• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

حیاتِ عیسی علیہ السلام پر قرآنی دلیل (فلما احس عيسى منهم الکفر۔۔و الله خير المکرين (آل عمران:52تا54)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قرآن شریف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حیات ورفع جسمانی کا ثبوت
آیت
اعراب کے بغیر عربی:
’’ فلما احس عيسى منهم الکفر قال من انصاري الى الله قال الحواريون نحن انصار الله امنا بالله و اشهد بانا مسلمون آیت 52 ربنا امنا بما انزلت و اتبعنا الرسول فاکتبنا مع الشهدين آیت 53 و مکروا و مکر الله و الله خير المکرين آیت 54 ‘‘

اعراب کے ساتھ عربی:
فَلَمَّآ اَحَسَّ عِيْسٰى مِنْھُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللہِ۝۰ۭ قَالَ الْحَـوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ۝۰ۚ اٰمَنَّا بِاللہِ۝۰ۚ وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۝۵۲رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِيْنَ۝۵۳وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللہُ۝۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ۝۵۴ۧ
(آل عمران:۵۲تا۵۴)

اس کی تفسیر میں ہم خود کچھ بیان کرنا نہیں چاہتے۔ بلکہ ہم قادیانیوں کے مسلمہ مجددین امت کی تفسیر بیان کرتے ہیں۔ تاکہ ان کو ہماری دلیل کے رد کرنے کی جرأت نہ ہوسکے۔ کیونکہ اپنے تسلیم کئے ہوئے مجددین کی تفسیر کے انکار سے حسب قول مرزاقادیانی انہیں ’’فاسق بننا پڑے گا۔‘‘

(دیکھو اصول مرزا نمبر:۴)

تفسیر نمبر:۱…
امام فخر الدین رازی قادیانیوں کے مجدد صدی ششم اپنی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:
’’ واما مکرہم بعیسیٰ علیہ السلام فہو انہم ہموا القتلہم وامامکر اﷲ بہم ففیہ وجوہ مکر اﷲ تعالیٰ بہم انہ رفع عیسیٰ علیہ السلام الی السماء وذالک ان یہودا ملک الیہود اراد قتل عیسیٰ وکان جبرائیل علیہ السلام لا یفارقہ ساعۃ وھو معنی قولہ تعالیٰ وایدناہ بروح القدس فلما ارادوا ذالک امرہ جبرائیل ان یدخل بیتافیہ روزنۃ فلما دخلوا البیت اخرجہ جبرائیل من تلک الروزنۃ وکان قد القیٰ شبہ علی غیرہ فاخذ وصلب۰ وفی الجملۃ فالمراد من مکر اﷲ تعالیٰ بہم ان رفعہ الیٰ السماء وما مکنہم من ایصال الشر الیہ
(تفسیر کبیر جز۸ ص۶۹،۷۰)‘‘
اور یہود کا مکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے یہ تھا کہ انہوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا اور اﷲ تعالیٰ کا مکر یہود سے۔ سو اس کی کئی صورتیں ہوئیں… ایک صورت یہ کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا اور یہ اس طرح ہوا کہ یہود کے ایک بادشاہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا اور جبرائیل علیہ السلام ایک گھڑی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جدا نہ ہوتا تھا اور یہی مطلب ہے۔ اﷲتعالیٰ کے اس قول کا ’’وایدناہ بروح القدس (بقرہ:۸۷)‘‘ یعنی ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جبرائیل سے مدد دی۔ پس جب یہود نے قتل کا ارادہ کیا تو جبرائیل نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک مکان میں داخل ہو جانے کے لئے فرمایا۔ اس مکان میں کھڑکی تھی۔ پس جب یہود اس مکان میں داخل ہوئے تو جبرائیل علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس کھڑکی سے نکال لیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شباہت ایک اور آدمی کے اوپر ڈال دی۔ پس وہی پکڑا گیا اور پھانسی پر لٹکایا گیا۔ غرضیکہ یہود کے ساتھ اﷲ کے مکر کے معنی یہ ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور یہود کو حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ شرارت کرنے سے روک لیا۔

