• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

جب غازی علم الدین شہید نے گستاخِ رسول راجپال کو قتل کیا تو مرزا بشیر الدین محمود نے اس طرح مذمت کی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
جب غازی علم دین نے شاتم رسول راج پال کو جہنم واصل کر دیا تو مرزا محمود نے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا

" وہ خبیث الفطرت اور گندے لوگ جو انبیا، کو گالیاں دیتے ہیں ہرگز اس قابل نہیں کہ ان کی تعریف کی جائے۔
ان کی قوم اگر اپنے اندر دین داری ، تقوی اور اخلاق رکھنے کی مدعی ہے تو اس کا فرض ہے ایسے اعمال کی پورے زور کے ساتھ مذمت کرے۔
اسی طرح اس قوم کا جس کے جوشیلے آدمی قتل کرتے ہیں ، خواہ انبیا، کی توہین کی وجہ سے ہی وہ ایسا کریں ، فرض ہے کہ پورے زور کے ساتھ ایسے لوگوں کو دبائے اور ان سے اظہار برآت کرے۔ انبیا، کی عزت کی حفاظت قانون شکنی کے ذریعے نہیں ہو سکتی ۔ وہ نبی بھی کیسا نبی ہے جس کی عزت کو بچانے کے لئے خون کے ہاتھ رنگنے پڑیں۔ جس کے بچانے کے لئے اپنا دین تباہ کرنا پڑے ۔
یہ سمجھنا کہ محمد رسول اللہ کی عزت کے لئے قتل کرنا جائز ہے سخت نادانی ہے ۔
وہ لوگ جو قانون کو ہاتھ لیتے ہیں وہ بھی مجرم ہیں اور اپنی قوم کے دشمن ہیں اور جو ان کی پیٹھ ٹھونکتا ہے وہ بھی قوم کا دشمن ہے ۔ میرے نزدیک تو اگر یہی شخص (راج پال) کا قاتل ہے جو گرفتار ہوا ہے تو اس کا سب سے بڑا خیرخواہ وہی سکتا ہے جو اس کے پاس جائے اور اسے سمجھائے کہ دنیاوی سزا تو اب تمہیں ملے گی ہی لیکن قبل اس کے کہ وہ تمہیں ملے تمہیں چاہئے خدا سے صلح کر لو ۔ اس کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ اسے بتایا جائے کہ تم سے غلطی ہوئی ۔

(خطبہ مرزا محمود مندرجہ اخبار الفضل ،جلد 16نمبر 82 ص 8،7 مورخہ 19 اپریل 1929)
اب ذرا یہ دیکھئے
" گورنمنٹ کی خاموشی احمدی جماعت کے صبر کی آزمائش ہے اور وہ دیکھ رہی ہے کہ احمدیہ جماعت اپنا یہ حق لیکر چھوڑتی ہے یا اسے لے کر رہتی ہے ۔پس یہ سوال ایک فرد کا سوال نہیں بلکہ جماعت کی عزت اور خلافت کے درجہ کے وقار کا سوال ہے ۔پس یا تو جماعت اپنے اس حق کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے اس تذلیل پر خوش ہو جائے یا پھر تیار ہو جائے کہ خواہ کوئی قربانی کرنی پڑے اس حق کو کو لیکر رہے گی ۔۔۔۔۔
ضمانت کیا چیز ہے اگر کسی کو پھانسی کی سزا بھی دی جائے اور وہ بزدلی دکھائے تو ہم اسے ہرگز منہ نہیں لگائیں گے بلکہ میں تو اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھوں گا، لیکن اگر کسی سے برداشت نہ ہو سکے اور وہ دوسرے کے جوش دلانے پر وہ ضبط نہ کر سکے تو وہ ہرگز جھوٹ نہ بولے اور صاف کہہ دے کہ میں نے مارا ہے ایسا کرنے والا بے شک ہمارا بھائی ہے۔

(خطبہ جمعہ مرزا محمود ، مندرجہ اخبار الفضل جلد 17 نمبر 79 ص 7،5 مورخہ 11 اپریل 1930)
"یہ جلسہ گورنمنٹ کو متنبہ کرتا ہے کہ جو قوم سید عبدالطیف اور نعمت اللہ خان جیسے بہادر شہید اور مظلوم پیدا کرسکتی ہے وہ کبھی اپنی بے عزتی برداشت نہیں کرسکتی اور اپنے مقدس امام کی خفیف سےخفیف ہتک بھی برداشت نہیں کرے گی اور وہ اس کے لئے جان و مال وآبرو اور اعزہ تک کو قربان کر دے گی۔
یہ جلسہ گورنر پنجاب سے اس امر کا پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مفسدہ پرداز مباہلہ والوں اور ان کے حامیوں کی خباثت سے فضا پاک کریں اور فوری تدابیر اختیار کریں ۔ورنہ احمدی نوجوان خود اپنے امام اور سلسلہ کی عزت اور ناموس کے تحفظ کے لئے عملی تدابیر اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے ۔

(اخبار الفضل جلد 17،نمبر 78 ص 2 مورخہ 8 اپریل 1930)
ایسے بیانات کے بعد ایک قادیانی محمد علی نے مورخہ 23 اپریل 1930 کو بٹالہ میں عبدالکریم مباہلہ اور ان کے ساتھ حاجی محمد حسین پر قاتلانہ حملہ کر دیا جس کے نے نتیجے میں عبدالکریم مباہلہ زخمی جبکہ محمد حسین قتل ہو گیا ۔
12 جنوری 1931 میں قادیانیوں کی ملزم کی سزائے موت کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل خارج ہوگئی اور ہائی کورٹ نے بھی سزائے موت کو بحال رکھا ۔
16مئی 1931 کو مجرم کو پھانسی دے دی گئی ۔
" ہمارے بھائی قاضی محمد علی صاحب کا جو حق ہمارے ذمہ تھا اور وہ یہ تھا کہ قانونی پہلو سے ہم ان کے لئے کوشش کرتے ۔ خدا کا شکر ہے ہم نے وہ ادا کیا ۔۔۔۔۔
میں اس کے متعلق چند باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں جو قاضی صاحب مرحوم کی چند خوبیاں ہیں ۔ پہلی خوبی ان کی جو نمایاں طور پر ظاہر کرتا ہے اور جو دل پر گہرا اثر کرتی ہے ، وہ ان کی ایمانی غیرت ہے جو کچھ ان سے سرزرد ہوا خواہ اس کے متعلق کیا رائے ظاہر کریں مگر یہ ضرور کہا جائے گا کہ اس کی محرک اعلٰی درجہ کی ایمانی غیرت تھی ۔
مختلف قسم کے درجات لوگوں کے ہوتے ہیں بعض میں ایک حدتک غیرت ہوتی ہے بعض میں نہیں ہوتی اور بعض میں زیادہ ہوتی ہے۔ جیسا جیسا ایمان ہو اسی درجہ کی غیرت پیدا ہوتی ہے ۔
قاضی صاحب مرحوم کے حالات سے جو بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے وہ ان کی ایمانی غیرت ہے جو اس فعل کی محرک ہوئی ان کے فعل پر ایسے لوگوں کو اعتراض کرنے کا حق نہیں جن میں غیرت نہیں پیدا ہوتی۔ یا اگر پیدا ہوئی تو اس حد تک پیدا نہیں ہوئی جس حد تک قاضی صاحب مرحوم کے دل میں پیدا ہوئی ۔

(خطبہ مرزا محمود ، مندرجہ اخبار الفضل جلد 18 نمبر141، مورخہ 6 جون 1931)

 
Top