یہ لکھا کہ اگر آپ مباحثہ نہ کریں گے اور ٹال مٹال جائیں گے اور کچے پکے کاغذوں سے جان چھڑا دیں گے تو تمام اخبارات میں آپ کے اور ہمارے خط چھپ کر شائع ہو جائیں گے پڑھنے والے آپ نتیجہ نکال کر کے مطلب و مقصد اصلی حاصل کر لیں گے۔
پھر دوسرے موقعہ پر حضرت اقدس نے فرمایا مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو ضرور لکھو اور حجت پوری کرو او ریہ لکھو کہ اچھا ہم بطریق متنزل تقریری مباحثہ ہی منظور کرتے ہیں۔ مگر اس شرط سے کہ آپ تقریر کرتے جائیں اور دوسرا شخص آپ کی تقریر کو لکھتا جاوے اور جب ہم تقریر کریں تو ہماری جوابی تقریر کوبھی دوسرا شخص لکھتا جاوے اور جب تک ایک کی تقریر ختم نہ ہو تو دوسرا فریق بالمقابل یا اور کوئی دوران تقریر میں بولے پھر وہ دونوں تقریریں چھپ کر شائع ہو جائیں۔ لیکن بحث مقام لاہور ہونی چاہئے۔ کیونکر لاہور دارالعلوم ہے اور ہر علم کا آدمی وہاں پر موجود ہے۔
میں نے یہی تقریر حضرت اقدس امام ہمام علیہ السلام کی مولوی صاحب کے پاس بھیج دی۔ مولوی صاحب نے لکھا کہ تقریر صرف زبانی ہو گی لکھنے یا کوئی جملہ نوٹ کرنے کی اجازت ہو گی اورجو جس کے جی میں آئے گا حاضرین میں سے رفع اعتراض و شک کے لئے بولے گا۔ میں لاہور نہیں جاتا مرزا ہی سہارنپور آجائے اور میں بھی سہارنپور آجاؤں گا حضرت اقدس علیہٰ السلام نے فرمایا کہ کیا بودا پن ہے اور کیسی پست ہمتی ہے کہ اپنی تحریر نہ دی جائے تحریر میں بڑے بڑے فائدے ہیں کہ حاضرین و غائبین اور نزد یک دور کے آدمی بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں اورفیصلہ کرسکتے ہیں زبانی تقریر محدود ہوتی ہے جو حاضرین اورسامعین تک رہ جاتی ہے حاضرین و سامعین بھی تقریر سے پورا فائدہ اور کامل فیصلہ نہیں کرسکتے مولوی صاحب کیوں تحریر دینے سے ڈرتے ہیں۔ ہم بھی تو اپنی تحریر دیتے ہیں گویا ان کا یہ منشی ہے کہ بات بیچ بیچ میں محبث ہو کر رہ جائے اگر گڑبڑ پڑ جائے اور سہارنپور میں مباحثہ ہونا مناسب نہیں ہے۔ سہارنپور والوں میں فیصلہ کرنے یا حق و باطل کی سمجھ نہیں ہے۔ لاہور آج دارالعلوم اور مخزن علم ہے اور ہر ایک ملک اور شہر کے لوگ اور مذہب و ملت کے اشخاص وہاں موجود ہیں۔ آپ لاہور چلیں اورمیں بھی لاہور چلتا ہوں اورآپ کا خرچ آمدورفت اورقیام لاہور بحث تک اورمکان کا کرایہ اور خرچ میرے ذمہ ہو گا۔ سہارنپور پہلے اہل علم کی بستی نہیں۔ سہارنپور سوائے شور شر اور فساد کے کچھ نہیں ہے۔ یہ مضمون میںنے لکھ کر اور حضرت اقدس علیہٰ السلام کے دستخط کرا کر گنگوہ بھیج دیا۔ مولوی رشید احمد صاحب نے اس کے جواب میں پھر یہی لکھا کہ میں لاہورنہیں جاتا صرف سہارنپور تک آسکتا ہوں اوربحث تحریری مجھے منظور نہیں نہ میں خود لکھوں اور نہ کسی دوسرے شخص کو لکھنے کی اجازت بھی دے سکتا ہوں۔ حضرت اقدس نے اس خط کو پڑھ کر فرمایا کہ ان لوگوں میں کیوں قوت فیصلہ اور حق وباطل کی تمیز نہیں رہی اور ان کی سمجھ بوجھ جاتی رہی یہ حدیث پڑھاتے ہیں اور محدث کہلاتے ہیں۔ مگر فہم وفراست ہے ان کو کچھ حصہ نہیں ملا صاحبزادہ صاحب ان کو یہ لکھ دیں کہ ہم مباحثہ کے لئے سہارنپور ہی آجائیں گے آپ سرکاری انتظام کر لیں جس میں کوئی یورپین افسر ہو اور ہندوستانیوں پر پورا طمنان نہیں ہے بعد انتظام سرکاری ہمیں لکھ بھیجیں اورکاغذ سرکاری بھیج دیں میں تاریخ مقرر پر آجاؤں گا اورایک اشتہار اس مباحثہ کی اطلاع کے لئے شائع کر دیا جائے گا تاکہ لاہور وغیرہ مقامات سے صاحب علم اور دلچسپی رکھنے والے سہارنپور آجائیں گے۔
ورنہ ہم لاہور میں سرکاری انتظام کر سکتے ہیں اورپورے طور سے کر سکتے ہیں۔ تقریری اور تحریری مباحثہ اس وقت رکھیں تو بہتر ہے جیسی حاضرین جلسہ کی رائے ہو گی۔ کثرت رائے پر ہم تم کاربند ہوں خواہ تحریری خواہ تقریری جو مناسب سمجھا جائے گا وہ ہوجائے گا۔ آپ مباحثہ ضرور کریں کے لوگوں کی نظریں آپ کی طرف لگ رہی ہیں۔
یہ تقریر میں نے مولوی صاحب کو لکھ بھیجی۔ مولوی صاحب نے کچھ جواب نہ دیا صرف اس قدر لکھا کے انتظام کا میں ذمہ دار نہیں ہو سکتا ہوں۔ پھر میں نے دوتین خط بھیجے جواب ندارد۔





حضرت میر حکیم حسام الدین صاحب رضی اللہ عنہ سیالکوٹی کے نام



(تعارفی نوٹ)
حضرت میر حکیم حسام الدین صاحب رضی اللہ عنہ سیالکوٹ کے …اور حضرت میر حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے والد بزرگ وار تھے۔ حضرت حکیم صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شرف تلمذ بھی حاصل تھا۔ آپ نے طب کی بعض ابتدائی کتابیں حضور سے پڑھیں تھیں حکیم صاحب مرحوم نے حضرت اقدس کو عین عنفوان شباب میں دیکھا تھااور حضور کی متقانہ زندگی کا اُن پر خاص اثر تھا۔ حضرت کی نیم شبی دعاؤں اور قرآن مجید کے ساتھ عشق ومحبت کے نظارے ان کے دل کو تسخیر کر چکے تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب حضرت اقدس نے خدا کی طرف سے مامور اور مرسل ہونے کا دعوی کیا تو حضرت حکیم صاحب کو ایک لحظ کے لئے بھی شک و شبہہ نہیں ہوا۔ حضرت اقدس بھی حکیم صاحب سے بہت محبت رکھتے تھے حکیم صاحب مرحوم تیز طبیعت واقع ہوئے تھے لیکن حضرت اقدس کے سامنے وہ بہت موذب اور محتاط ہوتے تھے۔ حضور کو حکیم صاحب کی دلجوئی اور خاطر واری ہمیشہ ملحوظ رہتی تھی۔ منارۃ المسیح کی تعمیر کاکام جب شروع ہوا تو حکیم صاحب مرحوم ہی کو اس کااہتمام دیا گیا اور انہوں نے اپنے صاحبزادے میر عبدالرشید صاحب کو اس کام پر مامور کیا۔ غرض حضرت اقدس کے ساتھ حکیم صاحب کا اخلاص و محبت قابل رشک تھی اور حضور بھی ان کا احترام کرتے تھے۔
حضرت حکیم صاحب کے ساتھ حضرت میر خصلیت علی شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کو تعلقات دامادی کی عزت حاصل تھی اور خود سید خصلیت علی شاہ صاحب بھی اپنے ایمانی جوش اور اخلاص و وفا کے اعلی مقام پر تھے۔ سیرۃ صحابہ کے سلسلہ میں ان بزرگوں کا انشاء اللہ تفصیلی ذکر آئے گا۔
حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحب کے انتقال پر حضر ت اقدس نے حکیم صاحب مرحوم کو تعزیت کا ایک خط لکھا تھا اور یہی وہ مکتوب ہے جسے میں آج درج کر رہا ہوں اس کے پڑھنے سے معلوم ہو گا کہ سید صاحب مرحوم کے اخلاص و محبت کی حضرت اقدس کے دل میں کیا قدر تھی اور انہوں نے سلسلہ میں داخل ہو کر کیسی پاک تبدیلی کی تھی۔ اللہ تعالیٰ اُن کے مدارج کو بلند کرے اور ہمیں توفیق دے کہ وہی حقیقت اور روح اپنے اعمال میں پیدا کریں۔
(عرفانی کبیر)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہٰ کریم
۱/۵۵ محبی مکرمی اخویم حکیم سید حسام الدین صاحب سلمہٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ا س وقت ایک دفعہ درد ناک مصیبت واقعہ وفات اخویم سید خصیلت علی شاہ صاحب مرحوم کی خبر سن کر وہ صدمہ دل پر ہے جو تحریراور تقریر سے باہر ہے طبیعت اس غم سے بے قرار ہوئی جاتی ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
سید خصیلت علی شاہ صاحب کو جس قدر خدا تعالیٰ نے اخلاص بخشا تھا اور جس قدر انہوں نے ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کی تھی اور جیسے انہوں نے اپنی سعادت مندی اور نیک چلنی اور صدق ومحبت کا عمدہ نمونہ دکھایا تھا۔ یہ باتیں عمر بھر کبھی بھولنے کی نہیں۔ ہمیں کیا خبر تھی لب دوسرے سال پر ملاقات نہیں ہو گی۔ دنیا کی اسی نام پائیداری کو دیکھ کر کئی بادشاہ بھی اپنے تحتوں سے الگ ہو گئے آپ کے دل پر بھی جس قدر ہجوم غم کا ہو گا اس کا کون اندازہ کر سکتا ہے اس ناگہانی واقعہ کا غم درحقیقت ایک جابکاہ امر ہے۔ لیکن چونکہ یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے اس لئے ایسی بھاری مصیبت پر جس قدر صبر کیا جائے اسی قدر امید ثواب ہے لہذا امید رکھتا ہوں کہ آپ مرضی مولا پر راضی ہو کر صبر فرما دیں گے اور مردانہ ہمت او راستقامت سے متصلقین کو تسلی دے گے۔ میں نے ایک جگہ دیکھا ہے کہ بعض خدا کے بندے جب دنیا سے انقطاع کر کے خدا تعالیٰ سے ملیں گے تو ان کے نامہ اعمال میں مصیبتوں کے وقت صبر کرنا بھی ایک بڑا عمل پایا جائے گا۔ تو اسی عمل کے لئے بخشے جائیں گے۔
بخدمت محبی اخویم سید حامد شاہ صاحب السلام علیکم و مضمون واحد
خاکسار
غلام احمد از قادیان
خط کے پہنچتے ہی دعائے مغفرت بہت کی گئی اور کرتا ہوں مگر تجویز ٹھہری ہے کہ جنازہ جمعہ کے روز پڑھا جاوے۔
نوٹ۔ چنانچہ مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کے کارڈ سے معلوم ہوا کہ قبل از جمعہ حضور مقدس نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہت دیر تک چپ چاپ کھڑے دعائیں مانگتے رہے۔










حضرت سیّد محمد عسکری رضی اللہ عنہ کے نام





تعارفی نوٹ
حضرت سیّد محمد عسکری رضی اللہ عنہ سلسلہ کے سابقین الاولین کی جماعت میں سے ایک نہایت مخلص اور وفادار بزرگ تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آپ کے اخلاص ووفا کی وجہ سے آپ سے خاص محبت تھی سید صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے پاس آنے کی دعوت دے رہے تھے مگر آپ نے اس وقت ان کی دعوت کو دینی امور میں انہماک اور مصروفیت کی وجہ سے منظور نہ فرمایا یہ ایسے زمانے ۱۸۸۷ء کا واقعہ ہے جب کہ ابھی آپ بیعت نہ لیتے تھے۔ اس مکتوب میں حضور نے اپنی زندگی کا مقصد بیان کیا ہے۔ احباب متعدد مرتبہ اس مکتوب کو پڑھیں جن سے انہیں حضرت اقدس کی سیرۃ مبارک کے مختلف پہلوؤں کا اندازہ ہو گا۔
(عرفانی کبیر)
۱/۵۶ مخدومی مکرمی اخویم سید محمد عسکری سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا موجب تسلی ہوئی۔ میں آپ کے واسطے غائبانہ بہت دعا کرتا ہوں اور آپ کے اخلاص سے خوش ہوں۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ آپ کے تردوات دور کرے۔ اس وقت میں آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتا۔ اپریل یا مئی کے مہینے میں انشاء اللہ القدیر آپ کی یاد دہانی پر بشرط خیریت وعدم مواقع آپ کو اطلاع دوں گا اور شاید ان مہینوں میں کسی ایسے مقام میں میرا قیام ہو جس میں با آسانی ملاقات ہو جائے مجھے اس وقت تالیف رسالہ ـ’سراج منیر‘‘ کے لئے نہایت مصروفیت اور خلوت ہے اور میری زندگی صرف احیاء دین کے لئے ہے اور میر ااصول دنیا کی بابت یہی ہے کہ جب تک اس سے بگلی منہ نہ پھیر لیں۔ ایمان کا بچائو نہیں۔ راحت و رنج گزرانے والی چیزیں ہیں۔ اگر ہم دنیا کے چند دم مصیبت و رنج میں کاٹیں گے تو اس کے عوض جادوانی راحت پائیں گے۔ بہشت انہیں کی وراثت ہے کہ جو دنیا کے دوزخ کو اپنے لئے قبول کرتے ہیں اور لذت عیش و عشرت دنیوی کے لئے مرے نہیں جاتے۔ دنیا کیا حقیقت رکھتی ہے اور اس کے رنج وراحت کیا چیز ہیں۔ آخری خوش حالی کی خواہش ہے۔ اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ تکالیف دنیوی کو بانشراح صدر اٹھا وے او راس نابکار گھر کی عزت او رذلت کچھ چیز نہ سمجھے۔ یہ دنیا بڑا دھوکہ دینے والا مقام ہے۔ جس کو آخرت پر ایمان ہے وہ کبھی اس کے غم سے غمگین نہیں ہوتا اور نہ اس کی خوشی سے خوش ہوتا ہے۔
والسلام
۷؍ فروری ۱۸۸۷ء
مقلدین اور غیر مقلدین کے متعلق ایک اہم مکتوب
۲/۵۷ مخدومی مکرمی اخویم سلمہ۔ بعد سلام مسنون مقلدین و غیر مقلدین کے بارے میں جو آپ نے خط لکھا تھا اس میں کس فریق کی زیادتی ہے۔ سو اس عاجز کی دانست میں مقلدین و غیر مقلدین کے عوام افراط وتفریط میں مبتلا ہو رہے ہیںاور اگر وہ صراط مستیقم کی طرف رجوع کریں حقیقت میں ایک ہی دین اسلام کا مغز اور لب لباب توحید ہے اسی توحید کے پھیلانے کی غرض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ کی طرف سے آئے اور قرآن شریف نازل ہوا۔
سو توحید صرف اس بات کا نام نہیں جو خداتعالیٰ کو زبان سے وحدہ لاشریک کہیں اور دوسری چیزوں کو خدا تعالیٰ کی طرح سمجھ کر ان سے مرادیں مانگیں اور نہ توحید اس بات کا نام ہے کہ گو بظاہر تقدیری اور تشریعی امور کا مبداء اسی کو سمجھیں۔ مگر اس کی تقدیر اور تشریع میں دوسروں کا اس قدر دخل روا رکھیں۔ گویا وہ اس کے بھائی بند ہیں۔ مگر افسوس کہ عوام مقلدین (حنفی) ان دونوں قسموں کی آفتوں میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ ان کے عقائد میں بہت کچھ شرک کی باتوں کو دخل ہے اور اولیاء کی حثیت کو انہوں نے ایسا حد سے بڑھا دیا ہے کہ ار باباً من دون اللہ تک نوبت پہنچ گئی ہے۔ دوسری طرف امور تشریعی میں آئمہ مجتہدین کی حثیت کو ایسا بڑھا دیا ہے کہ گویا وہ بھی ایک چھوٹے چھوٹے نبی بن گئے ہیں۔ حالانکہ جیسا امور قضا وقدر میں وحدت ہے۔ ایسا ہی تبلیغ کے کام میں بھی وحدث ہے۔
مقلم لوگ تب ہی راکشی پر آسکتے ہیں اور اسی حالت میںان کا ایمان درست ہو سکتا ہے جب صاف صاف یہ اقرار کردیں کہ ہم آئمہ مجتہدین کی خطاکو ہر گز تسلیم نہیں کریں گے۔ غضب کی بات ہے کہ غیر معصوم کو معصوم کی طرح مانا جاوے۔ ہاں بے شک چاروں امام قابل تغطیم اور شکر گزاری ہیں۔ ان سے دنیا کو بہت فوائد پہنچے ہیں۔ مگر ان کو پیغمبر کے درجے پر سمجھنا۔ صفات نبوی ان میں قائم کرنا۔ اگر کفر نہیں ہے تو قریب قریب اس کے ضرور ہے۔
اگرآئمہ اربعہ سے خطا ممکن نہ تھا تو باہم ان میں صدہا اختلاف کیوں پیدا ہو گئے اور اگر ان سے اپنے اجتہادات میں خطا ہوئی تو پھر ان خطائوں کو ثواب کی طرح کیوں مانا جائے۔ یہ بری عادت مقلدین میں نہایت شدت سے پائی جاتی ہے ہر ایک دیانت دار عالم پر واجب ہے کہ ایسا ہی ان پر شدت توجہ سے حملہ کرے اور خدائے جلشانہ پر بھروسہ کر کے زید وعمرو کی ملامت سے ڈرے اور وہ لوگ جو مواحدین کہلاتے ہیں۔ اکثر عوام الناس ان سے اولیاء کی حالت اور مقام کے منکر پائے جاتے ہیں۔ ان میں خشکی بھری ہوئی ہے اور جن مراتب تک انسان بفضلہ تعالیٰ ہو سکتا ہے اس سے وہ منکریں۔ بعض جاہل ان میں سے آئمہ مجتہدین رضی اللہ عنہم سے ہنسی لیجا کرتے ہیں۔
سو ان حرکات بے جاسے وہ کافر نعمت ہے اور طریق فقر و توحید حقیقی و ذوق و شوق داہی محبت سے بالکل دور و مجہور پائے جاتے ہیں خدا تعالیٰ دونوں فریقوں کو براہ راست بخشے۔
۸؍ جون ۱۸۸۶ء




حضرت مولوی ابوالخیر عبداللہ صاحب رضی اللہ عنہ کے نام





تعارفی نوٹ
حضرت مسیح موعود علیہٰ السلام نے ایک زمانہ دراز تک لوگوں کی بیعت نہیں لی اورجب کبھی کوئی شخص بیعت کے لئے عرض کرتا تو آپ یہی فرماتے تھے کہ مجھے حکم نہیں یا میں مامور نہیں لیکن جب خدا تعالیٰ نے آپ کو بیعت لینے کے لئے مامور فرمایا تو آپ نے ۳۳ ؍مارچ ۱۸۸۹ء م ۲۰ رجب ۱۳۰۶ء کو لودہانہ میں بیعت لی یہ بیعت حضرت منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفورکے ایک مکان پر ہوئی جواس وقت دارالبعیت کے نام سے جماعت لودہانہ کے قبضہ میں ہے اس بیعت کے بعد سب سے پہلا آدمی جس کو حضرت مسیح موعود علیہٰ السلام نے بیعت کی اجازت دی وہ مولوی ابوالخیر عبداللہ صاحب ولد ابوعبداللہ احمد قوم افغان سکنہ تنگی تحصیل چار سدہ ضلع پشاور ہیں۔ افسوس ہے کہ آج ان کے تفصیلی حالات سے واقف نہیں تاہم میں اس کوشش اور فکر میں ہوں کہ ان کے حالات معلوم ہو سکیں۔ مکرمی صاحبزدہ سراج الحق صاحب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے مولوی ابوالخیر صاحب کو دیکھا تھا تیس پینتیس سال کے خوش رو نوجوان تھے۔ میانہ قد تھا ذی علم اورمتقی انسان تھے۔ ان کے چہرہ سے رشد اورسعادت کے آثار نمایا ں تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہٰ السلام نے جوا جازت نامہ مولانا ابوالخیر عبداللہ صاحب کو لکھ کر دیا تھا وہ تاریخ بیعت سے پورے ایک ماہ چھ دن بعد لکھا یعنی ۲۹؍ اپریل ۱۸۸۹ء مطابق ۲۸ شعبان ۱۳۰۶ء اس اجازت نامہ کے پڑھنے سے معلوم ہو گا کہ آپ کن لوگوں سے بیعت لینا چاہتے تھے اور بیعت لینے والے کے فرائض یہ یقین کرتے تھے؟ اس سے اس روح کا پتہ لگتا ہے جو آپ کے اندر اپنے خدام کے لئے تھی یعنی آپ اپنے خادموں کے لئے بہت دعائیں کرتے تھے تاکہ ان میں وہ تبدیلی پیدا ہو جاوے جو خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ ہوتی ہے۔
مولوی ابوالخیر عبداللہ صاحب سابقون الاولون میں سے ہیں انہوں نے ۱۹ ؍رجب ۱۳۰۶ء کو بمقام لودہانہ بیعت کی تھی اوربیعت کرنے والوں میں ان کا نمبر پانچواں تھا جیسا کہ سیرۃ المہدی حصہ سوم کے صفحہ ۹ سے ظاہر ہوتا ہے چونکہ پہلے آٹھ نمبر کے احباب کے نام قیاس اوردوسری روایات کی بنا پر لکھے ہیں اس لئے مولوی صاحب کی سکونت کے متعلق بھی محض قیاس سے چارسدہ یا خوست لکھ دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تنگی تحصیل چارسدہ ضلع پشاور کے رہنے والے تھے اورسلسلہ میں پہلے آدمی تھے جن کو حضرت مسیح موعود علیہٰ السلام نے بیعت کی اجازت دی چنانچہ جو اجازت نامہ ان کو لکھ کر دیا گیا اسے میں نے مکتوبات ہی کے سلسلہ میں درج کر دیا۔
(عرفانی کبیر)
بسم اللہ الر حمٰن الر حیم : نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہٰ الکریم
۱/۵۸ الحمداللہ والسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ۔ ماٰ بعداز عاجز عابذ باللہ الصمد غلام احمد
بخدمت اخویم مولوی ابوالخیر عبداللہ پشاوری بعد از سلام علیکم روحمتہ اللہ وبرکاتہ، واضح باد۔ کہ چونکہ اکثر حق کے طالب کہ جو اس عاجز سے بیعت کرنے کا اردہ رکھتے ہیں بوجہ ناداری سفر و دور دراز یا بوجہ کم فرصتی و مزاحمت تعلقات قادیان میں بیعت کے لئے پہنچ نہیں سکتے اس لئے باتباع سنت حضرت مولانا وسیدنا محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وسلم یہ قرین مصلحت معلوم ہوا کہ ایسے معذو رو مجبور لوگوں کی بیعت ان سعید لوگوں کے ذریعہ سے لے جاوے کہ جو اس عاجز کے ہاتھ پر بیعت کرچکے ہیں سو چونکہ آپ بھی شرف اس بیعت سے مشرف ہیں اور جہاں تک فراست حکم دیتی ہے رشد اور دیانت رکھتے ہیں۔ اس لئے دکالتاً اخذ بیعت کے لئے آپ کو یہ اجازت نامہ دیا جاتا ہے آپ میری طرف سے وکیل ہو کر اپنے ہاتھ سے بند گان خدا سے جو طالب حق ہوں بیعت لیں مگر انہیں کو اس بیعت سلسلہ میں داخل کریں جو سچے دل سے اپنے معاصی سے توبہ کرنے والے اوراتباع طریقہ نبویہ کے لئے مستعد ہوں اوران کے لئے دلی تضرع سے دعا کریں اورپھر نام ان کے بقید ولدیت و سکونت و پیشہ وغیرہ اس تصریح سے اصل سکونت کہاں ہے اورکس محلہ میں اور عارضی طور پر کہاں رہتے ہیں بھیج دیں۔ تا یہ عاجز ان کے لئے دعا کرنے کا موقع پاتا رہے اورپورے تعارف سے وہ یاد رہیں۔ والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ۔
راقم احقر عباد اللہ عبداللہ الصمد
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور پنجاب
اٹھائیس شعبان ۱۳۰۶ء مطابق ۶۹؍اپریل ۱۸۸۹ء روز دوشہنبہ
نشان مُہر الیس اللہ بکاف عبدہ
مکرمی اخویم ڈاکٹر فیض محمد خان صاحب کو السلام علیکم پہنچا دیں اورہر ایک صاحب جو بیعت کریں مناسب ہے کہ براہ راست بھی اپنا اطلاعی خط بھیج دیں۔









