• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

آیت خاتم النبیین پر قادیانی اعتراضات (اعتراض نمبر۱۰:من یطع اﷲ والرسول )

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
آیت خاتم النبیین پر قادیانی اعتراضات (اعتراض نمبر۱۰:من یطع اﷲ والرسول )
’’ومن یطع اﷲ والرسول فاولیئک مع الذین انعم اﷲ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین وحسن اولیٔک رفیقا۰ نساء ۲۹‘‘
قادیانی :جو اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں وہ نبی ہوں گے‘ صدیق ہوں گے‘ شہید ہوں گے‘ صالح ہوں گے ۔اس آیت میں چار درجات کے ملنے کا ذکر ہے۔اگر انسان صدیق ‘ شہید‘صالح بن سکتا ہے تو نبی کیوں نہیں بن سکتا؟۔تین درجوں کو جاری ماننا ایک کو بند ماننا تحریف نہیں تو اور کیا ہے؟۔ اگر صرف معیت مراد ہو تو کیا حضرت صدیق اکبر ؓ ‘حضرت فاروق اعظم ؓ صدیقیوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوں گے۔ خود صدیق اور شہید نہ تھے؟۔
جواب۱ :آیت مبارکہ میں نبوت ملنے کا ذکر نہیں بلکہ جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ کی اطاعت کرے وہ آخرت میں انبیاء ‘ صدیقوں ‘شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ جیسا کہ آیت کے آخری الفاظ ’’حسن اولئک رفیقا۰‘‘ظاہر کرتے ہیں۔
جواب ۲: یہاں معیت ہے عینیت نہیں ہے۔ معیت فی الدینا ہر مومن کو حاصل نہیں اس لئے اس سے مراد معیت فی الآخرۃ ہی ہے۔ چنانچہ مرزائیوں کے مسلمہ دسویں صدی کے مجدد امام جلال الدین نے اپنی تفسیر جلالین شریف میں اس آیت کا شان نزول لکھا ہے:
’’قال بعض الصحابۃ للنبی ﷺ کیف نرٰک فی الجنۃ وانت فی الدرجات العلی۰ ونحن اسفل منک فنزل ومن یطع اﷲ والرسول فیما امربہ فااولیئک مع الذین انعم اﷲ من النبیین والصدیقین ۰ افاضل اصحاب الا نبیاء لمبا لغتھم فی الصدق والتصدیق والشھداء القتلی فی سبیل اﷲ والصلحین غیر من ذکر وحسن اولیئک رفیقا۰ رفقاء فی الجنۃ بان یستمتع فیھا برویتھم وزیارتھم والحضور معھم وان کان مقرھم فی درجات عالیۃ۰ جلالین ص ۸۰‘‘{بعض صحابہ کرام ؓ نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ جنت کے بلندو بالا مقامات پر ہوں گے۔ اور ہم جنت کے نچلے درجات پر ہوں گے۔ تو آپ ﷺ کی زیارت کیسے ہوگی؟۔ پس یہ آیت نازل ہوئی ’’ من یطع اﷲ والرسول۔۔۔۔۔۔ الخ‘‘یہاں رفاقت سے مراد جنت کی رفاقت ہے کہ صحابہ کرام ؓ انبیاء علیہم السلام کی زیارت وحاضری سے فیض یاب ہوں گے۔ اگرچہ ان (انبیائ) کا قیام بلند مقام پر ہوگا۔}
اسی طرح تفسیر کبیر ص ۱۷۰ ج۱۰ میں ہے:
’’من یطع اﷲ والرسول ذکروا فی سبب النزول وجوھا۰ الا ول رویٰ جمع من المفسرین ان ثوبان ؓ مولیٰ رسول اﷲ ﷺ کان شدید الحب لرسول اﷲ ﷺ قلیل الصبرعنہ فاتاہ یوما وقد تغیر وجھہہ ونحل جسمہ وعرف الخزن فی وجھہ فسالہ رسول اﷲ ﷺ عن حالہ فقال یا رسول اﷲ مابی وجع غیرانی اذالم ارٰک اشتقت الیک واستو حشت وحش شدید حتی القاک فذکرت الاخرۃ فخفت ان لااراک ھناک لاانی ان ادخلت الجنۃ فانت تکون فی الدرجات النبیین وانا فی الدرجۃ العبید فلا اراک وان انالم ادخل الجنۃ فحینٔد لااراک ابدا فنزلت ھذہ الایۃ۰‘‘{’’من یطع اﷲ ۔۔۔ ۔۔۔الخ‘‘ (اس آیت) کے شان نزول کے کئی اسباب مفسرین نے ذکر کئے ہیں۔ ان میں پہلا یہ ہے کہ حضرت ثوبان ؓ جو آنحضرت ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ وہ آپ کے بہت زیادہ شیدائی تھے۔ (جدائی پر)صبر نہ کرسکتے تھے۔ ایک دن غمگین صورت بنائے رحمت دو عالم ﷺ کے پاس آئے۔ ان کے چہرہ پر حزن وملال کے اثرات تھے۔ آپ ﷺ نے وجہ دریافت فرمائی ۔ تو انہوں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی تکلیف نہیں ۔ بس اتنا ہے کہ آپ ﷺ کو نہ دیکھیں تو اشتیاق ملاقات میں بے قراری بڑھ جاتی ہے۔ آپ ﷺ کی زیارت ہوئی آپ ﷺ نے قیامت کا تذکرہ کیا تو سوچتا ہوں کہ جنت میں داخلہ ملا بھی تو آپ ﷺ سے ملاقات کیسے ہوگی۔اس لئے کہ آپﷺ تو انبیاء کے درجات میں ہوں گے۔ اور ہم آپ ﷺ کے غلاموں کے درجہ میں۔ اور اگر جنت میں سرے سے میرا داخلہ ہی نہ ہوا تو پھر ہمیشہ کے لئے ملاقات سے گئے۔ اس پریہ آیت ناز ل ہوئی۔}
معلوم ہوا کہ اس معیت سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔
ابن کثیر ‘ تنویر المقیاس روح البیان میں بھی تقریباً یہی مضمون ہے:

