• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

احمقوں کی جنت

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
احمقوں کی جنت


جی آر اعوان

ہر شخص کے ماضی میں یادوں کا ایک جہاں آباد ہوتا ہے۔ ذہن کا کمپیوٹر آن ہوتے ہی بیتے دنوں کا لمحہ لمحہ نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ میرے ایام رفتہ بھی یادوں سے بھرے پڑے ہیں۔ بے شمار تلخ و شیریں یادیں بھلائے نہیں بھولتیں۔ پھر قدرت نے انتہائی کمال کا حافظہ دیا ہے کہ اک ذرا غور کی دیر ہے، گئے دنوں کی ہر بات یوں یاد آنے لگتی ہے جیسے مسافت سمٹ گئی ہو اور گزرا زمانہ لوٹ آیا ہو۔ بچپن کی یادیں تو ویسے بھی لاشعور کے نہاں خانوں میں ایسے جاگزیں ہوتی ہیں کہ انسان زندگی میں جب بھی خواب دیکھتا ہے تو خود کو اسی گھر میں دیکھتا ہے جہاں اس نے بچپن گزارا ہوتا ہے۔

میرا بچپن اور لڑکپن کفر کی بستی ”مرزائیل“ میں گزرا جسے ربوہٰ (چناب نگر) کہا جاتاہے۔ مرزائیوں اور یہودیوں میں ہر اعتبار سے اس قدر مماثلت ہے کہ ربوہٰ کو اسرائیل کے ہم وزن مرزائیل کہنا انتہائی موزوں لگتا ہے۔ ”احمقوں کی جنت “ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مسلمان جنت کے لیے اعمال، اوصاف اور افعال کو با کمال بناتا ہے جب کے مرزائی پیغمبر کی جنت کے ٹکٹ کے خواہش مند کو اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کے ایک چوتھائی حصہ کے برابر رقم جماعت کو دینی پڑھتی ہے۔ لہٰذا اعمال کی بجائے مال سے جنت حاصل کرنے والوں کے شہر کو ”احمقوں کی جنت“ ہی کہا جا سکتا ہے۔

1965ء میں میرے والد گرامی سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں ربوہٰ تبدیل ہوئے تو ہمیں اپریل 1965ء سے اگست 1969ء تک ربوہٰ میں رہنا پڑا۔ بعد ازاں اگرچہ چنیوٹ میں رہا، تاہم تعلیمی تعلق کے حوالے سے دسمبر 1975ء تک مرزائیل سے ہی وابستگی رہی۔ اس دوران وہاں کی شہری، شخصی، سماجی زندگی اور مرزائی روایات کے بے شمار مشاہدات سامنے آئے۔

مرزائی قوم ایک جھوٹے نبی کی امت ہونے کے باعث مسلمانوں کے لیے جس قدر ناپسندیدہ اور مکروہ ہے اس سے کہیں زیادہ ان کی زندگی میں پھلیے ہوئے اخلاقی اور سماجی طاعون کو دیکھ کر سر چکراتا اور زہن سوچتا ہے کہ یہ لوگ ہیں کیا اور خود کو پیش کیا کرتے ہیں۔ اخلاق کی چادر اوڑھے یہ گروہ یہود و نصاریٰ سے بھی بدتر خصائل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

قیام ربوہٰ کے دوران بے شمار مرزائیوں سے ملاقات ہوئی۔ کئی دوست بنے، لا تعداد کلاس فیلو بھی تھے۔ ان کے مذہبی اجتماعات بھی دیکھے۔ کئی مرزائی بے زاروں سے مرزائی امت کے ارباب حل و عقد کی داخلی زندگی کے رنگین و سادہ قصے بھی سنے۔ ”جنت و دوزخ“ اور ” حور و غلمان“ کی کہانیاں بھی معلوم ہوئیں لیکن ان سب سے ایک ہی نتیجہ اخذ کیا کہ مرزائیوں میں مسلمانوں کے لیے تعصب اور تنفر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔

چند برس پہلے ایک جاننے والے کے گھر بیٹھا تھا۔ ان کے ہاں ڈش نصب تھی، ٹیلی ویژن آن تھا۔ چینل بدلتے ہوئے اچانک ”احمدیہ ٹیلی ویژن نیٹورک“ آ گیا جس پر مرزا طاہر کا نام نہاد جمعہ کا خطبہ نشر ہو رہا تھا۔ موصوف کا کہنا تھا کہ ”پاکستان میں ہم قابل تعزیر جرائم کی زد میں آتے ہیں، ان میں ہمارے گھروں سے قرآن کا برآمد ہونا، کسی کو السلام علیکم کہنا یا نماز پڑھنا شامل ہے۔ جبکہ پاکستانی علماء اغواء، بدفعلی، زیادتی اور ناجائز اسلحہ رکھنے کے جرائم میں دھرے جاتے ہیں۔ موازنہ کیا جائے کہ قصور وار اور جرم دار کون ہے؟“

مرزا طاہر کی طرف سے جس ڈھٹائی سے خود کو معصوم اور پاکستانی علمائے کرام کو مطعون کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی، اس کو سن کر میری سوئی ہوئی یادوں نے انگڑائی لی اور قیام ربوہٰ کے دوران دیکھے ہوئے مرزائیوں کے کئی ”کالے کرتوت“ یاد آنے لگے اور بے اختیار چاہا کہ کاش یہ شخص میرے سامنے ہوتا تو میں اس کا اور اس کی امت کا کچا چٹھا اس کے سامنے کھول کر رکھ دیتا۔ میرے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا۔ چنانچہ یہ خواہش دل ہی دل میں رہ گئی۔ لیکن قدرت کو شائد میرے جذبے پر کچھ زیادہ ہی پیار آگیا۔ اس لیے اس نے مرزائیوں کو آئنہ دکھانے کے لیے مجھے جلد موقع فراہم کر دیا۔

1965ء کے شروع کی بات ہے ہم سائیوال ضلع سرگودھا میں رہتے تھے کہ اباجی کا تبادلہ ربوہٰ ہو گیا۔ وہ محکمہ زراعت میں ملازمت کرتے تھے۔ ہمارا آبائی شہر بھیرہ ضلع سرگودھا ہے۔ بھیرہ جہان اولیا خیز سر زمین ہے، وہاں مرزائیوں کا گڑھ بھی ہے۔ مرزا قادیانی کا پہلا خلیفہ حکیم نور الدین بھی بھیرہ کا ہی رہنے والا تھا۔ جس نے ”مرزا غلام احمد“ کی جھوٹی نبوت کو چار چاند لگائے۔ انہی دنوں ہماری پھوپھی زاد بہن کی شادی تھی، جس میں شرکت کے لیے ہم سائیوال سے بھیرہ آئے تو وہاں کے مرزائیوں نے ہمارے گھر میلہ لگا دیا۔ جب ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہم ربوہٰ جا رہے ہیں تو ان کی خوشیاں دیدنی تھیں۔ حافظ اشرف، اماں خدیجہ، مبارک بک سیلر، بشارت چکی والا، مبارکہ درزن غرض یہ کہ ہر مرزائی شخص ہمیں ملنے آیا۔ یہ لوگ یوں مل رہے تھے جیسے ہم حج یا عمرہ کرنے دیار حبیبﷺ جا رہے ہوں۔ تب مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان مرزائیوں کی اس دارفتگی کی غایت کیا ہے۔ لیکن بعد میں پتا چلا کہ ان کے پاؤں زمین پر اس لیے نہیں ”ٹِک“ رہے کہ ان کے خیال میں ربوہٰ جا کر ہم لوگ مرزائی ہو جائیں گے۔

محکمہ ٹیلی فون کا ایک ملازم فضل احمد ربوہٰ میں رہتا تھا۔ راولپنڈی کے اس شخص کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی۔ اس کے بیٹے منور کو مرزائیت سے سخت نفرت تھی۔ چنانچہ وہ باپ سے ناراض ہو کر اپنی مسلمان پھوپھی کے ہاں پنڈی میں مقیم ہو گیا۔ فضل احمد نے بیٹے کو گھر واپس لانے اور مرزائیت میں داخل کرنے کے لیے سر توڑ کوششیں کیں مگر ناکام رہا۔ فضل احمد نے اس سلسلے میں ایک مرزائی مبلغ جمیل الرحمٰن رفیق سے مدد طلب کی۔ موصوف فضل احمد کے گھر آیا اور یقین دہانی کرائی کہ وہ اس کے بیٹے کو دوبارہ مرزائی کر لے گا۔ لیکن بجائے اس کے کہ جمیل الرحمن رفیق منور کو مرزائی کرتا وہ خود فضل احمد کی بیٹی ناصرہ پر لٹو ہو گیا۔ خوبصورت ناصرہ جمیل الرحمن رفیق کو اپنا انکل سمجھ کر اس کی خوب خاطر مدارات کرتی رہی مگر انکل کچھ اور ہی نکلا اور چند روز بعد ہی اس نے فضل کو شادی کا پیغام بھجوا دیا۔ مرزائی مرکز کی طرف سے بھی جمیل الرحمن رفیق کی سفارش ہوئی لہٰذا بیچارہ فضل احمد انکار نہ کر سکا۔ چنانچہ اسے اپنی لڑکی کی شادی دگنی عمر کے شخص سے کرنی پڑ گئی۔ جمیل الرحمن رفیق ناصرہ کو لے کر چلتا بنا جو اب اس کی کئی بیٹیوں کی ماں ہے۔ یوں فضل احمد بیٹے کو مرزائی بنانے کے چکر میں بیٹی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

ربوہٰ میں مرزائیوں نے ارتداد کے عجیب و غریب طریقے اختیار کر رکھے ہیں۔ یہ لوگ دیہات کے غریب لڑکوں کو تعلیم دلوانے کے جھانسہ دے کر شیشے میں اتار لیتے تھے اور بعد میں بار احسان تلے دبے ہوئے یہ لڑکے مرزائی ہو جاتے۔ ان مرزائی لڑکوں کو مسلمان خاندانوں کے سامنے غیر مرزائی ظاہر کر کے ان کی شادی مسلمان لڑکیوں سے کر دی جاتی تھی۔ ایک مولوی کا تو یہ باقاعدہ کاروبار تھا۔ وہ جماعت سے فنڈز لیتا۔ دیہاتی غرباء لڑکوں کو تعلیم و ملازمت دلواتا، پھر ان کے رشتے مسلمان گھرانوں میں کر دیتا ۔ اس شخص مے نہایت شریف اور خدا رسیدہ شخص کے ساتھ ایسا ہی دھوکہ کیا اور اپنے ایک پر وردہ ”جنگلی“ لڑکے ایک مسلمان کی تعلیم یافتہ بیٹی کے ساتھ بیاہ دیا۔ دو بچوں کے بعد مذکورہ مسلمان خاندان پر حقیقت کھلی تو وہ سر پیٹ کر رہ گئے مگر اب تو چڑیاں کھیت چُگ چکی تھیں۔