حضرت صوفی سید حافظ تصور حسین رضی اللہ عنہ کے نام





(تعارفی نوٹ)
حافظ سید تصور حسین صاحب رضی اللہ عنہ، بریلی کے رہنے والے تھے حضرت سید عزیز الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ بیعت کر کے بریلی پہنچے تو انہوں نے علم تبلیغ کو بلند کیا وہ نہایت جری اور نذیر عریاں تھے بریلی ایک خاص قسم کے علماء دین کا مرکز تھا اور اب بھی ہے ان کے جاننے سے وہاں احمدیت کا گھر گھر چرچا ہونے لگا اسی سلسلہ میں حضرت صوفی سید تصور حسین صاحب رضی اللہ عنہ کو سلسلہ کی طرف اولاً مخالفانہ رنگ میں توجہ ہوئی جو آخر انہیں سلسلہ حقہ ّ میں لے آئی حضرت سید عزیز الرحمن صاحب نے ان کے تذکرہ میں فرمایا
الغرض گھر گھر احمدیت کا چرچا تھا اس چرچے کی وجہ سے صوفی تصور حسین صاحب مرحوم و مغفور کو بھی توجہ ہوئی۔ ان کو شاعری کا شوق تھا اور اس وجہ سے تمام بڑے بڑے افرائے شہر سے ان کا تعلق تھا۔ عالم بھی تھے۔ حافظ بھی تھے قرآن خوب یاد تھا۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود کو ایک خط دس بارہ صفحے کا لکھا اور تمام بڑے آدمیوں کو دکھایا کہ میں یہ خط مرزا صاحب کو بھیج رہا ہوں۔ سب نے اس خط کی بڑی تعریف کی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو جب یہ ملا تو انہوں نے مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس خط کا جواب لکھ دو۔ مولوی صاحب نے ایک خط پر لکھا کہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یا تو ہماری کتابیں پڑھو یا ہمارے پا س آجائو۔ جب یہ کارڈ بریلی پہنچا تو وہ اس کارڈ کو لے کر تمام بریلی میں پھرے۔ ہر شخص کو خط دکھاتے اور کہتے کہ دیکھو یہ مرزا صاحب کی علمی لیاقت ہے۔ میرے خط کے جواب میں یہ کارڈ آیا۔ الغرض خوب مذاق اڑایا میں ان سے اسی سبب سے ناراض ہو گیا سلام علیک تک جاتی رہی۔ ایک لمبے عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔ میں نے بغیر سلام علیکم کہنے خطبہ الہامیہ ان کے سامنے رکھ دیا۔ انہوں نے اسے لے لیا اور دیر تک پڑھتے رہے ایک بجے کے قریب جوش سے انہوں نے اللہ اکبر کہا اور حضرت کو بیعت کا خط لکھ دیا اور لکھا کہ میرا دل حضور کے ملنے کو بہت چاہتا ہے۔ مگر میرے پاس کرایہ نہیں۔ حضور نے جواب لکھا کہ تولکل پر چلے آئو خط ملنے پر انہوںنے لکڑی کندھے پر رکھی اور چند روٹیاں پکوا کر لے آئے اور مجھے کہا کہ میں قادیان جا رہا ہوں میں حیران ہوا اور ان کوروکا کہ اس طرح نہیں جانا چاہئے انہوں نے حضرت کاکارڈ دکھلایا کہ یہ حکم ہے میں نے کہا کہ اچھی بات ہے اگر تولکل پر جانا ہے تو آج رات کو آپ روانہ کر دیں گے۔ لہذا رات کی گاڑی سے قادیان روانہ کر دیا۔
صوفی تصور حسین صاحب کی بیعت کے بعد بریلی میں اور بھی شور پڑ گیا۔ لوگ ان کے دشمن ہو گئے۔ ایک دفعہ جب کہ وہ گلی سے گزر رہے تھے تو لوگوں نے ان کوپکڑ لیا اور قتل کرنے کی نیت سے ان کے سینے پر چاقو رکھ دیا۔ صوفی صاحب نے اپنے دشمن سے کہا کہ تم اپنا کام کرو میں حضرت مرزا صاحب کو کبھی جھوٹا نہیں کہوں گا۔
راہگیروں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو انہوں نے شور مچایا کہ ایک آدمی کو کیوں مارتے ہو اس شور پر بد معاش ان کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔
اس طرح پر حافظ صاحب قادیان آ گئے اور پھر آکر نہ گئے تولکل حلال سے ان کو محبت تھی باوجود کہ ایک رنگ میں صوفیوں اور مشاخیوں کی زندگی بسر کی تھی مگر قادیان میں انہوں نے ہمیشہ محبت اور مشقت سے عا نہیں کیا۔ مختلف قسم کی تجارتیں کیں میں ذاتی طور پر جانتا ہو ں کہ وہ ایک قسم کی عسرت کی زندگی بسر کرتے تھے مگر کبھی حرف شکایت زبان پر نہ آتا تھا۔ آخر مقبرہ منشی آرام فرما ہوئے (رضی اللہ عنہ) یہ مختلف مکتوبات ان کے رقعہ جات کے جواب میں ہیں مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس ان کے اور بھی خطوط کی نقل تھی مگر وہ خدا تعالیٰ کی مصلحت سے ضائع ہو گئے۔
(عرفانی کبیر)
۱/۵۹ محبی اخویم حافظ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط میں نے اوّل سے آخر تک پڑھ لیا ہے۔ یہ بات بہت درست ہے کہ سعید انسان کی علامت یہی ہے کہ جب تک گوہر مقصود ہاتھ نہ آوے سست نہ ہو اور کسل کی طرف مائل نہ ہو۔ کسی نے سچ کہا ہے
گرنبا شدبد دست رہ بردن
شرط عشق است درطلب مردن
خدا تعالیٰ کی طلب بڑا مشکل کام ہے۔ گویا ایک موت ہے بلکہ درحقیقت موت ہے۔ پھر دوسری طرف عالی ہمت اور عالی فطرت اور وفا درد دل کے لئے بہت سہل بھی ہے۔ وہ وہ ہے کہ جو زمانہ دراز کے طلب کو بھی ایک ساعت سے کم سمجھتا ہے۔ بقول حافط
گویند سنگ لعل شود در مقام صبر
آئے شور و لیک نجون جگر شود
مگر افسوس کہ دنیا میں شتات کاروں۔ بد ظنوں کم ہمتوں کا فرقہ بہت ہے اور یہی لوگ محروم ازل سے ہیں چاہتے ہیں کہ ایک پھونک مارنے سے عرش معلی تک پہنچ جائیں اور اللہ فرماتا ہے احسب الناس ان یترکو اان یقوا آمنا وھم لا یفتنون۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
نوٹ۔ اس مکتوب کو مکررسہ کر پڑھو کہ اس میں سعادت کی علامت اور اس سے مقام رفیع کا بھی پتہ لگتا ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھا۔
۲/۶۰ محبی اخویم مولوی تصور حسین صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط پہنچا میں اس وقت بیمار ہوں اور بہت ضعف ہے۔ خون بہت آیا ہے ا س لئے میں زیادہ جواب نہیں لکھ سکتا میرے نزدیک آپ کی خواب بہت عمدہ ہے کیونکہ اس میں شرح صدر کا لفظ ہے جو تسلی اور اطمینان پر دلالت کرتا ہے زیادہ لکھنے سے معذور ہوں۔ خداتعالیٰ فضل شامل حال رکھے آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمداز قادیان
۴؍ مارچ ۱۹۰۵ء
۳/۶۱ محبی اخویم حافظ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں باباعث درد فم معدہ و کمر و دیگر حوارض بیمار رہا اور اب بھی بیمار ہوں مسجد بھی جانے سے معذور رہا۔ انسان کے لئے ہر وقت استغفار اور توبہ اور دعا جیسی کوئی بھی چیز نہیں ہے۔ ہمیشہ سوزو گداز کے ساتھ مرضات اللہ کی طلب میں مشغول رہنا چاہئے اورسستی سے آرام نہ کرنا چاہئے جب تک مطلب حاصل نہ ہوجاوے یہی کامیابی کی راہ ہے ما سوا اس کے تدبرّ سے درود شریف کو پڑھنا اورہر ایک موقعہ مناسب پر دعا کرنا چاہئے اور سب سے زیادہ خطرناک جلد بازی اوربد ظنی ہے اس سے بچنا چاہئے۔ نماز میں بہت دعا کرنی چاہئے۔ بجز قرآن شریف اور ادعیہ ماثورہ کے اپنی زبان میں اور میں دعا کروں گا۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(نوٹ) اس مکتوب شریف سے واضح ہوتا ہے کہ آپ اپنے خدام کی عملی تربیت کس طرح فرماتے تھے۔ زمانہ حال کے پیروں او رمشایخ کی طرح غیر مسنون اور بد عتی طریقوں پر چہلہ کشیاں نہیں کراتے تھے بلکہ جو صحیح اور مجرب صراط مستقیم ہے اس پر لیجاتے تھے دعائو ں پر آپ کا بہت زور تھا اور استغفار اور درود شریف کے پڑھنے کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتے تھے اور یہ آپ کا خود تجربہ کردہ نسخہ تھا۔
دعائوں کے سلسلے میں آپ نے بھی اس امر کی طرف بھی توجہ کیا کہ ادعیہ ماثورہ کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعائیں کرنی چاہئیں۔ یہ اس لئے اپنی زبان میں انسان اپنے اندر جذبات اور مطلوبات کو نہایت وضاحت سے بیان کر سکتا ہے اور وہ نفس مدعا کوسمجھتے ہوئے اپنے قلب میں جوش اور خشوع پید ا کرنے میں آسانی پاتا ہے جہاں تک میری تحقیقات ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس تعلیم میں پہلے شخص ہیں۔ عربوں کی زبان تو عربی تھی اس لئے ماثورہ ادعیہ کے وقت ان کے مفہوم اور منشاء سے واقف ہونے کی وجہ سے ان کے قلوب خشوع و خضوع سے بھر جاتے تھے مگر دوسری اقوام جب اپنی زبان میں بھی دعائیں نہ کریں وہ کیفیت پید انہیں ہو سکتی۔ اس مکتوب سے خود حضرت اقدس کے معمولات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔
(عرفانی کبیر)
۴/۶۲۔محبی اخویم سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
سجدہ میں دعا یا حی یا قیوم برحمتک استغیت بہت پڑھو اصلاح نفس کے لئے جو نہایت مشکل امر ہے خدا تعالیٰ کافضل اور اس کی مددمانگتے رہو میں بھی انشاء اللہ دعا کروں گا۔ مگر ایسی ……بھی منت اللہ ہے۔موتی کتوں کے منہ میں ڈالنا مراد رکھتا ہے کہ نااہل کو تربیت کرنا نا اہل سے نیک امید رکھتا ہے۔ ہر آدمی کی بیعت سے پرہیز ضروری ہے۔
اے بسا ابلیں آدم دے دو ہست
پس بہروستے نہ باید دا دوست
عزم درست اور استقامت اور خداتعالیٰ کے سامنے صدق و صفا آخر کامیاب کر دیتا ہے مگر صبر درکار ہے۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
(نوٹ) اس مکتوب میں بعض جملے پڑھے نہیں گئے پھٹ گئے ہیں تاہم اس مکتوب میں دعائوں کی قبولیت کے لئے ایک اصل فرمایا ہے کہ عزم صحیح اور استقامت کو نہ چھوڑا جائے اور پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ ہر آدمی اس کا اہل نہیں ہوتا کہ انسان اس کی بیعت کرے بلکہ احق اور اولی لوگ ہیں جن کووجود خدا نما ہو۔
(عرفانی کبیر)
۵/۶۳ ۔ محبی اخویم حافظ تصور حسین صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ درست ہے کہ خداتعالیٰ کی عطاکردہ جو انسانی قوی یعنی روحانی اور جسمانی قوتیں ہیں اسی کے راہ میں خرچ کرنی چاہیئں لیکن اسرار کا پوشیدہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ایک نااہل کے آگے معارف بیان نہیں کرنے چاہئیں جن کا وہ متجمل نہ ہو سکے اور مذہب وحدت شہود کی حقیقت اس مرتبہ تک پہنچنی چاہئے کہ گویا وحدت وجود کااس میں جلوہ ہے اور صرف قیل وقال کچھ چیز نہیں ہے۔ عمل ضروری ہے اور اس جگہ بعض آدمی ہمارے منشاء کے مطابق اپنی حالت درست کرنے میں سرگرم ہیں اور بعض ابھی حقیقت سے دور ہیں………
(نوٹ) یہ مکتوب نامکمل ہے اور نمبر ۱ اور نمبر ۲کے فقرات محض ربط کلام کے لحاظ سے میں نے لکھے ہیں اصل مکتوب کی نقل دریدہ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا اور اس کی پھر مکرر شائع کر دیا جائے گا۔
(عرفانی کبیر)
احباب سیالکوٹ کے نام
تہمیدی نوٹ
سیالکوٹ کوبھی سلسلہ کی تاریخ میں بہت بڑی اہمیت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے عہد شباب کے آغاز میں کئی سال سیالکوٹ میں گزارے۔ اس زمانہ کی یاد آپ ہمیشہ رکھتے۔ چنانچہ جب ۱۹۰۴ء میں آپ سیالکوٹ تشریف لے گئے تو آپ نے ایک لیکچر کے دوران میں اپنی صداقت کے نشانات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
اور اگر میری نسبت نصرت الٰہی کو تلاش کرنا چاہے تو یاد رہے کہ اب تک ہزار ہا نشان ظاہر ہو چکے ہیں۔ منجملہ ان کے وہ نشان ہے۔ جو آج سے چوبیس برس پہلے براہین احمدیہ میں لکھا گیا اور اس وقت لکھا گیا جب کہ ایک فرد بشیر بھی مجھ سے تعلق بیعت نہیں رکھتا تھا اور نہ میرے پاس کوئی سفر کرکے آتا تھا اور وہ نشان یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ یا تیک من کل فج غمیق۔ یا تون من کل فج غمیق یعنی وہ وقت آتا ہے کہ مالی تائید ہر ایک طرف سے تجھے پہنچے گی اور ہزار ہا مخلوق تیرے پاس آئے گی اور پھر فرماتا ہے۔ ولا تصعر لخلق اللہ ولا تسئم من الناس۔ یعنی اس قدر مخلوق آئے گی کہ ان کی کثرت سے حیران ہو جائے گا۔ پس چاہئے کہ تو ان سے بد اخلاقی نہ کرے اورنہ ان کی ملاقاتوں سے تھکے۔ پس اے عزیزو! اگرچہ آپ کو یہ تو خبر نہیں کہ قادیان میں میرے پا س کس قدر لوگ آئے اور کیسی وضاحت سے پیشگوئی پوری ہوئی۔ لیکن اسی شہر میں آپ نے ملا خط کیا ہو گا کہ میرے آنے پر میرے دیکھنے کے لئے ہزار ہا مخلوقات اس اسٹیشن پر جمع ہو گئی تھی اور صدہا مردوں اور عورتوں نے اس شہر میں بیعت کی اور میں وہی شخص ہوں جو براہین احمدیہ کے زمانے سے تحمیناً سات آٹھ سال پہلے اسی شہر میں قریباً سات آٹھ برس رہ چکا تھا اور کسی کو مجھ سے تعلق نہ تھا اورنہ کوئی میرے حال سے واقف تھا۔ پس اب یہ سوچو اور غور کروکہ میری کتاب براہین احمدیہ میں اس شہرت اور رجوع خلائق کی چوبیس سال پہلے میری نسبت ایسے وقت میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ جب کہ میں لوگوں کی نظر میں کسی حساب میںنہ تھا۔ اگرچہ میں جیسا کہ میں نے بیان کیا براہین کی تالیف کے زمانے کے قریب اسی شہر میں قریباً سات سال رہ چکا تھا تاہم آپ صاحبوں میں ایسے لوگ کم ہوں گے جو مجھ سے واقفیت رکھتے ہوں۔ کیونکہ میں اس وقت ایک گمنام آدمی ہوں اور احدمن الناس تھا اور میری کوئی عظمت اور عزت اور لوگوں کی نگاہ میں نہ تھی۔ مگر وہ زمانہ میرے لئے نہایت شیریں تھا کہ انجمن میں خلوت تھی اور کثرت میں وحدت تھی اور شہر میں ایسا رہتا تھا جیسا کہ ایک شخص جنگل میں مجھے اس زمین سے ایسی محبت ہے جیسا کہ قادیان سے۔ کیونکہ میں اپنے اوائل زمانہ کی عمر میں سے ایک حصہ اس میں گزار چکا ہوں اور اس شہر کی گلیوں میں بہت سا پھر چکا ہوں۔ میرے اس زمانہ کے دوست اور مخلص اس شہر میں ایک بزرگ ہیں یعنی حکیم حسام الدین جب جن کواس وقت بھی مجھ سے بہت محبت رہی ہے۔ وہ شہادت دے سکتے ہیں کہ وہ کیسا زمانہ تھا اور کیسی گمنامی کے گڑھے میںمیرا وجود تھا۔ اب میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ ایسے زمانے میں ایسی عظیم الشان پیشگوئی کرناکہ ایسا گمام کاآخر کار یہ عروج ہوگا کہ لاکھوں اس کے تابع اور مرید ہو جائیں گے اور فوج در فوج لوگ بیعت کریں گے اور باوجود دشمنوں کی مخالفت اور رجوع اخلائق میں فرق نہیں آئے گابلکہ ا س قدر لوگوں کی کثرت ہو گی کہ وہ قریب ہو گا کہ وہ لوگ تھکاوین کہ یہ انسان کے اختیار میں ہے اور کیا ایسی پیشگوئی کوئی مکار کر سکتا ہے کہ چوبیس سال پہلے تنہائی اور بے کسی کے زمانے میں اس عروج اور مرجع خلائق ہونے کی خبر دے کتاب براہین احمدیہ جس میں پیشگوئی ہے کوئی گمنام کتاب نہیں بلکہ وہ اس ملک میں مسلمانوں عیسائیوں اور آریہ صاحبوں کے پاس بھی موجود ہے او رگورنمنٹ کے پاس بھی موجود ہے۔ اگر کوئی عظیم الشان نشان میں شک کرے تو ا س کو دنیا میں اس کی نظیر دکھلانا ہے۔ سیالکوٹ میں کئی نشانات آپ کی صداقت کے اس زمانے میں ظاہر ہوئے اور سیالکوٹ کے مولوی فضل احمد مرحوم کو اس عزت اور سعادت حاصل تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ طالب علمی میں کچھ عرصہ قادیان میں حضرت اقدس کی تعلیم پر مامور رہے اورجب آپ نے ماموریت کا دعوی کیا تو سیالکوٹ میں جن لوگوں نے دعوت کوقبول کیا انہوں نے اپنی بے نظیر وفاداری ایثار اور قربانی سے اپنا مقام بہت بلند رکھا۔ ان ایام میں جماعت سیالکوت تمام جماعتوں میں ممتاز اور سر بلند تھی ا س جماعت سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت میر حامد شاہ رضی اللہ عنہ او رحضرت خصلیت علی شاہ صاحب رضی اللہ عنہ جیسے مخلص پید اکئے۔ حضرت میر حکیم حسام الدین صاحب رضی اللہ کے نام کاخط میں پہلے درج کر آیا ہوں اور جن احبا ب جو مل سکتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
حضرت مولوی شادی خان صاحب سیالکوٹی کے نام
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
تعارفی نوٹ
حضرت مولوی محمد شادی خان صاحب سیالکوٹ کے باشندے تھے۔ ابتدائے من شعور سے ان کو اسلام کی عملی زندگی کا شوق تھا اور وہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت حکیم الامۃ مولانا نورالدین صاحب خلیفۃالمسیح اوّل رضی اللہ عنہ کے خاص احباب اور مخلصین میں داخل تھے۔ جب وہ بزرگ اہل حدیث تھے مولوی محمد شادی خان صاحب پر بھی یہ رنگ غالب تھا اور جب وہ احمدی ہوئے تو یہ احمدی ہو گئے۔ ایک عرصہ تک وہ راجہ امر سنگہ آنجہانی (جمون و کثیر) کے خلاص ملازموں میں رہے ان کی دیانت امانت مسلم تھی جب حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ ریاست جموں و کشمیر کی خدمت سے فارغ ہو گئے یہ بھی نوکری چھوڑ آئے اور کچھ عرصہ تک لکڑی کی تجارت کرتے رہے بالآخر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر قادیان ہجرت کر آئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کی والدہ صاحبہ مرحومہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت کا بہت بڑا موقع دیا اور ان کے بعد ان کی اولاد بھی سلسلہ کی خادم رہی اور ان کی صاحبزادیاں اپنے علم و فضل کے لحاظ ممتاز اور خدمت سلسلہ میں مصروف ہیں۔ خاکسار عرفانی کبیر کو یہ عزت اور فخر حاصل ہے کہ کچھ عرصہ تک ہجرت کے ابتدائی ایام میں مولوی محمد شادی خاں صاحب کو الحکم کی خدمت کی سعادت نصیب ہوئی اور پھر ان کے صاحبزادہ مرحوم عبدالرحمن کو بھی موقعہ ملا۔ مولوی شادی خان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عشق تھا اور وہ ایک وفادرار اور جان نثار احمدی تھے۔ سلسلہ کی تحریکوں پر ایسے کام کر گزرتے تھے کہ لوگ حیران رہ جاتے تھے منارۃا لمسیح کے چندہ میں سب کچھ دے دیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا سو آدمیوں کا ایک خاص گروہ تجویز فرمایا تھا کہ جو جو ایک ایک سو روپیہ دے دے ان میں حضرت شادی خان بھی تھے انہوں نے گھر کا سازوسامان فروخت کر کے دوسو روپیہ دے دیا۔
ابھی وہ اعلان شائع نہیں ہو اتھا کہ ان کوعلم ہو ااور انہوں نے روپیہ بھیج دیا۔ حضرت اقدس نے اس اشتہار میں ان کی نسبت تحریر فرمایا کہ۔
دوسرے مخلص جنہوں نے اس وقت بڑی مردانگی دکھائی ہے۔ میاں شادی خاں لکڑی فروش ساکن ہیں ابھی وہ ایک کام میں ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دے سکتے ہیں اور اب اس کام کے لئے دو سو روپیہ چندہ بھیج دیا ہے اور یہ وہ متوکل شخص ہے کہ اگر اسے گھر کا تمام اسباب دیکھا جائے تو شاید تمام جائیداد پچاس روپیہ سے زیادہ نہ ہو اور انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے۔ چونکہ ایام قحط میں اور دینی تجارت میں صاف تباہی نظر آتی ہے تو بہتر ہے کہ ہم دینی تجارت کر لیںاس لئے جو کچھ اپنے پاس تھا سب بھیج دیا اور درحقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا (اشتہار خاص گروہ) یہ صرف تعارفی نوٹ ہے ان کے حالات زندگی اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کتاب تعارف میں تفصیل سے لکھنے کاعزم ر کھتا ہوں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان خاص اور صدق و وفا کو دیکھ کر انہیں وہ شرف بخشا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مثیل قرار دیا۔
خاکسار عرفانی کبیر سے ان کو للہ محبت تھی اور میں تو ان کے مقام کو بہت عزت و احترام سے دیکھتا ہوں مگر اپنے اخلاص کی وجہ سے وہ خاکسارعرفانی کبیر کا احترام کرتے تھے اور ……ان کی اپنی خوبی تھی ورنہ من آنم کہ من وانم۔اب میں ان کے نام کے مکتوبات درج کرتا ہوں۔ وباللہ التوفیق۔
میں یہ بھی ذکر کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ مکتوبات عزیز مکرم میاں فضل حسین مہاجز کی کوشش کا نتیجہ ہیں اس لئے معہ ان کے نوٹ کے درج کرتا ہوں۔
(عرفانی کبیر)
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
۱/۶۴ محبی مشفق اخویم میاں شادی خان صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔محبی اخویم حکیم فضل دین صاحب باوجود دو شادیوں کے اب تک بے اولاد ہیں اور اب کئی وجوہ سے ان دو بیویوں کاہونا برابرہے اور حکیم صاحب موصوف مدت سے چاہتے ہیں کہ اگر کسی شریف آدمی کے ساتھ جو اپنی جماعت میں سے ہو۔ یہ تعلق پیدا ہو جائے تو عین مراد ہے۔ اس عرصہ میں کئی جگہ ان کے لئے پید اہوئیں اور اب بھی ہیں۔ مگر ان کی طبیعت نے کراہت کی۔ چنانچہ ایک دن میں سے اب تک بار بار خط بھیجتا ہے کہ میں اپنی لڑکی آپ کو دیتا ہوں ، مگر وہ ا س سے کراہت کرتے ہیں۔ اب دلی توجہ سے آپ کی طرف طبیعت ان کی راغب ہو ئی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ کسی قدر وہ شریف اور صالح ہیں اور متقی حافظ قرآن اور علم دین میں خوب ماہر ہیں اور واقعی مولوی ہیں۔ علماء وہ ان تمام امور کے دینوی جمعیت رکھتے ہیں۔ صاحب املاک و جائیداد ہیں ۔ امید ہے کہ آپ اپنی منشاء سے اطلاع بخشیں گے اور بعد استخارہ مسنونہ جس طرح آپ کی رائے ہو بلا تکلف اس سے مطلع فرمائیں۔ زیادہ خیریت۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفا اللہ عنہ ۲۹؍ جون ۹۸ء
۲/۶۵ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی
محبی اخویم میاں شادی خاں صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ یہ خط اس وقت آپ کی والدہ صاحبہ ؎ مجھ سے لکھو ارہی ہیں۔ ان کوا س بات کے سننے سے بہت غم اور فکر لاحق حال ہوا ہے کہ آپ کو سخت تپ آیا ہے او رانہوں نے ارادہ کیا تھا کہ ایسے وقت سیالکوٹ کی طرف روانہ ہو جائیں۔ لیکن میں نے روکا کہ موسمی تپ ہے خیر ہو جائے گی۔ چنانچہ میں رات کے پچھلے حصے میں آپ کے لئے دعا کرتا رہا۔ امید ہے کہ خدا تعالی ٰ صحت بخشے گا۔ اگر تپ میں قے آوے تو ہوا سے پرہیز رکھیں اورمناسب ہے کہ چار تولہ کسٹرآئیل سے بلا توقف جلاب لے لیں اور بعد اس کے کو نین تین یا چار ررتی معہ فور بقدر پائے اور بواپسی ڈاک اپنے حالات سے اطلاع دیں۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے اور کونین کے بعد دودھ پی لیا کریں۔ سب کو ان کی طرف سے السلام علیکم۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
بسم اللہ الر حمن الرحمن۔ نحمد ہ و نصلی
۳/۶۶ ۳؍ اگست ۹۹ء
محبی اخویم میاں محمد شادی خاں صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں مناسب دیکھتا ہو ں کہ دو تین روز کے لئے آپ ہمیں مل جائیں۔ چند دفعہ مجھے خبر ملی کہ آپ آنے والے ہیں لیکن پھر آپ نہیں آئے۔ آپ کی والدہ صاحبہ اور لڑکے دونوں منتظر ہیں۔ ضرور اس خط کو دیکھ کر دو تین روز کے لئے آجائیں۔ زیادہ خیریت ۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۴/۶۷ بسم اللہ الرحمن الر حیم۔ نحمدہ و نصلی
میرے نزدیک عائشہ ؎کا جانا مناسب نہیں ہے وہ اس جگہ خدمت سے ثواب حاصل کرتی ہے اور ہمیں اس کی رعائت میں کسی طرح فرق نہیں ہے۔ اس کو خود لکھ دو کہ جو کچھ اس کو کپڑا وغیرہ کی نسبت حاجت ہوا کرے۔ وہ بلا توقف کہہ دے ہم سب کچھ اس کے لئے مہیا کر دیں گے۔ مگر شر م نہ کرے اور دوسرے یہ امر ہے کہ شریعت اسلام میں اس امر کی ممانعت نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کہ جو عور تیں بیوہ ہو جائیں ایام عدت کے بعد ان کا نکاح کرایا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی لڑکیوں کا نکاح ثانی کرایا ہے۔ اس صورت میں اگر آپ کا منشاء ہو تو اس صورت میں ہماری کوشش سے بامراد یہ مطلب ہو سکتا ہے لڑکی جوان اور نیک بخت ہے۔ اس کے لئے ایسا آدمی تلاش ہو سکتا ہے جو عبدالکریم صاحب کا قائم مقام ہو اور دنیا کی حالت بھی آسودہ اور عزت کے ساتھ رکھتا ہو میرے نزدیک یہ انتظام بھی ہے اور انشاء اللہ جیسا کہ اس جگہ بخیر و خوبی یہ امر حاصل ہو سکتا ہے اور ایسے آدمی کی تلاش ہو سکتی ہے۔ دوسری جگہ نہیں ہو سکتی۔ یہ ضروری ہے کہ اپنی تکالیف کپڑا وغیرہ کی بابت کہہ دیا کرے۔
والسلام
مرزا غلام احمد
۵/۶۸ بسم اللہ الرحمن الرحیم
محبی اخویم میاں شادی خاں صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مناسب سمجھا گیا ہے کہ آپ مع عائشہ بمجر د دیکھتے اس خط کے آجائو۔ باقی حالات زبانی کہے جائیں گے۔ والسلام۔ مرزا غلام احمد۔۲۸؍اگست ۱۹۰۰ء
حضرت اقدس نے منارۃ المسیح کی تعمیر کے لئے جب تحریک کی تو اس وقت منشی شادی خاں صاحب نے اس گھر کا آثاثہ فروخت کر کے حضور کی خدمت میں بھیج دیا۔ جس کے جواب میں حضور علیہ السلام نے یہ خط لکھا۔
۶/۶۹ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی
محبی اخویم میاں شادی خاں صاحب سلمہ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آج نصف قطعہ نوٹ یکصد روپیہ مرسلہ آپ کا مجھ کو پہنچا آپ نے خدا تعالیٰ کی راہ میں بڑی بہادری دکھلائی ہے۔ اگر کوئی نواب ایک لاکھ روپیہ بھی دے تب بھی وہ ااس ثواب کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اپنی طاقت سے بہت بڑھ کر کام کیا ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے اور آپ کی والدہ معظمہ کو تمام ثوابوں میں داخل کرے آمین ثم آمین۔
والسلام
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۷؍ جون ۱۹۰۰ء
اس کے بعد منشی صاحب مرحوم نے گھر کی چارپائیاں تک بھی فروخت کر دیں اور پھر مزید ۱۱۰ روپے پیش کئے جس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا۔
۷/۷۰ بسم اللہ الرحمن الرحیم
محبی اخویم میاں شادی خاں صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ نے جو علاوہ پہلے چندہ مبلغ وہ سو روپیہ کے ایک سو دس اور چندہ دیا ہے۔ یہ کام آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا اورآخرت میں اجر بخشے آمین اس قدر خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال عزیز خرچ کرنا جو ہزار محنت اور شفقت سے جمع کیا جاتا ہے صاف دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ او رآخرت کو ہر ایک امر پر مقدم رکھتے ہیں۔ جزاکم اللہ خیر الجزا
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۸؍ جولائی ۱۹۰۰ء
۱۹۰۰ء میں منشی صاحب مرحوم نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں مندرجہ ذیل عریضہ لکھا جو درج ذیل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
الحمد اللہ الذی ھو رحمۃ للعالمین۔ امابعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قادیان میں دوکان نکالنے کے واسطے میں نے سفر اختیار کیا کہ اگر برادرم اللہ دت صاحب بطریق سابق روپیہ منافع پر دے دیںتو دوکان کی جائے مگر اتفاقاً انہوں نے چھترے خریدے ہوئے تھے پھر میں سیالکوٹ گیا۔ وہاں بعض نے ہمدردی دکھائی اور کہا ملازمت چاہو تو مل سکتی ہے۔ ورنہ دوکان کرو تو روپیہ منافع پر مل جائے گا یا شراکت کرو ہم شریک بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر میں اب شراکت سے پرہیز ہوں۔ البتہ منافع پر لے لوں گا یا ملازمت کر لوں گا میرے پاس سندات موجود ہیں اب حضور اجازت فرمائیں تو میں اپنا عیال سیالکوٹ لے جائوں او ردعا کریں کہ رب العالمین دین و عقبی نیک کرے۔ لیس کمثلہ شئی ً وھو السمیع العلیم۔ لاالہ الا ھو الرحمن الرحیم آمین اگرچہ میں عاصی پر تقصیر ہوں۔ مگر امید وار ہوں کہ اللہ کریم رحیم رب العالمین آپ کی طفیل آپ کے جلس کو دنیا و آخرت میں خوار نہیں فرمائے گا۔ مجھے حضور علیہ السلام کی جدائی کا سخت رنج رہے گا جب تک پھر نہ میں آئوں گا۔ مگر جدائی میں اپنے غریب مرید کو مخص للہ یاد فرماتے رہنا اور اپنی دعائوں میں شامل کرتے رہنا عاجزانہ عرض ہے۔
والسلام
فدوی محمد شادی خان
کمترین مریداں۔
مورخہ ۴؍ اگست ۱۹۰۶ء
منشی صاحب مرحوم کے مندرجہ بالا جواب میں حضور علیہ السلام نے انہی کے رقعہ کی پشت پر مندرجہ ذیل الفاظ تحریر فرمائے۔
۸/۷۱
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ یہ بات تو میرے نزدیک بہت مناسب ہے کہ کوئی کام کیا جائے۔ بغیر کام کے عیال والے کے اخراجات چل نہیں سکتے۔ اسی غرض سے میں نے کہا تھا کہ عطاری ہے کوئی موٹا کام جس کی ہر ایک کو حاجت ہوتی ہے شروع کیا جائے۔ سو اگر قادیان میں اس کا کوئی انتظام نہیں بنتا تو اجازت ہے سیالکوٹ میں چلے جائیں۔ شائد اللہ تعالیٰ وہاں کوئی تجویز بنا دے۔ دل کی نزدیکی چاہئے اگر بعد مکانی ہو تو کیا مضائقہ ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
حضرت مولوی عبد اللہ سنوری رضی اللہ عنہ کے نام

مکتوبات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 5 حاشیہ
۱؎ نواب صاحب نے اس واقعہ کواپنی نوٹ بک میںدرج کیا تھا اور محمد حسین صاحب وزیر پٹیالہ کو بھی میرے سامنے اپنی کتاب دکھائی تھی۔ وزیر صاحب کی مجلس میں بیٹھنے والے لوگ اور لدھیانہ کے کئی آدمی اس واقعہ کی گواہ ہیں۔
؎۱۔نبی اسرایئل کے چار سو بنی نے ایک بادشاہ کی فتح کی نسبت خبر دی اور وہ غلط نکلی یعنی بجائے فتح کے شکست ہوئی۔ دیکھو سلاطین اوّل باب ۲۲آیت ۱۹ ۔مگر اس عاجز کی پیشگوئی میں کوئی الہامی غلطی نہیں۔الہام نے پیش از وقوع لڑکا پیدا ہونا ظاہر کیا کہ انسان کے احتیار سے باہر تھا۔سولڑکا پیداہوگیا۔اورالہام نے اس لڑکے کی ذاتی فضیلتیں توبیان کیں۔مگر کہیں نہیں بتلایاکہ وہ ضرور بڑی عمر پاوے گا۔بلکہ یہ بتلایا کہ بعض لڑکے کم عمری میں فوت ہونگے دیکھو اشتہار۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء ہاں الہام نے پیش ازوفاتِ بشیر یہ بھی کھول دیا کہ ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا۔جس کا نام محمود ہے۔دیکھواشتہار ۱۰؍جولائی ۱۸۸۸ء سواگر ابتدا ء میں دولڑکوں کوا یک لڑکا سمجھا گیا ۔توحقیقت میں یہ کچھ غلطی نہیں کیونکہ اس غلطی کو پہلے لڑکے کی موجودگی میں ہی الہام نے رفع کردیا۔
؎۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب تم جانتے ہو کہ حکماء کا رجوع کرنا اور ہمارے ساتھ ہونا غلط نہیں ہے۔ ایک تو حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب ہیں جو ان سے کم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ کر ہی ہیں۔
اور ایسا ہی مولانا حضرت سید محمد احسن ہیں جنہوں نے رسالہ اعلام الناس چھپوا کر ہمارے دعوے کی تصدیق میں بھیجا ہے حالانکہ ان کی اور ہماری ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی اور یہ کیسا عجیب رسالہ کہ اس میں ہمارا مافی الضمیر دیا ہے اور اس میں ہمارا اور مولوی صاحب کا فوارد ہو گیا ہے اور وہ ایک اور مولوی بھی لئے تھے جو مجھے اس وقت یاد نہیں میںسید
؎ ۔یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خادمہ جو دادی کے نام سے مشہور تھیں۔ مرتب
؎۔ بیوہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم
؎۔ حضور کے اصل خط میں یہ الفاظ اسی طرح ہی لکھے ہوئے ہیں۔
؎۔ مولوی عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ آفتاب جن کے درمیان کچھ تھوڑا سا فاصلہ تھا مغرب کی طرف سے چڑھے اور نصف النہار تک پہنچتے ہیں۔سو جب حضور نے اس خواب کی یہ تعبیر کی تو اس میں ’’اکابر دین جن سے فائدہ دین کا پہنچنے‘‘ کے الفاظ سے میں اس وقت یہ بات سمجھا کہ ایک آفتاب تو خود حضور میں اور دوسرے آفتاب کے لئے متبظر تھا۔ جب حضور نے ہوشیار پور سے پسر موعود کا اشتہار دیا تو اس وقت مجھ کو بہت خوشی ہوئی اور مجھے یقین ہو گیا کہ دوسرا آفتاب یہی ہے او راس کو بخوبی دیکھو گا۔ سو الحمداللہ کہ میں نے یہ دوسرا آفتاب بھی دیکھ لیا۔ جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفہ ثانی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ ۱۲
؎۔ جس اشتہار کا اس خط میں ذکر ہے۔ یہ وہ اشتہار ہے جو سرمہ چشم آریہ۔ وشحنہ حق و آئینہ کمالات اسلام و برکات الدعا کے اخیر میں بھی لگا کر شائع کیا گیا تھااور جس کے ایک صفحہ پر اردو مضمون متعلق براہین احمدیہ ودعوے ماموریت و مجددیت ہے او ردوسرے صفحہ پر اسی اردو مضمون کا انگریزی میں ترجمہ ہے اور جس خط کا ا س میں ذکر ہے یہ وہ خط ہے جو اشتہار مذکورہ کے ساتھ حضور نے مختلف مذاہب کے لیڈروں او رپیشواؤں کے نام رجسڑڈ کرا کر بھیجا تھا او رجس میں دو ہزار چار سو روپیہ ایک سال کے لئے بغرض نشان دیکھنے کے لئے یہاں آکر رہنے والے غیر مذہب کے ممتاز لوگوں کو دینے کا ذکر ہے۔
؎۔ مصنف عصادے موے۔
؎۔یہاں پر ’’بیمار ‘‘ کالفظ اصل خط میں ہی رہ گیا ہے۔ اس لئے یہاں جگہ خالی چھوڑی گئی ہے۔ ۲۔بشیر اوّل۔
؎۔مولوی صاحب کا نکاح ثانی ۱۲۔
؎۔ مولوی عبدا للہ صاحب کا نکاح ثانی ۱۲۔
؎۔ چار ہزار روپیہ والا اشتہار جو ا تہم کے متعلق شائع فرمایا تھا ۱۲۔
؎۔ مولوی عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ جن الفاظ کے طرف حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اشارہ فرمایا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مجھے اپنا نام ’’عبداللہ ‘‘لکھتے ہوئے اپنی حالت پر نظر کر کے شرم آئی اور میں نے اپنے خیال میں نظر کر کے خط کے نیچے اپنا نام بجائے عبداللہ لکھنے کے ’’عبدالشیطان ‘‘لکھ دیا جن پر حضور نے ہدایت فرمائی۔ ۱۲
؎۔ مولوی عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ میاں غلام قادر میرے رشتہ کے بھائی تھے۔ انہیں مرض سل ہوگئی ھؤتھی اور بہت دبلے ہو گئے تھے۔ جس پر بغرض علاج از حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ میں انہیں یہاں لے آیا تھا۔ حضرت اقدس نے بھی ان کے لئے ایک نسخہ تجویز فرمایا تھا۔ مگر وہ جانبر نہ ہوئے او رواپس سنور پہنچ کر وفات پا گئے۔
؎۔سیٹھ عبدا لرحمن صاحب مدراسی۔ ۱۲
؎۔اس خط میں تین جگہ پر کچھ عبادت کٹی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس اصل خط کا اتنا حصہ جدا ہو کر کہیں ضائع ہو گیا ہوا ہے۔ ان کٹی ہوئی سطروں سے پہلی اور اور پھٹی ہوئی سطر کی کٹی ہوئی عبادت کے متعلق اندازہ سے بھی کچھ نہیں لکھا جا سکتا ہے۔ دوسری سطر کے کٹے ہوئے حصہ کا مفہوم جیسا کہ مولوی عبداللہ صاحب نے بتایا۔ یہ تھا کہ ’’دراز کرے اس کانام برکت اللہ ‘‘تیسری جگہ کے اس حصہ کامفہوم مولوی صاحب نے بتایا کہ ’’اس کا عقیقہ کیا۔‘‘ اور چوتھی کا’’ ترو کے بجائے ایک ایک رکابی کے نے اور پانچویں کا ’’خوش ہوئے خدا تعالیٰ۔‘‘
؎۔مولوی عبداللہ صاحب کے ماموں زاد بھائی تھے۔۱۲۔
؎۔مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضور کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرماکر رحمۃا للہ کوا پنے فضل سے صحت و عافیت بخشی۔ الحمد للہ علیٰ ذلک ۱۲۔
؎۔ان دو شعروں میں کاغذ کے بوسیدہ ہو کر پھٹ جانے کے سبب پہلے دو لفظ معلوم نہ تھے۔منشی احمد ظفر صاحب نے نقل کے وقت سیاق و سباق کے مطابق یہ الفاظ لکھ دئیے ہیں۔
؎۔ اگر لفظ سیاق میں جس کے معنے روانگی ہیں۔ شاید جائز ہو تو سیاقت ہے۔ ورنہ لیاقت۔
(ظفر احمد)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم

مکتوبات احمدیہ
(جلد ہفتم حصہ اوّل)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوبات بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحب،
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی و محترم محمد ابراہیم خاں صاحب (سندھ)
و دیگر اصحاب
مرتبہ
ملک صلاح الدین ایم۔ اے قادیان
مُؤلف
اصحاب احمد جلد اوّل و دوم و مکتوبات احمد جلد اوّل و دوم
بار اوّل تعداد پانچصد قیمت
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
وَعَلٰی عَبْدہٗ اَلمسیح الموعود مع السَّلیم
پیش لفظ
لِلّٰہِ الحمد والمنۃ کہ حضرت مسیح موعود علیہ وعلیٰ مطاعہٖ الصلوٰۃ والسلام کے ۱۸۹۲ء سے ۱۹۰۸ء تک کے اکاون مکتوبات کی تالیف کی توفیق پا رہا ہوں کہ جن میں سے نہ صرف چونتالیس خطوط ہی بلکہ بعض میں مندرجہ وحی پہلی بار خاکسار ہی کے ذریعہ شائع ہوئی۔ اس وحی کے علاوہ جو کہ سلسلہ کے دیگر لٹریچر میں نہیں آئی تھی مطبوعہ وحی میں سے ایک حصہ کی غیر مطبوعہ تفصیل بھی ان سے حاصل ہوئی ہے چونکہ امتداد زمانہ سے مکتوبات دریدہ یا ان کی تحریر کے نقوش مدہم ہوتے جا رہے ہیں اس لئے سولہ عدد خطوط کے بلاک اور تئیس عدد خطوط کے چربے بھی شائع کرتا ہوں۔ ان میں چھ ایسے خطوط کے بلاک اور چربے بھی شامل ہیں جو قبل ازیں مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم اور الحکم میں شائع ہو چکے ہیں اور ایک نواب صاحب کے نام کا خط ہونے کی وجہ سے الحکم سے نقل کیا ہے کیونکہ وہ مکتوبات احمدیہ میں اب تک شائع نہ ہوا تھا۔
حضور کے مکتوبات مسائل تصوف، مواعیظ و حکم، الہامات و کشوف، تاریخ سلسلہ اور آپ کے اسوہ حسنہ کا ایک لاثانی ذخیرہ ہے اور وحی اور تاریخ کا ایک کثیر حصہ صرف انہی سے دستیاب ہوتا ہے۔ ان کے محفوظ کرنے کا سہرا حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی موسس و ایڈیٹر الحکم کے سر ہے۔ آپ نے حضور کے عصر سعادت سے ہی اس طرف پوری توجہ کی اور سلسلہ کے اوّلین اخبار الحکم کے ذریعہ اِن خطوط کو نیز حضور کے ملفوظات، الہامات اور تاریخ سلسلہ کو اور بعد ازاں مکتوبات احمدیہ کی شکل میں مرتب کر کیان خطوط کو شائع کرنے کی توفیق پائی۔ ایسے مفید امور کی سرانجام دہی کی بناء پر ہی الحکم حضور کی طرف سے اپنے دو بازؤں میں سے ایک قرار پایا تھا۔ مکتوبات احمدیہ کے تسلسل کو قائم رکھنے کیلئے خاکسار نے حضرت عرفانی صاحب سے اس سلسلہ کی ایک جلد اسی نام سے شائع کرنے کی اجازت چاہی تھی آپ چونکہ بصد شوق اس کام کی تکمیل کے متمنی ہیں۔ آپ نے ازراہ کرم اجازت عنایت فرما دی ہے۔ فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء فی الدنیا والاخرۃ۔ میری نیت صرف یہ ہے کہ انقلاب کے ہاتھوں ایک کثیر حصہ غیر مطبوعہ خطوط وغیرہ کا ضائع ہو چکا ہے جو ابھی تک بچا ہوا ہے اسے طبع کر کے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا جائے کیونکہ نہ معلوم وہ کب تک اصلی شکل میں محفوظ رہ سکے گا۔ بسا اوقات خود احباب یا ان کی اولاد کی پوری توجہ نہیں رہتی اور ایسی انمول چیزیں ہمیشہ کیلئے ضائع ہو جاتی ہیں۔ احباب سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کام کو پوری سرگرمی، محنت و توجہ سے سرانجام دینے کی توفیق عطا کرے اور اس کے لئے اسباب مہیا فرمائے اور اس کام کو میرے لئے باعث برکت اور ذریعہ اجر و ذُخر بنائے۔ آمین
میں شروع سے اس خیال سے بے نیاز ہو کر تصنیف کا کام کر رہا ہوں کہ دوست خرید کر حوصلہ افزائی کرتے ہیں یا نہیں۔ اصحاب احمد جلد دوم اور مکتوبات اصحاب احمد جلد اوّل قریباً نو ہزار روپیہ کے صرف کثیر سے خاکسار نے شائع کیا لیکن پانچ چھ صد روپیہ سے زیادہ قیمت کی وہ فروخت نہیں ہوئیں۔ اندریں حالات جب کہ پہلے ہی قرض خواہوں کے مطالبات جان لیوا ثابت ہو رہے ہوں کسی کتاب کا شائع کرنا تو کجا اس کی تالیف کاخیال بھی دماغ میں نہیں سمانا چاہئے۔ لیکن خاکسار نے نہ صرف یہی کتاب تیار کی ہے بلکہ صحابیات جلد اوّل، مکتوباب اصحاب احمد جلد دوم، اصحاب احمد جلد سوم اور بعض اور مفید کتب تیار کی ہیں جن کی قریب کے عرصہ میں ہی تکمیل ہو جائے گی اور جب بھی کسی صاحب وسعت کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی شائع ہو جائیں گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ خاکسار نے قریباً تین صد روپیہ کے اخراجات سے یہ بلاک اور چربے وغیرہ تیار کئے ہیں چونکہ بیک وقت ایک ہی جلد میں سارے خطوط شائع ہونے سے کتاب بہت ضخیم ہو جائے گی اس لئے صرف ایک حصہ ابھی شائع کیا جا رہا ہے۔بعد ازاں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حصہ دوم کے طور پر بقیہ مواد شائع کر دیا جائے گا یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے اخویم محترم مولوی محمد اسماعیل صاحب وکیل یادگیر (دکن) کے دل میں یہ تحریک ڈالی ہے کہ وہ اس تالیف کی اشاعت کا انتظام فرمائیں۔ آپ شروع سے میری ہر تالیف کے للہ اور پوری سرگرمی سے تعاونوا علی البر والتقوی والی سیرت کو اختیار کرکے پوری معاونت فرماتے رہے ہیں چنانچہ آپ کی تحریک سے اخویم محترم نے بصرف کثیر اس کتاب کو شائع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص کو قبول فرمائے اور جس طرح انہوں نے ان مکتوبات کے خفوظ کرنے کی سعی فرمائی ہے اللہ تعالیٰ ان کے دین و دنیا کی حفاظت کرے اور ان کو حسنات دارین سے متمتع فرمائے۔آمین
بلاک خاکسار نے نہایت محنت سے اور بار ہا اس کا مقابلہ کر کے اور اصلاح کرا کے تیار کرائے ہیں۔ قارئین کرام کے یہ امر مدنظر رہے کہ بلاک اور چربوں میں نقل پوری مطابق اصل نہیں ہوتی۔ چربوں میں اگر تاریخ خطوط کے مطابق نہ ہو تو خطوط کی تاریخ کو صحیح سمجھا جائے اس لئے کہ چربہ سے حروف اُڑنے کا بہت امکان ہوتا ہے۔ جو خطوط اصحاب احمد جلد دوم سے یہاں درج کئے گئے ہیں ان کی بھی دوبارہ تصحیح کی گئی ہے اس لئے اختلاف کی صورت میں مجموعہ ہذا قابلِ ترجیح ہے۔
والسلام
خاکسار
ملک صلاح الدین
دارالمسیح قادیان
بتاریخ ۱۰؍ صلع ۱۳۳۳ہش مطابق ۱۰؍ جنوری ۱۹۵۴ء





حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے نام
تعارفی نوٹ
ذیل کے خطوط حضرت نواب محمدعلی خاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رئیس مالیر کوٹلہ کے نام ہیں۔ آپ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں آٹھویں نمبر پر کیا ہے اور تفصیل سے حالات درج کر کے آپ کے اخلاص کی تعریف کی ہی ہے۔ آپ کی بیعت ۱۹؍ نومبر ۱۸۹۰ء کی ہے۔ آپ ان خوش قسمت صحابہ کرام میں سے ہیں کہ جن کا نام ۳۱۳ صحابہ میں نہ صرف ایک بار کمالات اسلام میں آیا بلکہ دوسری بار ضمیمہ انجام آتھم میں بھی درج ہوا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ امۃ الحمید بیگم صاحبہ کو حضور نے اپنی بیٹی بنایا بالآخر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے عقد کر کے آپ کو اپنی فرزندی میں لیا۔ بعد میں آپ کے صاحبزادہ حضرت نواب محمد عبداللہ خاں صاحب بھی حضرت صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ سے عقد ہونے پر حضور کی فرزندی میں آ گئے اس طرح یہ خاندان حضرت عثمانؓ ذوالنورین کا مماثل ہو گیا۔ نواب صاحب کی اولاد میں سے کئی صاحبزادیاں حضور کے خاندان میںبیاہی جا کر ’’خواتین مبارکہ‘‘ میں شمار ہو چکی ہیں اور آپ کی اولاد میں سے کئی صاحبزادگان کی حضور کے خاندان میںشادیاں ہوئی ہیں۔ آپ کی ایک صاحبزادی حضور کے مبشر بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے عقد میں آئیں۔ نواب صاحب دسمبر ۱۹۰۱ء میںہجرت کر کے قادیان چلے آئے او رعرصہ دراز تک سلسلہ کی مختلف رنگ میںقابلِ قدر خدمات سرانجام دیں۔ آپ کو حضور نے تحریر فرمایا کہ:۔
’’میں آپ سے محبت رکھتا ہوں اور آپ کو ان مخلصین میں سے سمجھتا ہوں جو صرف چھ سات آدمی ہیں‘‘۔
نیز یہ بھی تحریر فرمایا کہ
’’میں آپ سے ایسی محبت رکھتاہوں جیسا کہ اپنے فرزندِ عزیز سے محبت ہوتی ہے اور دعا کرتاہوں کہ اس جہان کے بعد بھی خدا تعالیٰ ہمیں دارالسلام میں آپ کی ملاقات کی خوشی دکھاوے‘‘۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے ’’حجۃ اللہ‘‘ کے لقب سے نوازا۔ آپ ۱۰؍ فروری ۱۹۴۵ء کو فوت ہوئے اور اب بہشتی مقبرہ میں آرام فرماتے ہیں۔
آپکے نام حضور کے باسٹھ خطوط حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم میں اور ایک جلد پنجم نمبر پنجم میں شائع فرمائے تھے اس لئے یہاں ۶۴ سے نمبر شروع کیا گیا ہے۔ ۲۴؍۱ وغیرہ میں اوپر کے نمبر کتاب ہذا کے تربیتی نمبر اور نچلے نمبر مکتوب الٰہیہ کے نام تربیتی نمبر نمبر کو ظاہر کرتے ہیں۔ میںحضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بے حد ممنون ہوںجنہوں نے ازراہِ کرم مجھے ان مکتوبات کے بلاک اور چربے بنوانے کا موقعہ عنایت فرمایا اور بعض کی نقول دکھائیں۔ فجزاھا اللّٰہ احسن الجزاء







بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱
۶۴
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
کل عنایت نامہ پہنچ کر اس کے پڑھنے سے جس قدر دل کو صدمہ پہنچا اللہ تعالیٰ جانتاہے لیکن پھرخدا تعالیٰ کی یہ آیت یاد آئی کہ لاتیئسوُا مَنْ رَّوح اللّٰہ اِنَّہُ لایئیسُ مَنْ رَّوْح اللّٰہ اِلاَّ القوم الکفرون۔ یعنی خدا کی رحمت سے نومیدمت ہو کہ نومید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں۔ میںجانتا ہوں کہ یہ دن تمام دنیا کے لئے ابتلاء کے ہیں۔ آسمان پر بارش کا نشان نہیں اس لئے زمینداروں کی حالت زوال کے قریب ہو رہی ہے اور ایک ایسے رئیس جن کی تمام جمیعت زمینداری آمدنی پر موقوف ہے وہ بھی سخت خطرہ میں ہیں لیکن پھر بھی یہ فقرہ بہت مضبوط ہے خداداری چہ غم داری۔ ہمت مردانہ رکھنا چاہئے۔ بڑے بڑے بادشاہ ہیں جو اسلامی بادشاہ ہوئے ہیں کبھی سخت سرگردانی میں پڑے اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے دوسری حالت سے پہلی اچھی ہوگئی۔ میں آپ کے لئے انشاء اللہ القدیر اس قدر دعا کرنا چاہتا ہوں جب تک صریح اور صاف لفظوں میں خوشخبری پاؤں۔ آپ تسلی رکھیں اور میرے نزدیک آپ کو قادیان میں آنے سے کوئی بھی روک نہیں ہرگز مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ آپ کمشنر صاحب کو پوچھیں اور اُن سے اجازت چاہیں۔ اس میں خود شک پیدا ہوتا ہے۔ بعض حکاّم شکی مزاج ہوتے ہیں پوچھنے سے خواہ مخواہ شک میں پڑتے ہیں۔ جہاں تک مجھے علم ہے حکام کو…۱؎ کوئی خطرناک بدظنی نہیں ہے۔ ہماری جماعت کے ملازمین کو برابر ترقیاں مل رہی ہیں۔ ان کی کارروائیوںپر حکام خوشی ظاہر کرتے ہیں۔سو یہ ایک وہم ہوگا اگر ایسا خیال کیا جائے کہ حکاّم بدظن ہیں۔ اس لئے بلا تامل تشریف لے آویں میرے نزدیک کچھ مضائقہ نہیں۔ ہم سچے دل سے گورنمنٹ کے خیر خواہ ہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار۔مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۲؍ فروری ۱۸۹۲ء
۱؎ اس جگہ ورق مکتوب اُڑا ہوا ہے کچھ حصہ جو نظر آتا ہے اس سے یہاں لفظ ’’طرف‘‘ یا ’’طرف سے‘‘ معلوم ہوتا ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲
۶۵ ۲۵؍ مارچ ۱۸۹۳ء
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آپکے دو عنایت نامے پہنچے یہ عاجز بباعث شدت کم فرصتی و علالت طبع جواب نہیں لکھ سکا اور نیز یہ بھی انتظار رہا کہ کوئی بشارت کھلے کھلے طور پر پا لینے سے خط لکھوں چنانچہ اب تک آپ کے لئے جہاں تک انسانی کوشش سے ہو سکتا ہے توجہ کی گئی اور بہت سا حصہ وقت کا اسی کام کے لئے لگایا سو ان درمیانی امور کے بارے میں اخویم مرزا خدا بخش صاحب اطلاع دیتے رہے ہوں گے اور آخر بار بار کی توجہ کے بعد الہام ہوا وہ یہ تھا اِنَّ اللّٰہ عَلی کُل شئی قَدیْر۔ قل قوموا لِلّٰہ فانتین یعنی اللہ جلشانہٗ ہر یک چیز پر قادر ہے کوئی بات اس کے آگے اَن ہونی نہیں انہیں کہہ دو…… جائیں اور یہ الہام ابھی ہوا ہے اس الہام میں جو میرے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے فعلی طور پر کئے وہ یہی ہیں کہ ارادہ الٰہی آپ کی خیر اور بہتری کے لئے مقدر ہے لیکن وہ اس بات سے وابستہ ہے کہ آپ اسلامی صلاحیت اور التزام صوم و صلوٰۃ و تقویٰ و طہارت میں ترقی کریں۔ بلکہ ان شرائط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امر مخفی نہایت ہی بابرکت امر ہے جس کے لئے یہ شرائط رکھے گئے ہیں مجھے تو اس بات کے معلوم کرنے سے بہت خوشی ہوئی ہے کیونکہ اس میں آپ کی کامیابیوں کے لئے کچھ نیم رضا سمجھی جاتی ہے اور یہ امر تجربہ سے ثابت ہو گیاہے کہ اس قسم کے الہامات اس شخص کے حق میں ہوتے ہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ ارادۂ خیر فرماتا ہے۔ اس عالم سفلی میں اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی معزز عہدہ کا خواہاں ہو…… وقت اس کو اس طور… دے کہ تم امتحان دو ہم تمہارا کام کر دیں گے۔ سو خدا تعالیٰ آپ میں اور آپ کے دوسرے اقارب میں ایک صریح امتیاز دیکھنا چاہتا ہے اور چونکہ آپ کی طبیعت بفضلہ تعالیٰ نیک کاموں کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے اس لئے یہی امید کی جاتی ہے کہ آپ اپنے مولیٰ کریم کو خوش کریں گے۔ میں نے مرزا خدا بخش صاحب کو رمضان کے دنوں تک اس لئے ٹھہرا لیا ہے کہ تا پھر بھی ان مبارک دنوں میں وقتاً فوقتاً آپ کے لئے دعائیں کی جائیں۔ مجھے ایسا الہام کسی امر کی نسبت ہو تو میں ہمیشہ سمجھتا ہوں کہ وہ ہونے والا ہے۔ اللہ جل شانہ طاقت سے زیادہ کسی پر بار نہیں ڈالتا بلکہ رحم کے طور پر تخفیف کرتا ہے اور ہنوز انسان پورے طور پر اپنے تئیں درست نہیں کرتا کہ اس کی رحمت سبقت کر جاتی ہے گویا نیک بندوںکے لئے یہ بھی ایک امتحان ہوتا ہے۔ چونکہ اللہ جل شانہ بے نیاز ہے نہ کسی کی اس کو حاجت ہے اور نہ کسی کی بہتری کی اس کو ضرورت ہے اس لئے جب…… فرماتا ہے کہ کسی بندہ پر فیضان نعمت کرے تو ایسے وسائل پیدا کردیتا ہے جس کی رُو سے اس نعمت کے پانے کے لئے اس بندہ میں استحقاق پیدا ہو جائے تب وہ بندہ خدا تعالیٰ کی نظر میںجوہر قابل ٹھہر کر مورد رحم بننے کیلئے لیاقت پیدا کر لیتا ہے سو اس خیال سے بے دل نہیں ہونا چاہئے کہ ہم کیونکر باوجود اپنی کمزوریوں کے ایسے اعلیٰ درجہ کے اعمال صالحہ بجا لاسکتے ہیں جن سے خدا تعالیٰ کو راضی کر سکیں اورہرگزخیال نہیں کرنا چاہئے کہایسی شرط تعلیق بالمحال ہے کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو جن کیلئے خیر کا ارادہ فرماتا ہے آپ توفیق دے دیتا ہے۔ مثل مشہور ہے ہمت مرداں مدد خدا سو نیک کاموں کیلئے بدل وجان جہاں تک طاقت ہے متوجہ ہوناچاہئے۔ خداتعالیٰ کو ہر ایک چیز اور ہر ایک حال اور ہر ایک شخص پر مقدم رکھ کر نماز باجماعت پڑھنی چاہئے کہ قرآن کریم میںبھی جماعت کی تاکید ہے۔ اگر نانفراد نماز پڑھنا کافی ہوتا تو اللہ جلشانہٗ یہ دعا سکھلاتا کہ اھدنا الصراط المستیم بلکہ یہ سکھاتا اھدنی الصراط المستقیم اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ کونوا مع الصادقین… مع الراکعین اور واعتصموا بحبل اللّٰہ جمعیا ان تمام آیات میں جماعت…… سو اللہ جلشانہٗ کے احکام میں کسی سے شرم نہیںکرنا چاہئے۔ تقویٰ کے یہ معنی ہیں کہ اس …… قائم ہو جائے کہ پھر اس کے مقابل پر کوئی ناموس یا ہتک یاعار یا خوفِ خلق یا کسی کے لعن و طعن کی کچھ حقیقت نہ رکھے۔ ایمان تقویٰ کے ساتھ زندہ ہوتا ہے اور جو شخص خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے شخص یا کسی دوسری چیز کو یا کسی دوسرے خیال کو کچھ حقیقت سمجھتا ہے اور اس سے ڈرتا ہے وہ تقویٰ کے شعار سے بالکل بے بہرہ ہوتا ہے۔ ہمارے لئے کامل خدا بس ہے۔
والسلام
مرزا غلام احمد
نوٹ از مرتب: مجھے اس کی نقل دیکھنے کا موقعہ ملا ہے جس پر مرقوم ہے کہ اصل مکتوب جس جس جگہ دریدہ ہے وہاں نقطے ڈال دئے گئے ہیں۔ اس الہام کوخاکسار ہی کو پہلی بار شائع کرنے کی توفیق ملی ہے اس سے قبل لٹریچر میں موجود نہ تھا فالحمدللّٰہ ذٰلک الہام کے بعد جو حصہ مکتوب کا دریدہ ہے وہ الہام کے ترجمہ کا ہی حصہ معلوم ہوتا ہے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۳
۶۶
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آپ کا محبت نامہ پہنچا۔ اس وقت صرف ایک اشتہار دو ہزار روپیہ جو شائع کیاگیاہے آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں اور دوسرے امور میںپھر کبھی انشاء اللہ القدیر مفصل خط لکھوں گا۔ حاجی سیٹھ عبدالرحمن نے تار کے ذریعہ سے مجھ کو خبر دی کہ میں مخالف کی درخواست پر ایک ہزار روپیہ بلاتوقف دے دوں گا اور امید ہے کہ وہ دو ہزار روپیہ بھی قبول کر لیں گے۔ ورنہ یقین ہے کہ ایک ہزار روپیہ مولوی حکیم نورالدین صاحب دے دیں گے چنانچہ اس بارے میں مولوی صاحب کا خط بھی آ گیا ہے۔غرض بہرحال دو ہزار روپیہ کا ایسا بندوبست ہو گیا ہے کہ بمجردّ درخواست آتھم صاحب بلاتوقف دیاجائے گا چونکہ پیشگوئی کے دو پہلو تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے میرے پر اپنے صریح الہام سے ظاہر کر دیا ہے کہ آتھم نے خوف کے ایام میں اسلام کی طرف رجوع کیا۔ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ اب وہ اپنے رجوع پر قائم نہیں کیونکہ دونوں فریق کی کتابوں سے یہ ثابت ہے کہ عادۃ اللہ اسی طرح پر واقع ہے کہ جب کوئی خوف کے وقت میں اپنے دل میں حق کو قبول کر لے یا حق کے رُعب سے خوفناک ہو جائے تو اُس سے عذاب ٹل جاتا ہے گو وہ فرعون کی طرف خوف دور ہونے کے بعد پھر سرکشی ظاہر کرے۔ غرض خوف کے دنوں میں حق کی طرف رجوع کرنا مانع نزولِ عذاب ہے خدا تعالیٰ کئی جگہ قرآن کریم میںفرماتا ہے کہ ہم نے فلاں فلاں قوم کا عذاب جو مقرر ہو چکا تھا ان کے خائف اور رجوع بحق ہونے کی وجہ سے ٹال دیا حالانکہ ہم جانتے تھے کہ پھر وہ امن پا کر کفر اور سرکشی کی طرف عود کریں گے۔ پھر جب کہ یہ امر ایک مسلم فریقین اور قطع نظر تسلیم فریقین کے شرط میں داخل ہے تو ایک منصف کے نزدیک اس کا تصفیہ ہونا چاہئے اور جب کہ صورت تصفیہ بجز آتھم صاحب کی قسم اور آسمانی فیصلہ کے اور کوئی نہیں تو اس طریق سے گریز کرنا حق سے گریز ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ اگست ۱۸۹۴ء
نوٹ از مرتب: دو ہزار انعام والے اشتہار کی تاریخ ۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ء تھی بلکہ آتھم والی پیشگوئی کی میعاد ہی ۴؍ ستمبر کو ختم ہوئی تھی اس لئے یہ مکتوب ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۴ء کا ہے گو سہواً اس پر ۲۲؍ اگست کی تاریخ درج ہوئی ہے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۴
۶۷
محبی اخویم نواب محمد علی خاں صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آں محب کا محبت نامہ پہنچا جو کچھ آپ نے اپنی محبت اور اخلاص کے جوش سے لکھا ہے درحقیقت مجھ کو یہی امید تھی اور میرے ظاہری الفاظ صرف اس غرض سے تھے کہ تا میں لوگوں پر یہ ثبوت پیش کروں کہ آں محب نے اپنے دلی خلوص کی وجہ سے نہایت استقامت پر ہیں۔ سو الحمدللہ کہ میں نے آپ کو ایسا ہی پایا۔ میں آپ سے ایسی محبت رکھتا ہوں جیسا کہ اپنے فرزند عزیز سے محبت ہوتی ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اس جہاں کے بعد بھی خدا تعالیٰ ہمیں دارالسلام میں آپ کی ملاقات کی خوشی دکھاوے اور جو ابتلا پیش آیا تھا وہ حقیقت میں بشریٰ طاقتوں کو اگر وہ سمجھنے سے قاصر ہوں معذور رکھتاہے۔ حدیبیہ کے قصہ میں ابن کثیر نے لکھا ہے کہ صحابہ کو ایسا ابتلا پیش آیا کہ کادوا ان یھلکوا یعنی قریب تھا کہ اُس ابتلاء سے ہلاک ہو جائیں۔ یہی ہلاک کا لفظ جو حدیث میں آیا ہے آپ نے استعمال کیا تھا۔ گویا اس بے قراری کے وقت میں حدیث کے لفظ سے توارد ہو گیا ہے بشریٰ کمزوری ہے جو عمر فاروقؓ جیسے قوی الایمان کو بھی حدیبیہ کے ابتلا میں پیش آ گئی تھی یہاں تک کہ اُنہوں نے کہا کہ عملت لذالک اعمالا یعنی یہ کلمہ شک کا جو میرے منہ سے نکلا تو میں نے اس قصور کا تدارک صدقہ خیرات اور عبادت اور دیگر اعمال صالحہ سے کیا۔ مولوی محمد احسن صاحب ایک جامع رسالہ بنانے کی فکر میں ہیں شاید جلد شائع ہوا اور مولوی صاحب یعنی مولوی حکیم نورالدین صاحب آپ سے ناراض نہیں آپ سے محبت رکھتے ہیں۔ شاید مولوی صاحب کو بشریت سے یہ افسوس ہوا ہوگا کہ آپ اوّل درجہ کے اور خاص جماعت میں سے تھے۔ آپ کے نزدیک یہ خیال تک آنا نہیں چاہئے تھا کیونکہ ہمارے غائبانہ نگاہ۱؎ میں آپ اوّل درجہ کے محبوں اور مخلصوں میں سے ہیں۔ جن کی روز بروز ترقیات کی امید ہے اور مولوی صاحب اپنے گھر کی بیماریوں کی وجہ سے بڑے ابتلا میں رہے ہیں اور ان کے گھر کے لوگ مر مر کے بچے ہیں اس لئے وہ زیادہ خط و کتابت نہیں کر سکے اور اب وہ شاید بیس روز سے سندھ کے ملک میں ہیں اور پھر غالباً بہاولپور میں جائیں گے اور اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب شاید ہفتہ عشرہ تک یہاں پر تشریف رکھتے ہیں اور اس عاجز کا نیک ظن اور دلی محبت آپ سے وہی ہے جو تھی اور امید رکھتا ہوں کہ دن بدن ترقی ہو۔ والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
نوٹ از مؤلف: آتھم کے متعلق پیشگوئی کی میعاد ۴؍ ستمبر ۱۸۹۴ء کو ختم ہوئی۔ اس پیشگوئی پر حضرت نوابؓ صاحب کو ابتلا آیا اور حضور کی خدمت میں ۷؍ ستمبر کو ایک خط لکھا جس کا جواب حضور نے جو تحریر فرمایا۔ حضرت عرفانی صاحب کے شائع کردہ مکتوباب احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم میں ساتویں نمبر پر ہے جس کے جواب میں نواب صاحب نے جو کچھ لکھا پھر اس کے جواب میں حضور نے مکتوب ہذا تحریر فرمایا مکتوب نمبر۷ میں ایک ہزاری انعام والے اشتہار کے چھپ جانے کا ذکر ہے اور ابھی انوارالاسلام کی صرف تصنیف ہوئی تھی طباعت نہ ہوئی تھی اور اشتہار دو ہزاری بھی ابھی معرض وجود میں نہ آیا تھا۔ سو مکتوب زیر بحث بھی اشتہار ایک ہزاری کے شائع ہونے کی تاریخ (۹؍ ستمبر ۱۸۹۴ء) اور اشتہار انعام دو ہزار کی تاریخ (۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ء) کے مابین عرصہ کا ہے۔
۱؎ یہ لفظ اصل مکتوب میں خاکسار سے پڑھا نہیں گیا اندازاً نگاہ سمجھا ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۵
۶۸
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
مبلغ… ۲۵۰ مرسلہ آں محب عین وقت ضرورت مجھ کو پہنچ گئے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔ باقی بفضلہ تعالیٰ سب خیریت ہے۔ ان دونوں میں جو شغل ہے اُن امور میں سے ایک یہ ہے کہ یہ عاجز یورپ اور جاپان کے لئے ایک تالیف کر رہا ہے جس میں علاوہ اسلامی تعلیم کے قرآنی تعلیم اور انجیل تعلیم کا مقابلہ کر کے دکھلایا جائے گا اور نیز ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور حضرت مسیح علیہ السلام کے اخلاق کا مقابلہ ہوگا۔ دوسرے یہ امر ہے کہ منن الرحمن کسی قدر چھپ کر رہ گیا ہے۔ اس کی تکمیل کے لئے بھی فکر کیا جاتا ہے اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو یہ سب مقاصد انجام پذیر ہو جائیں گے کہ ہر ایک قدرت اُسی کو ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۷؍ مارچ ۱۸۹۶ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۶
۶۹
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
بقیہ دو قطعہ نوٹ سَو سَو روپیہ آج کی ڈاک میں مجھ کو پہنچ گئے۔ جزاکم اللّٰہ خیراً پہلے اس سے بذریعہ ایک خط کے آپ کی خدمت میں اطلاع دی گئی تھی کہ علاوہ حساب اس جگہ کے جو چند ہفتوں کا بابت قیمت اینٹ و اُجرت معماران واجب الادا ہے مبلغ اسی روپیہ اور بابت لکڑی کے ہمارے ذمہ نکل آئے ہیں اگر بالفعل ایک سَو روپیہ اور پہنچ جائے تو چند ہفتہ تک پھر اس کشاکش سے مخلصی رہے۔ یہ عمارت کا کام ہے ایسی ہی تکالیف ساتھ رکھتا ہے۔ میرا دل پہلے سے رکتا تھا کہ اِس کو شروع کروں مگر قضاء و قدر سے شروع ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ اب اس کو انجام دیوے۔ دوسری منزل جو اصل مقصود تھی وہ بالفعل بباعث عدم سرمایہ ملتوی رہے گی آئندہ اللہ تعالیٰ جو چاہے ہوگا۔
کل۱؎ آں محب کا خدمت گار پہنچا۔ سفیر نے خود آرزو کی تھی کہ میں مالیر کوٹلہ دیکھوں۔ مجھے اس کی حقیقت پر اطلاع نہیں کہ وہ کیوں پھرتا ہے اور اس شہر بشہر کے دورہ سے اُس کی غرض کیا ہے اور میں اُس کی نسبت کوئی رائے ظاہر نہیں کر سکتا۔ آپ پر لازم ہے کہ آپ قواعد ریاست سے اِدھر اُدھر نہ ہوں اور سرکاری ہدایت کے پابند رہیں۔ شاید اگر مسافروں کی طرح آ جائے تو قومیت کے لحاظ سے معمولی خاطر داری میں مضائقہ نہیں مگر جو ریاست کی طرف سے اعزاز ہوتا ہے وہ کسی صورت میں بغیر اجازت گورنمنٹ نہیں چاہئے تا خواہ نخواہ اعتراض نہ ہو اور کوئی امتحان پیش نہ آوے بلکہ قوانین کی رعایت سے معمولی اخلاق کا برتاؤ کچھ مضائقہ نہیں۔
کریماں مسافر بجاں بردر اند
کہ نام نکو شاں بعالم برند
میں اس شخص کے اصل حالات سے واقف نہیں کہ کس طبیعت اور چال چلن کا آدمی ہے۔ظاہراً ایک دنیا دار پولیٹکل مَین ہے۔ روحانیت سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب
والسلام
خاکسار۔غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ مئی ۱۸۹۷ء
نوٹ از مرتب: تاریخ یکم مئی ہے یا ۱۱؍ مئی۔ حضور بعض جگہ تاریخ کے ساتھ خط بشکل خط ڈالتے ہیں بعض جگہ نہیں اگر یہ خط سمجھا جائے تو یکم مئی ہے ورنہ ۱۱؍ مئی، ۵؍ نومبر ۱۸۹۸ء کے مکتوب میں یہ خط حضور نے نہیں کھینچا مگر مارچ ۱۸۹۶ء کے مکتوب کی تاریخ کے ساتھ کھینچا ہے اس مکتوب سے یہ تو ظاہر ہے کہ حسین کامل سفیر ترکی کے قادیان آنے کے بعد کاہے۔ اس کی آمد کی معین تاریخ معلوم ہونے سے اس مکتوب کی تاریخ کی صحت کا علم ہو سکتا ہے۔ حضور کے ایک اشتہار سے صرف اس قدر علم ہو سکا ہے کہ اس نے قادیان سے واپسی کے بعد شیعہ اخبار ناظم الہند لاہور بابت ۱۵؍ مئی ۱۸۹۷ء میں حضور کی نسبت نامناسب باتیں شائع کی تھیں۔
۱؎ اصل مکتوب میںنیا پیرا نہیں۔ چونکہ اگلا مضمون الگ ہے اس لئے یہاں نیا پیرا شروع کر دیا گیاہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۷
۷۰
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آپ کو معلوم ہوگا کہ مولوی صاحب کے پانچ لڑکے ہو کر فوت ہوگئے ہیں اب کوئی لڑکا نہیں۔ اب دوسری بیوی سے ایک لڑکی پیدا ہوئی ہے اس صورت میں مَیں نے خود اس بات پر زور دیاکہ مولوی صاحب تیسری شادی کر لیں چنانچہ برادری میں بھی تلاش درپیش ہے۔ مگر میاں نور محمد کہیر والے کے خط سے معلوم ہوا کہ ان کی ایک ناکد خدا لڑکی ہے اور وہ بھی قریشی ہیں اور مولوی صاحب بھی قریشی ہیں اس لئے مضائقہ معلوم نہیں ہوتا کہ اگر وہ لڑکی عقل اور شکل اور دوسرے لوازم زمانہ میں اچھی ہو تو وہیں مولوی صاحب کے لئے انتظام ہو جائے۔ اپس اس غرض سے آپ کو تکلیف دی جاتی ہے کہ آپ کوئی خاص عورت بھیج کر اُس لڑکی کے تمام حالات دریافت کرا دیں اور پھر مطلع فرماویں اور اگر وہ تجویز نہ ہو اور کوٹلہ میں آپ کی نظر میں کسی شریف کے گھر میں یہ تعلق پیدا ہو سکے تو یہ بھی خوشی کی بات ہے کیونکہ اس صورت میں مولوی صاحب کو کوٹلہ سے ایک خاص تعلق ہو جاوے گا۔ مگر یہ کام جلدی کا ہے اس میں اب توقف مناسب نہیں۔ آپ بہت جلد اس کام میں پوری توجہ کے ساتھ کارروائی فرماویں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۶؍ جون ۱۸۹۷ء
نوٹ از مرتب: مکتوب دو صفحات کا ہے۔ اس سے قبل اسی مضمون کا خط حضرت حکیم مولوی فضل الدین صاحب بھیروی نے حضور کے ارشاد سے تحریر کیا۔ معلوم ہوتا ہے اُنہوں نے حضور کی خدمت میں ملاحظہ کے لئے پیش کیا ہوگا۔ تب حضور نے تاکید کی خاطر تفصیلاً مکتوب ہذا حکیم صاحب کے خط کی پشت پر نیز اگلے صفحہ پر تحریر فرمایا۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۸
۷۱
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سردار محمد علیؓ خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
عنایت نامہ مع روبکار پہنچا۔ میرے نزدیک چونکہ آپ کے تعلقات ریاست (سے٭) ہیں۔
پس کئی مصالح کی وجہ سے ایسے موقعہ پر آپ کا وہاں ہونا ضروری ہے لہٰذا اس جگہ آنا مناسب نہیں۔ چراغوں کا مساجد اور اپنے گھروں اور کوچوں اور نشست گاہوں میں روشن کرنا اور خیرات کرنا اور جلسہ میں شامل ہو کر شکر اور دعا کرنا یہ سب امور ایک محسن گورنمنٹ کے لئے جائز ہیں۔ مگر میں چونکہ اس جگہ اپنی جماعت کی طرف سے اِس نئی جماعت کے حالات کو گورنمنٹ پر ظاہر کرنے کیلئے اس موقعہ پر کوشش کرنا چاہتا ہوں اس لئے بہتر ہوگا کہ آپ ایک نقل اُس جگہ کی اپنی کارروائی کی ضرور میرے پاس بھیج دیں تا اس جگہ سے جو تحریر بھیجی جائے گی موقعہ مناسب پر اُس کا تذکرہ ہو سکے گا۔ زیادہ خیریت ہے۔ والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۶؍ جون ۱۸۹۷ء
نوٹ از مرتب: مکتوب ہذا ملکہ وکٹوریہ کی جوبلی کے تعلق میں ہے۔ نواب صاحب کی تحریر مالیر کوٹلہ میں اس ساٹھ سالہ جوبلی کے (جون ۱۸۹۷ء میں منائے جانے کے متعلق حضور نے اشتہار جلسہ احباب میں شائع فرما دی تھی۔