تفسیر نمبر:۲…
اب ہم امام جلال الدین یسوطیؒ کی تفسیر نقل کرتے ہیں۔ امام موصوف قادیانی عقیدہ کے مطابق نویں صدی ہجری میں مجدد مبعوث ہوکر آئے تھے اور
’’ان کا مرتبہ ایسا بلند تھا کہ جب انہیں ضرورت پڑتی تھی۔ حضرت رسول کریمﷺ کی بالمشافہ زیارت کر کے دریافت کرلیا کرتے تھے۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۱۵۱،۱۵۲، خزائن ج۳ ص۱۷۷)
’’ فلما احس (علم) عیسیٰ منہم الکفرو (ارادوا قتلہ)… ومکروا (ای کفار بنی اسرائیل بعیسیٰ اذا وکلو بہ من یقتلہ غیلۃ) ومکر اﷲ (بہم بان القیٰ شبہ عیسیٰ علیٰ من قصد قتلہ فقتلوہ ورفع عیسیٰ) واﷲ خیر الماکرین (اعلمہم بہ) ‘‘
(تفسیر جلالین ص۵۲)
’’پس جب عیسیٰ علیہ السلام نے یہود کا کفر معلوم کر لیا اور یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کرلیا اور یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مکر کیا۔ جب انہوں نے مقرر کیا ایک آدمی کو، کہ وہ قتل کرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دھوکا سے، اور اﷲتعالیٰ نے یہود کے ساتھ مکر کیااس طرح کہ ڈال دی شبیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس شخص پر جس نے ارادہ کیا تھا ان کے قتل کا۔ پس یہود نے قتل کیا اس شبیہ کو، اور اٹھا لئے گئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اﷲتعالیٰ تمام تدبیریں کرنے والوں میں سے بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘

تفسیر نمبر:۳…
اب ہم اس بزرگ کی تفسیر بیان کرتے ہیں جن کو قادیانی ولاہوری مجدد صدی دوازدہم مانتے ہیں اور مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ
’’شاہ ولی اﷲ صاحب کامل ولی اور صاحب خوارق وکرامات بزرگ تھے۔ وہ اپنے زمانہ کے مجدد تھے اور عالم ربانی تھے۔‘‘

(حمامتہ البشریٰ ص۷۶، خزائن ج۷ ص۲۹۱)
شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی اپنی کتاب تاویل الاحادیث میں فرماتے ہیں:
’’ کان عیسیٰ علیہ السلام کانہ ملک یمشی علی وجہ الارض فاتہمہ الیہود بالزندقۃ واجمعوا علیٰ قتلہ فمکروا ومکر اﷲ واﷲ خیر الماکرین۰ فجعل لہ ہیئۃ مثالیۃ ورفعہ الیٰ السماء والقیٰ شبہ علیٰ رجل من شیعتہ او عدوہ فقتل علیٰ انہ عیسیٰ علیہ السلام ثم نصر اﷲ شیعتہ علیٰ عدوہم فاصبحوا ظاہرین ‘‘
’’اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو گویا ایک فرشتے تھے کہ زمین پر چلتے تھے۔ پھر یہودیوں نے ان پر زندیق ہونے کی تہمت لگائی اور قتل پر جمع ہوگئے۔ پس انہوں نے تدبیر کی اور خدا نے بھی تدبیر کی اور اﷲبہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ اﷲ نے ان کے واسطے ایک صورت مثالیہ بنادی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور ان کے گروہ میں سے یا ان کے دشمن کے ایک آدمی کو ان کی صورت کا بنادیا۔ پس وہ قتل کیاگیا اور یہودی اسی کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھتے تھے۔‘‘

(تاویل الاحادیث ص۶۰)

تفسیر نمبر:۴…
امام وقت شیخ الاسلام حافظ ابن کثیر کی تفسیر (قادیانی اور لاہوری بہ یک زبان) چھٹی صدی کے سر پر تجدید دین کے لئے ان کا مبعوث ہونا مانتے ہیں۔

(عسل مصفیٰ حصہ اوّل ص۱۶۳،۱۶۵)
’’ فلما احاطوا بمنزلۃ وظنوا انہم ظفروا بہ نجاہ اﷲ تعالیٰ من بینہم ورفعہ من روزنۃ ذالک البیت الیٰ السماء والقیٰ شبہ علی رجل ممن کان عندہ فی المنزل فلما دخلوا اولئک اعتقدوہ فی ظلمۃ اللیل عیسیٰ فاخذوہ وصلبوہ ووضعوا علیٰ راسہ الشوک وکان ہذا من مکر اﷲ بہم فانہ نجی نبیہ ورفعہ من بین اظہرہم وترکہم فی ضلالہم یعمہون ‘‘
(ابن کثیر ج۱ ص۳۶۵)
’’جب یہود نے آپ کے مکان کو گھیر لیا اور گمان کیا کہ آپ پر غالب ہو گئے ہیں تو خداتعالیٰ نے ان کے درمیان سے آپ کو نکال لیا اور اس مکان کی کھڑکی سے آسمان پر اٹھا لیا اور آپ کی شباہت اس پر ڈال دی جو اس مکان میں آپ کے پاس تھا۔ سو جب وہ اندر گئے تو اس کو رات کے اندھیرے میں عیسیٰ علیہ السلام خیال کیا۔ پس اسے پکڑا اور سولی دیا اور سر پر کانٹے رکھے اور ان کے ساتھ خدا کا یہی مکر تھا کہ اپنے نبی کو بچا لیا اور اسے ان کے درمیان سے اوپر اٹھا لیا اور ان کو ان کی گمراہی میں حیران چھوڑ دیا۔‘‘
ناظرین! جس قدر مجددین امت محمدیہ میں گزرے ہیں۔ اس آیت کی اسی تفسیر پر فوت ہوئے ہیں۔ انجیل برنباس کا بیان بھی اسی تفسیر کا مؤید ہے۔ پس مجددین کی تفسیر ہی قابل قبول ہے اور ان کا منکر فاسق ہے۔ (عقیدہ نمبر۴) اب ناظرین کی تفریح طبع کے لئے ہم مرزاقادیانی کی پر لطف اور پر مذاق تفسیر درج کرتے ہیں۔

یہود کا مکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ
الف… ’’یہود یوں کے علماء نے ان کے (عیسیٰ علیہ السلام کے) لئے ایک کفر کا فتویٰ تیار کیا اور ملک کے تمام علماء کرام وصوفیائے عظام نے اس فتویٰ پر اتفاق کر لیا اور مہریں لگا دیں۔ مگر پھر بھی بعض عوام الناس میں سے جو تھوڑے ہی آدمی تھے حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ رہ گئے۔ ان میں سے بھی یہودیوں نے ایک کو کچھ رشوت دے کر اپنی طرف پھیر لیا اور دن رات یہ مشورے ہونے لگے کہ توریت کی نصوص صریحہ سے اس شخص کو کافر ٹھہرانا چاہئے۔ تاعوام بھی یک دفعہ بیزار ہو جائیں اور اس کے بعض نشانوں کو دیکھ کر دھوکہ نہ کھائیں۔ چنانچہ یہ بات قرار پائی کہ کسی طرح اس کو صلیب دی جائے۔ پھر کام بن جائے گا۔ کیونکہ توریت میں لکھا ہے جو لکڑی پر لٹکایا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے… سو یہودی لوگ اس تدبیر میں لگے رہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۲، خزائن ج۱۷ ص۱۰۵،۱۰۶)
ب… ’’یہودیوں نے نعوذ باﷲ حضرت مسیح کو رفع سے بے نصیب ٹھہرانے کے لئے صلیب کا حیلہ سوچا تھا۔ تا اس سے دلیل پکڑیں کہ عیسیٰ ابن مریم ان صادقوں میں سے نہیں ہے۔ جن کا رفع الیٰ اﷲ ہوتا رہا ہے۔ مگر خدا نے مسیح کو وعدہ دیا کہ میں تجھے صلیب سے بچاؤں گا۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۴۴)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہود کے مکر سے گھبرانا اور دعا مانگنا
الف… ’’چونکہ مسیح ایک انسان تھا۔ اس نے دیکھا کہ تمام سامان میرے مرنے کے موجود ہوگئے ہیں۔ لہٰذا اس نے برعایت اسباب گمان کیا کہ شاید آج میں مر جاؤں گا۔ سو بباعث ہیبت تجلی جلالی حالت موجودہ کو دیکھ کر ضعف بشریت اس پر غالب ہوگیا تھا۔ تب ہی اس نے دل برداشتہ ہوکر کہا: ’’ ایلی ایلی لما سبقتنی ‘‘ یعنی اے میرے خدا، اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا اور کیوں اس وعدہ کا ایفا نہ کیا جو تو نے پہلے سے کر رکھا تھا کہ تو مرے گا نہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۴، خزائن ج۳ ص۳۰۳،۳۰۴)
ب… ’’حضرت مسیح نے جو اپنے بچنے کے لئے تمام رات رو کر دعا مانگی تھی اور یہ بالکل بعید از قیاس ہے کہ ایسا مقبول درگاہ الٰہی میں تمام رات رو رو کر دعا مانگے اور وہ دعا قبول نہ ہو۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۱)
ج… ’’یہ قاعدہ مسلم الثبوت ہے کہ سچے نبیوں کی سخت اضطرار کی ضرور دعا قبول ہو جاتی ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۳ ص۸۳، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۰ حاشیہ)