اسی طرح مرزائی لڑکوں کی ڈیوٹی تھی کہ وہ مسلمانوں کی لڑکیوں کو شیشے میں اتاریں اور پھر انہیں اپنی زوجیت میں لائیں۔ یہاں ایک واقع جو لطیف بن گیا، قابل ذکر ہے۔ ایک مرزائی عبد الواسع نے ”مری“ میں سیر کے دوران ایک لڑکی کے ساتھ مراسم استوار کر لیے۔ وہ بہت خوش تھا کہ ایک مسلمان لڑکی پھنس گئی جس کے عوض اسے مرکز سے بھاری معاوضہ ملے گفا۔ مگر بعد میں اس پر انکشاف ہوا کہ وہ لڑکی چنیوٹ کے سردار عبدالقادر قادیانی کی بیٹی نجمی ہے جو مسلمان نہیں مرزائی ہے بلکہ وہ بھی جماعت کی طرف سے مسلمان مرد مرزائی بنانے پر مامور ہے اور اس نے مذکورہ شخص کو مسلمان لڑکا سمجھ کر لفٹ کرائی تھی۔ مرزائیوں کے مسلمان عورتوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا گھناؤنا منصوبہ اس قدر عام ہے کہ ایک مرزائی اسلم چودھری نے ایک مسلمان عورت زرینہ عرف بِلو سے دوستی کر لی جس کا خاوند تلاش معاش کے سلسلے میں ملک سے باہر تھا۔ بعد ازاں اس عورت سے مرزائی امت کے اس سپوت نے جس کو خدا کے ساتھ ہم کلام ہونے کا دعوی ہے ایک ناجائز بیٹا پیدا کیا جو اب جوان ہو چکا ہے اور اس کا نام ارسلان ہے۔

ازل سے آج تک دنیا کے ہر معاشرے میں تین قوتوں کی حکمرانی رہی ہے جن میں حکام، مذہبی اکابرین اور طبیب شامل ہیں۔ تینوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ مذہبی اکابر حکام کی ہر سچی جھوٹی بات کی تائید کر کے انہیں من مانی کا موقع دیتے ہیں جبکہ حکام اہل مذہب کو مالی امداد فراہم کرتے ہیں اور طبیب دونوں فریقوں کو جسمانی اور جنسی طور پر صحت مند رہنے کے لیے نسخے اور کشتے مہیا کرتے ہیں۔ انگریز کو ہندوستان پر پورا تسلط حاصل ہونے باوجود بھی مسلمانوں سے ہمیشہ خطرہ رہا ہے۔ خود کو مضبوط کرنے اور مسلمانوں میں دراڑیں ڈالنے کے لیے اس نے جب کسی مذہبی حوالے اور دھڑے کی شدت سے ضرورت محسوس کی تو مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی بنا کر لا کھڑا کیا۔ ان دونوں قوتوں کو شیطان دوستی میں مزید آگے لے جانے کے لیے بھیرہ نژاد حکیم مولوی نور الدین نے تمام تر ذہنی اور طبی صلاحیتیں صرف کر کے ایک مرزائی معاشرے کو جنم دیا۔ مرزائیت کے قیام کو دوام بخشنے کے لیے مرزا غلام قادیانی اس کے برگ و بار اور خلفاء کو مرزائی علماء نے دلائل و براہین سے سچا ثابت کیا اور انگریز سے دولت کے ڈھیر سمیٹے جبکہ ان دونوں حلقوں کی ذہنی، جسمانی اور جنسی آبیاری کے لیے طبیبوں اور ویدوں کے ٹولے نے اپنی اپنی خدمات انجام دیں۔ ربوہٰ شہر میں دیسی علاج کرنے والے حکماء کی بکثرت دکانیں ہیں۔ کہنے والوں کے مطابق حکیم نور الدین کا مرزائی خاندان نبوت اور امت پر بڑا احسان ہے۔ اس کی ادوایہ نے مرزا غلام احمد کی ڈھلتی ہوئی جنسی قوتوں کو سنبھالا دیا اور نسخہ ”زد جام عشق“ کے زور سے مرزا محمود احمد اور مرزا بشیر احمد ایم اے پیدا ہوئے۔

گول بازار میں دواخانوں میں زیادہ تر قوت مردمی کی ادوایہ فروخت ہوتی تھیں۔ ہر دوسری دوا پر ”نسخہ حضرت خلیفہ اوّل“ تحریر کر دیا جاتا جس کی کشش سے دوا کی خریداری میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ ”مرزا غلام احمد؛ کے بارے میں مشہور ہے کہ ان پر جنسی قوت بڑھانے کا خبط سوار تھا۔ ان کی تقلید میں مرزائی امت کے مرد بھی ہر وقت جنسی کمزوری دور کرنے اور قوتِ مردمی بڑھانے کے چکر میں رہتے ہیں۔ یہ انہی نسخوں کا ہی اعجاز و اکرام ہے کہ مرزائی تعدادِ ازدوازج اور کثرت اولاد کے دلدادہ ہیں۔ حکماء کا خاصہ ہے کہ وہ جب بھی کوئی ”بم“ قسم کا نسخہ تیار کرتے ہیں تو پہلے خود استعمال کرتے ہیں۔ اسی بناء پر دواخانہ خدمت خلق کے حکیم بشیر اور دواخانہ نظام جان کے حکیم نذیر کے گھروں میں بچوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ دیگر حکماء بھی اپنے اپنے کُشتوں کی برکت سے خاصے عیال دار تھے۔ جنسی ادویہ کے علاوہ نور کا جل، محبوب کا جل اور سرمہ نور بھی مولوی نور الدین کے نسخے قرار دیئے جاتے اور ان کی چاندی حاصل کی جاتی۔ حکیم نذیر کی پیٹ درد کے لیے تار کی گئی دوا ”ہاضمون“ بہت مشہور تھی جس کے لیے انہوں نے ایک نظم بھی لکھی تھی۔

ہاضمون کیا خوب دوائی

ربوے وِچ حکیم بنائی

بڑے بڑے مگر مچھ قسم کے حکماء کو ”مرزائی خاندان“ کی سرپرستی حاصل تھی لیکن نچلی سطح کے طبیب نہایت تنگ دست تھے، جنہیں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے تھے۔ حکیم صدیق نے اباجی سے کسمپُرسی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ”ہم پر تو کوئی ایسا عذاب الٰہی نازل ہے کہ کسی کو مفت دوا دیں تو فوراً آرام آ جاتا ہے لیکن مول دوا لینے والوں کو معمولی افاقہ بھی نہیں ہوتا۔ ”بعض اوقات تو لوگوں کو دوا کی قیمت واپس کرنی پڑتی ہے۔“ بڑے حکیموں کے بھی اکثر نسخے ناکام تھے۔ مگر ان کا ”کلا“ بہت مضبوط تھا۔ دواخانہ خدمت خلق والوں کا کیل مہاسوں سے نجات دلانے والا ”بیوٹی لوشن“ انتہائی خطرناک تھا۔ ایک بار ایک خاتون نے استعمال کیا تو خطرناک الرجی کا شکار ہو گئی جو بمشکل اور بسیار ڈاکٹری علاج سے ٹھیک ہوئی مگر چہرے پر نشان عمر بھر موجود رہے۔

جہاں ربوہٰ میں ایک طرف ”حکیم راج“ تھا تو دوسری طرف زچہ بچہ کے بھی کئی چھوٹے بڑے کلینک کھلے تھے، جنہیں عطائی قسم کی دوائیاں چلاتی تھیں۔ دو کلینک بہرحال بڑے اور مشہور تھے جن میں سے ایک ”اقبال زنانہ دواخانہ“ تھا جو محلہ دار الرحمت وسطی میں کچے بازار اور پرائمری سکول کے قریب واقع تھا۔ربوہٰ میں طبقاتی سخرق ملک بھر میں سے زیادہ تھا جس کی بنا پر اعلی درجے کے گھرانوں کی خواتین تو اپنے زچگی کے مراحل بڑے شہروں کے بڑے ہسپتالوں میں سر کیا کرتی تھیں۔ درمیانے، سفارشی اور منہ لگے طبقے کی خواتین کے لیے فضل عمر ہسپتال میں بھی مراعات و سہولیات میّسر تھیں۔ لیکن نچلا اور تیسرے درجہ کا طبقہ بہر حال روایتی دائیوں اور مذکورہ دواخانوں کے سہارے چلتا تھا۔ ان دواخانوں میں زچگی کے امور کے علاوہ اسقاط حمل کے کیس بھی نمٹائے جاتے تھے۔ اقبال زنانہ دواخانہ کی مالکہ رضیہ اقبال اپنے بیٹے کی معاونت سے کلینک چلا رہی تھی۔ اس کے بیٹے کی رحمت بازار میں جوتوں کی دکان ”نعیم پمپی ہاؤس“ تھی۔ اس کے علاوہ گول بازار کے ریلوے کے پھاٹک سے ملحقہ پہاڑیوں کے دامن میں ایک مختاری دائی کا مینٹری ہوم تھا۔ یہاں بھی خواتین اپنے زچگی کے مراحل سے گزرتی تھیں۔ اس کے علاوہ بہت سے بالا بلند اور نام نہاد شرفاء شبینہ مشاغل سے پیدا ہونے والے مسائل کے ازالہ کے لیے بھی کلینکوں سے رجوں کرتے تھے۔ دارلرحمت وسطی میں ہمارا ایک کلاس فیلو صابر رلی رہتا تھا۔ سیاہ رنگ کا یہ مرزائی بےزار انسان باتیں کھر کھری کرتا تھا۔ اس نے رضیہ اقبال کے بارے میں بتایا کہ موصوفہ اگرچہ ایک غیر مستند دائی ہے لیکن قادیان کی ظلی نبوت کی پیدوار کی تختہ مشق بنائی ہوئی ”امتی“ عورتوں کی مشکلات بہر حال آسان کر دیا کرتی ہے۔ اس کے بدلے میں اس نام نہاد ڈاکٹرنی کو ستم رسیدگان سے فیس اور ”اوپر والوں“ سے انعام بھی ملتا ہے۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
طلاق ربوہٰ میں جس قدر عام تھی اس کی مثال کسی اور معاشرے میں بہت ہی کم ملتی ہے۔ یہاں مرد اور عورتیں دونوں طلاق کو مرضی کے مطابق استعمال کر لیتے ہیں۔ ہمارے سکول کے ایک ٹیچر اسماعیل صاحب کے فلاسفی کے پروفیسر بیٹے مبارک احمد کی شادی ہوئی تو سُہاگ راتے کو ہی لڑکی نے لڑکے کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا اور اگلے ہی روز دونوں میں طلاق ہو گئی اور اسی ہفتے دونوں کی نئی شادیاں کر دی گئیں۔ طلاق کے بعد خواتین میں عدت گزارنے کا بھی کوئی تصور نہیں تھا۔

