تردید صداقت مرزاقادیانی ( لو تقول تحریف نمبر: ۱ کاجواب )
لو تقول
تحریف نمبر: ۱… ’’لوتقول علینا بعض الا قاویل لا خذنا منہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین (الحاقہ:۴۴،۴۶)‘‘ اور اگر وہ (محمد علیہ السلام ) ہم پر بعض افتراء باندھتے تو ہم ان کو داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی شہ رگ کاٹ ڈالتے۔
مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ: ’’اگر اس مدت تک اس مسیح کا ہلاکت سے امن میں رہنا اس کے صادق ہونے پر دلیل نہیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باﷲ آنحضرت علیہ السلام کا ۲۳برس تک موت سے بچنا آپ کے سچا ہونے پر بھی دلیل نہیں… یہ قرآنی استدلال بدیہی الظہور جب ہی ٹھہر سکتا ہے۔ جبکہ یہ قاعدہ کلی مانا جائے کہ خدا مفتری کو… کبھی مہلت نہیں دیتا… آج تک علماء امت سے کسی نے یہ اعتقاد ظاہر نہیں کیا کہ کوئی مفتری علیٰ اﷲ تیئس برس تک زندہ رہ سکتا ہے… میرے دعوے کی مدت تیئس برس ہو چکی ہے۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ موسومہ اشتہار پانچ سو روپیہ ص۴، خزائن ج۱۷ ص۴۲،۴۳)
اسی کتاب کے (ص۲) پر لکھا ہے کہ: ’’شرح عقائد نسفی میں بھی عقیدے کے رنگ میں اس دلیل کو لکھا ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۲، خزائن ج۱۷ ص۳۹)
اور توریت میں بھی یہی درج ہے کہ جھوٹا نبی قتل کیا جاتا ہے۔
جواب نمبر:۱… یہ آیت رسول اﷲ علیہ السلام کی شان میں اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے نازل ہوئی، کہ اگر وہ اﷲ سبحانہ کی طرف بعض باتوں کی جھوٹی نسبت کر دیتے تو ان کو فوراً ہلاک کر دیا جاتا، اور ایک زمانہ دراز تک کبھی مہلت نہ دی جاتی، اور سورۂ بنی اسرائیل میں اسی فیصلہ کو وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے۔ کہ: ’’وان کادوالیفتنونک عن الذی اوحینا الیک لتفتری علینا غیرہ واذ الا تخذوک خلیلا۰ ولولا ان ثبتناک لقد کدت ترکن الیہم شیئاً قلیلاً۰ اذاً لاذقنک ضعف الحیوۃ وضعف المماۃ ثم لا تجد علینا نصیراً (بنی اسرائیل:۷۳،۷۴،۷۵)‘‘ یعنی قریب تھا کہ کفار تجھے وحی الٰہی سے ہٹا کر افتراء پردازی پر مائل کر دیں۔ اس صورت میں وہ تجھے اپنا دوست بنا لیتے۔ اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو آپ کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ہو جاتے ۔ مگر اس وقت ہم آپ کو دنیا اور آخرت میں دوگنا عذاب دیتے۔ جس پر تجھے کوئی مدد گار نہ ملتا۔‘‘
معلوم ہوا یہ ایک خاص واقعہ ہے۔ اس میں کوئی لفظ کلیت یا عموم پر دلالت کرنے والا موجود نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے اس کو عام ضابطہ یا قاعدہ کلیہ قرار دیا جائے۔ شرح عقائد نسفی میں علامہ تفتازانی رحمۃُ اللہ علیہ کا بھی یہی مطلب ہے۔ کیونکہ وہ جامع کمالات فاضلہ اور اخلاق عظمیہ سے رسول اﷲ علیہ السلام کی نبوت پر استدلال کر رہے ہیں۔ ہر مدعی ٔ نبوت کی نبوت کو اس سے ثابت نہیں کرتے۔ جیساکہ اس عبارت سے ظاہر ہے۔ ’’قد یستدل ارباب البصائر علیٰ نبوۃ بوجہین احد ہما بالتواتر من احوالہ قبل النبوۃ وحال الدعوۃ وبعد تما مہا واخلاقہ العظمۃ واحکامہ الحکمیۃ واقدامہ حیث تحجم الابطال ووثوقہ بعصمۃ اﷲ تعالیٰ فی جمیع الاحوال وثباتہ علیٰ حالہ لدی الاہو بحیث لم تجد اعداؤہ مع شدۃ عداوتہم وحرصہم علے الطعن فیہ مطعنا ولا الی القدح فیہ سبیلا فان العقل یجزم بامتناع اجتماع ہذا الامور فی غیر الانبیاء وان یجمع اﷲتعالیٰ ہذہ الکمالات فی حق من یعلم انہ یفتری علیہ ثم یمہلہ ثلثا وعشرین سنۃ (شرح عقائد نسفی مجتبائی ص۱۳۶،۱۳۷، مبحث النبوات)‘‘
