• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

انی متوفیک و رافعک الی کی تفسیر از امین احسن اصلاحی

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
حضرت مسیحؑ کی حفاظت کے لیے تدبیر الٰہی: اب یہ بیان ہو رہا ہے اس بہترین مخفی تدبیر کا جو اللہ تعالیٰ نے سیدنا مسیح علیہ السلام کو یہود کی سازش سے بچانے کے لیے اختیار فرمائی اور جس سے ان کی سازش کے تمام تار پود بکھر کر رہ گئے۔
’توفٰی‘ کے لغوی اور مجازی مفہوم: ’تَوَفِّیْ‘ کے اصل معنی عربی لغت میں، ’الاخذ بالتمام‘ کسی شے کے پورا پورا لے لینے یا کسی چیز کو اپنی فطرت قبض کر لینے کے ہیں۔ موت دینے کے معنی میں اس لفظ کا استعمال حقیقتاً نہیں بلکہ مجازاً ہوا ہے۔ ایسے الفاظ جو اپنے حقیقی اور مجازی دونوں معنوں میں استعمال ہوتے ہیں، اپنے صحیح مفہوم کے تعین میں قرائن کے محتاج ہوتے ہیں۔
یہاں مندرجہ ذیل قرائن اس بات کے خلاف ہیں کہ اس کے معنی یہاں موت دینے کے لیے جائیں۔
قرائن جو اس بات کے خلاف ہیں کہ اس کے معنی موت دینے کے لیے جائیں: ایک یہ کہ یہ موقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدنا مسیحؑ ا ور ان کے ساتھیوں کے لیے بشارت اور وعدۂ نصرت کا ہے۔ جملہ رسولوں کی سرگزشتیں اس امر کی شاہد ہیں کہ جب ان کی قوموں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی حفاظت و نصرت کی بشارت دی ہے۔ یہاں بھی آیت پر نگاہ ڈالیے تو معلوم ہو گا کہ پوری آیت بشارت اور وعدۂ نصرت ہی کی ہے۔ اس سیاق و سباق میں آخر یہ کہنے کا کیا محل ہے کہ میں تمھیں موت دینے والا ہوں، یہ تو وہی چیز ہوتی ہے جس کے خواہاں یہود تھے۔ فرق صرف ذریعے کا ہوتا کہ موت یہود کے ہاتھوں نہیں بلکہ قدرت کے ہاتھوں واقع ہوتی۔
دوسرا یہ کہ اگر اس لفظ سے یہاں موت دینا مراد ہے تو اس کے بعد ’رَافِعُکَ اِلَیَّ‘ کے الفاظ بالکل غیر ضروری ہو کے رہ جاتے ہیں۔ آخر یہ کہنے کا کیا فائدہ کہ میں تمھیں موت دینے والا اور اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں؟ موقع دلیل ہے کہ یہاں ’مُتَوَفِّیْکَ‘ کے بعد ’رَافِعُکَ اِلَیَّ‘ کے الفاظ ’تَوَفِّیْ‘ کے مفہوم کو واضح کر رہے ہیں کہ تمھاری ’تَوَفِّیْ‘ کی شکل یہ ہو گی کہ میں تمھیں اپنی طرف اٹھا لوں گا۔
تیسرا یہ کہ ’رَافِعُکَ اِلَیَّ‘ کے معنی مجرد رفع درجات لینا صحیح نہیں ہے۔ اس صورت میں ’اِلَیَّ‘ کا لفظ بالکل بے ضرورت ہو کر رہ جاتا ہے اور قرآن میں کوئی لفظ بھی بے ضرورت استعمال نہیں ہوا ہے۔ اگر صرف درجے کی بلندی کا اظہار مقصود ہوتا تو عربیت کے لحاظ سے ’رَافِعُکَ‘ کافی تھا۔ ’اِلَیَّ‘ کی ضرورت نہیں تھی۔ قرآن میں دیکھ لیجیے جہاں بھی یہ لفظ بلندئ مرتبہ کے مضمون کے لیے استعمال ہوا ہے بغیر الیٰ کے استعمال ہوا ہے۔ مثلاً:


مِنْھُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجَاتٍ (۲۵۳۔ بقرہ)
(اور ان میں وہ بھی ہیں جن سے اللہ نے بات کی اور بعض کے مدارج بلند کیے۔)


وَلَوْشِئناا لَرَفَعْنٰہُ بِھَا وَلٰکِنَّہٗٓ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ (۱۷۶۔ اعراف)
(اور اگر ہم چاہتے تو ان آیات کے ذریعے سے ان کا رتبہ بلند کرتے لیکن وہ تو برابر زمین ہی کی طرف جھکا رہا۔)


وَّرَفَعْنٰہٗ مَکَانًا عَلِیًّا (۵۷۔ مریم)
(اور ہم نے اس کو فائز کیا اونچے درجے پر۔)


