• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

چالیس روزہ ختم نبوت کورس

محمد عبداللہ امانت

رکن ختم نبوت فورم
*سبق نمبر 10*


*"ختم نبوت کے موضوع پر اکابرین امت کی عبارات پر قادیانی اعتراضات کا علمی تحقیقی جائزہ"*
جب قادیانی قرآن و احادیث سے اجرائے نبوت پر کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے اور لاجواب ہوجاتے ہیں تو پھر چند بزرگان دین کی عبارات کو ادھورا پیش کرکے اس سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب بھی قادیانی کسی بزرگ کی عبارت پیش کریں تو چند اصولی باتیں ذہن نشین کر لیں ۔ قادیانیوں کا دجل خود ہی پارہ پارہ ہوجائے گا ۔
1۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب قادیانیوں کے نزدیک بزرگوں کے اقوال کو مستقل حجت نہیں تو وہ بزرگوں کے اقوال کیوں پیش کرتے ہیں؟؟
کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"اقوال سلف و خلف درحقیقت کوئی مستقل حجت نہیں۔"
*(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 538 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 389)*
اس کے علاوہ مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا محمود نے لکھا ہے
"نبی کی وہ تعریف جس کی رو سے آپ (مرزاقادیانی) اپنی نبوت کا انکار کرتے رہے ہیں۔ یہ ہے کہ نبی وہی ہوسکتا ہے جو کوئی نئی شریعت لائے یا پچھلی شریعت کے بعض احکامات کو منسوخ کرے۔ یا یہ کہ اس نے بلاواسطہ نبوت پائی ۔ اور کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو۔ یہ تعریف عام طور پر مسلمانوں میں مسلم تھی"
*(حقیقتہ النبوۃ صفحہ 122)*
لیجئے خود مرزا محمود نے تسلیم کر لیا کہ مرزاقادیانی کے آنے تک مسلمان نبی اسی کو سمجھتے تھے جو نئی شریعت لانے والا ہو۔ جب خود قادیانی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں ایک ہی تعریف پائی جاتی تھی تو وہ پھر بزرگوں کی عبارات کو کیوں پیش کرتے ہیں؟؟
2۔ ہمارا دعوی یہ ہے کہ بزرگان دین میں سے کوئی ایک بزرگ بھی ایسا نہیں تھا جس کا یہ عقیدہ ہو کہ حضورﷺ کے بعد بھی کوئی نبی بن سکتا ہے اور فلاں شخص حضورﷺ کے بعد نبی ہے۔
قادیانی تاقیامت ایسی عبارت کسی بزرگ سے ثابت نہیں کر سکتے ۔
3۔ قادیانی جتنی بھی بزرگوں کی عبارات پیش کرتے ہیں ان میں اگر ،مگر، چونکہ، چنانچہ کی قیدیں لگی ہوتی ہیں۔ اور ایسی عبارات جن میں اتنی قیدیں لگی ہوں ان عبارات سے عقائد کے معاملے میں کوئی بددیانت ہی استدلال کرسکتا ہے۔
یاد رکھیں عقائد کے معاملے میں صرف نص صریح ہی قابل قبول ہوتی ہے۔
پھر جن بزرگوں کی عبارات قادیانی تحریف و تاویل کرکے پیش کرتے ہیں ان بزرگوں کا درج ذیل عقیدہ ان کی ہی کتابوں میں موجود ہے۔
1) آپﷺ پر نبوت ختم ہے۔
2) آپﷺکےبعد کسی بھی قسم کاکوئی نبی نہیں بن سکتا ۔
3) آپﷺکے بعد آج تک کوئی شخص نبی نہیں بنا۔
4) جس شخص نے حضورﷺ کے بعد نبوت کا دعوی کیا۔ اس کو انہوں نے کافر ہی سمجھا۔

لے دے کے چند عبارات ہیں جن میں تاویل و تحریف کر کے قادیانی کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد بھی نئے نبی آسکتے ہیں۔
حالانکہ آج تک قادیانی کوئی ایک عبارت بھی ایسی پیش نہیں کر سکے جس میں یہ 4 باتیں پائی جاتی ہوں۔
1۔ جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں حضرت عیسیؑ کی آمد کا ذکر نہ ہو۔
2۔ جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں آنخضرت ﷺکی ختم نبوت زمانی کے بعد کسی غیر تشریعی نبی کے اس امت میں پیدا ہونے کی صراحت موجود ہو۔
3۔ جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں محض اجزائے نبوت یعنی سچے خواب وغیرہ یا بعض کمالات نبوت ملنے کا ذکر نہ ہو بلکہ امت کے بعض افراد کے لئے نبوت ملنے کا ذکر ہو۔
4۔ جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں ایسا نہ ہو کہ اس کے سیاق و سباق میں تو ختم نبوت مرتبی کا بیان ہو اور قادیانی اس عبارت کو ختم زمانی کے ذیل میں بیان کررہے ہوں۔
(ختم نبوت زمانی اور ختم نبوت مرتبی کی تفصیل آگے آرہی ہے انشاء اللہ)
ہمارا دعوی یہ ہے کہ ان 4 شرطوں کے ساتھ آج تک کوئی قادیانی کسی بھی بزرگ کی کوئی ایک عبارت بھی پیش نہیں کر سکے۔
اور یہ اصول بھی یاد رکھیں کہ جب تک دعوی کرنے والے کے پاس اپنے دعوی پر دلیل موجود نہ ہو تو جس پر دعوی کیا جارہا ہے اس کے ذمے جواب دینا ضروری نہیں ہے۔
"شیخ محی الدین ابن عربیؒ کی عبارات پر قادیانی اعتراضات کا علمی تحقیقی جائزہ"
قادیانی شیخ محی الدین ابن عربیؒ کی عبارات سے بھی دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بھی حضور ﷺ کے بعد نئے نبیوں کے آنے کے قائل ہیں۔
آیئے پہلے شیخ ابن عربیؒ کی اس عبارت کا جائزہ لیتے ہیں جو قادیانی بطور اعتراض کے پیش کرتے ہیں۔
قادیانی کہتے ہیں کہ شیخ ابن عربیؒ نے لکھا ہے کہ
"تشریعی نبوت کا دروازہ بند ہے۔ اور نبی کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں اس کا مطلب ہے کہ کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کے مخالف ہو۔ اگر کوئی ہوگا تو وہ میری شریعت کے تابع ہوگا"
*(الفتوحات المکیہ جلد 2 صفحہ 3)*
ہم قادیانیوں کی طرف سے شیخ ابن عربیؒ پر لگائے گئے الزامات کا جواب تو بعد میں دیتے ہیں لیکن پہلے قادیانیوں کو بتاتے چلیں کہ آپ کو ابن عربیؒ پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"شیخ ابن عربی پہلے وجودی تھے۔"
*(ملفوظات جلد 2 صفحہ 232)*
اور وجودیوں کے بارے میں مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"وجودیوں اور دہریوں میں انیس بیس کا فرق ہے یہ وجودی (شیخ ابن عربیؒ وغیرہ ) سخت قابل نفرت اور قابل کراہت ہیں۔"
*(ملفوظات جلد 4 صفحہ 397)*
جب مرزاقادیانی کے نزدیک شیخ ابن عربیؒ وجودی ، قابل نفرت اور دہریے ہیں تو قادیانی کس منہ سے شیخ ابن عربی رح کی عبارات پیش کرتے ہیں اور دھوکہ دیتے ہیں؟؟؟
اب قادیانیوں کی پیش کردہ عبارت کے جوابات بھی ملاحظہ فرمائیں ۔

جواب نمبر 1
شیخ ابن عربیؒ نے لکھا ہے کہ
"جو وحی نبی اور رسول کے ساتھ خاص تھی کہ فرشتہ ان کے کان یا دل پر (وحی لے کر) نازل ہوتا تھا ۔ وہ وحی بند ہوچکی۔ اور اب کسی کو نبی یا رسول کا نام دینا ممنوع ہوچکا۔
*(الفتوحات المکیہ جلد 2 صفحہ 253)*
اس عبارت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ابن عربیؒ کے نزدیک حضورﷺ کے بعد وحی رسالت تاقیامت منقطع ہے۔ اب کسی کو نبی یا رسول نہیں کہ سکتے۔

جواب نمبر 2
شیخ ابن عربیؒ نے لکھا ہے کہ
"وحی کا سلسلہ حضورﷺ کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔۔۔۔ سیدنا عیسیؑ جب اس امت کی قیادت کریں گے تو ہماری شریعت کے مطابق عمل کریں گے ۔ آپ جب نازل ہوں گے تو آپ کے لئے مرتبہ کشف بھی ہوگا اور الہام بھی۔ جیسا کہ یہ مقام (اولیاء) امت کے لئے ہے۔"
*(الفتوحات المکیہ جلد 3 صفحہ 238)*

اس عبارت میں تو شیخ ابن عربیؒ سیدنا عیسی علیہ السلام کے لئے بھی انبیاء والی وحی کا بند ہونا بیان کررہے ہیں۔ بلکہ ابن عربیؒ کے مطابق سیدنا عیسی علیہ السلام کو اولیاء کی طرح کشف اور الہام ہوں گے ۔

جواب نمبر 3
شیخ ابن عربیؒ کے نزدیک نبوت کا لفظ لغوی طور پر اولیاء کے مبشرات یا الہام وغیرہ پر بولا جاتا ہے۔ بلکہ ان مبشرات اور الہامات کے جن کو شیخ ابن عربیؒ رح کے نزدیک نبوت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شیخ ابن عربیؒ حیوانوں میں بھی لغوی طور پر نبوت کا لفظ بولتے تھے ۔
جیسا کہ شیخ ابن عربیؒ نے لکھا ہے کہ
"اور یہ نبوت حیوانات میں بھی جاری ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ تیرے رب نے شھد کی مکھی کی طرف وحی کی۔"
*(الفتوحات المکیہ جلد 2 صفحہ 254)*
لیجئے شیخ ابن عربیؒ تو حیوانات کی وحی کو بھی نبوت کا نام دے رہے ہیں ۔ جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے۔ کیا اب قادیانیوں کی بات مان کر حیوانات کو بھی نبی مان لیں؟ ؟

*"خلاصہ کلام"*
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شیخ ابن عربیؒ کا عقیدہ یہی تھا کہ حضورﷺ آخری نبی ہیں اور حضورﷺ کے بعد کسی بھی انسان کو نبی یا رسول نہیں بنایا جائے گا ۔
اور جن مقامات پر ابن عربیؒ نے نبوت کا لفظ استعمال کیا ہے وہاں حقیقتا نبوت مراد نہیں ہے بلکہ مجازی طور پر اولیاء کرام کے مبشرات یا الہامات کو نبوت کے لفظ سے بیان کیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ
"نبوت میں مبشرات کے سواء کچھ باقی نہیں "
"مولانا قاسم نانوتویؒ کی عبارات پر قادیانی اعتراضات کا علمی تحقیقی جائزہ"
مولانا قاسم نانوتویؒ کی عبارات پر جائزہ لینے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ختم نبوت کی کتنی اقسام کو مولانا قاسم نانوتویؒ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔
مولانا قاسم نانوتویؒ نے اپنی کتاب "تحذیر الناس" میں ختم نبوت کی دو اقسام بیان فرمائی ہیں۔
1۔"ختم نبوت زمانی"
ختم نبوت زمانی کا مطلب ہے کہ جس زمانے میں حضورﷺ تشریف لائے اور آپﷺ کو نبوت ملی۔ اس وقت سے لے کر قیامت تک اب کسی ایک انسان کو بھی نبی یا رسول نہیں بنایا جائے گا۔
اس لحاظ سے آپ ﷺخاتم النبیین ہیں۔
2۔ "ختم نبوت مرتبی"
ختم نبوت مرتبی کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ پر اللہ تعالٰی نے تمام مراتب کی انتہا فرمادی۔ اور جتنے مرتبے حضورﷺ کو ملے ہیں اتنے مرتبے کسی کو بھی اللہ تعالٰی کی طرف سے نہ ملے ہیں اور نہ ملیں گے ۔ اور ختم نبوت مرتبی حضورﷺ کو اس وقت سے حاصل ہے جب آدمؑ کا ابھی وجود بھی مکمل پیدا نہیں ہوا تھا۔
(ختم نبوت مرتبی کے بعد کم و بیش ایک لاکھ اور چوبیس ہزار نبی آئے لیکن اس سے حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت مرتبی پر کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ انبیاء کرامؑ کو نبوت بھی ملنی تھیں اور انہوں نے تبلیغ بھی کرنی تھیں۔ لیکن تمام انبیاء کرامؑ کا رتبہ حضور ﷺسے کم ہی ہونا تھا۔ اس لئے حضورﷺ کی ختم نبوت مرتبی پر فرق نہیں پڑا )
ایک اور تمہیدی بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن پاک کی 99 آیات اور 210 سے زائد احادیث مبارکہ حضورﷺ کی ختم نبوت زمانی پر دلیل ہیں۔ یعنی جب حضورﷺ کا زمانہ نبوت شروع ہوگیا اس کے بعد اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ مسیلمہ کذاب یا مرزاقادیانی نبی یا رسول ہیں۔ یا ان کے علاوہ بھی کسی کو نبوت مل سکتی ہے تو یہ عقیدہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے اور کفر ہے۔
ختم نبوت کی ان دو اقسام کو ذہن میں رکھیں تو قادیانی مولانا قاسم نانوتویؒ کی جو عبارت پیش کرتے ہیں اس عبارت کے بارے میں قادیانی دجل وفریب خود ہی واضح ہوجاتا ہے۔
قادیانی کہتے ہیں کہ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے لکھا ہے کہ
"عوام کے خیال میں تو رسول اللہﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپﷺ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانے میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔
*(تحذیر الناس صفحہ 14 جدید ایڈیشن 2017ء)*
میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی۔
*(تحذیر الناس صفحہ 15 جدید ایڈیشن 2017ء)*
اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدیہ میں کچھ فرق نہ آئے گا۔
*(تحذیر الناس صفحہ63 جدید ایڈیشن 2017ء)*
آپ اس تحریر کو غور سے پڑھیں، بار بار پڑھیں لیکن آپ یہی سمجھیں گے کہ واقعی مولانا قاسم نانوتویؒ سے غلطی ہوئی ہے۔لیکن دراصل مولانا قاسم نانوتویؒ سے کوئی غلطی نہیں ہوئی بلکہ یہ بھی قادیانیوں کا دھوکہ ہے۔ قادیانیوں کے اس اعتراض کے بہت سے جوابات ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں۔

