• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

اسلام کی دہلیز تک

ضیاء رسول امینی

منتظم اعلیٰ
رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
شہر سدوم کے اب تک کتنے ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور کتنی تعداد میں اس کی فوٹو سٹیٹ کاپیاں تقسیم ہوچکی ہیں اس کے بارے وثوق اور قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک تک سے اس کے متعلق اس قدر اطلاعات ملی ہیں کہ مجھے خود اس پر حیرت ہوئی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کو کس قدر پذیرائی بخشی ہے اور یہ صرف امت مسلمہ کے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے فدائیت کا تعلق رکھنے والے سواد اعظم میں ہی ذوق و شوق اور تجسس سے نہیں پڑھی گئی بلکہ ''قصر خلافت'' کے ایوانوں میں بھی اس کی بھرپور گونج سنائی دی اور ربوہ کے واقفان حال نے تو ہاٹ کیک یا گرماگرم پکوڑوں کی طرح اس کی تلاش کرکے اسے چھپ چھپ کر اس طرح پڑھا کہ انہوں نے نے مرزا غلام احمد کی اپنی کتابوں کو بھی اس طرح نہیں پڑھا ہوگا۔ خدا گواہ ہے کہ جب میں نے حصول تعلیم کے لیے ربوہ کی سر زمین پر قدم رکھا تو میرے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات موجود نہ تھی کہ ''نبوت و خلافت'' کی جھوٹی رداؤں میں لپٹے ہوئے صادقہ اور ''کشوف کی دنیا'' میں ''سیر روحانی'' کا دعویٰ کرنے والے لاکھوں افراد سے ''دین اسلام'' کو اکناف عالم تک پہنچانے کے جھوٹے دعوے کرکے ان کی معمولی معمولی آمدنیوں میں سے چندے کے نام پر کروڑوں نہیں عربوں روپیہ وصول کرنے والے اور انہیں نان جویں پر گزارہ کی تلقین کرکے خود ان کے مال پر گلچھڑے اڑانے والے ، اندر سے اس قدر غلیظ اس قدر گندے اور اس قدر ناپاک ہوں گے اور ایسی کسی تصوراتی لہر کا ذہن میں آجانا فی الواقع ممکن بھی نہ تھا کیونکہ میرے والد محترم فوج سے قبل ازوقت ریٹائر منٹ کے بعد نہ صرف یہ کہ خود قادیانیت کے چنگل میں پھنس چکے تھے بلکہ انہوں نے میرے دو بڑے بھائیوں کو بھی قادیانیت کی جانی مالی لسانی حالی اور قلمی خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔
ان حالات میں میں نے ربوہ کی شور زدہ زمین پر قدم رکھا تو چند ہی دنوں میں میرے تعلقات ہرکہ و مہ سے ہوگئے اور ہمارے خاندان کی یہ اتنی بڑی احمقانہ ''قربانی'' تھی جسے وہاں ''اخلاص'' سمجھا جاتا تھا اور اس کا برملا اعتراف کیا جاتا تھا لیکن جوں جوں میرے روابط کا دائرہ پھیلتا گیا اسی نسبت سے اس جبریت زدہ ماحول میں ربوہ کے باسیوں کی خصوصی اور اور دوسرے قادیانیوں کی عمومی بے چارگی اور بے بسی کا احساس میرے دل میں فزوں تر ہوتا گیا اور اس پر مستزاد یہ کہ ''خاندان نبوت'' کے تمام ارکان بالخصوص مرزا محمود احمد کے بارے میں ایسے ایسے ناگفتہ بہ انکشاف ہونے لگے کہ ذہن ان کو قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا تھا کہ کہیں ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن جب میں نے پرانے قادیانیوں سے اس بارے مزید استفسار کیا تو پھر تو مشاہدات اور آپ بیتیوں کی ایسی پٹاری کھل گئی کہ میری کوئی بھی تاویل ان کے سامنے نہ ٹھہر سکی اور میں اپنے مشاہدات کی جو یہ تعبیر کر لیتا تھا کہ خلیفہ صاحب کے خاندان کے لوگ اور ان کے اردگرد رہنے والے تو بدکردار ہیں لیکن خود وہ ایسے نہیں ہوسکتے، وہ خود بخود ہوا ہو کر رہ گئی۔
اس دوران قلب و ذہن ، کرب و اذیت کی جس کیفیت سے گزر سکتا تھا اس سے میں بھی پورے طور پر گزرا اس لیے اگر کسی قادیانی کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ محض الزام تراشی اور بہتان طرازی صرف ان کا دل دکھانے کے لیے ہے تو وہ یقین جانیں کہ بخدا ایسا ہرگز نہیں، یہ سارے دلائل تو میں بھی اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے دیتا رہا مگر دلائل کب مشاہدے اور تجربے کے سامنے ٹھہر سکتے ہیں کہ یہاں ٹھہر جاتے۔ پھر سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ الزامات لگانے والے کوئی غیر نہیں بلکہ خود قادیانی امت کے لیے جان و مال کی قربانی دینے والے اور اپنے خاندان اور برادریوں سے اس کے لیے کٹ کر رہ جانے والے لوگ ہیں کیا وہ محض قیاس اور سنی سنائی باتوں پر اتنا بڑا اقدام کرنے پر عقلاََ تیار ہوسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔
انسان جس شخصیت سے ارادت اور و عقیدت کا تعلق رکھتا ہے اس کے بارے میں اس نوع کے کسی الزام کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا اور اگر وہ ایسا کرنے پر تل جاتا ہے تو پھر سوچنا پڑے گا کہ اس شخصیت سے ضرور کوئی ایسی ابنارمل بات سرزد ہوئی ہے کہ اس سے فدائیت کا تعلق رکھنے والے فرد بھی اس پر انگلی اٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں اور پھر یہ انگلی اٹھانے والے معمولی لوگ نہیں ہر دور میں ''خاندان نبوت'' کے یمین و یسار میں رہنے والے ممتاز افراد ہیں۔ مرزا غلام احمد کے اپنے زمانے میں مرزا محمود احمد پہ بدکاری کا الزام لگا جس کے بارے میں قادیانیوں کی لاہوری پارٹی کے پہلے امیر مولوی محمد علی کا بیان ہے کہ یہ الزام تو ثابت تھا مگر ہم نے شبہ کا فائدہ دے کر مرزا محمود احمد کو بری کردیا ۔ پھر محمد زاہد اور مولوی عبدالکریم مباہلہ والے اور ان کے اعزہ و اقرباء نے اپنی بہن سکینہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف احتجاج کے لیے باقاعدہ ایک اخبار ''مباہلہ'' کے نام سے نکالا اور خلیفہ صاحب کے اشارے پر میر قاسم علی جیسے چھٹ بھٹیوں نے ان کے خلاف مستریاں مشین سوئیاں ایسی طعنہ زنی کرکے اصل حقائق کو چھپانے کی کوشش کی ، اس کے بعد مولوی عبدالرحمٰن مصری، عبدالرزاق مہتہ ، مولوی علی محمد اجمیری، حکیم عبدالعزیز، فخرالدین ملتانی، حقیقت پسند پارٹی کے بانی ملک عزیزالرحمٰن صلاح الدین ناصر بنگالی اور دوسرے بے شمار لوگ وقتاََ فوقتاََ مرزا محمود احمد اور ان کے خاندان پر اسی نوعیت کے الزام لگا کر علیحدہ ہوتے رہے اور بدترین قادیانی سوشل بائیکاٹ کا شکار ہوتے رہے۔
ملازمتوں سے محروم اور جائیدادوں سے عاق کیے جاتے رہے مگر وہ اپنے مؤقف پر قائم رہے ۔ کیا محض یہ کہہ کر کہ یہ قریب ترین لوگ محض الزام تراشی کرتے رہے اصل حقائق پر پردہ ڈالا جاسکتا ہے؟ اگر کوئی شخص اپنی ماں پر بدکاری کا الزام لگاتا ہے تو فقط یہ کہہ کر اسکی بات کو رد کردینا کہ دیکھو کتنا برا آدمی ہے اپنی ماں پر الزام لگاتا ہے درست نہ ہوگا ۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اسکی ماں نے گول بازار کے کس چوراہے میں بدکاری کی ہے کہ خود اسکے بیٹے کو بھی اسکے خلاف زبان کھولنا پڑی جس رفتار سے ان واقعات سے پردہ اٹھ رہا تھا اسی سرعت سے میرے اعتقادات کی عمارت بھی متزلزل ہو رہی تھی اور میری زبان ایک طبعی ردعمل کے طور پر ربوہ کے اس دجالی نظام کی قلعی کھولنے لگ پڑی تھی اور اس خباثت کو نجابت کہنے کے لیے تیار نہ تھی۔ مرزا محمود احمد بارہ سال کے بدترین فالج کے بعد جہنم واصل ہوا تو ربوہ کے قصر خلافت میں جس دو جانب کھلنے والے کمرے میں اسکی لاش رکھی ہوئی تھی میں بھی وہاں موجود تھا اور میرے دو ساتھی فضل الٰہی اور خلیل احمد جو اب مربی ہیں میرے ساتھ ہاکیاں لیے وہاں پہرہ دے رہے تھے۔ میں نے مرزا محمود کو انتہائی مکروہ حالت میں پاگلوں کی طرح سر مارتے اور کرسی پر ایک جگہ سے دوسری جگہ اسے لے جاتے ہوئے کئی مرتبہ دیکھا تھا ۔ ربوہ کی معاشی نبوت پر پلنے والے اس حالت میں بھی ''زیارت'' کے نام پر لوگوں سے پیسے بٹورتے رہے اور کہتے تھے کہ بس گزرتے جائیں اور بات نہ کریں(کیونکہ خلیفہ صاحب خدائی پکڑ میں آئے ہوے تھے اور بات کرنے کے ویسے بھی قابل نہ تھے وہ تو پیسے چھاپنے والی مشین اور عجائب گھر میں رکھے ہوئے پتھر کے بت تھے جن کو دیکھانے کے پیسے وصول کیے جاتے۔ راقم) حسب توفیق نذرانہ دیتے جائیں (حسب توفیق نذرانہ یا حسب توفیق خیرات؟ :p) اور اس دور میں اس کے جسم کی ایسی غیر حالت تھی کہ بیوی بچے بھی انہیں چھوڑ چکے تھے اور سویٹزر لینڈ سے منگوائی گئی نرسیں بھی دو ہفتے بعد بھاگ کھڑی ہوئی تھیں۔ لیکن اب تو وہاں تراشی ہوئی داڑھی والا اور ابٹن و زیبائش کے تمام تر لوازمات سے بری طرح تھوپا گیا ایک لاشہ پڑا تھا۔
میں نے مذکورہ بالا دونوں نوجوانوں سے کہا کہ یار کل تک تو اس چہرے پر بارہ بجے ہوئے تھے مگر آج اس پر بڑی محنت کی گئی ہے تو ان میں سے موخر الذکر کہنے لگا '' توں ساڈا ایمان خراب کرکے چھڈیں گا'' (واہ مرزائیو تمہارے ایمان کے کیا کہنے۔راقم) یہ دونوں اپنی ''پختہ ایمانی'' کی بنا پر ابھی تک قادیانیت کا دفاع کر رہے تھے لیکن میں نے اس ایمان کو ذہنی طور پر اسی وقت چناب کی لہروں کے سپرد کردیا تھا۔
مرزا ناصر احمد کو ایک مخصوص پلاننگ کے تحت خلافت کے منصب پر بٹھایا گیا تو اس سے دوسرے امیدوار مرزا رفیع احمد پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ۔ اس سے ملنے جلنے والوں اور تعلق رکھنے والوں کو ملازمتوں سے محروم کرنے اور ربوہ بدر کرنے کے احکامات جاری ہونے لگے اور یہ سلسلہ اس حد تک بڑھا کہ گدی نشینی کی اس جنگ میں ہزاروں افراد اور ان کے خاندان خواہ مخواہ نشانہ بن گئے سوشل بائیکاٹ کا شکار ہوئے یہ لوگ اپنی برادریوں سے مرزا غلام احمد کونبی مان کر اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے جنازوں اور شادیوں تک میں شرکت کو حرام قرار دے کر ان سے پہلے ہی علیحدہ ہوچکے تھے اس لیے ان کے لیے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی کیفیت پیدا ہوگئی ۔
ربوہ میں رہائشی زمین کسی کی ملکیت نہیں ہوتی اور صدر انجمن احمدیہ جو مرزا غلام احمد کے خاندان کی گھریلو کنیز اور ذاتی تنظیم ہے وہ کسی بھی وقت ''باغیوں'' کو رہائش سے بے دخل کردیتی ہے اور ان کی بڑی تعداد پھر اس خوف سے کہ وہ مہنگائی کے اس دور میں سر کہاں چھپائیں گے دوبارہ ''خلیفہ خدا بناتا ہے'' کی ڈگڈگی پر رقص کرنا شروع کردیتے ہیں ، اس دور میں بھی یہی کچھ ہوا۔
ان دنوں میں اقتدار کی اس کشمکش کو بہت قریب سے اور بہت غور سے دیکھ رہا تھا لیکن اس دور میں میرے عقائد و نظریات کے حوالے سے قادیانی امت سے کوئی بنیادی اختلاف نہ تھا اور ایک روائتی قادیانی کی طرح میں اتنا ہی غالی تھا جتنا کہ ایک قادیانی ہوسکتا ہے فرق صرف یہ تھا کہ میں غالباََ اپنی والدہ محترمہ کی تربیت کے زیر اثر قادیانیوں کے اس عمومی طریق استدلال کا سخت مخالف تھا جس کے تحت وہ مرزا غلام احمد اور اس کی اولاد کا معمولی معمولی باتوں میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے موازنہ شروع کردیتے تھے اور میری اس پر بے شمار لڑائیاں ہوئیں( شاید یہی وہ عمل تھا جس کے صدقے اللہ پاک نے شفیق مرزا کو قادیانیت کی دلدل سے باہر نکلنے میں راہنمائی فرمائی۔ راقم)
قادیانیوں کی اس بارے دریدہ ذہنی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا ایک با اثر مولوی جو آج کل اپنی خناسیت کی وجہ سے گھٹنوں کے درد سے لاچار ہے کہا کرتا تھا کہ خاتم النبیین کی طرز پر ایسی ترکیبیں اس کثرت سے زوردار طریقے سے رائج کرو کہ اس ترکیب کی (نعوذباللہ) کوئی اہمیت ہی نہ رہے۔
یاد رہے کہ میری والدہ محترمہ میرے والد کے بے حد اصرار کے باوجود قادیانیت کے جال میں نہیں پھنسیں اور میں نے کبھی ایک مرتبہ بھی ان کی زبان سے مرزا غلام احمد یا اس کے کسی نام نہاد خلیفہ کا نام تک نہیں سنا وہ کہا کرتی تھیں کہ میں پانچ وقت نماز پڑھتی ہوں ، حکم خداوندی ادا کرتی ہوں ، تہجد بھی پڑھتی ہوں ،اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ و خیرات بھی میرا معمول ہے اگر اس کے باوجود خدا تعالیٰ مجھے نہیں بخشتا تو نہ بخشے۔ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی نہیں مان سکتی۔(اس ماں کی ہمت اور عقیدے کو سلام ہو۔راقم)
مرزا ناصر احمد کی گدی نشینی پر جب ہارس ٹریڈنگ شروع ہوئی تو میں نے اس پر سخت تنقید کرتے ہوئے احتجاج کیا اور اپنی محفلوں میں اس پر خوب کھل کر تبصرے کیے ایک موقع پر ہمارے ایک جھنگوی دوست نے مجھ سے پوچھا اگر کسی دوسرے پیر کے بیٹے اور پوتے اس کے بعد گدی پر بیٹھ جائیں تو ہم اسے گدی کہتے ہیں لیکن مرزا غلام احمد کے بیٹے اور پوتے یہی کام کرلیں تو یہ خلافت کیوں کہلاتی ہے تو میں نے اس سے کہا جس طرح عام آدمی کو آنے والا خواب ''خواب'' ہوتا ہے اور خلیفہ جی کو آںے والا خواب ''رویا'' ہوتا ہے اسی طرح یہ گدی خلافت ہوتی ہے مرزا ناصر احمد کے جاسوسوں نے فوراََ اسے اس بات کی خبر کردی اور وہ بہت چراغ پا ہوئے اور ایک اجتماعی ملاقات میں میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اس نے مجھے دھمکی دی کہ آپ کوئی بات نہیں مانتے آپ کو خیال رکھنا چاہیے میں اسی لحظہ سمجھ گیا کہ اب مرزا ناصر احمد کے تلوے جلنے لگے ہیں اور وہ کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے میرے خلاف اقدامات کریں گے اسی دوران ایک اور واقعہ ہوا کہ میں لیہ میں مقیم تھا کہ بیت المال کا ایک کلرک جسے ربوہ کی زبان میں انسپکٹر بیت المال کہتے ہیں میرے پاس ٹھہرا اور آزادانہ بات چیت کے دوران اس نے مجھے اندرونی حالات بتاتے ہوئے کہا کہ خاندان والے خود تو کوئی چندہ نہیں دیتے لیکن ہمارے حقیر معاوضوں میں سے بھی چندہ کے نام پر جگا ٹیکس کاٹ لیتے ہیں ان دنوں مرزا ناصر احمد کسی دورے پر افریکہ یا کسی اور ملک گیا ہوا تھا میں نے کہا اگر تم ایسے ہی دل گرفتہ ہو تو دعا کرو اس کا جہاز کریش ہوجائے۔ اس آدمی نے یہ بات توڑ مروڑ کر لیہ کے مقطوع النسل امیر جماعت فضل احمد کو بتائی تو اس نے نمبر بنانے کے لیے مرزا ناصر احمد کو فوری رپورٹ کردی کہ شفیق تو تمہارا جہاز کریش ہونے کی دعا کرتا ہے مرزا ناصر کو یہ بات سن کر آگ لگ گئی مجھے فوراََ واپس بلایا گیا۔ سو پہلے تو ربوہ کے ڈی آئی جی عزیز بھانبڑی اور اس کے گماشتوں کے ذریعے قادیانی غنڈے میرے پیچھے لگائے گئے مگر میں پھر بھی باز نہ آیا تو تو ربوہ کی تمام عبادت گاہوں میں میرے سوشل بائیکاٹ کا اعلان کردیا گیا اور پاکستان کی تمام جماعتوں کے افراد کو خطوط کے کے ذریعے بھی اطلاع کردی گئی اور مرزا ناصر احمد نے اس پر پورا ایک خطبہ بھی دے ڈالا جو آج تک شائع نہیں ہوا۔
میرا مزید ناطقہ بند کرنے کے لیے میرے دو بڑے بھائیوں سے تحریری عہد لیا گیا کہ وہ مجھ سے کوئی تعلق نہ رکھیں سو انہوں نے بھی مجھے نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور میرے آبائی گھر پر تسلط جما کر مجھے وہاں سے بھی نکال دیا۔ یہ واقعات صرف مجھ پر ہی نہیں بیتے اور سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ اس صورت حال سے دوچار ہوئے مگر کسی حکومت نے انسانی حقوق کی کسی تنظیم نے اس پر آواز احتجاج بلند نہیں کی۔ کسی عاصمہ جہانگیر آئی اے رحمان نے ان لوگوں کے بنیادی ، شہری اور انسانی حقوق کی بحالی اور ان کو پہنچائے جانے والے نقصان کی تلافی کے لیے آواز نہیں اٹھائی مگر کسی قادیانی کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھ جائے تو شور مچا دیا جاتا ہے۔
ایک طرف تو یہ صور حال تھی اور دوسری طرف بڑے قادیانی عہدے دار مجھے ''حضور'' سے معافی مانگ لینے کی تلقین کرتے رہے لیکن میں قضیب احمر کو کسی بھی صورت میں گاجر کہنے کے لیے تیار نہ ہوا تو قادیانیوں نے لاہور میں میری رہائش گاہ پر آ کر مجھے قتل کرنے اور سبق سکھا دینے کی دھمکیاں دیں۔ لاہور میں بہترین مکان خرید کر دینے کی بھی پیشکش ہوئی مگر میں اس ترغیب و ترصیب کے بھرے میں نہ آیا۔ قادیانی امت کا رنج اس بات سے مزید بڑھ گیا کہ میرا اختلاف اب انگریز کے خود کاشتہ پودے کے صرف اعمال ہی سے نہیں نظریات سے بھی تھا اور میں مرزا غلام احمد کی ظلی بروزی، لغوی ،اور غیر تشریعی نبوت پر لعنت بھیج کر مکمل طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سبز پرچم کے نیچے آچکا تھا۔
مرزا ناصر احمد کی گدی نشینی کے عہد میں ان کے مختلف مغلئی مشاغل کی کہانیاں ٹی آئی کالج سے لے کر ربوہ کے ہر گھر تک پھیلی ہوئی تھیں جہاں کسی خوش رو کا بسیرا تھا ۔ اور اس طرح ''خاندان نبوت'' کی دوسری کلیاں بھی اپنے ذوق کا سامان کرنے کی وجہ سے گوناگوں کہانیوں کی زد مین تھیں لیکن مرزا ناصر احمد کے سینکڑوں کبوتروں کو ٹی آئی کالج کی رہائش گاہ سے ''قصر خلافت'' منتقل کرنا یا ان کے آزاد کردینے کا معاملہ خاصے دنوں تک ایک مسئلہ بنا رہا اور مولوی تقی نے اس پر بڑا دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مغل کوئی ''بازی'' ترک کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔
ایک دن مرزا ناصر احمد کے ''فیض جسمانی'' کے کرشموں کا بیان جاری تھا اور جو دھامل بلڈنگ میں واقعہ دواخانہ نورالدین میں حکیم عبدالوہاب بڑے مزے لے کر سنا رہے تھے کہ صاحبزادہ صاحب نے کس طرح ریلوے کے ایک کانٹے والے کی لڑکی ثریا کو اس کے باپ کی غیر موجودگی میں خود اس کے ریلوے کوارٹر میں جا ''لتاڑا'' ۔ ابھی یہ حکایت ختم بھی نہ ہوئی تھی الشرکۃ الاسلامیہ والی پرانی بلڈنگ کے کے مالک حکیم صاحب کو ملنے کے لیے آگئے اور باتوں باتوں میں احمدیت کی مخالفت کرنے والوں کو ذلیل وخوار ہونے کے واقعات کا تذکرہ شروع ہوگیا اور تمام اکابر مسلمانان پاک و ہند کو پیش آنے والے مبینہ مصائب کو احمدیت کی مخالفت کی سزا قرار دے کر ''احمدیت'' کی سچائی ثابت کی جانے لگی۔ جب حکیم صاحب کے پرانے شناسا اس نووارد نے یہ داستان ختم کی تو حکیم صاحب نے بڑی آہستگی سے کہا کہ وہ آپ کی بیٹی کے ساتھ جو کچھ کیا گیا تھا ، اس کے بعد بھی آپ ربوہ میں ہی رہ رہے ہیں تو میں حیران رہ گیا کہ ایک طرف تو وہ ''احمدیت'' کے مخاصمت پر مخالفین کو پہنچنے والے نقصانات اور آلام و مصائب کو اپنے ''مسیح موعود'' اور ''مصلح موعود'' کی ''کرامات'' کے طور پر پیش کر رہا تھا مگر جونہی اس نے حکیم صاحب کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو اس کی آنکھیں بھرا گئیں اور وہ گلوگیر آواز میں کہنے لگے حکیم صاحب انسان زندگی میں مکان ایک بار ہی بنا سکتا ہے اور پھر اب تو بچے بھی جوان ہوگئے ہیں ان کی شادیوں کا مسئلہ بھی ہے۔ برادری سے پہلے ہی قطع تعلق کرچکے ہیں اب جائیں تو کہاں جائیں! دواخانہ نورالدین کے انچارچ اکرم بھی اس محفل میں موجود تھے وہ اس روایت کی تصدیق کرسکتے ہیں۔ محمد علی سبزی فروش کا المناک قتل بھی ربوہ میں مرزا ناصر احمد کے عہد میں ہی ہوا اور اس کی بھی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ چونکہ ان کا ''خاندان نبوت'' کے گھروں کے اندر آنا جانا تھا اور وہ رازہائے درون خانہ کو بیان کرنے میں بھی کسی حجاب سے کام نہیں لیتا تھا اس لیے بری طرح ذبح کردیا گیا مگر '' نیک اور پاکباز'' لوگوں کی اس بستی کے کسی ایک فرد نے بھی قتل کے اس راز سے پردہ اٹھانے کی جراءت نہ کی۔
یوں تو قادیانیت امت کے بزر جمہر مرزا محمود احمد کے عہد ہی سے سیاست کا کھیل بھی کھیلتے رہے لیکن 1953 کی مجاہدانہ تحریک نے ان کو بڑی حد تک محدود کرکے رکھ دیا اور مرزا محمود احمد نے ان تمام اسلامی اصطلاحات کا استعمال ترک کرنے کا عہد کرلیا جو امت مسلمہ کے لیے اذیت کو موجب بنتی رہی ہیں لیکن وہ قادیانی ہی کیا ہوا جو اپنی بات پر قائم رہ جائے(آہ بڑی سچی بات کی :D۔راقم) جونہی حالات بدلے مرزا محمود احمد نے بھی گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیا اور دوبارہ وہی پرانی ڈگر استعمال کرلی۔ مرزا محمود احمد اس کے جلد ہی بعد ڈاکٹر ڈوئی کی طرح عبرتناک فالج کی گرفت میں آیا تو مرزا ناصر احمد نے جس کے لیے اس کا شاطر والد جماعت کو اپنے خطوط کی ابتدا میں ''ھوالناصر'' لکھنے کی تلقین کرکے راہ ہموار کرچکا تھا اور پھر عیسائی طریقے کے مطابق اپنے حواریوں کی ایک منڈلی کے ذریعے اپنے آپ کو ''منتخب'' کروا لیا، کھل کر پرزے نکالنے شروع کردیے۔ اس کے بعد مرزا طاہر احمد نے اپنی گیم آف نمبرز میں مرزا رفیع احمد کو مات دے کر اور مرزا لقمان احمد کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کرکے گدی نشینی کے لیے اپنا راستہ بنایا۔
ذوالفقار علی بھٹو کو آگے لانے میں قادیانی امت نے تقریباََ 16 کروڑ روپیہ خرچ کیا اور اپنے تمام تنظیمی اور دوسرے وسائل اس کے لیے استعمال کیے اس عہد میں مرزا طاہر احمد صاف طور پر سیکنڈ ان کمان بن کے سامنے آیا اور جماعت میں یوں تاثر دیا جانے لگا کہ اب احمدیت کا غلبہ ہوا ہی چاہتا ہے اور کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔ لیکن جب آٹھویں عشرے کے اوائل میں تحریک ختم نبوت پوری قوت سے دوبارہ ابھری اور ذوالفقار علی بھٹو نے ہی ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا تو قادیانی اپنے ہی زخموں کو چاٹ کر رہ گئے۔
پروفیسر سرور مرحوم سے ایک دفعہ بتایا کہ تحریک ختم نبوت کے ایام میں قادیانیوں نے ایک وفد خان عبدالولی خان سے ملنے کے لیے بھیجا اور جس وقت اس نے خان صاحب سے ملاقات کی میں بھی وہیں پر موجود تھا ۔ جب قادیانیوں نے بھٹو کو لانے میں اپنی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہمارا ساتھ چھوڑ گیا ہے اس لیے آپ ہمارا ساتھ دیں اور اپنے سیکولر نظریات کے حوالے سے اس تحریک کے پس منظر میں ہمارے حق میں آواز اٹھائیں تو خان عبدالولی خان نے بے ساختہ کہا بھئی پاجا خان کا بیٹا اتنا بے وقوف نہیں ہے کہ جس بھٹو کو لانے کے لیے تم نے 16 کروڑ روپیہ خرچ کیا ہے اس مسئلہ میں اس کی مخالفت کرکے خواہ مخواہ امت مسلمہ کی مخالفت مول لے لوں۔
تحریک ختم نبوت کے دنوں میں آغا شورش مرحوم کے ہفت روزہ ''چٹان'' میں بڑی باقاعدگی سے کبھی اپنے نام سے اور کبھی کسی قلمی نام سے قادیانی امت کے بارے میں لکھا کرتا تھا آغا صاحب کے پاس یوں تو آنے جانے والوں کا عام دنوں میں بھی تانتا بندھا رہتا تھا لیکن اس دوران تو وہاں سیاست دانوں ، علماء اور دانشوروں کی آمد ایک سیلاب کی صورت اختیار کیے ہوئے تھی آغا صاحب ہر قابل ذکر آدمی کو کہتے کہ بھئی یہ کام صرف اور صرف ذولفقار علی بھٹو ہی کرسکتا ہے اس لیے تمام سیاسی اختلاف بالائے طاق رکھ کر اس کام کے لیے اس کی حمایت کریں پھر جوں جوں وقت گزرتا جائے گا اس فیصلے کے اثرات اپنا رنگ دکھانا شروع کردیں گے اور قادیانی اپنے ہی زہر میں گھل گھل کر مرجائیں گے یہ چند باتیں تو یوں ہی جملہ معترضہ کے طور پر آگئیں ۔ بیان ''خاندان نبوت'' میں ہونے والی جنگ اقتدار کا ہورہا تھا مرزا طاہر احمد کی جانب سے مرزا ناصر احمد سے رشتہ کو مضبوط کرلینے کے بعد اس کی لابی بہت مضبوط ہوچکی تھی اور مرزا رفیع احمد کے خلاف چھوٹی چھوٹی اور معمولی شکائتیں کرکے اس نے اپنا مقام مرزا ناصر احمد کی نظروں میں خوب بنا لیا تھا۔ اس لیے جب مرزا ناصر احمد ایک نوخیز دوشیزہ کو ''ام المومنین'' بنا کر راہی ملک عدم ہوئے تو مرزا طاہر احمد کی گدی نشینی میں کوئی روک باقی نہ رہی اور اس نے اقتدار کی باگ دوڑ سنبھال کر تمام وہ حربے اختیار کیے جو اورنگ زیب نے اپنے والد اور بھائیوں کے خلاف استعمال کیے تھے ۔ اس ماحول میں پلنے والا مرزا طاہر احمد کس قدر نیک اور پاکباز ہوسکتا ہے اس کا اندازہ صرف اس ایک مثال سے ہوسکتا ہے کہ ربوہ میں تعلیم کے دوران ہی مجھے محمد ریاض احمد سکنہ عالم گڑھ ضلع گجرات نے جو اب فوج میں ہیں، نے ایک چوکیدار کے حوالے سے بتایا کہ میاں طاہر روزانہ نماز فجر پڑھنے کے بعد ولی اللہ شاہ سابق ناظم امور عامہ کے گھر جاتا ہے اور اسکی لڑکیوں کو '' سینے کے گنبدوں'' سے پکڑ کر اٹھاتا ہے اور آخری فقرہ پنجابی میں خود چوکیدار ہی کی زبانی ادا کرتا ہے کہ '' اوہ حرامزادیاں وی لیریاں ہو کے پئیاں رہندیاں نے''
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ قصہ یہیں تمام ہوا۔ یہ تو ایک ایسا شہر طلسمات ہے کہ اس کا ہر حصہ طلسم ہوشربا کو بھی شرما کر رکھ دے اور بیدی کا یہ جملہ بلاشبہ اپنے اندر بے پناہ صداقت لیے ہوئے ہے '' کہ بڑے گھرانوں کی غلاظتیں بھی بہت ہی بڑی ہوتی ہیں''
قادیانی امت کے راہنماوں کی بداعمالیوں کے بارے میں جب میں حق الیقین کے مرتبے پر پہنچ گیا تو میں نے دنیا بھر کے مسلمان دانشوروں کی چیدہ چیدہ کتب کا بغور مطالعہ کیا کہ قادیانیوں کے اعمال کے بعد ان کے افکار نظریات کی صحت کا بھی جائزہ لوں تو چند ہی دنوں میں قادیانی افکار و نظریات کا علمی و عقلی بودا پن بھی مجھ پر روز روشن کی طرح واضع ہوگیا اور خاص طور پر فلسفی شاعر علامہ ڈاکٹر اقبال کے نہرو کے نام خطوط اور تشکیل جدید الہیات اسلامیہ کے مطالعہ سے میرا ایمان اس بات پر چٹان کی طرح پختہ ہوگیا کہ ختم نبوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی انٹرنیشنل فکر ہے اور اس کی علت غائی یہ ہے کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو وحدت خدا وندی اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے ایک نقطعے پر اکٹھا کیا جائے اور اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے اس لیے اس نے ہر شعبہ حیات میں اپنے انداز میں وحدت کا ایک سفر شروع کر رکھا ہے۔