اس میں جملہ ضمیریں رسول اﷲ علیہ السلام کی طرف راجع کی گئیں ہیں اور انبیائo میںسے وہی جامع کمالات اور اخلاق عظیمہ کے ساتھ متصف ہیں۔ جیسا کہ: ’’بعثت لاتمم حسن الاخلاق (الحدیث مؤطا ص۷۰۵ باب فی حسن الخلق)‘‘ وآیت ’’انک لعلیٰ خلق عظیم (القلم:۴)‘‘ سے ظاہر ہے۔ اس لئے شرح عقائد کی عبارت کو معیار نبوت میں کلیتاً پیش کرنا ہر گز صحیح نہیں اور اگر آیت کی دلالت بالفرض کلیت پر تسلیم کر لی جائے تو رسول اﷲ علیہ السلام کے حالات کو سامنے رکھ کر کلیت اخذ کرنی پڑے گی۔ جیسا کہ خود مرزاقادیانی نے ۲۳سالہ مہلت اور نبی کاذب کی قید آنحضرت علیہ السلام کے حالات ہی سے اربعین وغیرہ میں لگائی ہے۔ ورنہ آیت میںوحی نبوت اور۲۳سال مدت کی کوئی قید مذکور نہیں ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’خداتعالیٰ کی تمام پاک کتابیں اس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹا نبی ہلاک کیا جاتا ہے۔ اب اس کے مقابل میں یہ پیش کرنا کہ ’’اکبر بادشاہ‘‘ نے نبوت کا دعویٰ کیا یا ’’روشن دین جالندھری‘‘ نے دعویٰ کیا۔ اور وہ ہلاک نہیں ہوئے۔ یہ ایک دوسری حماقت ہے۔ جو ظاہر کی جاتی ہے … پہلے ان لوگوں کی خاص تحریر سے ان کا دعویٰ ثابت کرنا چاہئے… کہ میں خدا کا رسول ہوں… کیونکہ ہماری تمام بحث وحی نبوت میں ہے۔‘‘ (ضمیمہ اربعین نمبر۴ ص۱۱، خزائن ج۱۷ ص۴۷۷)
۲… ’’ہر گز ممکن نہیں کہ کوئی شخص جھوٹا ہو کر اور خدا پر افتراء کر کے…تیئس برس تک مہلت پا سکے۔ ضرور ہلاک ہوگا۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۴۳۴)
۳… ’’یہی قانون خدا تعالیٰ کی قدیم سنت میں داخل ہے کہ وہ نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے کو مہلت نہیں دیتا۔‘‘ (تحفہ قیصریہ ص۶، خزائن ج۱۲ ص۲۵۸)
جس طرح نبوت اور تیئس سالہ مدت کی قید رسول اﷲ علیہ السلام کے حالات سے لگائی گئی ہے۔ اسی طرح سچے اور صادق ہونے کی قید کا اضافہ کرنا بھی ضروری ہوگا، اور اس وقت آیت کا مفادیہ ہوگا کہ جو سچا نبی کسی غیر نازل شدہ حکم کی جھوٹی نسبت اﷲ سبحانہ کی طرف کرے گا وہ ہلاک کیا جائے گا، اور آیت میں بعض الاقاویل کی قید کا فائدہ بھی اسی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ جب کہ نبی سے سچا نبی مراد لیا جائے ورنہ جھوٹے مدعی نبوت کی ہر وہ بات جس کو وحی الٰہی کہتا ہے۔ جھوٹی ہے اور یہی مطلب توریت کی آیت کا ہے۔
معاملات دنیوی میں بھی اس بہروپیہ سے جو حاکم کے بہروپ میں کوئی حکم نافذ کرے مواخذہ نہیں ہوتا۔ مگر ایک سرکاری عہدہ دار حکومت سے حکم واحکام حاصل کرنے کے بغیر اگر کوئی حکم نافذ کرے گا تو حکومت اس سے باز پرس کرے گی۔شرح عقائد میں ۲۳سال مہلت اگر معیاربن سکتی ہے تو فی الجملہ اسی طرح بن سکتی ہے کہ اس کے ساتھ دیانت اور اتقاء راست گفتاری، استقامۃ توکل علیٰ اﷲ وغیرہ کو مدعی نبوت میں ثابت کیا جائے۔ جیسا کہ شرح عقائد میں کہا گیا ہے اور یہ شرط مرزاقادیانی میں کلیتاً مفقود ہے۔ شرح عقائد کی ایک بات کو ماننا اور جو اپنے خلاف ہو۔ اس کا نام نہ لینا کہاں کا انصاف ہے اور جو مدعیان کاذب ہیں۔ ان کی سزا دنیا میں کوئی نہیں بیان کی گئی۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ: ’’ومن اظلم ممن افتریٰ علیٰ اﷲ کذباً اوقال اوحی الیّ ولم یوح الیہ شئی ومن قال سانزل مثل ماانزل اﷲ ولوتری اذا لظالمون فی غمرات الموت والملائکۃ باسطوایدیہم اخرجوا انفسکم الیوم تجزون عذاب الہون بماکنتم تقولون علی اﷲ غیر الحق (انعام :۹۳)‘‘
