احمقوں کی جنت
جی آر اعوان
ہر شخص کے ماضی میں یادوں کا ایک جہاں آباد ہوتا ہے۔ ذہن کا کمپیوٹر آن ہوتے ہی بیتے دنوں کا لمحہ لمحہ نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ میرے ایام رفتہ بھی یادوں سے بھرے پڑے ہیں۔ بے شمار تلخ و شیریں یادیں بھلائے نہیں بھولتیں۔ پھر قدرت نے انتہائی کمال کا حافظہ دیا ہے کہ اک ذرا غور کی دیر ہے، گئے دنوں کی ہر بات یوں یاد آنے لگتی ہے جیسے مسافت سمٹ گئی ہو اور گزرا زمانہ لوٹ آیا ہو۔ بچپن کی یادیں تو ویسے بھی لاشعور کے نہاں خانوں میں ایسے جاگزیں ہوتی ہیں کہ انسان زندگی میں جب بھی خواب دیکھتا ہے تو خود کو اسی گھر میں دیکھتا ہے جہاں اس نے بچپن گزارا ہوتا ہے۔
میرا بچپن اور لڑکپن کفر کی بستی ”مرزائیل“ میں گزرا جسے ربوہٰ (چناب نگر) کہا جاتاہے۔ مرزائیوں اور یہودیوں میں ہر اعتبار سے اس قدر مماثلت ہے کہ ربوہٰ کو اسرائیل کے ہم وزن مرزائیل کہنا انتہائی موزوں لگتا ہے۔ ”احمقوں کی جنت “ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مسلمان جنت کے لیے اعمال، اوصاف اور افعال کو با کمال بناتا ہے جب کے مرزائی پیغمبر کی جنت کے ٹکٹ کے خواہش مند کو اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کے ایک چوتھائی حصہ کے برابر رقم جماعت کو دینی پڑھتی ہے۔ لہٰذا اعمال کی بجائے مال سے جنت حاصل کرنے والوں کے شہر کو ”احمقوں کی جنت“ ہی کہا جا سکتا ہے۔
1965ء میں میرے والد گرامی سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں ربوہٰ تبدیل ہوئے تو ہمیں اپریل 1965ء سے اگست 1969ء تک ربوہٰ میں رہنا پڑا۔ بعد ازاں اگرچہ چنیوٹ میں رہا، تاہم تعلیمی تعلق کے حوالے سے دسمبر 1975ء تک مرزائیل سے ہی وابستگی رہی۔ اس دوران وہاں کی شہری، شخصی، سماجی زندگی اور مرزائی روایات کے بے شمار مشاہدات سامنے آئے۔
مرزائی قوم ایک جھوٹے نبی کی امت ہونے کے باعث مسلمانوں کے لیے جس قدر ناپسندیدہ اور مکروہ ہے اس سے کہیں زیادہ ان کی زندگی میں پھلیے ہوئے اخلاقی اور سماجی طاعون کو دیکھ کر سر چکراتا اور زہن سوچتا ہے کہ یہ لوگ ہیں کیا اور خود کو پیش کیا کرتے ہیں۔ اخلاق کی چادر اوڑھے یہ گروہ یہود و نصاریٰ سے بھی بدتر خصائل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
قیام ربوہٰ کے دوران بے شمار مرزائیوں سے ملاقات ہوئی۔ کئی دوست بنے، لا تعداد کلاس فیلو بھی تھے۔ ان کے مذہبی اجتماعات بھی دیکھے۔ کئی مرزائی بے زاروں سے مرزائی امت کے ارباب حل و عقد کی داخلی زندگی کے رنگین و سادہ قصے بھی سنے۔ ”جنت و دوزخ“ اور ” حور و غلمان“ کی کہانیاں بھی معلوم ہوئیں لیکن ان سب سے ایک ہی نتیجہ اخذ کیا کہ مرزائیوں میں مسلمانوں کے لیے تعصب اور تنفر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
