• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

الجُراز الدّیانی علی المرتدّ القادیانی (قادیانی مرتد پر خدائی خنجر)

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مسئلہ ۷۹۔۸۰: از پیلی بھیت مسؤلہ شاہ میر خاں قادری رضوی ۳ محرم الحرام ۱۳۴۰ھ
اعلٰی حضرت مدظلکم العالی، السلام علیکم ورحمۃ اﷲوبرکاتہ، اس میں شک نہیں آپ کی خدمت میں بہت سے جواب طلب خطوط موجود ہوں گے لیکن عریضہ ہذا بحالت اشد ضرورت ارسالِ خدمت ہے امید کہ بواپسی جواب سے شرف بخشا جائے۔

(1)آیت کریمہ
والذین یدعون من دون اﷲ لایخلقون شیئا وھم یخلقون٭ اموات غیراحیاء ط وما یشعرون ایان یبعثون٭(۱؂القرآن الکریم ۱۶/ ۲۰و۲۱)
اور اﷲ کے سوا جن کی عبادت کرتے ہیں وہ کچھ بھی نہیں بناتے اور وہ خود بنائے ہوئے ہیں، مردے ہیں زندہ نہیں، اور انہیں خبر نہیں لوگ کب اٹھائے جائیں گے۔
یہ ظاہر کرتی ہے کہ ماسوا اﷲ تعالٰی کے جس کسی کو خدا کہا جاتاہے وہ خالق نہ ہونے اور مخلوق ہونے کے علاوہ مردہ ہے زندہ نہیں۔
بنا بریں عیسٰی علیہ السلام کو بھی جبکہ نصارٰی خدا کہتے ہیں تو کیوں نہ ان کو مردہ تسلیم کیا جائے اور کیوں ان کو آسمان پر زندہ مانا جائے؟

(2)
صاحبِ بخاری بروایت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا ارقام فرماتے ہیں۔ (منقول ازمشارق الانوار، حدیث ۱۱۱۸): لَعَنَ اﷲ الْیھوْدَ وَالنَّصَارٰی اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیائِھِمْ مَسٰجِدَ ۱
(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب مایکرہ من اتخاذ المسجد علی القبور، قدیمی کتب خانہ کراچی، ۱/ ۱۷۷)
اﷲ تعالٰی یہود و نصارٰی پر لعنت فرمائے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنالیا۔
اس سے ظاہر ہے کہ نبیِ یہود حضرت موسٰی ونبیِ نصارٰی حضرت عیسٰی علٰی نبینا وعلیہما الصلوٰۃ والسلام کی قبریں پوجی جاتی تھیں۔
حسب ارشاد باری تعالٰی عزّا سمہ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْیءٍ فَرُدُّوْہُ اِلیَ اﷲِ وَالرَّسُوْل (القرآن الکریم ۴/ ۵۹)(پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اسے اﷲ و رسول کے حضور رجوع کرو۔) آیاتِ الہٰیہ، احادیث نبویہ ثبوتِ مماتِ عیسٰی علیہ السلام میں موجود ہوتے ہوئے کیونکر ان کو زندہ مان لیا جائے؟

میں ہوں حضور کا ادنٰی خادم
شاہ میر خاں قادری رضوی غفرلہ ربّہ ساکن پیلی بھیت

الجواب
نَحْمَدُ ہ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیم

(1)
قبلِ جواب ایک امر ضروری کہ اس سوال و جواب سے ہزار درجہ اہم ہے، معلوم کرنا لازم، بے دینوں کی بڑی راہِ فرار یہ ہے کہ انکار کریں ضروریاتِ دین کا، اور بحث چاہیں کسی ہلکے مسئلے میں جس میں کچھ گنجائش دست و پا زدن ہو۔
قادیانی صدہا درجہ سے منکر ضروریاتِ دین تھا اور اس کے پس ماندے حیات و وفاتِ سیدنا عیسٰی رسول اﷲ علی نبیّنا الکریم وعلیہ صلوات اﷲ وتسلیمات اﷲ کی بحث چھیڑتے ہیں، جو ایک فرعی مسئلہ خود مسلمانوں میں ایک نوع کا اختلافی مسئلہ ہے جس کا اقرار یا انکار کفر تو درکنار ضلال بھی نہیں (فائدہ نمبر ۴ میں آئے گا کہ نزول حضرت عیسٰی علیہ السلام اہلسنّت کا اجماعی عقیدہ ہے) نہ ہرگز وفاتِ مسیح ان مرتدین کو مفید، فرض کر دم کہ رب عزوجل نے ان کو اس وقت وفات ہی دی، پھر اس سے انکا نزول کیونکر ممتنع ہوگیا؟ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی موت محض ایک آن کو تصدیق وعدہ الہٰیہ کے لئے ہوتی ہے، پھر وہ ویسے ہی حیاتِ حقیقی دنیاوی و جسمانی سے زندہ ہوتے ہیں جیسے اس سے پہلے تھے، زندہ کا دوبارہ تشریف لانا کیا دشوار؟ رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اَلْاَ نْبِیاءُ اَحْیاء فِیْ قُبُوْرِھِمْ یصلُّوْنَ(مسند ابو یعلٰی مروی از انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ حدیث ۳۴۱۲، موسسہ علوم القرآن بیروت۳/ ۳۷۹)
انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں، نماز پڑھتے ہیں۔

(2)
معاذاﷲ کوئی گمراہ بددین یہی مانے کہ ان کی وفات اوروں کی طرح ہے جب بھی ان کا دوبارہ تشریف لانا کیوں محال ہوگیا؟ وعدہ
وَحَرَام عَلٰی قَرْیۃ اَھْلَکْنٰھَا اَنَّھُمْ لَا یرجِعُوْنَ (القرآن الکریم ۲۱/ ۹۵)
(اور حرام ہے اس بستی پر جسے ہم نے ہلاک کردیا کہ پھر لوٹ کر آئیں۔)
ایک شہر کے لئے ہے، بعض افراد کا بعد موت دنیا میں پھر آنا خود قرآن کریم سے ثابت ہے جیسے سیدنا عزیر علیہ الصلوٰۃ والسلام ۔قال اﷲ تعالٰی:
مَاتَہُ اﷲ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہ (القرآن الکریم ۲/ ۲۶۰)
(تو اﷲ نے اسے مردہ رکھا سو برس، پھر زندہ کردیا۔)
چاروں طائرانِ خلیل علیہ الصلوٰۃ والسلام، قال اﷲ تعالٰی:
ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِنْھُنَّ جُزْءً ا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یاتِینکَ سَعْیا(القرآن الکریم ۲/ ۲۶۰)
پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر رکھ دے، پھر انہیں بلا، وہ تیرے پاس چلے آئیں گے دوڑتے ہوئے۔
ہاں مشرکین ملاعنہ منکرین بعث اسے محال جانتے ہیں اور دربارہ مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام قادیانی بھی اس قادر مطلق عزّ جلالہ کو معاذ اﷲ صراحۃً عاجز مانتا اور دافع البلاء کے صفحہ ۳۴ پر یوں کفر بکتا ہے:

خدا ایسے شخص کو پھر دنیا میں نہیں لا سکتا جس کے پہلے فتنے ہی نے دنیا کو تباہ کردیا ہے۔(دافع البلاء مطبوعہ ربوہ ص ۳۴)
مشرک و قادیانی دونوں کے رد میں اﷲ عزوجل فرماتا ہے:
اَفَعَیینَا بِا لْخَلْقِ الْاَوَّلِ بَلْ ھُمْ فیِ لَبِسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِید(القرآن الکریم ۵۰/ ۱۵)
تو کیا ہم پہلی بار بنا کر تھک گئے بلکہ وہ نئے بننے سے شُبہ میں ہیں۔
جب صادق و مصدوق صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان کے نزول کی خبر دی اور وہ اپنی حقیقت پر ممکن و داخل زیر قدر ت و جائز، تو انکار نہ کرے گا مگر گمراہ۔

(3)
اگر وہ حکم افراد کو بھی عام مانا جائے تو موت بعدِ استیفائے اجل کے لئے ہے، اس سے پہلے اگر کسی وجہ خاص سے اماتت ہو تو مانع اعادت نہیں بلکہ استیفائے اجل کے لئے ضرور اور ہزاروں کے لئے ثابت ہے، قال اﷲ تعالٰی:
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِین خَرَجُوْا مِنْ دِیارِھِمْ وَھُمْ اُلُوف حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَھُمُ اﷲ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیاھُمْ(القرآن الکریم ۲/ ۲۴۳)
اے محبوب ! کیا تم نے نہ دیکھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے، تو اﷲ نے ان سے فرمایا مرجاؤ، پھر انہیں زندہ فرمادیا۔
قتادہ نے کہا:
اَمَا تَھُمْ عُقُوْبَۃً ثُمَّ بُعِثُوْا لِیتوَفَّوْا مُدَّۃَ اٰجَا لِھِمْ وَلَوْ جَآءَ تْ اٰجَا لُھُمْ مَا بُعِثُوْا۔(جامع البیان (تفسیر ابن جریر طبری) القول فی تاویل قولہ تعالٰی الم تر الی الذین الآیۃ المطبعۃ المیمنہ مصر ۲/ ۳۴۷)
اﷲ تعالٰی نے ان کو سزا کے طور پر موت دی پھر زندہ کر دئیے گئے تاکہ اپنی مقررہ عمر کو پورا کریں، اگر ان کی مقررہ عمر پوری ہوجاتی تو دوبارہ نہ اٹھائے جاتے۔

(4)
اس وقت حیات و وفاتِ حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مسئلہ قدیم سے مختلف چلا آتا ہے مگر آخر زمانے میں ان کے تشریف لانے اور دجّال لعین کو قتل فرمانے میں کسی کو کلام نہیں، یہ بلا شبہ اہلسنّت کا اجماعی عقیدہ ہے تو وفات مسیح نے قادیانی کو کیا فائدہ دیا اور مغل بچہ، عیسٰی رسول اﷲ بے باپ سے پیدا ابن مریم کیونکر ہوسکا؟ قادیانی اس اختلاف کو پیش کرتے ہیں، کہیں اس کا بھی ثبوت رکھتے ہیں کہ اس پنجابی کے ابتداع فی الدین سے پہلے مسلمانوں کا یہ اعتقاد تھا کہ عیسٰی آپ تو نہ اتریں گے کوئی ان کا مثیل پیدا ہوگا، اسے نزول عیسٰی فرمایا گیا اور اس کو ابن مریم کہا گیا؟ اور جب یہ عام مسلمانوں کے عقیدے کے خلاف ہے تو آیہ:
یتبِعْ غَیر سَبِیل الْمُؤْمِنِین نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا (القرآن الکریم ۴/ ۱۱۵)
مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اسے دوزخ میں داخل کرینگے اور کیا ہی بُری جگہ پلٹنے کی۔
کا حکم صاف ہے۔

(5)
مسیح سے مثیل مسیح مراد لینا تحریف نصوص ہے کہ عادتِ یہود ہے، بے دینی کی بڑی ڈھال یہی ہے کہ نصوص کے معنی بدل دیں یحرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ(القرآن الکریم ۵/ ۱۳)(اﷲ کی باتوں کو ان کے ٹھکانوں سے بدل دیتے ہیں۔)ایسی تاویل گھڑنی نصوصِ شریعت سے استہزاء اور احکام وارشادات کو درہم برہم کر دینا ہے، جس جگہ جس شئی کا ذکر آیا، کہہ سکتے ہیں وہ شیئ خود مراد نہیں اس کا مثیل مقصود ہے، کیا یہ اس کی نظیر نہیں جو اباحیہ مُلا عِنہ کہا کرتے ہیں کہ نماز و روزہ فرض ہے نہ شراب و زنا حرام بلکہ وہ کچھ اچھے لوگوں کے نام ہیں جن سے محبت کا ہمیں حکم دیا گیا اور یہ کچھ بدوں کے جن سے عداوت کا ۔
(6)
بفرضِ باطل اینہم برعَلَم پھر اس سے قادیان کا مرتد، رسول اﷲ کا مثیل کیونکر بن بیٹھا؟ کیا اس کے کفر، اس کے کذب، اس کی وقاحتیں، اس کی فضیحتیں، اس کی خباثتیں، اس کی ناپاکیاں، اس کی بیباکیاں کہ عالم آشکار ہیں، چھپ سکیں گی؟ اور جہان میں کوئی عقل و دین والا ابلیس کو جبریل کا مثیل مان لے گا؟ اس کے خرو ارِہزار ہا کفریات سے مُشتے نمونہ، رسائل السوء والعقاب علی المسیح الکذاب وقہر الدیان علٰی مرتدٍ بقادیان و نور الفرقان و باب العقائد والکلام وغیرہا میں ملا حظہ ہوں کہ یہ نبیوں کی علانیہ تکذیب کرنے والا، یہ رسولوں کو فحش گالیاں دینے والا، یہ قرآن مجید کو طرح طرح رد کرنے والا، مسلمان بھی ہونا محال، نہ کہ رسول اﷲ کی مثال، قادیانیوں کی چالاکی کہ اپنے مسیلمہ کے نامسلم ہونے سے یوں گریز کرتے اور اس کے ان صریح ملعون کفروں کی بحث چھوڑ کر حیات و وفات مسیح کا مسئلہ چھیڑتے ہیں۔
(7)
مسیح رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشہور اوصافِ جلیلہ اور وہ کہ قرآن عظیم نے بیان کئے، یہ تھے کہ اﷲ عزّوجل نے ان کو بے باپ کے کنواری بتول کے پیٹ سے پیدا کیا نشانی سارے جہان کے لئے:
قَالَتْ اَنّٰی یکوْنُ لِیْ غُلٰم وَّلَمْ یمسَسنِی بَشَر وَّلَمْ اَکُ بَغِیاo
قَالَ کَذٰلِکِ ط قَالَ رَبُّکِ ھُوَ عَلَیَّ ھَین ط وَّ لِنَجْعَلَہ اٰیۃ لِّلنَّا سِ وَرَحْمَۃً مِّنَّا وَکَانَ اَمْرَاً مَّقْضِیاo

(القرآن الکریم ۱۹/ ۲۰و۲۱)

بولی میرے لڑکا کہاں سے ہوگا، مجھے تو کسی آدمی نے ہاتھ نہ لگایا، نہ میں بدکار ہوں، کہا یونہی ہے، تیرے رب نے فرمایا ہے کہ یہ مجھے آسان ہے اور اس لئے کہ ہم اسے لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ امر ٹھہر چکا ہے۔
انہوں نے پیدا ہوتے ہی کلام فرمایا:
فَنَا دٰھا مِنْ تَحْتِہَا اَلاَّ تحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا الآیۃ۔ (القرآن الکریم ۱۹/ ۲۴)
تو اس کے نیچے والے نے اسے آواز دی کہ تو غم نہ کر، تیرے رب نے تیرے نیچے نہر بہادی ہے۔

علی قراء ۃ من تحتہا بالفتح فیہما وتفسیرہ بالمسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام( جامع البیان (تفسیر ابن جریر طبری) القول فی تاویل قولہ تعالٰی فنادٰہا من تحتہا الخ مطبعہ میمنہ مصر ۱۶/ ۴۵)
اس قرأ ت پر جس میں مَنْ کی میم مفتوح اور تَحْتَہَا کی دوسری تاء مفتوح ہے اور اس کی تفسیر حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کی گئی ہے۔
انہوں نے گہوارے میں لوگوں کو ہدایت فرمائی۔

یکلم الناس فی المھد وکہلا(القرآن الکریم ۳/ ۴۶)
لوگوں سے باتیں کرے گا پالنے میں اور پکی عمر میں۔
انہیں ماں کے پیٹ یا گود میں کتاب عطا ہوئی، نبوت دی گئی۔
قال انی عبداﷲ اٰتٰنی الکتٰب وجعلنی نبیا(القرآن الکریم ۱۹/ ۳۰)
بچہ نے فرمایا میں ہوں اﷲ کا بندہ، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا (نبی) کیا۔
وہ جہاں تشریف لے جائیں برکتیں ان کے قدم کے ساتھ رکھی گئیں۔
وجعلنی مبٰرکًا اینما کنت (القرآن الکریم ۱۹/ ۳۱)
اس نے مجھے مبارک کیا میں کہیں ہوں۔
برخلاف کفرِطاغیہ قادیان کہ کہتا ہے جس کے پہلے فتنے ہی نے دنیا کو تباہ کردیا،انہیں اپنے غیبوں پر مسلّط کیا۔
عٰلم الغیب فلا یظھر علٰی غیبہ احداo الاّ من ارتضٰی من رسولٍ(القرآن الکریم ۷۲/ ۲۶،۲۷)
غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلّط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔
جس کا ایک نمونہ یہ تھا کہ لوگ جو کچھ کھاتے اگرچہ سات کوٹھڑیوں میں چُھپ کر،اور جو کچھ گھروں میں ذخیرہ رکھتے اگرچہ سات تہ خانوں کے اندر، وہ سب ان پر آئینہ تھا۔
وانبئکم بما تا کلون وما تدخرون فی بیوتکم(القرآن الکریم ۳/ ۴۹)
اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو۔
انہیں تورات مقدس کے بعض احکام کا ناسخ کیا۔
ومصدقالما بین یدی من التورٰۃ ولاُحل لکم بعض الذی حُرِّم علیکم (القرآن الکریم ۳/ ۵۰)
اور تصدیق کرتا آیا ہوں اپنے سے پہلی کتاب تورات کی اور اس لئے کہ حلال کروں تمہارے لئے کچھ وہ چیزیں جو تم پر حرام تھیں۔
انہیں قدرت دی کہ مادر زاد اندھے اور لا علاج برص کو شفا دیتے۔
وتبرئ الاکمہ والابرص باذنی(القرآن الکریم ۵/ ۱۱۰)
اور تو مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو میرے حکم سے شفا دیتا۔
انہیں قدرت دی کہ مردے زندہ کرتے۔
واذ تخرج الموتٰی باذنی(القرآن الکریم ۵/ ۱۱۰)
اور جب تو مردوں کو میرے حکم سے زندہ نکالتا۔
واُحی الموتٰی باذن اﷲ(القرآن الکریم ۳/ ۴۹)
اور میں مردے جِلاتا ہوں اﷲ کے حکم سے۔
ان پر اپنے وصفِ خالقیت کا پر تو ڈالا کہ مٹی سے پرند کی صورت خلق فرماتے اور اپنی پھونک سے اس میں جان ڈالتے کہ اُڑتا چلا جاتا۔
واذ تخلق من الطین کھیئۃ الطیر باذنی فتنفخ فیہا فتکون طیراً باذنی (القرآن الکریم ۵/ ۱۱۰)
اور جب تو مٹی سے پرند کی سی مورت میرے حکم سے بناتا پھراس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اڑنے لگتا۔
ظاہر ہے کہ قادیانی میں ان میں سے کچھ نہ تھا پھر وہ کیونکر مثیل مسیح ہوگیا؟
اخیر کی چار یعنی مادر زاد اندھے اور ابرص کو شفاء دینا، مردے جِلانا، مٹی کی مورت میں پھونک سے جان ڈال دینا، یہ قادیانی کے دل میں بھی کھٹکے کہ اگر کوئی پوچھ بیٹھا کہ تو مثیل مسیح بنتا ہے ان میں سے کچھ کر دکھا اور وہ اپنا حال خوب جانتا تھا کہ سخت جھوٹا ملوم ہے اور الٰہی برکات سے پورا محروم، لہٰذا اس کی یوں پیش بندی کی کہ قرآنعظیم کو پسِ پشت پھینک کر رسول اﷲ کے روشن معجزوں کو پاؤں تلے مل کر صاف کہہ دیا کہ معجزے نہ تھے مسمریزم کے شعبدے تھے، میں ایسی باتیں مکروہ نہ جانتا تو کر دکھاتا، وہی ملاعنہ مشرکین کا طریقہ اپنے عجز پریوں پردہ ڈالنا کہلو نشاء لقلنا مثل ھذا(القرآن الکریم ۸/ ۳۱)( اگر ہم چاہتے تو ایسا کلام کہتے۔)ہم چاہتے تو اس قرآن کا مثل تصنیف کر دیتے، ہم خود ہی ایسا نہیں کرتے، الا لعنۃ اﷲ علی الکٰفرین۔
قادیانی خَذَ لَہُ اﷲ کے ازالہ اوہام ص ۳،۴،۵ و نوٹ آخر میں ۱۵۱ تا آخر صفحہ ۱۶۲ ملا حظہ ہوں جہاں اس نے پیٹ بھر کر یہ کفر بکے ہیں یا ان کی تلخیص رسالہ قہر الدیان ص ۱۰ تا ۱۵ مطالعہ ہوں، یہاں دو چار صرف بطور نمونہ منقول:۔
ملعون ازالہ ص ۳: احیاءِ جسمانی کچھ چیز نہیں۔
ملعون ازالہ ص ۴: کیا تالاب کا قصّہ مسیحی معجزات کی رونق دور نہیں کرتا۔
ملعون ازالہ ص ۱۵۱ : شعبدہ بازی اور دراصل بے سود، عوام کو فریفتہ کرنے والے مسیح اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس تک نجاری کرتے رہے، بڑھئی کا کام درحقیقت ایسا ہے جس میں کلوں کے ایجاد میں عقل تیز ہوجاتی ہے، بعض چڑیاں کل کے ذریعہ سے پرواز کرتی ہیں، بمبئی کلکتہ میں ایسے کھلونے بہت بنتے ہیں، یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے اعجاز مسمریزمی بطور لہو و لعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آسکیں، سلبِ امراض مسمریزم کی شاخ ہے ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں جو اس سے سلبِ امراض کرتے ہیں، مبروص ان کی توجہ سے اچھے ہوتے ہیں، مسیح مسمریزم میں کمال رکھتے تھے،یہ قدر کے لائق نہیں، یہ عاجز اس کو مکروہ قابل نفرت نہ سمجھتا تو ان عجوبہ نمائیوں میں ابن مریم سے کم نہ رہتا، اس عمل کا ایک نہایت بُرا خاصہ ہے جو اپنے تئیں اس میں ڈالے روحانی تاثیروں میں بہت ضعیف اورنکّما ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسیح جسمانی بیماریوں کو اس عمل (مسمریزم) سے اچھا کرتے، مگر ہدایت توحید اور دینی استقامتوں کے دلوں میں قائم کرنے میں ان کا نمبر ایسا کم رہا کہ قریب قریب ناکام رہے، ان پرندوں میں صرف جھوٹی حیات، جھوٹی جھلک نمودار ہوجاتی تھی، مسیح کے معجزات اس تالاب کی وجہ سے بے رونق بے قدر تھے جو مسیح کی ولادت سے پہلے مظہرِ عجائبات تھا، بہرحال یہ معجزہ صرف ایک کھیل تھا جیسے سامری کا گوسالہ۔
مسلمانو! دیکھا، ان ملعون کلمات میں وہ کون سی گالی ہے جو رسول اﷲ کو نہ دی اور وہ کونسی تکذیب ہے جو آیاتِ قرآن کی نہ کی، اتنے ہی جملوں میں تینتیس(۳۳) کفر ہیں۔
بہرحال یہ تو ثابت ہوا کہ یہ مرتد مثیل مسیح نہیں،مسلمانوں کے نزدیک یوں کہ وہ نبی مرسل اولواالعزم صاحب معجزات وآیات بینات، اور یہ مردود و مطرود و مرتد وموردِ آفات، اور خود اس کے نزدیک یوں کہ معاذاﷲ وہ شعبدہ باز بھانمتی مسمریزمی تھے، روحانی تاثیروں میں ضعیف نکمّے اوریہ ڈال کا ٹوٹا مقدس مہذب برگزیدہ ہادی، الا لعنۃ اﷲ علی الظّٰلمین خبردار! ظالموں پر خدا کی لعنت۔
ہاں ایک صورت ہے، اس نے اپنے زعمِ ملعون میں مسیح کے یہ اوصاف گنے، دافع البلاء ص ۴: مسیح کی راستبازی اپنے زمانے میں دوسروں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی بلکہ یحیٰی کو اس پر ایک فضیلت ہے کیونکہ وہ (یحیٰی) شراب نہ پیتا تھا، کبھی نہ سنا کہ کسی فاحشہ نے اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملا یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی، اسی وجہ سے خدا نے یحیٰی کا نام حصور رکھا مسیح نہ رکھا کہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔ (دافع البلاء مطبع ضیاء الاسلام،قادیان ص ۶۔۵)
ضمیمہ انجام آتھم ص ۷:آپ (یعنی عیسٰی) کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے (یعنی عیسٰی بھی ایسوں ہی کی اولاد تھے) ورنہ کوئی پرہیزگار ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگائے، زنا کاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے، اپنے بال اس کے پیروں پر ملے، سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔

ص۶:حق یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہ ہوا۔
ص۷: آپ کے ہاتھ میں سوا مکروفریب کے کچھ نہ تھا، آپ کا خاندان بھی نہایت ناپاک ہے، تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ہوا۔ یہ پچاس کفر ہوئے۔
نیز اسی رسالہ ملعونہ میں ص ۴ سے ۸ تک بحیلہ باطلہ مناظرہ خود ہی جلے دل کے پھپھولے پھوڑے، اﷲ عزوجل کے سچے رسو ل مسیح عیسٰی بن مریم کو نادان، شریر، مکار، بدعقل، زنا نے خیال والا، فحش گو، بدزبان، کٹیل، جھوٹا،چور، علمی عملی قوت میں بہت کچاّ، خلل دماغ والا، گندی گالیاں دینے والا، بدقسمت، نرافریبی، پیروِشیطان وغیرہ وغیرہ خطاب اس قادیانی دجّال نے دئیے اور اس کے تین کفر اوپر گزرے کہ اﷲ مسیح کو دوبارہ نہیں لا سکتا، مسیح فتنہ تھا، مسیح کے فتنے نے تباہ کردیا۔ یہ سب ستر کفر ہوئے اور ہزاروں ستر کی گنتی کیا، غرض تیس سے اوپر اوصاف اس دجّال مرتد نے اپنے مزعوم مسیح میں بتائے، اگر قادیانی خود اپنے لئے ان میں سے دس وصف بھی قبول کرلے کہ یہ شخص یعنی یہی قادیانی بدچلن، بدمعاش، فریبی، مکّار، زنانے خیال والا، کٹیل بھی جھوٹا، چور، گندی گالیوں والا، ابلیس کا چیلہ، کنجریوں کی اولاد، کسبیوں کا جنا ہے، زنا کے خون سے بنا ہے، تو ہم بھی اس کی مان لیں گے کہ یہ ضرور مثیل مسیح ہے مگر کون سے مسیح کا؟ اسی مسیح قبیح کا جو اس کا موہوم و مزعوم ہے، الالعنۃ اﷲ علی الظّٰلمین۔
مسلمانو! یہ سات فائدے محفوظ رکھئے، کیسا آفتاب سے زیادہ روشن ہوا کہ قادیانیوں کا مسئلہ وفات وحیاتِ مسیح چھیڑنا کیسا ابلیسی مکر، کیسی عبث بحث، کیسی تضییع وقت، کیسا قادیانی کے صریح کفروں کی بحث سے جان چھڑانا اور فضول زق زق میں وقت گنوانا ہے!
اس کے بعد ہمیں حق تھا کہ ان ناپاک وبے اصل و پا،در ہوا شبہوں کی طرف التفات بھی نہ کرتے جو انہوں نے حیاتِ رسول علیہ الصلوٰۃ و السلام پر پیش کئے، ایسی مہمل عیاریوں کیادیوں کا بہتر جواب یہی تھا کہ ہشت۔ پہلے قادیانی کے کفر اٹھاؤ یا اسے کافر مان کر توبہ کرو، اسلام لاؤ، اس کے بعد یہ فرعی مسئلہ بھی پوچھ لینا مگر ہم ان مرتدین سے قطع نظر کر کے اپنے دوست سائل سُنّی المذہب سے جوابِ شبہات گزارش کرتے ہیں، وَبِاﷲِ التَّوْفِیق۔
پہلا شُبہ

کریمہ۔ والذین یدعون من دُون اﷲ ا لاٰیۃ۔

اقول اولاً
یہ شبہ مرتدانِ حال نے کافرانِ ماضی سے ترکہ میں پایا ہے۔ جب آیہ کریمہ:
انکم وما تعبدون من دون اﷲ حصب جھنم انتم لھا واردون(القرآن الکریم ۲۱ / ۹۸)
نازل ہوئی کہ بیشک تم اور جوکچھ تم اﷲ کے سوا پوجتے ہو سب دوزخ کے ایندھن ہو تمہیں اس میں جانا ہے۔
مشرکین نے کہا کہ ملائکہ اور عیسٰی اور عزیر بھی تو اﷲ کے سوا پوجے جاتے ہیں، اس پر رب عزوجل نے ان جھگڑالو کا فروں کو قرآن کریم کی مراد بتائی کہ آیت بتوں کے حق میں ہے۔
اِنّ الذین سبقت لھم منّا الحسنٰی ط اولٰئک عنہا مُبعدونo لا یسمعون حسیسھا(القرآن الکریم ۲۱/ ۱۰۱ و ۱۰۲)
بیشک وہ جن کے لئے ہمارا بھلائی کا وعدہ ہوچکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں وہ اس کی بھنک تک نہ سنیں گے۔
قرآن کریم نے خود اپنا محاورہ بتایا جب بھی مرتدوں نے وہی راگ گایا۔
ابوداؤد کتاب الناسخ والمنسوخ میں اور فریابی عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم طبرانی و ابن مردویہ اور حاکم مع تصحیح مستدرک میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی:
لمّا نزلت انکم وما تعبدون من دون اﷲ حصب جہنم انتم لہا واردون فقال المشرکون الملٰئکۃُ وعیسٰی وعزیر یعبَدون من دون اﷲ فنزلت ان الذین سبقت لھم منا الحسنٰی اولئک عنہا مُبعدون( المستدرک کتاب التفسیر تفسیر سُورہ انبیاء دارالفکربیروت ۲/ ۳۸۵)
جب یہ آیت نازل ہوئی ۔اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ (الاٰیۃ) تو مشرکین نے کہا ملائکہ، حضرت عیسٰی اور حضرت عزیر کو بھی اﷲ تعالٰی کے سوا پوجا جاتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی ان الذین سبقت (الاٰیۃ) بیشک وہ جن کے لئے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہوچکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں۔
ثانیاً
یدعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ یقینا مشرکین ہیں اور قرآنِ عظیم نے اہل کتاب کو مشرکین سے جدا کیا، ان کے احکام ان سے جدا رکھے، ان کی عورتوں سے نکاح صحیح ہے مشرکہ سے باطل، اِن کا ذبیحہ حلال ہوجائے گا، اُن کا مردار۔
لم یکن الذین کفروا من اھل الکتٰب والمشرکین منفکّین حتٰی تاتیھم البینۃ(القرآن الکریم ۹۸/ ۱)
کتابی کافر اور مشرک اپنا دین چھوڑنے کو نہ تھے جب تک ان کے پاس دلیل نہ آئے۔
وقال اﷲ تعالٰی:
ان الذین کفروا من اھل الکتٰب والمشرکین فی نارجھنّم خٰلدین فیھا اولٰئک ھم شرّالبریۃ (القرآن الکریم ۹۸/ ۶)
بیشک جتنے کافر ہیں کتابی اور مشرک سب جہنم کی آگ میں ہیں، ہمیشہ اس میں رہیں گے، وہی تمام مخلوق سے بدتر ہیں۔
وقال اﷲ تعالٰی:
ما یودّ الذین کفروا من اھل الکتٰب ولا المشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم(القرآن الکریم ۲/ ۱۰۵)
وہ جو کافر ہیں کتابی یا مشرک، وہ نہیں چاہتے کہ تم پر کوئی بھلائی اترے تمہارے رب کے پاس سے۔
وقال اﷲ تعالٰی:
لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین اٰمنوا الیہود والذین اشرکوا ولتجدن اقربھم مودّۃ للذین اٰمنو الذین قالوا انا نصارٰی (القرآن الکریم ۵/ ۸۲)
ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑھ کر دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گےجنہوں نے کہا کہ بیشک ہم نصارٰی ہیں۔

وقال اﷲ تعالٰی:
الیوم احل لکم الطیبٰت وطعام الذین اوتواالکتٰب حل لکم وطعامکم حل لھم والمحصنٰت من المؤمنٰت والمحصنٰت من الذین اوتوا الکتٰب من قبلکم (القرآن الکریم ۵/۵)
آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال ہوئیں اور کتابیوں کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے اور پارسا عورتیں مسلمان اور پارسا عورتیں ان میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی۔
ولا تنکحوا المشرکٰت حتی یؤمن (القرآن الکریم ۲/ ۲۲۱)
اور شرک والی عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہوجائیں۔

جب قرآن عظیم "ید عُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ" میں نصارٰی کو داخل نہیں فرماتا اس "اَلَّذِین" میں مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کیونکر داخل ہوسکیں گے؟

ثالثاً
سورت مکیہ ہے اور سوائے عاصم، قُراءِ سبعہ کی قرأت "تَدْعُوْنَ "بہ تائے خطاب،تو بُت پرست ہی مراد ہیں اور" اَلَّذِین یدعُونَ اَصْنَامٌ"جنہیں وہ پوجتے ہیں وہ بُت ہیں۔
رابعاً
خود آیہ کریمہ طرح طرح دلیل ناطق کہ حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء عموماً اور حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والتسلیم خصوصاً مراد نہیں، جہاں فرمایا اَمْوَات غَیر اَحْیاءٍ (القرآن الکریم ۱۶/ ۲۱)(مردے ہیں زندہ نہیں۔) اموات سے متبادریہ ہوتا ہے کہ پہلے زندہ تھے پھر موت لاحق ہوئی لہٰذا ارشاد ہوا "غَیر اَحْیاءٍ" یہ وہ مردے ہیں کہ نہ اب تک زندہ ہیں نہ کبھی تھے نرِے جماد ہیں، یہ بتوں ہی پر صادق ہے۔تفسیر ارشاد العقل السلیم میں ہے:
حیث کان بعض الاموات ممّا یعتریہ الحیاۃ سابقا اولاحقا کا جساد الحیوان والنطف التی ینشئھا اﷲ تعالٰی حیوانا احترز عن ذٰلک فقیل غیر احیاءٍ ای لا یعتریھا الحٰیوۃ اصلا فھی اموات علی الاطلاق(ارشاد العقل السلیم (تفسیر ابی السعود) آیۃ ۱۶/ ۲۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۰۶)
بعض اموات وہ تھے جنہیں زندگی حاصل تھی جیسے مردہ حیوان کا جسم، اور بعض وہ ہیں جنہیں زندگی ملنے والی ہے مثلاً نطفہ جسے اﷲ تعالٰی مستقبل میں حیوان بنائے گا اس لئے ایسے اموات سے احتراز کیا اور فرمایا غیر احیاء یعنی یہ وہ اموات ہیں جنہیں زندگانی (ماضی یا مستقبل میں) بالکل حاصل نہیں لہٰذا یہ علی الاطلاق اموات ہیں۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
خامساً
رب عزوجل فرماتا ہے:
ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اﷲ امواتا ط بل احیاء عند ربھم یرزقونo فرحین بما اٰتٰھم اﷲ من فضلہ (القرآن الکریم ۳/ ۱۶۱)
خبردار! شہیدوں کو ہرگز مردہ نہ جا نیو بلکہ وہ اپنے رب کے یہاں زندہ ہیں، روزی پاتے ہیں، اﷲ نے جو اپنے فضل سے دیا اس پر خوش ہیں۔
اور فرماتا ہے:
ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات ط بل احیاء ولکن لا تشعرون۔ (القرآن الکریم ۲/ ۱۵۶)
جو اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں تمہیں خبر نہیں۔
محال ہے کہ شہید کو تو مردہ کہنا حرام، مردہ سمجھنا حرام اور انبیاء معاذ اﷲ مردے کہے سمجھے جائیں، یقینا قطعاًایماناً وہ "اَحْیاء غَیر اَمْوَاتٍ"(زندہ ہیں مردے نہیں۔) ہیں نہ کہ عیاذًا باﷲ "اموات غَیر اَحْیاءٍ" (مردے ہیں زندہ نہیں۔) جس وعدہ الٰہیہ کی تصدیق کے لئے ان کو عروضِ موت ایک آن کے لئے لازم ہے قطعاً شہداء کو بھی لازم ہے۔

کلّ نفس ذائقۃ الموت (القرآن الکریم ۲۱/ ۳۵)
ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔
پھر جب یہ" اَحْیاء غَیر اَمْوَاتٍ" ہیں وہ یقینا ان سے لاکھوں درجے زائد "اَحْیا ء غَیر امواتٍ" ہیں نہ کہ "اَمْوات غَیر اَحْیاءٍ

سادساً
آیہ کریمہ میں "وَھُمْ قَدْ خُلِقُوْا" بصیغہ ماضی نہیں بلکہ وَھُمْ یخلَقُوْنَ (القرآن الکریم ۱۶/ ۲۰)بصیغہ مضارع ہے کہ دلیل تجدّد واستمرار ہو یعنی بنائے گھڑے جاتے ہیں اور نئے نئے بنائے گھڑے جائیں گے، یہ یقینا بُت ہیں۔
سابعاً
آیہ کریمہ میں ان سے کسی چیز کی خلق کا سلبِ کُلّی فرمایا کہ لاَیخلُقُوْنَ شَیئاً(القرآن الکریم ۱۶/ ۲۰) (وہ کوئی چیز نہیں بناتے۔)
اور قرآن عظیم نے عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے بعض اشیاء کی خلق ثابت فرمائی، واِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّین کَھَیئَۃِ الطَّیر۔ (القرآن الکریم ۵/ ۱۱۰)(اور جب تو مٹی سے پرند کی مورت بناتا) اور ایجاب جزئیِ نقیض سلبِ کُلیّ ہے تو عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر صادق نہیں، نامناسب سے قطع نظر ہو تو اَمْوَات قضیہ مطلقہ عامہ ہے یا دائمہ بر تقدیر ثانی یقینا انس وجن وملک سے کوئی مراد نہیں ہوسکتا کہ ان کیلئے حیات بالفعل ثابت ہے نہ کہ ازل سے ابد تک دائم موت، برتقدیر اوّل قضیہ کا اتنا مفاد کہ کسی نہ کسی زمانے میں ان کو موت عارض ہو، یہ ضرور عیسٰی وملائکہ علیہم الصلوٰۃ والسلام سب کے لئے ثابت، بیشک ایک وقت وہ آئے گا کہ مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام وفات پائیں گے اور روز قیامت ملائکہ کو بھی موت ہے، اس سے یہ کب ثابتہوا کہ موت ہوچکی، ورنہ "ید عُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ" میں ملائکہ بھی داخل ہیں، لازم کہ وہ بھی مر چکے ہوں، اور یہ باطل ہے۔
تفسیر انوارالتنزیل میں ہے:
(اَمْوَات) حالاً اوماٰلاً غیر احیاءٍ بالذَّاتِ لیتناول کُلَّ معبودٍ(انوارالتنزیل (تفسیر بیضاوی) آیۃ ۱۶/ ۲۱ مصطفٰی البابی مصر،۱/ ۲۷۰)
مردے حال میں یا آئندہ غیر زندے بالذات تاکہ ہر معبود کو شامل ہو۔
تفسیر عنایۃ القاضی میں ہے:
فالمراد مالا حٰیوۃ لہ سواء کان لہ حٰیوۃ ثم مات کعزیر او سیموت کعیسٰی والملٰئکۃ علیھم السلام اولیس من شانہ الحٰیوۃ کالا صنام( عنایۃ القاضی حاشیۃ الشہاب علی تفسیر البیضاوی آیۃ ۱۶/ ۲۱، دار صادر بیروت، ۵/ ۳۲۲)
یعنی ان اموات سے عام مراد ہے خواہ اس میں حیات کی قابلیت ہی نہ ہو جیسے بت، یا حیات تھی اور موت عارض ہوئی جیسے عزیر، یا آئندہ عارض ہونے والی ہے جیسے عیسٰی وملائکہ علیہم الصلوٰۃ والسلام۔
منکرین دیکھیں کہ ان کا شبہ ہر پہلو پر مردود ہے، وﷲ الحمد۔
شُبہ دوم

لَعَنَ اﷲُ الْیھوْدَ وَالنَّصَارٰی(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب مایکرہ من اتخاذ المسجد علی القبور، قدیمی کتب خانہ کراچی، ۱/ ۱۷۷)اقول: وَالْمِرْزَائِیۃ لَعَنَھُمْ لَعْنًا کَبِیراً (میں کہتا ہوں کہ مرزائیوں پر بھی بڑی لعنت ہو)

اوّلاً
اَنْبِیائِھِمْ میں اضافت استغراق کے لئے نہیں کہ موسٰی سے یحیٰی علیہما الصلوٰۃ والسلام تک ہر نبی کی قبر کو یہود و نصارٰی سب نے مسجد کرلیا ہو، یہ یقینا غلط ہےجس طرح وَقَتْلِھِمُ الْاَنْبِیاء بِغَیر حَقٍّ (القرآن الکریم ۴/ ۱۵۵)
(انہوں نے انبیاء کو ناحق شہید کیا۔) میں اضافت ولام کوئی استغراق کا نہیں کہ نہ سب قاتل اور نہ سب انبیاء شہید کئے۔
قال اﷲ تعالٰی:
ففریقاکذبتم وفریقا تقتلون(القرآن الکریم ۲/ ۸۷)انبیاء کے ایک گروہ کو تم نے جھٹلایا اور ایک گروہ کو قتل کرتے ہو۔
اور جب استغراق نہیں تو بعض میں مسیح علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا داخل کرلینا ادّعائے باطل و مردود ہے، یہود کے سب انبیاء نصارٰی کے بھی انبیاء تھے، یہود و نصارٰی کا ان میں بعض قبورِ کریمہ کو (مسجد بنا لینا) صدقِ حدیث کے لئے بس اور اس سے زیادہ مرتدین کی ہوس۔
فتح الباری شرح صحیح بخاری میں یہ اشکال ذکر کر کے کہ نصارٰی کے انبیاء کہاں ہیں، ان کے تو صرف ایک عیسٰی نبی تھے ان کی قبر نہیں، ایک جواب یہی دیا جو بتوفیقہ تعالٰی ہم نے ذکر کیا کہ:
اوالمراد بالا تخاذ اعم من ان یکون ابتداعًا او اتباعًا فالیہود ابتدعت والنصارٰی اتبعت، ولا ریب ان النصارٰی تعظم قبور کثیر من الانبیاء الذین تعظمھم الیہود (فتح الباری شرح صحیح بخاری، کتاب الصلٰوۃ دارالمعرفۃ بیروت ۱/ ۴۴۴)
انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا نا عام ہے کہ ابتداً ہو یا کسی کی پیروی میں، یہودیوں نے ابتداء کی اور عیسائیوں نے پیروی کی، اور اس میں شک نہیں کہ نصارٰی بہت سے ان انبیاء کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں جن کی یہودی تعظیم کرتے ہیں۔

ثانیا
امام حافظ الشان (ابن حجر) نے دوسرا جواب یہ دیا کہ اس روایت میں اقتصار واقع ہوا، واقع یہ ہے کہ یہود اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد کرتے اور نصارٰی اپنے صالحین کی قبروں کو، ولہٰذا صحیح بخاری حدیث ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ میں دربارہ قبور انبیاء تنہا یہود کا نام ہے:
ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال قاتل اﷲ الیھود اتخذوا قبور انبیائھم مساجد (صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ، قدیمی کتب خانہ کراچی۔۱/ ۶۲)
فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ا ﷲ تعالٰی یہودیوں کو ہلاک فرمائے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیا۔
اور صحیح بخاری حدیث اُم سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا میں جہاں تنہا نصارٰی کا ذکر تھا صرف صالحین کا ذکر فرمایا، انبیاء کا نام نہ لیا کہ:
قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اولٰئک قوم اذا مات فیھم العبد الصالح اوالرجل الصالح بنوا علٰی قبرہ مسجداً وصَوَّرُوْا فیہ تلک الصُّوَر (صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ، قدیمی کتب خانہ کراچی۔۱/ ۶۲)
اور صحیح بخاری حدیث اُم سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا میں جہاں تنہا نصارٰی کا ذکر تھا صرف صالحین کا ذکر فرمایا، انبیاء کا نام نہ لیا کہ:
قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اولٰئک قوم اذا مات فیھم العبد الصالح اوالرجل الصالح بنوا علٰی قبرہ مسجداً وصَوَّرُوْا فیہ تلک الصُّوَر (صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ، قدیمی کتب خانہ ،کراچی۔۱/ ۶۲)
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا نصارٰی وہ قوم ہے کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنالیتے اور اس میں تصویریں بناتے۔
اور صحیح مسلم حدیث جندب رضی اﷲ تعالٰی عنہ میں یہود و نصارٰی دونوں کو عام تھا انبیاء و صالحین کو جمع فرمایا کہ:
سمعت النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال الاوان من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور انبیائھم وصالحیھم مساجد(صحیح مسلم کتاب المساجد، باب : النہی عن بناء المسجد علی القبور، قدیمی کتب خانہ، کراچی ۱/ ۲۰۱)
میں نے نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیتے تھے۔ ہمیشہ جمع طرق سے معنی حدیث کا ایضاح ہوتا ہے۔

ثالثاً
اقول چالاکی بھی سمجھئے! یہ فقط قبرِ عیسٰی ثابت کرنا نہیں بلکہ اس میں بہت اہم راز مضمر ہے، قادیانی مدعیِ نبوت تھا اور سخت جھوٹا کذاب جس کے سفید چمکتے ہوئے جھوٹ وہ محمدی والے نکاح، اور انبیاء کے چاند والے بیٹے قادیان و قادیانیہ کے محفوظ از طاعون رہنے کی پیشین گوئیاں وغیرہا ہیں، اور ہر عاقل جانتا ہے کہ نبوت اور جھوٹ کا اجتماع محال!
اس سے قادیانی کا سارا گھر ہر عاقل کے نزدیک گھروندا ہوگیا اس لئے فکر ہوئی کہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کو معاذ اﷲ جھوٹا ثابت کریں کہ قادیانی کذاب کی نبوت بھی بن پڑے، اس کا علاج خود قادیانی نے اپنے ازالہ اوہام ص ۶۲۹ پر یہ کیا کہ ایک زمانے میں چار سو نبیوں کی پیشگوئی غلط ہوئی اور وہ جھوٹے، یہ اس مرتدکے اکٹھے چار سو کفر کہ ہر نبی کی تکذیب کفر ہے، بلکہ کروڑوں کفر ہیں کہ ایک نبی کی تکذیب تمام انبیاء اﷲ کی تکذیب ہے۔قال اﷲ تعالٰی: کذبت قوم نوح ن المرسلین (القرآن الکریم ۲۶/ ۱۰۵)(نوح کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ت) تو اس نے چار سو ہر نبی کی تکذیب کی، اگر انبیاء ایک لاکھ ×چوبیس ہزار ہیں تو قادیانی کے چار کروڑ چھیانوے لاکھ کفر، اور اگر دو لاکھ×× چوبیس ہزار ہیں تو یہ اس کے آٹھ کروڑ چھیانوے لاکھ کفر ہیں اور اب ان مرزائیوں نے خود یا اسی سے سیکھ کر اندارج کفر میں اور ترقی معکوس کر کے اسفل سافلین پہنچنا چاہا کہ معاذاﷲ معاذاﷲ سید المرسلین محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وعلیہم اجمعین کا جھوٹ ثابت کریں، اس حدیث کے یہ معنے گھڑے کہ نصارٰی نے عیسٰی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی قبر کو مسجد کر لیا، یہ صریح سپید جھوٹ ہے، نصارٰی ہر گز مسیح کی قبر ہی نہیں مانتے اسے مسجد کر لینا تو دوسرا درجہ ہے، تو مطلب یہ ہوا کہ دیکھو مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ( کے دشمنوں) نے (خاک بدہنِ ملعونان) کیسی صریح جھوٹی خبر دی پھر اگر ہمارا قادیانی نبی جھوٹ کے پھنکے اڑاتا تھا تو کیا ہوا قادیانی مرتدین کا اگر یہ مطلب نہیں تو جلد بتائیں کہ نصارٰی مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبر کب مانتے ہیں، کہاں بتاتے ہیں، کس کس نصرانی نے اس قبر کو مسجد کر لیا جس کا مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ذکر کیا، اس مسجد کا روئے زمین پر کہیں پتا ہے؟ ان نصرانیوں کا دنیا کے پردے پر کہیں نشان ہے؟ اور جب یہ نہ بتا سکو اور ہرگز نہ بتا سکو گے تو اقرار کر و کہ تم نے محمد رسو ل اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ذمّے معاذاﷲ دروغ گوئی کا الزام لگانے کو حدیث کے یہ معنی گھڑے اور
ان الذین یؤذون اﷲ ورسولہ لعنھم اﷲ فی الدنیا والاٰخرۃ واعدّلھم عذابًا مھینا(القرآن الکریم ۳۳/ ۵۷)
بیشک جو ایذا دیتے ہیں اﷲ اور اس کے رسول کو ان پر اﷲ کی لعنت دنیا اور آخرت میں اور اﷲ نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
کے گہرائی میں پڑے الا لعنۃ اﷲ علی الظّٰلمین۔ کیوں، حدیث سے موت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر استدلال کا مزا چکّھا؟
کذٰلک العذاب ولعذاب الاٰخرۃاکبر لو کانوا یعلمون ( وﷲ تعالٰی اعلم)(القرآن الکریم ۶۸/ ۳۳)
مار ایسی ہوتی ہے اور بیشک آخرت کی مار سب سے بڑی، کیا اچھا تھا اگر وہ جانتے۔واﷲ تعالٰی اعلم

کتبہ العبد المذنب
احمد رضا البریلوی عفی عنہ
بمحمد ن المصطفٰی
صلی اﷲ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم۔


-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
×کما رواہ احمد وابن حبان والحاکم والبیھقی وغیر ھم عن ابی ذرو ھٰؤلاء وابن ابی حاتم والطبرانی وابن مردویہ عن ابی امامۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہما ۱۲ منہ غفرلہ(جیسا کہ احمدابن حبان، حاکم، بیہقی وغیر ہم نے ابو ذر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے نیز انہوں نے اور ابن ابی حاتم، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابی امامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۱۲ منہ غفرلہ۔)
(مسند احمد بن حنبل، حدیث ابو امامۃ الباہلی، دارالفکربیروت، ۵/ ۲۶۶)
××کما فی روایۃ علٰی ما فی شرح عقائد النسفی للتفتازانی قال خاتم الحفاظ لم اقف علیھا ۱۲ منہ غفرلہ (جیسا کہ دوسری روایت میں ہے جس کو علامہ تفتازانی نے شرح عقائد نسفی میں ذکر فرمایا، خاتم الحفاظ نے فرمایا میں اس پر واقف نہیں ہوا ۱۲ منہ)
(شرح عقائد النسفی داراشاعۃ العربیۃ قندھار، افغانستان، ص ۱۰۱)
 
Top