غلام غوث
رکن ختم نبوت فورم
مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت پر حضرت امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمتہ اﷲ علیہ کا پانچ نکاتی بیان
1۔ سچا نبی کسی استاد کا شاگرد نہیں ہوتا‘ اس کا علم لدنی ہوتا ہے۔ وہ روح قدس سے تعلیم پاتا ہے۔ بلاواسطہ اس کی تعلیم و تعلم خداوند قدس سے ہوتی ہے۔ جھوٹا نبی اس کے برخلاف ہوتا ہے۔
2۔ ہر سچا نبی اپنی عمر کے چالیس سال گزرنے کے بعد یکدم اپنے رب العالمین مخلوق سے روبرو دعویٰ نبوت کردیتا ہے۔ اور بتدریج آہستہ آہستہ اس کو درجہ نبوت ملتا ہے وہ نبی ہوتا ہے۔ وہ پیدائش سے نبی ہوتا ہے جھوٹا نبی برخلاف اس کے آہستہ آہستہ نبوت کا دعویٰ کرتا ہے۔ پہلے محدث مجرد ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
3۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور خاتم الانبیاء تک جتنے نبی ہوئے تمام کے نام منفرد تھے‘ کسی سچے نبی کا نام مرکب نہ تھا۔ برعکس اس کے جھوٹے نبی کا نام مرکب تھا۔
4۔ سچا نبی کوئی ترکہ نہیں چھوڑتا ہے اور جھوٹا نبی ترکہ چھوڑ کر مرتا ہے اور اولاد کو محروم الارث کرتا ہے۔
5۔ مرزائی جو مرزا غلام احمد کے پیرو ہیں‘ وہ ختم نبوت کے قائل نہیں اور حضور علیہ السلام کی رسالت و نبوت میں کمی کرنے والے ہیں اور حضور علیہ الصلواۃ و السلام کے مدارج کو مرزا غلام احمد کے لئے مانتے ہیں (بحوالہ ماہنامہ انوار الصوفیہ قصور‘ اپریل‘مئی 1941ء ص 33)
1۔ سچا نبی کسی استاد کا شاگرد نہیں ہوتا‘ اس کا علم لدنی ہوتا ہے۔ وہ روح قدس سے تعلیم پاتا ہے۔ بلاواسطہ اس کی تعلیم و تعلم خداوند قدس سے ہوتی ہے۔ جھوٹا نبی اس کے برخلاف ہوتا ہے۔
2۔ ہر سچا نبی اپنی عمر کے چالیس سال گزرنے کے بعد یکدم اپنے رب العالمین مخلوق سے روبرو دعویٰ نبوت کردیتا ہے۔ اور بتدریج آہستہ آہستہ اس کو درجہ نبوت ملتا ہے وہ نبی ہوتا ہے۔ وہ پیدائش سے نبی ہوتا ہے جھوٹا نبی برخلاف اس کے آہستہ آہستہ نبوت کا دعویٰ کرتا ہے۔ پہلے محدث مجرد ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
3۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور خاتم الانبیاء تک جتنے نبی ہوئے تمام کے نام منفرد تھے‘ کسی سچے نبی کا نام مرکب نہ تھا۔ برعکس اس کے جھوٹے نبی کا نام مرکب تھا۔
4۔ سچا نبی کوئی ترکہ نہیں چھوڑتا ہے اور جھوٹا نبی ترکہ چھوڑ کر مرتا ہے اور اولاد کو محروم الارث کرتا ہے۔
5۔ مرزائی جو مرزا غلام احمد کے پیرو ہیں‘ وہ ختم نبوت کے قائل نہیں اور حضور علیہ السلام کی رسالت و نبوت میں کمی کرنے والے ہیں اور حضور علیہ الصلواۃ و السلام کے مدارج کو مرزا غلام احمد کے لئے مانتے ہیں (بحوالہ ماہنامہ انوار الصوفیہ قصور‘ اپریل‘مئی 1941ء ص 33)