حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کی موت کی پیشگوئی
مرزا غلام احمد کے بارے میں خدا کا آخری فیصلہ قادیانی عبرت حاصل کریں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری معروف اہل حدیث (باصطلاح جدید) عالم اور مشہور مناظر بزرگ گزرے ہیں. آپ کی مرزا غلام احمد قادیانی سے مخالفت اور اسکا تعاقب بہت مشہور ہے اور مرزا غلام احمد بھی مولانا مرحوم کو اپنے شدید ترین مخالفوں میں سے جانتا تھا. مولانا موصوف مرزا غلام احمد کی پیشگوئیوں کا تجزیہ کرتے اور اسکا غلط ہونا واضح کرتے. مرزا صاحب اس پر سخت غصہ میں آ جاتے لیکن اسے کبھی مولانا موصوف کے سامنے آنے کی ہمت نہ ہو سکی ایک مرتبہ موضع مد میں مولانا مرحوم کا مرزا غلام احمد کے ساتھ مباحثہ ہوا. مولانا مرحوم نے مرزا صاحب کی سب پیشگوئیوں کے غلط ہونے کا اعلان کیا. مرزا صاحب کو غصہ آ گیا اور انہیں قادیان آ کر ان پیشگوئیوں کی تحقیق کی دعوت دی اور اسکے غلط ہونے پر اپنی طرف سے انعام دینے کا وعدہ کر دیا. مرزا غلام احمد لکھتا ہے
”مولوی ثناء اللہ نے موضع مُدّ میں بحث کے وقت یہی کہا تھا کہ سب پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں اس لئے ہم اُن کو مدعو کرتے ہیں اور خدا کی قسم دیتے ہیں کہ وہ اِس تحقیق کے لئے قادیان میں آویں اور تمام پیشگوئیوں کی پڑتال کریں اور ہم قسم کھا کر وعدہ کرتے ہیں کہ ہر ایک پیشگوئی کی نسبت جو منہاج نبوت کی رُو سے جھوٹی ثابت ہو ایک ایک سو روپیہ اُن کی نذر کریں گے. ورنہ ایک خاص تمغہ لعنت کا اُن کے گلے میں رہے گا. اور ہم آمد و رفت کا خرچ بھی دیں گے. اور کُل پیشگوئیوں کی پڑتال کرنی ہوگی تا آئندہ کوئی جھگڑا باقی نہ رہ جاوے. “
(روحانی خزائن جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 131-132)
مرزا صاحب اس سے پہلے بھی یہ لکھ آئے ہیں
”اگر یہ سچے ہیں تو قادیان میں آ کر کسی پیشگوئی کو جھوٹی تو ثابت کریں اور ہر ایک پیشگوئی کے لئے ایک ایک سو روپیہ انعام دیا جائے گا اور آمدو رفت کا کرایہ علیحدہ. “
(روحانی خزائن جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 117-118)
مرزا صاحب کا کہنا ہے کہ ان کی پیشگوئیاں 150 کے قریب ہیں اگر وہ سب کی سب جھوٹی ثابت ہوں تو مولانا مرحوم کو پندرہ ہزار کی بڑی رقم مل جائے گی. مرزا صاحب لکھتے ہیں
” رسالہ نزول المسیح میں ڈیڑھ ۱۵۰سو پیشگوئی مَیں نے لکھی ہے تو گویا جھوٹ ہونے کی حالت میں پندرہ ہزار روپیہ مولوی ثناء اللہ صاحب لے جائیں گے اور دربدر گدائی کرنے سے نجات ہوگی بلکہ ہم اور پیشگوئیاں بھی معہ ثبوت ان کے سامنے پیش کر دیں گے اور اسی وعدہ کے موافق فی پیشگوئی سو روپیہ دیتے جائیں گے. اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ میری جماعت ہے. پس اگر مَیں مولوی صاحب موصوف کے لئے ایک ایک روپیہ بھی اپنے مریدوں سے لوں گا تب بھی ایک لاکھ روپیہ ہو جائے گا وہ سب اُن کی نذر ہو گا جس حالت میں دو دو آنہ کے لئے وہ دربدر خراب ہوتے پھرتے ہیں اور خدا کا قہر نازل ہے اور مُردوں کے کفن یا وعظ کے پیسوں پر گزارہ ہے ایک لاکھ روپیہ حاصل ہو جانا اُن کے لئے ایک بہشت ہے لیکن اگر...قادیان میں نہ آئیں تو پھر لعنت ہے اُس لاف و گزاف پر جو اُنہوں نے موضع مُدّ میں مباحثہ کے وقت کی اور سخت بے حیائی سے جھوٹ بولا. “
(روحانی خزائن جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 132)
ہم اس وقت اس بحث میں نہیں پڑتے کہ مردوں کے کفن اور انکی قبر کے پیسوں پر کون گزارا کرتا تھا اور کون بہشتی مقبرہ کے نام پر غریبوں کی جیبیں خالی کیا کرتا تھا ہم اسے کسی اور مجلس میں بیان کریں گے جس سے آپ اندازہ کر سکیں گے کہ وہ کتنا بڑا بہروپیا تھا.
