• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

اللہ کا کیسا انصاف ہے کہ مرزائی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔

ھمراز

رکن ختم نبوت فورم
جس طرح مٹرولا موبائل کو آئی مٹرولا نہیں کہا جاسکتا جسطرح سینڈو موبائل کو آئی سینڈو یا نوکیا سینڈو نہیں کہا جاسکتا ورنہ آئی فون والے پکڑ کرکیس کر دیں گے کے انکے نام کو کاپی کیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ مرزائی خود کو احمدی مسلمان نہیں کہہ سکتے جس مرزائی کو عتراض ہے تو اسکا فیصلہ اللہ کرے گا۔ جتنے گنے چنے مرزائی ہیں انکو چیلنج ہے کہ قرآن سے احمدی مسلمان نکال کہ دیکھائیں اور منہ مانگی قیمت پائیں۔ جبکہ قرآن کا یہ فیصلہ ہے۔

وَوَصّٰى بِهَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِيْهِ وَيَعْقُوْبُ ۭيٰبَنِىَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّيْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ١٣٢؁

اس کی وصیت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو کی، کہ ہمارے بچو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اس دین کو پسند فرما لیا، خبردار! تم مسلمان ہی مرنا (١)
 

غلام مصطفی

رکن ختم نبوت فورم
احمدی مسلمان ہیں اور اس کا حق انہیں اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے۔اگر پاکستان یا کچھ اور ممالک سیاسی اغراض کی خاطر احمدیوں کو کافر قرار دیتے ہیں تو یہ ان کا سیاسی مفادات پر مبنی فیصلہ ہے۔اگر کسی ملک کے کہنے سے کوئی مسلمان کافر ہوسکتا ہے تو اپنے اس منطق کو سامنے رکھتے ہوئے ان ممالک کا فیصلہ بھی مان لیں جو احمدیوں کو دفتری طور پر مسلمانوں کا ایک فرقہ مانتے ہیں۔مثلا جرمنی،انڈیا،امریکہ وغیرہ وغیرہ۔

مسلمان کی تعریف

لَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا} (النساء 95)

اور جو تم پر سلام بھىجے اس سے ىہ نہ کہا کرو کہ تُو مومن نہىں ہے تم دنىاوى زندگى کے اموال چاہتے ہو۔

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ(الحجرات 15)

بادىہ نشىن کہتے ہىں کہ ہم اىمان لے آئے تُو کہہ دے کہ تم اىمان نہىں لائے لىکن صرف اتنا کہا کرو کہ ہم مسلمان ہوچکے ہىں جبکہ ابھى تک اىمان تمہارے دلوں مىں داخل نہىں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کى اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال مىں کچھ بھى کمى نہىں کرے گا ىقىناً اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے (15)

کسی کے بارہ میں کوئی یہ تو کہہ سکتا ہے کہ یہ مومن نہیں لیکن یہ ہرگز نہیں کہہ سکتا کہ وہ مسلمان نہیں۔

دوسرا چیلنج دینے کے شوق میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے کس فرقہ کا نام قرآن مجید میں آیا ہے؟آپ کا جس فرقہ سے بھی تعلق ہےکیا آپ اس کا نام قرآن مجید سے نکال کر دکھا سکتے ہیں؟

احمدیوں کا ذکر تو و آخرین منہم لما یلحقوا بہم میں ایک جماعت کے طور پر سورۃ جمعہ میں موجود ہے۔لیکن آپ اپنا ذکر دیکھ لیں کہا ہے؟

حضرت جبرائیل ؑ نبی کریمﷺ کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم! مجھے اِسلام کے بارے میں مطلع فرمائیں۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تُو گواہی دے کہ اﷲ کے سوا اَور کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں نیز یہ کہ تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور اگرراستہ کی توفیق ہو تو بیت اﷲ کا حج کرو۔ اس شخص نے کہا کہ حضور ؐ نے بجا فرمایا۔ راوی کہتے ہیں کہ ہمیں اس پر تعجب آیا کہ سوال بھی کرتا ہے اور جواب کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ پھر اُس شخص نے پوچھا کہ مجھے ایمان کے بارے میں آگاہ فرمائیں۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ آپ اﷲ پر ایمان لائیں۔ اُس کے فرشتوں ، اُس کی کتابوں، اُس کے رسُولوں پر ایمان لائیں نیز یومِ آخر پر ایمان لائیں اور قضاء و قدر کے بارے میں خیر و شر پر بھی ایمان لائیں۔ اُس شخص نے کہا کہ آپ نے درست فرمایا ہے۔

(مسلم کتاب الایمان باب نمبر 1)

''جس شخص نے وہ نماز ادا کی جو ہم ادا کرتے ہیں۔ اُس قبلہ کی طرف رُخ کیا جس کی طرف ہم رُخ کرتے ہیں اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے جس کے لئے اﷲ اور اُس کے رسول کا ذمّہ ہے۔ پس تم اﷲ کے دئے ہوئے ذمّے میں اس کے ساتھ دغا بازی نہ کرو''۔

(بخاری کتاب الصلٰوۃ باب فضل استقبال القبلۃ)

احمدی تو ان تمام باتوں پر ایمان لاتے اور یہ اراکین بجا لاتے ہیں۔اس کے باوجود اگر سیاسی فیصلہ کے طور پر کوئی مسلمان احمدیوں کو کافر کہے تو اسے حضور نبی کریمﷺ کی ان حدیثوں کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
 

ضیاء رسول امینی

منتظم اعلیٰ
رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جناب احادیث صرف یہی نہیں اور بھی بہت سی ہیں صرف ایک حدیث پیش کرکے اس سے اپنی مرضی کا مطلب لے کر لوگوں کو گمراہ کرنا چھوڑ دیں۔ لیکن انہی پہ بات کر لیتے ہیں، مرزا قادیانی نے مسلمانوں کا ذبیحہ کھانا، ان کے پیچھے نماز پڑھنا ان سے لین دین رکھنا ہر ہر چیز سے منع کیا ہے تو اسی حدیث کی رو سے مرزائی مسلمان نہیں رہے، اور پھر اس پر سوال ہے آپ سے کہ فرمان
جس شخص نے وہ نماز ادا کی جو ہم ادا کرتے ہیں۔ اُس قبلہ کی طرف رُخ کیا جس کی طرف ہم رُخ کرتے ہیں اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے
اس فرمان کے مطابق عمل کرنے والا یہ سب کرنے کے ساتھ یہ کہے کہ میں اس خدا کو نہیں مانتا جس خدا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مانتے ہیں تو کیا ایسا شخص مسلمان ہوگا؟ وہ یہ سب کرنے کے ساتھ یہ کہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں مانتا، یاد رہے وہ نماز بھی مسلمانوں کی طرح اور قبلہ کی طرف رخ کر کے پڑھے اور مسلمانوں کا ذبیحہ بھی کھاتا ہے۔ لیکن خدا کو نہیں مانتا کیا وہ مسلمان ہوگا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا ، قرآن کو نہیں مانتا، جنت دوزخ قیامت فرشتوں کو نہیں مانتا کیا وہ مسلمان ہوگا؟
 

ضیاء رسول امینی

منتظم اعلیٰ
رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
آپ نے ایک بدترین جھوٹ بولا کہ احمدیوں کا ذکر تو و آخرین منہم لما یلحقوا بہم میں ایک جماعت کے طور پر سورۃ جمعہ میں موجود ہے۔لیکن آپ اپنا ذکر دیکھ لیں کہا ہے؟
اس آیت سے دھوکہ کب تک دیں گے جناب؟ اس میں کہاں احمدیوںیعنی قادیانیوں کا ذکر ہے؟ کچھ خدا کا خوف ہے؟ قرآن پاک پہ صریح جھوٹ؟
 

غلام مصطفی

رکن ختم نبوت فورم
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ہر گز اپنی جماعت کو مسلمانوں کا ذبیحہ کھانے یا لین دین کرنے سے منع نہیں کیا۔رہی بات پیچھے نماز پڑھنے اور شادی بیاہ کی تو شروع میں احمدی دوسرے مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھتے رہے ہیں اور دوسروں میں شادی بھی کرتے رہے ہیں۔تاہم جب غیر احمدیوں کی طرف سے کفر کے فتاوی لگے تو جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ من کفر مسلما فقد کفر (جس نے کسی مسلمان کو کافر کہا اس نے کفر کیا) تو اس کے تحت اور دوسری وجوہات جن کی وجہ سے فسادات اور لڑائی جھگڑے تک نوبت پہنچ رہی تھی آپ نے احمدیوں کے ایسے غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیا۔اور مندرجہ بالا حدیث کے ضمن میں ایک کافر کے پیچھے نماز پڑھنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔

رہی بات ایمانیات کی تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اسی خدا پر ایمان لاتے تھے جس پر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایمان لاتے تھے۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے تھے اور تمام ارکان ایمان اور ارکان اسلام پر ایمان رکھتے تھے۔
 

غلام مصطفی

رکن ختم نبوت فورم
وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ میں مسیح محمدی کی جماعت کا ذکر
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔
وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ ۔(الجمعۃ:4)

ترجمہ :۔اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے )جو ابھی ان سے نہیں ملے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’منجملہ ان دلائل کے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں جو آنے والا مسیح جس کا اِس اُمت کے لئے وعدہ دیا گیا ہے وہ اسی اُمت میں سے ایک شخص ہوگا بخاری اور مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ اور اَمَّکُمْ مِنْکُمْ لکھا ہے۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا اور تم ہی میں سے ہوگا۔ چونکہ یہ حدیث آنے والے عیسیٰ کی نسبت ہے اور اسی کی تعریف میں اِس حدیث میں حَکم اور عدل کا لفظ بطور صفت موجود ہے جو اس فقرہ سے پہلے ہے اس لئے امام کا لفظ بھی اسی کے حق میں ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اس جگہ مِنْکُمْ کے لفظ سے صحابہ کو خطاب کیا گیا ہے اور وہی مخاطب تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اُن میں سے تو کسی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اس لئے مِنْکُمْ کے لفظ سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو خدا تعالیٰ کے علم میں قائم مقام صحابہ ہے اور وہ وہی ہے جس کو اِس آیت مفصّلہ ذیل میں قائم مقام صحابہ کیا گیا ہے یعنی یہ کہ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کیونکہ اس آیت نے ظاہر کیا ہے کہ وہ رسول کریم کی رُوحانیت سے تربیت یافتہ ہے اور اسی معنے کے رُو سے صحابہ میں داخل ہے اور اِس آیت کی تشریح میں یہ حدیث ہے لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہُ رَجُلٌ مِنْ فَارِس اور چونکہ اس فارسی شخص کی طرف وہ صفت منسوب کی گئی ہے جو مسیح موعود اور مہدی سے مخصوص ہے یعنی زمین جو ایمان اور توحید سے خالی ہو کر ظلم سے بھر گئی ہے پھر اس کو عدل سے پُر کرنا۔ لہٰذا یہی شخص مہدی اور مسیح موعود ہے اور وہ میں ہوں اور جس طرح کسی دوسرے مدعی مہدویت کے وقت میں کسوف خسوف رمضان میں آسمان پر نہیں ہوا۔ ایسا ہی تیرہ سو برس کے عرصہ میں کسی نے خدا تعالیٰ کے الہام سے علم پاکر یہ دعویٰ نہیں ؔ کیا کہ اس پیشگوئی لنالہ رجل من فارس کا مصداق میں ہوں اور پیشگوئی اپنے الفاظ سے بتلا رہی ہے کہ یہ شخص آخری زمانہ میں ہوگا جبکہ لوگوں کے ایمانوں میں بہت ضعف آجائے گا اور فارسی الاصل ہوگا اور اس کے ذریعہ سے زمین پر دوبارہ ایمان قائم کیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ صلیبی زمانہ سے زیادہ تر ایمان کو صدمہ پہنچانے والا اور کوئی زمانہ نہیں۔ یہی زمانہ ہے جس میں کہہ سکتے ہیں کہ گویا ایمان زمین پر سے اُٹھ گیا جیسا کہ اِس وقت لوگوں کی عملی حالتیں اور انقلاب عظیم جو بدی کی طرف ہوا ہے اور قیامت کے علاماتِ صغریٰ جو مدت سے ظہور میں آچکی ہیں صاف بتلا رہی ہیں اور نیز آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ جیسے صحابہ کے زمانہ میں زمین پر شرک پھیلا ہوا تھا ایسا ہی اُس زمانہ میں بھی ہوگا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اس حدیث اور اس آیت کو باہم ملانے سے یقینی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ پیشگوئی مہدی آخر الزمان اور مسیح آخر الزمان کی نسبت ہے کیونکہ مہدی کی تعریف میں یہ لکھا ہے کہ وہ زمین کو عدل سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم اور جور سے بھری ہوئی تھی اور مسیح آخرالزمان کی نسبت لکھا ہے کہ وہ دوبارہ ایمان اور امن کو دنیا میں قائم کر دے گا اور شرک کو محو کر ے گا اورملل باطلہ کو ہلاک کر دے گا۔ پس اِن حدیثوں کا مآل بھی یہی ہے کہ مہدی اور مسیح کے زمانہ میں وہ ایمان جو زمین پر سے اُٹھ گیا اور ثُریا تک پہنچ گیا تھا پھر دوبارہ قائم کیا جائے گا اور ضرور ہے کہ اوّل زمین ظلم سے پُر ہو جائے اور ایمان اُٹھ جائے کیونکہ جبکہ لکھا ہے کہ تمام زمین ظلم سے بھر جائے گی تو ظاہر ہے کہ ظلم اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ناچار ایمان اپنے اصلی مقر کی طرف جو آسمان ہے چلا جائے گا۔ غرض تمام زمین کا ظلم سے بھرنا اور ایمان کا زمین پر سے اُٹھ جانا اس قسم کی مصیبتوں کا زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایک ہی زمانہ ہے جس کو مسیح کا زمانہ یا مہدی کا زمانہ کہتے ہیں اور احادیث نے اس زمانہ کو تین پیرایوں میں بیان کیا ہے رجل فارسی کا زمانہ۔ مہدی کا زمانہ۔ مسیح کا زمانہ۔ اور اکثر لوگوں نے قلت تدبر سے اِن تین ناموں کی وجہ سے تین علیحدہ علیحدہ شخص سمجھ لئے ہیں اور تین قومیں اُن کے لئے مقرر کی ہیں۔ ایک فارسیوں کی قوم۔ دوسری بنی اسرائیل کی قوم، تیسری بنی فاطمہ کی قوم۔ مگر یہ تمام غلطیاں ہیں۔ حقیقت میں یہ تینوں ایک ہی شخص ہے جو تھوڑے تھوڑے تعلق کی وجہ سے کسی قوم کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔مثلاً ایک حدیث سے جو کنز العمال میں موجود ہے سمجھا جاتا ہے کہ اہل فارس یعنی بنی فارس بنی اسحاق میں سے ہیں۔ پس اس طرح پر وہ آنے والا مسیح اسرائیلی ہوا اور بنی فاطمہ کے ساتھ امہاتی تعلق رکھنے کی وجہ سے جیسا کہ مجھے حاصل ہے فاطمی بھی ہوا پس گویا وہ نصف اسرائیلی ہوا اور نصف فاطمی ہوا جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے۔ ہاں میرے پاس فارسی ہونے کے لئے بجز الہام الٰہی کے اور کچھ ثبوت نہیں لیکن یہ الہام اس زمانہ کا ہے کہ جب اس دعویٰ کا نام و نشان بھی نہیں تھا یعنی آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے اور وہ یہ ہے خُذُوا التَّوْحِیْدَ التَّوْحِیْدَ یَا اَبْنَاءَ الْفَارِس یعنی توحید کو پکڑو توحید کو پکڑو اے فارس کے بیٹو! اور پھر دوسری جگہ یہ الہام ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ رَدَّ عَلَیْھِمْ رَجُلٌ مِنْ فَارِس شَکَرَ اللّٰہُ سَعْیَہ ۔ یعنی جو لوگ خدا کی راہ سے روکتے تھے ایک شخص فارسی اصل نے اُن کا ردّ لکھا۔ خدا نے اُس کی کوشش کا شکریہ کیا۔ ایسا ہی ایکؔ اور جگہ براہین احمدیہ میں یہ الہام ہے لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہُ رَجُلٌ مِنْ فَارِس یعنی اگر ایمان ثریا پر اٹھایا جاتا اور زمین سراسر بے ایمانی سے بھر جاتی تب بھی یہ آدمی جو فارسی الاصل ہے اس کو آسمان پر سے لے آتا۔ اور بنی فاطمہ ہونے میں یہ الہام ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الصِّھْرَ وَالنَّسَبَ۔ اُشْکُرْنِعْمَتِیْ رَئَیْتَ خَدِیْجَتِیْ ۔ یعنی تمام حمد اور تعریف اُس خدا کے لئے جس نے تمہیں فخرد امادی سادات اور فخر علو نسب جو دونوں مماثل و مشابہ ہیں عطا فرمایا یعنی تمہیں سادات کا داماد ہونے کی فضیلت عطا کی اور نیز بنی فاطمہ اُ ّ مہات میں سے پیدا کرکے تمہارے نسب کو عزت بخشی اور میری نعمت کا شکر کر کہ تونے میری خدیجہ کو پایا یعنی بنی اسحاق کی وجہ سے ایک تو آبائی عزت تھی اور دوسری بنی فاطمہ ہونے کی عزت اس کے ساتھ ملحق ہوئی اور سادات کی دامادی کی طرف اس عاجز کی بیوی کی طرف اشارہ ہے جو سیّدہ سندی سادات دہلی میں سے ہیں میردرد کے خاندان سے تعلق رکھنے والے۔ اسی فاطمی تعلق کی طرف اس کشف میں اشارہ ہے جو آج سے تیس برس پہلے براہین احمدیہ میں شائع کیا گیا جس میں دیکھا تھا کہ حضرات پنج تن سید الکونین حسنین فاطمۃ الزہراء اور علی رضی اللہ عنہ عین بیداری میں آئے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کمال محبت اور مادرانہ عطوفت کے رنگ میں اس خاکسار کا سر اپنی ران پر رکھ لیا اور عالم خاموشی میں ایک غمگین صورت بنا کر بیٹھے رہے۔ اُسی روز سے مجھ کو اس خونی آمیزش کے تعلق پر یقین کلّی ہوا۔ فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔ ‘‘

(تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 114تا118)
 
Top