• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

اشتراکی سوالات کے اسلامی جوابات

محمد نوید قادری

رکن ختم نبوت فورم
اشتراکی سوالات کے اسلامی جوابات


ہر مجیب کے لئے ضروری ہے کہ وہ جوابات دینے سے پہلے اپنے سائل کی پوزیشن کو اچھی طرح سمجھ لے تاکہ اس کا جواب مقتضائے حال کے مطابق ہو اور اسے غیر فصیح طرز نگارش نہ اختیار کرنا پڑے۔ جملہ سائلین کو دو خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
الف: وہ سائل جو دائرہ اسلام میں رہ کر سوال کرے۔
ب: وہ سائل جو دائرہ اسلام سے باہر رہ کر سوال کرے۔
دائرہ اسلام سے باہر رہ کر سوال کرنے والوں کی بھی دو خانوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔
(۱) وہ سائلین جو ساری کائنات کے وجود کو ’’بخت و اتفاق‘‘ کا مرہون منت ٹھہراتے ہیں اور کسی ایسی ہستی کا تصور نہیں رکھتے جو کائنات کی ’’باشعور خالق‘… ہو۔
(ب) وہ سائلین جو بالکل اس کے برعکس عقیدہ رکھتے ہوں اور کائنات کو ایک باشعور خالق کا عطیہ سمجھتے ہیں۔
اس دوسری تقسیم کی شق ثانی کے لئے بھی یوں دو خانے بنائے جاسکتے ہیں۔
(۱) یہ ان کا خانہ ہے جو کائنات کے ’’باشعور خالق‘‘ کو اس کی ذات نیز اس کے جملہ صفات و کمالات میں ’’وحدہ لاشریک‘‘ مانتے ہیں۔
(ب) یہ ان کا خانہ ہے جو کائنات کے ’’باشعور خالق‘‘ کی ذات و صفات‘ یا صرف ذات‘ یا صرف جملہ صفات‘ یا بعض صفات میں کسی غیر کو شریک جانتے‘ مانتے اور ٹھہراتے ہیں۔
اسی طرح اگر تقسیم در تقسیم کرتے جایئے تو عقلی طور پر اور بھی بہت ساری تقسیمیں ظہور پذیر ہوسکتی ہیں۔ جن کا ذکر طوالت تحریر کاباعث ہے۔
یوں بھی… جس حقیقت کی وضاحت میرا مقصود نظر ہے اس کے لئے یہی مذکورہ بالا تین تقسیمیں کافی ہیں… اگر کوئی سائل‘ تقسیم ثانی‘ کی شق اول سے متعلق ہو‘ یعنی خدا کے وجودکو نہ مانتا ہو۔ اور وہ رسالت و نبوت‘ امامت و خلافت‘ جنت و دوزخ‘ مبداء و معاد‘ حوروملک‘ قبر و حشر اور احکامات اسلامیہ وغیرہ‘ وغیرہ سے متعلق سوال کررہا ہو تو اس سے ان موضوعات پر بحث وتمحیص ایک قبل از وقت‘ مقتضائے حال کے خلاف غیر موثر اقدام ہے۔ ایسی تمام بحثوںکا نتیجہ ہمیشہ غیر مفید رہا ہے۔ اس نوع کی گفتگو کا نتیجہ خیز ہونا ایک نادر الوجود چیز ہے جس کے پیچھے لگنا وقت اور محنت کا صحیح مصرف نہیں۔
ایسے سائیلین سے آغاز سخن ایک ایسی ہستی کے وجود سے ہونا چاہئے جو کائنات کی باشعور خالق ہو۔ اس منزل سے گزرنے کے بعد اس کی توحید اور پھر اس کے بعد اس کی دوسری صفات کو مناسب ترتیب کے ساتھ زیر بحث لانا چاہئے۔
غور فرمایئے کہ کس قدر بے محل چیز ہے کہ ایک شخص خدا کو نہیں مانتا اور آپ اس سے خدا کو منوائے بغیر خدا کی توحید منوانے کے درپے ہے… ایسے ہی ایک منکر‘ خدا کی ذات و صفات سے انکار کررہا ہے اورآپ اس سے رسالت ونبوت کے متعلق جھگڑ رہے ہیں‘وغیرہ وغیرہ۔