اگر حرف ’اِلٰی‘ کا صحیح صحیح حق ادا کیا جائے اور یہ حق ادا کرنا ضروری ہے تو ’رَافِعُکَ اِلَیَّ‘ کے معنی یہ ہوں گے کہ میں تم کو عزت و اکرام کے ساتھ اپنی جانب اٹھا لینے والا ہوں۔
چوتھا یہ کہ قرآن نے دوسرے مقام میں جہاں یہ مضمون بیان کیا ہے وہاں مُتَوَفِّیْکَ کا لفظ بالکل اڑا دیا ہے، قتل اور سولی کی نفی کے بعد جس چیز کا اثبات کیا ہے وہ صرف اٹھا لیے جانے کا ہے۔ ’بَلْ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ‘ (بلکہ اللہ نے اس کو اپنی جانب اٹھا لیا) یہ اس بات کا نہایت واضح قرینہ ہے کہ قرآن نے یہ ’تَوَفِّیْ‘ کی اصل شکل بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی جانب اٹھا لیا۔ آیت ملاحظہ ہو:


وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا (۱۵۷۔۱۵۸)
(اور نہ انھوں نے اس کو قتل کیا اور نہ اس کو سولی دی بلکہ معاملہ ان کے لیے گھپلا کر دیا گیا اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا وہ اس کی طرف سے شک میں ہیں، انھیں اس کے بارے میں کوئی علم نہیں، محض اٹکل کے تیر تکے چلا رہے ہیں اور انھوں نے اس کو قتل یقیناً نہیں کیا بلکہ اس کو اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔)