*جواب نمبر 1*
اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک تحریر نہیں ہے بلکہ 3 مختلف صفحات سے تین باتیں لےکر ان کو جوڑ کر ایک تحریر بنایا گیا ہے۔
پہلی عبارت یہ ہے۔
"عوام کے خیال میں تو رسول اللہﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپﷺ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانے میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔"
*(تحذیر الناس صفحہ 14 جدید ایڈیشن 2017ء)*
اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل فضیلت یہ ہے کہ حضور ﷺ کا مقام و مرتبہ اصل چیز ہے۔ یعنی اصل چیز ختم نبوت مرتبی ہے۔
دوسری عبارت یہ ہے
"میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی۔"
اس عبارت کے سیاق و سباق کو بالکل ہٹ کر پیش کیا گیاہے۔ کیونکہ اس عبارت سے کچھ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کیا بات ہورہی ہے۔ قادیانیوں نے صرف اپنے دجل کو بیان کرنے کے لئے اتنی سی عبارت کو ساتھ جوڑا ہے۔
تیسری عبارت یہ ہے
"اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدیہﷺ میں کچھ فرق نہ آئے گا۔"
*(تحذیر الناس صفحہ63 جدید ایڈیشن 2017ء)*
یہ اصل بات ہے جس کو لے کر قادیانی شور ڈالتے ہیں کہ دیکھو کہ مولانا قاسم نانوتویؒ خود فرما رہے ہیں کہ اگر بالفرض زمانہ نبوی کے بعد بھی کوئی نبی پیدا ہوجائے۔ یعنی مولانا قاسم نانوتویؒ کے نزدیک کسی نئے نبی کا حضور ﷺ کے بعد پیدا ہونا کوئی کفریہ عقیدہ نہیں ہے۔
آیئے قارئین قادیانیوں کے اس دجل کا پردہ بھی چاک کرتے ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مولانا قاسم نانوتویؒ نے ساری بات فرضیہ طور پر کی ہے ۔
جیسا کہ قرآن پاک میں بھی اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ
*"لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ"*
"اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا دوسرے خدا ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے ۔ لہذا عرش کا مالک اللہ ان باتوں سے بالکل پاک ہے جو یہ لوگ بنایا کرتے ہیں۔"
*(سورۃ الانبیاء آیت نمبر 22)*
اب اس آیت کو پڑھیں۔ اس آیت میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ اگر دو معبود ہوتے تو زمین و آسمان کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ دو معبود بن گئے؟؟ ہرگز نہیں بلکہ اللہ تعالٰی نے بطور مثال یہاں بیان فرمایا ہے ۔ کہ بالفرض اگر دو معبود ہوتے تو زمین و آسمان کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔
اسی طرح مولانا قاسم نانوتویؒ رح نے بھی یہاں بطور مثال بیان کیا ہے کہ بالفرض اگر کوئی نیا نبی پیدا ہوبھی جائے تو حضورﷺ کو جو مقام و مرتبہ یعنی ختم نبوت مرتبی حاصل ہے۔ اس میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آئے گا بلکہ جس مقام و مرتبے پر آپﷺ فائز ہیں۔ وہی حاصل رہے گا۔
اب آپ فیصلہ کریں کہ کیا مولانا قاسم نانوتویؒ ختم نبوت زمانی کے منکر بن رہے ہیں یا ختم نبوت مرتبی کو بیان فرما رہے ہیں؟؟
اصل بات یہ ہے کہ اس جگہ مولانا قاسم نانوتویؒ نے حضورﷺ کی ختم نبوت مرتبی کو بیان کیا ہے اور قادیانی دجل وفریب کرتے ہوئے اس مثال کو ختم نبوت زمانی پر فٹ کرتے ہیں۔ حالانکہ اوپر آپ پڑھ چکے ہیں کہ مولانا قاسم نانوتویؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی ختم نبوت زمانی کا منکر ہے یعنی کوئی یہ کہتا ہے کہ حضورﷺ کے زمانے کے بعد کسی نئے انسان کو نبی یا رسول بنایا گیا ہے تو وہ کافر ہے۔
یہ موضوع تھوڑا سا پچیدہ ہے جب تک کچھ علوم سے شدبد نہ ہو اس وقت تک یہ دقیق علمی بحث سمجھ نہیں آتی ۔ اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

*جواب نمبر 2*
مولانا قاسم نانوتویؒ نے لکھا ہے کہ
"“سو اگر اطلاق اور عموم ہے تب تو خاتمیت زمانی ظاہر ہے، ورنہ تسلیم لزوم خاتمیت زمانی بدلالت التزامی ضرور ثابت ہے، ادھر تصریحات نبوی مثل:
“انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی۔” او کما قال۔
جو بظاہر بطرز مذکورہ اسی لفظ خاتم النبیین سے ماخوذ ہے، اس باب میں کافی، کیونکہ یہ مضمون درجہ تواتر کو پہنچ گیا ہے، پھر اس پر اجماع بھی منعقد ہوگیا۔ گو الفاظ مذکور بہ سند تواتر منقول نہ ہوں، سو یہ عدم تواتر الفاظ، باوجود تواتر معنوی یہاں ایسا ہی ہوگا جیسا تواتر اعداد رکعات فرائض و وتر وغیرہ۔ باجودیکہ الفاظ حدیث مشعر تعداد رکعات متواتر نہیں، جیسا اس کا منکر کافر ہے، ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہوگا۔”
*(تحذیر الناس 29٬30 طبع جدید 2017ء)*
اس عبارت میں مولانا قاسم نانوتویؒ حضورﷺ کے بعد کسی نئی نبوت کا دعوی کرنے والے اور اس کو ماننے والے کو کافر قرار دے رہے ہیں۔ اس علاوہ اس عبارت میں صراحت موجود ہے کہ
1)خاتمیت زمانی یعنی آنحضرتﷺ کا آخری نبی ہونا، آیت خاتم النبیین سے ثابت ہے۔
2)اس پر تصریحاتِ نبویﷺ متواتر موجود ہیں اور یہ تواتر رکعاتِ نماز کے تواتر کی مثل ہے۔
3)اس پر امت کا اجماع ہے۔
4)اس کا منکر اسی طرح کافر ہے، جس طرح ظہر کی چار رکعت فرض کا منکر۔
اتنی وضاحت کے بعد بھی مولانا قاسم نانوتویؒ پر ختم نبوت کا منکر ہونے کا الزام عقل و فہم سے بالاتر ہے۔

*جواب نمبر 3*
اسی تحذیر الناس میں ہے۔
“ہاں اگر بطور اطلاق یا عموم مجاز اس خاتمیت کو زمانی اور مرتبی سے عام لے لیجئے تو پھر دونوں طرح کا ختم مراد ہوگا۔ پر ایک مراد ہو تو شایان شان محمدیﷺ خاتمیت مرتبی ہے نہ زمانی، اور مجھ سے پوچھئے تو میرے خیال ناقص میں تو وہ بات ہے کہ سامع منصف انشاء اللہ انکار ہی نہ کرسکے۔ سو وہ یہ ہے کہ تقدم و تاخیر یا زمانی ہوگا یا مکانی یا مرتبی۔ یہ تینوں نوعیں ہیں۔باقی مفہوم تقدم و تأخر ان تینوں کے حق میں جنس ہے۔
*(تحذیر الناس صفحہ 27 طبع جدید 2017ء)*
یعنی لفظ خاتم النبیین سے خاتمیت مرتبی٬خاتمیت زمانی اور خاتمیت مکانی بھی ثابت ہے۔
اور "مناظرہ عجیبہ" میں جو تحذیر الناس کا تتمہ ہے، ایک جگہ فرماتے ہیں:
“مولانا! حضرت خاتم المرسلینﷺ کی خاتمیت زمانی تو سب کے نزدیک مسلّم ہے اور یہ بات بھی سب کے نزدیک مسلّم ہے کہ آپ اول المخلوقات ہیں۔ “
*(مناظرہ عجیبہ صفحہ 9 طبع مکتبہ قاسم العلوم کراچی 1978ء)*
اس عبارت میں بھی عقیدہ ختم نبوت کا واضح اظہار موجود ہے۔

*جواب نمبر 4*
مولانا قاسم نانوتویؒ نے لکھا ہے کہ
“اپنا دین و ایمان ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں، جو اس میں تامل کرے اس کو کافر سمجھتا ہوں۔”
*(مناظرہ عجیبہ صفحہ 144 طبع مکتبہ قاسم العلوم کراچی 1978ء)*
لیجئے آخری حوالے نے تو قادیانی دجل کو پاش پاش کر دیا ۔

*" خلاصہ کلام "*
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مولانا قاسم نانوتویؒ عقیدہ ختم نبوت کے قائل بھی ہیں اور منکرین ختم نبوت کو کافر سمجھتے ہیں۔ البتہ "تحذیر الناس" میں مولانا قاسم نانوتویؒ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ جس طرح حضورﷺ کو ختم نبوت زمانی حاصل ہے یعنی حضورﷺ کے بعد کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح حضورﷺ کو ختم نبوت مرتبی بھی حاصل ہے۔ یعنی حضورﷺ جیسا مقام و مرتبہ بھی کسی کو حاصل نہیں ہوسکتا۔
 

محمد عبداللہ امانت

رکن ختم نبوت فورم
*سبق نمبر 11*


*"مسئلہ رفع و نزول سیدنا عیسیؑ پر چند ابتدائی گزارشات"*

*"مسلمانوں کا عقیدہ"*
مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ سیدنا عیسیؑ علیہ السلام کو یہود نہ قتل کر سکے اور نہ صلیب دے سکے ۔ بلکہ اللہ تعالٰی نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا اور اب وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے ۔ ہمارا عقیدہ قرآن، حدیث، اجماع اور تواتر سے ثابت ہے۔

*"قادیانیوں کا عقیدہ"*
قادیانیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ یہود نے سیدنا عیسیؑ کو صلیب پر چڑھایا اور چند گھنٹے وہ صلیب پر رہے۔ لیکن وہ صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے قتل نہیں ہوسکے۔ بلکہ زخمی ہوگئے ۔
تین گھنٹے کے بعد آپؑ کو صلیب سے زخمی حالت میں اتارا گیا پھر آپؑ کو ایک غار میں لے جایا گیا وہاں آپؑ کی مرہم پٹی کی گئی۔پھر آپؑ صحت یاب ہوگئے۔
اس کےبعد سیدنا عیسیؑ اپنی والدہ حضرت مریمؑ کو ساتھ لے کر فلسطین سے افغانستان کے راستے سے کشمیر چلے گئے ۔ کشمیر میں 87 برس زندہ رہے۔پھر سیدنا عیسیؑ کی وفات ہوئی۔اور کشمیر کے محلہ خان یار میں ان کی قبر ہے۔
قادیانیوں کا عقیدہ نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ احادیث سے ثابت ہے بلکہ مرزاقادیانی نے اس عقیدے کو فرضی کہانیوں سے ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ حیات عیسیؑ کا عقیدہ رکھنا (یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ سیدنا عیسیؑ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے) شرکیہ عقیدہ ہے۔
*(ضمیمہ حقیقة الوحی۔الاستفتاء صفحہ 39 روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 660)*
حالانکہ خود مرزاقادیانی کا 52 سال تک یہی عقیدہ رہا۔
*(حقیقة الوحی صفحہ 148 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ ، 153,152)*
"قادیانیوں سے مسئلہ رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کے مسئلے پر گفتگو کرنے کے لئے چند اصول"
سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ گفتگو کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بات آسانی سے سمجھ آجائے۔
اور اگر اپنی غلطی دوران گفتگو معلوم ہوجائے تو اس سے رجوع کر لینا چاہیئے ۔
جب کسی مسئلے پر 2 مختلف رائے رکھنے والے گفتگو کررہے ہوں۔ تو اس گفتگو کو کسی منطقی انجام تک پہنچانے کا ایک واحد طریقہ یہ ہوتا ہے۔ کہ وہ دونوں کسی ایک ایسی بات پر اتفاق کرلیں جو دونوں کے درمیان مشترک ہو۔
مثلا جب رفع و نزول سیدنا عیسیؑ علیہ السلام کے مسئلے پر مسلمانوں اور قادیانیوں کی گفتگو ہوتو فریقین قرآن کی آیات پڑھ کر خود اس کا ترجمہ و تشریح کرتے ہیں۔ اور اس طرح بحث برائے بحث بڑھتی جاتی ہے۔ اور گفتگو کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوجاتی ہے۔
اس گفتگو کو منطقی انجام تک پہنچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مرزاقادیانی سے پہلے 13 صدیوں کے مفسرین میں سے کسی ایک پر اتفاق کرلیں کہ اگر کوئی آیت ہم پیش کریں یا قادیانی پیش کریں تو اس کا ترجمہ تفسیر خود سے کرنے کی بجائے کسی ایسی شخصیت کا دیکھ لیا جائے جس پر مسلمان اور قادیانی متفق ہوں۔ اگر اس شخصیت نے قرآن کی اس آیت کی رو سے یہ مطلب لیا ہے کہ سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں اور قرب قیامت واپس زمین پر تشریف نہیں لائیں گے تو ہم یہ بات تسلیم کر لیں گے اور اگر اس مفسر نے اس آیت کی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ اس آیت کی رو سے سیدنا عیسیؑ اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور اب وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے تو اس بات کو قادیانی مان لیں۔
اتنی ساری تمہید اس لئے باندھنی پڑی ہے کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"ایسے آئمہ اور اکابر کے ذریعے سے جن کو ہر صدی میں فہم قرآن عطا ہوا ہے۔ جنہوں نے قرآن کے اجمالی مقامات کی احادیث نبویہ کی مدد سے تفسیر کرکے قرآن کی پاک تعلیم کو ہر ایک زمانے میں تحریف معنوی سے محفوظ رکھا۔"
*(ایام الصلح صفحہ 55 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 288)*
اس کے علاوہ مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ
"مگر وہ باتیں جو مدار ایمان ہیں۔ اور جن کے قبول کرنے اور جاننے سے ایک شخص مسلمان کہلا سکتا ہے۔ وہ ہر زمانے میں برابر طور پر شائع ہوتی رہیں۔"
*(کرامات الصادقین صفحہ 20 مندرجہ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 62)*

ایک اور جگہ مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ
"برخلاف ان متبادر مسلسل معنوں کے جو قرآن شریف میں ۔۔۔۔ اول سے آخر تک سمجھے جاتے ہیں۔ ایک نئے معنی اپنی طرف سے گھڑنا یہی تو الحاد اور تحریف ہے۔"
*(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 744 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 501)*

