• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ایک تالا دو چابیاں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ایک تالا دو چابیاں

سمیع اللہ ملک، لندن
سلامتی کونسل نے یمن بحران پر قرارداد میں فوری طور پر جنگ بندی کا حکم دیا ہے جسے سعودی عرب کی ایک سفارتی کامیابی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی جانے والی متفقہ قرارداد پر پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کے ازالے کی کوششیں شروع کر دی ہیں اور معاملہ کو ٹھنڈا کرنے کیلیے قلیل تعداد میں پاک فوج کے دستوں کی سعودی عرب روانگی متوقع ہے۔ دراصل یمن کے تنازعے پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والی بحث پر سعودی عرب سمیت اتحاد میں شامل دیگر خلیجی ممالک بھی مطمئن تھے تاہم آخری لمحات میں اس متفقہ قرارداد میں شامل کیے جانے والے لفظ ''غیر جانبداری'' نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔
متفقہ قرارداد میں اگرچہ اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ مشکل کی گھڑی میں پاکستان سعودی حکومت اور عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا لیکن ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ پاکستان کو اس تنازعے میں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے بری، بحری اور فضائی مدد فراہم کرنے کی درخواست کی تھی تاہم ذرائع نے بتایا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائے جانے سے پہلے ہی سیاسی و عسکری قیادت نے سعودی عرب کو قائل کر لیا تھا کہ سعودی سالمیت کو یمن کے حوثی باغیوں سے فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں لہٰذا فوری فوج بھیجنے کی بھی ضرورت نہیں ہے تاہم آگے چل کر اگر ایسی کوئی صورتحال پیش آتی ہے تو سعودی عرب کی علاقائی سالمیت اور حرمین شریفین کے تحفظ کیلیے پاکستان فوج بھیجنے سمیت ہر قدم اٹھائے گا۔سعودی شاہی خاندان مطمئن ہو گیا تھا، یوں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے سارے معاملے کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ سنبھال لیا تھا۔ فوری فوج بھیجنے کا معاملہ ٹل گیا تھا اور فوج بھیجنے کی مخالف سیاسی پارٹیاں بھی خوش ہو گئی تھیں۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ابتدائی دنوں میں بھی بحث کا سارا محور ان نکات کے گرد گھومتا رہا کہ پاکستان کو پرائی جنگ میں نہیں کودنا چاہیے تاہم اگر سعودی عرب کی سالمیت یا حرمین شریفین کو خطرہ لاحق ہوا تو ساری قوم، سیاسی پارٹیاں، حکومت اور عسکری قیادت اس خطرے کے خلاف ایک صفحے پر ہوں گی۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب کو مطمئن اور قائل کرنے کے بعد ہی یمن تنازعہ پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاکہ خارجہ امور سے متعلق اس حساس ایشو پر تمام سیاسی پارٹیوں کا اتفاقِ رائے حاصل کر لیا جائے۔ اس میں عسکری قیادت کی مشاورت بھی شامل تھی۔ ارکان نے پانچ روز تک یمن کی صورتحال پر پاکستان کے متوقع کردار پر بحث کی تاہم پانچویں روز متفقہ قرارداد منظور ہونے سے پہلے اس میں ''غیر جانبدار'' رہنے کا لفظ شامل کروا دیا گیا۔
اگرچہ قرارداد میں لفظ غیرجانبدار شامل کروانے کا کریڈٹ عمران خان لے رہے ہیں تاہم اجلاس میں شریک بعض رہنماؤں نے بتایا کہ پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی نے بھی اس لفظ کو شامل کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا جس پر متحدہ امارات نے سخت ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک طرح سے ایران کی حمایت پر محمول کیا جبکہ سعودی عرب نے کھلے عام کوئی سخت بیان جاری کرنے سے گریز کیا لیکن اس حوالے سے اپنی ناپسندیدگی کا پیغام پہنچا دیا تھا جس کے فوری بعد معاملے کو سنبھالنے کیلیے دوطرفہ کوششوں کا آغاز کر دیا گیا۔ شہباز شریف کی معیت میں سرتاج عزیز اور خارجہ سیکرٹری اس حوالے سے اعلیٰ سعودی قیادت کو ایک مرتبہ پھر اپنی مثبت حمائت کا یقین دلا کر واپس پہنچ چکے ہیں۔