میرے کلام کا یہ منشاء نہیں کہ ایسے جملہ سائیلین سے کسی نوع کی گفتگو ہی نہ کی جائے اور ان کے سوال کو سن کر خاموشی کا رویہ اختیار کیا جائے‘ بلکہ مقصود کلام یہ ہے کہ اپنے کو ان کے موضوع کا پابند نہ بنایا جائے بلکہ ان کو اپنے موضوع کا پابند کرلیا جائے اور جہاں سے منکر کے انکار کا آغاز ہو‘ وہیں سے بحث کی ابتدا کی جائے… ایسی صورت میں لاحاصل باتوں سے نجات مل جائے گی اور منکر کے انکار کے پردے کو بھی چاک کیا جاسکے گا… ایسے موقع پر بالکل خاموشی بھی نقصان دہ ہے۔ اس طرح منکر اپنے انکار میں جری ہوجاتا ہے اور اس کے خیالات کا بطلان اس پر واضح نہیں ہوپاتا۔
اس مختصر سی تمہید کے بعد میں جو سوالات آئے ہیں وہ بقول آپ کے ترقی پسند کمیونسٹ طبقہ کی طرف سے ہیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اسلام اور کمیونزم میں وہی فرق ہے جو آگ اور پانی میں ہے۔ اسی لئے جو کمیونسٹ ہے‘ وہ مسلمان نہیں اور جو مسلمان ہے وہ کمیونسٹ نہیں۔ یہاں کمیونسٹ سے مراد وہ حقیقی کمیونسٹ ہیںجو تقسیم ثانی کی شق اول کے تحت آتے ہیں۔ لہذا وہ غافل و نادان مسلمان جو کمیونزم کے عقائد و نظریات سے بالکل بے خبر ہیں اور صرف کمیونسٹ پارٹی کو ووٹ دینے سے اپنے کو کمیونسٹ تصور کرتے ہیں‘ اس کلیہ سے مستثنیٰ ہیں۔ ایسے لوگوں کے جواب میں وہی رویہ اختیار کرنا علمی نقطہ نظر سے سودمند ہے۔ جس کی طرف میں اشارہ کرچکا ہوں۔ آپ کا اپنے مکتوب میں یہ اعتراف کہ ’’کمیونسٹوں اور مسلمانوں میں بنیادی اختلاف عقیدہ توحید سے ہوتا ہے‘ بتارہا ہے کہ آپ نے ابھی کمیونزم کا گہرا مطالعہ نہیں کیا ہے ورنہ آپ کو یہ اعتراف کرنا پڑتا کہ اسلام اور کمیونزم کے درمیان توحید سے پہلے وجود خدا ہی سے اختلاف کا آغاز ہوجاتا ہے۔ کمیونزم لادینی نظریہ فکر کا حامل ہے جس میں کائنات کے کسی خالق کا تصور نہیں۔ لہذا اس کا نظریہ ہر اس نظریئے سے متصادم ہے جس کی اساس دین و مذہب پر ہے‘ اور جس میں ایک خالق کا تصور پایا جارہا ہو۔ خواہ وہ تصور کتنا ہی ناقص کیوں نہ ہو… آپ کا یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ اسلام کا فلسفہ اجتماعیت کمیونزم کے فلسفہ اشتراکیت کے مشابہ ہے… اس لئے کہ اسلام کے سارے فلسفہ اجتماعیت کا دارومدار اس کے کامل و مکمل ’’تصور آخرت‘‘ پر ہے۔ اسلام نے آخرت کا جو تصور پیش کیا ہے اور اس تصور کی اساس پر انسان کی اخلاقی قدروں کی جو حفاظت فرمائی ہے وہ بے نظیر ہے۔ کوئی ازم اس کا جواب نہیں رکھتا۔
اسلام کے نظام حیات سے اگر اس کے تصورآخرت کو نکال دیا جائے تو اس کا نظام اخلاق و فلسفہ اجتماعیت درہم برہم ہوجائے اور دوسرے ازموں کی طرح اس کا مقصد بھی کم سے کم عیش ونشاط کی کامجوئی اور زیادہ سے زیادہ اقوام عالم پر بے محابہ چیرہ دستی کے سوا کچھ نہ رہ جائے… کمیونزم‘ جہاں آخرت کا کوئی تصور نہیں‘ کہاں اس کا فلسفہ اشتراکیت اور کہاں اسلام کا نظام حیات اور اس کا فلسفہ اجتماعیت … غور فرمایئے کہ اس فلسفے کا جس کی اساس دین ہو‘ اس فلسفے سے کیا جوڑ ہوسکتا ہے جو لادینیت پر مبنی ہو۔
