• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مباہلہ والوں کی للکار

ضیاء رسول امینی

منتظم اعلیٰ
رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اور میاں زاہد، حال امرتسر مارکیٹ برانڈرتھ روڈ لاہور کے نام کے ساتھ ''مباہلہ والے'' کا لفظ نتھی ہو کر رہ گیا ہے ۔ ان مظلوموں نے 1927 میں اپنی ایک ہمشیرہ سکینہ بیگم پر مرزا محمود کی دست درازی کے خلاف اس زور سے صدائے احتجاج بلند کی کہ بیت الخلا۔فت میں مقیم مذہبی مہنتوں کی روحیں کپکپا اٹھیں۔ قادیانی غنڈوں نے ان کے مکان کو نذر آتش کردیا اور جناب میاں زاہد کے اپنے بیان کے مطابق اگر مولانا حکیم نورالدین کی اہلیہ محترمہ ان کو بروقت خبردار نہ کردیتیں تو وہ سب اسی رات قادیانیوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرچکے ہوتے ۔ انہوں نے مرزا محمود احمد کے ناقوس خصوصی ''الفضل'' کے کذب و افتراء کو جواب دینے کے لیے ''مباہلہ'' نامی اخبار جاری کیا جس کی پیشانی پر یہ شعر درج ہوتا تھا
خون اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری
یہ مظلوم خاتون قادیانی فرقہ کے صوبائی امیر مرزا عبدالحق ایڈوکیٹ سرگودھا کی اہلیہ ہیں ۔ وہ اپنے مشاہدہ اور تجربہ کی بنا پر اب بھی ربوہ کے پاپائے ثانی کو بدکردار سمجھتی ہیں۔ یہ سانحہ اس طرح ظہور میں آیا کہ وہ کسی کام کی خاطر ''قصر خلافت'' میں گئیں۔ مرزا محمود نے اپنی گھناؤنی فطرت کے مطابق ان کے ساتھ زیادتی کا ارتکاب کیا انہوں نے واپس آکر سارا معاملہ اپنے شوہر کے گوش گزار کردیا۔ مرید خاوند نے اپنی زوجہ پر اعتماد کرکے پیر پر تین حرف بھیجنے کی بجائے اس معاملہ کی تحقیق کا ارادہ کیا (اسے کہتے ہیں برین واشنگ۔راقم) اور پاپائے ثانی کے پاس پہنچا ۔ پیر تو رنگ ماسٹر تھا اسے مریدوں کو نچانے کا فن خوب آتا تھا اس نے بڑی ''معصومیت'' سے کہا ، مجھے خود اس معاملہ کی سمجھ نہیں آرہی :)) کمال ہے جی خلیفہ تو تمہارا خدا بناتا ہے لیکن یہاں خلیفہ صاحب کو معاملہ ہی سمجھ نہیں آرہا شاید ٹیچی اس دن چھٹی پہ ہوگا۔راقم ) سکینہ بیگم بڑی نیک اور پاکباز لڑکی ہے (تھوڑی سی شرم وحیا آپ میں بھی ہوتی کاش خلیفہ صاحب۔راقم) اس نے ایسی حرکت کیوں کی ہے میں دعا کروں گا (کہ اسکی ٹانگ ٹوٹ جائے اسکو کیڑے پڑیں اسکا خاوند اڑھائی سال میں اور باپ تین سال میں مر جائے۔راقم) آپ کل فلاں وقت تشریف لائیں(تاکہ خلیفہ صاحب کو کوئی الہام ہوجائے تب تک۔راقم) جب مرزا عبدالحق دوسرے دن پہنچے تو شاطر پیر اپنا عیارانہ منصوبہ مکمل کرچکا تھا ۔ اس نے مرید کے لیے جام بچھاتے ہوئے کہا میں نے اس معاملہ میں بہت غور کیا ہے ،دعا بھی کی ہے ایک بات سمجھ میں آئی ہے کہ(جو کہ مرزائیوں کو آج تک سمجھ نہیں آئی۔راقم) چونکہ میں خلیفہ ہوں ''مصلح موعود'' ہوں اس لیے سکینہ بیگم ایک ''روحانی تعلق'' کی بناء پر مجھ سے محبت رکھتی ہے (کیا کہنے تیری روحانیت کے۔راقم) اور اس قسم کا جذبہ الفت جب پوری طرح قلب و ذہن پر مستولی ہوجاتا ہے تو اس وقت بعض عورتیں خواب کے عالم میں دیکھتی ہیں (جس طرح مرزا قادیانی کو ننگی عورتوں کے خواب آتے تھے اور وہ خواب امت مرزائیہ کے لیے روحانی کشف و رویا کا مقام رکھتے ہیں۔