احمدی مخالف پوسٹر لگانے پر گرفتاری
شہزاد ملک بی بی سی اردو ڈاٹ کام
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں پولیس نے مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس نے یہ کارروائی سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ایک تصویر اور مہم کے بعد کی۔
لاہور کے تھانہ گلبرگ کے محرر انوسٹیگیشن میاں عمران برکت نے بی بی سی کو بتایا کہ اُنھیں اعلیٰ حکام کی طرف سے ہدایت ملی تھی کہ اُن کے علاقے میں واقع کاروباری مرکز (حفیظ سینٹر) میں ایک دکان پر ایک اقلیت کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرتے ہوئے ایک پوسٹر آویزاں کیا گیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے جائے وقوعہ پر پہنچ پر دکان کے مالک عابد ہاشمی کو یہ پوسٹر ہٹانے کے لیے کہا لیکن اُنھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
تاہم پنجاب حکومت کے ٹوئٹر ہینڈل پر جاری ہونے والی تصاویر میں ایک پولیس اہلکار کو یہ پوسٹر ہٹاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
تفتیشی محرر کے مطابق ابتدائی تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ ملزم مذہبی رجحانات کی طرف مائل ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق ملزم کے خلاف توہین مذہب کی دفعہ 295 اے کے تحت درج کیا گیا ہے۔ توہین مذہب کے قانون کی یہ دفعہ کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کے زمرے میں آتی ہے جس کی قانون کے مطابق سزا دس سال تک ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔
شدت پسندی کے خلاف قومی ایکشن پلان کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صوبہ بھر میں مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں سینکڑوں افراد کے خلاف مقدمات درج کر کے اُن کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
ماخذ
شہزاد ملک بی بی سی اردو ڈاٹ کام
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں پولیس نے مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس نے یہ کارروائی سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ایک تصویر اور مہم کے بعد کی۔
لاہور کے تھانہ گلبرگ کے محرر انوسٹیگیشن میاں عمران برکت نے بی بی سی کو بتایا کہ اُنھیں اعلیٰ حکام کی طرف سے ہدایت ملی تھی کہ اُن کے علاقے میں واقع کاروباری مرکز (حفیظ سینٹر) میں ایک دکان پر ایک اقلیت کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرتے ہوئے ایک پوسٹر آویزاں کیا گیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے جائے وقوعہ پر پہنچ پر دکان کے مالک عابد ہاشمی کو یہ پوسٹر ہٹانے کے لیے کہا لیکن اُنھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
تاہم پنجاب حکومت کے ٹوئٹر ہینڈل پر جاری ہونے والی تصاویر میں ایک پولیس اہلکار کو یہ پوسٹر ہٹاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
تفتیشی محرر کے مطابق ابتدائی تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ ملزم مذہبی رجحانات کی طرف مائل ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق ملزم کے خلاف توہین مذہب کی دفعہ 295 اے کے تحت درج کیا گیا ہے۔ توہین مذہب کے قانون کی یہ دفعہ کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کے زمرے میں آتی ہے جس کی قانون کے مطابق سزا دس سال تک ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔
شدت پسندی کے خلاف قومی ایکشن پلان کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صوبہ بھر میں مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں سینکڑوں افراد کے خلاف مقدمات درج کر کے اُن کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
ماخذ