٭ خطوط واحدانی والا لفظ خاکسار مرتب کی طرف سے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۹
۷۲
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آں محب کی خدمت میں دو سَو روپیہ کے لئے بغرض بیباقی حساب معماران و مزدوران اور اینٹ وغیرہ کی نسبت لکھا گیا تھا۔ اب تک وہ روپیہ نہیں آیا اور روپیہ کی اشد ضرور ہے اس لئے مکلّف ہوں کہ براہ مہربانی (…) دو سو روپیہ ارسال فرمادیں تا دیا جائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس قدر خرچ کے بعد بھی کسی قدر حصہ نیچے کے مکان کی عمارت سے ناتمام رہ جائے گا مگر امر مجبوری ہے پھر جس وقت صورت گنجائش ہوگی کام شروع کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہر ایک امر اختیار میں ہے۔
اخویم مکرمی حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کے لئے مجھے ابھی تک آں محب کی طرف سے کچھ تحریر نہیں آئی۔ میں نے سنا ہے کہ مولوی صاحب نسبت اُنہیں کی برادری میں ایک پیغام اور آیا ہے اور ایک جگہ اور ہے۔ سو آپ کو یہ بھی تکلیف دی جاتی ہے کہ اگر وہ مقام جو آپ نے سوچا ہے قابل اطمینان نہ ہو یا قابل تعریف نہ ہو یا اُس کا ہونا مشکل ہو تو آپ جلد اس سے مطلع فرما دیں تا دوسرے مقامات میں سلسلہ جنبائی کی جائے۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۷؍ جون ۱۸۹۷ء


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۰
۷۳
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
اس سے پہلے دو خط آں محب کی خدمت میں بہ طلب مبلغ دو سَو روپیہ بجہت ضرورت مصارف عمارت لکھتے تھے اور انتظار تھاکہ وہ روپیہ دوچار روز تک آ جائے گا لیکن … ادائے قیمت اینٹ اور مزدوری معماروں نجاروں مزدوروں کیلئے اشد ضرورت پیش آ گئی ہے۔ اس وقت چونکہ کوئی صورت روپیہ کی نہیں ہو سکتی اس لئے مکلّف ہوں کہ آہ محب کی بہت مہربانی ہوگی کہ اس خط کے دیکھنے کے ساتھ ہی مبلغ دو سَو روپیہ جہاں تک جلد ممکن ہو ارسال فرماویں تا اس تنگی اور تقاضا سے نجات ہو۔ آئندہ عمارت بند کر دی جائے گی۔
آپ کا خط متعلق جلسہ جوبلی چھپ گیا ہے۔ باقی خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۷؍ جولائی ۱۸۹۷ء



۱؎ اس جگہ مکتوب دریدہ ہونے کی وجہ سے ایک لفظ اُڑ گیا ہے اس کا حرف الف باقی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لفظ ’’اب‘‘ یا’’اس وقت‘‘ ہوگا۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۱
۷۴
محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خاں صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
الحمدللہ جو آپ نے تجویز میموریل انگریزی کے بارے میں ارقام فرمائی تھی وہ انجام کو پہنچ گئی۔ اخویم مرزا خدا بخش صاحب لاہور میں باراں دن رہ کر ایک میموریل انگریزی میں باراں۱؎ صفحہ کا چھپوا لائے ہیں جو بفضلہ تعالیٰ نہایت مؤثر اور عمدہ معلوم ہوتا ہے اور ایک اُردو میں چھپ گیا ہے۔ اب انگریزی میموریل تقسیم ہو رہا ہے اور ارادہ کیا گیا ہے کہ پنجاب کے تمام حُکّام انگریز کو بھیجا جائے۔میری طبیعت چند روز سے بعارضہ زکام و نزلہ کھانسی بہت بیمار ہے۔ خواجہ کمال الدین صاحب اپنے کام پر چلے گئے ہیں۔ میں آپ سے یہ اجازت مانگتا ہوں کہ آپ براہ مہربانی کم سے کم ایک ماہ تک بعض متفرق کاموں کے لئے جو قادیان میں ہیں مرزا خدا بخش صاحب کو اجازت دیں تا وہ پہلے میموریل کو تقسیم کریں اور پھر بعد اس کے بقیہ کام منن الرحمن کی طرف متوجہ ہوں اگرچہ یہ کام اس قدر قلیل عرصہ میںہونا ممکن نہیں لیکن جس قدر ہو جائے غنیمت ہے۔ مگر ضروری امر ہوگا آں محب (کو٭)……… اگر مرزاصاحب کو کہیں بھیجنا منظور ہو یا کوئی اور ضروری کام نکلے تو بلاتوقف آپ کی خدمت میں پہنچ جائیں گے۔ میری طبیعت آپ کی سعادت اور رُشد پر بہت خوش ہے اور امید رکھتا ہوں کہ آپ اپنی تمام جماعت کے بھائیوں میں سے ایک اعلیٰ نمونہ ٹھہریں گے اس وقت میں بباعث علالت و پریشانی طبع زیادہ نہیںلکھ سکتا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۲؍ مارچ ۱۸۹۸ء (ب)
۱؎ نقل مطابق اصل یعنی اوپر صرف ۲ کاہندسہ اصل مکتوب میںمرقوم ہے۔
٭ مکتوب میں خطوط واحدانی کا لفظ خاکسار مؤلف کی طر ف سے ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۲
۷۵
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
کچھ مضائقہ نہیں آں محب مالیر کوٹلہ سے مضمون مکمل کرنے کے بعد ارسال فرماویں اگر دہ ہفتہ تک تاخیر ہو جائے تو کیا حرج ہے اور علیحدہ پرچہ میں نے دیکھ لیا ہے نہایت عمدہ ہے بہتر ہے کہ اس کو اس مضمون کے ساتھ شامل کر دیا جائے کل مع الخیر علی الصباح تشریف لے جاویں اللہ تعالیٰ خیرو عافیت سے پہنچائے۔ آمین
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۴؍ جولائی ۱۸۹۸ء
نوٹ از مرتب: خاکسار کو یہ اصل مکتوب نہیں ملا۔ ایک نقل سے نقل کیا ہے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۳
۷۶
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سردار محمد علی خان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آپ کی نئی شادی کے مبارک ہونے کے لئے میںنے بہت دعا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرماوے۔ عارضہ جذام جو اُن کے والد صاحب کو تھا یہ عارضہ درحقیقت سخت ہوتا ہے اور سخت اندیشہ کی جگہ۔ اس لئے برعایت ظاہر یہ بھی مناسب ہے کہ خون کی اصلاح کے لئے ہمیشہ توجہ رہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ میں ایک دوا تجویز کروں گا اس دوا کوہمیشہ استعمال کریں۔ عمر تک استعمال ہو انشاء اللہ اس سے بہت فائدہ ہوگا اور تیز چیزیں اور تیز مصالح وغیرہ اور کثرت شیرینی سے ہمیشہ پرہیز رکھیں اور آپ بھی ہمیشہ دعا کرتے رہیں۔ میں آج بیمار ہوں زیادہ نہیں لکھ سکتا۔مرزا خدا بخش صاحب کا لیکا ابھی تک خطرناک حالت میں ہے۔ ظاہراً زندگی کا خاتمہ معلوم ہوتا ہے جان کندن کی سی حالت ہے۔ خدا تعالیٰ رحم فرماوے۔ میرے ہاتھ میں چوٹ آگئی ہے اور تپ بھی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۵؍ نومبر ۱۸۹۸ء
نوٹ از مرتب: اس تہنیتی مکتوب کی تاریخ ۵؍ نومبر ۱۸۹۸ء میں سہو ہے۔ اہلیہ اوّل کی وفات کے بعد حضرت نواب صاحب نے مرحومہ کی بہن سے شادی کی تھی۔ مرحومہ ابھی زندہ زندہ تھیں کہ ۸؍ نومبر ۱۸۹۸ء کو حضو رنے ان سے حسن سلوک کی نواب صاحب کو تلقین فرمائی (مکتوب مندرجہ الحکم جلد۷ نمبر۳۲) اور مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم میں مندرجہ مکتوبات سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحومہ کے بطن سے ایک بچہ کے تولد پر حضور نے ۱۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء کو مبارکباد کا خط تحریر فرمایا۔ (۱۹) گو ۸؍نومبر ۱۸۹۸ء کو مرحومہ کی وفات پر بھی حضور کا خط لکھنا درج ہے۔ (۲۵) لیکن یہ تاریخ درست درج نہیں ہوئی دارصل ۱۸؍نومبر ۱۸۹۸ء ہے۔ ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء کو حضور نے نواب صاحب کو جلد تر شادی کرنے کی تاکید فرمائی۔ (مکتوب نمبر۲۴) اس لئے یہ زیر بحث تہنیتی مکتوب ۲۵؍ نومبر ۱۸۹۸ء کا ہی ہو سکتا ہے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۴
۷۷
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
اس سے پہلے جواب آں محب بھیجا گیا ہے جواب کا منتظر ہوں کیونکہ وقت بہت تھوڑا ہے مجھے آپ کے لئے خاص توجہ خدا نے پیدا کر دی ہے۔ میں دعا میں مشغول ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو تمام تردّدات سے محفوظ رکھ کر کامیاب فرماوے۔ آمین۔ اخویم مکرم مولوی سید محمد احسن صاحب قادیان میں تشریف رکھتے ہیں اور اپنے وطن سے بغیر بندوست مصارف عیال کے ضرورتاً امرتسر میں آگئے تھے اور پھر قادیان آئے۔ ان کی تمام عیالداری کے مصارف محض آپ کی اُس وظیفہ سے چل رہے ہیں جو آپ نے تجویز فرما رکھا ہے۔ اگرچہ ایسے امور کو لکھتے لکھتے جب آپ کی وہ مالی مشکلات یاد آ جاتی ہیں جن کے سخت حملہ نے آپ پر غلبہ کیا ہوا ہے تو گو کیسی ہی ضرورت اور ثواب کاموقعہ ہو پھر بھی قلم یکدفعہ اضطراب میں پڑ جاتی ہے لیکن بایں ہمہ جب میں دیکھتا ہوں کہ میں آپ کے لئے حضرتِ احدیّت میں ایک توجہ کے ساتھ مصروف ہوں اور میں ہرگز امید نہیں رکھتا کہ یہ دعائیں خالی جائیںگی تب میں ان چھوٹے چھوٹے امور کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس قسم کے خیال قبولیتِ دعا کے لئے راہ کو صاف کرنے والے ہیں یہ تجربہ شدہ نسخہ ہے کہ مشکلات کے وقت حتی الوسع اُن درماندوں کی مدد کرنا جو مشکلات میں گرفتار ہیں دعاؤں کے قبول ہونے کا ذریعہ ہے۔ مولوی سید محمد احسن صاحب گذشتہ عمر تو اپنے محنت بازو سے بسر کرتے رہے۔ اب کوئی بھی صورت معاش نہیں۔ درحقیقت عیالداری بھی ایک مصیبت ہے۔ میں ان تردّدات میں خود صاحب تجربہ ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہر یک مشکل کے وقت جب کہ مہینہ ختم ہو جاتا ہے اور پھر نئے سرے ایک مہینے کیلئے دو سَو روپیہ کے آرد خشکہ اور دوسرے اخراجات کا فکر ہوتا ہے جو معمولی طور پر ۱۰۰۰ کے قریب قریب ماہوار ہوتے رہتے ہیں تو کئی دفعہ خیال آتا ہے کہ کیسے آرام میں وہ لوگ ہیں جو اس فکرو غم سے آزاد ہیں اور پھر استغفار کرتا ہوںاور یقینا جانتا ہوں کہ جو کچھ مالک حقیقی نے تجویز فرمایا ہے عین صواب ہے۔ سو درحقیقت خانہ داری کے تفکرات جان کو لیتے ہیں۔ لہٰذا مکلّف ہوں کہ آپ پھر یہ ثواب حاصل کریں کہ جو کچھ وظیفہ آپ نے مولوی صاحب موصوف کا مقرر فرما رکھا ہے اس میں سے مبلغ …۲۰ ان کے نام قادیان میں بھیج دیں اور باقی اُن کے صاحبزادہ کے نام جس کا نام سید محمد اسماعیل ہے بمقام امروہہ شاہ علی سرائے روانہ فرما دیں۔ خدا تعالیٰ جزائے خیر دے گا اور میرے نام جو آں محب نے روپیہ بھیجا تھا وہ پہنچ گیا تھا۔ جزاکم اللّٰہ خیراً والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۲؍ دسمبر ۱۹۰۰ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۵
۷۸
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آج بوقت چار بجے صبح کو میں نے ایک خواب دیکھا میں حیرت میں ہوں کہ اُس کی کیا تعبیر ہے میں نے آپ کی بیگم صاحبہ عزیزہ سعیدہ امۃ الحفیظ بیگم کو خواب میں دیکھا کہ جیسے ایک اولیاء اللہ خدا سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں اور ان کے ہاتھ میں دس روپیہ سفید اور صاف ہیں۔ یہ میرے دل میں گزرا ہے کہ دس روپیہ ہیں میں نے صرف دور سے دیکھتے ہیں تب انہوں نے وہ دس روپیہ اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی طرف پھینکے ہیں اور ان روپوں میں سے نور کی کرنیں نکلتی ہیں۔ جیسا کہ چاند کی شعاعیں ہوتی ہیں وہ نہایت تیز اور چمک دار کرنیں ہیں جو تاریکی کو روشن کر دیتی ہیں اور میں اُس وقت تعجب میں ہوں کہ روپیہ میں سے کس وجہ سے اس قدر نورانی کرنیں نکلتی ہیں اورخیال گزرتا ہے کہ ان نورانی کرنوں کا اصل موجب خود وہی ہیں۔ اس حیرت سے آنکھ کھل گئی۔ گھڑی بگڑی ہوئی تھی ٹھیک اندازہ نہیں ہو سکتا مگر غالباً چار بج گئے تھے اور پھر جلد نماز کا وقت ہو گیا۔ تعجب میں ہوں کہ اس کی تعبیر کیا ہے۔ شاید اس کی یہ تعبیر ہے کہ اُن کے لئے خدا تعالیٰ کے علم میں کوئی نہایت نیک حالت درپیش ہے۔ اسلام میں عورتوں میں سے بھی صالح اور ولی ہوتی رہی ہیں جیسا کہ رابعہ بصری رضی اللہ عنہا اور یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ شاید اس کی یہ تعبیر ہو کہ زمانہ کے رنگ بدلنے سے آپ کو کوئی بڑا رتبہ مل جائے اور آپ کی یہ بیگم صاحبہ اس مرتبہ میں شریک ہوں۔ آئندہ خدا تعالیٰ کو بہتر معلوم ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ از مؤلف: حضرت نواب صاحب نے اس مکتوب کو پڑھ کر ذیل کا عریضہ لکھا اس کے جواب میں مکتوب (۲۹؍۱۶ کتاب ہذا) حضور نے تحریر فرمایا اس سے ان خطوط کی تاریخ کا اندازہ ہوتا ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۶
۷۹
سیدی و مولوی طبیب روحانی سلکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
رات حضور کا والا نامہ پہنچا۔ خداوند تعالیٰ سے امید ہے کہ حضور کی فیض صحبت اور دعاؤں سے ہم میں خاص تبدیلی پیدا ہوگی۔ خدا کرے کہ ہم حضور کے قدموں میں نیکی اور عمدگی سے بسر کریں اور ترقیات روحانی ہم کو حاصل ہوں۔
رام محمد علی خاں
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
مجھے تو رات کے خواب سے کہ ایک قسم کا کشف تھا نہایت خوشی ہوئی کہ اندازہ سے باہر ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے۔ کل سے میں نے ارادہ کیا ہے کہ آپ کی دعا کے ساتھ اُن کو بھی شریک کر دوں۔ شاید خدا تعالیٰ نے یہ نمونہ اس لئے دکھایا ہے کہ میں ایک مستعد نفس کیلئے نماز میں دعا کرتا رہا ہوں۔ اصل میں دنیا اندھی ہے کسی شخص کی باطنی حالت کو معلوم نہیں کر سکتی بلکہ دنیا تو دنیا خود انسان جب تک وہ دن نہ آوے اپنی حالت سے بے خبر رہتا ہے۔ایک شہزادہ کا حال لکھا ہے کہ شراب پیتا اور سارنگی بجایا کرتا تھا۔ اتنے میں ایک بزرگ با خدا اس کوچہ میں سے گذرے اور قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی الم یان للذین امنوا ان تخشع قلوبھم لذکراللّٰہ یعنی کیا اب تک وقت نہیں آیا کہ مومنوں کے دل خدا کے لئے فروتنی کریں اور اُس سے ڈریں۔ پس جب آیت اُس شہزادہ نے سنی فی الفور سارنگی کو توڑ دیا اور خدا کے خوف سے رونا شروع کیا اور کہا کہ وقتم رسید۔ وقتم رسید اور کہتے ہیں کہ وہ آخر کار بڑے اولیاء سے ہو گیا۔ سو یہ کشف کچھ ایسی ہی خوشخبری سنا رہا ہے اس لئے کل میں نے ارادہ کیا کہ ہماری دو لڑکیاں ہیں مبارکہ اور امۃ النصیر۔ پس امۃ الحمید بیگم کو بھی اپنی لڑکی بنا لیں اور اس کے لئے نماز میں بہت دعائیں کریں تا ایک آسمانی روح خدا اُس میں پھونک دے۔ وہ لڑکیاں تو ہماری کمسن ہیں شاید ہم ان کو بڑی ہوتی دیکھیں یا عمر وفا نہ کرے۔ مگر یہ لڑکی جوان ہے ممکن ہے کہ ہم باطنی توجہ سے اس کی ترقی بچشم خود دیکھ لیں۔ پس جب کہ ہم ان کو لیکی بناتے ہیں تو پھر آپ کو چاہئے کہ……… ہماری لڑکی (کے٭) ساتھ زیادہ ہمدردی اور محبت اور وسیع اخلاق سے پیش آویں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ از مؤلف: مکتوب ہذا و مکتوب ۷۸؍۱۵ کی تعیین تاریخ اس امر سے ہوتی ہے کہ صاحبزادی امۃ النصیر صاحبہ کی والادت ۲۸؍ جنوری۱۹۰۳ء اور وفات چند ماہ بعد کی ہے مکتوب سابق میں چار بجے کے بعد جلد صبح کی نماز کا وقت ہو جائے کا ذکر ہے یہ وقت اپریل مئی میں ہوتا ہے مکتوب ۷۸؍ ۱۵ کے آخر پر حضور نے تاریخ درج فرمائی ہے جو اب پوری طرح پڑھی نہیں جاتی کچھ یکم مئی ۱۹۰۳ء پڑھا جاتا ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۷
۸۰
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
میں نے آپ کے اس خط پڑھنے کے وقت یہ محسوس کیا ہے کہ جس قدر امراض اور اعراض لاحق ہوگئے ہیں اکثر ان کی کثرت ہموم و غموم کا نتیجہ ہے۔ عجیب دردناک آپ کا یہ خط ہے کہ جس سے دل پر لزرہ پڑتا ہے لیکن جب میں خدا تعالیٰ کے کاموں پر نظر کرتا ہوں تو اُس کی قدرتوں پر نظر کر کے دل امید سے بھر جاتاہے۔ میں آپ کے لئے دعا تو کرتا ہوں لیکن دعا کی حقیقت پر نظر کر کے جو اپنے اختیار میں نہیں ہے مجھے کہنا پڑتا ہے کہ اب تک میں نے دعا نہیں کی ہے۔ سو میں نے اس خلوت کے لئے ایک مسجد البیت بنائی ہے میں امید رکھتا ہوں کہ اس مسجد البیت میں مجھے اُس خاص حالت کا موقعہ مل جائے گا کیونکہ میرا یہ مکان کھلا مکان ہے جس میں ہر طرف سے بچے عورتیں آتی رہتی ہیں
اور خلوت میسر نہیں آتی۔ سو اب میں آپ کے لئے انشاء اللہ خاص طور پر دعا کروں گا۔ آپ غموں ٭ خطوط واحدانی والا لفظ خاکسار مرتب کی طرف سے ہے۔
کے سلسلہ کو حوالہ خدا کریں۔ مجھے بھی امراض دامن گیر ہیں تین اوپر کے حصہ میں اور دو نیچے کے حصہ میں۔ مگر میں امید کی قوت سے جیتا ہوں۔ اگر امید نہ ہو تو ہم ایک دم میں مر جائیں۔ سو آپ تسلی رکھیں۔ جس طرح کوئی اپنے عزیز بچوں کے لئے دعا کرتا ہے ایسا ہی آپ کے لئے کروں گا خدا تعالیٰ آپ کی عمر دراز کرے اورغموم ہموم کے گرداب سے نجات بخشے۔ آمین کبھی کبھی چند قدم ہوا خوری بھی کر لیا کریں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ (ب)
نوٹ از مرتب: البدر بابت ۲۰؍ مارچ ۱۹۰۳ء میں (صفحہ۷۲ پر) مرقوم ہے کہ ’’بعد نماز جمعہ مورخہ ۱۳ مارچ ۱۹۰۳ء کو حضرت اقدس نے تجویز فرمایا کہ چونکہ بیت الفکر میں اکثر مستورات وغیرہ اور بچے بھی آ جاتے ہیں اور دعا کا موقعہ کم ملتا ہے اس لئے ایک ایسا حجرہ اس کے ساتھ تعمیر کیا جاوے جس میں صرف ایک آدمی کے نشست کی گنجائش ہو اور چارپائی بھی نہ بچھ سکے تا کہ اس میں کوئی اور نہ آ سکے اس طرح سے مجھے دعا کیلئے عمدہ وقت اور موقعہ مل سکے گا چنانچہ اس وقت مغربی جانب جو دریچہ ہے اس کے ساتھ حجرے کیلئے عمارت شروع ہوگئی‘‘۔
البدر بابت ۳؍ اپریل ۱۹۰۳ء میں (صفحہ۷۷ پر) مرقوم ہے کہ ’’۲۰ مارچ کے البدر میں جس حجرہ دعائیہ کی ہم نے خبر دی ہے اس کا نام حضرت احمد مرسل یزدانی نے مسجد البیت و بیت الدعا تجویز فرمایا ہے‘‘۔
دارالمسیح کے ایک چوبارہ کانام بیت العافیۃ ہے جو اس کے برآمدہ کی پیشانی پر مرقوم ہے۔ اس برآمدہ کی مغربی دیوار کے اندرونی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سے یہ الفاظ سیاہی سے مرقوم ہیں ’’مسجد البیت ۴؍ جون ۱۹۰۷ء مطابق ۲۲؍ ربیع الثانی‘…‘
اس وقت سن ہجری ۱۳۲۵ تھا وہی مرقوم ہوگا لیکن اب پڑھا نہیں جا سکتا۔ نیز ربیع الثانی کی تاریخ ۲۲ اور ۲۳ دونوں پڑھی جا سکتی ہیں۔ جنتری کی رو سے ۲۲ چاہئے۔ اس سوال کا کہ دونوں میں کونسی مسجد البیت اس مکتوب میں مراد ہے یہ جواب ہے کہ خاکسار مرتب کے نزدیک وہ مسجد البیت مراد ہے جسے بیت الدعا بھی کہتے ہیں۔ گو الحکم نے اپنے پرچہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۰۳ء میں جہاں اس کی تکمیل کا ذکر کیا ہے اسے صرف بیت الدعا لکھا ہے۔ غالباً اس کا یہ نام مسجد البیت نام پر غالب آ کر زیادہ متعارف و شائع ہو گیا ہو۔ چنانچہ سوائے البدر کے مذکورہ بالا حوالہ کے اس کا نام مسجد البیت سلسلہ کے لٹریچر میں کہیں مذکور نہیں اور نہ ہی ان صحابہ کرام کو اس کا علم ہے جن کو دارالمسیح میں حضور کے عصرِ سعادت میں قیام رکھنے کا موقعہ ملا نہ ہی حضور کے خاندان میں اس نام کا علم ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپریل ۱۹۵۰ء میں حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی اور حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو اور مارچ ۱۹۵۰ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام فیضہم نے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب کو خطوط لکھے ان میں بھی بیت الدعا کانام ہی آتا ہے۔
(ضمیمہ اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ۲۲ و مکتوبات اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ۵۷)
بیت الدعا بھی مسجد البیت ہے کیونکہ حضور نے اسے اسی نام سے اس مکتوب میں پکارا ہے۔ حدیث شریف میں جعلت لی الارض مسجدا آتا ہے گویا کہ ہر جگہ نماز پڑھی جا سکتی ہے خواہ بغیر جماعت کے ہو اور ایک مکفوف العین صحابیؓ کے متعلق ذکر آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں انہوں نے عرض کی کہ حضور میرے گھر کے کسی حصہ میں دعا فرمائیں یا میں اس جگہ کو مسجد بنا لوں سو اس کو مسجد البیت کہتے ہیں۔ بیت الدعا خلوت میںدعائیں کرنے کے لئے بنائی گئی اس لئے اسے کھلا اور وسیع نہیں بنایا گیا ورنہ اگر وہ بھی باجماعت نماز اداکرنے کیلئے استعمال میں لانی ہوتی تو کھلی بنائی جاتی۔ لیکن بیت العافیۃ والی مسجد البیت کی غرض ہی یہ تھی کہ جب حضور علالت کے باعث مسجد میں نہ جا سکیں تو وہاں مستورات اور بچوں کو ساتھ شامل کر کے با جماعت نماز ادا کر لیا کریں اس لئے اس کے واسطے کھلی نہ کہ تنگ جگہ تجویز کی گئی اور وہ کھلی جگہ یعنی برآمدہ ہے جو سارا یکساں کھلا ہے اور وہاں دعاؤں کے لئے خلوت اور یکسوئی کا کوئی موقعہ نہیں۔
سو یہ اندرونی شہادت بہت وزنی ہے حضور نے اپنے مکتوب میں مسجد البیت کے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ اس میں خلوت میسر آئے گی ورنہ باقی کا مکان کھلا ہے جس میں ہر طرف سے بچے اور عورتیں آتی رہتی ہیں اورخلوت میسر نہیں آتی اور یہ بات صرف بیت الدعا پر ہی صادق آتی ہے۔ پس یہ مکتوب ۲۱؍ مارچ ۱۹۰۲ء کے قریب کا ہے۔
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے ساری تفصیل بالا کا راقم سے ذکر کیا ہے۔ آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں۔
٭٭٭
۲۸ مئی ۱۹۰۳ء کو تعلیم الاسلام کالج کی افتتاح کارروائی کے اختتام پر حضرت نواب صاحبؓ نے حضور کی خدمت میں ذیل کا عریضہ تحریر کیا۔ (مرتب)
۱۸
۸۱
سیدی و مولائی حبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ حضور کی طبیعت نصیب اعداء علیل ہے اس لئے حضور تشریف نہیں لا سکتے گو کہ اس سے ایک گونہ افسوس ہوا مگر وہ کلمات جو مولانا موصوف نے نیابتاً فرمائے ان سے روح تازہ ہوگئی اور خداوند تعالیٰ کے فضل اور حضور کی دعاؤں کے بھروسہ پر کارروائی شروع کی گئی۔ جلسہ نہایت کامیابی سے تمام ہوا اور کالج کی رسم افتتاح ہوگئی۔ اطلاعاً گزارش ہے خداوند تعالیٰ حضور کو صحت عطا فرمائے۔ حضور نے …… دعا فرمائی ہوگی۔ اب بھی استدعائے دعا ہے۔
راقم محمد علی خان