راقم) کہ انہوں نے فلاں مرد سے ایسا تعلق قائم کیا اور اس خیال کا استیلاء و غلبہ ان پر اس قدر ہوتا ہے کہ وہ ان کو بیداری کا واقعہ سمجھ لیتی ہیں(اسے کہتے ہیں قادیانیت، مذہب تاویلات باطلہ و فاحشہ۔راقم) اس کے ساتھ ہی مرزا محمود نے طب کی ایک کتاب نکال کر دکھا دی کہ دیکھ لو اطباء نے بھی اس مرض کا ذکر کیا ہے۔ اس پر مرید مطمئن ہو کر گھر واپس آیا (برین واشنگ۔ :D ۔راقم) تو اہلیہ کے استفسار کرنے پر مرید خاوند نے کہا تم بھی سچ کہتی ہو اور ''حضرت صاحب'' بھی سچ کہتے ہیں۔ (اسے کہتے ہیں ذہنی مریض۔راقم)
مولوی محمد دین صاحب سابق ہیڈ ماسٹر ، حال صدر انجمن احمدیہ ربوہ نے مرزا محمد حسین صاحب المعروف ماسٹر بی کام کو بتایا کہ جن دنوں مرزا عبدالحق ،انجمن کے وکیل کے طور پر گورداس پور میں پریکٹس کر رہے تھے ایک روز وہ مجھے ملنے کے لیے آئے جیسا کہ دوسرے شاگرد آتے ہیں تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ کی اہلیہ اب تک ''حضرت صاحب'' کو بدکردار سمجھتی ہیں اور واقع کی صحت پر مصر ہیں تو انہوں نے کہا ؛؛جی ہاں'' اس سلسلہ میں عبدالرحمٰن صاحب آف ڈیرہ غازی خان اور مرزا عبدالحق کے درمیان جو خط و کتابت ہوئی اسے ملاحظہ فرمائیں

خط نمبر 1
قرآن کی تضحیک سے رک جائیں

مکرم مرزا صاحب۔
آپ کا مضمون بعنوان حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے کارنامے بلحاظ فیض روحانی رسالہ ''انصاراللہ'' ربوہ ماہ نومبر میری نظر سے گزرا ۔ اور تو لکھیں تو تعجب کی بات نہیں کیونکہ وہ لوگ خلیفہ صاحب ثانی کی ذات بے برکات سے ناواقف ہیں آپ کو تو آپ کی زوجہ محترمہ سکینہ بیگم نے آج سے کئی سال پہلے خلیفہ صاحب کی ناپاک زندگی سے آگاہ کردیا تھا۔ کاش کہ آپ نے اپنی نیوی سے پوچھ لیا ہوتا خلیفہ صاحب کے روحانی فیوض کیا ہیں؟ آپ خدا کو کیا جواب دیں گے ۔ خدا کے لیے تدبر سے کام لیں اور ایک ناپاک گندے بدکار آدمی کو قرآنی آیات کا مصداق نہ ٹھہرائیں ۔ قرآن کی تضحیک سے رک جائیں اور اپنی بیوی کی شہادت پر اعتبار کریں ۔
عبدالرحمٰن
بلاک نمبر 4 ڈیرہ غازی خان
10 فروری 1964
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خط نمبر 1 بجواب عبدالرحمٰن
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مرزا عبدالحق ایڈوکیٹ ۔ کوٹھی نمبر 6۔ انکم ٹیکس روڈ سرگودھا چھاؤنی 577-20۔2۔66
فون :2016
مکرمی! السلام علیکم
میں مشرقی پاکستان گیا ہوا تھا وہاں سے واپس آکر آپ کا خط ملا ۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو نور فراست دے تو میرے مضمون سے سدھر سکتا ہے کہ الزامات جو حضور ۔۔۔۔۔۔ کی ذات بابرکات پر لگائے جاتے ہیں درست نہیں ہیں ہم خدا کے فضل سے اہل غرض نہیں ہیں بلکہ سینکڑوں روپے ماہوار چندہ دیتے ہیں اور نصف سے زیادہ وقت خدمت دین کے لیے خرچ کرتے ہیں(جو محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے) اگر ان میں سے کوئی بات بھی درست ہوتی تو تعلق اخلاص ممکن نہ ہوتا ۔ ہم نے اس شخص کو دیکھا اور خوب گہرے طور پر دیکھا وہ ایک نہایت قیمتی موتی تھا لیکن پھر بھی ٹھوکر کھانے والوں نے ٹھوکر کھائی یہ ان کی عقل اور فہم اور دینی حس کا قصور تھا انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر وہ نعوذ باللہ ایسا ہی تھا جیسا کہ وہ لوگ سمجھتے رہے تو اس کو اتنے میٹھے پھل کیسے لگ گئے اگر میں اس درخت کے پھل گنواؤں تو یہ جگہ کافی نہ ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو برکت بخشی اور ہر طرف سے بخشی ۔ اس پر بدظنی کرنے والے نور ایمان سے محروم رہیں گے ۔اللہ تعالیٰ کا یہی قانون ہے ۔ میں نے اس خیال سے چند حروف لکھے ہیں کہ شاید یہ آپکی ہدایت کو موجب ہوں ورنہ میں اس کے جواب کی طرف مائل نہ ہوتا ۔ والسلام
عبدالحق امیر جماعت احمدیہ
سابق صوبہ پنجاب و بہاولپور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خط نمبر 2 عبدالرحمٰن
(کیا آپ کی زوجہ محترمہ نے مرزا محمود پر زنا کا الزام لگایا تھا؟)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
محترم برادرم مرزا عبدالحق صاحب ، سلمک اللہ تعالیٰ
آپ کا جواب ملا جس کا میں بہت شکر گزار ہوں امید ہے کہ میرے شکوک دور کرنے میں میری راہنمائی کریں گے کیونکہ وہی شکوک جماعت ربوہ میں داخل ہونے میں مانع ہیں ۔ آپ نے اپنے خط میں جماعت سے خلوص اور دل بستگی کا اظہار کیا ہے اس میں تو کسی کو شک و شبہ نہیں ہوسکتا ۔ پہلے میں آپ سے جو کچھ لکھنا چاہتا ہوں معذرت چاہتا ہوں ۔ میرے لکھنے کی غرض صف حقیقت پر پہنچنا ہے مجھے حسب ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں
1۔ کیا آپ کی زوجہ محترمہ سکینہ بیگم نے خلیفہ ثانی پر زنا کا الزام لگایا تھا؟
2۔ کیا آپ خلیفہ صاحب کے پاس زنا کا الزام سن کر گئے تھے ؟ نیز انہوں نے کیا جواب دیا جس کی وجہ سے آپ کی تسلی ہوگئی؟ممکن ہے جو جواب آپکی تشفی کا باعث بنا ہو میرے لیے بھی ہدایت کا موجب بن جائے مجھے امید کامل ہے کہ آپ ان متذکرہ بالا سوالات کے جوابات سیدھے سادے الفاظ میں دے کر ممنون فرمائیں گے۔ والسلام
عبدالرحمٰن لائبریرین
لائبریری احمدیہ انجمن اشاعت اسلام بلاک نمر 4 ڈیرہ غازی خان 25 فروری 1966
خط نمبر 3 عبدالرحمٰن بطور یاد دہانی
زنا کے الزام کی صفائی کیجیئے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مکرم و محترم مرزا صاحب السلام علیکم
آپ نے میرے ایک خط کا جواب نہایت محبت اور خلوص کے رنگ میں دیا تھا جس میں آپ نے خلیفہ صاحب کی عظمت اور بزرگی کا اظہار کیا تھا یہ رنگ مجھے پسند آیا تو میں نے اپنے شکوک و شبہات کے ازالہ کے لیے دوبارہ آپ کی خدمت میں ایک خط لکھا جس میں تین سوالات درج کیے تھے اور آپ سے درخواست کی تھی کہ جواب سے نوازیں تاکہ ہمارے دلوں سے بھی تاریکی کے بادل چھٹ جائیں اس خط کا جواب دستیاب نہیں ہوا ۔ اس لیے دوبارہ یاد دہانی کے طور پر خط لکھ رہا ہوں اور اس میں انہی سوالات کا اعادہ کرتا ہوں امید ہے کہ آپ ان سوالات کے جوابات دے کر ممنون فرمائیں گے تاکہ شکوک کا ازالہ ہوسکے ۔
سوال
1۔کیا آپ کی بیوی محترمہ سکینہ بی بی نے اپنے تجربہ و مشادہ کی بنا پر مرزا محمود احمد خلیفہ ثانی پہ زنا کا الزام نہیں لگایا تھا؟
2۔ پھر اس الزام کو سن کر کیا آپ خلیفہ صاحب کے پاس نہیں گئے تھے؟