ایک مرتبہ ایک شخص نے اپنی منکوحہ افتخار بیگم کو مخص اس بناء پر طلاق دے دی کہ اس کو کسی اور لڑکی سے محبت تھی جبکہ اس کا باپ اس لڑکی کو صرف اپنے اغراض و مقاصد کے لیے ”بہو“ بنا کر لانا چاہتا تھا۔ اس شخص نے اپنی منکوحہ کو طلاق کے ساتھ تحریر کیے جانے والے خط میں لکھا ” ہمارے معاشرے میں سسر کا بہو کے ساتھ تعلقات استوار کر لینا معمول کی کاروائی ہے۔ لہٰذا میں آپ کو اپنے باپ کے چنگل سے بچانے کے لیے طلاق دے رہا ہوں۔“ یہ واقعہ محلّہ دار الرحمت شرقی کی ایک مکین لڑکی سے پیش آیا۔

طلاق اور خلع کے معاملات کو حل کرنے والی ربوہٰ کی متعلقہ انتظامیہ کا خاصہ ہی کہ وہ ایک ہی نشست میں طلاق کا فیصلہ کر دیتی اور کھڑے پاؤں لڑکی اور لڑکے کے لیے نئے رشتے تجویز کر دیتی جنہیں فریقین اکثر قبول کر لیتے۔ یہ وجہ ہے کہ طلاق کے مضر اثرات کو محسوس کیا جاتا اور نہ ہی اس سے بچاؤ کے لیے عملی اقدام کیے جاتے تھے۔

اکثر مرزائی عورتیں شوقیہ طلاق بھی لے لیتی تھیں۔ ایسی کئی مثالیں دیکھی گھی ہیں۔ ایک شخص عبدالوسع کی بہن نے جب کسی ٹھوس وجوہ کے بغیر طلاق لے لی تو ہمارے ایک کلاس فیلو محمود نے اس بارے میں بتایا کہ مذکورہ خاتون ازدواجی بندھن کی قائل نہیں تھی۔ اس نے گھر والوں کے مجبور کرنے پر شادی کی اور ایک ”بچہ“ حاصل کرنے بعد شوہر اور سسرال سے چھٹکارا حاصل کر لیا۔ محمود کے مطابق ربوہٰ سے وابستہ اکثر تعلیم یافتہ خواتین میں یہی رجحان پایا جاتا ہے۔ وہ صرف بچہ حاصل کرنا چاہتی ہیں تاکہ معاشرے میں ان سے ”تنہا عورت“ کا لیبل اتر جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ کسی بھی عام شخص سے شادی کر لیتی ہیں اور مقصد حاصل ہوتے ہی کسی بھی بات کو جواز بنا کر نجات حاصل کر لیتی ہیں۔

ربوہٰ میں طلاقوں کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے جس پر مرزائی بےزار افراد کی اکثریت پوری طرح متفق ہے۔ ان لوگوں کے مطابق مرزائی امت کے مرد حضرات اپنے پیشوا اور اس کی آل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ”سدومیت“ کے اس قدر رسیا ہیں کہ وہ بیویوں کو بھی تختہ مشق بننے پر مجبور کرتے ہیں۔ بعض خواتین اپنی مجبوریوں کے باعث سر تسلیم خم کر لیتی ہیں جب کہ اکثریت اس پر طلاق کو ترجیع دیتی ہیں ہمارے محلّہ میں ایک خاتون بشریٰ نے مخص اسی وجہ سے طلاق لے لی کہ وہ شوہر کی خواہشات پوری کرنے سے قاصر تھی۔

ہمارے سکول کے ایک استاد کی شادی بھی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون سے ہوئی جو پائے کی ریاضی دان تھی۔ اس نے موصوف استاد سے شادی کے کچھ عرصہ بعد طلاق لے لی۔ اس کے بارے میں یہی سننے میں آیا کہ خاتون اپنے شوہر نامدار کی جنسی خواہشات کو پورا نہیں کر سکتی تھی، جو وہ اس کے ساتھ اپنی امت کی مسلمہ روایت کے طور پر ادا کرنا چاہتا تھا۔

جھوٹ وہ معاشرتی بیماری ہے جو کسی بھی معاشرے کی تمام اچھی اقدار کو گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ قادیانی نبوت کی بنیاد ہی جھوٹ ہے۔ لہٰذا یہ امت ہمہ وقت جھوٹ بولنا اپنا ایمان سمجھتی تھی۔ بڑے بڑے اکابرین اپنی کہی ہوئی باتوں سے یوں مکر جاتے جیسے وہ بات کہی گئی ہی نہیں تھی۔ ایک شخص چودھری نذیر خان ایک بار ہمارے گھر آیا اور کہنے لگا کہ ” میرا بھائی اور بھابی مختار احمد ایاز اور صالح بیگم جماعت کے مبلغ ہیں اور دونوں نے میرے حصے کی جائیداد ہتھیا کر اپنے نام کرا لی ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ یہ جائیداد موروثی نہیں بلکہ ان کی خریدی ہوئی ہے۔“ ابا جی نے کہا ”تم اس بارے میں کوئی ثبوت پیش کرو کہ جائیداد کے تم بھی وارث ہو۔“ کہنے لگا ان لوگوں نے باپ کی بیماری کے زمانے میں ہر چیز اپنے نام کر الی تھی اب ثبوت تو میرے پاس ہے نہیں، بات قسم کی ہے مگر یہ لوگ جھوٹی قسم کھانے سے دریغ نہیں کرتے۔

ہماری گلی کے ایک حکیم صدیق آف میانی والے قیام پذیر تھے۔ ان کا بیٹا شریف صدیقی ایک بے روزگار نوجوان تھا۔ اس کو گھر میں کوئی وقعت حاصل تھی، نہ گھر سے باہر اس کی کوئی عزت کرتا تھا۔ اس کا ”ہینڈ رائٹنگ“ بہت عمدہ تھا۔ وہ ابا جی کا بے حد احترام کرتا تھا۔ چنانچہ مجھے جب بھی سکول کے لیے چارٹ بنوانا ہوتا، اسے کہا جاتا، وہ بنا دیتا تھا۔ ایک بار میں نے اس سے پوچھا ” آپ کو نوکری کیوں نہیں ملتی؟“ کہنا لگا ”بھیا! میں نوکری حاصل کرنے کے قابل نہیں۔“ میں نے پوچھا آپ پڑھے لکھے ہیں، پھر کیا وجہ ہے نوکری نہ ملنے کی؟ کہنے لگے ” ربوہٰ میں نوکری حاصل کرنے کے لیے منافقت کی ڈگری ہونا ضروری ہے۔ زہر کو قند کہنے کا فن جسے آتا ہو وہ شجر احمدیت کے اثمار سے فیض یاب ہو سکتا ہے۔ میری مجبوری ہے کہ میں احمدی ہو کر بھی اپنی آل نبوت اور امت کے ساتھیوں کی برائیوں اور خطاؤں سے چشم پوشی نہیں کرتا۔ اپنے والدین، متعصب بھائیوں، محلے کے صدر اور جماعت کے اکابرین کے سامنے غلط کو غلط کہتا ہوں اور یہ چیز ان لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ لہٰذا مجھ سے گھر والے خوش ہیں نہ جماعت والے راضی۔ پھر مجھے نوکری خاک ملے گی؟“

ربوہٰ میں چِڑے شکار کرنے کا رواج عام تھا۔ ہر گھر میں لوگ مرغیاں ”تاڑنے“ والے ٹوکرے کو ایک چھڑی کے سہارے اس طرح کھڑا کر دیتے کہ نیچے ایک خلا سا بن جاتا جہاں باجرہ بکھیر دیا جاتا تھا۔ جونہی چڑیا یا چڑا دانہ چگنے ٹوکرے کے نیچے جاتا ٹوکرے کے ساتھ بندھی رسی کھینچ لی جاتی۔ یوں بیچارہ چڑا مقید ہو جاتا جس کو پکڑ کر ذبح کر لیا جاتا تھا۔ ربوہٰ والے کہتے تھے کہ وہ چڑے بھی اپنے ”نبی“ کی سنت کے طور پر کھاتے ہیں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ مرزا غلام احمد چڑے پکڑتے اور انہیں سرکنڈے سے نہایت اذیت دہ طریقے سے ذبح کیا کرتے تھے۔ ان کے امتی اس معاملے میں قدرے رحمدل واقع ہوئے تھے جو سرکنڈے کے بجائے چاقو سے چڑے ذبح کرتے تھے۔ ہمارے سکول کے ایک ماسٹر مسعود جن کی شکل انتہائی ہیبت ناک تھی، چڑوں کے بڑے رسیا تھے۔ وہ لڑکوں کو چڑے پکڑ کر لانے کو کہتے تھے اور جو لڑکا انہیں چڑے فراہم کرنے میں فراخ دلی سے کام لیتا، موصوف اسے نمبر دینے میں دریا دلی سے کام لیتے تھے۔ اس کے علاوہ ربوہٰ میں تلیر، شَارَکْ، لالی اور کبوتروں کا شکار بھی بہت کیا جاتا تھا۔ یہ لوگ شکار کے لیے ائیرگن کے علاوہ غلیل بھی استعمال کیا کرتے تھے۔ ان لوگوں کی دیکھا دیکھی ہمیں بھی چڑوں کے شکار کا شوق ہوا۔ میں اور میرا کزن شکار کے ابتدائی مراحل طے کر رہے تھے کہ اباجی کو خبر ہو گئی۔ اس کے بعد ہمارے ساتھ جو ہوا، اسکا نتیجہ بہرحال یہ تھا کہ پھر کبھی ”چڑاکشی“ کا خیال زہن میں نہیں آیا۔

ربوہٰ کے دکانداروں کا ناپ تول اس قدر بددیانتی پر مبنی تھا کہ خود اہل ربوہٰ اپنے ہم مذہبوں پر اعتبار نہیں کیا کرتے تھے۔ وہ سودا سلف لینے کے لیے چنیوٹ یا لالیاں جانے کو ترجیع دیتے تھے یا چمن عباس کے نذیر چنگڑ سے اشیاء ضرورت خریدا کرتے تھے۔ شریف بٹ اور حفیظ سبزی فروش کے ساتھ اکثر لوگوں کا مول تول پر جھگڑا ہوا کرتا تھا اور تو اور یہ لوگ اپنی گندم پسوانے کے لیے ربوہٰ کی چکی پر جانے کے بجائے چمن عباس کے مسلمان چکی والے کے پاس جایا کرتے تھے۔ ان تمام حقائق سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کا گیا گزرا معاشرتی اور سماجی طور طریق مرزائیوں سے ہزار گُنا زیادہ اچھا ہے کہ یہ لوگ خود حقیقی زندگی میں مسلمانوں پر انحصار کیا کرتے تھے۔

اس شہر کے باسیوں میں گالیاں دینے کا عام رواج تھا۔ وہ لوگ کشتی نوح میں مرزا غلام قادیانی کی مسلمانوں کو دی گئی گالیوں پر بڑے نازاں تھے اور ان کی تقلید میں گالی دینا اپنا کمال سمجھتے تھے۔ ربوہٰ کا ایک ڈپو ہولڈر عبدالرحیم چیمہ مغلظات کا اس قدر ”ماسٹر“ تھا کہ اپنے ڈپو پر آنے والے گاہکوں کو بھی رگڑا لگا دیتا تھا۔ ایک بار کسی گاہک کو رحیم چیمہ گالی دے بیٹھا جس پر بات بڑھتی بڑھتی لمبی لڑائی کی شکل اختیار کر گئی۔ معاملہ امور عامہ سے ہوتا ہوا مرزا ناصر احمد کے پاس چلا گیا۔ مرزا ناصر نے رحیم چیمہ کو طلب کر کے کہا ” چیمہ صاحب! آپ کی شکایت آئی ہے کہ آپ اپنے ڈپو پر آنے والے گاہکوں کو گالیاں دیتے ہیں۔“

اس پر رحیم چیمہ نے کہا ” جناب کہڑا پہن۔۔۔ کہندا اے۔“

یہ سن کر مرزا ناصر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ کہتے بھی کیا، ان کی اپنی تعلیم بول رہی تھی۔

ربوہٰ میں بیاہ شادیوں کے سلسلے میں بھی عجیب فرق و امتیاز پر مبنی نظام رائج تھا۔ ”اہل خاندان“ ان کے حواریوں اور پوش علاقے کے باسیوں پر شان و شوکت سے شادی کرنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ریلوے لائن کے ایک طرف لاری اڈہ والی سائیڈ پر محلہ دارالصدور کے باسی جوکریں، وہ سب سے اچھا تھا لیکن ریلوے لائن کے دوسری طرف کے مکین اور دار الرحمت محلوں والے مرکز کی ہدایات کے مطابق ”مسجد“ میں نکاح کیا کرتے تھے۔ اس کے لیے یہ دلیل دی جاتی تھی کہ متوسط طبقے کو شادی بیاہ کے اخراجات سے بچانے کے لیے یہ حکمت عملی اختیار کی گئی ہے جبکہ اہل زر و ثروت اپنے وسائل کی بنا پر سب کچھ کر گزرنے میں آزاد تھے۔

لَوّ میرِج (Love Marriage)بھی ربوہٰ کے کلچر کا حصہ تھی۔ اکثریت پسند کی شادی کرتی ہے۔ ہماری گلی میں ہی ایک لڑکی بشریٰ متین رہا کرتی تھی۔ اس کے گھر والوں نے اس کی شادی طے کر رکھی تھی لیکن موصوفہ نے عین وقت پر شادی کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی مرضی سے ایک مسلمان سے شادی رچا لی۔ اسے مرکز کی طرف سے ”ربوہٰ بدر“ کرنے اور سوشل بائیکاٹ کی دھمکی بھی دی گئی مگر اس نے کسی کو خاطر میں لانے سے انکار کر دیا۔ ہمارے ایک کلاس فیلو ظہیر الدین بابر نے والدین کی طرف سے پسند کی شادی میں رکاوٹ پر خودکشی کی کوشش کی۔ میو ہسپتال کی ایک نرس ناصرہ نے بھی پسند کی شادی کر لی اور گھر والوں کو اس وقت بتایا جب وہ ماں بننے والی تھی۔ ”لو میرج“ یوں تو ہر معاشرے میں ہوتی ہے لیکن ربوہٰ کلچر میں اس کی نوعیت تھوڑی مختلف تھی۔ خاندان نبوت کے بڑے بوڑھے اور نوجوان تو جماعت کی کسی بھی لڑکی سے شادی کرنے میں آزاد تھے۔ لیکن جماعت کے عام افراد پر پابندی تھی۔ گو وہ بھی اس پابندی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ اس کے علاوہ اکثریت اپنے والدین یا گھر والوں کو خبر کیے بغیر بھی شادیاں رچا لیا کرتی تھی۔

مرزا ناصر کے بھائی مرزا رفیق نے چنیوٹ کے ایک سابق ہیڈ ماسٹر جلیل شاہ کی بیٹی کو کسی طرح شیشے میں اتارا اور اس کے والدین کی رضا مندی کے بغیر شادی کر لی۔ بعد ازاں جلیل شاہ کو دلفریب مالی آسودگی کی پیشکش کی گئی جس پر موصوف نے مذہب اور عزت کو عیش و عشرت پر وار دیا اور اپنے پورے خاندان کے ساتھ ربوہٰ آ گیا اور ریٹائرڈ ہونے کے بعد ربوہٰ میں ٹیوشن سنٹر کھول لیا۔ وہ بزعم و اموا تعلیمی بورڈ کے ہم مذہب و ہم مشرب ارباب حل و عقد سے انگریزی کے گیس(Guess)حاصل کر کے طلباء کو منتخب سوالات کروا اور بتا دیتا۔ امتحان میں وہی سوالات آ جاتے جس سے طلباء امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کر لیتے۔ اس طریق کار سے جلیل شاہ کے گھر ٹیوشن پڑھنے والوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی مگر سیاہ فام جلیل شاہ کا خاصا تھا کہ وہ لڑکوں کے بجائے لڑکیوں کو ٹیوشن پڑھانے کو ترجیح دیا کرتا تھا۔ سارے دن میں لڑکیوں کی کئی کلاسیں لیتا جبکہ لڑکوں کی صرف ایک کلاس ہوا کرتی تھی۔

ربوہٰ کی ایک خاتون ٹیچر ایک سرکاری افسر کے دامِ محبت میں آ گئی، موصوف پہلے ہی شادی شدہ اور ایک بیٹے کا باپ تھا۔ اس ٹیچر کو اس نے دوسری شادی کی پیشکش کی تو اس نے شرط رکھ دی کہ پہلی کو طلاق دو پھر شادی کروں گی۔ کافی ردوکد کے بعد یہ شادی تو ہو گئی لیکن سرکاری افسر نے پہلی بیوی کو طلاق دے دی اور بیٹے کو ننھیال کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ طلاق دلوا کر شادی رچانے کا رواج بھی ربوہٰ کی عورتوں میں عام تھا۔ جبکہ اکثر مرد بھی دوسروں کی بیویوں کو شیشے میں اتار کر طلاق پر راغب کر لیتے اور بعد میں شادی رچا لیا کرتے تھے۔ جیسا کہ اوپر تحریر کیا گیا، ربوہٰ میں طلاق کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ چنانچہ اسی کا اعجاز تھا کہ عائلی زندگی عدم استحکام کا شکار رہتی تھی۔

شہر پھر میں دیواروں پر فضول قسم کی باتیں لکھنے کا بھی بہت رواج تھا۔ خوبصورت لڑکے کو وہاں کے لوگ اپنی کسی مخصوص اصطلاح میں ”کے ٹو“ کہا کرتے تھے۔ ہمارا ایک دوست عبدالسمیع سہیل جو سرگودھا سے آیا تھا، اس کے حسن کے بہت چرچے تھے۔ ہر دیوار پر جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا ” ربوہٰ کا مشہور و معروف تحفہ سہیل کے ٹو“ اہل شہر کو ”کے ٹو“ سے کیا نسبت تھی اس کا مجھے آج تک علم نہیں ہو سکا۔ تاہم کئی دیواروں پر یہ الفاظ بھی تحریر ہوتے تھے کہ ” بے وفا دوست سے کے ٹو سگریٹ اچھے ہوتے ہیں۔“
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لوگوں کو گھر سے بلانے کے لیے عجیب طریق کار مروج تھا۔ جب کوئی شخص کسی گھر جاتا تو دروازہ ”ناک“ نہیں کرتا تھا، حالانکہ ہر گھر پر ”کال بیل“ بھی لگی ہوتی تھی۔ جانے والا دروازے کے باہر کھڑا ہو کر زور سے ”السلام علیکم“ کہتا جس کے جواب میں صاحب خانہ باہر آ جاتا تھا۔ مرزائی اس طریقہ کار کو مذہبی لحاظ سے انتہائی شائستہ عمل قرار دیتے تھے۔ دوسری طرف عالم یہ تھا کہ اگر کوئی شخص گھر سے باہر نہ آتا یا دروازہ نہ کھولتا تو آنے والا کسی بچے کی خدمات حاصل کرتا۔ بچہ دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہوتا اور صاحب خانہ کو باہر آنے کے لیے کہتا۔ نتیجتاً اسے باہر نکلنا پڑتا۔ ان واقعات و حقائق سے یہ اندازہ لگانا نہایت آسان ہے کہ ربوہٰ کی معاشرتی زندگی کس قدر تضادات کا مجموعہ تھی جس بنا پر مرزائی امت کی منافقت کا بخوبی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

ہم نے سن رکھا تھا کے ربوہٰ میں جنت اور حوریں بھی ہوتی ہیں۔ سب سے بڑی مشکل تھی کہ کیسے جانا جائے کہ جنت دوزخ کہاں ہیں اور حوریں کدھر اور کیسی ہوتی ہیں۔ اباجی سے جو معلومات ملیں، ان سے جنت دوزخ کے بارے میں تو کچھ پتا چل گیا مگر حوروں والا قصہ ابھی تک تشنہ بلکہ نامکمل تھا۔ کسی مرزائی لڑکے سے اس بارے میں دریافت کرنا بھی مشکل تھا۔ ہماری کلاس میں ایک لڑکا عبدالمالک پڑھتا تھا۔ دیہاتی لب و لہجے کا یہ لڑکا مرزائیوں کے سخت مخالف تھا، مگر اپنے باپ کی جائیداد سے محرومی کے خوف سے مرزائیت کے ساتھ چپکا ہوا تھا۔ ایک دن وہ مرزائیت اور اس کے ماننے والوں کے شجرہ نسب پر طبع آزمائی کر رہا تھا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور اس سے حوروں کے متعلق پوچھ ڈالا۔ غصے میں وہ پہلے ہی تھا۔ میرے استفسار پر اس نے حور و قصور کی پوری تفسیر بیان کر ڈالی۔ کہنے لگا:

”سوہنیا! کاوھیاں نیں، ربوہٰ دیاں ساریاں کڑیاں نوں ای حوراں کہندے نیں، تاہم کچھ حوریں اصلی ہوتی ہیں بعض نقلی۔“

پوچھا ” نقلی اور اصلی حوروں سے مراد“ جواب ملا ” یار! اصلی حوراں مرجوانیاں دیاں زنانیاں نیں تے نقلی حوراں حماتڑاں دیاں رناں نیں۔“ (اصلی حوریں مرزائیوں کی عورتیں ہیں اور ”حماتڑوں“ کی عورتیں ہیں۔)

مالک سے میں نے سوال کیا، ان لوگوں کی خواتین اصلی اور تم والی نقلی حوریں کیوں؟ اس پر وہ مسکرایا اور کہنا لگا ” بھائی اوہ اصلی دیسی گھی دیاں نیں نا“ وہ اس طرح کہ ہمارا نبی خواہ سچا ہے یا جھوٹا، اس سے قطع نظر نبی تو ہے نا۔ اب اس کی ال اولاد میں جتنی لڑکیاں ہیں وہ خوبصورت بھی ہیں، امیر بھی۔ ان کے لباس، شکل و صورت اور نشست و برخاست ہماری عورتوں سے مختلف اور پُرکشش ہے۔ چنانچہ انہیں اصلی حوریں ہی کہا جائے گا جبکہ ہماری عورتیں مرتبے، مقام اور جیب کے اعتبار سے ان جیسی تو نہیں ہیں لیکن اس نبی کی امت تو ہیں، جسے ہم نے مان لیا ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے حوروں والی صِفات ہماری خواتین کے حصے میں بھی آتی ہیں۔“

اتنی معلومات ملنے کے بعد میں نے حوروں کے بارے میں خود بھی مشاہدہ کیا تو مجھے ربوہٰ کی ہر عورت حور ہی لگنے لگی۔ کیونکہ مرزائی عورتوں کا اپنی طرف متوجہ کرنے کا جو انداز ہے، اس سے وہ خواہ مخواہ ہی حوریں لگتی ہیں۔ سیاہ رنگ کے ان کے برقع کی وضع قطع کچھ اس طرح کی ہوتی تھی کہ ہر خاتون ”سیکس اپیلڈ“ نظر آتی تھے۔ سر پر تکُونی سکارف اور اس کے ساتھ دو نقاب اپنے اندر طوفان چھپائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ہر عورت ایک نقاب سے چہرے کا نچلا حصہ ناک تک چھپا لیتی ہے جبکہ دوسرا نقاب سر پر لپیٹ لیا جاتا ہے۔ صرف آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں جو آنکھوں آنکھوں میں باتیں کر جاتی ہیں۔ بعض مہ جبیں آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگا کر اچھی بھلی دشمن عقل و ایمان بن جاتی ہیں۔ اس گٹ اپ میں معمولی سی شکل و صورت والی عورتیں بھی ماہ لقا اور حور شمائل نظر آنے لگتی ہے۔

مرزائی خاندان نبوت کی خواتین واقعی حسن و جمال کا پرتو ہیں ” عزازیلی “ حسن کی بنا پر ہی یہ جھوٹا مذہب چل رہا ہے۔ حسینانِ ربوہٰ کو حوریں کہنا اگرچہ شاعری کے زمرے میں آتا ہے لیکن جس کسی شاعرانہ ترنگ میں مرزائی خواتین کو حوریں کہا ہے، اس میں اس کی خرد قصور وار نہیں۔ یہ دست قدرت کا کمال ہے یا کالے برقع کی فسوں سازی جس نے وہاں کی ہر عورت کو حور بنا کر رکھ دیا ہے۔

مرزائی امت کے ارباب اقتدار اور شہر کے عوام الناس نے اپنے ہر قول و عمل پر منافقت کا لبادہ چڑھا رکھا ہے۔ ربوہٰ کے معاشرے کو پاکیزہ اور مثالی ظاہر کرنے کے لیے مختلف ڈرامے بازیاں کی جاتیں جس میں شہر کے ایک کونے پر جامعہ نصرت گرلز کالج اور نصرت گرلز ہائی سکول اور دوسرے کونے پر لڑکوں کے تعلیم الاسلام ہائی سکول اور ٹی آئی کالج کی تعمیر قابل ذکر ہے۔ اس تعمیر کی غایت بظاہر یہ تھی کہ باہر کی دنیا پر یہ ثابت کیا جائے کہ صنف نازک اور صنف کرخت کے تعلیمی اداروں میں انتہائی فاصلے ایک مثالی معاشرے کی شاندار مثال ہیں۔ لیکن ان کی منافقت اور ڈرامے بازی اس وقت مضحکہ خیز ثابت ہوتی جب دریائے چناب، الف محلّہ دار الرحمت غربی، شرقی، وسطی ریلوے سٹیشن کے علاقے کے لڑکے دریا کی طرف اپنے سکول و کالج جا رہے ہوتے تھے تو دونوں اصناف کا آپس میں کراس ہوتا۔ اس دوران بے شمار لڑکے لڑکیوں کے اپس میں مسکراہٹوں اور رقعوں کے تبادلے ہو جاتے اور کسی کو کانون کان خبر بھی نہ ہوتی۔

ایک دفع میں میرا کزن محمد شفیع ریلوے لائن میں چلتے ہوئے سکول جا رہے تھے۔ راستے میں ایک شیریں کو اپنے فرہاد کی نگاہوں سے بلائیں لیتے دیکھا تو لا محالہ ہمارا دھیان ادھر چلا گیا۔ اس محویت میں پیچھے سے آتے ہوئے ریلوے انجن کی آواز بھی نہ سنائی دی۔ قدرت کو ہماری زندگی مقصود تھی کہ انجن ابھی چند گز کے فاصلے پر تھا کہ ہم نے دائیں بائیں جانب چھلانگیں لگا کر جان بچا لی ورنہ ایک حور کے کمالات کا نظارہ ہمیں دوسری دنیا پہنچا چکا ہوتا۔

ربوہٰ کی ایک لڑکی کا نام نجمہ تھا جسے سب لوگ نجمی کہتے تھے۔ اس کی چنیوٹ کے ایک مسلمان لڑکے ظہیر احمد سے نہ جانے کیسے ملاقات ہو گئی اور اسے اپنا دیوانہ بنا لیا۔ یہ لڑکا یتیم تھا اور تعلیم حاصل کرنے ملتان سے اپنی بہن کے پاس چنیوٹ آیا ہوا تھا۔ ظہیر کے گھر والوں نے سنا تھا کہ ربوہٰ میں تعلیم بہت اچھی ہے۔ لہٰذا اسے فرسٹ ائیر میں تعلیم الاسلام کالج میں داخل کرا دیا گیا۔ اس کی نجمی سے ملاقات ہوئی تو وہ ظہیر پر لٹو ہو گئی۔ دسمبر ٹیسٹ میں جب ظہیر میاں فیل ہو گئے تو ان کے گھر والوں کا ماتھا ٹھنکا۔ انہوں نے اپنے طور پر انکوائری کی تو معلوم ہوا کہ میاں صاحبزادے تو حور کی زلفوں کے اسیر ہو چکے ہیں بس پھر کیا تھا، پہلے تو ان کی خوب دُھنائی ہوئی ،گر جب عشق کا بھوت ان کے سر سے اتارے نہ اترا تو موصوف کے گھر والوں نے واپس ملتان بھیج دیا۔

ربوہٰ کے تمام مرد دو(2) مقامات پر سرو نگاہ جھکا لیتے اور ہاتھ باندھ لیا کرتے تھے۔ ایک جب وہ اپنے خلیفہ، اس کی اولاد یا جھوٹے خاندانِ نبوت کے کسی بھی فرد کے سامنے پیش ہوتے۔ دوسرے اس وقت جب حوریں ان کے سامنے آ تیں۔ ”ربوہٰ مرد“ کنکھیوں سے انہیں دیکھ تو لیتے مگر ان سے نظر ملانا نہ جانے کیوں ان کے بس میں نہیں ہوتا تھا۔ کئی ایک سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اپنے ”نبی“ کی نام نہاد تعلیمات کو حوالہ دیتے ہوئے کہا ” ہم اپنی مذہبی تربیت کی بنا پر عورتوں کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتے جبکہ عورتیں ہمیں سر سے پاؤں تک دیکھ لیتی ہیں۔“

جامعہ نصرت کالج فار ویمن کی پرنسپل فرخندہ شاہ جو مسز شاہ کے نام سے مشہور تھیں، ان کی مرزائیت کے لیے ”خدمات“ کو بہت سراہا جاتا تھا۔ ان کی علمیت کے علاوہ زبردست ڈسپلن کے قصیدے بھی قصر خلافت میں چار دانگ پڑھے جاتے تھے۔ ان کے بیٹے نے اپنی والدہ کو کالج میں سوشل ورک کا مضمون تعارف کرانے کا مشورہ دیا جسے قبول کر لیا گیا اور پھر بیٹے ہی کی سفارش پر ایک مسلمان لڑکی مس نجف کو سوشل ورک کی لیکچرار کے طور پر ملازمت دے دی گئی۔ اس مسلمان لیکچرار نے مسز شاہ کے سخت نظم و ضبط اور قصر خلافت میں نیک نای پر پانی پھیر دیا۔ اور پرنسپل کے بیٹے کو پہلے مسلمان کیا، بعد میں اس کے ساتھ شادی رچا کر اسے کفرستان سے لے کر نکل گئی۔ قصر خلافت مسز شاہ اور حوریں منہ دیکھتی رہ گئیں۔ حوروں کے سلسلے میں ایک دلچسپ بات جسے پر شخص انجوائے (Enjoy) کیا کرتا تھا کہ جامعہ نصرت گرلز کالج کی پرنسپل مسز شاہ، نصرت گرلز کالج کی ہیڈ مسٹریس مسز بشیر اور فضل عمر فاؤنڈیشن انگلش میڈیم سکول کی پرنسپل تینوں بیوہ تھیں۔ اکثر لوگ از راہ مذاق کہا کرتے تھے کہ تینوں ”میڈموں“ نے نہ جانے کیوں اپنے شوہروں کو دنیا سے با جماعت رخصت کر دیا ہے اور مرزائی مرکز نے زنانہ تعلیم اداروں کے لیے تین بیوائیں ہی کیوں منتخب کیں۔

ہمارے چنیوٹ کے ایک دوست کی بہن جو نصرت گرلز ہائی سکول کی طالبہ تھی اس کے گھر والوں نے چنیوٹ سے لاہور منتقل ہونا تھا چنانچہ اس نے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد نویں کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا چاہا مگر سکول کی ہیڈ مسٹریس مسز بشیر نے سرٹیفیکیٹ دینے سے انکار کر دیا اور کہا ”بچی لائق ہے، اسے میٹرک پاس کرنے تک سکول سے نہیں فارغ کریں گے۔“ سکول مینیجر چودھری علی اکبر ہمارے دوست مقصود الرٰحمن کے والد تھے، ان کی سفارش کرائی مگر بے سود۔ آخر ہمارے ایک اور کلاس فیلو دور کی کوڑی لائے۔ انہوں نے یونائیٹڈ بنک (United Bank) کے مینیجر لطیف اکمل سے بات کی جنہوں نے ایک فون کیا اور اگلے لمحے مسز بشیر نے سرٹیفیکیٹ دینے کی ہامی بھر لی۔ ہمارا کام تو ہو گیا مگر لطیف اکمل سے اس انہونی کے ہو جانے کے اسباب پوچھے تو انہوں نے آنکھ دبا کر کہا ” بھائی یاری کی کچھ تو پردہ داری ہونی چاہیے۔“

ایک مرتبہ ہمارے ایک جاننے والوں کی بیٹی اور نصرت گرلز ہائی سکول کی طالبہ نویں جماعت میں فیل ہو گئی۔ لڑکی کے والد نے سکول انتظامیہ سے ملنے کے بعد پرچے دوبارہ چیک کر کے اسے رعایتی نمبر دلوا کر پاس کرانے کی درخواست کی۔ اس سلسلے میں ان کی ملاقات لڑکی کی کلاس ٹیچر سے ہوئی جس نے لڑکی کے باپ کو بتایا کہ لڑکی کی نالائقی کی وجہ اس کا چال چلن ہے۔ وہ اور اس کی سہیلیوں کا گروپ کلاس سے اکثر غائب رہتا ہے اور یہ سب ایک دوسرے کے بوائے فرینڈز کو محبت نامے پہنچانے اور ملاقاتیں ارینج(arrange) کرانے میں مصروف رہتی ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ پڑھائی میں کمزور رہ گئی ہے۔ لڑکی کا والد جو پہلے ہی بیٹی کی ناکامی پر سر پیٹ رہا تھا، اب بچی کے مشکوک چال چلن کی خبر پر سخت پریشان ہو گیا۔ جب لڑکی اور اس کی سہیلیوں سے معلوم کیا گیا تو انہوں نے ایک اور ہی کہانی سنا ڈالی کے موصوف ٹیچر کے خود کچھ مشکوک لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں اور وہ اپنی ”خوب رو“ طالبات کو ان لوگوں سے ملاقات پر مجبور کرتے ہے اور جو لڑکیاں بات نہیں مانتیں، انہیں نہ صرف کلاس میں زچ کیا جاتا ہے بلکہ امتحان میں فیل کر دیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ جب اعلیٰ سطح پر اٹھایا گیا تو سکول انتظامیہ نے یہ کہہ کر بات دبا دی کہ اس طرح اساتذہ اور طالبات کی بدنامی ہو گی۔ چنانچہ لڑکی کو پاس کر کے اگلی کلاس میں بھیج دیا گیا۔

ہمارے محلّہ میں ایک لڑکا رفیق رہتا تھا جس کے اپنی پڑوسن اور میٹرک کی طلبہ جمیلہ سے تعلقات تھے۔ دونوں کے والدین نے انہیں باز رکھنے کی بے حد کوشش کی مگر بے سود، دونوں نے اپنی ڈگر سے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ رفیق کا والد راج گیری کا کام کرتا تھا، وہ اسے اپنے ساتھ کوئٹہ لے گیا جبکہ جمیلہ کے گھر والوں نے اس کی شادی کر دی۔ فریقین کا خیال تھا کہ دوری دونوں کے سروں سے عشق کا بھوت اتار دے گی۔ مگر مرض دوا کرنے کے ساتھ بڑھتا گیا اور رفیق باپ کو جُل دے کر کوئٹہ سے چنیوٹ آ گیا اور ایک آٹو ورکشاپ میں کام سیکھنا شروع کر دیا۔ اس دوران رفیق اور جمیلہ کی ملاقاتیں پھر سے ہری ہو گئیں۔ چنانچہ جمیلہ نے طلاق اور رفیق نے اپنے استاد کی مدد سے نکاح کر ڈالا۔

ربوہٰ کے ایک حکیم صاحب کے پڑوس میں ملتان کا ایک لڑکا شاکر اپنی ماں کے ہمراہ قیام پذیر ہوا۔ حکیم صاحب نے اپنی تربیت کے مطابق اس سے ملاقات کی اور پوچھا کہ ”بیٹے آپ احمدی ہیں؟“ جواب ملا ”نہیں“ حکیم صاحب نے فوراً اسے تبلیغ کرنے کا فیصلہ کیا اور ” مرزا غلام احمد“ کی نبوت اور ان کے خلفاء کے بارے میں جملہ کہانیاں سنا ڈالیں۔ شاکر اگرچہ مذہبی ذہنیت رکھنے والا مسلمان نہیں تھا، تاہم اسے مرزائیت سے بھی کوئی رغبت نہیں تھی۔ حکیم صاحب نے اسے ”مسجد“ اور دیگر اجلاسوں میں آنے کی بہت پیشکش کی مگر وہ ہر بار طرح دے جاتا۔ ایک دن حکیم صاحب نے اسے گھر بلایا اور ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ ابھی تبلیغ کا باب دوبارہ شروع ہوا ہی تھا کہ حکیم صاحب کی بیٹی چائے لے کر ڈرائنگ روم میں آئی۔ بس پھر کیا تھا شاکر لڑکی دیکھتے ہی دم بخود ہو گیا۔ ” اتنی حسین لڑکی شاید میں نے پہلے کبھی دیکھی ہی نہیں“ خود کلامی کے انداز میں وہ بڑبڑایا۔ حکیم صاحب نے جب یہ صورت حال دیکھی تو کہنے لگے ”بیٹے! یہ میری بیٹی طاہرہ ہے، اس سال فرسٹ ایئر میں داخل ہوئی ہے۔“ شاکر طاہرہ کے حسن قیامت خیز میں اس قدر کھویا کہ اس نے حکیم صاحب کی شبینہ روز تبلیغ کو گوارا کرنے کا فیصلہ کر لیا اور کہا ” حکیم صاحب! مجھے آپ کی باتیں بہت اچھی لگی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ تمام باتیں مجھے رفتہ رفتہ بتائیں اور سمجھائیں۔“ حکیم صاحب تیار ہو گئے۔ یوں اس نے ایک مقررہ وقت پر ان کے گھر جانے کا معمول بنا لیا۔ حکیم صاحب ایک نیا احمدی جماعت میں لانے میں مگن تھے جبکہ شاکر ترچھی نگاہوں سے طاہرہ کو تسخیر کرنے میں مصروف تھا۔ حکیم صاحب کی مسلسل کوشش کے باوجود شاکر مرزائی تو نہ ہو سکا، مگر طاہرہ اس کے دام محبت آگئی۔ شاکر طاہرہ سے تعلق برقرار رکھنے اور حکیم صاحب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ”نیم مرزائی“ ہو گیا۔ ان دونوں کی دوستی اور محبت کا حکیم صاحب کو علم تھا مگر وہ شاکر کو مکمل مرزائی ہونے تک سب کچھ گوارا کرنے پر تیار تھے جبکہ شاکر انہیں ٹالنے کے نت نئے بہانے بنا لیتا۔ کبھی کہتا تعلیم مکمل کر لو، پھر مرزا ناصر کی بیعت کر لوں گا۔ فوری طور پر بیعت کرنے پر مجھے گھر والے عاق کر دیں گے۔ حکیم صاحب ان دلیلوں کو مانتے رہے اور اپنے گھر آنے جانے سے نہ روکا۔ اس دوران وہ اپنا مقصود بھی حاصل کرتا رہا۔ یوں اس نے پہلے ایف ۔اے پھر بی۔ اے کر لیا اور مرزائیت پر لعنت بھیجتا ہوا واپس ملتان چلا گیا جبکہ حکیم صاحب اور طاہرہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔

الک لڑکی نور النساء ڈار کی داستان تو مدتوں ربوہٰ کے کوچہ و بازار کا شاہکار بنی رہی۔ ان دنوں نیا نیا ٹی وی آیا تو ربوہٰ کے متمول گھروں کی چھتوں پر بلند و بالا انٹینے لگے نظر آتے تھے۔ جماعت کی طرف سے بالا بلندیوں کو ٹی وی رکھنے کی سختی سے ہدایت تھی۔ ٹی وی پر جب ہفتہ وار فلم لگتی تو جماعت کے امراء، غربا ہم مذہبوں کو اجتماعی طور پر فلم دیکھنے کی دعوت دیا کرتے تھے۔ یہ بات میرے ذاتی مشاہدے میں ہے کہ ہم نے بھی حوروں کے جلو میں بیٹھ کر پرانی فلم ”جھومر“ دیکھی تھی۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
غلہ منڈی بازار میں ایک جنرل سٹور کا مالک عبدالباسط انتہائی وجیہہ اور خوبرو نوجوان تھا۔ کبڈی کے کھلاڑی کی ایک لڑکی بشریٰ کے ساتھ گہری چھنتی تھی۔ ویسپا پر دونوں کھلے عام گھومتے۔ بشریٰ اپنی سہیلیوں کے جلو میں دکان پر شاپنگ کرنے آتی تو جو دل چاہتا سمیٹ کر لے جاتی۔ اس دریا دلی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت جلد دکان خالی ہو گئی۔ تو بشریٰ نے بھی اپنا رخِ زیبا موڑ لیا۔ موصوف دن بھر کوئے جاناں کی خاک چھانتا لیکن وہ پری رُو تو جیسے گم ہو گئی۔ بعد میں اسے پتا چلا کہ بشریٰ اس کے ساتھ فلرٹ(flirt) کر رہی تھی، حالانکہ اس کا نکاح تو پہلے ہی کہیں ہو چکا تھا۔

مبارکہ بیگم محکمہ تعلیم کی ملازمہ تھی جس نے طلاق لینے کے بعد دوسری شادی نہ کی۔ حالانکہ کئی مرزائی رشتے اس کے ساتھ ”جڑنے“ کے لیے پر تول رہے تھے۔ لیکن اس نے کسی کو گھاس نہ ڈالی۔ اس کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام سے جو چاہے ”کروا“ لیتی ہے۔ مخالفین سے تبادلوں کے ذریعے انتقام لینا اس کا معمول تھا۔ ربوہٰ کے ”خاندان“ کے سر کردہ افراد ہوں یا مسلمان جاگیردار، اس کی ”نِگاہ کرم“ سب کے لیے یکساں تھی۔

”سدومیت اور گے کلچر“ ربوہٰ کی آل نبوت اور امت کے تشخص کا لازمی جزو ہے۔ القابات اور الہامات کی رداؤں میں لپٹی ہوئ اس ”ذریتِ مبشرہ“ کا یہ کردار مرزا غلام احمد کے الہامات کی ساری حقیقت کھول کر رکھ دیتا ہے۔ میں نے غایت تحریر میں مرزا طاہر کہ احمدیہ نیٹ ورک ٹیلی ویژن پر کی گئی تقریر کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے پاکستانی علماء کرام، حطیبوں اور مساجد کے اماموں پر اغوا، زیادتی، اغلام اور ناجائز اسلحہ رکھنے کے الزام لگائے ہیں جبکہ ان کے مقابل میں خود کو پاکیزہ اور پوتر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات اس ”دروغ گو“ مرزا طاہر کے لیے جس کا حافظہ ختم ہو چکا ہے، ایک آئینہ ہے جسے دیکھ کر وہ اپنا سا منہ لے کر رہ جائے گا۔

یوں تو قصر خلافت ربوہ کے در و دیوار پر بنات امت کے ساتھ کیے جانے والے ”پاکیزہ“ اعمال کی کہانیاں ہی ربوہ کی آل نبوت کے کردار کا تجزیہ کرنے کے لیے کافی ہیں لیکن اس امت کے ”مسلک ہم جنسی پرست“ پر روشنی ڈالنا بھی ناگزیر ہے، تاکہ ان لوگوں کو پتہ چل جائے کہ سیٹ لائٹ پر ”کف“ اور شیشے کے گھر بیٹھ کر دوسروں پر سنگ و خشت برسنا آسان نہیں کہ وہ بھی اندرون خانہ کی پوری پوری خبر رکھتے ہیں۔

ہماری کلاس میں پڑھنے والے خانوادگانِ مرزائی نبوت کے تین سپوتوں مرزا طبیب، مرزا احسن اور سید قمر سلیمان کا ذکر پہلے بھی آ چکا ہے۔ ہم لوگ نویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ کسی بات پر ان تینوں کی لڑائی ہو گئی۔ تیز گُفتگو، دشنام طرازی سے ہوتی ہوئی کردار تک جا پہنچی۔ تینوں نے ایک دوسرے کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دیئے۔ خانساموں، ماشکیوں اور گھر کے ملازموں کے علاوہ کزنوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ایک دوسرے کی ”سدومیت داری“ کی داستانیں سنا دی گئیں۔ پوری کلاس نہایت دلچسپی سے جھوٹے نبی زادوں کے کردار کی حکایتیں سن رہی تھی۔ اسی دوران ماسٹر احمد علی کلاس میں تشریف لائے۔ انہیں دیکھ کر بھی شاہی خاندان کے ”اصیلوں“ نے زبان کو لگام نہ دی اور باہمی کردار و اخلاق کی دھجیاں بکھیرتے رہے۔ ماسٹر احمد علی بھی سدومی صفات سے مالا مال تھے اور ”اپنی امت“ کی اس روایت پر پوری طرح عمل پیرا رہتے تھے۔ تاہم ”مرزوں“ کو بھری کلاس کے سامنے ایک دوسرے کی پگڑی اچھالتے دیکھا تو کہنے لگے:

”دیکھو صاحب زادو! اگر نبی کی اولادیں ہی آپس میں اس طرح تھوکا فضیحتی(ف ض ی ح ت ی) کرنا شروع کر دیں گی تو امت کے ان طلباء کا کیا بنے گا، جنہوں نے اپنے کردار کو آپ لوگوں کے طرز عمل کی مثال سے سنوارنا ہے۔“

نبی زادے لڑتے رہے۔ ماسٹر احمد علی انہیں خاموش کرانے میں جب ناکام ہو گئے تو معاملہ ہیڈ ماسٹر صاحب کے سامنے پیش کیا گیا۔ انہوں نے نہ جانے کس طرح تینوں کو ”کول ڈاؤن“ کیا۔ لیکن اس دوران ان کی لڑائی سے قصر خلافت کے شہزادوں کی اصلیت اور ان کی ”کردار کہانی“ کھل کر سامنے آ گئی۔ کلاس کے ایک طالبعلم ظفر باجوہ نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، نبی زادوں نے ماشکیوں اور خانساموں کو تو زور و شور سے ذکر کیا لیکن میرے سمیت سکول کے بہت سے ساتھیوں کا تذکرہ کرنا ہی بھول گئے جن کا ان شہزادوں کی خدمت میں برابر کا حصہ ہے۔

فیکٹری ایریا محلّہ میں ہمارا ایک کلاس فیلو اعجاز اکبر رہا کرتا تھا۔ اس نے ایک بار مجھے اپنے محلے کی دو انتہائی سر کردہ اور مذہبی شخصیات کا تذکرہ سناتے ہوئے کہا کہ مولانا غلام باری سیف اور قانون دان سعید عالمگیر کی آپس میں گہری چھنتی تھی۔ شاید اسی وجہ سے دونوں اپنے ذوقِ طبع کی تسکین کے لیے ایک دوسرے کے بیٹوں کو تختہ مشق بناتے تھے۔ شہر کے در و دیوار ”نو نہالانِ جماعت“ کے باہمی اختلاط کے قصوں سے سیاہ رہتے تھے۔ ”گگو تے ابرار والی نظم“ تو مدتوں نوشتہ دیوار بنی رہی تھی جو دو نہالوں کے سیاہ کاری کی ترجمان تھی۔

جسم فروشی کا رجحان اس قدر عام تھا کہ ہر خوش شکل لڑکا چلتا پھرتا ”بروتھل“ تھا۔ ایسے طلباء جن کے والدین اپنی قلیل آمدنی سے جماعت کا ”دوزخ“ بھرتے اور اپنی اولاد کی ادنیٰ سی خواہش بھی پوری نہیں کر پاتے، ان کے بچوں کے لیے پیسہ کمانے کے لیے یہ آسان ترین راستہ تھا۔ بے شمار لڑکے کھلے عام ”معاملہ“ طے کرتے اور چل پڑتے تھے۔ والدین اور اساتذہ کی اکثریت اپنے بچوں اور طلبہ کی ان ”مصروفیات“ سے آگاہ تھی۔ تعلیم اداروں میں تمام اساتذہ نے اپنے ارد گرد ”خوبرو“ طلبہ کی منڈی بنا رکھی ہوتی تھی۔ ایک دوسرے گروپ سے ”لڑکا“ توڑنا ایک معرکہ سمجھا جاتا تھا۔ اس قبیح عمل کی بجا آوری کو یہ لوگ اپنے آباء کی سنت اور اتباع خیال کرتے تھے۔

گول بازار کے ایک بہت بڑے دکاندار کا بیٹا شبیر شاہ بھی ہمارا کلاس فیلو تھا۔ وہ بھی اپنے نبی کی تعلیمات پر پوری طرح عم پیرا رہتا تھا۔ لین اس بے چارے کے ساتھ عجب قسم کا ”دھرو“ ہو گیا جس کی صفائیاں دیتے ہوئے اس کی زبان تھک گئی مگر رسوائی کی داستان پھر بھی ہر کوچے جا پہنچی۔ قصہ یہ تھا کہ شبیر شاہ ایک شخص کے ساتھ طے شدہ پروگرام کی خلاف ورزی کر کے کسی اور کے ہاں جا پہنچا۔ اول الذکر نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے ایک منصوبے کے تحت ”خصوصی لمحات“ کی تصاویر بنا کر سکول میں تقسیم کر دیں۔

تصاویر کے ذریعے بلیک میلنگ کی دھمکی عام تھی۔ اکثر شہری اس سے کام نکال لیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ تیزاب سے چہرہ داغ دینے کی دھنکی بھی کام کر جاتی تھی۔ ”مساجد“ ،”جائے نماز“ کے علاوہ جائے عمل بھی تھیں۔ مرزا ناصر کا زمانہ گزر چکا تھا مگر مرزا طاہر کے بے شمار ہم جوئی ”مرزا تاری“ کے ساتھ گزارے ہوئے ”شب و روز“ پر نازاں ہوا کرتے تھے۔ مرزا لقمان کی ”صحبت“ سے فیضیاب ہونے والے بھی خود کو امت کے برہمن خیال کیا کرتے تھے۔ علی ہذا القیاس ربوہ ”شہر سدوم“ جہاں بسنے والوں کا مذہب سدومیت ہے جسے ہر کس و ناکس نے اپنے دائرہ کار میں اختیار کر رکھا ہے۔

مولوی محمد ابراہیم بھانبڑی ہمارے سکول کے استاد اور بورڈنگ ہاؤس کے وارڈن تھے۔ ان کی ”نگاہِ لطف و کرم“ ہر لڑکے پر یکساں ہوتی۔ تاہم لڑکوں سے وصول کیے ہوئے جسمانی خراج کا حساب ان کے بیٹے انور بھانبڑی کو چکانا پڑتا تھا۔ مولوی صاحب اپنی افتاد طبع سے اس قدر مجبور کہ بعض اوقات ان سے کئی حرکات کھلے عام ہی سر زد ہو جایا کرتی تھیں جن سے انہیں شرمندگی اٹھانے کے علاوہ سکول انتظامیہ کی طرف سے محتاط رویہ اختیار کرنے کا نوٹس آ جایا کرتا تھا۔

تعلیم الاسلام کالج میں دو لڑکوں امین الدین اور طیب عارف کے حسن کے اس قدر چرچے تھے کہ ہر شخص ان سے بات کر کے اور ہاتھ ملا کر ناز کیا کرتا تھا۔ امین الدین فرسٹ ائیر کے داخلے کے بعد تمام اساتذہ کے دل مچل رہے تھے کہ کاش انہیں اس کی کلاس مل جائے۔ یہ لڑکا جب سامنے سے گزرتا تو لڑکے با جماعت یہ گیت گایا کرتے تھے۔ ”تک چن پیا جاندا ای“ طیب عارف کے رخسار کے تِل پر تو یار لوگ شاعرانہ ماحول بنا لیتے۔ پر شخص بساط بھر اشعار اس ”تِل“ کی نذر کر دیا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی ”امرد“ ایسے تھے جن کے قصیدے ربوہ کی ”گے“ سوسائٹیوں میں پڑھے جاتے تھے۔ یہ تو چیدہ چیدہ لوگوں کے قصے ہیں ورنہ یہاں تو ہر شخص سدومیت کو اختیار کر کے فخر محسوس کرتا ہے۔ اگر فرداً فرداً داستانیں لکھی جائیں تو کئی دفتر تصنیف ہو جائیں۔

تعلیم الاسلام کالج کے ایک پرنسپل چودھری محمد علی اس کھیل کے مرد میدان تھے۔ فضل عمر ہوسٹل کی وارڈن شپ کے دوران انکی ”داستانِ سدومیت“ ہوسٹل اور وارڈن خانے کے در و دیوار پر رقم رہی۔ پرنسپل بننے کے بعد وہ مرزا ناصر احمد والی کوٹھی کے مکین بنے تو وہاں انہوں نے مرزا ناصر احمد اور ان کے کارناموں کو زندہ رکھا۔ بعض اوقات انتہائی دلچسپ صورت حال پیدا ہو جاتی جب پرنسپل کے ساتھ ساتھ جانے والے کسی بھی ”خوش رو“ لڑکے کو اس کے ساتھی دیکھ لیتے، بعد میں ”یاروں“ میں بیٹھ کر اسے وضاحتیں کرنا پڑ جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ جو لڑکا چودھری صاحب کے گھر سے واپس آتا ہوا نظر آ جاتا، اس پر مدتوں ”انگلیاں“ اٹھتی رہتی تھیں۔ ان سب باتوں کے باوجود پرنسپل کا بلانا اور پری جمالوں کا ان کے گھر بلا تامل چلے جانا کسی دور میں بند نہ ہوا۔

ربوہ کے ملاں و پیر اور میر و وزیر ہر قسم کی اخلاقی مذہبی اور سماجی قید سے آزاد ہیں ۔ وہ خوش وقت ہونے کے لیے صنف موافق و مخالف کی تفریق نہیں کرتے۔ دونوں اجناس ان کے ہاں ارزاں اور وافر ہیں۔

مرزا ناصر احمد بھی اپنے والد مرزا محمود احمد کی طرح تعداد ازدواج کے زبر دست شوقین تھے مگر ان کی بیوی منصورہ نے ان کی لگام ایسے کھینچ کر رکھی ہوئی تھی کہ وہ اِدھر اُدھر منہ تو مار لیتے مگر اس کی زندگی میں دوسری شادی کوشش کے باوجود نہ کر سکے۔ لیکن جونہی منصورہ آنجہانی ہوئی تو مرزا ناصر نے اس لڑکی سے شادی رچا لی جو مرزا لقمان کی محبوبہ تھی۔ باپ بیٹے میں بہت جنگ ہوئی۔ لقمان نے یہاں تک کہا ”ابا حضور! پچ(pitch) میں نے بنائی مگر بیٹنگ (batting)آپ نے کر ڈالی“ مرزا ناصر احمد نے دلہن کی برابری کرنے کے لیے طب یونان اور ہومیو پیتھک کے کئی نسخے آزمائے۔ انہی نسخوں نے آخر کار انہیں جہنم واصل کر دیا۔ اکثر مرزائی منچلے کہا کرتے تھے کہ ”ہمارے حضرت صاحب کو گھونگھٹ کی ہوا لگ گئی ہے۔“

”پتا پہ پوت اور نسل پر گھوڑا بہت نہیں تو ضرور تھوڑا“ والی مثال کے مطابق مرزا ناصر کا بیٹا لقمان اپنے باپ بلکہ دادا مرزا محمود احمد کے خصائل کا مکمل تھا۔ چھٹی جماعت میں یہ ہمارے ساتھ پڑھتا تھا۔ مسلمان کیا اپنے جیسے مرزائیوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ اور اگر بھولے سے کسی امتی کے ساتھ ہاتھ ملا لیتا تو وہ مرزائی اپنی خوش نصیبی پر نازاں ہوتے ہوئے گھنٹوں کبھی خود کو کبھی اپنے ہاتھ کو دیکھتا رہتا تھا۔ اس بد معاش پچپن میں جو ”کچھ“ ہوتا ہے مرزا لقمان ان کا عین عکاس تھا۔ فرعونی خصوصیات، یزیدی اوصاف مرزا لقمان کی شخصیت کا جزو لاینفک تھے۔ کتے پالنا، گھوڑے رکھنا، چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کر کے اپنی جنسیت کی تسکین کرنا اس شخص کے لوازم تھے۔ شرفاء کی لاج کو مرزا لقمان نے لچوں کا قہقہہ بنا کر رکھ دیا۔

جن لوگوں نے مرزا محمود احمد کی جوانی دیکھی، ان کا کہنا تھا کہ مرزا لقمان کے سارے چلن اپنے دادا جیسے تھے۔ جس طرح موصوف اپنی تخریبی چالوں سے فتوحات حاصل کرنے کے خوگر تھے اسی طرح لقمان بھی تخریبی کاروائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا۔ طالب علم رہنما رفیق باجوہ نے مرزائیت کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیا تو مرزا لقمان نے اس کو ختم کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ اس کی تلاش میں رفیق باجوہ کے با پردہ گھرانے میں داخل ہو کر چادر اور چار دیواری کے تقدس کی دھجیاں اڑا دیں۔

مرزا محمود احمد کی طرح مرزا لقمان بھی امت کی جس حور شمائل کو چاہتا، قصر خلافت بلا لیتا اور اپنے دادا کی ”سنت“ ادا کر لیتا تھا۔ شہر کے غنڈوں کی ایک فوج مرزا لقمان کے اشارے پر ہر جرم کرنے پر آمادہ رہتی تھی اور اس بے مہار فوج کا یہ سپہ سالار کرائے کے بازوؤں سے اپنے مقاصد حاصل کر لیتا تھا۔

مرزا ناصر بھی اپنے اس سپوت سے ڈرتے تھے۔ مرزا لقمان کے بڑے بھائی مرزا فرید نے ایک مرزائی خاندان کی لڑکی اغوا کر لی تو مرزا ناصر نے امت اور لڑکی کے والدین کی اشک شوئی کے لیے مرزا فرید کو ربوہ بدر کر دیا جبکہ مرزا لقمان ایسے کئی کارنامے انجام دینے کے باوجود ہر گرفت سے بالا تھا۔

ربوہ میں بد معاشوں اور قبضہ گروپ کے دھڑے تھے، جن کی پشت پناہی مرزا انور چیئرمین ٹاؤن کمیٹی اور مرزا طاہر کیا کرتے تھے، لیکن جب سے مرزا لقمان نے جوانی میں قدم رکھا، ہر بد معاش اس کے ساتھ وابستہ ہو گیا تھا۔ جماعت اور جھوٹی نبوت کے خاندان کے قواعد و احکام سے سرتابی کرنے والوں کے لیے عقوبت خانے اور ٹارچر سیلز قائم تھے جن کی سربراہی بھی مرزا لقمان ہی کیا کرتا تھا۔

شہر میں نوجوانوں کی مختلف ٹولیاں رات کو پہرہ دیا کرتی تھیں۔ ان کی تشکیل بھی مرزا لقمان کے دائرہ اختیار میں تھی۔ انھی گروہوں سے کئی افراد چوری کی وارداتوں میں ملوث ہوا کرتے تھے۔ ایسے تمام چور بھی خلیفہ زادے کے پروردہ تھے۔ ربوہ والے اپنے ساتھ ہونے والے کسی ظلم و زیادتی کی اطلاع پولیس کو نہیں کر سکتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ مرزائی مرکز کی خود ساختہ سے داد رسی حاصل کر لی جاتی تھی۔ اگر کوئی شخص پولیس جانے کی کوشش کرتا تو اسے نہ صرف مرکز کے انصاف بلکہ جماعت سے بھی محروم ہونا پڑتا تھا۔ مرزا لقمان ربوہ کے نام نہاد نظام انصاف کی سر پرستی بھی کرتا تھا۔

چودہ سو سال قبل عرب کا معاشرہ جس اخلاقی انحطاط کا شکار تھا، اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے خالق کائنات نے حضرت نبی کریم ﷺ کو مبعوث فرما کر معاشرے میں انقلاب برپا کر کے رکھ دیا۔ لیکن قادیان کے جھوٹے پیغمبر کے دعویٰ نبوت کے بعد اخلاقی لحاظ سے ایک ایسے پست معاشرے نے جنم لیا جس کی اصلاح عبث ہو چکی ہے۔ مرزائی خلیفہ وقت کی دو رخی پالیسی کا یہ عالم تھا کہ اغوا کے کیس میں ملوث مرزا فرید کو شہر بدر تو کر دیا گیا مگر اسے یہ سہولت بھی دے دی گئی کہ وہ جب چاہے ربوہ آ سکتا تھا۔ جس خاندان کی لڑکی اغوا ہوئی تھی، وہ مرزا فرید کو ربوہ میں دیکھتا تو خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا مگر مرزا لقمان کے خوف سے ان میں دم مارنے کی بھی مجال نہیں تھی۔

ربوہ میں ”قدے، چھدے، چگے، بشیر بلے، مقصودے پٹھان اور لطیف ننھے“ جیسے ناموں سے موسوم بد معاشوں کے کئی دھڑے تھے۔ ان گروپوں کی آپس میں لڑائی اور پھر ان میں فیصلہ کر کے اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے کے لیے مرزائی خاندان نبوت نے ”لڑاؤ اور حکومت کرو“ کا اصول بنا رکھا تھا۔ ابتدائی صفحات میں ایک پٹھان گروپ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مذکورہ بد معاشوں کے گروہوں میں مقصودا پٹھان بھی اپنے بڑے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر وقت اپنے خلیفہ زادے کے حکم کے غلام رہتے تھے۔

مرزا طاہر کو جب میں نے دیکھا وہ ایک مکمل ”پلے بوائے“ تھے۔ منہ میں پان، جیب میں کیپٹسان ڈالے سرخ رنگ کی لیڈیز سائیکل پر پھرنے والا یہ شخص شہر بھر کی خواتین کے دل کی دھڑکن تھا۔ عمر کی قید سے قطع نظر ہر خاتون ان سے تعلق و واسطہ پر فخر کیا کرتی تھی۔ نوجوان خواتین تو بڑے ناز سے انہیں ”میاں تاری“ کہا کرتی تھیں۔

مرزا طاہر بھی اپنے بڑے بھائی مرزا ناصر کی طرح ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے۔ ان کا کلینک صبح اور شام کھلا کرتا جہاں ماہ رخان شہر کی بھیڑ رہتی تھی۔ کسی خاتون کو کوئی مرض ہو یا نہ ہو، وہاں جا کر دل پشوری کر لیا کرتی تھی۔ کسی نوجوان لڑکی کے پیٹ میں ہلکا سا درد بھی اٹھتا، والدین اسے تریاق لینے میاں طاری کے پاس بھیج دیا کرتے۔

۞***۞***۞

کتاب کو یہاں سے پی ڈی ایف میں حاصل کریں۔ سکربڈ، ختم نبوت آفیشل ویب
 
آخری تدوین :
Top