اس میں مقررہ وقت پر موت آنے کے علاوہ نبوت کے جھوٹے دعویدار کی کوئی سزا دنیوی بیان نہیں کی۔ بلکہ سورۂ اعراف میں ہے کہ ایسے مفتری کی عمر مقررہ مدت تک پوری کر دی جائے گی۔ ’’فمن اظلم ممن افتریٰ علیٰ اﷲ کذباً اوکذب بایتہ اولئک ینا لہم نصیبہم من الکتاب (اعراف:۳۷)‘‘ جلالین میں’’من الکتاب‘‘ کی یہ تفسیر کی ہے کہ: ’’مما کتب لہم فی اللوح المحفوظ من الرزق والاجل وغیر ذالک (جلالین ص۱۳۲)‘‘
جواب نمبر:۲… لہٰذا یہ کہنا کہ نبوت کے جھوٹے مدعی کو ہلاک کرنا خدا کی سنت ہے۔ بالکل غلط اور سرتاپا جھوٹ ہے اور اگر مان لیں کہ جھوٹے مدعی نبوت کو ۲۳برس تک مہلت نہیں ملتی تو پھر بھی مرزاقادیانی کاذب کے کاذب ہی رہتے ہیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی نے نبوت کا دعویٰ ۱۹۰۲ء میں کیا تھا۔ جیسا کہ مرزامحمود جانشین مرزا نے (القول الفصل ص۲۴) پر لکھا ہے کہ: ’’تریاق القلوب کی اشاعت تک جو اگست۱۸۹۹ء سے شروع ہوئی اور۲۵؍اکتوبر۱۹۰۲ء میں ختم ہوئی۔ آپ (مرزاقادیانی) کا یہی عقیدہ تھا کہ… آپ کو جو نبی کہا جاتا ہے یہ ایک قسم کی جزوی نبوت ہے۔ ۱۹۰۲ء کے بعد میں آپ کو خدا کی طرف سے معلوم ہوا کہ آپ نبی ہیں اور ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل قریبا ساڑھے دس بجے مرزاقادیانی مرض ہیضہ سے لاہور میں ہلاک ہوئے۔ اس دعویٰ نبوت کی کل مدت چھ برس ہوئی۔ مگر اربعین نمبر۴ ص۶ کی رو سے سچے نبی کی مدت تئیس برس ہونی چاہئے! جو مرزاقادیانی میں نہیں پائی جاتی۔ اس لئے آپ جھوٹے کے جھوٹے ہی رہے۔ جب کہ یہ آیت مرزاقادیانی کے خیال میں نبوت کا معیار ہے تو لاہوری پارٹی کا اس آیت سے مرزاقادیانی کی صداقت پر استدلال کرنا ان کے دعویٔ نبوت کو تسلیم کرنا ہے۔ جس کو وہ اپنے خیال میں افتراء سمجھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ’’محمد علی‘‘ امیر جماعت لاہور لکھتا ہے کہ:’’جو شخص اس امت میں سے دعویٔ نبوت کرے۔ کذاب ہے۔‘‘ (النبوۃ الاسلام ص۸۹،باب سوم ختم نبوت)
بلکہ جس کا دعویٔ نبوت نہ ہو اس کی صداقت پر اس آیت کو پیش کرنے والا بقول مرزاقادیانی بے ایمان ہے۔ ’’ بے ایمانوں کی طرح قرآن شریف پر حملہ کرنا ہے اور آیت لوتقول کو ہنسی ٹھٹھے میں اڑانا۔‘‘ (ضمیمہ اربعین ص۱۲، خزائن ج۱۷ ص۴۷۷)
س… اور یہ کہنا کہ مفتری کے لئے قتل ہونا ضروری ہے اور مرزاقادیانی قتل نہیں ہوا۔ اس لئے وہی سچا تھا۔ کئی وجہ سے غلط ہے۔
۱… قرآن شریف میں قتل کی کوئی قید نہیں۔
۲… خود مرزاقادیانی نے مفتری کی سزا موت بتائی ہے۔ قتل نہیں کہا۔‘‘
’’اگر وہ ہم پر افتراء کرتا تو اس کی سزا موت تھی۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۳، خزائن ج۱۷ ص۳۸)
’’اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باﷲ آنحضرت علیہ السلام کا تیئس برس تک موت سے بچنا آپ کے سچا ہونے پر بھی دلیل نہیں۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۴، خزائن ج۱۷ ص۴۲)
۳… مرزاقادیانی نے (ضمیمہ اربعین میں استثناء باب۱۸ آیت ۸تا۲۰) سے استدلال کیا ہے کہ جھوٹا نبی میت (یعنی مر جائے گا) اور اس بات کے ثبوت میں کہ میت کے معنے عبرانی زبان میں مرنے کے ہیں۔ مرزاقادیانی نے یہ عبارت لکھی ہے کہ: ’’جب میں صبح کو اٹھی کہ بچے کو دودھ دوں تو وہیں میت دیکھو وہ مرا پڑا تھا۔‘‘ (ضمیمہ اربعین ص۹، خزائن ج۱۷ ص۴۷۵)