ایک اور جگہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"یہ یاد رہے کہ مجدد لوگ دین میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتےگمشدہ دین کو پھر دلوں میں قائم کرتے ہیں۔ اور یہ کہنا کہ مجددوں پر ایمان لانا کچھ فرض نہیں ہے۔ خدا تعالٰی کے حکم سے انحراف ہے۔ وہ فرماتا ہے۔ من کفر بعد ذالک فاولئک ھم الفسقون۔"
*(شہادة القرآن صفحہ 48 مندرجہ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 344)*
ایک اور جگہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"مجددوں کو فہم قرآن عطا کیا گیا ہے۔"
*(ایام الصلح صفحہ 55 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 288)*
مرزاقادیانی کی ان تحریرات سے درج ذیل باتیں ثابت ہویئں۔
1)مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ مجددین پر ایمان لانا فرض ہے۔
2)مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ مجددین کو قرآن کا فہم عطا کیا گیا۔
3)مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ مجددین نے ہر زمانے میں قرآن کے الفاظ اور مفہوم کی حفاظت کی ہے۔
4)مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ قرآن کے معنی و مفہوم اپنی طرف سے گھڑنا یہی الحاد ہے۔
جب اتنی ساری باتیں مرزاقادیانی نے مجددین کے بارے میں لکھی ہیں تو پھر قادیانی کیوں کسی ایک مفسر جو کہ مجدد بھی ہو اس پر اتفاق نہیں کرتے؟؟؟
اس بات سے بھی ہم پردہ اٹھا ہی دیتے ہیں۔کہ قادیانی کیوں کسی ایک مجدد جو کہ مفسر بھی ہو اس پر اتفاق کیوں نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضورﷺ کے دور سے لے کر آج تک کوئی ایک مسلمان مجدد جو کہ مفسر بھی ہو اس نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں اور قرب قیامت واپس زمین پر تشریف نہیں لائیں گے ۔
بلکہ تمام مجددین جو مفسرین بھی تھے انہوں نے ہر جگہ یہی لکھا ہے کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا ہے اور وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔
اب قارئین ہم آپ کے سامنے 13 صدیوں کے ان مجددین کی لسٹ پیش کرتے ہیں جن کو مرزاقادیانی نے مجدد تسلیم کیا ہے۔ اور ہمارا چیلنج یہ ہے کہ قرآن کی کوئی بھی آیت قادیانی پیش کریں اور ان مجددین میں سے کسی ایک نام پر اتفاق کرلیں تو ہم یہ لکھ کر دیتے ہیں کہ اگر اس مجدد نے قرآن کی اس آیت کی تفسیر یا ترجمے میں یہ لکھا ہو کہ سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں اور قرب قیامت واپس زمین پر تشریف نہیں لائیں گے تو ہم اس بارے میں قادیانی موقف کو تسلیم کرلیں گے۔
اور قادیانی بھی یہ لکھ کر دیں کہ جس نام پر اتفاق ہوا ہے اس نے اگر قرآن پاک کے ترجمے یا تفسیر میں یہ لکھا ہوکہ سیدنا عیسیؑ فوت نہیں ہوئے بلکہ ان کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا اور اب وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے ۔ تو قادیانی اس موقف کو تسلیم کرلیں گے۔
قارئین! قیامت تو آسکتی ہے لیکن قادیانی کسی ایک مجدد پر اتفاق نہیں کریں گے ۔


قارئین! اب 13 صدیوں کے مجددین کی لسٹ دیکھ لیں جن کو مرزاقادیانی نے مجدد تسلیم کیا ہے۔


*"پہلی صدی"*
پہلی صدی میں اصحاب ذیل مجدد تسلیم کئے گئے ہیں۔
(1) عمر بن عبد العزیز
(2) سالم
(3) قاسم
(4) مکحول

*"دوسری صدی"*
دوسری صدی کے مجدد اصحاب درج ذیل ہیں۔
(1) امام محمد ادریس ابو عبد اللہ شافعی
(2) احمد بن محمد حنبل شیبانی
(3)یحیی بن معین بن عون عطفانی
(4) شہب بن عبد العزیز بن داود قیس
(5) ابو عمر مالکی مصری
(6)خلیفہ مامون رشید بن ہارون
(7)قاضی حسن بن زیاد حنفی
(8) جنید بن محمد بغدادی صوگی
(9)سہل بن ابی سہل بن رنحلہ شافعی
(10)بقول امام شعرانی حارث بن اسعد محاسبی ابو عبد اللہ صوفی بغدادی
(11) اور بقول قاضی القضنات علامہ عینی .احمد بن خالد الخلال ,ابو جعفر حنبلی بغدادی
*(دیکھو نجم الثاقب جلد 2 ص 14قرة العیون و مجالس الابرار تعریف الحیاء لفضایل الاحیاء ص 32)*

*"تیسری صدی"*
تیسری صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں۔
(1) قاضی احمد بن شریح بغدادی شافعی
(2) ابو الحسن اشعری متکلم شافعی
(3) ابو جعفر طحاوی ازدی حنفی
(4) احمد بن شعیب
(5) ابو عبد الرحمن نسای
(6) خلیفہ مقتدر باللہ عباسی
(7) حضرت شبلی صوفی
(8) عبید اللہ بن حسنین
(9) ابو الحسن کرخی صوفی حنفی
(10) امام بقی بن مخلد قرطبی مجدد اندلس
*( تعریف الاحیاء لفضایل احیاء ص 33 نجم الثاقب و قرة و العیون و مجالس الابرار )*

*"چوتھی صدی"*
چوتھی صدی کے مجدد اصحاب درج ذیل ہیں۔
(1) امام ابو بکر باقلانی
(2) خلیفہ قادر باللہ عباسی
(3) ابو حامد اسفرانی
(4) حافظ ابو نعیم
(5) ابو بکر خوارزمی حنفی
(6) بقول شاہ ولی اللہ ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ المعروف بالحاکم نیشاپوری
(7) امام بیہقی
(8) حضرت ابو طالب ولی اللہ صاحب قوت القلوب جو طبقہ صوفیاء سے ہے
(9) حافظ احمد بن علی بن ثابت بن خطیب بغدادی
(10) ابو اسحق شیرازی
(11) ابراہیم بن علی بن یوسف فقیہ و محدث

*"پانچویں صدی"*
پانچویں صدی کے مجدد اصحاب درج ذیل ہیں ۔
(1) محمد بن ابو حامد امام غزالی
(2) بقول عینی و کرمانی حضرت راعونی حنفی
(3) خلیفہ مستظہر بالدین مقتدی باللہ عباسی
(4) عبد اللہ بن محمد انصاری ابو اسماعیل ہروی
(5) ابو طاہر سلفی
(6) محمد بن احمد ابو بکر شمس الدین سرخسی فقیہ حنفی

*"چھٹی صدی"*
چھٹی صدی کے مجدد اصحاب درج ذیل ہیں۔
(1) محمد بن عمر ابو عبداللہ فخر الدین رازی
(2) علی بن محمد
(3) عزالدین ابن کثیر
(4) امام رافعی شافعی صاحب زیدہ شرح شفا
(5) یحیی بن حبش بن میرک حضرت شہاب الدین سہروردی شہید امام طریقت
(6) یحیی بن اشرف بن حسن محی الدین لوذی
(7) حافظ عبد الرحمن بن جوزی
(8) حضرت عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سرتاج طریقہ قادری


*"ساتویں صدی"*

ساتویں صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں۔
(1) احمد بن عبد الحلیم تقی الدین ابن تیمیہ حنبلی
(2) تقی الدین ابن دقیق السعید
(3) شاہ شرف الدین مخدوم بھای سندی
(4) حضرت معین الدین چشتی
(5) حافظ ابن القیم جوزی شمس الدین محمد بن ابی بکر بن ایوب بن سعد بن القیم الجوزی درعی و مشقی حنبلی
(6) عبد اللہ بن اسعد بن علی بن عثمان بن خلاج ابو محمدعفیف الدین یافعی شافعی
(7) قاضی بدر الدین محمد بن عبد اللہ شبلی حنفی و دمشقی

*"آٹھویں صدی"*
آٹھویں صدی کے مجدد اصحاب درج ذیل ہیں۔
(1) حافظ علی بن الحجر عسقلانی شافعی
(2) حافظ زین الدین عراقی و شافعی
(3) صالح بن عمر ارسلان قاضی بلقینی
(4) علامہ ناصر الدین شاذلی ابن سنت میلی

*"نویں صدی"*
نوی صدی کے مجدد اصحاب یہ ہیں ۔
(1) عبد الرحمن بن کمال الدین شافعی معروف باامام جلال الدین سیوطی
(2) محمد بن عبد الرحمن سخاوی شافعی
(3) سید محمد بن جون پوری اور بعض دسویں صدی کے مجددین حضرت امیر تیمور صاحب قرآن فاتح عظیم الشان

*"دسویں صدی"*
دسویں صدی کے اصحاب درج ذیل ہیں۔
(1) ملا علی قاری
(2) محمد طاہر گجراتی
(3) محی الدین محی السنتہ
(4) حضرت علی بن حسام الدین معروف بعلی متقی ہندی مکی

*"گیارھویں صدی"*
گیارھویں صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں۔
(1) عالمگیر بادشاہ غازی اورنگ زیب
(2) حضرت آدم بنوری صوفی
(3) شیخ احمد بن عبد الاحد بن زین العابدین فاروقی سرہندی .معروف بابا ربانی مجددالف ثانی

*"بارھویں صدی"*
بارھویں صدی کے مجدد اصحاب درج ذیل ہیں۔
(1) محمد بن عبد الوہاب بن سلیمان نجدی
(2) مرزا مظہر جاناں دہلوی
(3) سید عبد القادر بن احمد بن عبد القادر حسنی کو کیانی
(4) حضرت احمد شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی
(5) امام شوکانی
(6) علامہ سید محمد بن اسماعیل امیر یمن
(7) محمد حیات بن ملا ملا زیہ سندھی مدنی


*"تیرھویں صدی"*

تیرھویں صدی کے مجدد اصحاب درج ذیل ہیں۔
(1) سید احمد بریلوی
(2) شاہ عبد العزیز محدث دہلوی
(3) مولوی محمد اسماعیل شہید دہلوی
(4) بعض کہ نزدیک شاہ رفیع الدین صاحب بھی مجدد ہیں
(5) بعض کہ نذدیک شاہ عبد القادر کو مجدد تسلیم کیا گیا ہے .ہم اس کا انکار نہی کر سکتے کہ بعض ممالک میں بعض بزرگ ایسے بھی ہونگے جن کو مجدد مانا گیا ہو اور ہمیں اطلاع نا ملی ہو ۔
*(عسل مصفٰی ص 162 تا 165)*

یاد رہے کہ عسل مصفی کے مصنف کا نام مرزا خدا بخش قادیانی ہے۔ اور اس کتاب کو مرزا قادیانی نے بھی پسند کیا تھا۔اس کے علاوہ اس کتاب پر مرزا قادیانی کے بیٹے اور دوسرے قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے بھی تقریظ لکھی ہے۔

نیز اس کتاب پر مرزا قادیانی کے نامور مریدین مولوی عبد الکریم سیالکوٹی، مولانا سید محمد حسن امروہی،مفتی صادق،حافظ روشن علی، شیخ یعقوب علی سمیت کئی نامور مریدین کی تقریظات موجود ہیں۔جس میں اس کتاب کے بارے میں پسندیدگی کا اظہار ہے۔
 

محمد عبداللہ امانت

رکن ختم نبوت فورم
*سبق نمبر 12*


*"رفع و نزول سیدنا عیسیؑ پر چند ابتدائی گزارشات"*

*"رفع نزول سیدنا عیسیؑ کا عقیدہ اور حضرت محمدﷺ کا فرض منصبی"*
حضور سرور کائناتﷺ کی بعثت کے وقت سر زمین عرب میں تین طبقے خصوصیت سے موجود تهے.
1۔ مشرکین مکہ
2۔ نصاریٰ نجران
3۔ یہود
اب ہمیں دیکهنا ہے کہ قرآن مجید کی رو سے آپﷺ کی رسالت کے کیا فرائض تھے؟
1)آپﷺ کی بعثت سے قبل کے جو طریق منہاج ابراہیمی کے موافق تهے ان میں تغیر و تبدل نہ ہوا تها ان کو آپﷺ نے اور زیادہ استحکام کے ساتھ قائم فرمایا اور جن امور میں تحریف فساد یا شعائر شرک و کفر مل گئے تهے انکا آپﷺ نے بڑی شدت سے علی الا علان رد فرمایا.

جن امور کا تعلق عبادات و اعمال سے تها انکے آداب و رسومات اور مکروہات کو واضح کیا. رسومات فاسدہ کی بیخ کنی فرمائی اور طریقے صالحہ کا عمل فرمایا اور جس مسئلہ شریعت کو پہلی امتوں نے چهوڑ رکھا تها یا انبیاء سابقہ نے اسے مکمل نہ کیا تها انکو آپﷺ نے تروتازگی دے کر رائج فرمایا اور کامل و مکمل کر دیا۔
2)آپﷺ سے قبل مختلف مذاہب کے پیروکاروں میں جن امور پر اختلاف تها آپﷺ ان کے لیے فیصل (فیصلہ کرنے والے) اور حکم بن کر تشریف لائے آپﷺ پر نازل ہوئی کتاب قرآن مجید اور اسکی تفسیر (حدیث) کے ذریعے مختلف فیہ امور میں جو فیصلہ صادر ہو جائے وہ حتمی اور اٹل ہے (اس سے روگردانی و انحراف موجب ہلاکت و خسران اور اسے دل سے تسلیم کرنا سعادت مندی اور اقبال بختی کی دلیل ہے)

چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
*وَمَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِی اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ۔*
"اور ہم نے تم پر یہ کتاب اسی لیے اتاری ہے تاکہ تم ان کے سامنے وہ باتیں کھول کھول کر بیان کردو جن میں انہوں نے مختلف راستے اپنائے ہوئے ہیں،اور تاکہ یہ ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت کا سامان ہو "
*(سورۃ النحل آیت نمبر 64)*
اب ہم دیکھتے ہیں کہ تینوں طبقات کے کون کون سے عقائد و اعمال صحیح یا غلط تهے اور انکا آپﷺ نے کیا فیصلہ فرمایا۔

*"مشرکین مکہ"*

1)مشرکین مکہ شرک میں مبتلا تهے. بتوں کی پوجا کرتے تھے چنانچہ قرآن مجید نے تردید شرک اور اثبات توحید باری تعالیٰ پہ جتنا زور دیا ہے اور جس طرح شرک کو بیخ و بن سے اکھاڑا ہے .بتوں کی عبادت کی تردید اورابطال کا قرآن مجید نے جو انداز اختیار کیا ہے. کیا کسی آسمانی مذہب یا آسمانی کتاب میں اس کی نظیر پیش کی جا سکتی ہے؟
نہیں اور ہر گز نہیں۔آپﷺ نے جس طرح معبودان باطلہ کو للکارا وہ صرف اور صرف آپﷺ ہی کا حصہ تها۔
2)مشرکین مکہ بیت اللہ کا طواف کرتے تھے. یہ عمل انکا صحیح تها۔اسلام نے اسکو نہ صرف قائم رکھا بلکہ زمانہ نبوت سے تا ابدلآباد اسکواسلامی عبادت کا بہترین حصہ قرار دیا۔

*وَ لۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ(الحج 29)*
اور اس بیت عتیق کا طواف کریں۔
طواف امر الہی اور حکم ربی ہے ہاں مشرکین نے طواف میں جو غلط رسومات شامل کر لی تهیں مثلاً ننگے طواف کرتے تهے یہ بیہودہ امر تها اسکو محو کر دیا.
3)مشرکین مکہ حجاج کو ستو پلایا کرتے تھے حجاج کی عزت و تکریم کرتے تھے. حجاج کو بیت اللہ کے زائرین کو، ضیوف میں اللہ سمجھتے تھے یہ امر صحیح تھا۔اس لیے اسکی توثیق فرمائی۔

جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
*سِقَایَۃَ الۡحَآجِّ(توبہ 19)*
حاجیوں کو پانی پلانا
اس سے قبل بیت اللہ الحرام کی تعمیر اور اس میں حاجیوں کا پانی پلانا ذکر فرماکر ان امور کو خیر توثیق فرمائی.
4)مشرکین عرب اپنی بچیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے. انکا فعل قبیح اور حرام تها. اس سے پیغمبر اسلام نے نہ صرف روکا بلکہ بچیوں کی تربیت کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری سے نوازا بچیوں کے قتل پر قرآن مجید میں ارشاد ہے۔

*وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَت۔ ۡ بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ(تکویر 8،9)*
اور جس بچی کو زندہ قبر میں گاڑ دیا گیا تھا، اس سے پوچھا جائے گا۔کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا؟
غرض قرآن مجید نے مشرکین کے غلط عقائد و رسومات کو مٹایا اور صحیح کاموں کی توثیق کی اور انکو اور زیادہ مستحکم کیا۔

*"یہود کے عقائد"*
1)یہود بے بہود حضرت عزیرؑ کو ابن اللہ قرار دیتے تھے۔
*وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ (توبہ 39)*
اور یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے۔
قرآن مجید نے اسکی تردید کی.

*تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا۔ اَنۡ دَعَوۡا لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدًا۔ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لِلرَّحۡمٰنِ اَنۡ یَّتَّخِذَ وَلَدا۔
کچھ بعید نہیں کہ اس کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں ، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ٹوٹ کر گر پڑیں ۔ کہ ان لوگوں نے خدائے رحمن کے لیے ا ولاد ہونے کا دعوی کیا ہے ۔ حالانکہ خدائے رحمن کی یہ شان نہیں ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔
*(سورۃ مریم آیت نمبر 90 تا 92)*
2)یہود حضرت عیسی بن مریمؑ کے قتل کا اعتقاد رکھنے اور *اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۔*
*(النساء 157)*
(ہم نے اللہ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا)
جتنی پختگی سے وہ دعویٰ کرتے تھے اس سے زیادہ زور دار بیان سے قرآن مجید نے *وماقتلوه* (اور انہوں نے نہ اسکو مارا)کہہ کر قتل مسیحؑ کی مطلق نفی کرکے اس غلط دعویٰ کی تردید فرمائی۔
3 )وہ حضرت مریمؑ کی پاکدامنی کے خلاف تھے۔
قرآن مجید نے

*وَ اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰکِ وَ طَہَّرَکِ وَ اصۡطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الۡعٰلَمِیۡنَ۔*
*(سورۃ آل عمران آیت نمبر 42)*
(اور ( اب اس وقت کا تذکرہ سنو ) جب فرشتوں نے کہا تھا کہ : اے مریم ! یشک اللہ نے تمہیں چن لیا ہے ، تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور دنیا جہان کی ساری عورتوں میں تمہیں منتخب کرکے فضیلت بخشی ہے )

*وَ اُمُّہٗ صِدِّیۡقَۃٌ(المائدہ آیت نمبر 75)*
(اور اسکی ماں ولی ہے)کہہ کر یہود کے عقیدہ بد کی تردید فرمائی.
خود مرزا قادیانی کو بھی اعتراف ہے چنانچہ اس نے لکها کہ
"یہودیوں کا حضرت عیسیؑ کی نسبت یہ خیال تها کہ وہ قتل بهی کیے گئے اور صلیب بھی دیے گئے بعض یہود کہتے ہیں پہلے قتل کر کے پھر صلیب پر لٹکائے گے اور بعض کہتے ہیں پہلے صلیب دے کر پھر انکو قتل کیا گیا۔"
*(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 176 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 345)*
غرض یہود کے ان غلط دعووں کو وماقتلوه وما صلبوه وما قتلوہ یقیناً کے زور دار الفاظ سے ڈنکے کی چوٹ پر قرآن مجید نے نہ صرف رد کیا بلکہ قتل مطلق اور صلب مطلق کی نفی کی تلوار سے ان دعووں کو بیخ و بن سے اکھیڑ دیا وما قتلوہ یقیناً تو ایسا قرآنی ہے جس نے یہود کے دعوی کو ملیا میٹ اور زمین بوس کر دیا.

*"نصاری کے عقائد"*
1)نصاری تثلیث کے قائل تھے انکا یہ عقیدہ بدایتہ باطل تھا۔
قرآن مجید نے اسکا رد فرمایا
*لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ*
*(سورۃ المائدہ آیت نمبر 73)*
(بیشک کافر ہوئے جنہوں نے کہا اللہ ہے تین میں کا ایک)
*نیز فرمایا
وَ مَا مِنۡ اِلٰہٍ اِلَّاۤ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ(المائدہ 73)*
حالانکہ (کوئی معبود نہیں بجز ایک معبود کے)
2)نصاری الوہیت مسیحؑ کے قائل تهے انکا یہ عقیدہ بهی بداہتہ باطل تھا چنانچہ صراحتا قرآن مجید نے اسکی تردید فرمائی.

*لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ(آلمائدہ 72)*
(وہ لوگ یقینا کافر ہوچکے ہیں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے)
نیز فرمایا

*مَا الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ اِلَّا رَسُوۡلٌ(آلمائدہ 75)*
(نہیں ہے مسیح مریم کا بیٹا مگر رسول)
3)نصاری عیسی بن مریمؑ کو ابن مریم قرار دیتے تھے.

*وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہ(توبہ 30)*
(اور نصاری نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے)
انکا یہ عقیدہ بھی بداہتہ باطل تھا. قرآن مجید نے صراحتاً اسکی بھی تردید فرمائی.

*قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۔اَللّٰہُ الصَّمَد۔ لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ۔ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ۔*
*(سورۃ الاخلاص)*

(تو کہہ دو وہ اللہ ایک ہے اللہ بےنیاز ہے نہ کسی کو جنا نہ کسی سے جنا اور نہیں اسکے جوڑ کا کوئی)
نیز سورہ مریم کی آیات 90 تا 92 پہلے گزر چکی ہیں غرض نصاریٰ کے اس عقیدہ باطل کی بهی قرآن مجید نے تردید کی.
4)نصاری کا عقیدہ تها کہ مسیحؑ پھانسی پر چڑھ کر ہمارے گناہوں کا کفارہ ہو گئے انکے عقیدہ کفارہ کی بنیاد مسیحؑ علیہ السلام کا صلیب پر چڑھنا تها. قرآن مجید نے اسکی تردید کی *وماصبلوہ (النساء 157)*
کہ وہ قطعاً پھانسی پر نہیں چڑھائے گئے تو عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہی قرآن مجید نے گرا دی کہ جب وہ سرے سے ہی صلیب پر نہیں چڑھائے گئے تو تمہارے گناہوں کا کفارہ کا عقیدہ ہی سرے سے بےنیاز ہوا.
چونکہ یہ عقیدہ اصولاً غلط تھا. چنانچہ قرآن مجید نے صرف نفی صلیب پہ اکتفاء نہیں کیا بلکہ واقعاتی تردید کے ساتھ ساتھ اصولی اور معقولی تردید بهی کی.

*وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی (فاطر18)*
(اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا)
نیز فرمایا

*فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ۔ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہ۔ (زلزال 7-8)*
چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی ، وہ اسے دیکھے گا۔
اسےمرزا قادیانی کو بهی تسلیم ہے کہ نصاریٰ کا عقیدہ تها کہ
"مسیحؑ عیسائیوں کے گناہ کے لیے کفارہ ہوا۔"
*(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 374 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 ص 292)*
عیسائیوں کا کفارے کا عقیدہ غلط تھا تو قرآن نے اس کا رد کیا۔
عیسائیوں کا ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا ہے اور اب وہ دوبارہ واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔

خود مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"اس خیال پر تمام فرقے نصاری کے متفق ہیں کہ (سیدنا عیسیؑ) آسمان پر اٹھائے گئے۔"
*(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 248 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 225)*
لیکن قرآن پاک نے عیسائیوں کے اس عقیدے کا رد نہیں کیا۔ بلکہ اس عقیدے کو بیان کیا۔ تاکہ قیامت تک کے لوگوں کو پتہ چل سکے کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے اپنی طرف اٹھا لیا تھا اور اب وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔
جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات میں سیدنا عیسیؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے اور قرب قیامت واپس تشریف لانے کا ذکر ہے۔ ان آیات کے بارے میں تفصیلی گفتگو آنے والے اسباق میں ہوگی۔جب رفع و نزول سیدنا عیسیؑ پر دلائل آیئں گے ۔
فی الحال آیات اور ان کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔

*وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا ۔ بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا۔*
اور (یہودیوں نے)یہ کہا کہ : ہم نے اللہ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا ، حالانکہ نہ انہوں نے عیسیٰ کو قتل کیا تھا ، نہ انہیں سولی دے پائے تھے ، بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں ، انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم حاصل نہیں ہے ، اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ عیسیٰ کو قتل نہیں کر پائے ۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا ، اور اللہ بڑا صاحب اقتدار ، بڑا حکمت والا ہے۔
*(سورۃ النساء آیت نمبر 157،158)*
سیدنا عیسیؑ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں یعنی ان کا دوبارہ زمین پر تشریف لانا اس بات کی نشانی ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے۔ اس کا ذکر درج ذیل آیت میں ہے۔

*وَ اِنَّہٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِہَا وَاتَّبِعُوۡنِ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ۔*
اور یقین رکھو کہ وہ ( یعنی عیسیٰؑ) قیامت کی ایک نشانی ہیں ۔ اس لیے تم اس میں شک نہ کرو ، اور میری بات مانو ، یہی سیدھا راستہ ہے ۔
*(سورۃ الزخرف آیت نمبر 61)*
اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف جس کے لئے اتنی تمہید باندھنی پڑی ۔
قادیانیوں کہتے ہیں کہ سیدنا عیسیؑ کے رفع و نزول کا عقیدہ عیسائیوں کا تھا اور مسلمانوں نے اسے قبول کیا۔
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"ان عقیدہ حیاتہ قد جاءت فی المسلمین من الملتہ النصرانیہ"
(حیات عیسیؑ کا عقیدہ مسلمانوں میں عیسائیوں سے آیا)
*(ضمیمہ حقیقة الوحی۔الاستفتاء صفحہ 39 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 660)*
ہم کہتے ہیں بالکل یہ عقیدہ عیسائیوں کا تھا کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالی نے آسمانوں پر اٹھالیا تھا اور وہ دوبارہ زمین پر تشریف لایئں گے۔ جیسا کہ عیسائیوں کی کتب میں موجود ہے۔

1۔ خداوند یسوع سے کلام کرنے کے بعد (سیدنا عیسیؑ) کو آسمان پر اٹھایا گیا ۔
*(مرقس باب 16 آیت 19)*
2۔ ان (حواریوں) سے جا ہوگیا اور آسمان پر اٹھالیاگیا۔
*(لوقا باب 24 آیت 52)*
3۔ اس وقت لوگ ابن آدم (سیدنا عیسیؑ) کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ بادلوں میں آتے دیکھیں گے ۔
*(مرقس باب 13 آیت 26)*
اس کے علاوہ حضورﷺ نے قسم کھاکر ارشاد فرمایا ۔

*قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ""وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، ‏‏‏‏‏‏فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ"".*
(رسول اللہﷺ نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم ( عیسیٰؑ) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا)
*(بخاری حدیث نمبر 2222)*
قرآن مجید نے عیسائیوں کے اس عقیدے کا رد نہیں کیا کہ یہ عقیدہ غلط ہے۔ بلکہ اس عقیدے کو قرآن مجید نے بھی بیان کیا ہے۔ اور اس عقیدے کے بارے میں آپ ﷺ کی قریبا 112 احادیث بھی موجود ہیں۔
اگر عیسائیوں کا یہ عقیدہ غلط تھا تو قرآن کو اس عقیدے کا رد کرنا چاہیے تھا۔ لیکن قرآن نے اس عقیدے کو بیان کیا اور حضورﷺ کی احادیث مبارکہ سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ پتہ چلا کہ یہ عقیدہ حق ہے۔ اور اس عقیدے کا انکار کرنا قرآن اور احادیث کا انکار کرنا ہے۔ جو کہ کفر ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کے متعلق کیا لکھا ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کا عقیدہ تواتر سے ثابت ہے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی کی درج ذیل تحریرات سے ثابت ہوتا ہے۔
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"ہمیں اس بات کو اول درجے کی دلیل قرار دینا چاہیے کہ ایک قوم باوجود ہزاروں اور لاکھوں اپنے افراد کے پھر ایک بات پر متفق ہو۔"
*(ایام الصلح صفحہ 63 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 298)*

پھر مرزاقادیانی نے تواتر کے بارے میں لکھا ہے کہ
"تواتر ایک ایسی چیز ہے کہ اگر غیر قوموں کی تواریخ سے بھی پایا جائے تو تب بھی ہمیں قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔"
*(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 556 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 399)*
سیدنا عیسیؑ کے نزول کے بارے میں مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"پس کمال درجہ کی بدنصیبی اور بھاری غلطی ہے کہ یک لخت تمام حدیثوں کو ساقط الاعتبار سمجھ لیں ۔ اور ایسی متواتر پیشگوئیوں کو جو خیر القرون میں ہی تمام ممالک اسلام میں پھیل گئی تھیں۔ اور مسلمات میں سے سمجھی گئی تھیں بمد موضوعات داخل کردیں۔ یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مسیح ابن مریم کے آنے کی پیشگوئی ایک اول درجے کی پیشگوئی ہے۔ جس کو سب نے بالاتفاق قبول کر لیا ہے۔ اور جس قدر صحاح میں پیشگوئیاں لکھی گئی ہیں۔ کوئی پیشگوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی۔ تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے۔ انجیل بھی اس کی مصدق ہے۔ اب اس قدر ثبوت پر پانی پھیرنا اور یہ کہنا کہ یہ تمام حدیثیں موضوع ہیں۔ درحقیقت ان لوگوں کا کام ہے۔ جن کو خدائے تعالٰی نے بصیرت دینی اور حق شناسی سے کچھ بھی حصہ اور بخرہ نہیں دیا۔ اور بباعث اس کے کہ ان لوگوں کے دلوں میں قال اللہ اور قال الرسول کی عظمت باقی نہیں رہی۔ اس لئے جو بات ان کی اپنی سمجھ سے بالاتر ہو۔ اس کو محالات اور ممتنعات میں داخل کر لیتے ہیں۔"
*(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 557 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 400)*

اس کے علاوہ مرزا قادیانی نے تواتر کے انکار کے بارے میں لکھا ہے کہ

"تواتر کا انکار کرنا گویا اسلام کا انکار کرنا ہے۔"
*(کتاب البریہ صفحہ 173 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 206)*
مرزاقادیانی کا سیدنا عیسیؑ کے رفع و نزول کے بارے میں پہلے یہی عقیدہ رہا کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور اب وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔
جیسا کہ مرزاقادیانی کی اس تحریر سے ثابت ہے۔

"میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیؑ آسمان سے نازل ہوں گے۔"
*(حقیقة الوحی صفحہ 148 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 152)*
بعد میں مرزاقادیانی نے اپنے عقیدے کو تبدیل کیا۔اور پہلے جس عقیدے کے انکار کو اسلام کا انکار کہا بعد میں خود ہی اس عقیدے کا انکار کردیا۔
بلکہ حیات سیدنا عیسیؑ کا عقیدہ رکھنے والے کو مشرک قرار دے دیا ۔
*(ضمیمہ حقیقة الوحی۔الاستفتاء صفحہ 39 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 660)*

پھر حیات سیدنا عیسیؑ کے عقیدے کے متعلق لکھا کہ
"اول تو یہ جاننا چاہیئے کہ مسیحؑ کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے۔ جو ہمارے ایمانیات کی جزو ہو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو۔ بلکہ صدہا پیشگوئیوں میں سے یہ ایک پیشگوئی ہے جس کا حقیقت اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔"
*(ازالہ اوہام حصہ اول 140 مندرجہ صفحہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 171)*
مرزاقادیانی کے مطابق رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کا مسئلہ 13 صدیوں تک چھپا رہا اور تمام مسلمان 13 صدیوں تک مشرکانہ عقیدے پر قائم رہے۔
جیسا کہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"ولکن ما فھم المسلمون حقیقتہ۔ لان اللہ تعالٰی اراد اخفاءہ۔ فغلب قضاءہ ومکرہ وابتلاءہ علی الافھام فصرف وجوھھم عن الحقیقتہ الروحانیہ الی الخیالات الجسمانیہ فکانو بھا من القانعین و بقی ھذا الخبر مکتوبا مستورا کالحب فی السنبلتہ قرنا بعد قرن حتی جاء زماننا"

( لیکن مسلمان اس کی حقیقت کو نہیں سمجھے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے ارادہ کیا تھا کہ اس کو مخفی رکھے۔ پس اللہ کی قضاء، اس کی تقدیر اور اس کی آزمائش لوگوں کے فہم پر غالب آگیئں۔ اس لئے لوگ اس کی روحانی حقیقت سے ہٹ کر اس کے جسمانی خیالات کی طرف سوچنے لگے۔ اور اسی پر وہ قناعت کر گئے۔ یہ خبر کئی صدیوں تک یونہی چھپی رہی۔ جس طرح کہ دانہ خوشے میں چھپا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارا زمانہ آگیا)
*(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 552 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 552،553)*
مرزاقادیانی کی اس تحریر سے اور دوسری تحریرات سے پتہ چلا کہ 13 صدیوں سے حیات عیسیؑ کا مسئلہ چھپا رہا جس طرح دانہ خوشے میں چھپا رہتا ہے۔ اور یہ مسئلہ مرزاقادیانی پر کھولا گیا۔
"مجھ سے پہلے مسلمانوں کا ذہن اللہ تعالٰی نے جسمانی نزول کی طرف پھیرا لیکن میرے اوپر یہ راز کھلا کہ یہ نزول جسمانی نہیں ہے بلکہ روحانی ہے۔"
*(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 553 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 553)*
مرزاقادیانی سے پہلے 1300 سال کے مسلمانوں کا عقیدہ یعنی حضورﷺ کے دور سے لے کر مرزاقادیانی تک کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ سیدنا عیسیؑ کے جسمانی رفع و نزول کا تھا۔
جیسا کہ خود مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"ایک دفعہ ہم دلی گئے۔ ہم نے وہاں کے لوگوں کوکہا کہ تم نے 1300 برس سے یہ نسخہ استعمال کیا ہے کہ آنخضرتﷺ کو مدفون اور حضرت عیسیؑ کو آسمان پر زندہ بٹھایا۔۔۔۔ اب دوسرا نسخہ ہم بتاتے ہیں کہ حضرت عیسیؑ علیہ السلام کو فوت شدہ مان لو۔"
*(ملفوظات جلد 5 صفحہ 579)*
اسی بات کی تائید قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزاقادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود نے بھی کی ہے۔
مرزا بشیر الدین محمود نے لکھا ہے کہ

"پچھلی صدیوں میں قریبا سب دنیا کے مسلمانوں میں مسیحؑ علیہ السلام کے زندہ ہونے پر ایمان رکھا جاتا تھا ۔ اور بڑے بڑے بزرگ اسی عقیدہ پر فوت ہوئے۔ اور نہیں کہ سکتے کہ وہ مشرک فوت ہوئے۔ گو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مشرکانہ عقیدہ ہے۔ حتی کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی ) باوجود مسیح موعود کا خطاب پانے کے دس سال تک یہی خیال کرتے رہے کہ مسیحؑ آسمان پر زندہ ہے"
*(انوار العلوم جلد 2 صفحہ 463)*
قارئین آپ کی معلومات کے لئے ایک اور بات بتاوں کہ مرزاقادیانی نے ایک کتاب "براہین احمدیہ" لکھی۔ اس کتاب کے بارے میں مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ اس کتاب کو حضورﷺ کی تائید حاصل ہے۔ اور اسی کتاب میں مرزاقادیانی نے " محمد الرسول اللہ " ہونے کا دعوی کیا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسی کتاب میں مرزاقادیانی نے سیدنا عیسیؑ کے جسمانی رفع و نزول کا عقیدہ لکھا ہے۔
جیسا کہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"براہین احمدیہ میں میں نے یہ لکھا تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔ مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا مسیح میں ہی ہوں۔"
*(حقیقة الوحی صفحہ 148 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 152،153)*
اس سے پتہ چلا کہ مرزاقادیانی نے جب نعوذ باللہ " محمد الرسول اللہ " ہونے کا دعوی کیا تو اس وقت بھی مرزاقادیانی حیات عیسیؑ علیہ السلام اور ان کے جسمانی نزول کا قائل تھا۔ حالانکہ بعد میں اسی عقیدے کو شرک لکھا۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا ایک مشرک نبی بن سکتا ہے؟؟
قارئین اصل میں ہمارا اور قادیانیوں کا اختلاف حیات عیسیؑ کے مسئلے پر یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ سیدنا عیسیؑ جو بنی اسرائیل کے رسول تھے ان کو اللہ نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور وہ اس امت میں دوبارہ نازل ہوں گے ۔ جبکہ مرزاقادیانی اور قادیانی جماعت کا موقف یہ ہے کہ سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں اور ان کی روحانی صفات والے کسی مسیح نے آنا تھا اور وہ مرزاقادیانی ہے۔
حالانکہ مرزاقادیانی اور اس کے بیٹے کے حوالے آپ نے ملاحظہ فرمالئے کہ مرزاقادیانی کے آنے سے پہلے حضورﷺ کے دور سے لے کر مرزاقادیانی تک تمام مسلمانوں جن میں صحابہ کرام ؓ، تمام مجددین، فقھاء، مفسرین اور اولیاء اللہؒ شامل ہیں ان کا یہی عقیدہ تھا کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور وہ قرب قیامت نازل ہوں گے ۔
جبکہ مرزاقادیانی نے نیا عقیدہ خود سے گھڑا جو 13 صدیوں کے مسلمانوں کے عقیدے کے خلاف تھا۔ کیونکہ اگر مرزاقادیانی کے عقیدے کو صحیح تسلیم کریں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ حضورﷺ کے دور سے لے کر مرزاقادیانی تک سب مشرک ہی رہے۔ حالانکہ یہ بات عقلی اور نقلی لحاظ سے غلط ہے۔
اب مرزاقادیانی کے وہ حوالے ملاحظہ فرمائیں جس میں مرزاقادیانی نے مثیل مسیح ہونے کے دعوے کئے ہیں ۔
"میں نے صرف مثیل مسیح ہونے کا دعوی کیا ہے۔ اور میرا یہ ایمان بھی نہیں کہ صرف مثیل مسیح ہونا میرے پر ہی ختم ہوگیا ہے۔ بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ آیئندہ زمانوں میں میرے جیسے اور بھی دس ہزار مثیل مسیح آجایئں۔۔۔ کسی زمانے میں ایسا مسیح بھی آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آجایئں۔"
*(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 190 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 192)*

ایک اور جگہ لکھا ہے کہ
"اس عاجز نے جو مثیل موعود ہونے کا دعوی کیا ہے جس کو بعض کم فہم مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں۔"
*(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 190 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 192)*

*"خلاصہ کلام"*
قرآن مجید نے عیسائیوں کے اس عقیدے کا رد نہیں کیا کہ یہ عقیدہ غلط ہے۔ بلکہ اس عقیدے کو قرآن مجید نے بھی بیان کیا ہے۔ اور اس عقیدے کے بارے میں آپﷺ کی قریبا 112 احادیث بھی موجود ہیں۔
اگر عیسائیوں کا یہ عقیدہ غلط تھا تو قرآن کو اس عقیدے کا رد کرنا چاہیے تھا۔ لیکن قرآن نے اس عقیدے کو بیان کیا اور حضورﷺ کی احادیث مبارکہ سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ پتہ چلا کہ یہ عقیدہ حق ہے۔اور اس عقیدے کا انکار کرنا قرآن اور احادیث کا انکار کرنا ہے۔ جو کہ کفر ہے۔
مرزاقادیانی نے حیات و نزول سیدنا عیسیؑ کے عقیدے کو پہلے تواتر کہا اور تواتر سے انکار کرنے والے کو اسلام کا انکار کرنے والا کہا پھر خود ہی تواتر کا انکار کر دیا۔
مرزاقادیانی نے حیات و نزول سیدنا عیسیؑ کے عقیدے کو شرک قرار دیا ہے۔ حالانکہ خود مرزاقادیانی نے تسلیم کیا ہے کہ حضورﷺ کے دور سے لے کر مرزاقادیانی تک سارے مسلمان سیدنا عیسیؑ کے جسمانی رفع و نزول کے قائل تھے۔
مرزاقادیانی نے رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کے عقیدے کو شرک قرار دیا ہے خود اپنی زندگی کے 52 سال اسی عقیدے پر قائم رہا۔
مرزاقادیانی نے رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کے عقیدے کو شرک قرار دیا ہے خود اس کو اس کتاب میں نقل کیا جس کتاب کو بقول مرزاقادیانی رسول اللہﷺ سے تائید حاصل تھی۔
مرزاقادیانی نے رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کے عقیدے کو شرک قرار دیا ہے خود " محمد الرسول اللہ " کا لقب پانے کے بعد بھی اسی شرکیہ عقیدے میں مبتلا رہا۔
مرزاقادیانی کہتا ہے کہ 1300 سال کے مسلمانوں کو جن میں صحابہ کرام ؓ بھی شامل ہیں ان کو پتہ نہیں چلا لیکن مجھے پتہ چل گیا کہ سیدنا عیسیؑ کے نزول سے مراد یہ ہے کہ ان کے کسی مثیل نے آنا تھا اور وہ مسیح میں ہی ہوں۔ اور میرے جیسے دس ہزار مسیح بھی آسکتے ہیں۔
مرزاقادیانی نے عقیدہ اور الفاظ وہی لئے ہیں جو 1300 سال سے مسلمانوں میں رائج تھے۔ لیکن ان کا مفہوم مرزاقادیانی نے 1300 سال سے مسلمانوں سے ہٹ کر لیا ہے ۔ اور یہ ہٹ کر مفہوم لینا ہمارے نزدیک تو کفر ہے ہی لیکن یہ مرزاقادیانی کے نزدیک بھی کفر ہے۔
(رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کے بارے میں قرآن مجید سے دلائل اور احادیث مبارکہ آنے والے اسباق میں بتائی جائیں گی)
"مرزاقادیانی کی ایک دلیل کا رد"
قادیانی کہتے ہیں کہ سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں اور قرب قیامت واپس زمین پر تشریف نہیں لائیں گے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ

مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
" کسی جسم عنصری کا آسمان پر جانا محال ہے۔"
*(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 47 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 126)*
مرزاقادیانی کی اس دلیل کے بہت سے جوابات ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔

*جواب نمبر 1*
جس طرح حضورﷺ کا واقعہ معراج میں آسمان پر جانا اور پھر واپس آنا حق ہے اس طرح سیدنا عیسیؑ کا بھی آسمان پر جانا اور پھر واپس آنا حق ہے۔
(بخاری حدیث نمبر 349)

*جواب نمبر 2*
جس طرح سیدنا آدمؑ آسمان سے زمین پر تشریف لا سکتے ہیں اسی طرح سیدنا عیسیؑ بھی آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے۔

*جواب نمبر 3*
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"بابا گرونانک کا چوغا آسمان سے آسکتا ہے۔"
*(ست بچن صفحہ 37 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 157)*
پس جس طرح بابا گرونانک کا چوغا آسمان سے آسکتا ہے اسی طرح سیدنا عیسیؑ بھی آسمان سے تشریف لائیں گے۔

*جواب نمبر 4*
جس طرح عامر بن فہیرہ ؓ کا غزوہ بیئر معونہ میں شہید ہوکر جنازہ آسمان پر جا سکتا ہے۔ اسی طرح سیدنا عیسیؑ بھی آسمان پر گئے ہیں۔
(بخاری حدیث نمبر 4093)

*جواب نمبر 5*

مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
دو نبیوں کا آسمان پر جانا ثابت ہے۔
1۔ حضرت ادریسؑ
2۔ حضرت عیسیؑ
*(توضیح المرام صفحہ 3 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 52)*

پس جس طرح عیسیؑ آسمان پر جا سکتے ہیں اسی طرح واپس زمین پر بھی آسکتے ہیں۔
 
آخری تدوین :

محمد عبداللہ امانت

رکن ختم نبوت فورم
*سبق نمبر 13*


*"مسئلہ رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السلام پر چند ابتدائی گزارشات"*
سیدنا عیسی علیہ السلام کے رفع و نزول کے عقیدے کے بارے میں 4 گروہ ہیں ۔
1۔ مسلمان
2۔ عیسائی
3۔ یہودی
4۔ قادیانی

ان چاروں گروہوں کے عقائد سیدنا عیسی علیہ السلام کے بارے میں درج ذیل ہیں۔

*"مسلمانوں کا عقیدہ"*
مسلمان کہتے ہیں کہ یہودی سیدنا عیسی علیہ السلام کو نہ ہی قتل کرسکے اور نہ ہی صلیب دے سکے بلکہ اللہ تعالٰی نے سیدنا عیسی علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اور وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے ۔
مسلمانوں کا عقیدہ قرآن پاک سے اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔
(رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السلام کے قرآنی دلائل و احادیث مبارکہ انشاء اللہ اگلے اسباق میں آیئں گے )

*"یہودیوں کا عقیدہ"*
یہودیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انہوں نے سیدنا عیسی علیہ السلام کو صلیب دے کر قتل کر دیا تھا۔
یہود حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کے قتل کا اعتقاد رکھتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں ذکر ہے۔

*اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ۔*
(ہم نے اللہ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا)
*(سورة النساء آیت نمبر 157)*
جتنی پختگی سے وہ دعویٰ کرتے تھے اس سے زیادہ زور دار بیان سے قتل مسیح کی مطلق نفی کرکے اس غلط دعویٰ کی تردید فرمائی.

چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔

*وَّقَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ
اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا ۔ بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا۔*

اور یہ کہا کہ : ہم نے اللہ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا ، حالانکہ نہ انہوں نے عیسیٰ ( علیہ السلام ) کو قتل کیا تھا ، نہ انہیں سولی دے پائے تھے ، بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں ،انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم حاصل نہیں ہے ، اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ عیسیٰ ( علیہ السلام ) کو قتل نہیں کر پائے ۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا ، اور اللہ بڑا صاحب اقتدار ، بڑا حکمت والا ہے
*(سورۃ النساء آیت نمبر 157،158)*

*"عیسائیوں کا عقیدہ"*
عیسائی کہتے ہیں کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیا وہ صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے قتل ہوگئے۔ اس کے بعد زندہ ہوئے اور اللہ تعالٰی نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا ۔ اور اب وہ واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔
عیسائیوں کا عقیدہ یہ بھی تها کہ سیدنا عیسی علیہ السلام پھانسی پر چڑھ کر ہمارے گناہوں کا کفارہ ہو گئے انکے عقیدہ کفارہ کی بنیاد سیدنا عیسی علیہ السلام کا صلیب پر چڑھنا تها. قرآن مجید نے اسکی تردید کی ۔

*وماصبلوہ*
کہ وہ قطعاً پھانسی پر نہیں چڑھائے گئے۔
*(سورۃ النساء آیت نمبر 157)*
تو عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہی قرآن مجید نے گرا دی کہ جب وہ سرے سے ہی صلیب پر نہیں چڑھائے گئے تو تمہارے گناہوں کا کفارہ کا عقیدہ ہی سرے سے بےنیاز ہوا.
چونکہ یہ عقیدہ اصولا غلط تها. چنانچہ قرآن مجید نے صرف نفی صلیب پہ اکتفاء نہیں کیا بلکہ واقعاتی تردید کے ساتھ ساتھ اصولی اور معقولی تردید بهی کی.

چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے فرمایا
*وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی*
(اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا)
*(سورۃ فاطر آیت نمبر18)*

نیز فرمایا
*فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ۔ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہ۔*
چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی ، وہ اسے دیکھے گا۔
*(سورۃ زلزال آیت نمبر 7-8)*
اس عقیدے کو مرزا صاحب نے بهی تسلیم کیا ہے کہ عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ

*"مسیح عیسائیوں کے گناہ کے لیے کفارہ ہوا"*

*(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 373 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 292)*

*"قادیانیوں کا عقیدہ"*
قادیانی کہتے ہیں کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کو یہودیوں نے صلیب پر چڑھایا اور وہ تین دن تک صلیب پر رہے لیکن وہ صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے قتل نہیں ہوئے بلکہ زخمی ہوگئے اور زخمی حالت میں آپ کو ایک غار میں لے جایا گیا اور وہاں آپ کا علاج ہوتا رہا۔ تین دن کے بعد آپ صحت یاب ہوئے اور پھر اپنی والدہ کے ساتھ فلسطین سے افغانستان کے راستے سے ہوتے ہوئے کشمیر چلے گئے ۔ کشمیر میں 87 سال رہے ۔ پھر آپ کی وفات ہوئی۔ اور آپ کی قبر کشمیر کے محلہ خان یار میں ہے۔
"مرزا صاحب کا سیدنا عیسی علیہ السلام کے بارے میں نظریہ"


مرزا غلام قادیانی (1839 – 1908) اپنی عمر کے تقريباً 52 سال (سن 1891 تک) نہ صرف خود بھی مسلمانوں والا عقیدہ رکھتا تھا بلکہ اپنی اولین کتاب "براهين احمديه" میں قرآنى آيات سے اصلى حضرت عيسى عليہ السلام ہی کا دوبارہ دنیا میں آنا ثابت بھی کیا۔
*(اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح صفحہ 6 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 113)*
لیکن آخر عمر میں مرزا صاحب نے ایک اور انوکھا اور نیا عقیدہ اور نظریہ پیش کیا ۔

اسکا خلاصہ یہ ہے :

" حضرت مریم عليهما السلام کے بیٹے حضرت عيسى عليه السلام کی عمر 33 سال 6 مہینے تھی کہ آپ کو دشمنوں نے پکڑ کر بروز جمعه بوقت عصر دو چوروں کے ساتھ صلیب پر ڈال دیا ، جسم میں کیلیں لگائیں، زخمی کیا یہاں تک کہ آپ شدت تکلیف سے بے ہوش ہو گئے اور دشمن آپ کو مردہ سمجھ کر چلے گئے جب کہ در حقیقت آپ ابھی زندہ تھے"

*(تحفہ گولڑویہ صفحہ 127 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 311 )*
*(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 380٬381٬382 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ296 )*
*(مسیح ہندوستان میں صفحہ 18 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 20)*
*(نزول المسیح صفحہ 18 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 396 )*
*( مسیح ہندوستان میں صفحہ 50 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 52 )*

مرزا صاحب نے الله تعالى کے حوالے سے لکھا کہ
" الله نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگرچہ یہ سچ ہے کہ بظاہر مسیح صلیب پر کھینچا گیا اور اسکے مارنے کا ارادہ کیا گیا"
*(مسیح ہندوستان میں صفحہ 49 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 51)*
ایک اور جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
"آپ کو کسی طرح صلیب سے اتارا گیا،حواریوں نے آپ کے زخموں پر "مرہم عيسى" لگا کر علاج کیا،اور پھر آپ اور آپ کی والدہ ملک شام سے نکلے اور افغانستان وغيره مختلف ممالک سے ہوتے ہوے کشمیر جا پہنچے۔"
*(ست بچن صفحہ 176 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10صفحہ301)*
*(کشتی نوح صفحہ 60 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 65)*
*(اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح صفحہ 19 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ127)*
*(ضمیمہ براہین احمدیہ صفحہ 100 مندرجہ روحانی خزائن جلد21 صفحہ262)*
آپ علیہ السلام کشمیر میں ہی مرزا صاحب کی ایک تحریر کے مطابق 120 سال اور اسی كتاب میں لکھی ہوئی دوسری تحریر کے مطابق 125 سال کی مجموعی عمر پا کر انتقال کرگئے .

دونوں قسم کے حوالے درج ذیل ہیں۔
(120 سال عمر)
*(مسیح ہندوستان میں صفحہ 12 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 14)*
(125 سال عمر )
*(مسیح ہندوستان میں صفحہ 53 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 55)*
مرزا صاحب نے سیدنا عیسی علیہ السلام کی قبر کے متعلق لکھا ہے کہ
"کشمیر کے شہر سری نگر کے محلہ خان یار میں جو قبر "یوز آسف" کے نام سے مشہور ہے وہ در حقیقت حضرت عيسى عليه السلام کی قبر ہے"۔
*(تحفہ گولڑویہ صفحہ 9 مندرجہ وحانی خزائن جلد 17 صفحہ 100)*
*(دافع البلاء صفحہ 15 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 235)*
*(مسیح ہندوستان میں صفحہ 12 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 14)*

مرزا صاحب نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے بارے میں ایک اور بات یہ بھی لکھی ہے کہ
"جن احادیث میں "مریم کے بیٹے عيسي عليهما السلام" کے نزول کی خبر دی گئی ہے ، ان سے مراد اصلی عيسى عليه السلام نہیں بلکہ ان کا ایک مثیل ہے ، نیز" قرآن كريم اور احاديث صحيحه نے بشارت دی ہے کہ مثیل مسیح اور دوسرے مثیل بھی آئیں گے"
*(ملفوظات جلد 5 صفحہ 554)*

پانچ جلدوں والا ایڈیشن
*(کشتی نوح صفحہ 16 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 17)*
*(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 413 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 314 )*

مرزا صاحب نے اپنے بارے میں یوں لکھا ہے کہ
"وہ مثیل میں یعنی مرزا غلام احمد قادیانی بن چراغ بی بی ہوں اور اسی کی خبر احادیث میں دی گئی ہے،نیز "قرآن نے میرا نام ابن مریم رکھا ہے۔"اور میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ " مسیح محمدی ، مسیح موسوی سے افضل ہے" .
*(اربعین نمبر 3 صفحہ 25 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 413)*
*(تذکرة الشہادتین صفحہ 38 مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 39-40)*
*(دافع البلاء صفحہ 20 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 240)*
*(اربعین نمبر 3 صفحہ 25 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 413)*
*(تحفتہ الندوہ صفحہ 5 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 98)*


مرزا صاحب نے دجال کے بارے میں لکھا ہے کہ

"احادیث میں " عيسى عليه السلام " کے ہاتھوں جس دجال کے قتل ہونے کا ذکر ہے اس دجال سے مراد یا تو عیسائی پادری ہیں، یا دجال شیطان کا اسم اعظم ہے، یا دجال مفسدین کے گروہ کا نام ہے، یا دجال عیسائیت کا بھوت ہے، یا دجال سے مراد خناس ہے، یا دجال سے مراد با اقبال قومیں ہیں ".
*(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 495 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 366 )*
*(ایام الصلح صفحہ 168٬169 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14صفحہ416-417)*
*(حقیقة الوحی صفحہ 43 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 45 )*
*(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 146 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 174)*
*(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 488 مندرجہروحانی خزائن جلد 3 صفحہ 362)*
*(ایام الصلح صفحہ 61 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14صفحہ296)*
*(انجام آتھم٬رسالہ دعوت قوم صفحہ 47 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 47)*

مرزا صاحب نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے بہن اور بھائیوں کے متعلق یوں لکھا ہے کہ
" حضرت مسیح عليه السلام کے چار حقیقی بھائی اور دو حقیقی بہنیں بھی تھیں ".
*(کشتی نوح صفحہ 17 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 18)*
مرزا صاحب کی مندرجہ بالا عبارات سے مندرجہ ذیل مرزا صاحب کے عقائد ہمیں پتہ چلے۔
1۔ سیدنا عیسی علیہ السلام کو 2 چوروں کے ساتھ صلیب پر لٹکایا گیا ۔
2۔ سیدنا عیسی علیہ السلام صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے زخمی ہوگئے۔
3۔ الل ہ نے یہ فرمایا کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کو صلیب پر کھینچا گیا ۔
4۔ سیدنا عیسی علیہ السلام کو صلیب سے زخمی حالت میں اتارا گیا۔ پھر ان کے مرہموں پر " مرہم عیسی " لگائ گئ۔
5۔ اس کے بعد سیدنا عیسی علیہ السلام کشمیر چلے گئے ۔
6۔ سیدنا عیسی علیہ السلام کی وفات کشمیر میں 120 یا 125 سال کی عمر میں ہوئ ۔
7۔ سیدنا عیسی علیہ السلام کی قبر کشمیر کے محلہ خان یار میں ہے۔
8۔ جن احادیث میں مریم علیہ السلام کے بیٹے سیدنا عیسی علیہ السلام کے آنے کی خبر دی گئی ہے اس سے مراد مریم علیہ السلام کے بیٹے سیدنا عیسی علیہ السلام نہیں ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ ان کا کوئی مثیل آئے گا۔
9۔ وہ مثیل مسیح جس کے آنے کی خبر احادیث میں دی گئی ہے وہ مثیل مسیح "مرزا غلام احمد قادیانی" ہے۔
10۔ مرزا صاحب کا نام قرآن نے ابن مریم رکھا ہے۔
11۔ جس دجال کا سیدنا عیسی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر احادیث میں آیا ہے اس دجال سے مراد یا تو شیطان ہے یا عیسائی پادری وغیرہ ہیں۔
12۔ سیدنا عیسی علیہ السلام کے 4 حقیقی بھائی اور 2 حقیقی بہنیں تھیں۔

*"چیلنج تا قیامت"*

دوستو!اگر مرزا صاحب کا کوئی پیروکار یہ سمجھتا ہے کہ وہ مرزا صاحب کا یہ پورا اور مکمل نظریہ قرآن وحديث سے صراحت کے ساتھ ثابت کر سکتا ہے تو وہ ہم سے رابطہ کرے، اور اگر اس نے مرزا صاحب کے اس عقیدہ و نظریہ کے یہ تمام اجزاء قرآن مجید واحاديث صحيحه سے ثابت کردیئے تو ہم اسے مبلغ ایک لاکھ روپیہ (100,000) پاکستانی سکہ رائج الوقت انعام میں دیں گے .....
اور اگر قادیانی یہ ثابت نہ کرسکیں اور یقینا قیامت تک بھی ثابت نہیں کرسکیں گے تو مرزا صاحب پر چار حرف بھیج کر اسلام کے وسیع دامن میں آجایئں۔
 
آخری تدوین :

سید میر محمد

رکن ختم نبوت فورم
سبق نمبر 2

"آیت خاتم النبیین کی علمی تحقیقی تفسیر"
قرآن مجید میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں۔
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ۔
( محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں ، اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے )
(سورۃ الاحزاب آیت نمبر 40)