3۔خلیفہ صاحب کی طرف سے وہ کیا جواب تھا جس نے آپ کی تسلی کردی؟
چونکہ یہ الزامات آپ کی نیوی کی طرف سے منسوب کیے جاتے ہیں اور آپ کا بھی کسی نہ کسی رنگ میں ذکر آتا ہے اور اس وجہ سے ان الزامات کی صفائی آپ ہی کرسکتے ہیں۔ امید ہے کہ برا نہ مناتے ہوئے جواب سے نوازیں گے۔ ممکن ہے کہ یہ جوابات میری ہدایت کا موجب بنیں۔
عبدالرحمٰن 3 اپریل 1966
خط نمبر 2 بجواب عبدالرحمٰن
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
6 civil lines advocat sargodha 9.4.66
مکرمی عبدالرحمٰن صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط ملا، اس سے پہلا خط بھی ملا تھا یہ باتیں خط و کتابت میں لانی مناسب نہیں اگر اللہ تعالیٰ آپ کو کسی وقت توفیق دے تو میرے پاس آئیں میں انشاء اللہ آپ کی تسلی کروں گا ۔ اگر آپ پسند کریں تو آمد و رفت کا کرایہ پیش کردوں گا ، لیکن اسے سمجھنے کے لیے صحت نیت ضروری ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اخلاص کے ساتھ پورا جھکاؤ ہو تو وہ ہدایت سے محروم نہیں رہنے دیتا ۔ ان الزامات میں بے حد مبالغے کیے گئے ہیں الزامات لگانے والوں نے اس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سلوک کو نہیں دیکھا جو ان الزامات کی پوری تردید کرتا ہے ۔
خاکسار مرزا عبدالحق
امیر جماعت ہائے احمدیہ
سابق صوبہ پنجاب و بہاولپور
خط نمبر 4 عبدالرحمٰن ،اصل سوال کی مزید یاد دہانی
میرے سوال کی طرف توجہ دیجیے!
محترم مرزا صاحب السلام علیکم
آپ کا خط مورخہ 12۔4۔1966 کو ملا آپ نے لکھا ہے میں نے جن امور سے متعلق آپ سے دریافت کیا ہے ان کو خط و کتابت میں لانا مناسب نہیںاور تسلی دلانے کے لیے آپ نے سرگودھا آنے کی دعوت دی ہے۔ اس بارے مین یہ عرض ہے کہ مجھے سرگودھا آنے میں کوئی عذر نہیں جو امر مجھے ربوہ جماعت سے دور رکھنے کا موجب ہے وہ وہی الزامات ہیں جو وقتا فوقتا خلیفہ صاحب پر لگتے رہے ہیں پھر ان الزامات میں تواتر کا رنگ پایا جاتا ہے سرگودھا اس شرط پر آنے کو تیار ہوں کہ آپ مجھے ان الزامات کا جواب نفی یا اثبات میں دیں جن کا تعلق آپ کی بیوی محترمہ سکینہ بیگم سے ہے کیونکہ عام سماعت کے مطابق آپ کی محترمہ نے آپ کو ہی خلیفہ صاحب کے کردار کے متعلق آگاہ کیا تھا میرے لیے اس وقت تک دوسرے دلائل تسلی کا موجب نہیں ہوں گے جب تک آپ ان الزامات کی تردید نہ کریں ۔ اگر خلیفہ صاحب کا کردار ہی محل نظر ہو تو دوسرے دلائل کی طرف توجہ کرنا بے فائدہ ہے ، نہ کوئی سمجھدار آدمی ان دلائل سے مطمئن ہوسکتا ہے اگر آپ مجھے ان الزامات کا جواب نفی یا اثبات میں دینے کو تیار ہوں تو مجھے سرگودھا آنے میں کوئی عذر نہیں ہے امید ہے کہ میرے اس ذہن کو مدنظر رکھ کر جواب سے نوازیں گے ۔ اگر دوسرے غیر متعلقہ مباحث میں ڈال کر تسلی دینے کی کوشش کرنا ہے تو مجھے سرگودھا کا سفر اختیار کرنے میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا
عبدالرحمٰن 16۔4۔1966
خط نمبر 5 بطور یاددہانی
خلیفہ صاحب دوم کی ذات پر سنگین قسم کے الزامات کا تدارک کیجیے
آخری مزید یاددہانی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مکرم و محترم مرزا صاحب السلام علیکم۔ مزاج مبارک!