دراصل سعودی عرب اور اس کے حلیف دیگر خلیجی ممالک نہ صرف قرارداد میں غیر متوقع طور پر شامل کروائے جانے والے لفظ ''غیر جانبدار'' پر برہم ہیں بلکہ اس ایشو پر بحث کے دوران سعودی عرب کے حوالے سے جو زبان استعمال کی گئی، اس پر بھی خاصے ناراض ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح بین السطور ایرانی مؤقف کی تائید کی گئی۔یہ سب کچھ طے شدہ تھا، ایران کی جانب سے پاکستان میں کی جانے والی لابنگ، ایران سے وابستہ مفادات رکھنے والی بعض سیاسی پارٹیاں، جن میں ایک مخصوص فرقے کے بااثر لوگ اور سب سے بڑھ کر میڈیا کے ایک بڑے حصے نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ وہ سارے عوامل تھے جن کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈال کر ایسی قرارداد منظور کروانے کا راستہ ہموار کیا گیا، جو ہر مشکل گھڑی میں کام آنے والے سعودی عرب کیلیے ناراضگی کا سبب بن گئی، اس طرح پاکستان کو جو بہترین موقع ملا تھا، اسے ضائع کر دیا گیا۔
یمن تنازعے کے حوالے سے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سمیت سب پاکستان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پاکستان سفارتی، عسکری اور دیگر ممکنہ ذرائع سے اس تنازعہ میں مرکزی کردار ادا کر سکتا تھا، اس کے عوض سعودی عرب اور اتحادی ممالک نے پیشکش کی تھی کہ جو چاہے مانگ لو، یہ پاکستان کے پاس سنہری موقع تھا جبکہ ذرائع کے بقول سعودی عرب فوج بھیجنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ پاکستانی فوجی یمن جا کر حوثیوں کے خلاف کوئی آپریشن کرتے، یہ صرف ایک علامتی اشارہ ہوتا جس کا مقصد سعودی عرب مخالفین کو ڈرانا تھا کہ وہ تنہا نہیں۔ اگر اس کی سالمیت کو خطرہ ہوا تو پاکستان اس کا دفاع کرے گا بالکل اسی طرح جیسے کویت عراق تنازعے میں پاکستان نے ایک ڈویژن فوج تعینات کر دی تھی لیکن سعودی مخالف قوتوں اور لابی نے اس معاملے کو ایسے پیش کیا جیسے فوج بھیجنے کا سیدھا مطلب ایران سے دشمنی مول لینا اور ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کو بھڑکانا ہو گا جو کہ بالکل غلط تاثر تھا۔
ذرائع کے مطابق جو ٢٠ لاکھ کے قریب پاکستانی سعودی عرب،١٠ لاکھ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں ملازمت کر رہے ہیں، نہ صرف ان کا مستقبل خطرے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ ان ممالک سے جو زرِمبادلہ آتا ہے، وہ بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ پھر یہ کہ ان ممالک کی جانب سے پاکستان کی جو مدد کی جاتی ہے، اس کی تفصیلات سامنے لائی جائیں تو لوگ حیران رہ جائیں گے۔ صرف پچھلے ایک ماہ کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کو ٤٩٠ ملین ڈالر جبکہ متحدہ امارات نے ٤١١ ملین ڈالر دیے۔ اس کے برعکس اس عرصے میں یورپی یونین نے محض ٢٥ ملین ڈالر برطانیہ نے ١٦٤ ملین ڈالر فراہم کیے۔