مرزا غلام احمد نے اپنی پیشگوئیوں کی تفتیش کیلئے مولانا موصوف کا قادیان آنے کا چیلنج دیا اور اس پر انعام کا وعدہ کیا اور اس چیلنج کو باربار دہرایا. مرزا غلام احمد جانتا تھا قادیان آ کر ڈیڑھ سو پیشگوئیوں کی تفتیش کرنا اور اتنا عرصہ قادیان میں رہنا کوئی آسان کام نہیں ہے. اور ایک مصروف آدمی کے لیے اتنا طویل وقت نکالنا ایک مشکل ترین مسئلہ ہے. پھر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ایک ایک پیشگوئی کی تاویل اور اسکی تردید و تفتیش میں ایک خاصا عرصہ لگ جائے گا. آخر کار مولانا موصوف قادیان چھوڑ جائیں گے اور وہ اپنی فتح کا اعلان کر دے گا. اسی یقین کی وجہ سے مرزا غلام احمد نے کہا کہ اسے خدا نے بتا دیا ہے کہ
” وہ قادیان میں تمام پیشگوئیوں کی پڑتال کے لئے میرے پاس ہرگز نہیں آئیں گے اور سچی پیشگوئیوں کی اپنے قلم سے تصدیق کرنا اُن کے لئے موت ہوگی“
(روحانی خزائن جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 148)
نوٹ: پیش نظر رہے کہ یہ کتاب 15 نومبر 1902ء کو شائع ہوئی تھی.
افسوس کے مرزا غلام احمد کے خدا کی یہ بات غلط نکلی اور مرزا صاحب کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا جب اسے معلوم ہوا کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب مرحوم قادیان آ دھمکے ہیں تو اسکے سارے ہوش اڑ گئے. مرزا صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ مولانا ثناء اللہ صاحب اس سلسلے میں قادیان آئے.
” ترجمۃ ما کتَبْنا إلٰی ثَناء اللّٰہ الأمرتسری ، إذ جَاء قادیَان وَطَلَب رَفْعَ الشُّبہَات بِعَطَشٍ وبہ وَطَلَب رَفْعَ الشُّبہَات بِعَطَشٍ وکان ہٰذا عاشر شوّال .سنۃ ۱۳۲۰ ھ إذ جاء ہٰذا الدَّجَّال “
(روحانی خزائن جلد ۱۹- مَوَا ھب الرحمٰن: صفحہ 329)
ترجمہ خطے کہ سئے ثناء اللہ امرتسری نوشتم وقتے کہ بہ قادیان آمد و بہ تشنگی دروغ ازالہ شبہات خود بخواست و بود ایں تاریخ دہم شوال ۱۳۲۰ھ چوں ایں دجال بہ قادیان آمد. (ایضاً)
مرزا صاحب کی یہ کتاب جس میں اسکا خط بھی شامل ہے جنوری 1903ء میں شائع ہوئی ہے. اس سے ہی آپ اندازہ کریں کہ مرزا صاحب کی 15 نومبر 1902ء کی یہ بات کہ وہ ہرگز قادیان نہیں آئیں گے جنوری 1903ء میں ہی غلط ثابت ہو گئی.