جواباً حضور نے تحریر فرمایا:۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
رات سے مجھے دل کے مقام پر درد ہوتی تھی اس لئے حاضر نہیں ہو سکا لیکن میں نے اسی حالت میں بیت الدعا میں نماز میں اس کالج کے لئے بہت دعا کی۔ غالباً آپ کا وہ وقت اور میری دعاؤں کا وقت ایک ہی ہوگا۔ خدا تعالیٰ قبول فرماوے۔ آمین ثم آمین۔ والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
(الحکم پرچہ ۳؍ جولائی ۱۹۲۴ء)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۹
۸۲
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل کے خط کے جواب میں لکھتا ہوں کہ میں صرف چند روز کیلئے اہل و عیال کو ساتھ لے جاتا ہوں کیونکہ میں بیمار رہتا ہوں اور گھر میں بھی سلسلہ بیماری جاری ہے۔ بچے بھی بیمار ہو جاتے ہیں بار بار مجھے خط پہنچتے ہیں۔ حیران ہو جاتا ہوں اور محض اس امید پر کہ آپ یہاں تشریف رکھیں گے اور مکرمی مولوی حکیم نورالدین صاحب یہاں ہیں میں نے ارادہ کیا ہے اور یقین ہے انشاء اللہ جلدی یہ فیصلہ ہو جائے گا اس لئے میرے نزدیک آپ کا اس جگہ ٹھہرنا مناسب ہے۔ آپ کے یہاں رہنے سے مکان میں برکت ہے امید ہے کہ آپ پسند نہیں فرمائیں گے کہ مکان ویران ہو جائے اور آنے والے مہمان خیال کریں گے کہ گویا سب لوگ اُجڑ گئے ہیں اور شماتت اعداء ہوگی ماسوا اس کے آپ اگر گورداسپور جائیں تو دو تین میل کے فاصلہ پر مجھ سے دور رہیں گے۔ ملاقات بھی تکلیف اُٹھانے کے بعد ہوگی پھر علاوہ اس کے خواہ نخواہ چھ سات روپیہ۱؎ کرایوں وغیرہ میں آپ کا خرچ آ جائے گا۔ پہلے ہی مصاف کا نتیجہ ظاہر ہے۔ اب اس قدر بوجھ اپنے سر پر ڈالنا مناسب نہیں۔ میرے خیال میں یہ سفر صرف چند روز کا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ از مؤلف: یہ مکتوب۶؍ جولائی تا ۱۳؍ اگست ۱۹۰۴ء کے درمیانی عرصہ کا ہے تفصیلی اصحاب احمد جلد دوم حاشیہ صفحہ۴۸۱۔۴۸۲ پر مرقوم ہے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۰
۸۳
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ میں برابر آپ کی ہر ایک کامیابی کیلئے نماز میں دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ (کو٭) مشکلات سے نجات بخشے۔ آمین۔ گھر میں میری طرف سے اور والدہ محمود احمد کی طرف سے السلام علیکم کہہ دیں۔ میں اُن کی شفا کے لئے بھی دعا کرتا رہتا ہوں۔ خدا تعالیٰ شفا بخشے۔ آمین
دوسرے ضروری امر یہ ہے کہ ایک شہادت واقعہ کے لئے آپ کو گورداسپور میں تکلیف دینے کیلئے ضرورت پڑی ہے باوجود یکہ مجھ کو علم ہے کہ آپ کا لاہور سے ایسے موقعہ پر نکلنا بہت مشکل ہے مگر تا ہم یہ ضرورت اشد ضرورت ہے۔ بجز اس شہادت کے معاملہ خطرناک ہے۔ شاید تار کے ذریعہ سے آپ کو خواجہ صاحب اطلاع دیں۔ باقی سب خیریت ہے۔ والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۹؍ ستمبر ۱۹۰۴ء (ب)
۱؎ نقل مطابق اصل۔ سات کے بعد صد کا لفظ چھوٹ گیا ہے جیسا کہ فارسی اعداد ظاہر کرتے ہیں۔
٭ خطوط واحدانی والا لفظ خاکسار مرتب کا ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۱
۸۴
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ حال معلوم ہوا مجھ کو پہلے ان مجبوریوں کا مفصل حال معلوم نہ تھا اب معلوم ہوا اس لئے میں نے اپنے خیال کو ترک کر دیا ۔ خدا تعالیٰ جلد تر شفا بخشے آمین۔ میں نے ان دنوں میں آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور دعا کرنے کا ایسا موقعہ ملا کہ کم ایسا ملتا ہے۔ الحمدللہ۔ اسیدکہ جلد یا کسی دیر سے ان دعاؤں کا ضرور اثر ظاہر ہوجائے گا دوسرے آپ کو یہ تکلیف دیتا ہوں میں بروز پنجشنبہ ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء سیالکوٹ کی طرف مع اہل و عیال جاؤں گا اور شاید ایک ہفتہ تک وہاں رہوں اور شاید دو روز کیلئے کڑیانوالہ ضلع گوجرانوالہ میں جاؤں اور میرے ساتھ اہل و عیال اور چھوٹے بچے ہیں۔ آپ براہِ مہربانی ہفتہ عشرہ کے لئے مرزا خدا بخش صاحب کو میرے اس سفر میں ہمراہ کر دیں تا کہ ایک حصہ حفاظت اور کام کا ان کے سپرد کیا جائے امید ہے کہ دس دن تک بہرحال یہ سفر طے ہو جائے گا۔ اگر وہ قادیان آ جائیں اور ساتھ جائیں تو بہتر ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
٭٭٭
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۲
۸۵
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللّٰہ اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو تمام غموم ہموم سے نجات بخشے۔ آمین۔ میری طبیعت بہ نسبت سابق اچھی ہے۔ صرف کثرت پیشاب اور دورانِ سر کی شکایت ہے اور بعض اوقات ضعف قلب ایسا ہو جاتا ہے کہ ہاتھ پیر سرد ہو کر ایسے ہو جاتے ہیں کہ گویا ان میں ایک قطرہ خون نہیں اور زندگی خطرناک معلوم ہوتی ہے۔ پھر کثرت سے دبانے سے وہ حالت جاتی رہتی ہے میں تو جانتا ہوں کہ ضرورتھا کہ ایسا ہوتا تا وہ پیشگوئی پوری ہو جاتی کہ جو دو زرد چادروں کی نسبت بیان فرمائی گئی ہے۔ دشمن ہر طرف جوش و خروش میں ہے۔ خدا تعالیٰ دوستوں کو وہ اعتقاد بخشے کہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم کو عطا کیا گیا تھا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں سے جن کے دل صاف ہیں اور روح پاک ہیں اور ایمانی ترقی کی استعداد رکھتے ہیں خدا تعالیٰ ضرور اُن کو ایمانی ترقی بخشے گا اور جو لوگ نفسانی اغراض اور دنیا پرستی سے سخت ملوث اور دنیا کو دین پر مقدم رکھتے ہیں میں ہمیشہ ان کی حالت سے ڈرتا ہوں کہ ٹھوکر نہ کھاویں اور ایمان اور سعادت سے خارج نہ ہو جاویں لیکن میں اس بات کے لکھنے سے بہت ہی خوش ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے آپ میں ہر یک موقعہ پر دلی ہمدردی اور اخلاص نمونہ پایا۔ پس یہ نشان اس بات کا ہے کہ گو آپ کو دنیا کے تردّد کی وجہ سے ہزار ہا غم ہوں لیکن بہرحال آپ دین سے محبت رکھتے ہیں۔ یہی ایک ایسی چیز ہے جس سے آخر کار ہر ایک غم سے رہائی دی جاتی ہے۔ لیکن جہاں تک مجھ سے ممکن ہے آپ کے لئے دعا میںمشغول ہے۱؎۔ اور میرا ایمان ہے کہ یہ دعائیںخالی نہیں جائیں گی۔ آخر ایک معجزہ کے طور پر ظہور میں آئیں گی اور میں انشاء اللہ دعا کرنے میں سست نہیں ہونگا۔ جب تک اس قسم کا معجزہ نہ دیکھ لوں۔ پس آپ کو اپنے دل پر غم غالب نہیں کرنا چاہئے۔ ہونے ہوتا رہے۲؎ جیسا کہ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ مصیبت اور ابتلا کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں ہر حملہ کہ داری نکنی نامردی۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ صبر کے ساتھ آخری دن کا انتظار کریں گے تو انجام کار میری دعاؤں کا نمایاں اثر ضرور دیکھ لیں گے۔ باقی سب خیریت ہے۔ میری طرف سے اور والدہ محمود کی طرف سے اپنے گھر میں السلام علیکم کہہ دیں اور بچوں کو پیار۔ راقم
خاکسار
مرزا غلام احمدعفی عنہ
۱؎ نقل مطابق اصل۔ مؤلف
۲؎ اصل مکتوب میں ’’ہوتار ہے‘‘ کے الفاظ ہیں۔ غالباً مراد ہوگی ’’ہونے والا ہوتا رہے‘‘ ہونے کے بعد ایک لفظ کٹا ہوا بھی ہے۔
مکرر یہ کہ اپیل خدا تعالیٰ کے فضل سے منظور ہو گیا ہے اور سات سَو روپیہ جیسا کہ دستور ہے انشاء اللہ واپس مل جائے گا اس لئے میں نے کہہ دیا ہے کہ جب وہ روپیہ ملے تو وہ آپ کی خدمت میں بھیج دیا جائے کیونکہ مشکلات کے وقت میں آپ کو ہر طرح روپیہ کی ضرورت ہے۔
والسلام
غلام احمد عفی عنہ
نوٹ از مؤلف: اپیل بمقدمہ کرم الدین کا فیصلہ ۷؍ جنوری ۱۹۰۵ء کو لکھا گیا تھا اس لئے اس کے بعد کا یہ مکتوب ہے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۳
۸۶ ۱۲؍جنوری ۱۹۰۵ء
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ میں دعا میں مصروف ہوں خدا تعالیٰ جلد تر آپ کے لئے کوئی راہ کھولے دنیا کی مشکلات بھی خدا تعالیٰ کے امتحان ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ آپ کو اس امتحان سے نجات دے۔ آمین۔ میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور نیز تجربہ بھی کہ آخر دعائیں قبول ہو کر کوئی مخلصی کی راہ پیدا کی جاتی ہے اور کثرت دعاؤں کے ساتھ آسمانوں پر ایک خلق جدید اسباب کا ہوتا ہے یعنی بحکم ربی نئے اسباب پیدا کئے جاتیہیں۔ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ سچ ہے کہ ادعونی استجب لکم جو انقلاب تدبیر سے نہیں ہو سکتا وہ دعا سے ہوتا ہے باایں ہمہ دعا کے ثمرات دیکھنے کیلئے صبر درکار ہے جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی دعاؤں کا آخیر نتیجہ یہ ہوا کہ باراں برس کے (بعد٭) یوسف زندہ نکل آیا۔ ایمان میں ایک عجیب برکت ہے جس سے مردہ کام زندہ ہوتے ہیں۔ سو آپ نہایت مردانہ استقامت سے کشائش وقت کا انتظار کریں۔ اللہ تعالیٰ کریم و رحیم ہے اور میری طرف سے والدہ محمود کی طرف سے گھر میں السلام علیکم ضرور کہہ دیں۔
٭ خطوط واحدانی والا لفظ خاکسارمرتب کی طرف سے ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۴
۸۷
عزیزی محبی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت آپ کا پریشانی سے بھرا ہوا خط پڑھ کر میرے دل کو اس قدر قلق اور اضطراب کا صدمہ پہنچا جو میں بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے بباعث طوقِ امراض و صدمات ضعف قلب ہے کسی مخلص دوست کے غم سے بھری ہوئی بات کو سن کر اس قدر متاثر ہو جاتا ہوں کہ گویا وہ غم میرے پر ہی وارد ہو گیا مجھے آپ کی غمخواری کے لئے بے اختیار ایک کشش اور کرب دل میں پیدا ہو گیا ہے۔ انشاء اللہ القدیر میں پوری توجہ سے آپ کے لئے دعا کروں گا۔ مگر اے عزیز آپ کو یاد رہے ہمارا آقا و مولیٰ ربّ السموات والارض نہایت درجہ کا مہربان اور رحیم و کریم ہے کہ اپنے گنہ گار بندوں کی پردہ پوشی کرتا ہے اور آخر وہی ہے جو اُن کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے اور اُن کی بیقراری کی دعاؤں کو سنتا ہے۔ کبھی کبھی وہ اپنے بندہ کی آزمائش بھی کرتا ہے لیکن آخر کار رحم کی چادر سے ڈھانک لیتا ہے۔ اُس پر جہاں تک ممکن ہو توکل رکھو اور اپنے کام اُس کو سونپ دو۔ اُس سے اپنی بہبودی چاہو مگر دل میں اُس کی قضاء وقدر سے راضی رہو۔ چاہئے کہ کوئی چیز اُس کی رضا سے مقدم نہ ہو۔ میں آپ کے لئے بہت دعا کرتا ہوں اور کروں گا اور اگر مجھ کو معلوم ہوا تو آپ کو اطلاع دوں گا۔ آپ درویشانہ سیرت سے ہر یک نماز کے بعد گیارہ دفعہ لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم پڑھیں اور رات کو سونے کے وقت معمولی نماز کے بعد کم سے کم اکتالیس دفعہ درود شریف پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھیں اور ہر ایک سجدہ میں کم سے کم تین دفعہ یہ دعا پڑھی یاحی یا قیوم برحمتک استغیث۔ پھر نماز پوری کر کے سلام پھیر دیں اور اپنے لئے دعا کریں اور مرزاخدا بخش کو کہہ چھوڑیں کہ جلد جلد مجھے اطلاع دیویں۔ دہلی میں آ کر میری طبیعت بہت علیل ہوگی ہے اس وقت خارش کی پھنسیاں ایسی ہیں جیسے شاخ کو پھل لگا ہوا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے بخار بھی رہا ریزش بھی بشدت ہوگئی طبیعت ضعیف اور کمزور ہے لیکن میں نے نہایت قلق کی وجہ سے نہ چاہا کہ آپ کے خط کو تاخیر میں ڈالوں۔ خدا تعالیٰ آپ کے غم و درد دُور کرے اور اپنی مرضات کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین
والسلام
خاکسار
غلام احمد از دہلی
کوٹھی نواب لوہارو و غلام احمد۱؎
۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۵
۸۸
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا چونکہ آپ کے ترددات اور غم اور ہم انتہا تک پہنچ گیا ہے اس لئے بموجب مثل مشہور کہ ہر کمالے راز والے۔ امید کی جاتی ہے کہ اب کوئی صورت مخلصی کی اللہ تعالیٰ پیدا کر دے گا اور اگر وہ دعا جو گویا موت کا حکم رکھتی ہے اپنے اختیار میں ہوتی تو میں اپنے پر آپ کی راحت کے لئے سخت تکالیف اُٹھا لیتا۔ لیکن افسوس کہ جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے ایسی دعا خداتعالیٰ نے کسی کے ہاتھ میں (نہیں٭) رکھی۔ بلکہ جب کہ وقت آ جاتا ہے تو آسمان سے وہ حالت دل پر اُترتی ہے۔ میں کوشش میں ہوں اور دعا میں ہوں کہ وہ حالت آپ کے لئے پیدا ہو اور امید رکھتا ہوں کہ کسی وقت وہ حالت پیدا ہو جائے گی اور میں نے آپ کی سبکدوشی کیلئے کئی دعائیں کی ہیں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ خالی نہ جائیں گی۔ جس قدر آپ کے لئے حصہ تکالیف اور تلخیوں کا مقدر ہے
٭ خطوط واحدانی والا لفظ خاکسار مرتب کی طرف سے ہے۔
اُس کا چکھنا ضروری ہے بعد اس کے یکدفعہ آپ دیکھیں گے کہ نہ وہ مشکلات ہیں اور نہ وہ دل کی حالت ہے۔ اعمال صالحہ جو شرط دخول جنت ہیں دو قسم کے ہیں اوّل وہ تکلیفات شرعیہ جو شریعت نبویہ میں بیان فرمائی گئیں ہیں اور اگر کوئی ان کے ادا کرنے سے قاصر رہے یا بعض احکام کی بجا آواری میں قصور ہو جائے اور وہ نجات پانے کے پورے نمبر نہ لے سکے تو عنایت الٰہیہ نے ایک دوسری قسم بطور تتمہ اور تکملہ شریعت کے اُس کے لئے مقرر کر دی ہے اور وہ یہ کہ اُس پر کسی قدر مصائب ڈالی جاتی ہیں اور اُس کو مشکلات میں پھنسایا جاتا ہے اور اس قدر کامیابی کے دروازے اُس کی نگہ میں ہیں سب کے سب بند کر دئے جاتے ہیں۔ تب وہ تڑپتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ شاید میری زندگی کا یہ آخری وقت ہے اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ اور مکروہات بھی اور کئی جسمانی عوارض بھی اُس کی جان کو تحلیل کرتے ہیں تب خدا کے کرم اور فضل اور عنایت کا وقت آ جاتا ہے اور درد انگیز دعائیں اُس قفل کے لئے بطور کنجی کے ہو جاتی ہیں۔ معرفت زیادہ کرنے اور نجات دینے کیلئے یہ خدائی کام ہیں۔ مدت ہوئی ایک شخص کے لئے مجھے انہی صفات الٰہیہ کے متعلق یہ الہام ہوا تھا۔
قادر ہے وہ بار گاہ ٹوٹا کام بناوے۔بنا بنایا توڑ دے کوئی اُس کا بھید نہ پاوے
ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب قیامت کے دن اہل مصائب کو بڑے بڑے اَجر ملیں گے تو جن لوگوں نے دنیا میں کوئی مصیبت نہیں دیکھی وہ کہیں گے کہ کاش ہمارا تمام جسم دنیا میں قینچیوں سے کاٹا جاتا تا آج ہمیں بھی اَجر ملتا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ از مرتب: جیسا کہ دیگر متعدد خطوط سے ظاہر ہے ریاستی حقوق کے بارہ میںابتلا اواخر ۱۹۰۴ء میں شروع ہوا۔ ۱۳؍ نومبر ۱۹۰۶ء کو اس بارہ میں حضور کو الہام ہوا۔ ’’اے یوسف! اپنا رُخ اس طرف پھیر لے‘‘ اور ۱۶؍ فروری ۱۹۰۸ء کے حضرت نواب صاحب کے مرقومہ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ چند دن قبل اس بارہ میں اُن کو اور ان کے بھائیوں کو کامیابی ہوئی تھی۔ حضور کے مکتوب ہذا کی اندرونی شہادت واضح ہے کہ اس کی تحریر تک ۱۳؍ نومبر ۱۹۰۶ء والا الہام نہ ہوا تھا ورنہ دیگر نصائح کے ساتھ حضور تسلی کی خاطر اس امر کا اشارۃً ہی ذکر فرما دیتے بلکہ اس الہام کے ہو جانے کے بعد طبعاً حضرت نواب صاحبؓ کا رکب و قلق کم ہو جاتا۔ سو جب ۱۳؍ نومبر ۱۹۰۶ء کی تاریخ ہی ابھی نہیں آئی تھی تو دو دن بعد (۱۵؍ نومبر) کے الہام ’’قادر ہے وہ بارگاہ…الخ‘‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ظاہر ہے کہ ۱۵؍ نومبر ۱۹۰۶ء والا الہام یہاں مراد نہیں۔ اس پر مزید اندرونی شہادت بھی ہیں ایک تو یہ کہ ’’قادر ہے‘‘ والے الہام کے متعلق حضور تحریر فرماتے ہیں کہ مدت قبل کا ہے جو یہاں صادق نہیں آتی۔ دوسرے اسے ایک معین شخص کے لئے قرار دیتے ہیں جب کہ اس اور دیگر الہامات کے ساتھ مرقوم ہے ’’اصل میں یہ ہرسنہ الہام پیشگوئیاں ہیں خواہ ایک شخص کیلئے ہوں اور خواہ تین جدا شخصوں کے حق میں ہوں‘‘۔ (بدر جلد۲ صفحہ۴۷ والحکم جلد۲۰ صفحہ۳۹)
تیسرے ۱۵؍نومبر ۱۹۰۶ء والے الہام کی عبارت یہ ہے:۔
’’قادر ہے وہ بارگاہ جو ٹوٹا کام بناوے‘‘ اور مکتوب زیر بحث میں ’’جو‘‘ کا لفظ موجود نہیں۔ ان شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ ان دونوں الہاموں میں سے مدت قبل یعنی ۲۱؍ دسمبر ۱۸۹۸ء کا الہام مراد ہے جو معین طور پر حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراس کے لئے ہوا تھا اور اس میں ’’جو‘‘ کا لفظ بھی موجود نہیں سو یہ مکتوب زیر بحث اواخر ۱۹۰۴ء سے ۱۳؍ نومبر ۱۹۰۶ء تک کے عرصہ کا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ اس عرصہ کے آخری حصہ کا ہے جب کہ ریاست کے پولیٹکل ایجنٹ اور لفٹنٹ گورنر پنجاب کی طرف سے مایوسی ہوئی اور معاملہ وائسرائے تک پہنچایا گیا۔ چنانچہ وہاں کامیابی ہوئی۔ اس معاملہ کے متعلق مکتوب ۹۴؍۳۱ کتاب ہذا ہے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۶
۸۹
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللّٰہ تا دم تحریر خط ملا ہر طرح سے خیریت ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو معہ اہل و عیال سلامت قادیان میں لاوے۔آمین
آج میں میاں الٰہی بخش صاحب کو خود ملا تھا۔ وہ بہت مضطرب تھے کہ کسی طرح مجھ کو کوٹلہ میں پہنچایا جاوے اور کہتے تھے کہ کوٹلہ میں میری پنشن مقرر ہے جولائی سے واجب الوصول ہوئی میں نے ان کے بیش اصرار پرتجویز کی تھی کہ ان کو ڈولی میں سوار کر کے اور ساتھ ایک آدمی کر کے پہنچایا جاوے۔ مگر پھر معلوم ہوا کہ ایسا سخت بیمار جس کی زندگی کا اعتبار نہیں وہ بموجب قادیان ریل والوں کے ریل پر سوار نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اسی وقت میں نے ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں صاحب کو ان کی طرف بھیجا ہے تا ملائمت سے ان کو سمجھا دیں کہ ایسی بے اعتبار حالت میں ریل پر وہ سوار نہیں ہو سکتے اور بالفعل دو روپیہ ان کو بھیج دیئے ہیں کہ اپنی ضروریات کے لئے خرچ کریں اور اگر میرے روبرو واقعہ وفات کا ان کو پیش آ گیا تو میں انشاء اللہ القدیر اسی قبرستان میں ان کو دفن کراؤں گا۔
باقی سب طرح سے خیریت ہے بہتر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ضروری کام کے انجام کے بعد زیادہ دیر تک لاہور میں نہ ٹھہریں اور میری طرف سے اور میرے گھر کے لوگوں کی طرف سے آپ کے گھر میں السلام علیکم کہہ دیں۔
والسلام
راقم
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۴؍ اپریل ۱۹۰۶ء
نوٹ از مرتب: میاں الٰہی بخش صاحب خلیفہ کہلاتے تھے۔ نعلبند تھے فوج میں ملازم رہ چکے تھے۔ حضرت نواب صاحب سے بطور اعانت ماہوار وظیفہ پاتے تھے وطن مالیر کوٹلہ بعمر اسّی سال ۹؍ اپریل ۱۹۰۶ء کو قادیان میں فوت ہو کر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے اور ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں صاحب موصوف ۹؍ جون ۱۹۲۱ء کو۔ ڈاکٹر صاحب سکنہ گوریانی تحصیل جھجھر ضلع رہتک کا نام ۳۱۳ صحابہ مندرجہ انجام آتھم میں ۶۸ نمبر پر ہے۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۷
۹۰
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاخط مجھ کو ملا جو بہت غمناک دل کے ساتھ پڑھا گیا کل مجھے خداتعالیٰ کی طرف سے ایک الہام مندرجہ ذیل الفاظ میںیا کسی قدر تغیر لفظ سے ہوا تھا کہ کئی آفتیں اور مصیبتیں ہم پر نازل ہوگئی ہیں۔ مَیں تمام دن اس الہام کے بعد غمگین رہا کہ یہ کیا بھید ہے۔ آج خط پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ آپ کا پیغام خداتعالیٰ نے پہنچایا تھا میں اس میں خاص توجہ سے دعا کروں گا اور میں امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ یہ بلا ٹال دے گا۔ وہی احکم الحاکمین ہے اور ہر ایک امر اس کے اختیار میں ہے آپ اس میں بے صبری نہ کریں اور نہایت نرمی سے کام لیں۔ اصل حکم خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے یہ دنیا ایک عجیب مقام ہے کہ ایک دن ایک شخص ایک کے ہاتھ سے روتا ہے اور دوسرے دن وہی ظالم مصیبت میں گرفتار ہو کر رونا شروع کر دیتا ہے۔ پس آپ بار بار یہ عذر پیش نہ کریں کہ جاگیر سے دست بردار ہوتے ہیں بلکہ سب کچھ قبول کر لیں کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ابتلا ہے۔ ہاں قادیان میں رہنے کے بارے میں نرمی اور عذر کرنا چاہئے اور ہو سکتا ہے کہ آپ عذر کر دیں کہ مالیر کوٹلہ میں میری حالت صحت اچھی نہیں رہتی کیونکہ صحت جیسا کہ صحت جسمانی ہے روحانی بھی ہے اور روحانی صحت کے خیال سے کسی طرح آپ کے کوٹلہ کی سکونت مفید نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر تنگ کریں تو سکونت کو اس شرط سے قبول کریں کہ اس وقت تک رہوں گا جب تک اس جگہ کا قیام میری صحت کے مخالف نہ ہو یہ تو تمام ظاہری باتیں ہیں مگر میں امید رکھتا ہوں کہ میری دعا پر ضرور خدا تعالیٰ کوئی راہ آپ کے لئے نکال دے گا۔ بالفعل آپ کو قضا و قدر الٰہی پر سرتسلیم خم کرنا چاہئے اور یہ نہ سمجھیں کہ انسان کی طرف سے یہ ایک ابتلا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک ابتلا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے ولنبلونکم بشی من الخوف والجوع ونقص منالاموال والانفس اور میں آپ کو جھوٹی تسلی نہیں دیتا بلکہ میں آج ہی بہت توجہ سے آپ کے لئے دعا کروں گا اور امید رکھتا ہوں کہ آخر دعاؤں کے بعد کوئی راہ آپ کے لئے نکل آئے گی۔ بالفعل نرمی اور صبر اور رضا بقضا سے کام لینا چاہئے کہ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے فبشر الصابرین الذین اذا اصبتھم مصیبۃ قالوا انا للّٰہ و انا الیہ راجعون اور یہ بات ضروری ہے کہ آپ دوسرے بھائیوں کے جوشوں کی پیروی نہ کریں کیونکہ کہ ان کی زندگی غافلانہ ہے اور وہ نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی ابتلا آیا کرتے ہیں جب دیکھیں کہ ہر ایک راہ بند ہے اور سیدھی بات بھی الٹی ہوئی جاتی ہے۔ تب لازم ہے کہ فی الفور عبودیت کا جامہ پہن لیں اور سمجھ لیں کہ خدا تعالیٰ کی آزمائش ہے۔ عزت خدا کے ہاتھ میں ہے میں دنیا داری طریقوں کی عزت کو پسند نہیں کرتا۔ میں تو اس میں بھی مضائقہ نہیں دیکھتا کہ نذریں دی جائیں اور رعایا کہلایا جائے۔ دنیا کی ہستی جاب کی طرح ہے معلوم نہیں کہ کل کون زندہ ہوگا اور کون قبر میں جائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب واقعہ حدیبیہ کے وقت کفار مکہ سے صلح کرنے گئے تو صلح نامہ کے سر پر لکھا ھذا من محمد رسول اللّٰہ کفار مکہ نے کہا کہ رسول اللہ کا لفظ کاٹ دو۔ اگر ہم آپ کو رسول جانتے تو اتنے جھگڑے کیوں ہوتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی فرمایا کہ ’’اچھا رسول اللہ کا لفظ کاٹ دو‘‘ حضرت علی نے عرض کیا کہ میں تو ہرگز نہیں کاٹوں گا۔ تب آپ نے اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا۔ پھر وہی لوگ تھے جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے ہر ایک بات وقت پر موقوف ہے۔ (ب)
نوٹ از مرتب: اس مکتوب کے پہلے صفحہ پر حضور کی ایک مہر بھی ثبت ہے جو مجھ سے پڑھی نہیں گئی۔ بدر جلد ۲ نمبر۲۲ و الحکم جلد۱۰ نمبر۱۹ میں مرقوم ہے۔ ’’(۲) آفتوں اور مصیبتوں کے دن ہیں‘‘ ایک دوست کا ذکر تھا جس پر بہت سے دنیاوی مشکلات گر رہے ہیں۔ فرمایا ’’یہ الہام اس کے متعلق معلوم ہوتا ہے‘‘ اور اس الہام کی تاریخ ۲۰؍ مئی ۱۹۰۶ء درج ہے۔ گویا کہ یہ مکتوب ۲۸؍ مئی ۱۹۰۶ء کا ہے۔