حضرت مسیح علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کا مظاہرہ
یعنی یہود کے مکر بہ عیسیٰ علیہ السلام اور خدا کے مکر بہ یہود کا عجیب وغریب نقشہ
الف… ’’پھر بعد اس کے مسیح ان کے (یہود کے) حوالہ کیاگیا اور اس کو تازیانے لگائے گئے اور جس قدر گالیاں سننا اور فقیہوں اور مولویوں کے اشارہ سے طمانچے کھانا اور ہنسی اور ٹھٹھے سے اڑائے جانا اس کے حق میں مقدر تھا سب نے دیکھا۔ آخر صلیب دینے کے لئے تیار ہوئے۔ یہ جمعہ کا دن تھا اور عصر کا وقت… تب یہودیوں نے جلدی سے مسیح کو دو چوروں کے ساتھ صلیب پر چڑھادیا۔ تاشام سے پہلے ہی لاشیں اتاری جائیں۔ مگر اتفاق سے اسی وقت ایک سخت آندھی آگئی۔ جس سے سخت اندھیرا ہوگیا۔ یہودیوں کو یہ فکر پڑ گئی کہ اب اگر اندھیری میں ہی شام ہوگئی تو ہم اس جرم کے مرتکب ہو جائیں گے۔ جس کا ابھی ذکر کیاگیا ہے۔ سو انہوں نے اسی فکر کی وجہ سے تینوں مصلوبوں کو صلیب پر سے اتار لیا… جب (سپاہی) چوروں کی ہڈیاں توڑ چکے اور مسیح کی نوبت آئی تو ایک سپاہی نے یوں ہی ہاتھ رکھ کر کہہ دیا کہ یہ تو مرچکا ہے۔ کچھ ضرور نہیں کہ اس کی ہڈیاں توڑی جائیں… پس اس طور سے مسیح زندہ بچ گیا۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۳۸۰تا۳۸۲، خزائن ج۳ ص۲۹۵،۲۹۷)
ب… ’’مسیح پر جو یہ مصیبت آئی کہ وہ صلیب پر چڑھایا گیا اور کیلیں اس کے اعضاء میں ٹھوکی گئیں۔ جن سے وہ غشی کی حالت میں ہوگیا۔ یہ مصیبت درحقیقت موت سے کچھ کم نہیں تھی۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۲، خزائن ج۳ ص۳۰۲)
ج… ’’مسیح نے تو سولی پر چڑھ کر بھی یہی کہا: ’’ ایلی ایلی لما سبقتنی ‘‘ یعنی اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۳ ص۸۴، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۱ حاشیہ)
د… ’’حضرت مسیح صلیب سے نجات پاکر نصیبین کی طرف آئے اور پھر افغانستان کے ملک میں ہوتے ہوئے کوہ نعمان میں پہنچے… وہ ایک مدت کوہ نعمان میں رہے۔ پھر اس کے بعد پنجاب کی طرف آئے۔ آخر کشمیر میں گئے… آخر سری نگر میں ۱۲۵برس کی عمر میں وفات پائی اور خانیار کے محلہ کے قریب آپ کا مقدس مزار ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۸ ص۶۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۴۹)
ہ… ’’توریت میں لکھا ہے کہ جو شخص صلیب دیا جائے۔ اس کا رفع روحانی نہیں ہوتا… اﷲتعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ یہودیوں کے اس اعتراض کو دور کرے اور حضرت مسیح کے رفع روحانی پر گواہی دے۔ سو اسی گواہی کی غرض سے اﷲتعالیٰ نے فرمایا: ’’ یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ ومطہرک من الذین کفروا ‘‘ یعنی اے عیسیٰ! میں تجھے وفات دوں گا اور وفات کے بعد تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تجھے ان الزاموں سے پاک کروں گا۔ جو تیرے پر ان لوگوں نے لگائے۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۶، خزائن ج۱۴ ص۳۵۳)

نتیجہ نمبر:۱…
’’یہود نے خوب سمجھا تھا۔ مگر بوجہ صلیب حضرت مسیح کے ملعون ہونے کے قائل ہوگئے اور نصاریٰ نے بھی لعنت کو مان لیا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۴، خزائن ج۱۷ ص۱۰۹)

سوال از روح مرزا
۱… مرزا! آپ کی ساری تحریر کا مطلب تو یہ ہے کہ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دے کر لعنتی ثابت کرنا چاہتے تھے اور یہی ان کا مکر تھا۔ اس کے مقابلہ پر خدا نے پھانسی پر جان نہ نکلنے دی اور کسی کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ بچ جانے کا سوائے آپ کے پتہ بھی نہ لگ سکا۔ اس بناء پر تو یہودی اپنی تدبیر میں خوب کامیاب ہوگئے۔ یعنی نہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ملعون ہی ثابت کر دیا بلکہ کروڑہا نصاریٰ سے عیسیٰ علیہ السلام کے ملعون ہونے کے عقیدہ کا اقرار بھی لے لیا۔ پس بتلائیے! کون اپنی تدبیر میں غالب رہا۔ یہودیا خدا احکم الحاکمین؟ آپ کے بیان کے مطابق تو یہود کا مکر ہی غالب رہا۔
سبحان اﷲ! یہ بھی کوئی کمال ہے کہ یہودیوں نے جو کچھ چاہا حضرت مسیح علیہ السلام سے کہہ لیا خدا منع نہ کر سکا۔ اگر کیا تو یہ کہ عزرائیل کو حکم دے دیا کہ دیکھنا اس کی روح مت نکالنا۔ پھر ساتھ ہی دعویٰ کرتا ہے کہ میں تمام تدبیریں کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہوں۔
۲… مرزاقادیانی! آپ نے لکھا کہ توریت میں لکھا ہے ’’جو کاٹھ پر لٹکایا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے۔‘‘ ایمان سے کہئے! کیا وہاں یہ لکھا ہے کہ ہر مصلوب لعنتی ہوتا ہے۔ کیوں توریت پر افتراء باندھتے ہو؟ بلکہ واجب القتل مصلوب لعنتی ہوتا ہے۔

(دیکھو توریت استثناء باب:۲۱، آیت:۲۳)
۳… پھر آپ کے خیال میں خدا کے ہاں بھی یہی قانون مروج ہے کہ ہر مصلوب اگرچہ وہ بے گناہ ہی کیوں نہ ہو لعنتی ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ کے عقیدہ کے مطابق خدا نے اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح صلیب پر نہ نکلنے دی۔ یہ آپ کا محض افتراء ہے۔ کیا بے گناہ مقتول شہید نہیںہوتا۔ کیا جس قدر انبیاء علیہم السلام قتل کئے گئے۔ وہ سب کے سب نعوذ باﷲ ملعون تھے۔ اﷲتعالیٰ یہود کا حال بیان فرماتے ہیں: ’’ ویقتلون الانبیاء بغیر حق (آل عمران:۱۱۲) ویقتلون النبیین (بقرہ:۶۱، آل عمران:۲۱)‘‘
مؤمن کے قتل کرنے والے کے متعلق اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ من قتل مؤمنا متعمدا فجزاہ جہنم خالداً فیہا (النسائ:۹۳) ‘‘ یعنی جو مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کے لئے دائمی جہنم ہے۔ یعنی خود قاتل ملعون ہوجاتا ہے۔
مؤمن مقتول کے متعلق ارشاد ہے:
’’ لا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اﷲ امواتا۰ بل احیاء عند ربہم یرزقون (آل عمران:۱۶۹) ‘‘
{اے مخاطب تو نہ سمجھ مردہ ان لوگوں کو جو خدا کے راستہ میں قتل کئے گئے۔ بلکہ وہ اپنے خدا کے ہاں زندہ ہیں۔ رزق دئیے جاتے ہیں۔}
پس بتلائیے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب دئیے جاتے اور قتل ہو جاتے تو وہ خدا کے ہاں ملعون کس طرح ہو جاتے؟ بلکہ وہ بھی دیگر مقتول انبیاء کی طرح شہید ہوگئے ہوتے۔
نوٹ: ’’صلیب پر مرا ہوا بھی مقتول ہی ہوتا ہے۔‘‘

(ایام الصلح ص۱۱۳،۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۰،۳۵۱)
 
Top