مورخہ 16 اپریل 1966 کو آپ کی خدمت میں جواباََ مراسلہ ارسال کیا تھا کہ جس میں خاکسار نے تحقیق حق کے لیے سرگودھا آنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تاکہ اس الزام کی تردید یا توثیق ، جو آپ کی زوجہ محترمہ سکینہ بیگم نے خلیفہ صاحب دوم کی ذات پر لگایا تھا معلوم کر سکوں ۔ افسوس ہے کہ آپ نے جواب تک نہیں دیا۔ آپ کی خاموشی اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ آپ کی محترمہ نے کلیفہ صاحب دوم کی ذات پر کوئی سنگین قسم کا الزام عائد کیا تھا ، جس کو آپ پردہ راز میں رکھنا چاہتے ہیں اور اب مجھے اس امر کا حق پہنچتا ہے کہ میں تمام خطو کتابت شائع کردوں تاکہ اپنے اور بیگانے خلیفہ صاحب کے دعوی مصلح موعودیت کی حقیقت سے آشنا ہوسکیں ۔
والسلام
عبدالرحمٰن لائبریرین بلاک نمبر 4
ڈیرہ غازی خان یکم اکتوبر 1966
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک احمدی خاتون کا بیان
مذکورہ بالا عنوان کے تحت ایک مظلوم خاتون کا بیان ''مباہلہ'' قادیان میں اشاعت پذیر ہوا تھا گو اس وقت یہ چیلنج بھی دے دیا گیا تھا کہ اگر ''خلیفہ صاحب'' مباہلہ کے لیے آمادہ ہوں تو نام کے اظہار میں کوئی ادنیٰ تامل بھی نہیں ہوگا مگر چونکہ اس گوسالہ سامری کو مقابلے پر نکلنے کی جرات نہ ہوئی، اس لیے نام کا اظہار نہیں کیا گیا تھا۔ اب ہم ریکارڈ درست کرنے کی خاطر یہ درج کر رہے ہیں کہ وہ خاتون قادیان کے دوکاندار شیخ نورالدین صاحب کی صاحبزادی عائشہ تھیں۔ ان کے بھائی شیخ عبداللہ المعروف عبداللہ سوداگر آج کل ساہیوال میں مقیم ہیں عائشہ بیگم تھوڑا عرصہ ہوا انتقال کرگئی ہیں اب ہم وہ بیان درج کرتے ہیں
''میں میاں صاحب کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں اور لوگوں میں ظاہر کردینا چاہتی ہوں کہ وہ کیسی رروحانیت رکھتے ہیں ؟ میں اکثر اپنی سہیلیوں سے سنا کرتی تھی کہ وہ بڑے زانی شخص ہیں مگر اعتبار نہیں آتا تھا کیونکہ ان کی مومنانہ صورت اور نیچی شرمیلی آنکھیں ہرگز یہ اجازت نہ دیتی تھیں کہ ان پر ایسا الزام لگایا جا سکے۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ میرے والد صاحب نے ،جو ہر کام کے لیے حضور سے اجازت لیا کرتے تھے اور بہت مخلص احمدی تھے ایک رقعہ حضرت صاحب کو پہنچانے کے لیے دیا جس میں اپنے کام کے لیے اجازت مانگی تھی ۔خیر میں یہ رقعہ لے کر گئی اس وقت میں صاحب نئے مکان (قصر خلافت) میں مقیم تھے میں نے اپنے ہمراہ ایک لڑکی لی جو وہاں تک میرے ساتھ گئی اور ساتھ ہی واپس آگئی۔چند دن بعد مجھے پھر ایک رقعہ لے کر جانا پڑا اس وقت بھی وہی لڑکی میرے ہمراہ تھی ۔جونہی ہم دونوں میاں صاحب کی نشست گاہ میں پہنچیں تو اس لڑکی کو کسی نے پیچھے سے آواز دی ۔میں اکیلی رہ گئی میں نے رقعہ پیش کیا اور جواب کے لیے عرض کیا مگر ناہوں نے فرمایا کہ میں تم کو جواب دے دوں گا گھبراؤ مت۔ باہر ایک دو آدمی میرا انتظار کر رہے ہیں ان سے مل آؤں مجھے یہ کہہ کر اس کمرے کے باہر کی طرف چلے گئے اور چند منٹ بعد پیچھے کے تمام کمروں کو قفل لگا کر اندر داخل ہوئے اور اس کا بھی باہر والا دروازہ بند کردیا اور چٹخنیاں لگادیں ۔جس کمرے میں بیٹھی تھی وہ اندر کا چوتھا کمرہ تھا ۔میں یہ حالت دیکھ کر سخت گھبرائی اور طرح طرح کے خیال دل میں آنے لگے ۔آخر میاں صاحب نے مجھ سے چھیڑ چھاڑ شروع کی اور مجھ سے برا فعل کروانے کو کہا میں نے انکار کیا آخر ذبردستی انہوں نے مجھے پلنگ پر گرا کر میری عزت برباد کردی اور ان کے منہ سے اس قدر بو آرہی تھی کہ مجھ کو چکر آگیا اور وہ گفتگو بھی ایسی کرتے تھے کہ بازاری آدمی بھی ایسی نہیں کرتے ممکن ہے جسے لوگ شراب کہتے ہیں انہوں نے پی ہو کیونکہ ان کے ہوش و حواس بھی درست نہیں تھے مجھ کو دھمکایا کہ اگر کسی سے ذکر کیا تو تمہاری بدنامی ہوگی ،مجھ پر کوئی شک بھی نہیں کرے گا۔
مرزا محمود اور مس روفو
مرزا محمود جنس کے میدان دغا میں نت نئے تجربات کرتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ لاہور سل ہوٹل میں آئے تو وہاں کی نوجوان اطالوی منتظمہ مس روفو کو دل دے بیٹھے اور پھر بہلا پھسلا کر اسے قادیان لے گئے لاہور تو خبروں کا شہر ہے بات نکلی تو مولانا ظفر علی خان مرحوم تک پہنچ گئی انہوں نے فوراََ ایک نظم کہہ دی اور اگلی صبح اس کا ہر شعر لوگوں کی زبان پر تھا ۔بات بنتی نظر نہ آئی تو مرزا محمود نے حسب روایت بہانہ بنایا کہ میں اسے اپنی بیویوں اور لڑکیوں کے انگریزی لہجہ کے لیے لایا تھا (الفضل 18 مارچ 1934) اس پر اخبارات نے لکھا کہ اطالوی تو خود انگریزی کے بعض الفاظ صحیح طور پر نہیں بول سکتے، پھر ایک رقاصہ لڑکی کو گورنس کے طور پر رکھنا کونسی دانشمندی کی علامت ہے؟ اس پر قادیانی امت کے راسپوٹین کے لیے کوئی جائے فرار نہ رہی اور اس نے مس روفو کو اپنے محرم راز ڈرائیور (تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ ڈرائیور نذیر تھا) کے ہمراہ پانچ ہزار روپیہ دے کر واپس بھیج دیا ۔ قادیان میں مس روفو تجربات کی جس بھٹی سے گزری وہ اس قدر لرزہ خیز نوعیت کے تھے کہ اس نے آتے ہی ایک وکیل کو مرزا محمود کے خلاف کیس دائر کرنے کے لیے کہا کہ وہ اس کے ساتھ اپنی بیٹی کو سامنے بٹھا کر زنا کرتا رہا (ملخص از کمالات محمودیہ و فتنہ انکار ختم نبوت) وکیل نے اس کا کیس لینے سے انکار کردیا کیونکہ یہ کوئی معمولی گناہ نہ تھا۔ یہاں تو افشائے راز کا تحفظ بھی معصیت سے کیا گیا تھا۔ میں نے کئی باخبر لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ وکیل کون تھے تو انہوں نے بتایا کہ وہ سابق چیف جسٹس محمد منیر تھے جو اس وقت وکالت کی پریکٹس کیا کرتے تھے واللہ اعلم۔
