• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

اجرائے نبوت پر قادیانیوں کی پیش کردہ آیت اور اس کی حقیقت 2

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
یَا بَنِیٓ آدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیَاتِیْ فمن اتقی واصلح فَلَاخَرْفُ عَلَیھم وَلَا ھُم یحزنون۔ (اعراف:رکوع۴)
'' اے بنی آدم علیہ السلام البتہ ضرور آئیں گے تمہارے پاس رسول یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس میں تمام انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے یہاں یہ نہیں لکھا کہ ہم نے گذشتہ زمانہ میں یہ کہا تھا سب جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد کے زمانہ کے لوگ مخاطب ہیں۔'' (احمدیہ پاکٹ بک ص۴۶۲)
جواب سے پہلے آیت کا صحیح ترجمہ ملاحظہ ہو '' اے بنی آدم علیہ السلام اگر تمہارے پاس تم میں سے میری طرف سے رسول آئیں میری آیات تم پر پڑھیں پس جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور صلاحیت کو عمل میں لائے تو ایسے لوگوں کو کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ کسی طرح کا حزن و غم پائیں گے۔
الزامی جواب اقوال مرزا سے
رسول سے ہر جگہ مراد خدا کا رسول نہیں کیونکہ اس لفظ میں محدث اور مجدد بھی شامل ہے مرزا صاحب فرماتے ہیں:
۱۔ وَلَا یُطْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا اِلاَّ مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ رسول کا لفظ عام ہے جس میں رسول اور نبی اور محدث داخل ہیں۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۳۲۲ و تفسیر مرزا ص۲۳۳،ج۸)
۲۔ کامل طور پر غیب کا بیان کرنا صرف رسولوں کا کام ہے دوسرے کو یہ مرتبہ عطا نہیں ہوتا۔ رسولوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں خواہ نبی ہوں یا رسول یا محدث یا مجدد ہوں۔ (حاشیہ ایام الصلح ص۱۷۱ و روحانی ص۴۱۹،ج۱۴ و تفسیر مرزا ص۲۳۴،ج۸)
۳۔ مرسل ہونے میں نبی اور محدث ایک ہی منصب رکھتے ہیں اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے نبیوں کا نام مرسل رکھا اور ایسا ہی محدثین کا نام بھی مرسل رکھا اسی اشارہ کی غرض قرآن شریف میں وقفینا من بعدہ بالرسل آیا ہے۔ اور یہ نہیں آیا وقفینا من بعدہ بالانبیاء پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رسل سے مراد مرسل ہیں خواہ وہ رسول ہوں یا نبی ہوں یا محدث ہوں چونکہ ہمارے سید و رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی نہیں آسکتا اس لیے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث رکھے گئے ہیں۔ (شھادۃ القران علی نزول المسیح الموعود فی آخر الزمان ص۲۷،۲۸و روحانی ص۳۲۳،۳۲۴،ج۲)
۴۔ جبرائیل امین علیہ السلام کو بھی '' رسول رب'' کہا گیا۔ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ (پ۱۶ مریم ۱۹) اور اسی طرح دیگر فرشتوں کو رسول کہا گیا ہے۔ اِنَّا رُسُلُ ربک لَنْ یصلو الیک۔ (پ۱۲ ھود :۸۱)
لغوی رسول
۵ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاکم یمن بنا کر بھیجا پوچھا کہ آپ مقدمات وغیرہ کا فیصلہ کس طرح کریں گے معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا قرآن مجید کے مطابق فیصلہ کروں گا اگر قرآن مجید کی کوئی ایسی آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ ملی تو عرض کیا کہ ارشادات کی روشنی میں۔ اس پر سوال کیا۔ اگر حدیث میں بھی کوئی بات تیرے علم میں نہ آئی تو جواب دیا کہ اپنے اجتہاد سے کام لوں گا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ جس نے رسول کے رسول کو موافق رسول بنایا۔(اخرجہ احمد فی مستدہ ص۲۳۰،ج۵ والدارمی فی السنن ص۷۲،ج۱ المقدمۃ باب الفتیا وما فیہ من الشدۃ وابوداؤد فی السنن ص۱۴۹،ج۲ ص۱۴۹،ج۲ کتاب الاقضیۃ باب اجتھاد الرأی والترمذی فی السنن مع تحفہ ص۲۷۵،ج۲ کتاب الاحکام باب ماجاء فی القاضی) مرزا صاحب کہتے ہیں: '' کلام اللہ میں رسل کا لفظ غیر رسول پر بھی اطلاق پاتا ہے۔ (شھادۃ القران ص۲۳ و روحانی ص۳۱۹،ج۶ و تفسیر مرزا ص۲۸۶،ج۸)
خلاصہ تحریرات بالا
یعنی الرسل سے مراد حضور علیہ السلام کے برگزیدہ صحابہ میں وغیرہ۔
گویا اقوالِ مرزا ہی کی روشنی میں مطلب یہ ہے کہ آیت مذکورہ بالا میں لفظ رسل مذکور ہے نہ کہ نبی۔ کلام تو ختم نبوت اور رسالت من اللہ میں ہے نہ مطلق رسالت میں جس کے معنی تبلیغ کے بھی ہیں۔ اس طرح تو جمیع علماء امت اور مبلغین بھی رسل ہیں۔
ایک اور طرز سے!
پھر بفرض محال اگر یہ آیت جریان نبوت پر بھی دلالت کرتی ہے تو اس آیت سے تشریعی نبوت کا امکان ثابت ہوتا ہے نہ صرف غیر تشریعی نبوت کا۔ اگر یہاں سے نبوت کا اجرا ثابت ہوتا ہے۔ تو یہ بہائی مذہب کی دلیل ہے کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں قرآن کو منسوخ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب بہاء اللہ کا دور شروع ہوگیا ہے اور اسی آیت سے دلیل پکڑتے ہیں۔(کتاب الفرائد ص۳۱۴ و ظھور قائم آل محمد ص۲۳۵ مؤلفہ ابو العباس صاحب رضوی شائع کردہ بھائی کراچی، نوٹ: اس بات کو مرزائی محمد علی لاہوری نے بھی، النبوۃ فی الاسلام ص۹۹ میں کر رکھا ہے کہ مذکورہ دلیل بہائیوں کی ہے جس کی قے خوری فریق قادیان نے کر رکھی ہے۔ ابو صھیب)
تحقیقی جواب:

اِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْمیں دوامی طور پر رسولوں کے آنے کا وعدہ ہے تو آیت اِمَّا یاتِیَنَّکُمْ مِّنِیْ ھدًی میں دوامی طور پر ہدایتوں کے آنے کا وعدہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی آسکتا ہے تو قرآن مجید کے بعد کتاب بھی آسکتی ہے پھر اِمَّا حرف شرط ہے جس کا تحقق ضروری نہیں اور یَاتین مضارع اور مضارع کے لیے استمرار ضروری نہیں جیسے اِمَّا تَزیِنَّ مِنَ الْبَشَر اَحَدًا (اگر کسی بشر کو دیکھے) کیا حضرت مریم علیہ السلام قیامت تک زندہ رہیں گی۔
قرآن کریم جب مسلمانوں کو مخاطب کرتا ہے تو یایھا الذین امنوا کہہ کر خطاب کرتا ہے مگر یہاں یا بنی آدم علیہ السلام کہا ہے اور مخاطب کیا ہے آدم کی اولین اولاد کو۔ اس جگہ وہی یہودیانہ تحریف کی گئی ہے ناظرین کرام سورہ اعراف کا رکوع دوم شروع نکال کر اپنے سامنے رکھیں صاف حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ مسطور ملے گا کہ خدا نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔ شیطان نے ان کو بہکا کر جنت سے نکلوا دیا۔ خدا فرماتا ہے ہم نے آدم علیہ السلام اور اس کی اولاد کو کہا کہ تمہارے لیے اب دنیا کی زندگی میں جنت کا ٹھکانا موقوف۔ دنیا میں جاؤ اس کے بعد اولاد آدم علیہ السلام کو بطور تنبیہ فرمایا کہ دیکھو تمہارے باپ کو شیطان نے دھوکا دیا۔ تم خبردار رہنا اس کے پنجہ میں نہ پھنسنا۔
اسی ذکر کے اثنا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جگہ بہ جگہ اس قصہ کے نصائح و مطالب بتائے اور کفار مشرکین کو ان کی کرتوتوں اور شیطانی کاموں پر شرمندہ کیا۔ پھر اسی قصہ کو دوہراتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے اولاد آدم علیہ السلام کو بھی یہ نصیحت کی تھی کہ اگر تمہارے پاس میرے رسول آئیں تو ان کا کہا ماننا جو اصلاح اختیار کرے گا اس پر کوئی خوف نہیں اور جو تکذیب کرے گا اصحاب النار میں سے ہے۔
اسی قصہ کو پارہ اول شروع رکوع ۴ میں از اوّل تا آخر بیان فرمایا کہ جب آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارا تو ہم نے انہیں نصیحت کی فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ (پ۱ البقرہ:۳۸) پھر اگر آوے تمہارے پاس میری ہدایت تو جو اس کی اتباع کرے گا۔ اس پر کوئی غم و حزن نہ ہوگا۔ الحاصل اس آیت میں بھی آئندہ نبوت جاری رہنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ ہے۔
(خدا) وعدہ کرچکا ہے کہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی رسول بنا کر نہیں بھیجا جائے گا (ازالہ اوہام ص۵۸۶ و روحانی ص۴۱۶،ج۳)
اعتراض:
اس میں سب جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے زمانہ کے لوگ مخاطب ہیں جیسا کہ:
یَا بَنِیٓ اٰدَمَ خُذُوْا ازِیْنتکُمُ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ۔ (اعراف، ع۲)
'' اے اولادِ آدم علیہ السلام پر مسجد (یا نماز) میں اپنی زینت قائم رکھو۔'' (احمدیہ پاکٹ بک ص۴۶۳)
اس آیت میں مسجد کا لفظ آگیا ہے۔ اور یہ لفظ صرف امتِ محمدیہ کے عبادت گاہ کے لیے وضع کیا گیا ہے۔
الجواب:
دیکھو! محض ایک خیال پر کس قدر عظیم الشان عمارت کھڑی کردی گئی ہے حالانکہ لفظ مسجد کا استعمال امم سابقہ میں بھی بروئے قرآن شریف ثابت ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا:
قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوْا عَلٰی اَمْرِھِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْھِمْ مَّسْجِدًا ۔ (پ۱۵ کھف ۲۱)
اصحاب کہف کے بعد جھگڑا ہوا کہ ان کی یادگار میں کیا بنایا جائے تو فریق غالب نے یہ مشورہ دیا کہ ان کی یادگار میں ایک مسجد بنائی جائے پس ثابت ہوا کہ مسجد کا لفظ پہلے بھی مروج تھا۔
 
Top