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۸
۹۱
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ مضمون سے آگاہی ہوئی اب یقینا معلوم ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ابتلا ہے بلکہ ایک سخت ابتلا ہے۔ میں اسی فکر میں تھا کہ خدا تعالیٰ دعا کرنے کیلئے پوری توجہ بخشے اور خدا کا استغناء ذاتی بھی پیش نظر تھا کہ اتنے میں نظام الدین مستری کا قصہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا معاً دل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ خدا کے فضل اور کرم سے کیا تعجب ہے کہ اگر نظام الدین کی کارروائی کے موافق آپ کی طرف سے مع اپنے بھائیوں کے کارروائی ہو تو خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ وہی معاملہ کرے جو نظام الدین کے ساتھ کیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نظام الدین نام سیالکوٹ میں ایک مستری ہے چند روز ہوئے اس کا ایک خط میرے نام آیا۔ افسوس ہے کہ وہ خط شاید چاک کیا گیا ہے۔ اس کا مضمون یہ تھا کہ میں ایک فوجداری جرم میں گرفتار ہوگیا ہوں اور کوئی صورت رہائی کی نظر نہیں آتی۔ اس بیقراری میں مَیں نے یہ نذر مانی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اس خوفناک مقدمہ سے رہا کر دے تو میں مبلغ پچاس روپیہ نقد آپ کی خدمت میں بلاتوقف ادا کروں گا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جب اس کا خط پہنچا تو مجھے خود روپیہ کی ضرورت تھی تب میں نے دعا کی کہ اے خدائے قادر و کریم! اگر تو اس شخص کو اس مقدمہ سے رہائی بخشے تو تین طور کا فضل تیرا ہوگا۔ اوّل یہ کہ یہ مضطر آدمی اس بلا سے رہائی پا جائے گا۔ دوم مجھے جو اس وقت روپیہ کی ضرورت ہے میرا مطلب کسی قدر پورا ہو گا۔ سوم تیرا ایک نشان ظاہر ہو جائے گا۔ دعا کرنے سے چند روز بعد نظام الدین کا خط آیا جو آپ کے ملاحظہ کیلئے بھیجتا ہوں اور دوسرے روز پچاس روپے آ گئے۔ پس میرے دل میں خیال گزرا کہ ان دنوں میں دینی ضرورت کے لئے بہت کچھ تفکرات مجھے پیش ہیں مہمان کے اُترنے کیلئے عمارت نامکمل ہے مرزا خدا بخش کی چار سَو روپیہ کی خریدی ہوئی زمین ہے وہ توسیع مکان کے لئے مل سکتی ہے۔ اگر اس قدر روپیہ دیا جائے پھر کم سے کم دو ہزار روپیہ اور چاہئے تا اس پر عمارت بنائی جائے اور تکمیل مینار کا فکر بھی ہر وقت دل کو لگا ہوا ہے۔ مگر وہ ہزار ہا روپیہ کا کام ہے جس طرح خدا چاہے گا اس کو انجام دے گا۔ بالفعل بموجب وہی الٰہی وسع مکانات کے مہمانوں کے پورے آرام کے لئے ان اخراجات کی ضرورت ہے۔ پس میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ اگر ایک بلا سے رہا ہونے کے لئے آپ معہ اپنے بھائیوں کے دوسری بلا کو منظور کر لیں یعنی یہ نذر کر لیں کہ اگر ہمیں اس بلا سے غیبی مدد سے رہائی ہوئی تو ہم اس قدر روپیہ محض للہ ان دینی ضروریات کیلئے جس طرح ہم سے ہو سکے بلا توقف ادا کر دیں گے تو میں اسی طرح دعا کروں گاجس طرح میاں نظام الدین مستری کیلئے دعا کی تھی خدا تعالیٰ نکتہ نواز ہے کچھ تعجب نہیں آپ کے اس مقصد کو دیکھ کر آپ کی مشکل کشائی فرماوے۔ میں یہ وعدہ نہیں کرتا کہ ضرور یہ دعا قبول ہو جائے گی کیونکہ خدا تعالیٰ بے نیاز ہے مگر مجھے اپنے ربّ کریم کی سابق عنایتوں پر نظر کر کے یقین کُلّی ہے کہ کم سے کم وہ مجھے آئندہ کے حالات سے اطلاع دے دے گا اور چونکہ اس نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں پچاس یا ساٹھ نشان اوردکھلاؤں گا اس لئے تعجب نہیں کہ آپ کی اس بیقراری کے وقت یہ بھی ایک نشان ظاہر ہو جائے۔ لیکن قبل اس کے کہ خداتعالیٰ مشکل کشائف فرما دے ہماری طرف سے کوئی مطالبہ نہیں اور ایک پیشہ کا بھی مطالبہ نہیں ہاں اگر دعا سنی جائے اور آپ کا کام ہو جائے تب فی الفور آپ کو نذر مقررہ بلاتاخیر ایک ساعت ادا کرنا ہوگا اور دو نفل پڑھ کر خدا تعالیٰ سے یہ عہد کرنا ہوگا اور بعد پختگی عہد بلاتوقف مجھے اطلاع دینا ہوگا۔
مجھے یاد ہے کہ جب نظام الدین کے لئے میں نے دعا کی تب خواب میں دیکھا کہ ایک چڑا اُڑتا ہوا میرے ہاتھ میں آ گیا اور اس نے اپنے تئیں میرے حوالہ کر دیا اور میں نے کہا کہ یہ ہمارا آسمانی رزق ہے جیسا کہ بنی اسرائی پر آسمان سے رزق اُترا کرتا تھا۔
یہ بات خدا نے میرے دل میں ڈالی ہے دل تومانتا ہے کہ کچھ ہونے ہار بات ہے۔ واللّٰہ اعلم۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۵؍ جون ۱۹۰۶ء (ب)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
۹ ۲
۹۲
سیدی و مولائی طبیب روحانی۔ السلام علیکم
مقبرہ بہشتی میں قبروں کی بُری حالت ہے ایک تو قبروں میں نالیوں کی وجہ سے سیلاب ویسے ہی رہتا ہے اور یہ نالیاں درختوں کے لئے ضروری ہیں پھر اس پر یہ زیادہ ہے پانی جو آیا کرتا ہے اس کی طرح سے یہ قبریں کوئی دو فٹ نیچی ہیں اب معمولی آب پاشی ہے اور ان بارشوں سے اکثر قبریہ دَب جاتی ہیں پہلے صاحب نور اور غوثاں کی قبریں دَب گئی تھیں ان کو میں (نے) درست کرا دیا تھا اب پھر یہ قبریں دَب گئی ہیں اور یہ پانی صاف نظر آتا ہے کہ نالیوں کے ذریعہ گیا ہے۔ پس اس کے متعلق کوئی ایسی تجویز تو میر صاحب فرمائیں گے کہ جس سے روز کے قبروں (کے) دبنے کا اندیشہ جاتا رہے مگر میرا مطلب اس وقت اس عریضہ سے یہ ہے کہ ابھی تو معمولی بارش سے یہ قبریں دبی ہیں پھر معلوم نہیںکوئی رو آ گیا تو کیاحالت ہوگی۔
اس لئے نہایت ادب سے عرض ہے کہ اگر حضور حکم دیں تو میں اپنے گھر کے لوگوں کی قبر کو پختہ کر دوں اور ایک (دو)دوسری قبریں بھی یا (جیسا) حضور حکم دیں ویسا کیا جائے۔
(راقم محمد علی خاں)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میرے نزدیک اندیشہکی وجہ سے کہ تا سیلاب کے صدمہ کی وجہ سے نقصان (نہ ہو) پختہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں معلوم ہوتا کیونکہ انما الاعمال بالنیات باقی رہے مخالف لوگوں کے اعتراضات تو وہ تو کسی طرح کم نہیں ہو سکتے۔ والسلام
مرزا غلام احمد عفی عنہ (ب)
نوٹ از مرتب: (۱) دونوں مکتوبات میں خطوط واحدانی کے الفاظ خاکسار مؤلف کی طرف سے ہیں۔ (۲) دونوں مکتوبات کی تاریخ کی تعیین ذیل کے امور سے ہوتی ہے۔
(الف) تاریخ وفات غوثاںؓ ۲۳؍ستمبر۱۹۰۶ء ، صاحب نور صاحب ۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۶ء اور اہلیہ صاحبہؓ حضرت نواب صاحب ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۰۶ء ہے۔ (ب) موسم برسات یہاں جون سے ستمبر تک ہوتا ہے۔ اور مکتوب میں معمولی بارش ہونے کا ذکر ہے اور ۱۹۰۶ء میں ان مرحومیں کی وفات سے پہلے یہ موسم گزر چکا تھا اور ۱۹۰۸ء میں حضور نے ۲۷؍ اپریل کو سفر لاہور اور وہاں اگلے ماہ سفر آخرت اختیار کیا۔ گویا کہ اس سال میں موسم برسات شروع بھی نہیں ہوا تھا۔ (ج) ایک دفعہ پہلے یہ قبریں بارش سے دَب چکی تھیںاور درست کرائی گئیں تھیں اور اب موسم برسات کی ابتداء تھی ان تمام امور سے معلوم ہوتا ہے کہ موسم برسات ۱۹۰۷ء یا برسات دسمبر ۱۹۰۷ء یا اوائل ۱۹۰۸ء کا یہ مکتوب ہے۔ موسم سرما میں دسمبر یا جنوری میں بھی بارش ہوتی ہے قابل ترجیح یہ امر معلوم ہوتا ہے کہ پہلی بار نئی نئی قبریں دسمبر ۱۹۰۶ء یا جنوری ۱۹۰۷ء میں بارش سے دَب گئی ہوں گی اور دوبارہ موسم برسات ۱۹۰۷ء کی ابتداء میں دَب گئیں۔ واللّٰہ اعلم
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۳۰
۹۳
سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم
آج سیر میں تذکرہ تھا کہ حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب کی طبیعت پھر علیل ہے اور ان کی غذا کا انتظام درست نہیں ہے جونکہ مجھ کو حضرت مولانا نے قرآن شریف کا ترجمہ پڑھایا ہے اور اس طرح مجھ کو ان کی شاگردی کا (گو میں بدنام کنندہ نکونامے چند کے طور سے شاگرد ہوں) فخر حاصل ہے۔ اس لئے میرے دل میں یہ خواہش رہتی ہے کہ حضرت مولانا کی کچھ خدمت کر سکوں۔ کبھی کبھی میں ن(نے٭)ان کی غذا کا التزام کیا ہے مگر حضرت مولانا کی غیور طبیعت برداشت نہیں کرتی اور وہ روک دیتے ہیں اسی لئے الامرفوق الادب کے لحاظ سے پھر جرأت نہیں پڑتی اب اگر حضور حکم فرماویں تو اس طرح مجھ کو خدمت کا ثواب اور حضرت مولانا کے غذا کا انتظام ہو جاتا ہے اور حضرت مولانا حضور کے حکم کی وجہ سے حد انکار بھی نہ کریں گے اصل بات یہ ہے کہ لنگر میں بہ سبب کثرت کار پوری طرح سے التزام مشکل ہے میرے باورچی کو چونکہ اتنا کام نہیں اس لئے خدا کے فضل اور حضور کی دعا سے امید کی جاتی ہے کہ التزام ٹھیک رہے گا بس اگر میری یہ عرض قبول ہو جائے تو میرے لئے سعادت دارین کا موجب ہو۔
دوم میں نے اپنے بھائی کو حضور کے حکم کے بموجب خط لکھا ہے حضور ملاحظہ فرما لیں اگر یہ درست ہو تو بھیج دوں۔
راقم محمد علی خاں
حضور نے جواباً تحریر فرمایا:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ حضرت مولوی صاحب کی نسبت مجھے کچھ عذر نہیں واقعی لنگر خانہ کے لوگ ایک طرف تاکید کی جائے دوسری طرف پھر غافل ہو جاتے ہیں کثرت آمد مہمانوں کی طرف سے بعض اوقات دیوانے کی طرح ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ سے عمدہ طور سے انتظام ہو سکے تو میں خوش ہوں اور موجب ثواب۔
خط آپ نے بہت عمدہ لکھا ہے مگر ساتھ لکھتے وقت ترتیب اوراق کا لحاظ نہیں رہا خط… پڑہتے جب دوسرے صفحہ میں مَیں پہنچا تو وہ عبارت پہلے صفحہ سے ملتی نہیں تھی اس کو درست کر دیا جائے۔
والسلام
مرزاغلام احمد
نوٹ از مرتب: یہ مکتوب آخر ۱۹۰۶ء یا ابتدا ۱۹۰۷ء کا ہے تفصیل کیلئے دیکھئے اصحاب احمد جلد دوم صفحہ۴۸۶
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
۳۱
۹۴
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عجیب اتفاق ہوا کہ آپ نے ہزار روپیہ کانوٹ بند خط کے اندر بھیجا اور میاں صفدر نے شادی خاں کی والدہ کے حوالہ کیا جس کو دادی کہتے ہیں۔ وہ بیچاری نہایت سادہ لوح ہے وہ میری چارپائی پر وہ لفافہ چھوڑ گئی میں باہر سیر کرنے کو گیا تھا اور وہ بھول گئی اب اس وقت اس نے یاد دلایا کہ نواب صاحب کا ایک خط آیا تھا میں نے پلنگ پر رکھا تھا پہلے تو وہ خط تلاش کرنے سے نہ ملا۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ کل زبانی دریافت کر لیں گے پھر اتفاقاً بستر کو اُٹھانے سے وہ خط مل گیا اور کھولا تو اس میں ہزار روپیہ کا نوٹ تھا یہ بے احتیاطی اتفاقی ہوگئی گویا ہزار روپیہ کا نقصان ہو گیا تھا۔ مگر الحمدللہ مل گیا۔ وہ عورت بیچاری نہایت سادہ اور نیم دیوانہ ہے۔ وہ بے احتیاطی سے پھینک گئی۔ خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے آپ نے اپنی نذر کو پورا کیا۔ آمین
والسلام
مرزا غلام احمد
حضور چشمہ معرفت میں تحریر فرماتے ہیں کہ نواب صاحبؓ نے بعد کامیابی بلا توقف تین ہزار روپیہ لنگر خانہ کے لئے ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا جو پورا کر دیا۔ صفحہ ۳۲۳،۳۲۴)
چنانچہ مکتوب ہذا میں اس نذر کے پورا کرنے کا ذکر ہے اور نواب صاحب کے ۱۶؍ فروری ۱۹۰۸ء کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ چند روز قبل بذریعہ تار کامیابی کی اطلاع آئی تھی اس لئے مکتوب حضور اس تاریخ کے قریب کا ہے۔ تفصیل کیلئے اصحاب احمد جلد دوم حاشیہ صفحہ۵۹۲ دیکھئے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۳۲
۹۵
سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم
بھائی خاں صاحب محمد احسن علی خاں صاحب نے مجھ کو ایک خط لکھا تھا اور ایک خط حضور کی خدمت میں بھی بھیجا تھا جو کل یہاں پہنچے۔ میں (نے٭) اس خط کا جواب لکھا ہے اور برائے ملاحظہ حضور پیش ہے۔ اگر حضور اس کو ملاحظہ (کر کے ٭) تصحیح سے سرفراز فرمائیںتو عین سعادت ہے۔
راقم محمد علی خاں
٭ خطوط واحدانی کے الفاظ خاکسار مرتب کی طرف سے ہیں۔
جواباً حضور نے رقم فرمایا:
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
میں نے اوّل سے آخر تک حرفاً حرفاً پڑھ لیاہے یہ خط نہایت عمدہ اور مؤثر معلوم ہوتاہے۔ ایسا ہی لکھنا چاہئے تھا۔ جزاکم اللہ خیرا
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
٭٭٭
حضور نے جواباً تحریر فرمایا:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۳۳
۹۶
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خدا تعالیٰ کا درحقیقت ہزار ہاگونہ شکر ہے کہ موت جیسی حالت سے واپس لا کر صحت بخشی اب آپ کو اختیار ہے کہ کسی دن خواہ جمعہ کوعام دعوت سے اس شکریہ کا ثواب حاصل کریں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ


۳۴
۹۷
مکتوب ہذا منجانب نواب صاحب بنام حضرت اقدس ہے۔
حضور نے جواباً تحریر فرمایا:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ آپ کو اجازت ہے آپ چلے جائیں نور محمد بے شک اس وقت تک رہے صرف اس قدر کام کر دیاکرے کہ پانچ چار روٹیوں کے لئے جو پھلکے پکاتا ہے وہیں آٹا لے جائے اور پکا کر بھیج دے اور لال ٹینوں میں تیل ڈال دیا کرے اور رتھ تو آپ کا مال ہے جب چائیں لے جائیں اور میں اب ایک مدت سے ہر یک نماز میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اور کل میں نے سنا ہے کہ میری لڑکی مبارکہ کے (لئے٭) آپ کی طرف سے پیغام آیا تھا اس میں ابھی دو مشکلات ہیں۔ (۱) ایک یہ کہ ابھی وہ صرف گیارہ سال عمر پورے کر چکی ہے اور پیدائش میں…۱؎ بہت ضعیف البنیان اور کمزور ہے کھانسی ریزش تو ساتھ لگی ہوئی ہے جب تک کہ پندرہ سال کی نہ ہو جائے کسی صورت میں شادی کے لائق نہیں اگر پہلے ہو تو اس کی عمر کا خاتمہ ہو جائے گا۔
(۲) دوسرے نہایت خوفناک امر جو ہر وقت دل کو غمناک کرتا رہتا ہے ایک پیشگوئی ہے جو چن دفعہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو چکی ہے میں نے بجز گھر کے لوگوں کے کسی پر اس کو ظاہر نہیں کیا۔ اس پیشگوئی کے ایک حصہ کا حادثہ ہم میں اور آپ میں مشترک ہے بہت دعا کرتا ہوں کہ خدا اس کو ٹال دے اور دوسرے حصہ کا عادۃ خاص ہم سے اور ہمارے گھر کے کسی شخص سے متعلق ہے یہ بھی الہام کسی حصہ کی نسبت ہے کہ ۲۷؍ تاریخ کو وہ واقعہ ہوگا۔ نہیں معلوم کس مہینہ کی تاریخ اور کونسا سن ہے۔ اخبار میں میں نے چھپوا دیا ہے اور آپ کو معلوم ہوگا کہ شاید ایک مہینہ کے قریب ہوگیا کہ میں نے ایک الہام اخبار میں صرف اشارہ کے طور پر چھپوایا تھا جس کی یہ عبارت تھی کہ ایک نہایت چھپی ہوئی خبر پیش کرتا ہوں۔ دراصل وہ خبر انہی حوادث کے متعلق ہے یہ بھی دیکھا کہ گھر میں ہمارے ایک بکرا ذبح کیا ہوا کھال اُتاری ہوئی ایک جگہ لٹک رہا ہے۔ پھر دیکھا کہ ایک ران لٹک رہی ہے۔ یہ سب بعض موتوں کی طرف اشارات ہیں۔
٭ خطوط واحدانی والا لفظ خاکسار مرتب کی طرف سے ہے۔
۱؎ خالی جگہ پر مرتب سے دو لفظ پڑھے نہیں گئے غالباً ’’شروع سے‘‘ ہیں۔
میں دعا کر رہا ہوں۔
والسلام
مرزا غلام احمد
نوٹ: اس خط کا جواب میں نے یہ دیا تھاکہ جو کچھ حضرت اقدس نے تحریر فرمایا ہے درست اور قبول و منظور اور انتظار ممکن۔ (محمد علی خاں)
نوٹ از مرتب: (۱) رویا کہ ’’ایک ران لٹک رہی ہے‘‘۔ غیر مطبوعہ ہے اور خاکسار کو پہلی بار اس کی اشاعت کی سعادت حاصل ہوئی۔ فالحمدللہ علی ذالک۔ (۲) ۱۹۰۷ء کا رؤیا بدر و الحکم میں اس قدر شائع ہوا ’’ایک گو سفند مسلوخ دیکھا‘‘ لیکن مکتوب ہذا میں زیادہ تفصیل ہے (۳) الہام و رؤیا اس مکتوب میں ۱۹۰۷ء کی درج ہیں نواب صاحب کے خط سے جلسہ سالانہ کا قرب اور ۲۷؍ سے ایک ہفتہ قبل ان کے اجازت طلب کرنے کا علم ہوتا ہے گویا کہ یہ مکتوب ۲۰ دسمبر ۱۹۰۷ء کا ہے یہ خیال نہ کیا جائے کہ مسلوخ گو سپند والی رؤیا صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی وفات (۱۶؍ ستمبر۱۹۰۷ء) سے پوری ہوگئی جیسا کہ الحکم بابت ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ب کالم ۲ اور بابت ۲۴؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ۶ کالم ۲ اور بدربانیہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ۵ کالم ۳ میں لکھا گیا ہے (اور یہ بھی درج ہے کہ یہ رؤیا حضرت نے تین اشخاص کو سنائی تھی جن میں سے ایک حضرت نواب صاحب تھے) کیوں کہ صاحبزادہ صاحب کی وفات کے بعد حضور مکتوب ہذا میں اس رؤیا کا ذکر فرماتے ہیں کہ گویا کہ ابھی پوری نہیں ہوئی اور اس رؤیا کے متعلق اس امر کا علم صرف نواب صاحب اور حضور کے ان مکتوبات سے ہوتا ہے نیز تذکرہ میں اس رؤیا کی تاریخ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء سے قبل لکھی گئی ہے۔ حوالہ جات مذکورہ سے ظاہر ہے کہ یہ ۳۱؍ اکتوبر نہیں بلکہ اس کی تاریخ ڈیڑھ ماہ قبل درج ہونی چاہئے۔ یعنی ۱۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء سے قبل۔


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۳۵
۹۸
میری لخت جگر مبارکہ بیگم کی نسبت جو آپ کی طرف سے تحریک ہوئی تھی میں بہت دنوں تک اس معاملہ میں سوچتا رہا آج جو کچھ خدا نے میرے دل میں ڈالا ہے اس شرط کے ساتھ اس رشتے میں مجھے عذر نہیں ہوگا اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کو بھی اس میںتامل نہیں ہوگا۔ اور وہ یہ ہے کہ مہر میں آپ کی دو سال کی آمدن جاگیر مقرر کی جائے یعنی … ہزار روپیہ اور اس قرار کے بارے میں ایک دستاویز شرعی تحریری آپ کی طرف سے حاصل ہو۔ میں خوب جانتا ہوں کہ آپ نہایت درجہ اخلاص میںگداز شدہ ہیں اور آپ نے ہر ایک پہلو سے ثبوت دے دیا ہے کہ آپ کو جانفشانی تک دریغ نہیں مگر جو کچھ میں نے تحریر کیا ہے وہ اوّل تو آپ کی خداداد حیثیت سے بڑھ کر نہیں اور پھر آپ کی ذات کے متعلق نعوذ باللہ اس میں کوئی بدگمانی نہیں۔ محض خدا نے میرے دل میں ایسا ہی ڈال دیا ہے اور ظاہری طور پر اس کے لئے ایک صحیح بنا بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ موت حیات کا اعتبار نہیں اور آپ کے خاندان کے عمل درآمد کے رو سے عورتیں اپنے شرعی حقوق سے محروم ہوتی ہیں اگر بعد میں کچھ گزارہ تجویز کیا جائے تو وہ مشکوک اور (نہ٭) اپنے اختیار میں ہوتا ہے اور خدا آپ کی اولاد کی عمر دراز کرے وہ بعد بلوغ اپنے اپنے خیالات اور اغراض کے پابند ہونگے اور حق مہر کا فیصلہ ایک قطعی امر ہے اور ایک قطعی حق ہے جو خدا نے ٹھہرا دیا ہے اور عورتیں جو بے دست و پا ہیں اس حق کے سہارے سے ظلم سے محفوظ رہتی ہیں آپ کی زندگی میں اس مہرکا مطالبہ نہیں لیکن خدانخواستہ اگر لڑکی کی عمر ہو اور آپ کی عمر وفا نہ کرے تو اس کی تسلی اور اطمینان کیلئے اور پریشانیوں سے محفوظ رہنے کے لئے یہ طریق اور اس قدر مہربانی ہوگا تا کہ دوسروںکے لئے صورت رعب قائم رہے یہ وہ امر ہے جس کو سوچنے کے لئے میں آپ کو اجازت نہیں دیتا ایک قطعی فیصلہ ہے اور میں نے ارادہ کیا ہے کہ اگر ان دونوں باتوں کی آج آپ تکمیل کر دیںتو گو لڑکی ایک سال کے بعد رخصت ہومگر پیر کے دن نکاح ہو جائے یہ ایک قطعی فیصلہ ہے جو میری طرف سے ہے اس میں کسی طرح کمی بیشی نہیں ہوگی اس وجہ سے میں
٭ خطوط واحدانی والا لفظ خاکسار مرتب کی طرف سے ہے۔
نے اس خیال سے اور اسی انتظار سے عزیزی سید محمد اسماعیل کو پیر کے دن تک ٹھہرا لیا ہے اگر آپ کی طرف سے اس شرط کی نامنظوری ہوگی تو پھر وہ کل ہی اپنی نوکری پر چلا جائے گا۔
والسلام
راقم مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۲؍ فروری ۱۹۰۸ء
نوٹ: اس خط کا جواب زبانی پیر منظور محمد صاحب حامل خط ہذا کو یہ دے دیا تھا کہ مجھ کو بلاعذر سب کچھ منظور ہے۔
محمد علی خان)
نوٹ: مکتوب میں حضور کے برادر نسبتی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ؓ مراد ہیں۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۳۶
۹۹
محبی عزیزم اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط مرسلہ پہنچا اس کے رقعہ کی کچھ ضرورت نہ تھی لیکن میں جانتا ہوں کہ جس طرح انسان دوسرے لوگوں کے ساتھ ایک فیصلہ کر کے مطمئن ہو جاتا ہے اور پھر پھر اس درد سے نجات پاتا ہے کہ جو تنازع کی حالت میںہوتی ہے اسی طرح انسان کا نفس خدا تعالیٰ نے ایسا بھی بنایا ہے کہ وہ بھی اپنے اندر کئی مقدمات برپا رکھتا ہے اور ان مقدمات سے نفس انسانی بے آرام رہتا ہے لیکن جب انسان کسی امر کے متعلق ایک فیصلہ کرلیتا ہے تب اس فیصلہ کے بعد ایک آرام کی صورت پیدا ہو جاتی ہے آپ کی رائے میں صرف یہ کسر باقی ہے کہ ہمیں زندگی کا اعتبار نہیں جیساکہ خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر فرمایا ہے ایساہی آپ بھی زندگی پر بھروسہ نہیں کر سکتے اور اس بارے میں یہ شعر شیخ سعدی کا بہت موزوں ہے۔
من تکیہ بر عمر ناپائیدار
مباش ایمن از بازی روز گار
پس اگر ہمیں موت آ گئی تو ہم اس رشتہ کی خوشی سے محروم گئے اور نیز اس دعا سے محروم رہے کہ جو ہماری زندگی کی حالت میں اس رشتہ کے مبارک ہونے کے لئے کر سکتے تھے۔ کیونکہ وہ دعا اس وقت سے مخصوص ہے جب نکاح ہو جاتا ہے علاوہ اس کے ہر یک کو اپنی عمر پر اعتماد کرنا بڑی غلطی ہے۔ آج سے چھ ماہ پہلے آپ کے گھر کے لوگ صحت کے ساتھ زندہ موجود تھے کون خیال کر سکتا تھا کہ وہ اس عید کو بھی نہ دیکھ سکیں گے اسی طرح ہم میں سے کس کی زندگی کا اعتبار ہے؟ اگر موت کے بعد اس وعدہ کی تکمیل ہو تو گویا میری اس بات کو یاد کر کے خوشی کے دن میں رونا ہوگا مگر میں آپ کی رائے میں کچھ دخل نہیں دیتا صرف عمر کی بے ثباتی پر خیالکر کے یہ چند سطریں لکھی ہیں کیونکہ بقول شخصے
اے ز فرصت بے خبر در ہرچہ باشی زود باش
وقت فرصت کو ہاتھ سے دینا بسا اوقات کسی دوسرے وقت میں موجب حسرت ہو جاتا ہے میری دانست میں تو اس میں کچھ حرج نہیں اور سراسر مبارک ہے کہ رمضان کی ۲۷؍ تاریخ کو بظن غالب لیلۃ القدر کی رات اور دن ہے مسنون طور پر نکاح ہو جائے اور اس… میں کیا حرج ہے کہ اس سے لڑکی کو اطلاع دی جائے مگر وداع نہ کیا جائے۔ لڑکی بجائے خود… پرورش اور تعلیم پاوے اور لڑکا بجائے خود جب دونوں بالغ ہو جائیں تب رخصت کیا جائے کیونکہ کہ فی التاخیر آفات کا ہی مقولہ صحیح ہے جو تجربہ اس کی صحت پر گواہی دیتا ہے۔ زندگی کا کچھ بھی اعتبار نہیں شیخ سعدی نے اس میں کیا عمدہ ایک غزل لکھی ہے اور وہ یہ ہے۔
بلبلے زاد زا رمی نالید
بر فراق بہار و وقتِ خزاں
گفتمش صبر کن کہ باز آید
آں زمانِ شگوفہ و ریحاں
گفت ترسم بقا وفا نکند
ورنہ ہر سال گل دہدبستاں
اسی طرح شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
سال دیگر را کہ میداند حساب
تا کجا رفت آنکہ باما بود یار
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لاتقف مالیس لک بہ علم یعنی ان باتوں کے پیچھے مت پڑ جن کا تجھے علم نہیں۔ پس ہمیں کیا علم ہے کہ سال آئندہ میں ہم زندہ ہوں گے یا نہ ہوں گے اور جب قائمقاموں کے ہاتھ میں بات جاتی ہے تو وہ اپنی ہی رائے کو پسند کرتے ہیں میں نے٭ یہ محض میں نے اپنی رائے
٭ ’’میں نے‘‘ خط میں دو بار مرقوم ہے۔ مرتب
لکھی اور آپ اپنی رائے اور ارادہ میں مختار ہیں۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ رمضان المبارک ۱۳۲۴ھ
٭٭٭
اس خط کا چربہ آخر میں ملاحظہ فرمائیے۔
۳۷
۱۰۰
یہ مکتوب منجانب نواب صاحب بنام حضرت اقدس ہے
اس کے جواب میں حضرت اقدس علیہ السلام نے حسب ذیل مکتوب ارسال فرمایا۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ یہ تجویز آپ کی خدمت میں اس لئے پیش کی گئی تھی کہ فی التاخیر آفات کا مقولہ یاد آتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ میں نے بعض خوابیں دیکھی ہیں اور بعض الہام ہوئے ہیں جن کا میں نے مختصر طور پر آپ کی خدمت میں کچھ حال بیان کیا تھا۔ اگر میرے پاس زینب ہو تو دعا کا موقعہ ملتا رہے گا میں دیکھتا ہوں کہ لڑکا بھی جوان ہے ابھی مجھے نیا مکان بنانے کی گنجائش نہیں اسی مکان میں مَیں نے تجویز کر دی ہے لیکن چونکہ تجربہ سے ثابت ہے کہ اگر لڑکیاں والد کے گھر سے سرسری طور پر رخصت ہوں تو ان کی دل شکنی ہوتی ہے اس لئے میں اس وقت تک جو آپ مناسب سمجھیں اور رخصت کیلئے تیاری کر سکیں مہلت دیتا ہوں مگر آپ اس مدت سے مجھے اطلاع دے دیں میرے نزدیک دنیا کے امور اور ان کی الجھنیں چلی جاتی ہیں لڑکیوں کی رخصت کو ان سے وابستہ کرنا مناسب نہیں۔
والسلام
مرزا غلام احمد

۳۷
۱۰۰
مذکورہ بالا کے جواب میں نواب صاحب نے تحریر فرمایا:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم۔ میری اپنی رائے تو یہی تھی کہ حضور ہی کوئی مہلت معقول عطا فرما دیتے مگر جب حضور (نے٭) مجھ پر چھوڑا تو یہ امر زیادہ ذمہ داری کا ہو گیا۔ اس لئے جہاں حضور نے یہ عنایت فرمائی ہے اتنی مہربانی اور ہو کہ میں ایک ماہ کے اندر سوچ کر عرض کر دوں کہ میں کب تک رخصتانہ کا انتظام کر سکتا ہوں۔ اس کی صرف یہ ضرورت ہے کہ میں انتظام میں لگا ہوں پس اس عرصہ میں مجھ کو انشاء اللہ تعالیٰ ٹھیک معلوم ہو جائے گا کہ کس قدر عرصہ میں انتظام مکمل ہو جائے گا۔ حضور بھی دعا فرمائیں کہ میں اس کامیں کامیاب ہوں۔ میں آج کل ہر طرح کی ابتلاؤں (کے٭) نرغے میں ہوں۔
راقم محمد علی خان
مکرر: اس عرصہ بعد مجھ کو جتنی مہلت کی ضرورت ہوگی عرض کر کے تاریخ مقرر کردوں گا باقی اختیار اللہ تعالیٰ کے ہیں وہی سامان کرنے والا ہے حضور کی دعا کے ہم سب ہر وقت محتاج ہیں۔
محمد علی خاں
اس پر حضور نے تحریر فرمایا:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مجھے منظور ہے امید کہ آپ ایک ماہ کے بعد مطلع فرمائیں گے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
٭ خطوط واحدانی والے لفظ خاکسار مرتب کی طرف سے ہیں۔
نوٹ از مرتب: پانچ عدد خطوط جو حضرت عرفانی صاحب کی طرف مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم میں شائع ہو چکے ہیں ان کے چونکہ چار عدد چربے اور ایک بلاک یہاں دیئے جارہے ہیں اس لئے ان کو بھی یہاں درج کر دیا گیا ہے نچلے نمبر جلد پنجم نمبر چہارم والے ہیں۔
٭٭٭
مکتوب نمبر(۳۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج کی ڈاک میں آپ کا خط مجھ کو ملا اس وقت تک خدا کے فضل و کرم اور جود اور احسان سے ہمارے گھر اور آپ کے گھر میں بالکل خیروعافیت ہے۔ بڑی غوثان کو تپ ہو گیا تھا۔ا س کوگھر سے نکال دیا ہے۔ لیکن میری دانست میں اس کو طاعون نہیں ہے۔ احتیاطاً نکال دیا ہے اورماسٹر محمد دین کوتپ ہو گیا اور گلٹی بھی نکل آئی ۔ اس کوبھی باہر نکال دیا ہے۔ غرض ہماری اس طرف بھی کچھ زور طاعون کا شروع ہے بہ نسبت سابق کچھ آرام ہے۔ میں نے اس خیال سے پہلے لکھا تھا کہ اس گائوں میں اکثر وہ بچے تلف ہوئے ہیں۔ جو پہلے بیمار یا کمزور تھے۔ اسی خیال نے مجھے اس بات کے کہنے پر مجبور کیا تھا کہ وہ د وہفتہ تک ٹھہر جائیں یا اس وقت تک کہ یہ جوش کم ہو جائے۔ اب اصل بات یہ ہے کہ محسوس طور پر تو کچھ کمی نظر نہیں آتی۔ آج ہمارے گھر میں ایک مہمان عورت کو جو دہلی سے آئی تھی بخار ہو گیا ہے۔ لیکن اس خیال سے کہ آپ سخت تفرقہ میں مبتلا ہیں۔ اس وقت یہ خیال آیا کہ بعد استخارہ مسنونہ خدا تعالیٰ پر توکل کرکے قادیان آجائیں۔ میں تو دن رات دعا کررہا ہوں اور اس قدر زور اور توجہ سے دعائیں کی گئی ہیں کہ بعض اوقات میں ایسا بیمار ہو گیا کہ یہ وہم گزرا کہ شاید دو تین منٹ جان باقی ہے اورخطرناک آثار ظاہر ہو گئے۔ اگر آتے وقت لاہور سے ڈس انفکیٹ کے لئے کچھ رسکپور اور کسی قدر فلنائل لے آویں اور کچھ گلاب اور سرکہ لے آویں تو بہتر ہو گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۶؍ اپریل ۱۹۰۴ء
مکتوب نمبر(۴۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاخط آج کی ڈاک میں پہنچا پہلے اس سے صرف بہ نظر ظاہر لکھا گیا تھا۔ اب مجھے یہ خیال آیا ہے کہ توکلا علی اللہ اس ظاہرکو چھوڑ دیں۔ قادیان ابھی تک کوئی نمایاں کمی نہیں ہے۔ ابھی اس وقت جو لکھ رہاہوں ایک ہندو بیجاتھ نام جس کاگھرگویا ہم سے دیوار بہ دیوار ہے۔ چند گھنٹہ بیمار رہ کر راہی ملک بقا ہوا۔ بہرحال خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کر کے آپ کو اجازت دیتا ہوںکہ آپ بخیروعافیت تشریف لے آویں۔ شب بیداری اور دلی توجہات سے جو عبدالرحمن کے لئے کی گئی میرا دل ودماغ بہت ضعیف ہو گیا ہے۔ بسا اوقات آخری دم معلوم ہوتا تھا۔ یہی حقیت دعا ہے۔ کوئی مرے تا مرنے والے کو زندہ کرے۔ یہی الٰہی قانون ہے۔ سو میں اگرچہ نہایت کمزور ہوں لیکن میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ آپ جب آویں تو پھر چند روز درد انگیز دعائوں سے فضل الٰہی کو طلب کیا جائے۔ خدا تعالیٰ صحت اور تندرستی رکھے۔ سو آپ بلا توقف تشریف لے آویں۔ اب میرے کسی اورخط کا انتظار نہ کریں۔
والسلام ۔خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ

مکتوب نمبر(۴۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزہ سعیدہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں نے آپ کاخط غور سے پڑھ لیا ہے اور جس قدر آپ نے اپنی عوارض لکھی ہیں غور سے معلوم کر لئے ہیں۔ انشاء اللہ صحت ہو جائے گی۔ میں نہ صرف دوا بلکہ آپ کے لئے بہت توجہ سے دعا بھی کرتا ہوں۔مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو پوری شفاء دے گا۔ یہ تجویز جو شروع ہے۔ آپ کم سے کم چالیس روز تک اس کو انجام دیں اوردوسرے وقت کی دوا میں آپ ناغہ نہ کریں۔ وہ بھی خون صاف کرتی ہے اور دل کی گھبراہٹ کو دو رکرتی ہے اورآنکھوں کوبھی مفید ہے۔ مگر آپ بیچ میں ناغہ کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ کل آپ نے دوا نہیں پی۔ ناغہ نہیں ہونا چاہئے اور نیز مصالحہ۔ مرچیں اورلونگ او رلہسن وغیرہ نہیں کھانا چاہئے یہ آنکھوں کے لئے مضر ہیں۔
آپ کے لئے یہ غذا چاہئے۔ انڈا۔ دودھ۔ پلائو گوشت ڈال کر۔ گوشت جس میں کچھ سبزی ہے۔ ثقیل یعنی بوجھل چیزوں سے پرہیز چاہئے۔ کچھ میٹھا یعنی شیرینی نہیں کھانی چاہئے۔ ایک جگہ بیٹھے نہیں رہنا چاہئے۔ کچھ حرکت چاہئے۔ عمدہ ہوار ربیع کی لینی چاہئے۔ غم نہیں کرنا چاہئے۔ اس علاج سے پھنسیاں وغیرہ انشاء اللہ دور ہو جائیں گی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
مکتوب نمبر (۶۰) دستی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اشتہار کے بارے میں جو مدرسہ کے متعلق لکھا ہے۔ چند دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ لکھوں اور ایک دفعہ یہ مانع اس میں آیا کہ وہ حال سے خالی نہیں کہ یا تو یہ لکھا جائے کہ جس قدر مدد کا لنگر خانہ کی نسبت ارادہ کیا جاتا ہے۔ اسی رقم میں سے مدرسہ کی نسبت ثلث یا نصف ہونا چاہئے۔ تواس میں یہ قباحت ہے کہ ممکن ہے اس انتظام سے دونوں میں خرابی پید اہو۔ یعنی نہ تو مدرسہ کا کام پورا ہو اور نہ لنگر خانہ کا۔ جیسا کہ دو روٹیاں دو آدمیوں کو دی جائیںتو دونوں بھوکے رہیںگے اور اگر چندہ والے صاحبوں پر یہ زور ڈالا جائے کہ وہ علاوہ اس چندہ کے وہ مدرسہ کے لئے ایک چندہ دیں تو ممکن ہے کہ ان کو ابتلاء پیش آوے اور وہ اس تکلیف کو فوق الطاقت تکلیف سمجھیں۔ اس لئے میںنے خیال کیا کہ بہتر ہے کہ مارچ اور اپریل دو مہینے امتحان کیا جائے کہ اس تحریک کے بعد جو لنگر خانہ کے لئے کی گئی ہے۔ کیا کچھ ان دو مہینوں میں آتا ہے۔ پس اگر اس قدر روپیہ آگیا جو لنگرخانہ کے تخمینی خرچ سے بچت نکل آئے تو وہ روپیہ مدرسہ کے لئے خرچ ہو گا۔ میرے نزدیک ان دو ماہ کے امتحان سے ہمیں تجربہ ہو جائے گا کہ جو کچھ انتظام کیا گیاہے۔ کس قدر اس سے کامیابی کی امید ہے۔ اگر مثلاً ہزار روپیہ ماہوار چندہ کا بندوبست ہو گیا تو آٹھ سو روپیہ لنگر خانہ کے لئے نکال کر دو سو روپیہ ماہوار مدرسہ کے لئے نکل آئے گا۔ یہ تجویز خوب معلوم ہوتی ہے کہ ہر ایک روپیہ جو ایک رجسٹر میں درج ہوتا رہے اور پھر دو ماہ بعد سب حقیقت معلوم ہوجائے۔
غلام احمد عفی عنہ

مکتوب نمبر (۶۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں اس جگہ آکر چند روز بیمار رہا۔ آج بھی بائیں آنکھ میں درد ہے۔ باہر نہیں جا سکتا۔ ارادہ تھا کہ اس شہر کے مختلف فرقوں کو سنانے کے لئے کچھ مضمون لکھوں۔ ڈرتا ہوں کہ آنکھ کا جوش زیادہ نہ ہو جائے خدا تعالیٰ فضل کرے۔
مرزا خد ابخش کی نسبت ایک ضروری امر بیان کرنا چاہتا ہوں۔ گو ہر شخص اپنی رائے کا تابع ہوتا ہے۔ مگر میں محض آپ کی ہمدردی کی وجہ سے لکھتا ہوں کہ مرزا خد ابخش آپ کا سچا ہمدرد اورقابل قدر ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ کئی لوگ جیسا کہ ان کی عادت ہوتی ہے۔ اپنی کمینہ اغراض کی وجہ سے یا حسد سے یا محض سفلہ پن کی عادت سے بڑے آدمیوں کے پاس ان کے ماتحتوں کی شکایت کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ میںنے سناہے کہ ان دنوں میں کسی شخص نے آپ کی خدمت میں مرزا خدا بخش صاحب کی نسبت خلاف واقعہ باتیں کہ کر آپ پر ناراض کیا ہے۔ گویا انہوں نے میرے پاس آپ کی شکایت کی ہے اور آپ کی کسر شان کی غرض سے کچھ الفاظ کہے ہیں مجھے اس امر سے سخت ناراضگی حاصل ہوئی اور عجیب یہ کہ آپ نے ان پر اعتبار کر لیا ایسے لوگ دراصل بد خواہ ہیں نہ کہ مفید۔ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ مرز اخد ابخش کے منہ سے ایک لفظ بھی خلاف شان آپ کے نہیں نکلا اور مجھے معلوم ہے کہ وہ بے چارہ دل وجان سے آپ کا خیر خواہ ہے اور غائبانہ دعا کرتا ہے اور مجھ سے ہمیشہ آپ کے لئے دعا کی تاکید کرتا رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ چند روزہ زندگی آپ کے ساتھ ہو۔ رہی یہ بات کہ مرزا خدا بخش ایک بیکار ہے۔ یا آج تک اس سے کوئی کام نہیں ہو سکا۔ یہ قضائو قدر کا معاملہ ہے۔ انسان اپنے لئے خود کوشش کرتا ہے اوراگر بہتری مقدر میں نہ ہو تو اپنی کوشش سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ایسے انسانوں کے لئے جوایک بڑا حصہ عمر کاخدمت میں کھو چکے ہیں اور پیرانہ سالی تک پہنچ گئے ہیں۔ میرا تو یہی اصول ہے کہ ان کی مسلسل ہمدردیوں کو فراموش نہ کیا جائے۔ کام کرنے والے مل جاتے ہیں۔ مگر ایک سچا ہمدرد انسان حکم کیمیا رکھتا ہے۔وہ نہیں ملتے۔ ایسے انسانوں کے لئے شاہان گزشتہ بھی دست افسوس ملتے رہے ہیں۔ اگر آپ ایسے انسانوں کی محض کسی وجہ سے بے قدری کریں تو میری رائے میں ایک غلطی کریں گے۔ یہ میری رائے ہے کہ جومیں نے آپ کی خدمت میں پیش کی ہے اور آپ ہر ایک غائبانہ بد ذکر کرنے والوں سے بھی چوکس رہیں کہ حاسدوں کا جو وجود دنیا میں ہمیشہ بکثرت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
مکرر یاد دلاتا ہوں کہ میرے کہنے سے مرزا خد ابخش چند روز کے لئے لاہور میرے ساتھ آئے تھے۔







حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے نام
تعارفی نوٹ
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی سابق ہریش چندر موہیال ولد مہتہ گوراندتہ مل صاحب سکنہ کنجروڑ دتاں تحصیل شکر گڑھ (سابق ضلع گورداسپور حال ضلع سیالکوٹ) پر اللہ تعالیٰ نے خاص فضل کیا کہ پنڈت لیکھرام اور چوہدری رام بھجدت جیسے آریہ معاندینِ اسلام کی برادری میں سے ہونے کے باوجود پندرہ سولہ سال کی عمر میں حضرت اماں الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شناخت کی توفیق عطا کی آپ کے والد نے زبردستی آپ کو قادیان سے اُٹھالے جانے کی کوشش کی جب کامیابی نہ ہوئی تو منت و لجاجت سے تحریری وعدہ حضور کی خدمت میں پیش کر کے چند دن کیلئے لے گئے لیکن وہاں جا کر گھر میں جو جانگلی علاقہ میں تھا اتنی کڑی نگرانی میں رکھا کہ کوئی مسلمان آ کر دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس آگ سے آپ کو صحیح و سلامت نکال لایا اور حضور کے قدموں میں دھونی رما کر بیٹھنے کی توفیق دی۔ حضور کے وصال کے وقت آپ حضور کی خدمت میں ہی حاضر تھے۔ آپ کا نام، ضمیمہ انجام آتھم میں تین سو تیرہ صحابہ میں ۱۰۱ نمبر پر ہے۔ غیر مبائعین کے فتنہ کے وقت بھی آپ نے نہایت سرگرمی سے قابل قدر خدمات سرانجام دیں۔ ۱۹۲۴ء میں مصلح موعود حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے سفر یورپ کے رفقاء میں آپ بھی شامل تھے اور روزانہ کے حالات بصورت خطوط قادیان ارسال کرنے کی آپ کو سعادت حاصل ہوئی جو بہت مقبول ہوئے فتنہ ارتداد ملکانہ کے موقعہ پر آپ نے اس علاقہ میں نہایت قابل قدر کام سرانجام دیا چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دس ہزار اشخاص کے برابر قرار دیا۔ ۱۹۴۸ء میں آپ کو پھر قادیان آنے کا موقعہ ملا۔ اس وقت سے آپ یہاں بطور درویش مقیم ہیں۔ اپریل ۱۹۵۰ء میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قلم مبارک سے آپ کو اور حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی کو خاص طور پر دعا کیلئے تحریر فرمایا آپ کے نام کے تو خطوط آپ ہی نے مجھے بلاک بنوانے کیلئے عنایت فرمائے تھے۔ فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۴۴
۱
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ آٹھ روپے پہنچے۔ جزاکم اللہ خیراً میں انشاء اللہ دعا کروں گا ہمیشہ اپنے حالات خیریت سے اطلاع دیتے رہیں۔
والسلام
مرزا غلام احمد
۲۳؍ نومبر ۱۹۰۶ء (ب)
نوٹ از مرتب: تاریخ حضرت اقدس کے قلم مبارک کی لکھی ہوئی نہیں بلکہ حضرت بھائی جی کے قلم سے تحریر شدہ ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۵۴
۲
آقائی و مولائی ایدکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضور آپ کا ایک الہام جسکا مضمون یہ ہے آریوں کا بادشاہ آیا اس کے اصل الفاظ کیا ہیں۔
عبدالرحمن قادیانی احمدی
۵؍ مارچ ۱۹۰۸ء
السلام علیکم۔ یہ مدت دراز کا الہام ہے مجھ کو صرف اسی قدر یاد ہے معلوم نہیں کہ یہ وہی الفاظ ہیں یا کچھ تغیر ہے۔ غالباً یاد یہی پڑتا ہے کہ وہی الفاظ ہیں۔ واللّٰہ اعلم
مرزا غلام احمد (ب)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۴۶
۳
آقائی و مولائی ایدکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضور مبلغ ایک روپیہ پیش خدمت کر کے ملتجی ہوں کہ للہ قبول فرمایا جاوے۔ اور اس خاکسار غلام کے حق میں دعا کی جاوے کہ اللہ تعالیٰ خدمت دین کی توفیق عطا فرماوے۔ اور قوت ایمانی اور اعمال صالحات کی توفیق ملے اور خاتمہ بالخیر ہو۔ آمین۔ حضور کی خادمہ اور ایک بچہ عبدالقادر بھی ملتجی ہیں ان کے حق میں بھی سعادت دارین اور انجام بخیر کی دعا فرمائی جاوے۔ حضور میں بہت کمزور حالت میں ہوں مجھے خاص خاص دعاؤں میں یاد فرمایا جاوے۔
والسلام
خاکسار
عبدالرحمن قادیانی احمد
۳؍ اپریل ۱۹۰۸ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مبلغ ایک روپیہ پہنچ گیا۔ جزاکم اللہ خیراً۔ آمین۔ انشاء اللہ القدیر دعا کروں گا۔
مرزا غلام احمد (ب)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۴۷
۴
میرے آقا اور میرے مولا خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضور ایک کھال چیتل کی پیش خدمت کر کے ملتجی ہوں کہ قبول فرمائی جاوے اور اس خاکسار غلام کے حق میں دعا فرمائی جاوے کہ اللہ تعالیٰ قوت ایمانی اور توفیق اعمال صالحات عطا فرماوے۔حضور میں بہت ہی کمزور اور قابل رحم ہوں۔ للہ میرے واسطے خاص طور سے دعا فرمائی جایا کرے حضور ایسا ہو کہ میری زندگی دین کی خدمت میں حضور کے منشاء اور رضائے الٰہی کے عین مطابق ہو جاوے۔ حضور میری یہ بھی خواہش ہے کہ یہ کھال حضور کی نشستگاہ میں ایسی جگہ رہے جہاں ہمیشہ میرے واسطے حضور کی خدمت میں دعاؤں کے واسطے عرض کرتی رہے۔ فقط
خاکسار
غلام عبدالرحمن قادیان احمدی
۵؍ اپریل ۱۹۰۸ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کھال پہنچ گئی ۔ جزاکم اللہ خیرا۔ انشاء اللہ اپنے استعمال میں لائی جاوے گی۔
والسلام
مرزا غلام احمد (ب)
٭٭٭
۴۸
۵
اس خط کا چربہ آخر میں ملاحظہ فرمائیے۔
یہ مکتوب منجاب حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بنام حضرت اقدس ہے۔
(از قلم مبارک حضرت اقدس علیہ السلام)
بشریٰ۔ میرے لئے ایک نشان آسمان پر ظاہر ہوا۔ خیر وخوبی کا نشان۔ میری مرادیں پوری ہوئیں۔ (ب)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۴۹
۶
آقائی و مولائی ایدکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضور یہ ایک چیتے کی کھال ہے قبول فرمائی جاوے اور اس خاکسار غلام کے حق میں دعا فرمائی جاوے کہ اللہ تعالیٰ خادم دین بناوے اعمال صالحات کی توفیق عطا ہو اور ایسی پاک زندگی میسر آ جاوے جو خدا کی رضا مندی کا باعث ہو اور خاتمہ بالخیر ہو۔
حضور اب لاہور جانے والے ہیں ہماری بہت سی کمزوریاں حضور کے سایہ کی وجہ سے نظر انداز کی جاتی تھیں۔ اب حضو رکے وجود مبارک کا سایہ جو کہ خدا کی طرف سے اس کے فضل اور رحمت کا سایہ بن کر ہماری سپر بنا ہوا تھا۔ حکمت الٰہی کی وجہ سے لاہور جاتا ہے۔ لہٰذا اب ہم لوگ حضور کی خاص دعا اور توجہ کے از بس محتاج ہیں۔ لہٰذا نہایت عاجزی سے بصد ادب التماس ہے کہ خاص خاص اوقات میں اس خاکسار اور حضور کی خادمہ اور بچے اور اقربا کے واسطے ضرور دعا کی جایا کرے۔ فقط
حضور کا غلام در
عبدالرحمن قادیانی احمدی
بقلم خود
۲۴؍ اپریل ۱۹۰۸ء
السلا م علیکم کھال پہنچی۔ جزاکم اللہ خیرا۔ انشاء اللہ دعا کروں گا۔
والسلام
مرزا غلام احمد (ب)
نوٹ از مرتب: اس پر حضرت بھائی جی کے قلم کا ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۸ء کا ذیل کا نوٹ درج ہے۔
’’حضرتاقدس کاپی دیکھ کر لکھ رہے تھے۔ ہاتھ میں پنسل ہی تھی۔ حضرت اقدس کے الفاظ پنسل سے تھے میں نے سیاہی سے اوپر قلم پھیر دی‘‘۔
عبدالرحمن قادیانی احمدی بقلم خود ۔ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۸ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۵۰
۷
آقائی و مولائی فداک روحی ایدکم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضور قادیان سے حضور کی خادمہ کا آج ہی خط آیا ہے کہ رات کے وقت ہمیں تنہائی کی وجہ سے خوف آتا ہے کیوں کہ جس مکان میں رہتا ہوں وہ بالکل باہر ہے۔لہٰذا اکرم حکم ہو اور حضور اجازت دیں تو میںجا کر ان کو کسی دوسرے مکان میں تبدیل کر آؤں یا اگر حضور کے دولت سرائے میںکوئی کوٹھڑی خالی ہو تو وہاں چھوڑ آؤ۔ جیسا حکم ہو تعمیل کی جاوے۔
حضور کی دعاؤں کا محتاج خادم در
عبدالرحمن قادیان احمدی
۱۴؍ مئی ۱۹۰۸ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ابھی جانا مناسب نہیں ہے لکھ دیں کہ کسی شخص کو یعنی کسی عورت کو رات کو سلا لیا کریں یا مولوی شیر علی صاحب بندوبست کر دیں کہ کوئی لڑکا آپ کے گھر سو رہا کرے۔
مرزا غلام احمد (ب)




محترم محمد ابراہیم خاں صاحبؓ کے نام
تعارفی نوٹ
محترم محمد ابراہیم خاں صاحب مرحوم کے صاحبزادہ جناب احسان اللہ خاں صاحب سے ذیل کا مکتوب اور کوائف حاصل ہوئے آپ ہائی کمشنر برائے پاکستان متعینہ دہلی کے سیکرٹری کے معزز عہدہ پر سرفراز ہیں۔ اگست ۱۹۵۲ء میں خاکسار کی وہاں ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ ان کا بیان ہے کہ میرے والد صاحب اور گلزار خاں صاحب مرحوم سکنہ کراچی دونوں نے قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔ یہ غالباً ۱۹۰۱ء یا ۱۹۰۲ء کی بات ہے۔ والد صاحب نے ۲۰؍ مئی ۱۹۳۱ء کو بمقام خیر پور (سندھ) وفات پائی جہاں آپ کی قبر معروف ہے۔ آپ کے ذریعہ مکرم ڈاکٹر حاجی خاں صاحب سابق صدر جماعت کراچی کا خاندان احمدی ہوا۔ چچا حسن موسیٰ خاں صاحب آسٹریلیاں میں کان کنوں کیلئے رسد کے قافلوں کی مینیجر تھے بعد ازاں جنرل مرچنٹ کا کام کرتے رہے آپ نے وہیں سے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی اور پھر وہیں سے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے عہد مبارک میں قادیان آئے اور غالباً ۱۹۴۳ء میں آسٹریلیا میںبمقام پرتھ (Perth) وفات پائی۔ عمر بھر وہاں بطور مبلغ کام کرتے رہے۔ اور خلافت ثانیہ سے بھی وابستہ تھے۔ چچا محمد حسین خاں صاحب سناتے تھے کہ میرے والد صاحب کی بیعت کے بعد میںنے بھی بیعت کی اور حضور کی زیارت سے مشرف ہوا۔ محمد حسین خاں صاحب اور گلزار خاں صاحب (جو غالباً ۱۹۲۶ء میںکراچی میں فوت ہوئے) اور والد صاحب غیر مبائع خیالات کے تھے۔ لیکن بالآخر والد صاحب نبوت کے قائل ہوگئے تھے گو انہوںنے باقاعدہ بیعت نہیں لیکن انہوں نے مجھے تاکید کی تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہاللہ تعالیٰ کی بیعت کر لوں چنانچہ مجھے اس کی توفیق ملی۔ والدہ صاحب نے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ہی بیعت کر لی تھی گو زیارت کا موقع نہیں ملا۔ ۱۹۱۱ء میں بوقت وفات انہوں نے حضور کی صداقت کا بار بار اقرار کیا اور اس وقت ان پر کشفی حالت طاری ہوئی اور جو باتیں انہوں نے اس وقت بتائیں جلد پوری ہوگئیں۔
مکرم احسان اللہ خان صاحب کے پاس متعدد تبرکات ہیں جن کی تفصیل خاکسار کی طرف سے بدر جلد۲ نمبر۸ ابابتہ ۱۴؍ مئی ۱۹۵۳ء میں شائع ہو چکی ہے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۵۱
۱
محبیاخویم محمد ابراہیم خاں صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مبلغ ۲۵ روپے آپ کے جو آپ نے کمال اخلاص سے روانہ کئے تھے مجھ کو پہنچ گئے اور آپ کے لئے دعائے خیر کی گئی۔ اس لئے میں آپ کو رسید ۲۵ روپے سے شکرگزاری کے ساتھ اطلاع دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس خدمت کی جزائے خیر آپ کو بخشے۔ آمین۔ باقی خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
(لفافہ پر کاپتہ)بمقام کراچی بندر مکان قریب گورنمنٹ گارڈن
بخدمت محبی اخویم محمد ابراہیم خاں صاحب بن حاجی موسیٰ خاں صاحب
راقم مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
۳؍ اگست ۱۹۰۳ء
نوٹ از مرتب: جس روپیہ کا اوپر ذکر آیا ہے اس کی رسید حضور کی دستخطی بھی موجود ہے جس پر مرقوم ہے ’’مرزا غلام احمد ۲۹؍ اگست ۱۹۰۳ء‘‘ کا بلاک بھی علیحدہ درج کر دیا گیا ہے وہاں ہر دو میں جو کچھ مرقوم ہے وہ حضور کا قلمی نہیں۔ ان ایام میں ڈاک گوراسپور سے ہو کر جاتی ہوگی۔ کیونکہ ڈاک خانہ قادیان کی مہر ۲۹؍ اگست کی گورداسپور کی ۳۱؍ اگست کی اور کراچی کی ۳؍ ستمبر کی ثبت ہے۔ اور دستخط اور تاریخ کے درمیان حضور کی مہر ثبت ہے جو پڑھی نہیں جاتی… بمفوف اور رسید
وصیۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم
برادرم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں جب کہ آپ کی وفات قریب آ گئی بطور وصیت مسلمانوں کو جمع کر فرمایا۔ دِمَائُ کُمْ وَاَمْوَالَکُمْ (اور ابی بکرہ کی حدیث میں ہے وَاَعْرَاضَکُمْ) حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃِ یُوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِ کُمْ ھٰذَا فِی بَلَدِکُمْ ھٰذَا۔ اس شہر میں اس مہینہ میں اس دن کو اللہ تعالیٰ نے جو حفاظت بخشی ہے (یہ حج کے ایام کی بات ہے) وہی تمہاری جانوں اور تمہارے مالوں (اور ابی بکرہ کی روایت کے مطابق اور تمہاری عزتوں) کو خدا تعالیٰ نے حفاظت بخشی ہے۔ یعنی جس طرح مکہ میں حج کے مہینہ اور حج کے وقت کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح پُر امن بنایا ہے اسی طرح مومن کی جان اور مال اور عزت کو سب کو حفاظت کرنی چاہئے جو اپنے بھائی کی جان، مال اور عزت کو نقصان پہنچاتا ہے گویا وہ ایسی ہی ہے جیسا کہ حج کے ایام اور مقامات کے بے حرمتی کرنے والا پھر آپ نے دو دفعہ فرمایا کہ جو یہ حدیث سے آگے دوسروں تک پہنچائے میں اس حکم کے ماتحت یہ حدیث آپ تک پہنچاتا ہوں آپ کو چاہئے کہ اس حکم کے ماتحت آپ آگے دوسرے بھائیوں تک مناسب موقعہ پر یہ حدیث پہنچا دیں اور انہیں سمجھا دیں کہ ہر شخص جو یہ حدیث سنے اُسے حکم ہے کہ وہ آگے دوسرے مسلمان بھائی تک اس کو پہنچاتا چلا جائے۔
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی
۱۶؍ ذیقعدہ ۱۳۵۸ھ


حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ و
حضرت قاضی عبدالرحیم ؓ صاحب بھٹی کے نام
حضرت قاضی ضیاء الدینؓ کوٹ قاضی ضلع گوجرانوالہ کے باشندہ تھے۔ آپ پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں قادیان ۷؍ فروری ۱۸۸۵ء کو حاضر ہوئے تھے۔ آپ سلسلہ احمدیہ سے اس کے آغاز میں وابستہ ہونے والے سابقون الاوّلون میں سے تھے۔ آپ کا خاندان ان معدودے چند خوش قسمت خاندانوں میں سے ایک ہے جن کے ایک زیادہ افراد ۳۱۳ صحابہ میں شمار ہوئے۔ چنانچہ آئینہ کمالات اسلام میں نمبر۱۰۴ پر اور انجام آتھم میں نمبر۳۵ پر آپ کا نام مرقوم ہے۔ انجام آتھم میں آپ کے دونوں صاحبزادگان قاضی عبدالرحیم صاحبؓ اور قاضی عبداللہ صاحب کے اسماء ۱۴۵ اور ۲۸۱ نمبر پر درج ہیں۔ آئینہ کمالات اسلام میں حضرت قاضی صاحب کا نام مطبع وغیرہ کے لئے ۲۹؍ دسمبر ۱۸۹۲ء کو چندہ کا وعدہ کرنے والوں میں مرقوم ہے۔ تریاق القلوب میں زیر نشان نمبر ۴۷ حضرت اقدس نے قریباً دو صفحات میں قاضی صاحب کا خط درج فرمایا ہے۔ اس میں قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور نے میرے متعلق ایک پیشگوئی فرمائی تھی جو بعینہٖ پوری ہوئی۔ اس میں قاضی عبدالرحیم صاحبؓ کا بھی ذکر آتا ہے۔ آپ ۱۹۰۴ء میں قادیان میں جہاں آپ ہجرت کر کے مقیم ہوگئے تھے فوت ہو کر قادیان کے مشرقی جانب برائے قبرستان میں مدفون ہوئے اس وقت ابھی بہشتی مقبرہ کا قیام عمل میں نہ آیا تھا۔
قاضی عبدالرحیم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ولادت ۲۳؍ جون ۱۸۸۱ء وفات ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۵۳ء بمقام ربوہ مبارکہ) کو قادیان میں تکمیل منارۃ المسیح، و پل براستہ بہشتی مقبرہ، مسجد نور، تعلیم الاسلام ہائی سکول، مسجد مبارک ربوہ کی تعمیر کی سعادت نصیب ہوئی۔ حقیقۃ الوحی میں چراغ دین جمونی کی تحریر کا جو عکس دیا گیا ہے یہ تحریر آپ ہی نے جموں سے بھجوائی تھی آپ ہی کا صاحبزادہ (اور خاکسار کے استاذ المحترم) قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی پرنسپل و صدر جماعت احمدیہ نیروبی (مشرقی افریقہ) سے ذیل کے مکتوبات مجھے نقل کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ آپ قادیان کی زیارت کے موقعہ پر گذشتہ اپریل میں میرے لکھنے پر مکتوبات قادیان لے آئے تھے۔ مگر قاضی محمد عبداللہ صاحب کو بھی بہت سی خدمات سلسلہ کا موقعہ ملا ہے۔
۱؍۵۵
یہ مکتوب صفحہ ۱۳ ضمیمہ پر مندرجہ خطوط میں سے پہلا ہے اور حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ کے نام ہے۔ وہاں سہواً نمبر درج ہونے سے رہ گیا ہے اس کا چربہ اصل کتاب کے صفحہ۷۳،۷۴ پر دیا گیاہے۔
نوٹ بر ۱؍۵۵: اس مکتوب میں ’’بہو‘‘ سے مراد محترمہ صالح بی بی صاحبہؓ مرحومہ اہلیہ محترم قاضی عبدالرحیم صاحبؓ بھٹی ہیں۔ موصوفہ نے ۱۳؍ نومبر ۱۹۵۰ء کو راولپنڈی میں وفات پائی اور امانتاً دفن ہوئی۔ آپ کے بیٹے محترم قاضی عبدالسلام صاحب تابوت کو جو قدرت خداوندی سے بالکل محفوظ تھا ربوہ لے آئے اور ۹؍ فروری ۱۹۵۴ء کو انہیں بہشتی مقبرہ میں اپنے خاوند کے دائیں جانب دفن کر دیا گیا۔ قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے از راہِ ذرہ نوازی بعد ظہر جنازہ پڑھایا اس سے قبل ان کی وفات پر مسجد مبارک ربوہ میں نماز جمعہ کے بعد جنازہ غائب پڑھا تھا۔ سو مرحومہ کی یہ خوش قسمتی تھی کہ دو دفعہ خلیفہ وقت نے ان کا جنازہ پڑھا۔
(مرتب)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۵۲
۲
بحضور امامنا وحبیبنا
بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ عرضداشت آنکہ مہدی حسین صاحب رخصت سے واپس آگئے ہیں۔اب عاجز کے واسطے کیا حکم ہے یہاں کوچہ میں جلد بندی کی بہت چیزیں لڑکے بے اخبر اُٹھالے جاتے ہیں کوئی چیز محفوظ نہیں رہتی۔ اس سے پہلے یہ عاجز چھاپہ خانہ۱؎ کے مشرقی دروازہ میں
۱؎ مراد مطبع ضیاء الاسلام ہے جو مطب حضرت خلیفہ اوّلؓ سے ملحق جانب جنوب تھا اور خلافت ثانیہ میں بطور گیراج استعمال ہوتا رہا۔ اب بھی گیراج کی شکل میںموجود ہے (مطب اور پریس کے نقشہ کے لئے دیکھئے اصحاب احمد جلد دوم صفحہ۱۶؍۱۶) حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی فرماتے ہیں کہ بعد ازاں حضرت قاضی صاحبؓ مہمان خانہ کے اس کمرہ میں جلد
حکیم صاحب کے حکم سے بیٹھتا رہاہے۔۱؎ چونکہ اور کوئی ایسی جگہ موجود نہیں لہٰذا سال بھر سے زیادہ وہیں گزارہ ہوتا ہے کیا اب بھی وہیں اجازت دیتے ہیں یا کوئی اور جگہ جو عاجز کے حال کے موزوں ہو۔ دراصل جگہ کے بارہ میں عاجز از حد مضطر ہے۔ گھر کی نسبت یہ حال ہے کہ پرسوں ڈپٹی کے بیٹے نے بذریعہ ڈاک نوٹس ۲؎ دیا ہے کہ ایک ہفتہ تک مکان خالی کر دو ورنہ تین روپیہ ماہوار کرایہ مکان واجب الادا ہوگا۔ اس وقت کے رفع کے لئے بھی حضور دعا فرماویں کہ بے منت غیرے کوئی جگہ مولا کریم میسر کرے۔
والسلام والاکرام
غرضیہ نیاز مسکین
ضیاء الدین عفی عنہ
۱۷؍ جولائی ۱۹۰۲ء



