• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا غلام احمد کی موت کی جگہ کی پیشگوئی

مرتضیٰ مہر

رکن ختم نبوت فورم
مرزا غلام احمد کی موت کی جگہ کی پیشگوئی

مرزا غلام احمد کی موت لاہور میں ہوئی اور قبر قادیان میں بنی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن کریم میں ہے کہ ہر جی کو موت کا مزہ ضرور چھکنا ہے لیکن اسے یہ پتہ نہیں کہ یہ مزہ کب کہاں اور کس جگہ چھکنا ہے ہاں اگر اللہ تعالیٰ کسی کو پیشگی اسکی اطلاع کر دے اور وہ اسے لوگوں سے بیان کرتا پھرے تو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اسکی یہ بات واقع کے مطابق نکلی یا نہیں اگر وہ بات خلاف واقعہ نکلی تو یہ اسکے جھوٹا ہونے کا کھلا نشان ہوتا ہے اسی طرح کسی شخص کا اس بات کی خواہش کرنا کہ اسکی موت مکہ المکرمہ یا مدینتہ المنورۃ میں آئے اور اسے جنت المعلی یا جنت البقیع جیسے مقدس مقام میں دفن ہونے کی سعادت نصیب ہو بڑی نیک خواہش ہے کوئی بُری خواہش نہیں . اس خواہش کی تکمیل کے لئے خلوص دل سے دعا بھی جائز ہے ممنوع نہیں ہے . لیکن دعویٰ اور تحدی کے ساتھ یہ کہنا کہ میری موت مکہ مدینہ میں ہوگی یہ وہی کہہ سکتا ہے جسے خدا نے پہلے سے بتا دیا ہو . اور وہ خدا کے وعدے پر دوسروں کے آگے بطور پیشگوئی کے اپنی اس سعادت کا اظہار کر سکتا ہے . اگر یہ بات واقع کے مطابق نکل آئے تو یہ خدا کی بات سمجھی جائے گی اور اگر یہ بات واقع کے مطابق نہ نکلے تو کسی کو یہ فیصلہ میں کوئی مشکل نہ ہونی چاہیے کہ اس قسم کا دعویٰ کرنے والا جھوٹا تھا جس نے اپنی بات کو خدا کے ذمہ لگایا اور وہ افتراء علی اللہ کا مجرم بنا .
اللہ تعالیٰ کے جتنے پیغمبر آئے ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ میری موت فلاں دن اور فلاں فلاں جگہ پر ہوگی . اور یہ انکی نبوت کی سچائی کا نشان ہو گا . آپ ہی سوچیں کہ اللہ تعالیٰ کے سچے پیغمبر اگر اس طرح کی پیشگوئی کریں اور خدا تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق وہ اسی وقت اور اسی جگہ سے سفر آخرت پر چل دیں تو انکے منکرین کو اس سے کیا فائدہ ہو گا . اگر وہ ایمان بھی لائیں گے تو پیغمبر کے ہاتھ پر نہیں . اسلئے پیغمبر ہمیشہ ان حقائق کو سامنے لاتے ہیں جن سے انکی زندگی میں سچائی کا بول بالا ہو جائے اور منکرین کو مجال انکار باقی نہ رہے .
مرزا غلام احمد مامور من اللہ ہونے کا مدعی تھا اس نے ایک مرتبہ یہ پیشگوئی کر دی کہ اس کی موت دنیا کے مقدس ترین مقام مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں ہوگی (گویا خدا نے اسے یہ تو بتایا کہ وہ ایشیا میں نہیں مرے گا لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ مکہ میں فوت ہو گا یا مدینہ میں ہو گا یا کہہ کر بات گول گول رکھی . سمجھ میں نہیں آتا کہ مرزا صاحب کے ساتھ بار بار یہ مذاق کون کر رہا تھا اور اسے کوئی بات بھی قطعی نہیں بتاتا تھا) مرزا غلام احمد نے اپنی موت کے تقریباً ڈھائی سال پہلے (14جنوری 1906 ء کو) بتایا کہ اسے خدا نے کہا ہے کہ اسکی قبر عجم کے کسی علاقے میں نہیں ہوگی مکہ یا مدینہ میں ہوگی اس کا یہ اعلان قادیانی آرگن بدرج 2نمبر 193جنوری 1906 ء اور الحکم ج 10نمبر 3-24جنوری 1906 ء کے صفحہ اوّل پر شائع ہوا . قادیانیوں کی مقدس کتاب تذکرہ میں بھی اسکا تذکرہ موجود ہے مرزا غلام احمد نے علی الاعلان کہا کہ

”ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں“ (تذکرہ صفحہ 503 نیا ایڈیشن)

صاف صاف اُردو زبان میں کی جانے والی پیشگوئی قادیانی عوام کے لئے مقامِ عبرت ہے وہ خود بتائیں کہ مرزا غلام احمد کہاں فوت ہوا؟ کیا اسکی یہ پیشگوئی درست ثابت ہوئی؟ کیا وہ لاہور میں بمرض ہیضہ فوت نہیں ہوا؟ اور کیا اسے قادیانی میں دفنایا نہیں گیا؟ اب آپ ہی بتائیں کہ کیا مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی؟ مرزا صاحب کو تو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زندگی بھر زیارت تک نہ ہو سکی . نہ دعویٰ نبوت سے پہلے اس پاک سرزمین پر اسکے ناپاک قدم پڑے اور نہ دعویٰ نبوت کے بعد اسے کبھی ہمت ہوئی کہ ارضِ حرم کی طرف نگاہ اُٹھا کر بھی دیکھے . اگر کسی نے ان سے حج کے لئے نہ جانے پر اعتراض کیا بھی تو اس کی طرح طرح کی تاویل کر کے اپنی جان بچا لی . کبھی کہا گیا کہ مرزا صاحب پر حج فرض نہ تھا کیونکہ ’’انکی صحت درست نہ تھی ہمیشہ بیمار رہتے تھے.‘‘(الفضل قادیان 10ستمبر 1929 ء) کبھی کہا گیا کہ ”حجاز کا حاکم آپ کا مخالف تھا اور وہاں آپ کی جان کو خطرہ تھا اسلئے جا نہ سکے“(ایضاً) کبھی کہا گیا کہ انکے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ حج کے لئے جاتے (سیرت المہدی جلد 1 حصہ سوم صفحہ 624 روایت نمبر 672)کبھی کہا گیا کہ حج کا راستہ مخدوش تھا(ایضاً) کبھی کہا گیا کہ میں اس وقت خنزیروں کو قتل کر رہا ہوں بہت سے خنزیر قتل ہو چکے ہیں اور سخت جان خنزیر ابھی باقی ہیں ان سے فارغ ہو جاؤں تو پھر جاؤں گا (ملفوظات احمدیہ جلد 5صفحہ264)
حاصل یہ کہ مرزا صاحب کو نہ حج کی توفیق ملی نہ کبھی حرمین شریفین کی زیارت کا موقع ملا . چہ جائے کہ مرزا صاحب کو اس مقدس مقام میں دفن ہونے کی سعادت ملتی . قادیانیت مبلغین مرزا صاحب کی اس پیشگوئی کے غلط ہونے کے جواب میں یہ کہتے ذرا نہیں شرماتے کہ مرزا صاحب کی اس پیشگوئی سے مراد یہ ہے کہ مرزا صاحب کو موت سے پہلے مکی فتح ملے گی اور لوگوں کے دل انکی طرف جھک پڑیں گے . آپ ہی بتائیں کہ کیا یہ عذر کسی درجے میں بھی قبول کیا جا سکتا ہے ...نہیں ...مرزا صاحب کو موت سے پہلے جن اذیتوں اور ذلتوں سے گزرنا پڑا اس سے کوئی پڑھا لکھا قادیانی نا واقف نہیں ہو گا . مرزا صاحب کو قبل از موت خارجی اور داخلی طور پر رسوائیاں ملتی رہیں اور لوگوں میں انکے خلاف نفرت بڑھتی رہی اور مخالفین خود قادیان آ کر ان کو شکست سے دوچار کرتے رہے اور وہ اپنی ہی جماعت کے سامنے دن رات ذلیل ہوتا رہا.
آنحضرت ﷺ کی مکی فتح اسلام کا ایک تاریخی اور انقلابی موڑ ہے جبکہ مرزا صاحب مرتے مرتے بھی ذلت و حسرت کی عبرتناک تصویر بن گئے تھے اور انکی اس ذلت ناک زندگی پر اسکے مخالفین فتح کے نعرے لگا رہے تھے . آپ ہی سوچیں کیا مکی فتح اسے کہتے ہیں ؟مرزا صاحب کے خدا نے صاف لفظوں میں ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ مکی فتح کی بشارت ہے . یہ کیوں کہا کہ تو مکہ میں مرے گا یا مدینہ میں . کسی نے دشمن کے مقابلے میں مرنے کو بھی فتح کا نام دیا ہے؟
مرزا صاحب کی لاہور میں موت اور قادیان میں اسکی قبر اسکے جھوٹا ہونے کی ایسی نا قابلِ تردید شہادت ہے جو ہمیشہ قادیانیوں کو زلت و رسوائی سے دوچار کرتی رہے گی . ہاں جو قادیانی ان واقعات سے عبرت حاصل کر لیں تو انکے لئے سیدھے راستہ کا پا لینا کوئی مشکل نہیں ہے . فاعتبر وایااولی الابصار
 
Top