حدیث نمبر۱
’’ عن معاذبن انس ؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ من قرء الف آیۃ فی سبیل اﷲ کتب یوم القیامۃ مع النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین وحسن اولیئک رفیقا۰منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند احمد ص ۳۶۳ ج ۱ ‘ابن کثیر ص ۲۳ ج ۱‘‘ {حضرت معاذ ؓ فرماتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ایک ہزار آیت اﷲ (کی رضا) کے لئے تلاوت کرے ۔ طے شدہ ہے کہ وہ قیامت کے دن نبیوں‘ صدیقوں‘ شہداء وصالحین کے ساتھ بہترین رفاقت میں ہوگا۔}
حدیث نمبر۲
’’قال رسول اﷲ ﷺ التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہداء ۰ منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند احمد ص ۲۰۹ ج ۲‘ ابن کثیر ص ۵۲۳ ج۱ طبع مصر‘‘ {آپ ﷺ نے فرمایا کہ سچا تاجرامانت دار (قیامت کے دن) نبیوں صدیقوں اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔}
مرزائی بتائیں کہ اس زمانہ میں کتنے امین وصادق تاجر نبی ہوئے ہیں۔

حدیث نمبر۳
’’ عن عائشہ ؓ قالت سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول مامن نبی یمرض الا خیربین الدنیا والآخرۃ وکان فی شکواہ الذی قبض اخذتہ مجۃ شدیداً فسمعتہ یقول مع الذین انعمت علیھم من النبیین فعلمتہ انہ خیر۰ مشکوٰۃ ص ۵۴۷ ج ۲‘ ابن کثیر ص ۵۲۲ ج ۱ طبع مصر‘‘{حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺسے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ ہر نبی مرض (وفات) میں اسے اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں رہنا چاہتا ہے یا عالم آخرت میں۔ جس مرض میں آپ ﷺ کی وفات ہوئی آپ ﷺ اس مرض میں فرماتے تھے ’’ مع الذین انعمت علیھم من النبیین ‘‘اس سے میں سمجھ گئی کہ آ پ ﷺ کو بھی (دنیا وآخرت میں سے ایک کا) اختیار دیا جارہا ہے۔}
کتب سیر میں یہ روایت موجود ہے کہ آنحضرت ﷺ نے وصال کے وقت یہ الفاظ ارشاد فرمائے:
’’ مع الرفیق الا علیٰ فی الجنۃ مع الذین انعمت علیھم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین۰ البدایہ والنھایہ ص ۲۴۱ ج ۵‘‘{رفیق اعلیٰ کے ساتھ جنت میں انعام یافتہ لوگوں (یعنی) انبیاء وصدیقین وشہداء وصالحین کے ساتھ۔}
معلوم ہوا کہ اس آیت میں نبی بننے کا ذکر نہیں کیونکہ نبی تو پہلے بن چکے تھے آپ ﷺ کی تمنا آخرت کی معیت کے متعلق تھی۔

حدیث نمبر۴
’’ عن انس ؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ من احبنی کان معیی فی الجنۃ۰ ابن عساکر ص ۱۴۵ ج ۳ بحوالہ موسوعۃ اطراف الحدیث النبوی ص۳۴ج۸‘‘{حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص مجھ سے (دنیا میں )محبت کرے گا (آخرت) جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔}
حدیث نمبر۵
’’ عن عمربن مرۃ الجہنی ؓ قال جاء رجل الی النبی ﷺ فقال یا رسول اﷲ ﷺ اشہدت ان لاالہ لااﷲ وانک رسول اﷲ وصلیت الخمس وادیت زکوٰۃ مالی وصمت رمضان فقال ﷺ من مات علیٰ ھذا کان مع النبیین والصدیقین والشہداء یوم القیامۃ ھکذا ونصب اصبعیہ۰ مسند احمد ‘ ابن کثیر ص ۵۲۳ ج ۱‘‘{ایک صحابی نے عرض کیا کہ میں کلمہ پڑھتا ہوں‘ نماز پڑھتا ہوں‘ زکوٰۃ دیتا ہوں‘ روزے رکھتا ہوں‘ آپ ﷺ نے فرمایا ان اعمال پر جس کو موت آجائے وہ قیامت میں نبیوں ‘ صدیقوں ‘ شہیدوں کی معیت وصحبت میں اس طرح ہوگا۔(اپنی دونوں انگلیوں کو اکٹھا کرکے دکھلایا۔)}
حدیث نمبر۶
’’قال علیہ السلام المرٔ مع من احب۰ مسند احمد ص ۱۰۴ ج۳‘‘{آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس سے محبت ہوگی۔}
ان تمام احادیث میں مع کا لفظ ہے۔ جو معیت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ان کو عینیت کے معنوں میں لینا ممکن ہی نہیں۔ محض اختصار سے یہ روایات عرض کی ہے ۔ ورنہ اس طرح کی بے شمارروایات ہیں۔ جیسے ’’الماھر بالقران مع الکرام البررۃ‘‘ وغیرہ ۔ ان کا احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں۔