حاشیہ بقیہ صفحہ: جلد سارڑ کی دکان کرتے رہے جو بلکہ کے پاس جانب شمال ہے اور اس کا ایک دروازہ احمدیہ بازار میں کھلتا ہے۔
۱؎ مراد حضرت حکیم مولوی فضل الدین صاحبؓ بھیروی ہیں جو مطبع ضیاء الاسلام قادیان کے مہتمم تھے اور حضور کے جواب میں ان کا ذکر ہے۔
نوٹ: (۱) اس خط کے جواب میں جو کچھ حضور نے تحریر فرمایا ضمیمہ صفحہ ۱۳ پر دوسرے نمبر پر درج ہے۔ اس کا چربہ ضمیمہ صفحہ اصل کتاب کے حکم صفحہ۷۳،۷۴ پر دیا گیاہے۔
(۲) محترم قاضی عبدالسلام صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت قاضی عبدالرحیم صاحبؓ نے مجھے لکھوایا کہ حضرت دادا صاحبؓ جب قادیان میں آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دارالمسیح میں رہائش کی جگہ دی تھی۔ میری ولادت دسمبر ۱۹۰۲ء میںاس مکان میں ہوئی جہاں اب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا مکان ہے۔ یہ جگہ ڈپٹیوں کی تھی اور کرایہ پر لی ہوئی تھی۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۵۷
۳
سیدی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضور نے غلام کی ہمشیرہ امۃ الرحمن کے رشتہ کیلئے اپنے رشتہ داروں میں کوشش کرنے کے لئے فرمایا تھا سو عاجز نے مطابق حکم حضور اپنے قبیلہ میں ہرچند کوشش کی ہے کوئی صورت خاطر خواہ میسر نہیں آئی۔ جو خواہاں ہیں وہ حضور کے مخالف ہیں مخالفوں سے تعلق قائم کرنا پسند نہیں۔ عاجز کی گزارش ہے کہ اس معاملہ کو زیادہ عرصہ تک ملتوی نہ رکھا جائے۔ حضور جس جگہ مناسب سمجھیں تجویز فرماویں۔ عاجز کو کل جناب نواب صاحب۱؎ نے بھی جلدی فیصلہ کرنے کی تاکید کی ہے اور دیر کر بہت مکروہ خیال کیا ہے۔ چند آدمیوں کا انہوں (نے٭)نام بھی لیاہے اور ان کی شرافت کی بہت تعریف کی ہے۔ اُن میں سے ایک اخویم احمد نور صاحب کابلی ہیں۔ احمد نور صاحب کی طرف کبھی کبھی والد صاحب مرحوم بھی خیال کیا کرتے تھے مگر محض للہ۔ حضور جیسا مناسب جانیں اور جہاں بہتر سمجھیں تجویز کر دیں مگر جلدی فیصلہ ہونا ضروری ہے۔ عاجز کا اور ہمشیرہ امۃ الرحمن کا اس بات پر کامل ایمان ہے کہ حضور کے فیصلہ میں نور اور برکت ہوگی۔
والسلام
حضور کی جوتیوں کا غلام
عبدالرحیم ولد قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم
مورخہ ۳۰؍ جولائی ۱۹۰۴ء
نوٹ: (۱) حضور کا جواب ضمیمہ صفحہ۱۳ پر درج ہے۔ غلطی سے وہاں نمبر لکھنے سے رہ گیاہے۔ چربہ اصل کتاب کے صفحہ ۷۳،۷۴ پر درج ہے۔
(۲) ’’1904‘‘ بحرف انگریزی خط والی سیاہی سے مختلف سیاہی سے مرقوم ہے۔ مکرم قاضی عبدالسلام صاحب فرماتے ہیں کہ معلوم نہیں کہ کب ’’1904‘‘ لکھاگیا۔ غالباً والد صاحب مرحوم
۱؎ مراد حضرت نواب محمد علی خاں صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ ۔ (مرتب)
٭ خطوط واحدانی کا لفظ خاکسار مرتب کی طرف سے ہے۔
نے لکھا ہوگا۔ حضرت قاضی ضیاء الدینؓ صاحب کی وفات ۱۹۰۴ء ہی میں ہوئی تھی۔
(۳) محترم قاضی عبدالسلام صاحب تحریر کرتے ہیں کہ:
’’عاجز کی پھوپنی صاحبہ کا اصلی نام فاطمہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بدل کر امۃ الرحمن تجویز فرمایا کہ فاطمہ نام کے ساتھ کچھ صعوبت کی زندگی کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ ان کی ولادت ۲۱؍ شعبان ۱۲۹۵ھ کو ہوئی اور وفات رتن باغ لاہور میں ۱۳؍ دسمبر ۱۹۷۴ء کو ہوئی چوبرجی والے قبرستان میں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے قریب دفن ہوئیں۔ میں وہاں سے ہڈیاں وغیرہ نکال لایا اور ۲۸؍ مارچ کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں حضرت والد صاحبؓ کے قریب دفن کیا۔ ان کی شادی غالباً ۱۹۰۶ء میں دارالمسیح میں منشی مہتاب علی صاحبؓ سیاح سکنہ ضلع جالندھر سے ہوئی تھی۔ حضرت اُمّ المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خود انہیں رخصت کیا تھا۔ پھوپھی صاحبہ مرحومہ بیان کیا کرتی تھیں کہ رخصتانہ کے وقت جب حضرت اُمّ المؤمنین نے فکر سے کہا کہ وہ تو اب جاتی ہے تو حضور نے فرمایا فکر نہ کرو ہم اس کا مُکلاوا لمبا کریں گے یعنی خاوند سے واپس آئے گی تو زیادہ دیر تک اپنے پاس ٹھہرائیں گے۔ منشی صاحبؓ نے ہمارے خاندان کے ایک نوجوان فیض اللہ نامی سے مباہلہ کیا تھا جو ایک سال کے اندر طاعون سے ہلاک ہو گیا تھا۔ حضور نے تتمہ حقیۃ الوحی میں صفحہ ۱۶۵،۱۶۶ پر اس نشان کا ذکر فرمایا ہے۔ منشی صاحبؓ ۱۹۲۱ء میں فوت ہوئے۔ اولاد میں سے صرف میری بیوی مبارکہ بیگم زندہ ہے۔باقی بچے بچپن میں فوت ہوگئے تھے‘‘۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۵۸
۴۰
سیدی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔خاکسار نے ایک عریضہ چراغ دین کی وفات پر حضور پُرنور کی خدمت میں ارسال کیا تھا اور اخبار میں چھپنے کے واسطے بھی لکھ دیا تھا اس کے جواب میں مفتی صاحب نے لکھا کہ چراغ دین کے متعلق چند باتیں تحقیقات سے دریافت کر کے لکھو جو کچھ مجھے دریافت کرنے سے معلوم ہوا میں نے تحریر کر دیا لیکن مجھے یہ وہم بھی نہ تھا کہ یہ خط اخبار میں چھاپا جائے گا۔ میں نے اس خیال پر کہ شاید چراغ دین کے متعلق کوئی مضمون لکھا جائے گا وہ کل حالات صرف پرائیویٹ طور پر تحریر کئے تھے اور اس خیال سے تحریر کئے تھے کہ اس مضمون کے لئے مصالحہ درکار ہوگا اس لئے میں نے اس خط میں بعض باتیں بے تعلق بھی درج کر دی تھیں جن کا اصل غرض کے ساتھ کوئی لگاؤ نہ تھا۔ اگر اخبار کے لئے مضمون لکھتا تو طرز تحریر بدل دیتا جیسے کہ پہلے خط میں نے قابل گرفت الفاظ کا لحاظ رکھا ہے ایسی ہی اس خط میں بھی ان باتوں کو مدنظر رکھتا۔ میں نے تو صرف حضور کے واسطے لکھا تھا نہ اخبار کیلئے۔ مفتی صاحب کی طرف اس لئے لکھا تھا کہ شاید مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی جابجا مفتی صاحب خط وکتابت کا کام کرتے ہیں کیونکہ حضرت کی خدمت میں جو خط لکھا تھا اس کا جواب مفتی صاحب نے دیا تھا۔ اور نیز میں نے یہ اجازت نہیں دی کہ اس کو اخبار میں شائع کیا جاوے جب کہ پہلے خط میں دی تھی اور اگر میں لکھ بھی دیتا کہ اس کو شائع کیا جاوے تو بھی ایڈیٹر صاحب اور مینیجر صاحب کا فرض تھاکہ چھپنے سے پیشتر مضمون پر ہر ایک پہلو سے غور کر لیتے اور بعد قانونی تصحیح کے چھاپتے کیونکہ کرم الدین کے مقدمہ نے پورا پورا سبق سکھا دیا تھا جن مخالفوں نے ایک لئیم کے لفظ پر اس قدر زور مارا کیا اب وہ کچھ کم کریں گے؟ آئندہ ماشاء اللہ ان کو تو خدا خدا کر کے ایسے موقع ہاتھ لگتے ہیںاب بھلا وہ کس طرح درگزر کریں۔ اصل مضمون میں یہ الفاظ ہیں۔
’’اس کی عورت پر لوگ یاری آشنائی کے الزام لگاتے ہیں ممکن ہے وہ اس کی زندگی میں بھی خراب ہو‘‘۔
یعقوب مسیحی سے میں نے یہ سنا تھا لیکن اب وہ انکاری ہے اور ثبوت طلب کرتا ہے۔ یہی عیسائی اور مسلمان اس پر تلے ہوئے ہیں کہ عورت کی طرف سے فوجداری مقدمہ کرایا جاوے آج کل میں مقدمہ دائر کرنے والے ہیں پیروی کے واسطے ایک بڑی کمیٹی مقرر ہوئی ہے بظاہر ان کے باز رہنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ۱۹؍ فروری کا الہام ’’ایک عورت کی چال ایلی ایلی لما سبقتانی‘‘ شاید یہی چال ہو۔ میں دین کے کام میں لڑنے اور تکلیف سے نہیں ڈرتا۔ صرف ناداری اور عیالداری کی وجہ سے خوف ہے اس وقت میرے پاس کوئی سرمایہ نہیں جو مقدمہ میں کام آئے اور مقدمہ کی ایک پیشی بھی سرمایہ بغیر بھگتی نہیں جا سکتی۔ اس لئے یہ مقدمہ میرے لئے سخت ابتلاء ہے۔ حضور خاص توجہ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ عورت کے شر سے بچالے۔ بھروسہ ہے تو صرف اس کی ذات بابرکات پر ہے۔ میرے مادی اسباب بھی کارگر نہیں ہوا کرتے۔ بواپسی جواب (سے٭) سرفراز کریں کہ کیا تجویز کی جاوے۔ کیونکہ آج کل میں مقدمہ جاری ہونے والا ہے۔ دیگر عرض ہے کہ شیخ رحیم بخش صاحب کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ چراغ دین کی کتاب چھپوانے کے واسطے حضور نے سخت تاکید کی ہے سو عرض ہے کہ میں مہتمم چھاپہ خانہ کے اس غرض سے کئی دفعہ گیا ہوں اس سے یہی معلوم ہوا ہے کہ اب چھپنے کی تجویز ملتوی ہوگئی ہے۔ ان کے پاس روپیہ نہیں اور میں خود اس لئے نہیں چھاپتا کہ یہ کوئی مفید کتاب نہیں جو دست بدست فروخت ہو سکے۔ آخر میں نے اسے بہت کچھ طمع و ترغیب دے کر چھاپنے پر آمادہ کر لیا ہے کل لاگت کوئی ۵۰ یا ۶۰ روپیہ تک ہوگی جس کے ادا کرنے کے واسطے میں نے اس سے عہد کر لیا ہے۔ کچھ کتب حق تصنیف میں دی جائیںگی اور کچھ کتب مہتمم چھاپہ خانہ کی نذر ہونگی۔ اگر خریدار پیدا ہو جاویں تو باقی ماندہ کتب فروخت کر کے لاگت کا کچھ حصہ وصول ہو سکتاہے وہ نقلیں جو حضور کی خدمت میں ارسال کی تھیں وہ کاپی میں آگئی ہیں کچھ مسودہ اِدھر اُدھر منتشر ہے۔ مہتمم چھاپہ خانہ اس کے جمع کرنے کی فکر میں ہے۔ فراہم ہو جانے کے بعد ٹھیک ٹھیک فیصلہ کیا جاوے گا۔ دعا کریں کہ جیسے پہلے نقل حاصل کرنے میں خدا نے مجھے کامیاب کیا تھا ایسا ہی اب بھی کامیاب کرے جواب سے ممنون فرماویں۔ عاجز کا بڑا بچہ اور منجھلے سے چھوٹا بیمار ہیں اور عاجز کی اور عاجز کی بیوی کی بھی صحت درست نہیں ہے۔ حضور خاص توجہ سے دعا کریں کہ شافی مطلق پوری پوری صحت بخشے ۔آمین۔
والسلام
عاجز قاضی عبدالرحیم نقشہ نویس
محکمہ نہر از جموں
مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۶ء
میں نے اس میں کسی کی شکایت نہیں کی اور نہ ایڈیٹر صاحب پر شاکی ہوں جو کچھ مقدر ہوتا ہے ہو گزرتا ہے۔ صرف اصلیت امر کو ظاہر کیاہے۔
٭ خطوط واحدانی کا لفظ مرتب کی طرف سے ہے۔
اس خط پر حضور نے اپنی قلم مبارک سے تحریر فرمایا:
اس خط کو بہت محفوظ رکھا جائے اور اس کا جواب لکھ دیا جاوے کہ اب صبر سے خداتعالیٰ پر توکّل کریں۔ دعا کی جائے گی۔
والسلام
مرزا غلام احمد
نوٹ: (۱) مکرم قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی ذکر کرتے تھے کہ میرے بھائی کو ۱۹۴۷ء میں اچانک اپنے گھر سے نکلنا پڑا۔ بعد ازاں قادیان کا ایک سکھ دوست آیا اور کہنے لگا کہ گھر سے کچھ لانا ہے تو میرے ساتھ چلیں۔ بھائی گئے اور صرف وہ تھیلا لائے جس میں یہ مکتوبات تھے۔ یقینا حضور کے ارشاد کے باعث کہ ’’اس خط کو بہت محفوظ رکھاجائے۔ حضور کے اور صحابہؓ کرام کے کئی مکتوبات بچ گئے۔
(۲) اس مقدمہ کے متعلق قاضی عبدالرحیم صاحب نے قاضی عبدالسلام صاحب کو بتایا کہ ’’اس مقدمہ ازالہ حیثیت عرفی کے متعلق یہ واقعہ ہوا کہ عین اس تاریخ جس دن دعویٰ دائر ہونا تھا اور سب تیاری ہر طرح سے مکمل ہو چکی تھی تو علی الصبح پتہ لگا کہ وہ عورت اپنے آشنا کے ساتھ غائب ہوگئی اور اس طرح ان مخالفوں کی ساری کارستانی پر پانی پھر گیا‘‘۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۵۹
۵
مکرمی اخویم قاضی ضیاء الدین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا پُردرد و غم خط مجھ کو ملا۔ آپ صبر کریں جیسا کہ خداتعالیٰ کے صابر و شاکر بندے صبر کرتے رہے ہیں خدا تعالیٰ ان غموں سے اور ان پریشانیوں سے نجات دے گا اور درود شریف بہت پڑھیں تا اُس کی برکات آپ پر نازل ہوں اس جگہ میں نے مطبع منگوایا ہے اس میں رسالہ دافع الوساوس چھپے گا اور انشاء اللہ عنقریب چھپنا شروع ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور اگر طبیعت پریشان ہے تو چند ماہ کیلئے میرے پاس آ جائیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۵؍ جون ۱۸۹۲ء
نوٹ: یہ مکتوب الحکم جلد ۲ نمبر۳۲ صفحہ۳ سے درج کیا گیا ہے تا تمام مکتوبات ایک جگہ جمع ہو جائیں۔








بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
بخدمت امامنا و مخدومنا حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ خداوندکریم و رحیم کا بڑا فضل ہمارے شامل حال ہوا کہ ہم نے اُس نعمت عظمٰی کو پا لیا جس کے لئے ہمارے آبا و اجداد ایک زمانہ دراز سے متمنی گزر گئے کہ ہم کو حضرت والا کی بیعت کا شرف حاصل ہوا جس سے لاکھ لاکھ شکر ہے اُس خداوند کریم کا کہ ہمارے ایمان و اتقان میں ایک نمایاں تبدیلی واقع ہوئی حضور سے استدعا ہے کہ ہمارے لئے ایسی دعا فرمائیں کہ خداوند کریم ہمیں شیاطین والانس والجن سے محفوظ رکھ کر ہمارے خاتمہ بخیر کرے اور ہمارے آخر دم تک اپنی اور اپنے پیارے نبی کی فرمانبرداری کا ایک سچا عملی اور پُر اثر جوش مرحمت فرمائے اور ہم سے راضی و خوشی ہو جائے۔
اور یہ امر بھی ضروری الفرض ہے کہ حضور کی خاص توجہ دینیات کی وجہ یہاں ہمیں کسی قسم کی تکلیف پیش نہیں آئی جس چیز کی ضرورت ہوئی حسب خواہش مہیا ہوتی رہے۔ہر چند دل کی خواہش تو یہی ہے کہ ایک لمحہ کے لئے حضور سے جدا نہ ہوں لیکن ایام رخصت کے قریب الاختتام ہونے و اسباب معاش کی انجام دہی کیلئے ضرورت کی وجہ سے خدام مستدعی اجازت ہیں کہ کل صبح اپنے وطن کی جانب راہی ہو جائیں۔
خاکساران
سید ظہور اللہ احمد سید عابد حسین
سرجن دواخانہ راجورہ وردال منصبدار علاقہ نظام حیدر آباد
ضلع بیدر علاقہ نظام حیدر آباد بحظ کنٹری
سید نعیم اللہ احمد دستخط بشیر احمد سوداگر
نوٹ: ڈاکٹر سید ظہور اللہ احمد صاحبؓ حیدر آبادی کے نام کے دو خطوط جو صفحہ۱۰تا۱۲ پر درج ہیں وہ مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل وکیل ہائیکورٹ یادگیر کی کوششوں سے ملے ہیں۔ جزاہ اللہ خیرا۔ اصل خطوط مکرم سید اسد اللہ صاحب حیدر آبادی جو اُن کے فرزند ہیں کے پاس محفوظ ہیں۔ (مرتب)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
محبی عزیزی اخویم قاضی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خیریت نامہ پہنچا بہت خوشی کی بات ہے کہ آپ تشریف لاویں آپ کی بہو کے لئے اگر ساتھ لے آویں تین چار ماہ تک کوئی بوجھ نہیں ایک یا دو انسان کا کیا بوجھ ہے۔ پھر تین چار ماہ کے بعد شاید آپ کے لئے اللہ تعالیٰ اس جگہ کوئی تجویز کھول دے۔ ومن یتوکل علی اللّٰہ وھو حسبہ سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ ہمارا اور آپ کی عمر کا آخری حصہ ہے بھروسہ کے لائق ایک گھنٹہ بھی نہیں ایسا نہ ہو کہ جدائی کی مدت موجب حسرت ہو۔ موت انسان کے لئے قطعی اور اس جگہ موت سے ایک جماعت میں نزول رحمت کی امید ہے۔ غرض ہماری طرف سے آپ کو نہ صرف اجازت بلکہ یہی مراد ہے کہ آپ اس جگہ رہیں ہماری طرف سے روٹی کی مدد اور انسان کے لئے ہو سکتی ہے اور دوسرے بالائی اخراجات کے لئے آپ کوئی تدبیر کر لیں اور امید ہے کہ خدا کوئی تدبیر نکال دے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۳؍ دسمبر ۱۹۰۰ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حکیم فضل دین صاحب سے دریافت کر لیجئے کہ مہمان خانہ میں آپ کے لئے جگہ نہیں اور عنقریب میرے اس دالان کے پیچھے ایک مکان بننے والا ہے اس میں آپ رہ سکتے ہیں بالفعل گزارہ کر لیں کوئی گھرتلاش کر لیں۔
والسلام
نوٹ: اس پر ستخط موجود نہیں مگر تحریر حضور کی ہے۔ (مرتب)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
امۃ الرحمن کے معاملہ میں مجھے بہت حیرت ہے کوئی صورت خاطر خواہ ظاہر نہیںہوتا۔ احمد نور نیک بخت آدمی ہے۔ بہت مخلص ہے۔ مگر وہ پردیسی ہے۔ زبان پنجابی اور اُردو سے محض ناواقف ہے۔ اس صورت میں اصول معاشرت میں پہلے ہی یہ نقص ہے کہ ایک دوسرے کی زبان سے ناواقف ہیں پھر وہ عنقریب ایک لمبے سفر کے لئے جاتے ہیں اور خطرناک زمین کابل کا سفر ہے معلوم نہیں کہ کیا ہو میں نے کئی جگہ کہہ دیا ہے اب اختیار میں نہیں ایسی جلدی نہیں چاہئے جس میں اور فساد پیدا ہو۔
مرزا غلام احمد عفی عنہ








ڈاکٹر سید ظہور اللہ صاحب حیدر آباد ی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی تھے جو اب فوت ہو چکے ہیں ان کے اولاد کے پاس جو خط حضرت اقدس کا محفوظ تھا اس کو معہ اصل درخواست دعا ڈاکٹر صاحب مع جواب کے شائع کیا جا رہا ہے۔ ملاحظہ ہو صفحہ…










بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
(۱) عریضہ بیعت مولوی سید بشارت احمد ایڈووکیٹ و امیر جماعت احمدیہ حیدر آباد دکن و ہمشیرہ صاحب موصوف سے متعلق نوٹ
(۲) معہ اصل خط حضرت میر محمد سعید صاحبؓ
(۳) اصل خط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
مولوی سید بشارت احمد صاحب ایڈووکیٹ و امیر جماعت احمدیہ حیدر آباد دکن (سابق نام میر بشارت علی صاحب) کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ تحریر اصلی معہ دیگر عریضہ کے موجود تھے جو ان سے حاصل کر کے مکتوبات احمدیہ جلد ہفتم ہذا میں شائع کئے جا رہے ہیں۔ اصل تحریر سے پہلے خود مولوی صاحب موصوف کے نوٹ درج ہیں۔
(محمد اسماعیل فاضل وکیل ہائی کوٹ یادگیر)
۷؍ستمبر ۱۹۵۴ء
عریضہ بیعت کے متعلق نوٹ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
میں میر بشارت علی خاں ہاشمی ولد میر احمد علی خاں صاحب منصبدار علاقہ حضور نظام میر محبوب علی خاں شاہ وقت ریاست حیدر آباد دکن ہوں مدت سے یہ آرزو تھی کہ اعلیٰ حضرت حضور اقدس مسیح موعود و مہدی مسعود حضرت اقدس و اعلیٰ مرزا غلام احمد صاحب ساکن قادیان سے جو کہ برحق مسیح تھے جن کے لئے تیرہ سَو سال سے انتظار تھا شرف قدم بوسی حاصل کروں لیکن بوجوہات عسرت و امور خانگی حضور کی دیدار و قدم بوسی سے محروم رہا۔ واقعہ یہ … ہے کہ میر محمد سعید صاحب احمدی کشمیری جو کہ میرے استاد اور بزرگ تھے وہ ماہ مئی ۱۹۰۸ء میں حضور اقدس کی خدمت میں جب کہ آپ دارالسلطنت لاہور میں بغرض تبدیل آب و ہوا معہ اُمّ المؤمنین رونق افروز تھے جانے کا مقصد ظاہر فرمایا گو کہ میںتمام خرچ روانگی وغیرہ بہم پہنچایا اور جانے کے لئے ایک روز باقی تھا کہ حضرت قبلہ جنابہ سردار بیگم صاحبہ جو کہ میری مشفق اور چاہتی ماں ہیں انہوں نے بوجہ جدائی و سفر دور دراز سخت مضطرب و بدحال ہوگئے اور مانع بھی ہوئے۔ پس باایں نصیحت حضرت اقدس کہ (جو شخص اپنے ماں باپ کی اطاعت نہ کرے وہ میری مریدی سے خارج ہے۔ دیکھو کشتی نوح)جانے سے باز رہا اور کچھ نذرانہ خدمت اقدس میں بذریعہ مولوی صاحب موصوف معہ ایک عریضہ شوق و نیزیک عریضہ بایں بیان کہ میری ہمشیرہ یعنی غریب النساء بیگم عرف حاجی بیگم صاحب بیعت میں داخل ہوتے ہیں لہٰذا حضور شریک فرما کر خاص اپنے دستخط خاص سے کچھ نصیحت وغیرہ تحریر فرما کر غلام کو سرفراز فرمائیں معہ نذر روانہ خدمت کیا تھا چنانچہ مولوی صاحب موصوف جب کہ لاہور پہنچ گئے تو میرا و نیز ہمشیرہ صاحبہ کا عریضہ بمعہ نذر حضرت کی خدمت میں پیش کیا جس پر حضور نے نذر قبول فرما کرخاص اپنے دست مبارک سے بتاریخ ۱۸؍ مئی ۱۹۰۸ء اپنے وفات کے نو روز قبل بمقام لاہور عزیز منزل میں یہ جواب تحریر فرمایا ہے جس کی نقل صفحہ۶۶ کتاب ہذا پر ہے۔
نوٹ نمبر۲ از مولوی سید بشارت احمد صاحب ایڈووکیٹ و امیر جماعت احمدیہ حیدر آبا دکن
گو کہ میں نے ۱۹۰۶ء میں اپنے گھر میں سب سے پہلے بیعت کی اور حضور کی زندگی تک کثرت سے عررائض دعا کیلئے لکھتااور اپنے پتہ سے پوری طرح اطلاع نہ دے سکا تو میرے خطوط کے جواب میں جو خطوط حضور بھجواتے تھے محض واپس جانے سے اور اخبار میں میرے کو تسلی دینے کیلئے چھپوا دیا جاتا رہا کہ دعائیہ خطوط بھیجتے ہیں اور دعا کی جاتی ہے بوجہ طفولیت میں اپنے پتہ خطوط میں نہیں لکھا کرتا تھا ورنہ جوابات مجھے وصول ہوتے۔
میری ہمشیرہ کا خواب: میری ہمشیرہ نے ایک خواب دیکھا کہ ایک بزرگ جن کا رتبہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کا ہے میرے گھر تشریف لا کر چنبیلی کے منڈوے کے پاس جو کہ میرے صحن میں تھا کھڑے تھے اتنے میں میری ہمشیرہ ان کی بیعت کے لئے میرے کمرہ میں سے ایک مخمل کی میری شیروانی لے کر باہر آئیں اور بیعت کیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعبیر اس رنگ میں پوری ہوئی کہ میں نے اپنے خط میں اپنی ہمشیرہ کا جو ذکر لکھا تو حضور نے ان کی بیعت کے ساتھ میری بیعت کا بھی ذکر فرما دیا۔
نوٹ نمبر۳ از محمد اسماعیل وکیل یادگیر
مولوی سید بشارت احمد صاحب ایڈووکیٹ کی ہمشیرہ صاحبہ جن کا ذکر اس بیعت میں موجود ہے ان کی شادی بعد میں جناب نواب اکبر یار جنگ بہادر جج ہائی کورٹ حیدر آباد سے ہوئی تھی وہ اب دیر ہوئے فوت ہوچکی ہیں جن کے بطن سے ایک لڑکا رشید الدین احمد صاحب بقید حیات ہے جو سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندر آباد کے داماد ہیں۔
(نقل تحریر حضرت مولوی میر محمد سعید صاحبؓ)
صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے (جو مولوی سید بشارت احمد صاحب ایڈووکیٹ کے خسر اور جماعت احمدیہ حیدر آباد کے بانی تھے) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں بیعت فارم سید بشارت احمد صاحب اور ان کی بہن کا پیش فرمایا تھا جس کا حضور اقدس نے جواب دیا وہ دوسرے صفحہ پر درج ہے۔
نقل مطابق اصل تحریر مبارکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بیعت ونذر میر بشارت علی صاحب و ہمشیرہ شان بدعا خیر منظور است نصیحت ہمیں کہ اقامت صلوٰۃ و معموری آن بدعاہا و استقامت براحادیث صحیحہ و احکام قرآن و کثرت درود شریف و استغفار دایم لازم۔ بجملہ یادکنندگان سلام شوق۔
مرزا غلام احمد
لاہور عزیز منزل
۱۸؍ مئی ۱۹۰۸ء
نوٹ از مرتب: مکتوب ہذا ملکہ وکٹوریہ کی جوبلی کے تعلق میں ہے۔ نواب صاحبؓ کی تحریر مالیر کوٹلہ میں اس ساٹھ سالہ جوبلی کے (جون ۱۹۷ء) منائے جانے کے متعلق حضور نے اشتہار جلسہ احباب میں شائع فرما دی تھی۔
شکریہ احباب
اس کتاب کی طباعت اور اشاعت اور پروف ریڈنگ و دیگر تمام کام کی انجام دہی … مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل وکیل ہائی کورٹ یادگیر نے میری بہت مدد کی ان کے علاوہ مکرم سیٹھ عبدالحی صاحب احمدی یادگیر و سیٹھ معین الدین صاحب احمد چنتہ کنٹھ سیٹھ رشید احمد صاحب احمدی حیدر آباد سیٹھ محمد اسماعیل صاحب چنتہ کنٹھ و اعجاز حسین صاحب چنتہ کنٹھ نے بھی حتی المقدور مالی اعانت فرمائی۔ جزاھم اللّٰہ احسن الجزاء
ملک صلاح الدین ایم۔ اے
قادیان
۴؍ دسمبر ۱۹۵۴ء






ضروری اعلان
ذیل کے نہایت مفید کتب ہر گھرانے میں ہونی چاہئیں
۱۔ حمائل شریف و قرآن مجید مترجم (مرتبہ حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ) مطبوعہ مکتبہ احمدیہ
۲۔ خصائص القرآن (مرتبہ مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل وکیل یادگیر ۲۰۲ صفحات میں قرآن مجید کے متعلق نہایت مفید معلومات تبع کی گئی ہیں۔قیمت ڈیڑھ روپیہ
۳۔ حضرت عرفانی الاسدی صاحب کی طرف سے شائع کردہ:
الف: مکتوبات احمدیہ۔ جلد اوّل تا ششم ان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قیمتی خطوط درج ہیں۔
ب: حیات احمد۔ متعدد جلدوں میں حضرت عرفانی صاحب نے سن ولادت سے سن بیعت تک کی تاریخ سلسلہ مکمل طور پر درج فرمائی ہیں۔
ج: سیرت اُمّ المؤمنین نوراللہ مرقدھا دو جلد
۴۔ تعلیم العقائد والاعمال پر خطبات: (حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے عقائد و اعمال کے متعلق بصیرت افروز خطبات کا مجموعہ۔ قیمت ایک روپیہ
۵۔ حیات حسین (سیٹھ شیخ حسن صاحب احمدی یادگیر صحابہ کے ایمان افروز سوانح حیات مرتبہ حضرت عرفانی صاحب الاسدی)
۶۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل۔ حضرت اُمّ المؤمنینؓ۔ حضرت خلیفۃ اوّلؓ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ، حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ۔ حضرت صاحبزادہ کے نہایت مفید خطوط کا مجموعہ اس میں حضور کے غیر مطبوعہ خط کا ایک حصہ بھی ہے۔
۷۔ اصحاب احمد جلد اوّل مؤلف ملک صلاح الدین ایم۔ اے
۸۔ اصحاب احمد جلد دوم اس میں نہ صرف حجۃ اللہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ ۱۰۴ صفحات۔ تفصیلاً حالات زندگی درج … بلکہ بعض صحابہ کے بھی حالت ہیں۔ حضرت مسیح موعود، حضرت خلیفہ اوّل، حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ، حضرت حکیم فضل دین صاحب کے کئی درج غیرمطبوعہ… بھی درج ہیں جن میں حضور کی غیر مطبوعہ الہام، رؤیا اور کشوف ہیں۔ صفحات ۷۰۰
کتب بالا اور دیگر لٹریچر کے ملنے کا پتہ
عبدالعظیم صاحب تاجر کتب قادیان و فخر الدین صاحب مالا باری تاجر کتب قادیان
حضرت عرفانی صاحب کی مطبوعات ذیل کے پتہ پر مل سکتی ہیں۔
معرفت الہ دین بلڈنگ سکندر آباد و دفتر الحکم عید گاہ روڈ کراچی
 
Top