یہ آیت سب سے زیادہ موزوں مقام اپنے اندر رکھتی تھی اس بات کے بیان کے لیے حضرت عیسیٰ ؑ کی موت کس طرح ہوئی؟ اس لیے کہ یہاں قرآن نے بڑی تاکید اور شدت کے ساتھ ان لوگوں کی تردید کی ہے جو ان کے قتل یا ان کی سولی کے مدعی تھے۔ اگر آپؑ کی موت واقع ہوئی ہوتی تو اس موقع پر قرآن صاف صاف یوں کہتا کہ نہ ان کو قتل کیا گیا اور نہ ان کو سولی دی گئی بلکہ اللہ نے ان کو وفات دی۔ لیکن قرآن نے نہ صرف یہ کہ یہ کہا نہیں بلکہ یہاں ’تَوَفِّیْ‘ کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا۔ صرف ’رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ‘ کا لفظ استعمال کیا۔ ہر صاحب ذوق اندازہ کر سکتا ہے کہ قتل اور سولی کی نفی کے بعد اس رفع سے موت مراد لینے کی کس حد تک گنجائش ہے۔
’وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘ یعنی اس گندے معاشرے سے الگ کر کے تمھیں صالحین و ابرار کے زمرے میں داخل کروں گا۔ انبیاء علیہم السلام کے لیے سنت الٰہی یہ ہے کہ وہ جس قوم کی اصلاح کے لیے بھیجے جاتے ہیں اس کے اندر اس وقت تک وہ قیام کرتے ہیں جب تک ان کے ایمان لانے کی کچھ توقع ہوتی ہے۔ یہ توقع اس وقت ختم ہو جاتی ہے جب قوم کے لوگ نبی کے قتل کے درپے ہو جاتے ہیں۔ اس وقت نبی بحکم الٰہی ہجرت کر جاتا ہے۔ پھر جس طرح روح کی علیحدگی کے بعد جسم کے لیے سڑنے اور گلنے کے سوا کوئی اور شکل باقی نہیں رہ جاتی اسی طرح نبی کی علیحدگی کے بعد اس کے جھٹلانے والوں کے لیے ہزیمت اور ذلت کے سوا کوئی اور راہ باقی نہیں رہ جاتی۔ نبی اور اس کے ساتھی گندے ماحول سے نکل کر پاکیزہ اور صحت بخش ماحول میں داخل ہو جاتے ہیں جس سے ان کی روحانی قوت و صحت میں اضافہ ہوتا ہے۔ برعکس اس کے نبی کے دشمن زندگی بخش عناصر سے یک قلم محروم ہو کر پوری تیزی کے ساتھ ہلاکت کی وادی کی طرف چل پڑتے ہیں۔ استاذ امامؒ نے سورۂ کافرون کی تفسیر میں ہجرت کے ان اثرات و نتائج پر تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔ سیدنا مسیح ؑ کا رفع آسمانی ہجرت الی اللہ ہے: سیدنا مسیحؑ کا یہ رفع آسمانی بھی چونکہ ایک نوعیت کی ہجرت ہی ہے اس وجہ سے جس طرح تمام رسولوں کو ہجرت کے بعد فتح و کامیابی کی بشارت ملی اسی طرح آپؑ کو بھی اس ہجرت کے ساتھ کامیابی و فتح مندی کی، جیسا کہ آگے بیان ہے، بشارت ملی۔
حضرت مسیحؑ کے متبعین کا یہود پر غلبہ: وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ الآیہ۔ اس میں اس بات کی بشارت ہے کہ حضرت مسیحؑ کے نام لیوا ان کے منکرین پر ہمیشہ غالب رہیں گے۔ تاریخی طور پر یہ بات ایک امر واقعہ ہے کہ نصاریٰ من حیث القوم اس بشارت کے بعد سے یہود پر ہمیشہ حاوی و غالب رہے ہیں۔ آج بھی جب کہ بظاہر یہود کی ایک چھوٹے سے خطہ میں سلطنت قائم ہو چکی ہے، یہ حقیقت اپنی جگہ پر اسی طرح قائم و ثابت ہے جس طرح پہلے قائم و ثابت تھی۔ اس لیے کہ یہود کی یہ نام نہاد سلطنت قائم بھی نصاریٰ ہی کے ہاتھوں ہوئی ہے اور باقی بھی انھی کے بل بوتے پر ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ: البتہ ایک بات یہاں دل میں ضرور کھٹکتی ہے وہ یہ کہ یہ نصاریٰ خود متبع مسیحؑ کب ہیں؟ یہ تو بالکل مبتدع اور حضرت مسیحؑ کی تعلیم سے یک قلم منحرف ہیں؟ اس کا جواب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ سے یہاں مراد صرف ان کے صحیح قسم کے متبعین ہی نہیں ہیں بلکہ اس میں ان کے عام متبعین اور نام لیوا بھی شامل ہیں۔ ہماری اس رائے کے حق میں کئی باتیں جاتی ہیں۔ مثلاً:
ایک یہ کہ قرآن میں ’اَھْلُ الْکِتَاب‘ اور ’اَلَّذِیْنَ اُوْتَوا الْکِتَاب‘ کے الفاظ بھی دو مختلف مفہوموں میں استعمال ہوئے ہیں۔ بعض جگہ ان سے اہل کتاب کو بحیثیت گروہ کے مراد لیا گیا ہے، اس سے بحث نہیں کہ فی الواقع ان کے عقائد و اعمال کیا ہیں، اور بعض جگہ ان سے صرف حقیقی اہل کتاب مراد لیے گئے ہیں۔ اسی طرح ہمارے نزدیک ’الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ‘ اپنے اندر وسیع معنی رکھتا ہے۔ حضرت مسیحؑ کے تمام منتسبین اس میں شامل ہیں۔ عام اس سے کہ وہ ان کے حقیقی پیرو ہیں یا محض نام لیوا ہیں۔
دوسری یہ کہ یہاں ’الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ‘ کے مقابل الَّذِیْنَ کَفَرُوْا رکھا ہے جس سے قرینہ یہی نکلتا ہے کہ تقابل درحقیقت منکرین مسیح اور منتسبین مسیح کے درمیان ہے نہ کہ مخلصین و مبتدعین کے درمیان۔
تیسری یہ کہ یہ موقع بشارت کا ہے۔ بشارت کا تقاضا یہی ہے کہ اس میں وسعت ہو۔ اگر ’الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ‘ سے، صرف حقیقی متبعین ہی مراد ہوتے ہیں تو بشارت کا دائرہ بہت محدود ہو کر رہ جاتا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ذریت ابراہیمؑ کے لیے رزق کی جو بشارت دی تو اس کو صرف اہل ایمان ہی تک محدود نہیں رکھا بلکہ اہل ایمان اور غیر اہل ایمان سب کے لیے عام رکھا ہے۔ اسی طرح یہاں ’الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ‘ بھی خالص اور غیر خالص متبعین کے لیے عام ہے۔
رسول اپنی قوم کے لیے عدالت ہوتا ہے: اوپر ہم یہ اشارہ کر آئے ہیں کہ انبیا میں سے جو رسول کے درجے پر فائز ہوتے ہیں وہ اپنی قوم کے لیے عدالت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے ذریعے سے لازماً قوم کے درمیان حق و باطل کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ رسول اور اس کے ساتھیوں کو غلبہ حاصل ہوتا ہے اور اس کے مخالفین شکست کھاتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ یہ غلبہ رسول کی موجودگی میں حاصل ہویا اس کے رخصت ہو چکنے کے بعد۔ سیدنا مسیحؑ کے متعلق قرآن کی تصریح کی روشنی میں اوپر معلوم ہو چکا ہے کہ وہ صرف نبی ہی نہیں تھے بلکہ ’رَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْ اِسْرَاءِ یْلَ‘ بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ ان کے اس منصب کا یہ لازمی تقاضا تھا کہ ان کے متبعین کو ان کے مخالفین پر وہ غلبہ حاصل ہوتا جس کی اس آیت میں بشارت ہے۔ لَاَ غْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ والی آیت میں بھی اسی سنت اللہ کا بیان ہے۔ یہی وہ عدالت ہے جس کا ذکر انجیلوں میں بار بار آتا ہے۔ رسولوں کی اس امتیازی خصوصیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے دشمنوں کو یہ مہلت نہیں دیتا کہ وہ ان کو قتل کر دیں۔ چنانچہ رسولوں میں سے کسی کا قتل ہونا ثابت نہیں۔ یہ بات بھی نصاریٰ کے اس دعوے کے خلاف جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کو سولی پر چڑھایا گیا۔
 
Top