اب آپ مولانا ظفر علی کی وہ نظم مطالعہ فرمائیں جو نہ صرف ادبی و فنی اعتبار سے ایک شاہکار ہے بلکہ اس میں قادیانی نبوت و خلافت کی بھی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی گئیں
الطالوی حسینہ
''ازنقاش''
اے کشور اطالیہ کے باغ کی بہار
لاہور کا دامن ہے تیرے فیض سے چمن
پیغمبر جمال تیری چلبلی ادا
پروردگار عشق تیرا دلربا چلن
الجھے ہوئے ہیں دل تیری زلف سیاہ میں
ہین جس کے ایک تار سے وابستہ سو فتن
پروردہ فسوں ہے تیری آنکھ کا خمار
آوردہ جنوں ہیں تیری بوئے پیرہن
پیمانہ نشاط تیری ساق صندلیں
بیعانہ سرور تیرا مرمریں بدن
رونق کے ہوٹلوں کی تیرا حسن بے حجاب
جس پر فدا ہے شیخ تو لٹو ہے برہمن
جب قادیان پہ تیری نشیلی نظر پڑی
سب نشہ نبوت ظلی ہوا ہرن
میں بھی ہوں تیری چشم پر افسوں کا معترف
جادو وہی ہے آج اے قادیان شکن
(ارمغان قادیان صفح 50 شائع کردہ مکتبہ کارواں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقبول اختر صاحبہ کا خط مولانا مظہر علی اظہر کے نام
مقبول اختر صاحبہ حکیم قطب الدین صاحب آف بدد ملہی کی عزیزہ ہیں۔ قادیان میں انہیں مرزا محمود کے گھر رہنا پڑا، وہاں جو کچھ انہیں نظر آیا وہ انہوں نے مولانا مظہر علی اظہر مرحوم کو لکھ دیا ۔ اصل خط مین بعض الفاظ غلط طور پر لکھے گئے ہیں ہم تصحیح کیے بغیر انہیں بعینہ نقل کر رہے ہیں
محترم جناب مولوی صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
گزارش احوال یہ ہے کہ میں سات سال سے مرزا بشیر الدین محمود احمد کے گھر میں ہوں میں نے جو اپنی آنکھوں سے حالات دیکھے ہیں وہ قلم بند کر رہی ہوں۔ پہلے تو برداشت کرتی رہی مگر اب نہ کرسکی اور میں نے اپنی جان بچانے کے واسطے وہاں سے نکلنا منظور کیا یعنی قادیان میں خلیفہ صاحب نے کوئی لڑکی یا عورت نہیں چھوڑی جو کہ خوبصورت ہیں۔ سخت ہی عیش پسند ہے شراب پینے سے زنا کرنے سے بالکل خدا کا خوف نہیں اور قیامت یاد نہیں۔ اور طریقہ یہ اختیار کیا ہوا ہے کہ دفتر میں جونواں(نوجواں) لڑکے ہیں وہ آتے ہیں اور لڑکیاں اس جگہ پر بلا لیتے ہیں ۔ تو آپ بھی اس میں شامل ہوتے ہیں یعنی اس میں اپنی لڑکیاں بھی (شامل) کرتے ہیں۔ یعنی ناصرہ ، قیوم، رشید، امتہ العزیز، اور ایک بیوی جس کا نام مریم ، سیدوں کی لڑکی ہے، وہ بھی اس شامل ہے ۔ اس کے بعد باہر کی لڑکیاں یعنی ڈاکٹر فضل الدین کی لڑکی سلیمہ ،مفتی فضل الرحمٰن کی لڑکی ، احمد الدین زرگر کی لڑکی، سید منصوری والے کی بہو،استانی میمونہ ، چوھدری فتح محمد سیال کی بیوی رقیہ، سید ولی اللہ شاہ کی بیوی، فتح محمد کی لڑکی آمنہ، سید عبدالجلیل کی بیوی رضیہ نور جہاں، وہ باہر کی ہے اپنی مرزا محمود کی بیوی جو عرب کی ہے محمد بی بی بلوچ کی بیوی، مولوی سردار جو آج کل استانی ہے عزیزہ، بیوی مرزا گل محمد ، والدہ صلاح الدین اور بہت سی شامل حال ہیں۔ تو اہلیہ ولی اللہ یا مولوی سردار جو ہر وقت حاضر خدمت رہتی ہیں۔ استانی العزیز سراج بی بی ایک لڑکی ہے وہ بھی شامل ہے ۔ ایک سیدہ منیرہ جو کہ ولی اللہ کے ماموں کی لڑکی ہے اس کو تو حمل بھی ہوگیا تھا ۔ قادیداََ جو آج کل بیوی مرزا مہتاب بیگ دوکاندار ہے وہ بھی شامل ہے، بلکہ پہلا لڑکا جو ہوا مرزا محمود کا ہوا تھا جس کا نام عبدالرشید ہے ۔ اب پھر سلیمہ بنت ڈاکٹر فضل الدین کی لڑکی ہے ۔ اس کو بھی بچہ مرزا محمود کا ہونے والا ہوا تو بہت جلدی اس کی شادی شیخ عبدالرحمٰن مصری کے لڑکے سے کردی تاکہ کوئی بہانہ بنایا جائے یعنی اب مشہور کردیا ہوا ہے کہ اس کو بیماری ہے اگر بچہ پیدا ہوا تو سات ماہ کا ہوگا۔ اس طرح وہ ہی منیرہ اس کو بھی حمل ہوگیا تھا ۔ مگر جلدی سے اس کا علاج کردیا اور حمل گرا دیا یعنی ڈاکٹر احسان علی کے بھائی کا تھا اور علاج ڈاکٹر احسان علی نے کیا۔ باقی جو قادیان کے بدمعاش لڑکے ہیں وہ خلیفہ صاحب کے ہم راز ہیں اور پوشیدہ دوست ہیں کیونکہ خلیفہ کا راز اور ان بدمعاشوں کا راز ایک ہے ۔ مریم جو کے خلیفہ صاحب کی بیوی ہے ، وہ سیکرٹری بنی ہوئی ہے اور خلیفہ صاحب کی طرح ایک دوسرے کو ملا دیتی ہے اور خود بھی لڑکوں کے ساتھ بدمعاشی کرتی ہےایک نذیر لڑکا ہے جو کہ مرزا محمود کی موٹر چلاتا ہے وہ بھی شامل ہے میں تو سخت تنگ آ کر قادیان کو خیرباد کہہ دیا ہے اور باقی جو میرے ہم خیال لڑکیاں ہیں وہ بھی سخت تنگ ہیں۔ ہاں سچ مولوی محمد صادق کی بیوی رضیہ وہ بھی شامل ہے اور مولوی رحمت علی کی بیوی اور بیٹی دونوں شامل ہیں ۔ مجھے بھی اس میں شامل کرنا چاہتے تھے مگر میں نے یہ بات نامنظور کی اور باہر چلی آئی۔ میرا خیال یہاں تک کہتا تھا کہ مسلمان کوئی نہیں اور خدا بھی کوئی نہیں ہے کہ میری آنکھیں کیا دیکھتی ہیں مگر ان کو ہوتا کچھ نہیں ہے ایک طرف تو خدا تعالیٰ سخت سے سخت سزا دینے کا حکم دیتا ہے دوسری طرف ان کو کچھ نہیں کہتا یہ کیا معاملہ ہے ، اس سے تو ہزار درجہ بہتر عیسائی لوگ ہیں۔ میں اپنی جان کی قسم اٹھا کر کہتی ہوں کہ اگر مجھے یہ علم نہ تھا کہ حقیقت میں مسلمانوں کے ہم درد (ہمدرد) احرار قوم دنیا میں موجود نہیں تو میں ضرور بر ضرور عیسائی ہو جاتی اور اپنی جان کو بچا لیتی مگر خدا تعالیٰ بہت قدرت والا ہے ، میرے دل میں خیال تھا کہ اچانک مجھے ایک آدمی ملا جس نے مجھے حضرت مولوی صاحب (مولوی مظہر علی صاحب اظہر ) کی خدمت میں آنے کی تاکید کی اور کہا کہ وہ ضرور تمہاری امداد کریں گے اب میں نہایت ہی عاجزانہ مجلس احرار یعنی قوم کے ہمدرد کے آگے اپیل کرتی ہوں کہ وہ میری مدد کریں تاکہ جو میری ہم خیال لڑکیاں ہیں ان کو نجات دینے کا کوئی راستہ بنا سکوں میں انشاءاللہ جلدی ہی اس بات کی کوشش کر رہی ہوں ۔
میں اب ایک مضمون بنا کردوں گی قادیان کے حالات پر کیونکہ اب سکول میں رخصت ہوگئی ہیں اور مجھے فرصت ملی ہے۔ فقط
مقبول اختر

 
آخری تدوین :
Top