مذاہب کی دنیا میں اس نے حضرت آدم علیہ السلام سے اس سفر کا آغاز کیا اور جب تک دنیا سفری اور مواصلاتی اعتبار سے اس رنگ میں رہی کہ گاؤں ہر قریہ اور ہر بستی اپنی جگہ ایک الگ دنیا کی حیثیت رکھتی ہے تو ان لوگوں کی طرف قومی اور زمانی نبی تشریف لاتے رہے لیکن جب علم الہٰی کے مطابق حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دنیا کا سفر گلوبل ولیج کی جانب شروع ہوا تو اللہ تعالیٰ نے تمام سابق انبیاء کرام کی اصولی تعلیم کو قرآن کریم میں جمع کرکے اسے خاتم الکتب بنادیا اور ان کے اوصاف او خوبیوں کو نہایت ارفع و اعلیٰ شکل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ میں جمع کرکے انہیں خاتم النبیین کے منصب پر سرفراز کردیا اس لیے جس طرح خاتم الکتب قرآن مجید کے بعد کسی دوسری کتاب کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے وحدت ادیان، وحدت انبیاء، وحدت کتب، وحدت انسانیت، وحدت کائینات اور وحدت نفس و آفاق کے اس پروگرام کو ڈاینامائٹ کرنا چاہتا ہے جو اس نے حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا اور ایسا ہونا ناممکن ہے
ان چند سطور کی روشنی میں قادیانیوں کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کتنی گمراہ کن کتنی خوفناک اور کتنی تباہ کن منزل کی طرف جا رہے ہیں اور اس میں مرزا غلام احمد اور اس کے نام نہاد نظریات کی حیثیت کیا ہے؟ ان نظریات کو سمٹتے اور مٹتے ہوئے ہم خود دیکھ رہے ہیں۔ ان کا مٹنا اور پرچم ختم نبوت کی سر بلندی تقدیر خداوندی ہے اور اسے دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت نہیں روک سکتی۔ قادیانیت تو ویسے ہی اب فرنگ کی متروکہ رکھیل بن کر رہ گئی ہے جس کے منہ میں دانت ہے نا پیٹ میں آنت۔ اس لیے اب محض نعرے بازی اور ترقی کا پروپیگنڈا اسے زندہ نہیں رکھ سکتا ۔ عملی طور پر بھی اس نے امت مسلمہ کے انتشار میں اضافہ کرنے اور مختلف مذاہب کے بانیوں کے خلاف انتہائی غلیظ زبان استعمال کرکے ان کی باہمی مناقشت کو تیز کرنے کا ''فریضہ'' ہی انجام دیا ہے اس لیے ہر صحیح الفکر آدمی یہ سمجھ رہا ہے کہ جس نام نہاد نبی نے 86 سے زائد کتب میں برطانوی حکومت کے خلاف ایک لفظ تک نہیں لکھا اور محض اس می مدح کے قصیدے ہی لکھے وہ کیا کسر صلیب کرسکتا ہے اور جلد ہی یہ بات قادیانیوں کی سمجھ میں بھی آجائے گی اور اب مرزا طاہر احمد کو بھی اپنے دادا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے '' ستارہ قیصرہ'' کی طرز پر کوئی تحفہ شہزادہ چارلس کے نام سے کوئی قصیدہ مدحیہ لکھ دینا چاہیے تاکہ کسر صلیب کا جو کام مرزا غلام احمد کے ہاتھوں نامکمل رہ گیا ہے وہ مکمل ہوجائے اور قادیانیت کے مذہبی بیگار کیمپ میں غلامی کی زندگی بسر کرنے والے جو ''ہاری'' ایک عرصہ سے یہ راگ الاپ رہے ہیں
جب کبھی بھوک کی شدت کا گلہ کرتا ہوں
وہ عقیدوں کے غبارے مجھے لادیتے ہیں
ان کی اشک شوئی کا بھی شاید کوئی اہتمام ہوجائے اگرچہ یہ امکانات بہت ہی دور دراز کے ہیں کیونکہ جس امت کے نام نہاد نبی کے لیے حقیقت الوحی کے ڈیڑھ سو کے قریب ''الہامات'' میں سے سو سے اوپر صرف دس روپے کی آمد کے بارے میں ہیں ان کی دنائت سے اچھی امید کیونکر کی جاسکتی ہے ہاں البتہ یہ کام پاکستان کے انسانیت نواز حلقوں کا ہے کہ وہ اس معاملہ کو ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ایشیا واچ اور انسانی حقوق کی دوسری تنظیموں کے سامنے اٹھائیں اور قادیانیوں کے اس پروپیگنڈے کا توڑ کریں جو وہ بیرونی دنیا کے سامنے پاکستان میں اپنے اوپر ہونے والے مصنوعی مظالم کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ ( شفیق مرزا ۔۔۔۔۔لاہور)
 
آخری تدوین :
Top