آگے لکھتے ہیں کہ: ’’میت جس کا ترجمہ پادریوں نے قتل کیا ہے بالکل غلط ہے۔ عبرانی لفظ میت کے معنے ہیں۔ مر گیا یا مرا ہوا ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ مدعی کاذب کا قتل ہونا ضروری نہیں بلکہ مرزاقادیانی کے خیال میں تئیس برس سے پہلے مر جانا بھی اس کے کذب کی دلیل ہے۔ اس لئے مرزاقادیانی بموجب اپنے فیصلہ کے کاذب ٹھہرا۔‘‘
۴… ’’قتل ہونا کاذب ہونے کی نشانی نہیں ہے۔ قرآن شریف میں یہودیوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا گیاہے۔ ’’قتلہم الانبیاء بغیر حق (النسائ:۱۵۵)‘‘ اگر جھوٹے مدعی کو قتل کیا جاتاتو ان کی کبھی مذمت نہ کی جاتی اور نہ ایسے قتل کو قتل ناحق کہنا صحیح ہوتا۔ چنانچہ خود مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’اے بنی اسرائیل کیا تمہاری یہ عادت ہوگئی کہ ہر ایک رسول جو تمہارے پاس آیا تو تم نے بعض کی ان میںسے تکذیب کی اور بعض کو قتل کر ڈالا۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۴، خزائن ج۵ ص۳۴)
جواب نمبر:۳… ایسی نشانی جس کا ظہور آغاز نبوت سے ۲۳برس بعد ہو صدق وکذب کا معیار نہیں بن سکتی۔ ورنہ تیئس سال تک نبوت کا ثبوت ہی موقوف رہے گا اور ایک نبی اس سے پہلے کبھی نبی نہیں بن سکے گا اور نہ اس عرصہ میں مرنے والے کافر یا مسلمان کہلانے کے مستحق ہوں گے۔ اس سے مرزاقادیانی کی یہ شرط بالکل غلط ہے کہ: ’’وہاں اس بات کا واقعی طور پر ثبوت ضروری ہے کہ اس شخص نے …تیئس برس کی مدت حاصل کرلی۔‘‘
(اربعین نمبر۳ ص۲۲، خزائن ج۱۷ ص۴۰۹)
جواب نمبر:۴… اور اگر یہ سزا مطلق الہام کے جھوٹے مدعی کے لئے ہے اور دعوے نبوت اس میں کوئی شرط نہیں تو چاہئے تھا کہ دنیا میں جھوٹے مدعیان الہام کو ۲۳سال کی مہلت کبھی نہ ملتی۔ باوجود یہ کہ دنیا کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ پہلے مدعیان الہام کو مرزاقادیانی سے زیادہ کامیابی نصیب ہوئی اور ان کو مہلت کا زمانہ مرزاقادیانی کے زمانۂ مہلت سے زیادہ ملا۔ چنانچہ :
۱… حسن بن صباح نے ۴۸۳ھ میں الہام کا دعویٰ کیا ۵۱۸ھ میں دعوے کے ۲۵سال بعد مرا اور ایک کثیر جماعت متبعین کی چھوڑی۔
۲… مسیلمۂ کذاب نے رسول اﷲ علیہ السلام کی زندگی میں نبوت کا دعویٰ کیا اور تھوڑے عرصہ میں بہت سے لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے۔
جب حضرت ابوبکرصدیقb نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اس کو قتل کرنے کے لئے خالد بن ولیدb کی سرکردگی میں مسلمانوں کا لشکر بھیجا۔ تو مسیلمۂ کذاب ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک لاکھ کی جمعیّت لے کر میدان میں نکلا اور شکست کھا کر مارا گیا۔
۳… عبدالمومن افریقی نے ۲۷۷ھ میں مہدیت کا دعویٰ کیا اور ۲۳برس بعد ۳۰۰ھ میں مرا۔
۴… عبداﷲ بن تومرت مہدی بن کر ۲۵برس تک تبلیغ کرتا رہا اور جب کافی جمعیت اکٹھی کر لی تو سلطنت حاصل کر کے ۲۰سال حکومت کی اور مرگیا۔
۵… سید محمد جونپوری نے سکندر لودھی کے زمانہ ۹۰۱ھ میں مکہ معظمہ پہنچ کر بیت اﷲ میں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور ۹۰۱ھ تک اپنے وطن میں واپس آکر مذہب کی تبلیغ کرنی شروع کی۔ جس سے راجپوتانہ گجرات کا ٹھیا واڑ سندھ میں بہت سے لوگوں نے اس کی بیعت اختیار کرلی۔ اس قسم کی اور بہت سی مثالیں تاریخی کتابوں میں موجود ہیں اور مطلق مفتری علی اﷲ کی بھی یہ سزا نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہود ونصارٰی جو آئے دن توریت وانجیل میں تحریفیں کر کے محرف حصہ کواﷲ کی آیتیں کہتے رہے ہیں۔ آج تک ہلاک نہیں ہوئے اور نہ قرآن عزیز میں ان کی کوئی دنیاوی سزا بیان فرمائی گئی ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ: ’’ویقولون ہومن عند اﷲ وما ہو من عنداﷲ ویقولون علی اﷲ الکذب وہم یعلمون‘‘ (آل عمران:۷۸) عام کافروں کی نسبت ارشاد ہے۔ ’’یفترون علی اﷲ الکذب (مائدہ:۱۰۳) مگر پھر بھی ان کو کوئی دنیاوی سزا نہیں ملتی بلکہ ایسے لوگوں کو مہلت دی جاتی ہے۔ سچ ہے کذابوں، دجالوں کی رسی دراز ہے مولانا فرماتے ہیں کہ:
تو مشو مغرور برحلم خدا
دیرگیرد سخت گیرد مرترا
جواب نمبر:۵… پھر مرزاقادیانی نے ۲۳برس کی مدت ابتداء ’’تجویز نہیں کی بلکہ جتنا زمانہ ان کے دعوے کو گذرتا گیا اتنی ہی مدت بڑھاتے رہے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ مفتری علیٰ اﷲ کو فوراً اور دست بدست سزا دی جاتی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ: ’’قرآن شریف کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا مفتری اس دنیا میں دست بدست سزا پا لیتا ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۴۹، خزائن ج۱۱ ص۴۹)دیرگیرد سخت گیرد مرترا
جواب نمبر:۵… پھر مرزاقادیانی نے ۲۳برس کی مدت ابتداء ’’تجویز نہیں کی بلکہ جتنا زمانہ ان کے دعوے کو گذرتا گیا اتنی ہی مدت بڑھاتے رہے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ مفتری علیٰ اﷲ کو فوراً اور دست بدست سزا دی جاتی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ: ’’قرآن شریف کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا مفتری اس دنیا میں دست بدست سزا پا لیتا ہے۔‘‘
’’وہ پاک ذات جس کے غضب کی آگ وہ صاعقہ ہے کہ ہمیشہ جھوٹے ملہموں کو بہت جلد کھاتی رہی ہے… بے شک مفتری خدا کی لعنت کے نیچے ہے… اور جلد مارا جاتا ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۵۰، خزائن ج۱۱ ص۵۰)
’’تورات اور قرآن شریف دونوں گواہی دے رہے ہیں کہ خدا پر افتراء کرنے والا جلد تباہ ہوتا ہے۔‘‘ (انجام آتھم ص۶۳، خزائن ج۱۱ ص۶۳)
پھر (نشان آسمانی مطبوعہ جون ۱۸۹۲ئ) میں لکھتے ہیں کہ: ’’دیکھو خداتعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ جو میرے پر افتراء کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اور میں جلد مفتری کو پکڑتاہوں اور اس کو مہلت نہیں دیتا۔ (قرآن میں ایسا کہیں نہیں آیا) لیکن اس عاجز کے دعوے مجدد اور مثیل مسیح ہونے پر اب بفضلہ تعالیٰ گیارہواں برس جاتا ہے کیا یہ نشان نہیں۔‘‘
(نشان آسمانی ص۳۷، خزائن ج۴ ص۳۹۷)
پھر اس کے آٹھ ماہ بعد (آئینہ کمالات مطبوعہ فروری ۱۸۹۳ئ) میں لکھا ہے کہ: ’’یقینا سمجھو کہ اگر یہ کام انسان کا ہوتا تو… اپنی اس عمر تک ہر گز نہ پہنچتا جو بارہ برس کی مدت اور بلوغ کی عمر ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات ص۵۴، خزائن ج۵ ص۵۴)
پھر انوار الاسلام مطبوعہ ۵؍دسمبر۱۸۹۴ء میں ایک سال نو ماہ بعد تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’یا کبھی خدا نے کسی جھوٹے کو ایسی لمبی مہلت دی ہے؟ کہ وہ بارہ برس سے برابر الہام اور مکالمہ الٰہیہ کا دعویٰ کر کے دن رات خداتعالیٰ پر افتراء کرتا ہو اور خداتعالیٰ اس کو نہ پکڑے۔ بھلا اگر کوئی نظیر ہے تو بیان کریں۔‘‘ (اس کی نظیریں گذر چکیں ہیں) (انوار الاسلام ص۵۰، خزائن ج۹ ص۵۱)
اس کے ۵ ماہ بعد ضیاء الحق مطبوعہ بارہ مئی ۱۸۹۵ء کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ: ’’خداتعالیٰ نے آج سے سولہ برس پہلے الہام مندرجہ براہین احمدیہ میں اس عاجز کا نام عیسیٰ رکھا… اور خدا نے بھی اس قدر لمبی مہلت دے دی۔ جس کی دنیا میں نظیر نہیں۔‘‘ (ضیاء الحق ص۶۰، خزائن ج۹ ص۳۰۸)
نوٹ! براہین احمدیہ ۱۸۸۰ئ، ۱۸۸۲ء کی تالیف ہے۔
(دیکھو نزول المسیح ص۱۱۹، خزائن ج۱۸ ص۴۹۷ حاشیہ)
اور ۱۳۰۸ھ مطابق ۱۸۹۱ء میں مرزاقادیانی نے (فتح الاسلام ص۱۷، خزائن ج۳ ص۱۱) اور (ازالہ اوہام ص۲۶۱، خزائن ج۳ ص۲۳۱) میں مسیحیت کا دعویٰ کیا۔
پھر قریباً ڈیڑھ سال بعد ’’انجام آتھم‘‘ مطبوعہ ۱۸۹۷ء میں رقم طراز ہیں کہ: ’’میرے دعویٰ الہام پر قریباً بیس برس گذر گئے۔‘‘ (انجام آتھم ص۴۹، خزائن ج۱۱ ص۴۹)
’’کیا یہی خداتعالیٰ کی عادت ہے کہ ایسے کذاب اور بے باک اور مفتری کو جلد نہ پکڑے۔ یہاں تک کہ بیس برس سے زیادہ عرصہ گذر جائے۔‘‘ (انجام آتھم ص۵۰، خزائن ج۱۱ ص۵۰)
اور (سراج منیر ص۲، خزائن ج۱۲ ص۴ مطبوعہ ۱۸۹۷ئ) میں پچیس سال لکھے ہیں: ’’کیا کسی کو یاد ہے کہ کاذب اور مفتری کو افترائوں کے دن سے پچیس برس تک کی مہلت دی گئی ہو، جیسا کہ اس بندہ کو۔‘‘ ایک ہی سال میں بیس اور اسی میں پچیس کے جھوٹ کو مرزائی صاحبان سچ کر کے دکھادیںگے؟۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ ۱۹۰۰ء میں الہام کی مدت ۲۴ سال بتا رہے ہیں۔ ’’کیا کسی ایسے مفتری کا نام بطور نظیر پیش کر سکتے ہو۔ جس کو افتراء اور دعویٰ وحی اﷲ کے بعد میری طرح ایک زمانۂ دراز تک مہلت دی گئی ہو… یعنی قریباً ۲۴برس گذر گئے۔‘‘
(اشتہار مطبوعہ۱۹۰۰ء معیار الاخیار مندرجہ تبلیغ رسالت حصہ۹ ص۲۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۶۸)
پھر اربعین مطبوعہ ۱۹۰۰ء میں قریبا تیس برس لکھتے ہیں کہ: ’’قریب تیس برس سے یہ دعویٰ مکالمات الٰہیہ شائع کیاگیا ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۷، خزائن ج۱۷ ص۳۹۲)
اور ۱۹۰۲ء میں تیئس ہی برس رہ جاتے ہیں۔ ’’مفتری کو خدا جلد پکڑتا ہے اور نہایت ذلت سے ہلاک کرتا ہے۔ مگر تم دیکھتے ہو کہ میرا دعویٰ منجانب اﷲ ہونے کے تیئس برس سے بھی زیادہ ہے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین ص۶۳، خزائن ج۲۰ ص۲۴، ونحوہ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۳، خزائن ج۱۷ ص۴۰ مطبوعہ ۱۹۰۲ئ)
مہلت کی مدت میںاختلاف بیانی اختیار کرنے کی یہ وجہ ہے کہ اگر پہلے ہی تیئس سال مہلت کی شرط لگادیتے تو لوگوں کی طرف سے قتل ہو جانے کا خطرہ زیادہ لاحق ہوجاتا۔ اس لئے اس کا نام تک نہ لیا اورجو وقت گورنمنٹ برطانیہ کی مہربانی سے ان کے زیر سایہ گذرتا رہا۔ اسی کو معیار صداقت بناتے رہے۔ اب تو بقول اکبر الہ آبادی یہ حال ہے۔
گورنمنٹ کی خیر یارو مناؤ
گلے میں جو اتریں وہ تانیں اڑاؤ
کہاں ایسی آزادیاں تھیں میسر
’’انا الحق‘‘ کہو اور پھانسی نہ پائو
س… امام رازی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’ہذا ذکرہ علی سبیل التمثیل بما یفعلہ الملوک بمن یتکذب علیہم فانہم لا یمہلونہ بل یضربون رقبۃ فی الحال (تفسیر کبیر ج۳۰ص۱۱۸)‘‘
پھر لکھتے ہیں کہ: ’’ہذا ہو الواجب فی حکمۃ اﷲ تعالیٰ لئلا یشتبہ الصادق بالکاذب (تفسیر کبیر ج۳۰ص۱۱۹)‘‘گلے میں جو اتریں وہ تانیں اڑاؤ
کہاں ایسی آزادیاں تھیں میسر
’’انا الحق‘‘ کہو اور پھانسی نہ پائو
س… امام رازی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’ہذا ذکرہ علی سبیل التمثیل بما یفعلہ الملوک بمن یتکذب علیہم فانہم لا یمہلونہ بل یضربون رقبۃ فی الحال (تفسیر کبیر ج۳۰ص۱۱۸)‘‘
تفسیر روح البیان میں ہے کہ:’’وفی الایۃ تنبیہ علیٰ ان النبی علیہ السلام لوقال من عند لنفسہ شیئا اوزادو نقص حرفا واحد علی ما اوحی الیہ لعاقبہ اﷲ وہواکرم الناس علیہ فماظنک بغیرہ (تفسیر کبیر ج۴ص۴۶۳)‘‘
معلوم ہوا کہ مفسرین کے خیال میں اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ مفتری علیٰ اﷲ کو زیادہ مہلت نہیں ملتی۔ لہٰذا مرزاقادیانی کا دعویٰ کے بعد تئیس سال زندہ رہنا ان کی صداقت کی دلیل ہے؟۔
ج… امام رازی رحمۃُ اللہ علیہ کی پہلی عبارت کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح بادشاہ ان لوگوں کو جو جعلی فرامین کو اصل کی طرح بنا کر لوگوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں پکڑ لیتا ہے۔ اسی طرح خداتعالیٰ اس شخص کو جو کذب کو سچ کی طرح بنا کر خدا کی طرف منسوب کرتا ہے۔ پکڑ لیتا ہے اور اس کے جھوٹ اور فریب کو عام لوگوں پر ظاہر کرادیتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جس کا کذب واضح نہ ہو اس کو بھی پکڑ لیا جائے اور کسی مفتری علی اﷲ کو جھوٹ نہیں بولنے دیتے۔ جس طرح حکومت اس شخص کو جو نوٹ کی شکل کی رسید تیار کرے سزا نہیںدیتی۔ لیکن جعلی نوٹ بنانے والوں کو فوراً گرفتار کر لیتی ہے۔ اسی طرح جس مفتری علیٰ اﷲ کا جھوٹ سچ کے مشابہ ہوا اس کو پکڑ لیا جاتا ہے۔ چنانچہ امام رازی رحمۃُ اللہ علیہ کی وہ دوسری تحریر جس کو مرزائی صاحبان پورا نقل نہیں کرتے۔ ہمارے بیان کی زبردست مؤید ہے ملاحظہ ہو۔ ’’واعلم ان حاصل ہذا الوجوہ انہ لونسب الینا قولا لم نقلہ لمعناہ عن ذلک امابواسطۃ اقامۃ الحجۃ فاماکنا نقیض لہ من یعارضہ فیہ وحینئذٍ یظہر للناس کذبہ فیہ فیکون ذالک بطالالدعواہ وہد مالکلامہ وامابان نسلب عندہ القدرۃ علیٰ التکلم بذالک القول وہذا ہو الواجب فی حکمۃ اﷲ لئلا یشتبہ الصادق بالکاذب (تفسیر کبیر ج۳۰ ص۱۱۹)‘‘
ان تمام وجوہ مذکورہ کا یہ حاصل ہے کہ اگر ہماری طرف سے کسی جھوٹے قول کی نفی کی جائے تو ہم اس کو اور دلائل سے جھوٹا ثابت کر دیتے ہیں، اور ایسا آدمی اس کے مقابلہ میں کھڑا کردیتے ہیں جو اس سے معارضہ کرتا ہے۔ جس سے اس کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر ہو جاتا ہے، اور اس کے دعوے کے باطل ہونے میںاہل فہم کو شبہ نہیں رہتا، اور یاکبھی اس کی زبان کو خدا کی طرف جھوٹی نسبت کرنے سے روک لیتا ہے، اور ایسا کرنا خداتعالیٰ پر ضروری ہے تاکہ جھوٹ سچ کے ساتھ مشتبہ نہ ہوجائے۔ معلوم ہوا کہ امام رازی رحمۃُ اللہ علیہ کے نزدیک مفتری علی اﷲ کو پکڑنے کے یہ معنی ہیں کہ اس کا کذب لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی آدمی اس کے مقابلہ میں کھڑا کردیاجائے گا، اور اس کے ہاتھ سے کوئی ایسی نشانی ظاہر نہیں کی جائے گی۔جس کو اس نے اپنی سچائی کے لئے بطور پیش گوئی ذکر کیا ہوگا۔ یا اس سے اس معاملہ میں کذب بیانی کی قدرت ہی لے لی جائے گی۔ دنیا جانتی ہے کہ جس روز سے مرزاقادیانی نے مجددیت اور مسیحیت کے جال پھیلانے کی کوشش کی تھی اسی دن سے علمائے کرام نے اس کے کذب کو ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا اور بحمد اﷲ آج اس کے جھوٹ اور فریب کا پردہ ایسا چاک ہوا ہے کہ دنیائے اسلام کا بچہ بچہ اس کے جھوٹے اور مکار ہونے کا قائل ہے۔ مرزائیوں کے تسلیم کرلینے سے اس کا سچا ہونا لازم نہیں آتا۔ اگرایک چور اور ڈاکو کو چند لٹیرے نیک طینت انسان بتائیں تو ان کی گواہی سے وہ نیک نہیں بن جاتا۔ بلکہ حکومت اور سمجھدار لوگوں کی نظر میں وہ بدکار ہی رہتا ہے۔ اسی طرح کافروں کے کہنے سے بتوں کی الوہیت ثابت نہیں ہوتی۔ پھر اﷲتعالیٰ نے ان پیش گوئیوں کو جن کو مرزاقادیانی نے بطور تحدی اپنے صدق وکذب کا معیار بنا کر پیش کیا تھا۔ مرزاقادیانی کا جھوٹا ہونا ظاہر کردیا۔ اگر چہ بڑی تضرع سے ان کے پورے ہونے کی التجائیں کیں۔ مگر ایک نہ سنی، اور مرزاقادیانی کو سربازار رسوا کر کے چھوڑا۔ سبحانہ ما اعظم شانہ! اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے وحی نبوت کے دعویٰ کرنے سے اس کی زبان کو روک کر رکھا۔ مرزاقادیانی نے کبھی وحی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ جو خداتعالیٰ کا کلام ہے۔ بلکہ مدتوں الہام ولایت ہی کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کو غلط نظر سے وحی الٰہی کی مثل سمجھتا رہا۔ لیکن جب ۱۹۰۲ء میں مسند نبوت پر اپنے ناپاک قدم رکھنے کی کوشش کی تو غیرت الٰہی نے عذابی مرض سے ہلاک کردیا۔ جیسا کہ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ: ’’پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے۔ جیسے طاعون وہیضہ وغیرہ۔‘‘
(اشتہار متعلقہ مولوی ثناء اﷲ، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸)
اور ’’روح البیان‘‘ کی عبارت سے توصاف ظاہر ہے کہ ایک سچا نبی اگر وحی ربانی میں کمی زیادتی کرے تو اس کو سزا دی جاتی ہے۔ ہر مفتری کی یہ سزا نہیں ہے ۔ کیا مرزائی جماعت عبداﷲ تیماپوری کو نبی ماننے کے لئے تیار ہے؟۔ جس کے دعویٔ نبوت کو آج ۱۹۳۳ء میں ۲۷سال گذر چکے ہیں۔
جواب نمبر:۶… اس آیت کا سیاق، سباق دیکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد کسی قاعدہ کلیہ کے طور پر نہیں ہے۔ بلکہ یہ قضیہ شخصیہ ہے اور صرف حضور اکرم علیہ السلام کے متعلق یہ بات کہی جارہی ہے اور یہ بھی اس بناء پر کہ ’’بائبل‘‘ میں موجود تھا کہ اگر آنے والا پیغمبر اپنی طرف سے کوئی جھوٹا الہام یا نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ جلد مارا جائے گا۔
چنانچہ عبارت درج ذیل ملاحظہ ہو۔
میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تجھ سا… ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا، اور جو کچھ میں اس کو حکم دوں گا۔ (مراد محمد عربی علیہ السلام ہیں) وہ سب ان سے (یعنی اپنی امتوں سے) کہے گا اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کر کہے گا، نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا۔ لیکن جو نبی گستاخ بن کر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے گا جس کے کہنے کا میں نے اس کو حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کچھ کہے گا تو وہ نبی قتل کیا جائے گا۔ (انجیل مقدس عہدنامہ قدیم ص۱۸۴، کتاب استثناء باب۱۸، آیت۱۸تا۲۱)
جواب نمبر:۷… مرزاقادیانی کبھی کہتا کہ میں نبی ہوں۔ پھر انکار کر دیتا۔ مرزاقادیانی نے اپنی زندگی کا آخری خط مورخہ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء کو لکھا جو ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو ’’اخبار عام‘‘ میں چھپا۔ جس میں لکھا: ’’اس نے میرا نام نبی رکھا ہے۔ سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کر سکتا ہوں۔ میں اس پر قائم ہوں۔ اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں۔‘‘ یہ خط مورخہ ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء کو لکھاگیا اور ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو چھپا اور اسی روز ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل کو مرزاقادیانی وبائی ہیضہ سے عبرتناک موت کا شکار ہوا، اور اپنے قول کے مطابق کہ خدا جھوٹے کو مہلت نہیں دیتا۔ جھوٹا ثابت ہوا۔ اسی دن ہی ’’لقطعنا منہ الوتین‘‘ پر عمل ہوگیا۔ اﷲتعالیٰ نے ہیضہ سے مرزاقادیانی کی زندگی کی شہ رگ کاٹ دی۔