یمن تنازعہ پر پاکستان کے علاوہ تین دیگر ممالک نے بھی قراردادیں پیش کی ہیں۔ ان میں ایران کی طرف سے آنے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ فوری جنگ بندی کر کے ڈائیلاگ شروع کیے جائیں جبکہ روس کی قرارداد بھی کم و بیش یہی ہے تاہم اردن نے عرب لیگ کی ایماء پر جو قرارداد پیش کی، اس میں کہا گیا ہے کہ پہلے حوثی باغی سرنڈر کریں، پھر ہادی حکومت بحال کی جائے اور اس کے بعد بات چیت کا عمل شروع کیا جائے۔ یہ قرارداد ایران اور روس کو پسند نہیں آئی کہ حوثی باغی ملک کے اہم مقامات پر قبضہ کر چکے ہیں، اگر ڈائیلاگ سے پہلے سرنڈر کر کے سیز فائر کرتے ہیں تو ان کے مقاصد کو نقصان پہنچتا ہے۔ ادھر پاکستان چوتھا ملک ہے جس نے یمن تنازعہ پر یہ قرارداد پیش کی ہے اور اس میں غیر جانبدار رہنے کا لفظ ڈال کر اپنا مؤقف روس اور ایران کی قراردادوں کے قریب تر کر دیا ہے جس سے معاملہ بگڑ گیا۔ اب اگرچہ اس نقصان کو کنٹرول کرنے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں لیکن یہ دودھ میں ڈالی مینگنیاں نکالنے کے مترادف ہے۔ ذرائع کے بقول فوج کے ٨ سے ٩ یونٹس تیار کیے جا رہے ہیں جو چند روز میں سعودی عرب بھیجے جا سکتے ہیں۔
بالکل اسی طرح کی صورتِ حال کویت عراق جنگ کے موقع پر بھی پیش آئی تھی جب پاکستان نے اپنی ایک ڈویژن فوج کویت عراق سرحد پر تعینات کر دی تھی لیکن اس وقت کے آرمی چیف نے صدام حسین کے حق میں بیان دیکر کویت اور اس کے اتحادی ملک سعودی عرب کو ناراض کر دیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی پاکستان کو کچھ نہیں ملا اور دوسری جانب مصر نے عملی طور پر کچھ نہیں کیا تھا، صرف نعرے لگائے لیکن سعودی عرب اور امریکا سے اپنے ٧/ ارب ڈالر کے قرضے معاف کروانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
اب نقصان کے ازالے کیلیے جو کوششیں شروع ہوئیں ہیں، اس کے بعد ہی سعودی وزیرِ خارجہ کی جانب سے یہ بیان آیا ہے کہ پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد پاکستان کا داخلی معاملہ ہے لیکن یمن کے معاملے میں ثالثی تو ایک مذاق ہے۔ صلح متحارب گروپوں کے درمیان کروائی جاتی ہے، قانونی حکومت اور باغیوں میں نہیں۔ حزب اللہ نے حوثیوں کو تربیت اور ایران نے اسلحہ دیا۔ یمن میں ایک طرف باغی ہیں اور دوسری طرف قانونی حکومت ہے جو مظلوم ہے اور ہم مظلوم کا ساتھ دیں گے اور ظالم کا ہاتھ روکیں گے۔ پاکستانی قوم، فوج اور مذہبی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ ہمیں سعودی عرب کا ساتھ دیناچاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کا ایسا گہرا تعلق ہے کہ دونوں یک جان دو قالب ہیں۔سعودی عرب امن و جنگ، خوشی و غم، ہر قسم کے حالات میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور آئندہ بھی ہر حال میں پاکستان کا ساتھ دیتا رہے گا۔ ہم پاکستان کے ساتھ مشورہ کرنے کے عادی ہیں اگر عالمِ اسلام کوئی تالا ہے تو سعودیہ اور پاکستان اس کی دو چابیاں ہیں۔ یاد رہے کہ سعودی وزیر مذہبی امور صالح الشیخ بن عبدالعزیز اپنے قلمدان سے ہٹ کر سعودی شاہ کے نمائندہ خصوصی کے طور پر بھی پہچانے جاتے ہیں۔
ادھر دوسری طرف یمن سعودی اور اتحادی فوجیوں کی کاروائیوں کے نتیجے میں حوثی باغی پسپا ہونے لگے تھے اور باغیوں نے یمن کے دوسرے بڑے اور ساحلی شہر عدن کو خالی کرنا شروع کر دیا تھا جس کے جواب میں منگل ٢١/اپریل کی شب سعودی فوجی ترجمان اور وزارتِ دفاع کی جانب سے یمن میں فوجی آپریشن روکنے کا اعلان سامنے آ گیا۔ سعودی قیادت میں اتحادی فورسز نے یمن میں فضائی کاروائی کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے ہیں۔ اس آپریشن کے نتیجے میں حوثی باغیوں کے ہتھیاروں اور میزائلوں کو تباہ کر کے ان کی جنگی قوت کو ختم کر دیا گیا ہے اور اب سعودی عرب اور دیگر پڑوسی ممالک کیلیے پہلے جیسے خطرات باقی نہیں رہے۔ بیان کے مطابق اب اتحادی افواج یمن کی بحالی اور آبادکاری پر توجہ دیں گی جبکہ سعودی عرب کی داخلی سلامتی کے حوالے سے انسدادِ دہشتگردی پر توجہ مرکوز کی جائے گی لیکن چند گھنٹوں کے بعد حوثی دوبارہ واپس آنا شروع ہو گئے اور القاعدہ نے بھی دوبارہ ان علاقوں پر اپنے قبضے کیلیے کاروائیوں کا آغاز کر دیا جس کی بناء پر سیز فائر کو ختم کرنا پڑا۔
دوسری جانب حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی سربراہی میں جاری آپریشن ''فیصلہ کن طوفان'' کے دوسرے مرحلے میں آپریشن سے متاثرہ یمنی عوام کیلیے بڑے پیمانے پر امداد کے حوالے سے سرگرمیاں بھی شروع کر دی گئی ہیں جبکہ یمن میں جنگ کی وجہ سے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات مزید کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ایرانی پاسداران انقلاب کے ڈپٹی چیف جنرل حسین سلامی نے سعودی شہروں پر حملوں کی ترغیب دی ہے۔ ایران کی بری فوج کے سربراہ جنرل احمد رضا نے سعودی عرب کو دھمکی دی ہے کہ اگر ہمارے یمنی بھائیوں (حوثیوں، باغیوں) پر حملے بند نہیں کیے تو سعودی عرب پر فوجی حملہ کر دیا جائے گا۔ یمن نے ایران کی ثالثی میں امن مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔ یمنی وزیرِ خارجہ ریاض یاسین کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات کیلیے ایران کی کسی بھی قسم کی کوشش قابلِ قبول نہیں کیونکہ تہران خود یمن تنازعہ میں ملوث ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حوثی باغیوں اور سابق صدر عبداللہ صالح کے حامی باغی فوجیوں کو صنعا اور عدن سمیت تمام شہروں سے دستبردار ہونا ہو گا، ہتھیار پھینکنے کے بعد ''صورا'' جا کر عام شہریوں کی طرح رہنا ہو گا۔
دراصل امریکی منصوبے ''عرب بہار'' کے مطابق لیبیا، تیونس اور دیگر ملکوں کی تباہی کے بعد اب سعودی عرب کی باری ہے اور یمن کی مشترکہ سرحدی علاقے جہاں تیل کے بڑے ذخائر موجود ہیں، وہاں پر ایک ایسی شیعہ ریاست کے قیام کا منصوبہ ہے جو مستقلاً اس علاقے میں شورش کا سبب بنی رہے اور قیامِ امن کے نام پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کو مداخلت کا جواز حاصل ہو جائے اور جس طرح عراق جنگ میں ایران نے مقتدیٰ الصدر کی پشت پناہی کر کے عملاً عراق کی تقسیم میں امریکا اور اس کے اتحادیوں سے اپنا حصہ وصول کیا ہے، ایسا ہی درپردہ تعاون کر کے وہ مستقبل میں ایک وسیع تر شیعہ ریاست کے قیام کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ اس صدی کا مسلم امہ کا یہ سب سے بڑا المیہ ہو گا اگر صہیونی اور امریکی سازش اس خطے میں فرقہ واریت جنگ کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یقیناً ان حالات میں پاکستان کو انتہائی دانشمندی کے ساتھ ان معاملات میں پھونک پھونک کر سفارتی اور عسکری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ چین کے اشتراک کے ساتھ اگلے چند سالوں میں اس خطے کی تقدیر بدلنے کی جو منصوبہ بندی کی گئی ہے اس کو سبوتاژ کرنے کیلیے کئی طاقتیں ادھار کھائے بیٹھی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خوفزدہ ہو کرمصالحتی پالیسی اختیار کر لیں بلکہ ہمیں یہاں اللہ نے ایک بہترین اور سنہری موقع بھی عطا کیا ہے کہ ہم سارے حجاز کے امن کی ذمہ داری سے قطعاً غافل نہ ہوں۔
ادھر شہباز شریف کی معیت میں جانے والا اعلیٰ سطحی وفد ممکنہ طور پر سعودی حکومت کو مطمئن میں کرنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکا جس کے فوری بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ نواز شریف خود شاہ سلمان سے موجودہ بگڑتی صورتحال کو سنبھالنے کیلیے مثبت پیش رفت کا عملی یقین دلائیں۔ یہی وجہ ہے کہ چینی صدر کے اہم دورے کے فوری بعد وزیرِ اعظم نے اپنی کابینہ کے اہم ارکان کے ساتھ تینوں افواج کے سربراہوں کے ساتھ طویل صلاح و مشورے کیے اور بالآخر ٢٣ / اپریل کو آرمی چیف کے ساتھ اہم دورے پر سعودی عرب پہنچے جہاں ان کا ایک مرتبہ پھر پرجوش استقبال کر کے سعودی عرب نے پاکستان کو اپنے بانہوں میں سمو کر محبت اور یگانگت کا پیغام دیا ہے!

11164831_1111981838831483_1368028130035233625_n.jpg
 
آخری تدوین :
Top