درجات کے ملنے کا تذکرہ
قرآن کریم میں جہاںدنیا میں درجات ملنے کا ذکر ہے وہاں نبوت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگرچہ باقی تمام درجات مذکور ہیں جیسے دیکھو!
(۱)…’’ والذین آمنوا بااﷲ ورسلہ اولیئک ھم الصدیقون والشہداء عندربھم۰ الحدید ۱۹‘‘{اور جو لوگ یقین لائے اﷲ پر اور اس کے سب رسولوں پر وہی ہیں سچے ایمان والے اور لوگوں کا احوال بتلانے والے اپنے رب کے پاس۔}
(۲)… ’’ والذین آمنوا وعملوا الصالحات لندخلنھم فی الصالحین ۰ عنکبوت ۹‘‘{اور جو لوگ یقین لائے اور بھلے کام کئے ہم ان کو داخل کریں گے نیک لوگوں میں۔}
(۳)… ’’ سورۃ حجرات کے آخر میں ’’محاربین فی سبیل اﷲ‘‘ کو فرمایا’’ اولیئک ھم الصادقون۰‘‘
جواب۳ : من یطع اﷲ میں من عام ہے۔ جس میں عورتیں‘ بچے‘ ہیجڑے سب شامل ہیں۔ کیا یہ سب نبی ہوسکتے ہیں۔ اگر نبوت اطاعت کاملہ کا نتیجہ ہے تو عورت کو بھی نبوت ملنی چاہئے۔ کیونکہ اعمال صالحہ کے نتائج میں مرد وعورت کویکساں حیثیت حاصل ہے۔ جیسے فرمایا:
’’ من عمل صالحاً من ذکر اوانثی وھو مومن فلنحیینہ حیوٰۃ طیبۃ ولنجزینھم اجرھم باحسن ماکانوا یعلمون۰ النحل ۹۷‘‘{کہ کوئی اچھا عمل کرتا ہے مرد یا عورت اور وہ مومن ہے تو ہم یقینا اسے ایک پاک زندگی میں زندہ رکھیں گے۔ اور ہم یقینا انہیں ان کے بہترین اعمال جو وہ کرتے تھے اجردیں گے۔}
کیا اس میں آنحضرت ﷺ کا کمال فیضان ثابت نہ ہوگا کہ عورت جسے کبھی نبوت حاصل نہ ہوئی وہ بھی آپ ﷺ کے طفیل نبوت حاصل کرتی ہے؟۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبوت ورسالت اطاعت کاملہ کا نتیجہ نہیں۔
جواب ۴: کیاتیرہ سو سال میں کسی نے حضور ﷺ کی پیروی کی ہے یا نہ؟ اگر اطاعت اور پیروی کی ہے تو نبی کیوں نہ بنے؟ اور اگر کسی نے بھی اطاعت وپیروی نہیں کی تو آپ ﷺ کی امت خیر امت نہ ہوئی بلکہ شرامت ہوگی۔ (نعوذ باﷲ) جس میں کسی نے بھی اپنے نبی کی کامل پیروی نہ کی۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے سورت توبہ میں صحابہ کرام ؓ کے متعلق خود شہادت دے دی ہے کہ ’’یطیعون اﷲ ورسولہ۰ توبہ ۷۱‘‘یعنی رسول اﷲ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ اﷲ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کرتے ہیں۔ بتائو وہ نبی کیوں نہ ہوئے؟۔ اس لئے کہ اگر اطاعت کاملہ کا نتیجہ نبوت ہے تو اکابرصحابہ کرام ؓ کو یہ منصب ضرور حاصل ہوتا جنہیں’’ رضی اﷲ عنھم ورضواعنہ ‘‘ کا خطاب ملا اور یہی رضائے الٰہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ چنانچہ فرمایا :’’ ورضوان من اﷲ اکبر۰توبہ ۷۲‘‘
(۱)…مرزا قادیانی تحریر کرتا ہے: ’’ حضرت عمر ؓ کا وجود ظلی طور پر گویا حضور ﷺ کا وجود تھا۔ ‘‘ (ایام الصلح ص ۳۹ خزائن ص ۲۶۵ ج ۱۴)
(۲)…مرزا قادیانی نے لکھا کہ:’’ صحابہ کرام ؓ آنحضرت ﷺکے دست وبازو تھے۔‘‘ (سرالخلافتہ ص ۲۷ خزائن ص ۳۴۱ ج ۸)
(۳)…مرزا قادیانی نے لکھا کہ :’’ صدیق اکبر ؓ من بقیۃ طینۃ النبی ﷺ تھے۔‘‘ (سرالخلافۃ ص ۴۱ خزائن ص ۳۵۵ج۸)
(۴)…مرزا قادیانی نے لکھا کہ:’’ صدیق اکبر ؓ آیت استخلاف کا مصداق تھے۔‘‘ ( سرالخلافتہ ص ۳۸ خزائن ص ۳۵۲ ج ۸)
(۵)…مرزا قادیانی نے لکھا کہ: صحابہ کرام ؓ آنحضرتﷺ کی عکسی تصویر یںتھیں۔(فتح اسلام ص ۳۶ خزائن ص ۲۱ج۳)
جب مرزا قادیانی کے نزدیک حضرات صحابہ کرام ؓ آنحضرت ﷺ کے رنگ میں رنگے ہوئے اور کامل اتباع کا نمونہ تھے تو وہ نبی کیوں نہ بنے؟۔
جواب۵ :اگر بفرض محال پانچ منٹ کے لئے تسلیم کرلیں کہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں نبوت ملتی ہے تو اس آیت میں تشریعی اور غیر تشریعی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ تم غیر تشریعی کی کوئی تخصیص کیوں کرتے ہو؟۔اگر اس آیت میںنبوت ملنے کا ذکر ہے تو آیت میں النبیین ہے المرسلین نہیں۔ اور نبی تشریعی ہوتا ہے۔ جیسا کہ نبی ورسول کے فرق سے واضح ہے۔ تو اس لحاظ سے پھر تشریعی نبی آنے چاہئیں۔ یہ تو تمہارے عقیدہ کے بھی خلاف ہوا۔ مرزا کہتا ہے :
’’ اب میں بموجب آیت کریمہ :’’ واما بنعمت ربک فحدث۰‘‘ اپنی نسبت بیان کرتا ہوں۔ کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس تیسرے درجہ میں داخل کرکے وہ نعمت بخشی ہے کہ جو میری کوشش سے نہیں بلکہ شکم مادر میں ہی مجھے عطا کی گئی ۔‘‘( حقیقت الوحی ص ۶۷ خزائن ص ۷۰ ج ۲۲)
اس حوالہ سے تو ثابت ہوا کہ مرزا کو آنحضرت ﷺ کی اتباع سے نہیں بلکہ وہبی طورپرنبوت ملی ہے۔ تو پھر اس آیت سے مرزائیوں کا استدلال باطل ہوا۔
جواب۶ : اگر اطاعت کرنے سے نبوت ملتی ہے تو نبوت کسبی چیز ہوئی حالانکہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’ اﷲ اعلم حیث یجعل رسالۃ ‘‘ نبوت وہبی چیز ہے جو اسے کسبی مانے وہ کافر ہے۔