اب آیئے تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمایئے۔ اگر آپ کے فرستادہ سوالات کے سائیلین بالفرض تقسیم اول کی شق اول سے متعلق ہوں۔ یعنی مسلمان ہوں تو ان کے سوال کا مقصد زیادہ سے زیادہ ان عقلی حکمتوں کی دریافت ہے جو ان احکامات کے پیچھے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ کسی فعل کی حکمت صحیح معنوں میں وہ حکیم ہی سمجھ سکتا ہے یا کسی کے ذریعہ واضح کرائے تو وہ حکمت ایک قطعی حیثیت کی حامل ہوگی۔ اور اگر ایسی صورت نہ ہو بلکہ دوسرے حکماء کسی حکیم کے فعل کی حکمتوں کو ظاہر کریں تو ان کی حیثیت ظن و تخمین سے زیادہ نہیں۔ اس لئے کہ فعل کسی کا ہے اور حکمتوں کے ظاہر کرنے کی کاوش ذہنی کسی اور کی۔ لیکن یہ کاوش اشارہ کررہی ہے کہ کسی حکیم کا فعل حکمت سے خالی نہیں ہوا کرتا۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ ہمارا دماغ اس کی حکمتوں کے سمجھنے سے قاصر رہے‘ لیکن یہ ناممکن ہے کہ ہم اس کو کسی ایسے کا فعل قرار دے کہ جو صرف حکیم ہی نہیں بلکہ خالق حکمت بھی ہے‘ اس فعل کے پرحکمت ہونے سے انکار کردیں… بہ لفظ دیگر… یہ تو ممکن ہے کہ ہماری سمجھ بوجھ کی قوت اس کے افعال کی حکمتوں کو سمجھ نہ سکے جس نے یہ قوت پیدا کی ہے۔ لیکن یہ ناممکن ہے کہ ہماری قوت ادراکیہ جس سے آج ہم اس کی حکمتوں کی چھان بین کررہے ہیں‘ کے پیدا کرنے والے کا کام حکمت سے خالی ہو… الحاصل… کسی کو فعال مختار‘ حکیم مطلق بلکہ خالق حکمت مان کر اس کے افعال کو حکمت سے خالی گمان کرنا کوئی صحت مندانہ طرز فکر نہیں… اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ سوالات کے جوابات کے تحت‘ احکامات اسلامیہ کی جن حکمتوں کی طرف میری جانب سے اشارہ ہوگا ان کا منصوص ہونا غیر ضروری ہے اور حکمت منصوبہ نہ ہونے کی صورت میں کسی صاحب علم و حکمت کا اس سے اچھی حکمت ظاہر کردینے کا امکان بہرحال اپنی جگہ پر رہے گا۔ ہاں اتنا ضرور عرض کروں گا کہ ان سوالات کے تیور کو دیکھ کر اس کا انتساب کسی مسلمن کی طرف کرتے ہوئے جی کانپ جاتا ہے… اب اپنا پہلا سوال اپنے ہی الفاظ و عبارت کے ساتھ ملاحظہ فرمایئے…
’’خدا سب سے زیادہ متمول ہے۔ دنیا کے دولت مندوں‘ بادشاہوں اور امیروں کی طرح وہ بھی صرف اپنے ہی حکم کی تعمیل پر زور دیتا ہے۔ جگہ جگہ قرآن میں اس کا یہ ارشاد کہ دوسروں کی اتباع مت کرو اور صرف میرے حکم کو مانو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ دوسرے متمول لوگوں سے حسد و بغض رکھتا ہے‘‘