چند برس پہلے ایک جاننے والے کے گھر بیٹھا تھا۔ ان کے ہاں ڈش نصب تھی، ٹیلی ویژن آن تھا۔ چینل بدلتے ہوئے اچانک ”احمدیہ ٹیلی ویژن نیٹورک“ آ گیا جس پر مرزا طاہر کا نام نہاد جمعہ کا خطبہ نشر ہو رہا تھا۔ موصوف کا کہنا تھا کہ ”پاکستان میں ہم قابل تعزیر جرائم کی زد میں آتے ہیں، ان میں ہمارے گھروں سے قرآن کا برآمد ہونا، کسی کو السلام علیکم کہنا یا نماز پڑھنا شامل ہے۔ جبکہ پاکستانی علماء اغواء، بدفعلی، زیادتی اور ناجائز اسلحہ رکھنے کے جرائم میں دھرے جاتے ہیں۔ موازنہ کیا جائے کہ قصور وار اور جرم دار کون ہے؟“
مرزا طاہر کی طرف سے جس ڈھٹائی سے خود کو معصوم اور پاکستانی علمائے کرام کو مطعون کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی، اس کو سن کر میری سوئی ہوئی یادوں نے انگڑائی لی اور قیام ربوہٰ کے دوران دیکھے ہوئے مرزائیوں کے کئی ”کالے کرتوت“ یاد آنے لگے اور بے اختیار چاہا کہ کاش یہ شخص میرے سامنے ہوتا تو میں اس کا اور اس کی امت کا کچا چٹھا اس کے سامنے کھول کر رکھ دیتا۔ میرے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا۔ چنانچہ یہ خواہش دل ہی دل میں رہ گئی۔ لیکن قدرت کو شائد میرے جذبے پر کچھ زیادہ ہی پیار آگیا۔ اس لیے اس نے مرزائیوں کو آئنہ دکھانے کے لیے مجھے جلد موقع فراہم کر دیا۔
1965ء کے شروع کی بات ہے ہم سائیوال ضلع سرگودھا میں رہتے تھے کہ اباجی کا تبادلہ ربوہٰ ہو گیا۔ وہ محکمہ زراعت میں ملازمت کرتے تھے۔ ہمارا آبائی شہر بھیرہ ضلع سرگودھا ہے۔ بھیرہ جہان اولیا خیز سر زمین ہے، وہاں مرزائیوں کا گڑھ بھی ہے۔ مرزا قادیانی کا پہلا خلیفہ حکیم نور الدین بھی بھیرہ کا ہی رہنے والا تھا۔ جس نے ”مرزا غلام احمد“ کی جھوٹی نبوت کو چار چاند لگائے۔ انہی دنوں ہماری پھوپھی زاد بہن کی شادی تھی، جس میں شرکت کے لیے ہم سائیوال سے بھیرہ آئے تو وہاں کے مرزائیوں نے ہمارے گھر میلہ لگا دیا۔ جب ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہم ربوہٰ جا رہے ہیں تو ان کی خوشیاں دیدنی تھیں۔ حافظ اشرف، اماں خدیجہ، مبارک بک سیلر، بشارت چکی والا، مبارکہ درزن غرض یہ کہ ہر مرزائی شخص ہمیں ملنے آیا۔ یہ لوگ یوں مل رہے تھے جیسے ہم حج یا عمرہ کرنے دیار حبیبﷺ جا رہے ہوں۔ تب مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان مرزائیوں کی اس دارفتگی کی غایت کیا ہے۔ لیکن بعد میں پتا چلا کہ ان کے پاؤں زمین پر اس لیے نہیں ”ٹِک“ رہے کہ ان کے خیال میں ربوہٰ جا کر ہم لوگ مرزائی ہو جائیں گے۔
محکمہ ٹیلی فون کا ایک ملازم فضل احمد ربوہٰ میں رہتا تھا۔ راولپنڈی کے اس شخص کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی۔ اس کے بیٹے منور کو مرزائیت سے سخت نفرت تھی۔ چنانچہ وہ باپ سے ناراض ہو کر اپنی مسلمان پھوپھی کے ہاں پنڈی میں مقیم ہو گیا۔ فضل احمد نے بیٹے کو گھر واپس لانے اور مرزائیت میں داخل کرنے کے لیے سر توڑ کوششیں کیں مگر ناکام رہا۔ فضل احمد نے اس سلسلے میں ایک مرزائی مبلغ جمیل الرحمٰن رفیق سے مدد طلب کی۔ موصوف فضل احمد کے گھر آیا اور یقین دہانی کرائی کہ وہ اس کے بیٹے کو دوبارہ مرزائی کر لے گا۔ لیکن بجائے اس کے کہ جمیل الرحمن رفیق منور کو مرزائی کرتا وہ خود فضل احمد کی بیٹی ناصرہ پر لٹو ہو گیا۔ خوبصورت ناصرہ جمیل الرحمن رفیق کو اپنا انکل سمجھ کر اس کی خوب خاطر مدارات کرتی رہی مگر انکل کچھ اور ہی نکلا اور چند روز بعد ہی اس نے فضل کو شادی کا پیغام بھجوا دیا۔ مرزائی مرکز کی طرف سے بھی جمیل الرحمن رفیق کی سفارش ہوئی لہٰذا بیچارہ فضل احمد انکار نہ کر سکا۔ چنانچہ اسے اپنی لڑکی کی شادی دگنی عمر کے شخص سے کرنی پڑ گئی۔ جمیل الرحمن رفیق ناصرہ کو لے کر چلتا بنا جو اب اس کی کئی بیٹیوں کی ماں ہے۔ یوں فضل احمد بیٹے کو مرزائی بنانے کے چکر میں بیٹی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
ربوہٰ میں مرزائیوں نے ارتداد کے عجیب و غریب طریقے اختیار کر رکھے ہیں۔ یہ لوگ دیہات کے غریب لڑکوں کو تعلیم دلوانے کے جھانسہ دے کر شیشے میں اتار لیتے تھے اور بعد میں بار احسان تلے دبے ہوئے یہ لڑکے مرزائی ہو جاتے۔ ان مرزائی لڑکوں کو مسلمان خاندانوں کے سامنے غیر مرزائی ظاہر کر کے ان کی شادی مسلمان لڑکیوں سے کر دی جاتی تھی۔ ایک مولوی کا تو یہ باقاعدہ کاروبار تھا۔ وہ جماعت سے فنڈز لیتا۔ دیہاتی غرباء لڑکوں کو تعلیم و ملازمت دلواتا، پھر ان کے رشتے مسلمان گھرانوں میں کر دیتا ۔ اس شخص مے نہایت شریف اور خدا رسیدہ شخص کے ساتھ ایسا ہی دھوکہ کیا اور اپنے ایک پر وردہ ”جنگلی“ لڑکے ایک مسلمان کی تعلیم یافتہ بیٹی کے ساتھ بیاہ دیا۔ دو بچوں کے بعد مذکورہ مسلمان خاندان پر حقیقت کھلی تو وہ سر پیٹ کر رہ گئے مگر اب تو چڑیاں کھیت چُگ چکی تھیں۔
اسی طرح مرزائی لڑکوں کی ڈیوٹی تھی کہ وہ مسلمانوں کی لڑکیوں کو شیشے میں اتاریں اور پھر انہیں اپنی زوجیت میں لائیں۔ یہاں ایک واقع جو لطیف بن گیا، قابل ذکر ہے۔ ایک مرزائی عبد الواسع نے ”مری“ میں سیر کے دوران ایک لڑکی کے ساتھ مراسم استوار کر لیے۔ وہ بہت خوش تھا کہ ایک مسلمان لڑکی پھنس گئی جس کے عوض اسے مرکز سے بھاری معاوضہ ملے گفا۔ مگر بعد میں اس پر انکشاف ہوا کہ وہ لڑکی چنیوٹ کے سردار عبدالقادر قادیانی کی بیٹی نجمی ہے جو مسلمان نہیں مرزائی ہے بلکہ وہ بھی جماعت کی طرف سے مسلمان مرد مرزائی بنانے پر مامور ہے اور اس نے مذکورہ شخص کو مسلمان لڑکا سمجھ کر لفٹ کرائی تھی۔ مرزائیوں کے مسلمان عورتوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا گھناؤنا منصوبہ اس قدر عام ہے کہ ایک مرزائی اسلم چودھری نے ایک مسلمان عورت زرینہ عرف بِلو سے دوستی کر لی جس کا خاوند تلاش معاش کے سلسلے میں ملک سے باہر تھا۔ بعد ازاں اس عورت سے مرزائی امت کے اس سپوت نے جس کو خدا کے ساتھ ہم کلام ہونے کا دعوی ہے ایک ناجائز بیٹا پیدا کیا جو اب جوان ہو چکا ہے اور اس کا نام ارسلان ہے۔
ازل سے آج تک دنیا کے ہر معاشرے میں تین قوتوں کی حکمرانی رہی ہے جن میں حکام، مذہبی اکابرین اور طبیب شامل ہیں۔ تینوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ مذہبی اکابر حکام کی ہر سچی جھوٹی بات کی تائید کر کے انہیں من مانی کا موقع دیتے ہیں جبکہ حکام اہل مذہب کو مالی امداد فراہم کرتے ہیں اور طبیب دونوں فریقوں کو جسمانی اور جنسی طور پر صحت مند رہنے کے لیے نسخے اور کشتے مہیا کرتے ہیں۔ انگریز کو ہندوستان پر پورا تسلط حاصل ہونے باوجود بھی مسلمانوں سے ہمیشہ خطرہ رہا ہے۔ خود کو مضبوط کرنے اور مسلمانوں میں دراڑیں ڈالنے کے لیے اس نے جب کسی مذہبی حوالے اور دھڑے کی شدت سے ضرورت محسوس کی تو مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی بنا کر لا کھڑا کیا۔ ان دونوں قوتوں کو شیطان دوستی میں مزید آگے لے جانے کے لیے بھیرہ نژاد حکیم مولوی نور الدین نے تمام تر ذہنی اور طبی صلاحیتیں صرف کر کے ایک مرزائی معاشرے کو جنم دیا۔ مرزائیت کے قیام کو دوام بخشنے کے لیے مرزا غلام قادیانی اس کے برگ و بار اور خلفاء کو مرزائی علماء نے دلائل و براہین سے سچا ثابت کیا اور انگریز سے دولت کے ڈھیر سمیٹے جبکہ ان دونوں حلقوں کی ذہنی، جسمانی اور جنسی آبیاری کے لیے طبیبوں اور ویدوں کے ٹولے نے اپنی اپنی خدمات انجام دیں۔ ربوہٰ شہر میں دیسی علاج کرنے والے حکماء کی بکثرت دکانیں ہیں۔ کہنے والوں کے مطابق حکیم نور الدین کا مرزائی خاندان نبوت اور امت پر بڑا احسان ہے۔ اس کی ادوایہ نے مرزا غلام احمد کی ڈھلتی ہوئی جنسی قوتوں کو سنبھالا دیا اور نسخہ ”زد جام عشق“ کے زور سے مرزا محمود احمد اور مرزا بشیر احمد ایم اے پیدا ہوئے۔
گول بازار میں دواخانوں میں زیادہ تر قوت مردمی کی ادوایہ فروخت ہوتی تھیں۔ ہر دوسری دوا پر ”نسخہ حضرت خلیفہ اوّل“ تحریر کر دیا جاتا جس کی کشش سے دوا کی خریداری میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ ”مرزا غلام احمد؛ کے بارے میں مشہور ہے کہ ان پر جنسی قوت بڑھانے کا خبط سوار تھا۔ ان کی تقلید میں مرزائی امت کے مرد بھی ہر وقت جنسی کمزوری دور کرنے اور قوتِ مردمی بڑھانے کے چکر میں رہتے ہیں۔ یہ انہی نسخوں کا ہی اعجاز و اکرام ہے کہ مرزائی تعدادِ ازدوازج اور کثرت اولاد کے دلدادہ ہیں۔ حکماء کا خاصہ ہے کہ وہ جب بھی کوئی ”بم“ قسم کا نسخہ تیار کرتے ہیں تو پہلے خود استعمال کرتے ہیں۔ اسی بناء پر دواخانہ خدمت خلق کے حکیم بشیر اور دواخانہ نظام جان کے حکیم نذیر کے گھروں میں بچوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ دیگر حکماء بھی اپنے اپنے کُشتوں کی برکت سے خاصے عیال دار تھے۔ جنسی ادویہ کے علاوہ نور کا جل، محبوب کا جل اور سرمہ نور بھی مولوی نور الدین کے نسخے قرار دیئے جاتے اور ان کی چاندی حاصل کی جاتی۔ حکیم نذیر کی پیٹ درد کے لیے تار کی گئی دوا ”ہاضمون“ بہت مشہور تھی جس کے لیے انہوں نے ایک نظم بھی لکھی تھی۔
ہاضمون کیا خوب دوائی
ربوے وِچ حکیم بنائی
ربوے وِچ حکیم بنائی
بڑے بڑے مگر مچھ قسم کے حکماء کو ”مرزائی خاندان“ کی سرپرستی حاصل تھی لیکن نچلی سطح کے طبیب نہایت تنگ دست تھے، جنہیں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے تھے۔ حکیم صدیق نے اباجی سے کسمپُرسی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ”ہم پر تو کوئی ایسا عذاب الٰہی نازل ہے کہ کسی کو مفت دوا دیں تو فوراً آرام آ جاتا ہے لیکن مول دوا لینے والوں کو معمولی افاقہ بھی نہیں ہوتا۔ ”بعض اوقات تو لوگوں کو دوا کی قیمت واپس کرنی پڑتی ہے۔“ بڑے حکیموں کے بھی اکثر نسخے ناکام تھے۔ مگر ان کا ”کلا“ بہت مضبوط تھا۔ دواخانہ خدمت خلق والوں کا کیل مہاسوں سے نجات دلانے والا ”بیوٹی لوشن“ انتہائی خطرناک تھا۔ ایک بار ایک خاتون نے استعمال کیا تو خطرناک الرجی کا شکار ہو گئی جو بمشکل اور بسیار ڈاکٹری علاج سے ٹھیک ہوئی مگر چہرے پر نشان عمر بھر موجود رہے۔
جہاں ربوہٰ میں ایک طرف ”حکیم راج“ تھا تو دوسری طرف زچہ بچہ کے بھی کئی چھوٹے بڑے کلینک کھلے تھے، جنہیں عطائی قسم کی دوائیاں چلاتی تھیں۔ دو کلینک بہرحال بڑے اور مشہور تھے جن میں سے ایک ”اقبال زنانہ دواخانہ“ تھا جو محلہ دار الرحمت وسطی میں کچے بازار اور پرائمری سکول کے قریب واقع تھا۔ربوہٰ میں طبقاتی سخرق ملک بھر میں سے زیادہ تھا جس کی بنا پر اعلی درجے کے گھرانوں کی خواتین تو اپنے زچگی کے مراحل بڑے شہروں کے بڑے ہسپتالوں میں سر کیا کرتی تھیں۔ درمیانے، سفارشی اور منہ لگے طبقے کی خواتین کے لیے فضل عمر ہسپتال میں بھی مراعات و سہولیات میّسر تھیں۔ لیکن نچلا اور تیسرے درجہ کا طبقہ بہر حال روایتی دائیوں اور مذکورہ دواخانوں کے سہارے چلتا تھا۔ ان دواخانوں میں زچگی کے امور کے علاوہ اسقاط حمل کے کیس بھی نمٹائے جاتے تھے۔ اقبال زنانہ دواخانہ کی مالکہ رضیہ اقبال اپنے بیٹے کی معاونت سے کلینک چلا رہی تھی۔ اس کے بیٹے کی رحمت بازار میں جوتوں کی دکان ”نعیم پمپی ہاؤس“ تھی۔ اس کے علاوہ گول بازار کے ریلوے کے پھاٹک سے ملحقہ پہاڑیوں کے دامن میں ایک مختاری دائی کا مینٹری ہوم تھا۔ یہاں بھی خواتین اپنے زچگی کے مراحل سے گزرتی تھیں۔ اس کے علاوہ بہت سے بالا بلند اور نام نہاد شرفاء شبینہ مشاغل سے پیدا ہونے والے مسائل کے ازالہ کے لیے بھی کلینکوں سے رجوں کرتے تھے۔ دارلرحمت وسطی میں ہمارا ایک کلاس فیلو صابر رلی رہتا تھا۔ سیاہ رنگ کا یہ مرزائی بےزار انسان باتیں کھر کھری کرتا تھا۔ اس نے رضیہ اقبال کے بارے میں بتایا کہ موصوفہ اگرچہ ایک غیر مستند دائی ہے لیکن قادیان کی ظلی نبوت کی پیدوار کی تختہ مشق بنائی ہوئی ”امتی“ عورتوں کی مشکلات بہر حال آسان کر دیا کرتی ہے۔ اس کے بدلے میں اس نام نہاد ڈاکٹرنی کو ستم رسیدگان سے فیس اور ”اوپر والوں“ سے انعام بھی ملتا ہے۔
آخری تدوین
: