حصہ دوم
ری نی ساں اور ریفارمیشن کی تحریکیں
تیرہویں سے سترہویں صدی تک یورپ میں چرچ کے اقتدار اور تنگ نظری کے خلاف بغاوت کے جذبات پیدا ہو چکے تھے۔ اس دور میں یورپ میں ری نی ساں (Renaissance) اور ری فارمیشن (Reformation) کی تحریکیں چلیں جن میں چرچ پر بھرپور تنقید کی گئی۔
اسی دوران مارٹن لوتھر کی مشہور پروٹسٹنٹ تحریک بھی چلی جس نے دنیائے عیسائیت کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ یورپ میں ایسے مفکرین بھی پیدا ہونے لگے جن کی تحقیقات نے ارسطو اور افلاطون کے ان سائنسی نظریات کو بھی چیلنج کردیا جنہیں اہل کلیسا نے طویل عرصے سے مذہبی عقائد کا حصہ بنایا ہوا تھا۔ ان میں سب سے مشہور زمین کے کائنات کا مرکز ہونے اور اس کے ساکن ہونے اور سورج اور تمام اجرام فلکی کے زمین کے گرد گھومنے کا نظریہ تھا۔ ان مفکرین میں لیونارڈو ڈاونسی (1452-1519) ، جیارڈینو برونو(1548-1600) ، گلیلیو (1564-1642) اور جوہانس کپلر (1571-1630) زیادہ مشہور ہیں۔
مذہبی علماء نے اس تنقید اور جدید نظریات کا سختی سے نوٹس لیا۔ انہوں نے عقل و منطق اور مشاہدے کی بنیاد پر حاصل ہونے والے سائنسی علم کو طاقت سے دبانا چاہا۔ احتساب (Inquisition) کی مشہور عدالتیں قائم ہوئیں جو اس قسم کے نظریات رکھنے والے مفکرین کو سخت سزائیں دیا کرتے۔ برونو کو کئی سال قید میں رکھنے کے بعد آگ میں زندہ جلا دیاگیا۔ گلیلیو کو اپنے عقائد سے توبہ کرنا پڑی ورنہ اسے بھی موت کی سزا سنا دی گئی تھی۔
ری نی ساں کا دور فکر انسانی میں ہر اعتبار سے ترقی کا دور ہے۔ اس دور میں آزادانہ سوچ اور الحاد کو فروغ حاصل ہوا۔ صرف اور صرف چرچ کے حکم کی بنیاد پر کسی چیز کو قبول کرنے کی پابندی کے بڑے مخالفین میں لیونارڈو ڈاونسی تھے۔ انہوں نے علم کے حصول کے لئے تجربے کی اہمیت پر زور دیا۔ نکولو میکیاولی بھی چرچ پر مسلسل تنقید کرتے رہے۔ ان کی شہرت بھی ایک ملحد کی ہے۔ جیارڈینو برونو کی موت (1600) آزادی فکر کے نئے دور کا آغاز ہے۔ برونو اٹلی کے رہنے والے ایک مصنف تھے جو علم کلام کے ماہر تھے۔ اپنی تحریروں کے باعث انہیں محکمہ احتساب (Inquisition) کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے پورے یورپ کا سفر کیا جس کے دوران وہ اپنے نظریات کو تقریر و تحریر کے ذریعے پھیلاتے رہے۔ انہیں گرفتار ہوجانے کا خطرہ بھی لاحق رہا۔ چودہ سال کے بعد ، وینس شہر میں انہیں ان کے ایک پرانے شاگرد نے احتساب والوں کے ہاتھوں گرفتار کروا دیا۔ برونو احتساب کی عدالت کے سامنے اپنے نظریات سے انحراف نہ کرسکے جن میں مسیح (علیہ الصلوۃ والسلام )کی الوہیت سے انکار، اس دنیا کے ہمیشہ باقی رہنے کا عقیدہ اور روح کے حلول کا عقیدہ شامل ہے۔ وہ نظام شمسی کے کوپر نیکی نظریے (یعنی سورج نظام شمسی کا مرکز ہے) پر بھی یقین رکھتے تھے اور اس پر لیکچر بھی دیا کرتے تھے۔ برونو پر مقدمہ چلایا گیا اور عدالت کے سامنے ان کا جرم ثابت ہوگیا۔ برونو نے روم میں سات سال جیل میں گزارے۔ بالآخر فروری 1600 انہیں آگ میں زندہ جلا دیاگیا۔ اگلے دو سو سال میں ان کے علاوہ آزادی فکر کے اور بھی شہید موجود ہیں۔
(Dr. Gordon Stein, The History of Free Thought and Atheism,
www.positiveatheism.org)
مذہبی علماء اور سائنس دانوں میں یہ چپقلش چلتی رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے پر اہل کلیسا کی گرفت کمزور ہوتی گئی اور فلسفیوں کا اثر و ٍرسوخ بڑھتا چلا گیا۔ انیسویں صدی کے وسط تک ملحد فلسفیوں اور سائنس دانوں کی فکر اہل یورپ میں غالب فکر بن چکی تھی۔ چونکہ اہل کلیسا نے اپنے اقتدار کے دور میں سائنس دانوں کے ساتھ بہت ظالمانہ اور جابرانہ رویہ رکھا تھا اس لئے مذہب اور سائنس میں ایک وسیع خلیج پیدا ہوچکی تھی۔ اہل سائنس نے مذہب کے بارے میں کوئی معقول رویہ اختیار کرنے کی بجائے اپنے سائنسی نظریات کی روشنی میں یہی مناسب سمجھا کہ اسے خیر باد ہی کہہ دیا جائے۔ اس معاملے میں اہل مذہب کا کردار بھی اتنا معیاری نہ تھا کہ اس کی پیروی کی جاتی۔ چنانچہ مشہور برطانوی ملحد فلسفی برٹر ینڈ رسل لکھتے ہیں:
میں تو یہاں تک سوچا کرتا ہوں کہ بعض ہی اہم نیکیاں مذہب کے علمبرداروں میں نہیں ملتیں۔ وہ ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جو مذہب کے باغی ہوتے ہیں۔ ان میں سے دو نیکیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیںاور وہ راست بازی اور ذہنی دیانت ہیں۔ ذہنی دیانت سے میری مراد پیچیدہ مسائل کو ثبوت اور شہادتوں کی بنیاد پر حل کرنے کی عادت ہے۔ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ جب تک کافی ثبوت اور شہادتیں دستیاب نہ ہوں، تب تک ان مسائل کو غیر حل شدہ ہی رہنے دیا جائے۔ ------- تحقیق کی حوصلہ شکنی ان میں سب سے پہلی خرابی ہے۔ لیکن دوسری خرابیاں بھی پیچھے نہیں رہتیں۔ قدامت پسندوں کو قوت و اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔ تاریخی دستاویزات میں اگر کوئی بات عقیدوں کے بارے میں شبہات پیدا کرنے والی ہو تو ان کی تکذیب شروع کردی جاتی ہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر منحرف عقیدے رکھنے والوں کے خلاف مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ پھانسیاں گاڑ دی جاتی ہیں اور نظر بندی کے کیمپ بنا دیے جاتے ہیں۔ میں اس شخص کی قدر کرسکتا ہوں جو یہ کہے کہ مذہب سچا ہے لہٰذا ہم کو اس پر ایمان رکھنا چاہئے (اور سچائی ثابت کرے) لیکن ان لوگوں کے لیے میرے دل میں گہری نفرت کے سوا کچھ نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مذہب کی سچائی کا مسئلہ اٹھانا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے اور یہ کہ ہم کو مذہب اس لئے قبول کرلینا چاہئے کہ وہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ یہ نقطہ نظر سچائی کی توہین کرتا ہے ، اس کی اہمیت کو ختم کردیتا ہے اور جھوٹ کی بالادستی قائم کردیتا ہے۔ ------ اشتراکیت کی برائیاں وہی ہیں جو ایمان کے زمانوں میں مسیحیت میں پائی جاتی تھیں۔ سوویت خفیہ پولیس کے کارنامے رومن کیتھولک کلیسا کی قرون وسطیٰ کی عدالت احتساب کے کارناموں سے صرف مقداری طور پر ہی مختلف تھے۔ جہاں تک ظلم و ستم کا تعلق ہے، دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس پولیس نے روسیوں کی ذہنی اور اخلاقی زندگی کو ایسا ہی نقصان پہنچایا جیسا کہ مذہبی احتساب کی عدالت نے مسیحی اقوام کی ذہنی اور اخلاقی زندگی کو پہنچایا تھا۔ اشتراکی تاریخ کی تکذیب کرتے ہیں۔ نشاۃ ثانیہ تک چرچ بھی یہی کام کیا کرتا تھا۔ ------ جب دو سائنس دانوں کے درمیان اختلاف ہوتا ہے تو وہ اختلاف کو دور کرنے کے لئے ثبوت تلاش کرتے ہیں۔ جس کے حق میں ٹھوس اور واضح ثبوت مل جاتے ہیں، وہ راست قرار پاتا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ سائنس دان ہونے کے حیثیت سے ان دونوں میں سے کوئی بھی خود کو بے خطا خیال نہیں کرتا۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہوسکتے ہیں۔ اس کے برخلاف جب دو مذہبی علماء میں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو وہ دونوں اپنے آپ کو مبرا عن الخطا خیال کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہیں ہوسکتی۔ دونوں میں سے ہر ایک کو یقین ہوتا ہے کہ صرف وہی راستی پر ہے۔ لہٰذا ان کے درمیان فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ بس یہ ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں کیونکہ دونوں کو یقین ہوتا ہے کہ دوسرا نہ صرف غلطی پر ہے ، بلکہ راہ حق سے ہٹ جانے کے باعث گناہ گار بھی ہے۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور نظری مسائل حل کرنے کے لئے دنگا فساد تک نوبت جاپہنچتی ہے۔ (برٹرینڈ رسل: لوگوں کو سوچنے دو، اردو ترجمہ قاضی جاوید، ص 81-86 )[/QUOTE