"آیت کا شان نزول "
عرب معاشرے میں یہ قبیح رسم موجود تھی کہ وہ لےپالک بیٹے کو حقیقی بیٹا سمجھتے تھے اور اس لےپالک کو تمام احوال و احکام میں بھی حقیقی بیٹا ہی سمجھتے تھے اور مرنے کے بعد وراثت،حلت و حرمت ،رشتہ ناطہ وغیرہ تمام احکام میں بھی حقیقی بیٹا ہی تصور کرتے تھے ۔
جس طرح نسبی بیٹے کے مرجانے یا طلاق دینے کے بعد باپ کے لئے حقیقی بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے اسی طرح وہ لےپالک بیٹے کی طلاق یافتہ یا بیوہ بیوی سے نکاح کو حرام سمجھتے تھے ۔
اس آیت میں اللہ تعالٰی نے ان کی قبیح رسم کا خاتمہ فرمایا ۔
حضرت زید ؓ بن حارث حضورﷺ کے غلام تھے ۔ حضورﷺ نے انہیں آزاد کرکے اپنا بیٹا بنالیا۔ اور صحابہ کرام ؓ نے بھی ان کو زید ؓ بن حارث کی بجائے زید ؓ بن محمد کہنا شروع کردیا تھا ۔
حضرت زید ؓ بن حارث کی اپنی بیوی حضرت زینب ؓ سے ناچاتی ہوگئی اور انہوں نے حضرت زینب ؓ کو طلاق دے دی ۔
تو اللہ تعالٰی نے حضورﷺ کو حکم فرمایا کہ آپ حضرت زینب ؓ سے نکاح فرمالیں۔ تاکہ اس قبیح رسم کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے۔
جب حضور ﷺ نے حضرت زینب ؓ سے نکاح فرمالیا تو مشرکین نے اعتراض شروع کر دیا کہ آپ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے۔
چنانچہ جواب میں اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمایئں۔ اس ایک فقرے میں ان تمام اعتراضات کی جڑ کاٹ دی گئی ہے جو مخالفین نبیﷺ کے اس نکاح پر کر رہے تھے ۔
ان کا اولین اعتراض یہ تھا کہ آپﷺ نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے حالانکہ آپﷺ کی اپنی شریعت میں بھی بیٹے کی منکوحہ باپ پر حرام ہے ۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ محمّد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، یعنی جس شخص کی مطلقہ سے نکاح کیا گیا ہے وہ بیٹا تھا کب کہ اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہوتا ؟ تم لوگ تو خود جانتے ہو کہ محمدﷺ کا سرے سے کوئی بیٹا ہے ہی نہیں ۔
ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اچھا ، اگر منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہے تب بھی اس کی چھوڑی ہوئی عورت سے نکاح کر لینا زیادہ سے زیادہ بس جائز ہی ہو سکتا تھا ، آخر اس کا کرنا کیا ضرور تھا ۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا مگر وہ اللہ کے رسولﷺ ہیں ، یعنی رسول ہونے کی حیثیت سے ان پر یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ جس حلال چیز کو تمہاری رسموں نے خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے اس کے بارے میں تمام تعصبات کا خاتمہ کر دیں اور اس کی حلت کے معاملے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں ۔
پھر مزید تاکید کے لیے فرمایا اور وہ خاتم النبیین ہیں ، یعنی ان کے بعد کوئی رسول تو درکنار کوئی نبی تک آنے والا نہیں ہے کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصلاح ان کے زمانے میں نافذ ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے والا نبی یہ کسر پوری کر دے ، لہٰذا یہ اور بھی ضروری ہو گیا تھا کہ اس رسم جاہلیت کا خاتمہ وہ خود ہی کر کے جائیں ۔
اس کے بعد مزید زور دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ اس وقت محمد ﷺ کے ہاتھوں اس رسم جاہلیت کو ختم کرا دینا کیوں ضروری تھا اور ایسا نہ کرنے میں کیا قباحت تھی ۔
وہ جانتا ہے کہ اب اس کی طرف سے کوئی نبی آنے والا نہیں ہے لہٰذا اگر اپنے آخری نبی کے ذریعہ سے اس نے اس رسم کا خاتمہ اب نہ کرایا تو پھر کوئی دوسری ہستی دنیا میں ایسی نہ ہو گی جس کے توڑنے سے یہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے ۔ بعد کے مصلحین اگر اسے توڑیں گے بھی تو ان میں سے کسی کا فعل بھی اپنے پیچھے ایسا دائمی اور عالمگیر اقتدار نہ رکھے گا کہ ہر ملک اور ہر زمانے میں لوگ اس کا اتباع کرنے لگیں ، اور ان میں سے کسی کی شخصیت بھی اپنے اندر اس تقدس کی حامل نہ ہو گی کہ کسی فعل کا محض اس کی سنت ہونا ہی لوگوں کے دلوں سے کراہیت کے ہر تصور کا قلع قمع کر دے ۔

"آیت خاتم النبیین کی تفسیر القرآن بالقرآن"
قرآن پاک میں 7 جگہ پر ختم کے مادے سے الفاظ آئے ہیں ۔
خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ۔
اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے ۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لئے زبردست عذاب ہے ۔
(سورۃ البقرۃ آیت نمبر 7)
قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَخَذَ اللّٰہُ سَمۡعَکُمۡ وَ اَبۡصَارَکُمۡ وَ خَتَمَ عَلٰی قُلُوۡبِکُمۡ مَّنۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ یَاۡتِیۡکُمۡ بِہٖ ؕ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ ثُمَّ ہُمۡ یَصۡدِفُوۡنَ ۔

( اے پیغمبر ! ان سے ) کہو : ذرا مجھے بتاؤ کہ اگر اللہ تمہاری سننے کی طاقت اور تمہاری آنکھیں تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے ، تو اللہ کے سوا کونسا معبود ہے جو یہ چیزیں تمہیں لاکر دیدے؟ دیکھو ہم کیسے کیسے مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں ، پھر بھی یہ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں ۔
(سورۃ الاعراف آیت نمبر 46)
اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ وَ اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلۡمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمۡعِہٖ وَ قَلۡبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً ؕ فَمَنۡ یَّہۡدِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اللّٰہِ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ۔

پھر کیا تم نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنا لیا ہے ، اور علم کے باوجود اللہ نے اسے گمراہی میں ڈال دیا ، اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ، اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ۔ اب اللہ کے بعد کون ہے جو اسے راستے پر لائے؟ کیا پھر بھی تم لوگ سبق نہیں لیتے؟
(سورۃ الجاثیہ آیت نمبر 23)
اَلۡیَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰۤی اَفۡوَاہِہِمۡ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ تَشۡہَدُ اَرۡجُلُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ۔
آج کے دن ہم ان کے منہ پر مہر لگادیں گے ، اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے ، اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ وہ کیا کمائی کیا کرتے تھے ۔
(سورۃ یس آیت نمبر 65)
اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ۚ فَاِنۡ یَّشَاِ اللّٰہُ یَخۡتِمۡ عَلٰی قَلۡبِکَ ؕ وَ یَمۡحُ اللّٰہُ الۡبَاطِلَ وَ یُحِقُّ الۡحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ۔
بھلا کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ کلام خود گھڑ کر جھوٹ موٹ اللہ کے ذمے لگا دیا ہے ؟ حالانکہ اگر اللہ چاہے تو تمہارے دل پر مہر لگا دے ، اور اللہ تو باطل کو مٹاتا ہے ، اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعے ثابت کرتا ہے ، یقینا وہ سینوں میں چھپی ہوئی باتوں تک کو جانتا ہے ۔
(سورۃ الشوری آیت نمبر 24)

یُسۡقَوۡنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخۡتُوۡمٍ ۔
انہیں ایسی خالص شراب پلائی جائے گی جس پر مہر لگی ہوگی ۔
(سورۃ المطففین آیت نمبر 25)
خِتٰمُہٗ مِسۡکٌ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ ۔

اس کی مہر بھی مشک ہی مشک ہوگی ۔ اور یہی وہ چیز ہے جس پر للچانے والوں کو بڑھ چڑھ کر للچانا چاہیے ۔
(سورۃ المطففین آیت نمبر 26)
ان سات جگہ پر معنی میں قدر مشترک یہ ہے کہ اس کا معنی یہ کیا جاتا ہے کہ کسی چیز کو اس طرح بند کرنا کہ اندر والی چیز باہر نہ جاسکے اور باہر والی اندر نہ جاسکے۔
مثلا "ختم اللہ علی قلوبھم" اس کا مطلب یہ ہے کہ کفار کے دلوں پر اللہ نے مہر لگادی ہے۔ اب ایمان ان کے دل میں داخل نہیں ہوسکتا اور کفر ان کے دل سے باہر نہیں جاسکتا۔
اسی طرح ہماری زیر بحث آیت میں بھی "خاتم النبیین" کا مطلب یہ ہے کہ دائرہ نبوت میں جتنے نبی آنے تھے وہ آچکے ۔ اب دائرہ نبوت میں نیا نبی نہیں آسکتا۔ اسی طرح دائرہ نبوت سے کوئی نبی باہر نہیں جاسکتا ۔
تفسیر القرآن بالقرآن کا خلاصہ یہ ہے کہ حضورﷺ کے تشریف لانے سے نبیوں کی تعداد پوری ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت نیا نبی نہیں آسکتا ۔

"تفسیر "خاتم النبیین " بالحدیث"
عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي۔
حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا!
"میرے بعد میری امت میں 30 جھوٹے پیدا ہوں گے ان میں سے ہرایک کہے گا کہ میں نبی ہوں۔ لیکن میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں "
(ترمذی حدیث نمبر 2219 ، باب ما جاء لا تقوم الساعة حتی یخرج کذابون)
اس کے علاوہ ایک اور روایت میں یوں فرمایا۔

"عن أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ "
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
"بیشک رسالت اور نبوت ( مجھ پر) منقطع ہوچکی ہے۔ اب میرے بعد نہ کوئی نبی ہے اور نہ کوئی رسول ہے۔"
(ترمذی حدیث نمبر 2272 ، باب ذھبت النبوة بقیت المبشرات)
ان روایات سے پتہ چلا کہ حضور ﷺنے خود ہی خاتم النبیین کی تشریح فرمادی کہ میرے اوپر رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے اور میرے بعد نہ کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ کوئی نیا رسول آئے گا ۔ یعنی نبیوں کی تعداد حضور ﷺ کے تشریف لانے سے مکمل ہوچکی ہے۔

"خاتم النبیین کی صحابہ کرام ؓ سے تفسیر "
تفسیر در منثور میں امام ابن جریرؒ نے حضرت ابوسعید خدری ؓ کی ایک روایت نقل کی ہے۔ جس میں حضرت ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ
حضورﷺ نے فرمایا:

"مثلی و مثل النبیین کمثل رجل بنی دارا فأتمھا إلا لبنة واحدة ، فجئت انا فأتممت تلک اللبنة."
"میری اور انبیاء کی مثال ایسے ہے۔ جیسے ایک آدمی گھر بنائے اسے مکمل کردے۔ مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دے۔ میں آیا تو اس اینٹ کو مکمل کردیا۔"
(درمنثور (عربی)جلد 12 صفحہ 63 تفسیر در آیت نمبر 40 سورة الأحزاب طبع مصر 2003ء)
(درمنثور (اردو)جلد 5 صفحہ 577 تفسیر در آیت نمبر 40 سورة الأحزاب طبع ضیاء القرآن پبلیکیشنز 2006ء)
تفسیر در منثور میں امام ابن جریرؒ نے حضرت جابر ؓ کی ایک روایت یوں نقل کی ہے۔
"قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ كَمثل رَجُلٍ بَنَى دَارًا فَأَكْمَلَهَا وَأَحْسَنَهَا إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ،فکان من دخلھا فنظر الیھا قال : ما احسنھا إلا موضع اللبنة فأنا موضع اللبنة، ختم بی الانبیاء"
"حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری اور انبیاء کی مثال ایسے آدمی جیسی ہے۔جو گھر بنائے جیسے ایک آدمی گھر بنائے اسے مکمل کردے۔ اور اسے اچھا بنائے۔ مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دے۔ جو بھی اس گھر میں داخل ہو اسے دیکھے تو کہے کہ کتنا اچھا ہے مگر ایک اینٹ کی جگہ، میں اس اینٹ کی جگہ ہوں۔ مجھ پر انبیاء کو ختم کیا گیا۔"
(درمنثور (عربی)جلد 12 صفحہ 63 تفسیر در آیت نمبر 40 سورة الأحزاب طبع مصر 2003ء)
(درمنثور (اردو)جلد 5 صفحہ 577 تفسیر در آیت نمبر 40 سورة الأحزاب طبع ضیاء القرآن پبلیکیشنز 2006ء)
صحابہ کرام ؓ کی خاتم النبیین کی تفسیر سے بھی پتہ چلا کہ نبیوں کی تعداد حضورﷺ کے تشریف لانے سے مکمل ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔
"خاتم النبیین اور اصحاب لغت"
آیئے اب لغت سے خاتم النبیین کا معنی متعین کرتے ہیں۔
امام راغب اصفہانی کی لغات القرآن کی کتاب مفردات القرآن کی تعریف امام سیوطیؒ نے کی ہے۔ اور امام سیوطیؒ قادیانیوں کے نزدیک مجدد بھی ہیں۔ لہذا یہ کتاب قادیانیوں کے نزدیک بھی معتبر ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں۔

"وخاتم النبیین لانہ ختم النبوۃ ای تممھا بمجیئه"
"آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے نبوت کو ختم کردیا۔ یعنی آپﷺ نے تشریف لاکر نبوت کو تمام فرمادیا۔"
(مفردات راغب صفحہ 275 بحث در لفظ ختم)
لسان العرب عربی لغت کی مشہور و معروف کتاب ہے۔یہ کتاب عرب و عجم میں مستند سمجھی جاتی ہے۔اس میں خاتم النبیین کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے۔

"خاتمھم و خاتمھم آخرھم عن اللحیانی و محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء علیہ وعلیھم الصلوۃ والسلام "
"خاتم القوم زیر کے ساتھ اور خاتم القوم زبر کے ساتھ ، اس کے معنی آخرالقوم ہیں ۔ اور انہیں معانی پر لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے۔ محمدﷺ خاتم الانبیاء ہیں یعنی آخری نبی ہیں"
یہ تو صرف لغت کی 2 کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے جبکہ لغت کی تقریبا تمام کتابوں میں خاتم النبیین کا یہی مفہوم بیان کیا گیا ہے۔
لیجئے لغت سے بھی خاتم النبیین کا یہی مطلب ثابت ہوا کہ حضورﷺ کے تشریف لانے سے نبیوں کی تعداد مکمل ہوگئی ہے اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔

"خاتم النبيين پر قادیانی اعتراضات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات"
قادیانی اعتراض نمبر 1
" کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ لفظ " خاتم " کی اضافت " جمع " کی طرف ہو اور وہاں اس کا معنی
" آخری " آیا ہو ، یہ چیلنج سو سال سے دیا جارہا ہے لیکن کوئی اس کو توڑ نہیں سکا "

قادیانی اعتراض کا جواب
مرزاصاحب نے لکھا ہے کہ
"خاتم الخلفاء یعنی ایسا خلیفہ جو سب سے آخر میں آنے والا ہے۔ "
(چشمہ معرفت صفحہ 318 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 333 )
یہاں " خاتم " کی اضافت " جمع " کی طرف ہے اور مرزا صاحب نے اسکا ترجمہ کیا ہے " آخری خلیفہ " واضح رہے یہ کتاب مرزا صاحب کی زندگی کی آخری کتابوں میں سے ہے۔

قادیانی اعتراض نمبر 2
" ہم نے مرزا جی کی تحریروں سے نہیں پوچھا ، ہم نے لغت کی کتابوں اور عرب محاوارات سے پوچھا ہے اس لئے ہمارے سامنے مرزا جی کی تحریریں نہ پیش کریں۔"
قادیانی اعتراض کا جواب
آپ کی تسلی کے لئے لغت سے بھی ثابت کر دیتے ہیں ، غور سے پڑھیے گا۔
1۔" تاج العروس" میں ہے کہ :

" والخاتم آخر القوم کالخاتم ومنه قوله تعالیٰ خاتم النبیین أی آخرھم "
خاتم کا مطلب ہوتا ہے قوم کا آخری آدمی (یعنی جب خاتم القوم بولا جائے ) اور اسی سے اللہ کا یہ فرمان ہے کہ وخاتم النبیین جسکا مطلب ہے آخری نبی۔
( تاج العروس جلد 32 صفحہ 45 )
2۔"لسان العرب" میں ہے کہ

" وختام القوم وخاتَمھم وخاتِمھم آخرھم "

جب ختام القوم یا خاتَم القوم یا خاتِم القوم بولا جائے تو اسکا معنی ہوتا ہے قوم کا آخری آدمی
پھر آگے لکھا ہے " ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین أی آخرھم " خاتم النبیین کا مطلب ہے آخری نبی۔
( لسان العرب جلد 12 صفحہ 162 )
3۔"کلیات ابی البقاء" میں ہے کہ

"وتسمیة نبینا خاتم الانبیاء لآن الخاتم آخر القوم "

ہمارے نبی کریمﷺ کا نام خاتم الانبیاء رکھا گیا ، کیونکہ خاتم کسی بھی قوم کے آخری فرد کو کہتے ہیں۔
( کلیات ابی البقاء صفحہ 431 )

قادیانی اعتراض نمبر 3
"ہم نے پوچھا تھا کوئی ایسا حوالہ دکھاؤ جہاں
" خاتم " کی اضافت " جمع " کی طرف ہو ، تم نے
" خاتم القوم " دکھایا ، یہ " قوم " تو واحد ہے جمع نہیں ، اسکی جمع تو " اقوام " آتی ہے."