یہ سوال اس بات کی وضاحت کررہا ہے کہ سائل اس منزل سے سوال کررہا ہے جہاں ایک ہستی کو خدا مان لیا گیا ہے۔ نیز سائل کے ذہن میں ایک ایسی ذات کا تصور ضرور ہے جو کائنات کی باشعور خالق ہے۔ کسی کو خدا مان لینے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ اس کو اپنا حقیقی حاکم‘ رازق‘ خالق ‘ مقتدر اعلیٰ‘ غنی‘ علی الاطلاق‘ مختار کل اور حکیم مطلق وغیرہ مان لیا گیا ہے۔ اور جب آپ نے اس ہستی کو یہ سب کچھ مان لیا ہے تو لازمی طور پر اپنے کو اس کا محکوم‘ مرزوق‘ مخلوق‘ مقدور ‘ محتاج‘ مجبور اور اس کی حکمتوں کا مرقع تسلیم کرلیا ہے۔ بندے کی فطرت بندگی ہے اور بندگی اس قوت و توانائی کے مقابلہ میں کی جاتی ہے جو بندگی کرنے والے پر قہر و غلبہ اور قدرت واستیلاء رکھتی ہو اور وہ بھی ایسے کہ بندہ کو اس کے حکم سے سرتابی کی مجال نہ ہو۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ایسی قوت و توانائی جس کے اوپر کسی قوت کا تصور نہ ہو‘ ایسا قہر و غلبہ جس کے اوپر کوئی قاہر و غالب نہ ہو‘ اسیی قدرت و استیلاء جس کے کسی قدرت و استیلاء کے تحت رہنے کا کوئی واہمہ تک نہ ہو‘ جس کی ذات میں مان لیا جائے‘ درحقیقت وہی خدا ہے۔ اس کے سوا اور جو کچھ عالم وجود میں آیا‘ سب اسی کا فیضان کرم ہے۔ خواہ وہ امیر ہو یا اس کی امیری‘ دولت مند ہو یا اس کی دولت مندی‘ حاکم ہو یا اس کی حکومت… خیال رہے کہ خدا اور بندے کا تعلق وہ نہیں جو راعی اور رعایا‘ دنیاوی حاکم اور دنیاوی محکوم‘ سپہ سالار اور سپاہی‘ امیر و غریب‘ ایک معاصر اور دوسرے معاصر‘ ایک ہمسایہ اور دوسرے ہمسایہ‘ ایک عالم اور ایک جاہل‘ ایک اسنان اور دوسرے انسان ‘ نیز ایک مخلوق اور دوسری مخلوق کے درمیان ہے۔ بلکہ خدا اور بندے کا تعلق وہ ہے جو ایک مخلوق کو اس کے خالق‘ ایک مرزوق کو اس کے رازق‘ ایک مقدور کو اس کے علی الاطلاق قادر‘ ایک محکوم کواس کے حقیقی حاکم اور ایک مربوب کو اس کے رب سے ہے اور ظاہر ہے کہ کسی ذات کو خدا مان کر‘ اپنے اور اس کے مابین‘ اس تعلق کو نہ ماننا ایسا ہی ہے جیسے کوئی سورج کو مانے اور اس کی روشنی کو نہ مانے‘ چاند کو تسلیم کرے اور اس کی چاندنی سے انکار کرے‘ آگ پر ایمان لائے اور اس کی حرارت کا منکر ہو… یا یوں کہہ لیجئے… کہ ایک ہی وقت میں وجود شمس کو بھی مانے اور رات کی موجودگی کو بھی‘ آگ کو بھی تسلیم کرے اور اس کے ساتھ برودت کو بھی‘ وغیرہ وغیرہ۔
الحاصل… خدا کو مان کر مذکورہ بالا تعقل کو ماننا ناگزیر ہے۔ اور اس تعلق کو تسلیم کرلینے کے بعد سائل کا سوال اہمال سرائی کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔ سائل نے یہ غور نہیں کیا کہ جس کے ڈل میں جذبہ بغض و حسد ہوا کرتا ہے‘ اس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے محسود سے بڑھتا جائے اور اس کا محسود گرتا جائے اور اگر وہ خود آگے بڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو کم از کم اتنا تو ہو کہ اس کا محسود بھی ترقی نہ کرسکے۔ اسی لئے اگر حاسد اپنی خواہش کے خلاف اپنے محسود کو ترقی کرتا ہوا دیکھتا ہے تو اس کے دل میں ایک قسم کی جلن پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنی ہی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ کیا کرے مجبور ہے وہ اپنے محسود کی ترقی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روک سکنے کی قدرت بھی نہیں رکھتا۔ تو اب جلنے کے سوا اس کے پاس رہ ہی کیاجاتا ہے… یہ ہے بغض و حسد… جو ایسی ہی دو ہستیوں کے مابین ہوسکتا ہے جن میں ایک خدا اور دوسرا اس کا بندہ نہ ہو۔ نیز ایک کو دوسرے پر اقتدار کلی حاصل نہ ہو۔ خدا اپنے بندے سے حسد کرے‘ آخر اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ امارت و حکومت سے نوازنیو الا کیا امارت و حکومت کو چھین نہیں سکتا؟ کسی کو عزت کی کرسی پر بٹھانے والا کیا اس کو اس کرسی سے اتار نہیں سکتا؟ اگر خدا کا یہی ارادہ ہوجائے کہ کسی حاکم کی حکومت نہ چلے تو وہ اس کے لئے یہ نہیں فرمائے گا کہ اے لوگو! میری مانو اور کسی کی نہ مانو۔ بلکہ وہ اپنی قدرت کاملہ کا وہ کرشمہ دکھائے گا کہ دنیا میں نہ کوئی کسی کا حاکم رہ جائے گا نہ محکوم… لیکن خدا کا یہ ارادہ نہ ہوا بلکہ اس نے اپنی مخلوقات میں بعض کو تخت حکومت پر بٹھایا‘ ان کو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا اوور یہ طاقت دی کہ وہ اپنے خالق کے حکم کے خلاف اپنے ذاتی حکم نافذ کرسکیں… تاکہ دنیا والے دیکھ لیں ان نفوس قدسیہ کو جو کڑی سے کڑی منزل میں بھی خدا ہی کے آگے جھکنا جانتے ہیں اور ظاہر ہوجائے کہ کون خدا کا بندہ ہے اور کون طاغوت کا غلام… سائل اگر بغض و حسد کی حقیقت کو سمجھ لیتا تو ہر گز ہرگز ایسا عامیانہ سوال نہ کرتا۔ خدا کو متمول کہنا بھی سائل کی جہالت ہے۔ خدا متمول نہیں بلکہ خالق تمول ہے۔ جہاں جہاں تمول ملے گا اسی کے فیضان تخلیق کا عطیہ ہے… یاد رہے کہ امت مسلمہ کے اندر یہ مسئلہ اجماعی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے اسماء توفیقی ہیں۔ لہذا اس کو کسی نام سے موسوم کرنااسلامی نقطہ نظر سے ناروا ہے جب تک وہ اسم شرعا منقول نہ ہو… اس سوال کو دیکھ کر مجھے گنگا الٹی بہتی ہوئی نظر آتی ہے۔ سوال کا لب و لہجہ یہ ہوناچاہئے تھا کہ:
’’جب خدا ہی ساری کائنات کا خالق اورسب کا حقیقی مالک ہے اور اسی نے دولت مندوں کو دولت‘ امیروں کو امیری‘ بادشاہوں کو بادشاہی عطا فرمائی اور ان امیروں‘ دولت مندوں کو اور بادشاہوں کو جسمانی و روحانی اور ظاہری و باطنی ساری نعمتیں اسی نے عنایت کی ہیں… الحاصل… ان کے پاس جو کچھ ہے سب اسی کی دین ہے تو پھر ان کو حق کیا پہنچتا ہے کہ یہ خدا کے قانون کے مقابلہ میں کسی قانون کا اختراع کریں اور خدائی نظام کے متوازی کسی نظام کی تشکیل کریں۔ اسی طرح خدا کی دوسری مخلوقات کو کیا حق پہنچتا ہے کہ جو ایسوں کے قانون کے آگے سر جھکائیں‘ جن کے قوانین خدائی قانون سے متصادم ہوں‘ وجود پائیں کسی سے‘ رزق کھائیں کسی کا‘ زندگی حاصل کریں کسی سے اور حکم مانیں کسی اور کا۔ آخر یہ کہاں کی وفاداری ہے؟ جب ہم خدا ہی کے بندے ہیں تو ہمیں اس کی غیر مشروط اطاعت کرنی چاہئے۔
سوال کا صحیح رخ تو یہ تھاجو میں نے پیش کیا۔ لیکن سائل نے اس نقشے ہی کو الٹ دیا… کسی نے سچ کہا ہے۔
وحشت میں ہر ایک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے‘ لیلیٰ نظر آتا ہے
اب اس سائل کا دوسرا سوال ملاحظہ کیجئے۔
’’نماز پڑھنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ نماز ایک ایسی عبادت ہے جس میں عبادت کرنے والے کو باطہارت رہنا‘ پاک و صاف کپڑے پہننا‘ پاک و صاف جگہ پر عبادت کا انتظام کرنا اور دن بھر میں پانچ مرتبہ عبادت کے لئے وقت نکالنا ضروری ہوتا ہے۔ اس مشینی دور میں جبکہ انسان اور خاص کر غریب و مزدور طبقہ صرف ایک وقت کے کھانے کے لئے صبح سے شام تک محنت میں لگا رہتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ باطہارت رہ سکے؟ نماز کے لئے پاک و صاف کپڑے مہیا کرسکے؟ کارخانوں کے غلیظ ماحول میں عبادت کے لئے جگہ نکال سکے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دنیاوی تگ و دو میں پانچ مرتبہ خدا کے سامنے حاضر ہو؟ یہی وجہ ہے کہ خود مسلمانوں کا بہت بڑا طبقہ نماز کو فرض تو ضرور سمجھتا ہے مگر اس کو پورا نہیں کرسکتا۔ نماز صرف وہ شخص ادا کرسکتا ہے جس کو معاشی خوشحالی حاصل ہو یا پھر وہ معاشی خوشحالی سے مستغنیٰ ہو۔
جی چاہتا ہے کہ اس سوال کے جواب کا آغاز اقبال کے اس شعر سے کروں…
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اقبال کے اس شعر کی صداقت پر تاریخ کے اوراق شاہد ہیں۔ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی جماعت‘ سرمایہ داروں‘ خوشحالوں‘ ٹاٹائوں اور برلائوں کی جماعت نہیں تھی۔ بلکہ اس جماعت کی اکثریت‘ مفلوک الحال‘ ستم خوردہ روزگار‘ اکثر اوقات بھوکے رہنے والے‘ پھٹے پرانے کپڑے پہننے والے اور گلیم پوش افراد پر مشتمل تھی۔ اس کے باوجود قیصر و کسریٰ کی شوکت و سطوت بلکہ ہر طاغوتی طاقت ایسا لرزتی اور کانپتی تھی جیسے ہوا کے ایک نرم و نازک جھونکے سے تار عنکبوت تھرتھر اٹھتا ہے۔ اس کا واحد سبب اس کے سوا کیا تھا کہ اس مقدس جماعت کا ہر فرد خدا کا سچا بندہ ہوچکا تھا۔ اور اب کسی طاقت کی مجال نہ رہی کہ اسے اپنا بندہ بنا سکے… خدا کا سچا بندہ بن کر کوئی دیکھے تو سائل کے لئے جو کام نہایت دشوار ہے اس کے لئے آسان ترین ہوجائے … یہ اسلام ہی ہے کہ اس کی اکثریت ہمیشہ غریب رہی اور ہمیشہ غریب رہے گی۔ تاکہ دنیا کے سامنے یہ حقیقت آجائے کہ اسلام کی اساس اور اس کا فروغ سرمایہ داری اور دنیاوی اقتدار پر نہیں۔ صرف حقانیت اور صداقت پر ہے۔ لہذا اس کے دائرے میںسمجھ بوجھ کر آنے والا صداقت پسند اور حق پرست ہی ہوسکتا ہے۔ اگر آج کا بدقسمت مسلمان نمازوں سے کوتاہی برت رہا ہے تو اس کی وجہ اس کی غربت نہیں بلکہ اس کا سبب مذہبی جذبات کا فقدان اور خدا کے حقوق ‘ نیز اپنی عبدیت کی حقیقت کا عدم شعور ہے۔ مسلمانوں کا جو بڑا طبقہ سائل کو بے نمازی دکھائی پڑرہا ہے تو اس کے خدا کے آگے سر نہ جھکانے کا سبب وہ نہیں ہے جو سائل سمجھ رہا ہے‘ بلکہ وہ ہے جس کی طرف میں ابھی ابھی اشارہ کرچکا ہوں… خدا کے آگے پانچ وقت نہ جھکنے والے مسلمانوں کی اس سے عبرتناک سزا اور کیا ہوسکتی ہے کہ انہیں نہ جانے کتنے درباروں میں اور نہ جانے کتنی مرتبہ سر اطاعت خم کرنا پڑتا ہے۔
مسلمانوں کی اسی عبادت کا یہ اثر تھا کہ آج برطانیہ کے دور کی جتنی ملیں موجود ہیں۔ سب میں مل کے اندر مسجدیں بنی ہوئی ہیں۔ ان مساجد کی ساری ضروریات کی کفالت مل کے ذمہ ہیں۔ پتہ چلا کہ غیر مسلمین بھی اس عبادت کا اپنے طور پر احترام کرتے رہے۔ اب آج مسلمان ہی اس کا احترام نہ کرے تو کسی اور کو کیا پڑی ہے کہ ان کے لئے مسجد بنوا کر زبردستی نماز پڑھائے۔ مجھے تو یقین ہے کہ اگر سارے مل کے مزدور جو مسلمان ہیں‘ نماز پنج وقتہ کے پابند ہوجائیں تو مل کا مالک مجبور ہوگا کہ وہ ان کے مذہبی جذبات کی قدر کرے اور پھر وہی انتظام کرے جو برٹش دور کی ملوں میں آج بھی ملتا ہے۔
میرا دعویٰ ہے کہ نماز پڑھنے والے کے لئے دنیا کی بڑی سے بڑی مصروفیت بھی رکاوٹ نہیں بن سکتی اور وہ بہرحال اپنی پنج وقت نمازوں کے لئے چند منٹ نکال ہی سکتا ہے جبکہ پنج وقتہ نمازوں میں سے کوئی ایسی نماز نہیں جس کا پورا وقت ایک گھنٹے سے کم ہو۔ ایک گھنٹے کے اندر چند منٹ کا نکال لینا کون سا مشکل کام ہے۔
رہ گیا طہارت کا مسئلہ… طہارت کے لئے اسلام میں تین ذرائع ہیں۔ اس میں اول الذکر دو ‘ اصل کی حیثیت رکھتے ہیں اور تیسرا فرع کی‘اول غسل ‘ دوم وضو‘ سوم تیمم‘ تیمم غسل کی بھی فع قرار پاتا ہے اور وضو کی بھی… اس کے متعلق فقہی احکام معلوم کرنے کے لئے بہار شریعت‘ قانون شریعت وغیرہ دیکھئے۔ غسل وضو پانی سے ہوتا ہے اور تیمم ہر اس چیز سے جو زمین کی جنس سے ہو۔ ہر اس چیز کو زمین کی جنس سے کہا جائے گا‘ جو آگ سے جل کر‘ نہ راکھ ہو‘ نہ پگھلے اور نہ نرم ہو۔ مثلا مٹی‘ گرد‘ ریت بالو‘ چھونا‘ سرمہ‘ ہرتال‘ گندھک ‘ مردہ سنگ‘ گیرو‘ پتھر‘ زبر جد‘ فیروزہ‘ عقیق اور اس کے علاوہ دوسرے جواہر‘ ان تمام چیزوں پر تیمم ہوجائے گا‘ خواہ ان پر غبار نہ ہو۔ اسی طرح بھیگی مٹی (جبکہ مٹی غالب ہو) لکڑی اور کپڑے (جس کے اوپر اتنی گرد ہوکہ ہاتھ رکھنے سے نشان پڑجائے) لکڑی اور کپڑے (جس کے اوپر اتنی گرد ہوکہ ہاتھ رکھنے سے نشان پڑجائے) گچے کی دویار‘ پکی اینٹ‘ زمین اور جل کر سیاہ یا راکھ ہوجانے والے پتھر پر بھی تیمم کرسکتے ہیں… ہاں اتنا ضرور ہے کہ جس زمین پر نجاست گری اور خشک ہوگئی‘ اس سے تیمم نہ ہوگا۔ اگرچہ نجاست کا اثر باقی نہ ہو… اگر… نجاست کے گرنے اور پھر اس کے اسی طرح خشک ہوجانے کا علم یقینی ہو‘ جو بغیر مشاہدہ کے حاصل نہیں ہوتا‘ صرف شبہ اور ہم سے کچھ نہیں ہوتا۔ طہارت جسمانی کی شرعی صورتوں کو سامنے رکھئے اور بتایئے‘ کیا کوئی ایسی صورت بھی عالم وقوع میں آسکتی ہے جس میں بدنی طہارت کے کسی ذریعہ کے حصول کے تعذرواستحالہ کے وقت کوئی دوسرا ذریعہ‘ طہارت میسر نہ آسکے… بالفرض ایسی صورت آ بھی جائے کہ کسی مقام پر طہارت متعذرومستحیل ہو‘ جب بھی یہ اجازت نہیں کہ اس کو ترک صلواۃ کا بہانہ بنایا جائے۔ ایسوں کے لئے نماز کے لئے قلبی طہارت کافی ہے۔ عورتوں کے بعض حالات اس سے مستثنیٰ ہیں (تفصیل کے لئے کتب فقہ دیکھئے)
اس پر طہارت لباس کو بھی قیاس کرلیجئے۔ بالفرض اگر کسی کو پاک و طاہر لباس میسر نہ ہو‘ نیز میسر نہ آسکے اور اس کو جیسااور جتنا میسر آئے اسی سے ستر پوشی کرے اور نماز پڑھے اور اگر بالفرض کپڑا ہی میسر نہ آئے اور گھاس پھوس پتے وغیرہ سے بھی ستر پوشی ممکن نہ ہو تو برہنہ ہی نماز پڑھے۔ ایسی صورت میں خشیت الٰہی کی وہ چادر ہی اس کے لئے کافی ہے جو اس کے دل و دماغ کو محیط ہے۔ مگر ایسی صورت میں کھڑے ہونے کے بجائے بیٹھ کر نمازپڑھے اور اشارہ سے رکوع وسجدہ کرے۔ اب رہ گیا جگہ کی طہارت کا مسئلہ تو اسلامی نقطہ نظر سے ہر وہ جگہ نماز پڑھی جاسکتی ہے جہاں نجاست کا اثر ظاہر نہ ہو… نجاست کے باب میں بھی اتنا سمجھ لینا ضروری ہے کہ نجاست کی دو قسمیں ہیں‘ نمبر ۱‘ نجاست غلیظہ‘ نمبر ۲‘ نجاست خفیفہ
مندرجہ ذیل نجاستیں‘ نجاست غلیظہ ہیں
(۱) آدمی کے بدن سے نکلی ہوئی ہر وہ چیز جس سے وضو یا غسل جاتا رہے۔
تفصیل کتب فقہ میں مذکور ہے
(۲) ہر خشکی کے جانور کا بہتا ہوا خون‘ خواہ جانور حرام ہو یا حلال
(۳) مردار کی چربی اور اس کا گوشت
(۴) ہر حلال چوپائے کا پاخانہ
(۵) گھوڑے کی لید
(۶) جو پرند اونچا نہ اڑے‘ جیسے مرغی اور بطخ خواہ چھوٹی ہو یا بڑی‘ ان سب کی ہیٹ‘
(۷) حرام چوپائے‘ جیسے کتا‘ بلی‘ شیر‘ چیتا‘ لومڑی‘ بھیڑیا‘ گیدڑ‘ گدھا‘ خچر‘ ہاتھی‘ سور‘ ان سب کا پیشاب‘ پاخانہ
(۸) ہر قسم کی شراب اور نشہ والی تاڑی اور سیندھی
(۹) سانپ کا پاخانہ و پیشاب اور اس جنگلی سانپ اور جنگلی مینڈک کا گوشت جن میں بہتا خون ہوتا ہے۔ اگرچہ ذبح کئے گئے ہوں۔ یوں ہی ان کی کھال اگرچہ پکای گئی ہو‘ یعنی مدبوغ کی گئی ہو۔
(۱۰) سور کا گوشت‘ ہڈی‘ کھال‘ اور بال۔ اگرچہ ذبح کیا گیا ہو۔
(۱۱) ہاتھی کے سونڈ کی رطوبت اور شیر‘ کتے‘ چیتے اور دوسرے درندے چوپائیوں کا لعاب
مندرجہ ذیل چیزیں نجاست خفیفہ ہیں
(۱) جن جانوروں کا گوشت حلال ہے ان کا پیشاب
(۲) گھوڑے کا بھی پیشاب
(۳) جن پرند کا گوشت حرام ہے (خواہ وہ شکاری ہو یا نہ ہو)
جیسے کوا‘ چیل‘ شکرا‘ باز‘ بہری ‘ ان سب کی پیٹ
(۴) حرام جانوروں کا دودھ‘ گھوڑی کے دودھ کے سوا جو پاک ہے لیکن کھانا جائز نہیں

(طالبِ دعامحمد قادری)
 
Top