کذبات مرزا ’’ازالہ اوہام‘‘ 49، 50 ( وفات مسیحؑ ثابت کرنے کے لیے قرآن کریم میں تحریف)
۴۹… تیسویں آیت یہ ہے: ’’ او ترقی فی السماء قل سبحان ربی ہل کنت الا بشرا رسولاً ‘‘ ترجمہ یعنی کفار کہتے ہیں تو (اے محمدﷺ) آسمان پر چڑھ کر ہمیں دکھلا تب ہم ایمان لے آئیں گے۔ ان کو کہہ دے کہ میرا خدا اس سے پاک تر ہے کہ اس دار ابتلاء میں ایسے کھلے کھلے نشان دکھا دے اور میں بجز اس کے اور کوئی نہیں ہوں کہ ایک آدمی۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ کفار نے آنحضرتﷺ سے آسمان پر چڑھنے کا نشان مانگا تھا اور انہیں صاف جواب ملا کہ یہ عادت اﷲ نہیں کہ کسی جسم خاکی کو آسمان پر لے جائے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۲۶، خزائن ج۳ ص۴۳۷،۴۳۸)
ابوعبیدہ: یہاں مرزاقادیانی نے ایک تو خدا پر افتراء کیا ہے۔ ساری آیت نقل نہیں کی اور جتنی نقل کی ہے وہ بھی غلط۔ درمیان سے آیت کا ضروری حصہ ہضم ہی کر گئے ہیں۔ یہاں دھوکہ دینا مطلوب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے بعد دوسری آیت کی طرح حوالہ نہیں لکھا۔ حوالہ ہم سے سنئے۔ (سورہ اسرائیل:۹۳) جواب خط کشیدہ جملہ نہیں ملا تھا۔ بلکہ جواب یہ تھا کہ: ’’میں بشر ہوں۔ رسول ہوں۔ میں خود تمہارے لئے معجزہ تجویز نہیں کر سکتا۔‘‘ اور باقی کا ترجمہ تو بالکل تحریف مجسم ہے۔
۵۰… دوسرا جھوٹ اس میں یہ ہے۔ مرزاقادیانی کہتا ہے کہ: ’’یہ عادت اﷲ نہیں کہ کسی جسم خاکی کو آسمان پر لے جائے۔‘‘ توریت سے حضرت ایلیا علیہ السلام کا رفع جسمانی ثابت ہے۔ انجیل اور قرآن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع جسمانی ساری پڑھی لکھی دنیا کو معلوم ہے۔ معراج کی رات حضرت رسول اﷲﷺ کا رفع جسمانی قرآن اور حدیث سے ایسے طریقہ سے ثابت ہے کہ جس کا انکار ایک شریف آدمی سے ممکن نہیں۔ خود مرزاقادیانی (ازالہ اوہام ص۲۸۹، خزائن ج۳ ص۲۴۷) پر لکھتے ہیں: ’’آنحضرتﷺ کے رفع جسمانی کے بارہ میں یعنی اس بارہ میں کہ وہ جسم کے ساتھ شب معراج آسمانی کی طرف اٹھا لئے گئے تھے۔ تقریباً تمام صحابہ کا یہی اعتقاد تھا۔‘‘ حضرت ایلیا کا رفع جسمی ملاحظہ ہو۔ (سلاطین۲، باب۲، آیت۱) اور مسیح کا رفع جسمی لوقا باب۲۴، آیت۵۰، اعمال باب۱۔