قادیانی اعتراض کا جواب
" قوم " واحد نہیں بلکہ " اسم جمع " ہے ، قوم ایک آدمی کو نہیں کہتے بلکہ بہت سے افراد کے مجموعے کو قوم کہتے ہیں ، اس لئے قران کریم اور جہاں بھی " قوم " کا لفظ آیا ہے وہاں اسکے بعد اسکے لئے جمع کی ضمیریں اور جمع کے صیغے ہی لائیں گئے ہیں ، تاج العروس میں جہاں " خاتم القوم " لکھا ہے اسکے بعد لکھا ہے " آخرھم " یعنی انکا آخری ،
یہاں " ھم " کی ضمیر " قوم " کی طرف لوٹائی گئی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ " قوم " جمع ہے ، آئیے اب قران کریم سے کچھ مثالیں دیکھتے ہیں۔

آیت نمبر 1
حضرت نوح علیہ اسلام کے بارے میں آیا ہے کہ
" لقد ارسلنا نوحاََ الی قومه فقال یا قوم اعبدوا اللہ مالکم من اله غیرہ انی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم۔"
ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا پس آپ نے ان سے کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اسکے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
( سورۂ الاعراف 59 )
اس جگہ نوح علیہ اسلام فرماتے ہیں " یاقوم " اے قوم اور آگے انھیں جمع کے صیغے سے خطاب کرتے ہیں ، " اعبدوا " ، " مالکم " اور " علیکم " کے ساتھ ، ثابت ہوا قوم جمع ہے۔

آیت نمبر 2
ایک جگہ ارشاد ہے
" وما ارسلنا من رسول الابلسان قومه لیبین لھم "
نہیں بیجھا ہم نے کوئی رسول مگر وہی زبان بولنے والا جو اسکی قوم کی ہو تاکہ وہ ان کے لئے ( اللہ کی بات ) کھول کر بیان کر سکے
( سورۂ ابراھیم 4 )
یہاں قوم کا ذکر کر کے " لیبین لھم " میں " ھم " کی ضمیر جمع لائی گئی جو اس بات کی دلیل ہے کہ قوم جمع ہے۔

آیت نمبر 3
ایک اور جگہ نوح علیہ اسلام کا ذکر ہے ۔
" لقد ارسلنا نوحاََ الی قومه فلبث فیھم الف سنة الا خمسین عاما "
پس ہم نے بیجھا نوح علیہ اسلام کو انکی قوم کی طرف پس وہ رہے ان میں پچاس کم ہزار سال ۔
( سورۂ العنکبوت 14 )
یہاں بھی " قوم " کا ذکر کرکے فرمایا " فیھم " اور یہ " ھم " کی ضمیر جمع کی ہے جو قوم کی طرف لوٹائی گئی۔
قران کریم ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے ، قوم کا لفظ جہاں بھی آیا ہے اسکی طرف لوٹائی جانے والی ضمیر اور صیغے جمع ہی آئے ہیں اس لئے اسمیں کوئی شک نہیں کہ یہ اسم جمع ہے جو ایسے گروہ کے لئے بولا جاتا ہے جس کے بہت سے افراد ہوں ، اور " اقوام " اسکی جمع الجمع ہے۔

قادیانی اعتراض نمبر 4
" عرب محاورے میں جہاں بھی " خاتم" کی اضافت " جمع " کی طرف آئی ہے وہاں اسکا معنی آخری ہو ہی نہیں سکتا بہت سے لوگوں کو خاتم المحدثین ، خاتم الفقہاء یا خاتم المفسرین کا خطاب دیا گیا ہے ، کیا انکے بعد محدثین ، فقہاء ، مفسرین آنا بند ہو گئے تھے ؟
قادیانی اعتراض کا جواب
" اگر کسی انسان نے کسی انسان کے بارے میں یہ لفظ بولا ہے تو چونکہ انسان عالم الغیب نہیں ہے اس لئے یہی دلیل ہے کہ وہ صرف اپنے زمانے کے بارے میں بات کر رہا ہے ورنہ اسے معلوم ہی نہیں کہ بعد میں اس سے بڑا محدث ، فقیہ ، یا مفسر بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
نیز یہاں تو سب سے زیادہ " افضل " والا معنی بھی نہیں ہو سکتا اور نہ اسکا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اب اس محدث یا فقیہ یا مفسر کی مہر سے ظلی بروزی مفسر یا محدث بنے گے ، اب مرزائی متعرض ہی بتائے کہ جہاں کسی انسان نے کسی دوسرے انسان کے بارے میں " خاتم المحدثین یا خاتم المفسرین " لکھا ہے تو اس کے وہ کیا معنی کرتے ہیں ؟ سب آخری مفسر ، سب سے افضل مفسر ، یا ایسا مفسر جس کی مہر سے محدث یا مفسر بنے گے ؟؟؟
آپ اپنے معنی بیان کرو تاکہ بات اس پر آگے چلے ، ہمارے نزدیک تو صرف یہ تمام مبالغہ کے لئے ہے اور کچھ نہیں ، اور کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ آج کے بعد کوئی مفسر یا کوئی محدث ایسا پیدا ہو ہی نہیں سکتا جو اسکے زمانے کے محدثین یا مفسرین سے بڑا ہو ، لیکن اللہ عالم الغیوب ہے جب کسی کے بارے میں فرمائے " خاتم النبیین " تو وہاں خاتم کا معنی حقیقی لینے میں کوئی خرابی نہیں کیوں کا اللہ کو علم ہے اب قیامت تک کوئی نبی نہیں پیدا ہونے والا۔

قادیانی اعتراض نمبر 5
جب قادیانیوں کو کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب نے خاتم الاولاد کا مطلب آخری اولاد لیا ہے تو ان کی من گھرٹ دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ لفظ خاتِم ہےخاتَم نہیں ہے ۔
(یاد رہے کہ مرزا صاحب نے جہاں بھی خاتم لکھا وہاں اس کی کوئی وضاحت نہیں کی)

قادیانی اعتراض کا جواب
خاتَم اور خاتِم کا معنی
پہلی بات تو یہ ہے کہ خاتَم اور خاتِم کا یہ من گھرٹ فرق جو مرزائی کرتے ہیں کیا لغت عرب میں اس کا وجود ہے ؟؟؟
دو تین کتابوں کے حوالے پیش خدمت ہیں ورنہ پچاسوں کتابیں ہیں جو اس معنی کی تائید میں پیش کی جا سکتی ہیں۔


صاحبِ لسانُ العرب علام ابن منظور جو ساتویں صدی میں کے بہترین عالم گزرے ہیں۔
انہوں نے اپنی کتاب میں یہ تشریح کی ہے
" والخَتُمُ ، الخَاتِم ، الخَاتَمُ ، والخَيْتَامُ كُلَّها بعنى واحدٍ و معناها أخيرها"
اور ان تمام کا معنی ایک ہی ہے اور وہ کیا کسی چیز کا اخیر۔ختم کرنے والا۔۔
کہتے ہیں " خِتامُ الودای ،خاتَم الوادى ،خاتِم الوادى، أخير الوادى " --
وادی کا اخری کنارہ ۔جہاں وادی ختم ہو جاتی ہے ان الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے
اور مزید لکھتے ہیں کہ

" خِتَامُ القوم خاتِمُهُمْ و القوم وخَاتَمُهُم أخرهم
( لسانُ العرب جلد 12 صفحہ 164)

ختمام القوم خاتِم القوم خاتَم القوم سب کا ایک معنی اخر القوم ۔۔۔۔
" والخاتَم والخاتِم:من أسماه النبىﷺ معناہ: آخر الانبیاء :وقال اللہ تعالی ☆ خاتَم النبین☆ "

(تہذیب اللغہ جلد 7 صفحہ 316)
(لسانُ العرب جلد12 صفحہ 164)
(تا كے زیر سے) خاتِم اور (تا کے زبر سے) خاتَم دونوں کا معنی آخر الانبیاء ہے اور اللہ تعالی نے فرمایا خاتَم النبین ۔
معلوم ہوا خاتَم هو یا خاتِم دونوں کا معنی ایک ہی ہے ۔کسی چیز کا کنارہ ،کسی چیز کی انتہا ، جہاں پر کوئی چیز ختم ہو جاتی ہے اس کو خاتَم بھی کہتے ہیں خاتِم بھی کہتے ہیں ،ختام، اور ختم بھی کہتے ہیں یہ تمام کے تمام الفاظ ہم معنی ہیں مترادف ہیں ۔۔۔
یہ معنی آج کے علماء نے نہیں لکھا کہ مرزا صاحب کے تعصب میں مولویوں نے کتابوں میں لکھ دیا ہو بلکہ یہ معنی ان علماء کرام نے لکھا جو مرزا صاحب کے آنے سے ہزاروں برس پہلے گزر چکے ہیں اور جن کی کتابیں لغت عرب میں سند کی حثییت رکھتی ہیں ۔جن کی زبان میں قران نازل ہوا ان علماء کرام کی تحقیق ہے کہ خاتَم ہو یا خاتِم معنی ایک ہی ہے آخر الشئ اور پھر اس کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں جس طرح اللہ تعالی فرماتا "خاتم النبین" "آخرالنبین" سب نبیوں کے آخر میں آنے والا ۔۔۔
اس تحقیق کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ خاتَم کے معنی آخری ہی ہیں اس کے بعد یہ محض دھوکہ فریب اور دجل و تلبیس ہے اگر یہ کہا جائے کہ خاتَم کے معنی اور خاتِم کے معنی اور ہیں
ہمارے نزدیک علماء حق اور ائمہ لغت کی تحقیق کے مطابق لفظ خاتَم ہو یا خاتِم اللہ کے محبوبﷺ کے بعد اب اور کوئی نبی نہیں ہو سکتا ۔
"خاتم النبیین کا ترجمہ اور قادیانی جماعت "
معزز قارئین ہم نے آیت خاتم النبیین پر علمی ،تحقیقی گفتگو سے ثابت کیا کہ خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کے تشریف لانے سے نبیوں کی تعداد مکمل ہوچکی ہے اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔
اب ہم قادیانی جماعت کے اس آیت کے ترجمے اور مفہوم کا جائزہ لیتے ہیں اور آپ کو بتاتے ہیں کہ قادیانیوں کا ترجمہ کیوں غلط ہے۔
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
"خاتم النبیین کا مطلب ہے کہ حضورﷺ کی کامل اتباع سے نبی بنیں گے "
(حقیقة الوحی صفحہ 97 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 100)
قادیانیوں کے خاتم النبیین کے کئے گئے ترجمے کے غلط ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

وجہ نمبر 1
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
"مجھے نبوت تو ماں کے پیٹ میں ہی ملی تھی۔ "
(حقیقة الوحی صفحہ 67 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 70)
ایک طرف تو کہتے ہیں کہ نبوت حضورﷺ کی اتباع سے ملتی ہے جبکہ یہاں تو مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے نبوت ماں کے پیٹ میں ہی ملی تھی۔ اب قارئین خود فیصلہ کریں کہ مرزا صاحب کی کون سی بات درست ہے۔

وجہ نمبر 2

مرزا صاحب نے خود خاتم النبیین کا ایک جگہ ترجمہ لکھا ہے کہ
"ختم کرنے والا ہے سب نبیوں کا"
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 614 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 431)
اگر یہ ترجمہ غلط ہے تو مرزا صاحب نے یہ ترجمہ کیوں لکھا؟؟

وجہ نمبر 3
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
"میرے پیدا ہونے کے بعد میرے والدین کے گھر میں کوئی اور لڑکا یا لڑکی نہیں ہوئی ۔ گویا میں اپنے والدین کے لئے خاتم الاولاد تھا"
(تریاق القلوب صفحہ 157 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 479)
اگر خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کی مہر سے نبی بنتے ہیں تو خاتم الاولاد کا بھی یہی مطلب ہونا چاہیے کہ مرزا صاحب کی مہر سے مرزا صاحب کے والدین کے گھر میں اولاد پیدا ہوگی۔ کیا قادیانی یہ معنی خاتم الاولاد کا کریں گے؟
یقینا یہ ترجمہ نہیں کریں گے تو پتہ چلا کہ قادیانیوں کا کیا گیا ترجمہ سرے سے ہی باطل ہے۔

وجہ نمبر 4
ایک طرف قادیانی کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کی مہر سے ایک سے زائد نبی بنیں گے۔ جبکہ دوسری طرف مرزا صاحب اور قادیانی جماعت کا موقف ہے کہ صرف مرزاقادیانی کو ہی حضورﷺ کی کامل اتباع سے نبوت ملی ہے۔
(حقیقة الوحی صفحہ 391 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 406 )
مرزا صاحب کے بعد خلافت ہے نبوت نہیں۔ تو اس طرح حضورﷺ خاتم النبی ہوئے، خاتم النبیین نہ ہوئے۔ اس لئے خود یہ ترجمہ قادیانیوں کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔

وجہ نمبر 5
اگر خاتم النبیین کا یہ مطلب لیا جائے کہ حضورﷺ کی اتباع سے نبوت ملےگی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور ﷺ،حضرت آدم علیہ السلام سے لےکر حضرت عیسی علیہ السلام تک انبیاء کے خاتم نہیں بلکہ اپنے سے بعد آنے والے نبیوں کے خاتم ہیں۔ اور یہ بات قرآن و حدیث کی منشاء کے خلاف ہے۔
وجہ نمبر 6
یہ معنی محاورات عرب کے بھی بالکل خلاف ہے کیونکہ پھر خاتم القوم اور خاتم المھاجرین کے بھی یہی معنی کرنے پڑیں گے کہ اس کی مہر سے قوم بنتی ہے اور اس کی مہر سے مھاجر بنتے ہیں۔ اور یہ ترجمہ خود قادیانیوں کے نزدیک بھی باطل ہے۔

قادیانیوں کو چیلنج
اگر کوئی قادیانی قرآن پاک کی کسی ایک آیت سے یا کسی ایک حدیث سے یا کسی صحابی یا تابعی کے قول سے خاتم النبیین کا یہ معنی دکھا دے کہ حضورﷺ کی مہر سے یعنی کامل اتباع سے نبی بنتے ہیں تو اس قادیانی کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا ۔
لیکن

نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
یہ کورس چالیس اسباق پر مکمل نہیں ہوا ؟
 
Top