نبوت وہبی چیز ہے

نمبر۱ … علامہ شعرانی ؒ الیواقیت والجواہر میں تحریر فرماتے ہیں: ’’فان قلت فھل النبوۃ مکتسبۃ اوموھوبۃ فاالجواب لیست النبوۃ مکتسبۃ حتی یتوصل الیھا باالنسک والریاضات کما ظنہ جماعۃ من الحمقاء ۔۔۔۔۔۔ وقد افتی المالکیۃ وغیرھم بکفر من قال ان النبوۃ مکتسبۃ۰الیواقیت والجواہر ص ۱۶۴ ‘۱۶۵ ج ۱‘‘ {کہ کیا نبوت کسبی ہے یا وہبی ؟ تو اس کا جواب ہے۔ کہ نبوت کسبی نہیں ہے۔ کہ محنت وکاوش سے اس تک پہنچا جائے جیسا کہ بعض احمقوں (مثلا قادیانی فرقہ از مترجم) کا خیال ہے۔ مالکیہ وغیرہ نے کسبی کہنے والوں پر کفر کا فتویٰ دیا ہے۔}
نمبر۲ … قاضی عیاض ؒشفاء میں لکھتے ہیں:
’’ من ادعی نبوۃ احد مع نبینا ﷺ اوبعدہ ۔۔۔۔۔۔ اومن ادعی النبوۃ لنفسہ اوجوزا کتسابھا۰ والبلوغ بصفاء القلب الیٰ مرتبتھا الخ وکذالک من ادعی منھم انہ یوحیٰ الیہ وان لم یدع النبوۃ ۔۔۔۔۔۔ فھؤ لاء کلھم کفار مکذبون للنبی ﷺ لانہ اخبر ﷺ انہ خاتم النبیین لانبی بعدہ ۰ شفاء للقاضی عیاض ؒ ص ۲۴۶‘۲۴۷ج۲‘‘{ہمارے نبی ﷺ کی موجودگی یا آپ ﷺ کے بعد جو کوئی کسی اور کی نبوت کا قائل ہو یا اس نے خود اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ یا پھر دل کی صفائی کی بنا پر اپنے کسب کے ذریعہ نبوت کے حصول کے جواز کا قائل ہوا۔ یا پھر اپنے پر وحی کے اترنے کو کہا۔ اگرچہ نبوت کا دعویٰ نہ کیا۔ تو یہ سب قسم کے لوگ نبی ﷺ کے دعویٰ ۔۔۔۔ ’’ انا خاتم النبیین ‘‘۔۔۔۔ کی تکذیب کرنے والے ہوئے اور کافر ٹھہرے۔}
ان دونوں روشن حوالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ نبوت کے کسبی ہونے کا عقیدہ رکھنا اپنے اندر تکذیب خدا اور رسول کا عنصر رکھتا ہے۔ اور ایسا عقیدہ کا رکھنے والا مالکیہ ودیگر علماء کے نزدیک قابل گردن زدنی اور کافر ہے۔
مرزا قادیانی خود اقراری ہے کہ نبوت وہبی چیز ہے کسبی نہیں :
نمبر۱
… اس نے لکھا :’’اس میں شک نہیں کہ محدثیت محض وہبی چیز ہے۔ کسب سے حاصل نہیں ہوسکتی ۔ جیسا کہ نبوت کسب سے حاصل نہیں ہوسکتی ۔‘‘ (حمامۃ البشریٰ ص ۱۳۵ خزائن ص ۳۰۱ ج ۷)
نمبر۲ … صراط الذین انعمت علیھم :اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کو یہ مرتبہ ملا انعام کے طور پرملا۔ یعنی محض فضل سے نہ کسی عمل کا اجر۔(چشمہ مسیحی ص ۴۲ خزائن ص ۳۶۵ ج ۲۰)

مرزائی عذر
’’وہبی چیز میں بھی انسان کا دخل ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا:’’ یھب لمن یشاء اناثا ویھب لمن یشاء الذکور۰ شوریٰ۴۹‘‘{بخشتا ہے جس کو چاہے بیٹیاں اور بخشتا ہے جس کو چاہے بیٹے۔}
اس میں اگر مرد عورت اکٹھے نہ ہوں تو کچھ نہیں ہوتا۔ معلوم ہوا کہ وہبی چیز میں بھی کسب کو دخل ہے۔
الجواب :ہاں ٹھیک ہے کہ انسان کا اس عمل میں دخل ہے مگر لڑکا یا لڑکی عطا کرنے میں کسی قسم کا کوئی دخل نہیں ہے۔ چنانچہ بسا اوقات اس اختلاط سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ پڑھئے:’’ ویجعل من یشاء عقیما۰‘‘
جواب۷ :اگر نبوت ملنے کے لئے اطاعت وتابعداری شرط ہے تو غلام احمد قادیانی پھر بھی نبی نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے نبی کریم ﷺ کی کامل تابعداری نہیں کی جیسے :(۱)… مرزا نے حج نہیں کیا۔ (۲)… مرزا نے ہجرت نہیں کی۔ (۳)… مرزا نے جہاد باالسیف نہیں کیا بلکہ الٹا اس کو حرام کہا۔(۴)… مرزا نے کبھی پیٹ پر پتھر نہیں باندھے۔ (۵)… ہندوستان کے قحبہ خانوں میں زنا ہوتا رہا مگر غلام احمد نے کسی زانیہ یا زانی کو سنگسار نہیں کرایا۔(۶) ہندوستان میں چوریاں ہوا کرتی تھیں مگر مرزا جی نے کسی چور کے ہاتھ نہیں کٹوائے۔
جواب۸ : مرزا نے لکھا کہ : ’’تم پنج وقت نمازوں میں یہ دعا پڑھا کرو:’’ اھدنا الصراط المستقیم‘‘۔۔۔۔۔یعنی اے ہمارے خدا اپنے منعم علیہم بندوں کی ہمیں راہ بتا وہ کون ہیں نبی اور صدیق اور شہداء اور صلحائ۔ اس دعا کا خلاصہ مطلب یہی تھا کہ ان چاروں گروہوں میں سے جس کا زمانہ تم پائواس کے سایہ صحبت میں آجائو۔‘‘ (آئینہ کمالات ص ۶۱۲ رسالہ ملحقہ قیامت کی نشانی ص ۷ خزائن ص ۶۱۲ ج ۵)

نیز مرزا قادیانی خود تحریر کرتا ہے:
’’ الا تریٰ الی قول رسول اﷲ ﷺ اذقال ان فی الجنۃ مکان لاینالہ الا رجل واحد وار جوان اکون انا ھو فبکی رجل من سماع ھذا لکلام وقال یا رسول اﷲ ﷺ لا اصبر علی فراقک ولا استطیع ان تکون فی مکان وانا فی مکان بعید عنک محجوباً عن رویۃ وجھک وقال لہ رسول اﷲ ﷺ انت تکون معی فی مکانی ۰ حمامۃ البشریٰ ص ۹۴ طبع لاہور ‘ خزائن ص ۲۹۴ ج ۷‘‘
اب صراحت مرزا کے کلام سے ثابت ہوا کہ معیت سے مراد معیت فی الجنت ہے اور معیت فی المرتبہ مراد نہیں تاکہ اجرائے نبوت کا سوال پیدا ہو۔
جواب۹ : یہ کہ مرزا قادیانی نے اہل مکہ کے لئے دعا کی ہے کہ اﷲ تعالیٰ تم کو انبیاء ورسل وصدیقین اور شہداء اور صالحین کی معیت نصیب کرے۔ جیسے حمامۃ البشریٰ ص ۹۶ خزائن ص ۳۲۵ ج ۷ میں لکھا ہے :’’ نسئلہ ان یدخلکم فی ملکوتہ مع الانبیاء والرسل والصدیقین والشہداء والصالحین ۰‘‘تو کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مرزا دعا مانگ رہا ہے کہ اہل مکہ تمام کے تمام انبیاء اور رسول بن جاویں اگر یہی مراد سمجھی جاوے تو مرزا نے گویا اہل مکہ کے لئے نبوت حاصل کرنے کی دعاکی ہے ۔اور یقینا اس کی دعا منظور ہوئی ہوگی۔ کیونکہ مرزا کو خدا نے الہام میں وعدہ کیا ہوا ہے کہ :’’اجیب کل دعائک الا فی شرکائک ‘‘ تیری ہر دعا قبول کروں گا۔ (تذکرہ ص ۲۶ طبع سوم )
تو پھر یقینا مکہ والے لوگ نبی ہوگئے ہوں گے؟۔

ضر وری نوٹ :
کیونکہ گذشتہ حوالہ سے ثابت ہوا کہ مرزائیوں کے خیال میںمکہ کے سب علماء نبی بن چکے ہیں اور علماء مکہ نے مرزا پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔ لہذا بااعتراف طائفہ قادیانیہ مرزا قادیانی پر مکہ مکرمہ کے سب انبیاء کا فتویٰ کفر لگے گا تو وہ پرلے درجے کا کافر ہوگا۔ کیونکہ یہ فتویٰ انبیاء کا فتویٰ ہوگا کسی عام آدمی یا مولوی کا فتویٰ نہیں ہے۔ دیکھیں اس فتویٰ کی امت مرزائیہ تعمیل کرتی ہے یا نہیں۔
عسل مصفی ص ۲۷۰ ج ۱ میں خدا بخش قادیانی نے کتاب ماثبت بالسنۃ ص ۴۶ شیخ عبدالحق دہلوی سے یہ عبارت نقل کی ہے :
’’ ماوقع فی مرضہ انہ ﷺ خیر عندموتہ یقول فی آخرمر ضہ مع الذین انعم اﷲ علیھم من النبیین۔۔۔۔۔۔ الخ۰‘‘ {جب حضور ﷺ مریض ہوگئے تو اﷲ تعالیٰ نے ان کو موت کے وقت حیات دنیا وآخرت میں اختیار دیا گیا تو آپ ﷺ نے آخری مرض میں یہ آیت پڑھی۔}
اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضور ﷺ کو کامل نبوت کے حاصل ہونے کے بعد بھی اپنی مرض موت میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اختیار دے گیا تھا کہ دنیا کے ساتھیوں کی رفاقت پسند کرتے ہیں یا جنت والے ساتھیوں کی۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہر دو مقام سے رفاقت مکانی مقصود ہے نہ کہ رفاقت مرتبی۔کیونکہ یہ تو آپ ﷺ کو پہلے ہی سے حاصل تھی۔
جواب۱۰ :نیز مع کا معنی ساتھ کے ہیں۔ جیسے :’’ ان اﷲ معنا ۰ ان اﷲ مع المتقین۰‘‘ ’’ ان اﷲ مع الذین اتقوا۰‘‘ ’’ محمد رسول اﷲ والذین معہ۰‘‘ ’’ ان اﷲ مع الصابرین۰‘‘نیز اگر نبی کی معیت سے نبی ہوسکتا تو خدا کی معیت سے خدا بھی ہوسکتا ہے؟۔(العیاذباﷲ)
جواب۱۱ :یہ دلیل قرآن کریم کی آیت سے ماخوذ ہے۔ اس لئے مرزائی اپنے استدلال کی تائید میں کسی مفسر یا مجدد کا قول پیش کریں۔ بغیر اس تائید کے ان کا استدلال مردو اور من گھڑت ہے۔ اس لئے کہ مرزا نے لکھا ہے :
’’ جو شخص ان (مجددین) کا منکر ہے وہ فاسقوں میں سے ہے۔‘‘ (شہادت القرآن ص ۴۸ خزائن ص ۳۴۴ ج ۶)
جواب۱۲ : اگر مرزائیوں کے بقول اطاعت سے نبوت وغیرہ درجات حاصل ہوتے ہیں تو ہمارا یہ سوال ہوگا کہ یہ درجے حقیقی ہیں یا ظلی وبروزی ؟۔ اگر نبوت کا ظلی بروزی درجہ حاصل ہوتا ہے جیسا کہ مرزائیوں کا عقیدہ ہے تو صدیق ‘ شہید اور صالح بھی ظلی وبروزی ہونے چاہیئں۔ حالانکہ ان کے بارے میں کوئی ظلی وبروزی ہونے کا قائل نہیں۔ اور اگر صدیق وغیرہ میں حقیقی درجہ ہے تو پھر نبوت بھی حقیقی ہی ماننا چاہئیے۔ حالانکہ تشریعی اور مستقل نبوت کا ملنا خود مرزائیوں کو بھی تسلیم نہیں ہے۔ اس لئے یہ دلیل مرزائیوں کے دعویٰ کے مطابق نہ ہوگی۔
(جاری ہے)
 
آخری تدوین :

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
بقیہ: آیت خاتم النبیین پر قادیانی اعتراضات (اعتراض نمبر۱۰:من یطع اﷲ والرسول )

جواب۱۳ :اس آیت سے چار آیات پہلے انبیاء ورسل کے متعلق فرمایا ہے :’’ وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اﷲ ۰ النساء ۳۴‘‘ یعنی ہر ایک رسول مطاع اور امام بنانے کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ اس غرض سے نہیں بھیجا جاتا کہ وہ کسی دوسرے رسول کا مطیع اور تابع ہواور آیت ’’ ومن یطع اﷲ والرسول‘‘ میں مطیعون کا ذکر ہے۔ اور مطیع کسی بھی صورت میں نبی اور رسول نہیں ہوتا۔خلاصہ یہ کہ نبی ورسول مطاع ہوتا ہے مطیع نہیں (فافہم)
جواب۱۴ : مرزائی ایک طرف تو دلیل بالا سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اطاعت رسول کے ذریعہ سے آدمی درجہ نبوت تک پہنچ سکتا ہے۔ دوسری طرف خود ان کے ’’ حضرت صاحب‘‘ نے اس بات کا اقرار واعتراف کیا ہے کہ اطاعت کرنے حتیٰ کہ فنافی الرسول ہوجانے سے بھی نبوت نہیں مل سکتی۔ بس زیادہ سے زیادہ محدثیت کا درجہ حاصل ہوسکتا ہے۔ اس اعتراف کے ثبوت میں چند حوالے پیش ہیں:
حوالہ نمبر ۱: ’’ جب کسی کی حالت اس نوبت تک پہنچ جائے (جو اس سے قبل ذکر کی گئی ) تو اس کا معاملہ اس عالم سے وراء لوراء ہوجاتا ہے اور ان تمام ہدایتوں اور مقامات عالیہ کو ظلی طور پر پالیتا ہے۔ جو اس سے پہلے نبیوں اور رسولوں کو ملے تھے۔ اور انبیاء ورسل کا نائب اور وارث ہوجاتا ہے۔ وہ حقیقت جو انبیاء میں معجزہ کے نام سے موسوم ہوتی ہے ۔ وہ اس میں کرامت کے نام سے ظاہر ہوتی ہے ۔ اورو ہی حقیقت جو انبیاء میں عصمت کے نام سے نامزد کی جاتی ہے ۔ اس میں محفوظیت کے نام سے پکاری جاتی ہے۔ اور وہی حقیقت جو انبیاء میں نبوت کے نام سے بولی جاتی ہے۔ اس میں محدثیت کے پیرایہ میں ظہور پکڑتی ہے۔ حقیقت ایک ہی ہے لیکن بباعث شدت اور ضعف رنگ کے ان کے نام مختلف رکھے جاتے ہیں۔ اس لئے آنحضرت ﷺ کے ملفوظات مبارکہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ محدث ‘ نبی بالقوۃ ہوتا ہے اگر باب نبوت مسدود نہ ہوتا تو ہر ایک محدث اپنے وجود میں قوت اور استعداد نبی ہونے کی رکھتا ہے۔ اور اس قوت اور استعداد کے لحاظ سے محدث کا حمل نبی پر جائز ہے۔ یعنی کہہ سکتے ہیں کہ المحدث نبی جیسا کہ کہہ سکتے ہیں:’’ العنب خمر نظراً علی القوۃ والا ستعداد ومثل ھذا المحمل شائع متعارف۰‘‘(ماہنامہ ریویو آف ریلیجنز جلد ۳ بماہ اپریل ۱۹۰۴ء بعنوان اسلام کی برکات)
اس عبارت سے واضح ہوا کہ ظلی نبوت بھی درحقیقت محدثیت ہی ہے۔ اور کامل اتباع سے جو ظلی نبی بنتا ہے وہ دراصل محدث ہوتا ہے۔ اور یہاں جو محدث پر حمل نبی کا کیا گیا ہے وہ محض استعدادکی بنا پر ہے۔ یعنی اگر دروازہ نبوت بند نہ ہوتا تو وہ نبی بن جاتا۔ جیسا کہ عنب پر خمر کا اطلاق قوت واستعداد کی بنا پر کیا جاتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو خمر کا حکم ہے وہ عنب کا بھی حکم ہو۔بلکہ دونوں کے احکام اپنی جگہ الگ الگ ہیں۔ اسی طرح اگر محدث پر نبی کا اطلاق بلحاظ استعداد کیا جائے گا تو دونوں کے احکام الگ الگ ہوں گے۔ نبی کا انکار کفر ہوگا اور محدث کی نبوت کا انکار کفر نہ ہوگا۔ حالانکہ مرزائی اپنے حضرت صاحب (ظلی نبی) کے منکرین کو پکا کافر گردانتے ہیں۔ یہ تو عجیب تضاد ہوا مرزا غلام احمد کچھ کہے ۔ مرزائی کچھ کہیں اور آج کل کے جاہل کچھ کہیں۔ اسی سے اس لچر عقیدہ کے بطلان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
حوالہ نمبر۲:’’ حضرت عمرؓ آنحضرت ﷺ کے ظلی طورپر گویا آنجناب ﷺ کاوجود ہی تھا۔‘‘(ایام الصلح ص ۳۹ خزائن ص ۲۶۵ ج ۱۴)
مرزا کو خود تسلیم ہے کہ حضرت عمر ؓ آنحضرت ﷺ کے ظلی وجود تھے۔ پھر بھی وہ نبی نہ ہوسکے۔ معلوم ہوا کہ اتباع نبی سے زیادہ سے زیادہ ظلی وجود تو مرزا کے نزدیک ہوسکتا ہے مگر نبوت نہیں مل سکتی۔ ورنہ قادیانی لوگ حضرت عمر ؓ کو بھی ظلی نبی تسلیم کریں:’’ لوکان بعدی نبیا لکان عمرؓ‘‘ کی حدیث نے عمر ؓ کی نبی نہ ہونے کی صراحت کردی ۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں :
’’قال علیؓ الا وانی لست نبی ولا یوحی الی۰ ازالۃ الخفاء ص۱۳۳‘‘{حضرت علی ؓفرماتے ہیں۔ خبردار ! نہ میں نبی ہوں اور نہ میری طرف وحی آتی ہے۔}
حوالہ نمبر۳: صد ہا لوگ ایسے گزرے ہیں جن میں حقیقت محمدیہ متحقق تھی اور عنداﷲ ظلی طور پران کا نام محمد یا احمد تھا۔ (آئینہ کمالات اسلام خزائن ص ۳۴۶ج ۵)
اس عبارت سے بھی پتہ چلا کہ اگرچہ صد ہا لوگ ایسے گزرچکے ہیں جن کا نام ظلی طور پر احمد یا محمد تھا۔ مگر پھر بھی ان میں سے نہ کوئی نبی بنا‘ اور نہ کسی نے دعویٰ نبوت کیا‘ نہ اپنی الگ جماعت بنائی‘ اور نہ اپنے منکرین کو کافر اور خارج از اسلام قراردیا۔ تو عجیب بات ہے کہ اتنے بڑے بڑے متبعین خدا اور رسول تو اس نعمت سے محروم ہی دنیا سے رخصت ہوگئے اور مرزا قادیانی ظلی نبی کے ساتھ ساتھ حقیقی نبی بھی بن گیا۔
مرزائی عذر
’’ من یطع اﷲ والرسول فاولئک مع الذین۔۔۔۔۔۔ الخ‘‘ مع ‘ من کے معنی میں ہے۔اور مطلب یہ ہے کہ جو اﷲ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ منعم علیہم انبیاء وغیرہ میں سے ہوگا۔ نہ کہ محض ان کے ساتھ ہوگا اور اس کی مثال قرآن کریم میں بھی موجود ہے۔ دیکھئے فرمایا گیا :’’ وتوفنا مع الابرار۰ ای من الابرار‘‘یعنی نیکوں میں سے بناکر ہمیں وفات دیجئے۔مرزائی عذر بوجوہ ذیل باطل ہے
الجواب
(الف)… پورے عرب میں کہیں بھی مع ‘ من کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا۔ اگر یہ من کے معنی میں آتا تومع پر من کا دخول ممتنع ہوتا ۔ حالانکہ عربی محاروں میں من کا مع پر داخل ہونا ثابت ہے۔ لغت کی مشہور کتاب المصباح المنیر میں لکھا ہے :’’ ودخول من نحوجئت من معہ۰ مع القوم ‘‘لہذا معلوم ہوا کہ من کبھی مع کے معنی میں نہیں ہوسکتا ۔ ورنہ ایک ہی لفظ کا تکرار لازم آئے گا۔
(ب)… جب کوئی لفظ مشترک ہو اور دو معنی میں مستعل ہوتو دیکھا جاتا ہے کہ کون سے معنی حقیقت ہیں اور کون سے مجاز ۔ جب تک حقیقت پر عمل ممکن ہو مجاز اختیار کرنا درست نہیں ہوتا۔ یہاں پر بہرحال مع رفاقت کے معنی میں حقیقت ہے۔ اور اس پر عمل کرنا یہاں ممکن بھی ہے۔ کیونکہ اگلے جملہ وحسن اولئک رفیقا سے صاف طور پر رفاقت کے معنی کی تائید ہورہی ہے۔ لہذا مع کو من کے مجازی معنی میں لے جانا ہرگز جائز نہ ہوگا۔
(ج)… اگر مع کا معنی من لیا جائے تو حسب ذیل آیت کے معنی کیا ہوں گے۔
(۱)……’’ ان اﷲ مع الصابرین‘‘ کیا خدا اور فرشتے ایک ہوگئے۔ (۲)…… ’’ لاتحزن ان اﷲ معنا‘‘ کیا حضور ﷺ حضرت ابوبکر ؓ اور خدا ایک ہوگئے۔ (۳)……’’ ان اﷲ مع الصابرین‘‘(۴)…… ’’ محمد رسول اﷲ والذین معہ‘‘کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نعوذ باﷲ‘ اﷲ تعالیٰ صابروں کے جز ہیں یا یہ کہ حضرات صحابہ کرام ؓ آنحضرت ﷺ میں سے ہیں۔ دیکھئے کس طرح قادیانی تنکوں کا پل بناتے ہیںاور پھر اس پر زندہ ہاتھی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(د)… اگر باالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ مع بھی کبھی من کے معنی میں استعمال ہوا ہے یا ہوتا ہے تو اس سے یہ کیسے لازم آیا کہ آیت مبحوث عنہا میں بھی مع ‘من کے معنی میں ہے۔ کیا کسی مفسر یا مجدد نے یہاں پر مع کے بجائے من کے معنی مراد لیے ہیں؟۔
(ہ)… مع کے من کے معنی میں ہونے پر مرزائی جو آیات قرآنیہ تلبیس ومغالطہ کے لئے پیش کرتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک آیت میں بھی مع من کے معنی میں نہیں ہے۔ ہمارے اور مرزائیوں کے معتبر مفسر امام رازی (جو مرزائیوں کے نزدیک چھٹی صدی کے مجدد ہیں( عسل مصفی ص ۱۶۴ ج ۱) نے آیت وتوفنا مع الابرار کی تفسیر فرماتے ہوئے مرزائیوں کے سارے کھروندے کو زمین بوس کردیا ہے۔ اور ان کی رکیک تاویل کی دھجیاں اڑادی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
’’ وفاتھم معھم ھی ان یموتوا علیٰ مثل اعمالھم حتی یکونوا فی درجاتھم یوم القیامۃ قد یقول الرجل انا مع الشافعی فی ھذہ المسئلۃ ویریدبہ کونہ مساویالہ فی ذلک الا عتقاد۰ تفسیر کبیر ص ۱۸۱ ج ۳‘‘{ان کا ان (ابرار) کے ساتھ وفات پانا اس طرح ہوگا کہ وہ ان نیکوں جیسے اعمال کرتے ہوئے انتقال کریں تاکہ قیامت کے دن ان کا درجہ پالیں جیسے کبھی کوئی آدمی کہتا ہے کہ میں اس مسئلہ میں شافعی کے ساتھ ہوںاور مطلب یہ ہوتا کہ اس کا اعتقاد رکھنے میں وہ اور امام شافعی ؒ برابر ہیں۔ (نہ یہ کہ وہ درجہ میں امام شافعی ؒ تک پہنچ گیا۔)}
مرزائی عذر
مرزائیوں نے اپنے باطل استدلال کی تائید کے لئے جھوٹ کا پلندہ تیار کیا ہے اور مشہور امام لغت راغب اصفہانی ؒ کے کندھے پر بندوق چلانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امام راغب کی ایک عبارت سے ان کے بیان کردہ معنی کی واضح تائید ہوتی ہے۔ وہ عبارت یہ ہے:
’’ قال الراغب : ممن انعم علیھم من الفرق الا ربع فی المنزلۃ والثواب النبی باالنبی والصدیق باالصدیق والشہید باالشہید والصالح باالصالح واجاز الراغب ان یتعلق’’من النبی ‘‘ بقولہ ومن یطع اﷲ والرسول ای من النبیین ومن بعدھم ۰ منقول از البحرالمحیط للعلامۃ اندلسی ص ۲۸۷ ج ۳ بیروت‘‘ {امام راغب ؒ نے ان چاروں قسم کے ۔۔۔۔۔ لوگوں کے بارے میں کہا جن پر انعام کیا گیا ہے درجہ میں اور ثواب میں کہ نبی ‘ نبی کے ساتھ صدیق ‘ صدیق کے ساتھ اور شہید ‘ شہید کے ساتھ اور صالح ‘ صالح کے ساتھ اورامام راغب ؒ نے اس بات کو درست قرار دیا ہے کہ ’’ من النبیین ‘‘ کا تعلق اﷲ تعالیٰ کے ارشاد ’’ومن یطع اﷲ والرسول‘‘ سے ہو یعنی جو بھی اﷲ اور رسول اﷲ کی اطاعت کرے نبیوں میں سے یا ان کے بعد کے درجہ والوں میں سے۔}
اس تحقیق سے معلوم ہوا من النبیین انعم اﷲ علیھم سے نہیں بلکہ ومن یطع اﷲ ۔۔۔۔ الخ سے متعلق ہے۔ لہذا آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ نبیوں وغیرہ میں سے جو اﷲ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ منعم علیہم کے ساتھ ہوگا۔اور یہاں یطع مضارع کا صیغہ ہے جو حال ومستقبل دونوں کے لئے بولا جاتا ہے۔ لہذا ضروری ہوا کہ اس امت میں بھی کچھ نبی ہونے چاہئیں جو رسولوں کی اطاعت کرنے والے ہوں اگر نبوت کا دروازہ بند ہو تو اس آیت کے مطابق وہ کون سا نبی ہوگا جو رسول اﷲ کی اطاعت کرے گا؟۔
ڈھول کا پول
مرزائیوں نے مذکورہ عبارت پیش کرکے انتہائی دجل وفریب کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ حوالہ علامہ اندلسی کی تفسیر البحرالمحیط سے ماخوذ ہے۔مگر انہوں نے اس قول کو نقل کرکے اپنی رائے اس طرح بیان فرمائی ہے:
’’ وھذ الوجہ الذی ھو عندہ ظاھر فاسد من جھۃ المعنی ومن جھۃ النحو ۰ تفسیر البحر المحیط ص ۲۸۷ج۳ بیروت‘‘
معنی اور نحو کے لحاظ سے یہ بات فاسد ہے۔
لہذا معلوم ہوا کہ یہ قول بالکل مردود اور ساقط الا ستدلال ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ امام راغب ؒ کی کسی کتاب میں اس طرح کی عبارت نہیں ملتی۔ ان کی طرف یہ قول منسوب کرنا صحیح نہیں ہے۔ ان کی طرف قول بالا کی غلط نسبت ہونے پر ہمارے پاس دو قرینے موجود ہیں۔ دیکھئے:
پہلا قرینہ
امام راغب اصفہانی ؒ نے صدیقین کی تفسیر میں ایک رسالہ تصنیف فرمایا ہے۔ جس کا نام الذریعۃ الیٰ مکارم الشریعۃ ہے۔ آیت :’’ ومن یطع اﷲ والرسول ۔۔۔۔۔۔ الخ‘‘ کاتعلق بھی اسی مضمون سے ہے اگر بالفرض امام راغب ؒ کا وہ مسلک ہوتا جو بحر محیط میں نقل کیا ہے تو اس کتاب میں ضرور تحریر کرتے۔ لیکن اس پوری کتاب میں کہیں اشارۃً وکنایۃً بھی اس کا ذکر نہیں ہے۔
دوسراقرینہ
اگر اس طرح کی کوئی عبارت امام راغب ؒ کی کسی کتاب میں ہوتی تو مرزائی مناظر ین امام راغبؒ کی اسی کتاب سے حوالہ دیتے اور وہیں سے نقل کرتے کہ دلیل پختہ ہوتی لیکن وہ لوگ تو بحر محیط کی ایک عبارت لے کر لکیر پیٹے رہتے ہیں ۔ کیونکہ اس کا اصل ماخذ کہیں ہے ہی نہیں۔
جواب۱۵ :اگر درجے ملنے کا ذکر ہے تو بترتیب حاصل ہونے چاہئیں پہلے نبی پھر صدیق پھر شہید پھر صالح۔
مرزائی عذر
مع بمعنیمن ہے ابلیس کے متعلق ایک جگہ فرمایا :’’ ان یکون مع الساجدین۰الحج‘‘ دوسری جگہ فرمایا: ’’ لم یکن من الساجدین۰ اعراف‘‘
جواب :ابلیس نے تین گناہ کئے تھے۔ (۱)… تکبر کیا تھا۔ اس کا ذکر سورۃ ص کے آخری رکوع میں ہے:’’ کنت من العالمین۰‘‘ (۲)… سجدہ نہ کرکے اﷲ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی اس کا بیان سورۃ اعراف کے دوسرے رکوع میں ہے:’’ لم یکن من الساجدین۰‘‘(۳)… اس نے جماعت ملائکہ سے مفارقت کی تھی۔ اس کا بیان سورۃ حجر کے تیسرے رکوع میں ہے:’’ ان یکون مع الساجدین۰‘‘
پس مع ہر گز من کے معنوں میں نہیں بلکہ دونوں کے فائدے الگ الگ اور جدا گانہ ہیں۔
مرزائی عذر
’’ الا الذین تابوا واصلحوا واعتصموا بااﷲ واخلصوا دینھم ﷲ فااولئک مع المومنین وسوف یوت اﷲ المومنین اجرا عظیما۰ نساء ۱۴۶‘‘
کیا توبہ کرنے والے مومن نہیں ‘مومنوں کے ساتھ ہوں گے۔ کیا ان کو اجر عظیم عطا نہ ہوگا؟۔
جواب :حقیقت یہ ہے کہ مومنین پر الف لام عہد کا ہے۔ اس سے مرادوہ لوگ ہیں جوشروع سے خالص مومن ہیں ان سے کبھی نفاق سرزد نہیں ہوا۔ ان کی معیت میں وہ لوگ جنت میںہوں گے جو پہلے منافق تھے پھر توبہ کرکے مخلص مومن بن گئے۔ پس ثابت ہوا کہ مع اپنے اصل معنی مصاحبت کے لئے آیا ہے نہ بمعنی من ۔
 
Top