مرزا غلام احمد کو اس معاملے میں کافی خفت کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے مولانا موصوف کے بارے میں مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی اور مولانا پر الزام لگایا کہ انہوں نے ایک جلیل القدر صحابی رسول سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی توہین کی ہے. مرزا غلام احمد حیات مسیح کے عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے لکھتا ہے
”غرض ( و ان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل -مصنف) موتہٖ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف پھرتی ہے نہ حضرت عیسیٰ کی طرف اسی وجہ سے اس آیت کی دوسری قراء ت میں مَوتھم واقع ہے. اگر حضرت عیسیٰ کی طرف یہ ضمیر پھرتی تو دوسری قراء ت میں موتھم کیوں ہوتا ؟ دیکھو تفسیر ثنائی کہ اس میں بڑے زور سے ہمارے اس بیان کی تصدیق موجود ہے اور اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہی معنے ہیں مگر صاحب تفسیر لکھتا ہے کہ ’’ ابوہریرہ فہم قرآن میں ناقص ہے اور اس کی درایت پر محدثین کو اعتراض ہے . ابوہریرہ میں نقل کرنے کا مادہ تھا اور درایت اور فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا تھا. “
(روحانی خزائن جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 409-410)
مرزا غلام احمد نے مولانا موصوف پر یہ الزام اسلئے لگایا کہ لوگ انکے خلاف ہو جائیں . حالانکہ خود مرزا غلام احمد نے اسکے متصل عبارت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر سخت جرح کر کے انکی توہین کا ارتکاب کیا ہے.
مرزا غلام احمد کا جب یہ وار بھی خالی گیا اور وہ مولانا موصوف کے تعاقب سے حد درجہ پریشان ہو گیا تو اس نے مولانا موصوف کے ساتھ آخری اور فیصلہ کن معرکہ برپا کرنے کا اعلان کر دیا. اور کھلے عام کہا کہ جو اس معرکہ میں کامیابی سے پار ہو گا وہ سچا ہو گا اور جسے اس معرکہ میں شکست ہو گی وہ جھوٹا اور باطل پر ہو گا. 15 اپریل 1907ء بمطابق یکم ربیع الاول 1325 ہجری کو مرزا غلام احمد نے مولانا موصوف کے نام ایک خط اشتہار کی صورت میں شائع کیا اور اسکا یہ عنوان رکھا
مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے ساتھ آخری فیصلہ
اس میں مولانا موصوف کا مخاطب کر کے لکھا کہ
”مجھے آپ اپنے پرچہ میں مردود، کذاب، دجال، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری و کذاب اور دجال ہے اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افتراء ہے. میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا. مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے پھیلانے کے لئے مامور ہوں اور آپ بہت سے افتراء میرے پر کر کے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں اور ان تہمتوں اور ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہو سکتا. اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں. جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا. کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے. تاکہ خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ آپ سنت اﷲ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے. پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے. جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئیں تو میں خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں. یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیش گوئی نہیں. بلکہ محض دعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک......اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افتراء ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افتراء کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے. آمین......میںتیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اﷲ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں درحقیقت مفسد اور کذاب ہے. اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو ...... الراقم مرزا غلام احمد...... مرقومہ 15 اپریل 1907ء“
(مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 575-580)
مرزا غلام احمد نے اس سے بہت عرصہ پہلے بھی یہ بات کہی تھی. اس نے مولانا موصوف کے ساتھ چلنے والی ایک بحث میں لکھا کہ
”کے لئے کافی ہے. مگر شرط یہ ہوگی کہ کوئی موت قتل کے رُو سے واقع نہ ہو بلکہ محض بیماری کے ذریعہ سے ہو. مثلاً طاعون سے یا ہیضہ سے یا اور کسی بیماری سے تا ایسی کاروائی حکام کے لئے تشویش کا موجب نہ ٹھہرے. اور ہم یہ بھی دُعا کرتے رہیں گے کہ ایسی موتوں سے فریقین محفوظ رہیں. صرف وہ موت کاذب کو آوے جو بیماری کی موت ہوتی ہے اور یہی مسلک فریق ثانی کو اختیار کرنا ہو گا. “
(روحانی خزائن جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 122)
مرزا غلام احمد کا یہ اشتہار عام شائع ہوا. چار دن بعد 19 اپریل 1907ء کو اسے دوبارہ طبع کرا کر تقسیم کیا گیا. (دیکھئے مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ 580) اور اسکے 6 دن بعد 25 اپریل 1907ء کو قادیانی اخبار بدر قادیان میں مرزا صاحب کی روزانہ کی ڈائری میں شائع ہوا کہ
”ثناء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اسکی بنیاد رکھی گئی ہے“
(اخبار بدر 25 اپریل 1907 ء)
مرزا صاحب کے اس بیان اور آپ کے اس کھلے عام اشتہارات سے واضح ہوتا ہے کہ مرزا صاحب نے سچ اور جھوٹ کا مدار دو باتوں پر رکھا تھا.
٭ مرزا غلام احمد اور مولانا ثناء اللہ صاحب مرحوم میں سے جو شخص پہلے فوت ہو گا وہ خدا کی نظر میں جھوٹا ہو گا.
٭ان دونوں میں جسے بھی موت آئے وہ قتل کی رو سے نہیں بلکہ وہ کسی مہلک بیماری جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ میں ہلاک ہو.
اب صرف یہ دیکھنا باقی ہے کہ خدا نے کیا فیصلہ کیا؟ اور کسے پہلے موت آئی؟ اور کس طرح اس نے دنیا چھوڑی؟ جب ایک عام آدمی ان دونوں کی تاریخ وفات پر نظر کرتا ہے اور مرزا طاہر کی طرف سے جب یہ جواب ملتا ہے کہ مرزا صاحب پہلے فوت ہوئے ہیں تو اسے یہ مانے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ مرزا غلام احمد خدا کی نظر میں دجال اور پرلے درجے کا جھوٹا تھا.
مرزا غلام احمد کی تاریخ وفات 26 مئی 1908 ہے. یعنی اپنی دعا کے تقریباً 13 مہینے اور گیارہ دن بعد مرزا صاحب آنجہانی ہو گئے. جبکہ مولانا ثناء اللہ مرحوم اس دعا کے تقریباً 40 سال بعد (پاکستان بننے کے بعد 1948ء میں) اللہ کو پیارے ہوئے. اب آپ ہی بتائیں کہ خدا کی نظر میں کون سچا تھا اور کس نے جھوٹا کاروبار بنا رکھا تھا؟
پھر مرزا غلام احمد نے جس قسم کی موت پر سچ اور جھوٹ کا مدار رکھا تھا وہ بھی دیکھیں کہ ایسی موت کس کے حصے میں آئی. مولانا ثناء اللہ مرحوم ایسی کسی بیماری میں مبتلاء نہ ہوئے اور نہ آپ نے ایسی بیماری میں وفات پائی. ہاں مرزا غلام احمد کو منہ مانگی موت ضرور ملی اور ہیضہ کی بیماری میں اسکی موت واقع ہوئی تھی. ہم کہیں گے تو شاید قادیانیوں کو دکھ پہنچے گا ، بہتر ہے کہ گھر کی ہی شہادت کر دی جائے تاکہ اعتراض و انکار کی ضرورت نہ رہے. الفضل ما شھدت بہ اعدائھم.....جادو جو سر چڑھ کر بولے.
مرزا غلام احمد قادیانی کے سسر میر ناصر قادیانی مرزا صاحب کے آخری حالات میں لکھتے ہیں
”حضرت صاحب جس رات بیمار ہوئے. اس رات کو میں اپنے مقام پر جا کر سو چکا تھا. جب آپ کو بہت تکلیف ہوئی تو مجھے جگایا گیا تھا. جب میں حضرت صاحب کے پاس پہنچا. اور آپ کا حال دیکھا. تو آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا
''میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے''
"اس کے بعد آپ نے کوئی ایسی صاف بات میرے خیال میں نہیں فرمائی یہاں تک کہ دوسرے روز 10دس بجے کے بعد آپ کا انتقال ہو گیا. “
(حیات ناصر صفحہ 14)
کیا اس سے زیادہ کسی اور شہادت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ کیا گھر والوں کی یہ شہادت کافی نہیں کہ مرزا صاحب نے جھوٹے کیلئے جس بیماری میں مرنے کی دعا کی ویسی ہی موت مرزا صاحب کو ملی. اور ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے مرزا صاحب کی یہ دعا قبول کی اور ان کی منہ مانگی مراد انہیں دے دی. فاعتبروا يا أولي الأبصار
ہمیں افسوس ہے کہ مرزا صاحب کے جانشینوں نے مرزا صاحب کی عبرتناک موت سے کچھ سبق حاصل نہیں کیا. حق کے فیصلے کو سامنے دیکھتے ہوئے جھوٹ پر اَڑنا اور عام لوگوں کو گمراہ کرنا بڑی بد بختی کی بات ہے. حالانکہ مرزا غلام احمد کہہ چکا ہے کہ اسکی عبرتناک ہلاکت کی صورت میں قادیانیوں کو چاہیے کہ وہ سچائی کا دامن تھام لیں اور غلط بات پر ہرگز نہ اَڑیں. یہ مرزا طاہر ہے جو انہیں حق کے قریب نہیں آنے دیتا. اور سچی بات نہیں بتاتا.
اگر مرزا طاہر قادیانی عوام کو مرزا غلام احمد کی درج ذیل یہ فیصلہ کن تحریر بتا دے تو ہمیں امید ہے کہ سوائے ضدی اور متعصب نفس پرست کے کوئی بھی قادیانی نہ رہے گا. سب کے سب اسی دین کو قبول کر لیں گے جس میں دنیا کی بھلائی اور آخرت کی عزت ہے. اور جس کے بغیر دنیا میں بھی ذلت اور آخرت میں بھی رسوائی ہے. مرزا غلام احمد مولانا ثناء اللہ صاحب مرحوم کے ساتھ ہونے والی بحث میں لکھتا ہے
”مَیں اقرار کرتا ہوں کہ اگر مَیں اِس مقابلہ میں مغلوب رہا تو میری جماعت کو چاہئے جو ایک لاکھ سے بھی اب زیادہ ہے کہ سب مجھ سے بیزار ہو کر الگ ہو جائیں کیونکہ جب خدا نے مجھے جھوٹا قرار دے کر ہلاک کیا تو مَیں جھوٹے ہونے کی حالت میں کسی پیشوائی اور امامت کو نہیں چاہتا بلکہ اس حالت میں ایک یہودی سے بھی بدتر ہوں گا اور ہر ایک کے لئے جائے عار وننگ. “
(روحانی خزائن جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 124)
ہم قادیانی عوام سے درخواست کریں گے کہ وہ غور کریں اور دیکھیں کہ مرزا صاحب مولانا مرحوم کے مقابل غالب ہوئے یا مغلوب؟ مرزا صاحب کا مغلوب ہونا اور وبائی ہیضہ سے ہلاک ہونا کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے. اسکے باوجود سرورِ دو عالم خاتم الانبیاء و المرسلین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی غلامی میں نہ آنا کتنی بڑی بدنصیبی اور شقاوت ہے اس کا پتہ عنقریب چل جائے گا؎
فسوف تری ازا انکشف الغبار،،،،،،،،،،،أفرس تحت رجلک ام حمار
اللہ تعالی بات کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کی توفیق دے. آمین
___________________________________
مدیر کی آخری تدوین
: