• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

حیات عیسیٰ علیہ السلام پر قرآنی دلیل ( واذ کففت بنی اسرائیل عنک (مائدۃ:۱۱۰))

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حیات عیسیٰ علیہ السلام پر قرآنی دلیل نمبر : 7 ( واذ کففت بنی اسرائیل عنک (مائدۃ:۱۱۰))
قرآنی دلیل نمبر:۷
’’ واذ کففت بنی اسرائیل عنک اذ جئتہم بالبینات فقال الذین کفروا منہم ان ہذا الا سحر مبین (مائدۃ:۱۱۰)‘‘
{(اے عیسیٰ علیہ السلام) یاد کر اس وقت کو جب کہ میں نے بنی اسرائیل کو تم سے (یعنی تمہارے قتل وہلاک کرنے سے) باز رکھا۔ جب تم ان کے پاس نبوت کی دلیلیں لے کر آئے تھے۔ پھر ان میں سے جو کافر تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معجزات بجز کھلے جادو کے اور کچھ بھی نہیں۔}
ہم پہلے اپنی پیش کردہ اسلامی تفسیر کی تائید میں قادیانیوں کے مسلمہ مجدد صدی ششم امام ابن کثیر وامام فخر الدین رازی اور مجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطی رحمہم اﷲ تعالیٰ کی تفسیریں پیش کرتے ہیں تاکہ قادیانی زبان میں حسب قول مرزا مہر سکوت لگ جائے۔
۱… تفسیر امام فخرالدین رازیؒ:
’’ روی انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام لما اظہر ہذہ المعجزات العجیبۃ قصد الیہود قتلہ فخلصہ اﷲ تعالیٰ منہم حیث رفعہ الیٰ السمائ ‘‘
(تفسیر کبیر جز۱۲ ص۱۲۷، زیر آیت کریمہ)
’’روایت ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ عجیب وغریب معجزات دکھائے تو یہود نے ان کے قتل کا ارادہ کیا۔ پس اﷲتعالیٰ نے ان کو یہود سے خلاصی دی۔ اس طرح کہ ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔‘‘
۲… تفسیر امام جلال الدین سیوطیؒ: ’’ واذ کففت بنی اسرائیل عنک۰ حین ہموا بقتلک ‘‘
(تفسیر جلالین ص۱۱۰، زیر آیت واذ کففت بنی اسرائیل)
’’(یاد کر ہماری اس نعمت کو جب کہ) ہم نے روک لیا بنی اسرائیل کو تجھ سے جس وقت ارادہ کیا یہودیوں نے تیرے قتل کا۔‘‘
مطلب اس کا صاف ہے۔ کف کا فعل اسی وقت واقع ہوگیا۔ جب کہ یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ابھی صرف ارادہ ہی کیا تھا۔ کوئی عمل کارروائی نہیں کرنے پائے تھے۔
۳… تفسیر ابن کثیرؒ:
’’ ای واذکر نعمتی علیک فی کفی ایاہم عنک حین جئتہم بالبراہین والحجج القاطعۃ علیٰ نبوتک ورسالتک من اﷲ الیہم فکذبوک واتہموک بانک ساحر وسعوا فی قتلک وصلبک فنجیتک منہم ورفعتک الیّٰ وطہرتک من دنسہم وکفیتک شرہم ‘‘
(ابن کثیر ج۲ ص۱۱۵، زیر آیت کریمہ)
’’یعنی اے مسیح علیہ السلام تو وہ نعمت یاد کر جو ہم نے یہود کو تم سے دور ہٹائے رکھنے سے کی۔ جب تو ان کے پاس اپنی نبوت ورسالت کے ثبوت میں۔ یقینی دلائل اور قطعی ثبوت لے کر آیا تو انہوں نے تیری تکذیب کی اور تجھ پر تہمت لگائی کہ تو جادوگر ہے اور تیرے قتل وسولی دینے میں سعی کرنے لگے تو ہم نے تجھ کو ان میں سے نکال لیا اور اپنی طرف اٹھا لیا اور تجھے ان کی میل سے پاک رکھا اور ان کی شرارت سے بچا لیا۔‘‘
محترم ناظرین! ان تین اکابر مفسرین مسلمہ مجددین قادیانی کی تفسیر کے بعد مزید بیان کی ضرورت نہیں۔ مگر مناظرین کے کام کی چند باتیں یہاں درج کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
۱… کف کے لفظی معنی ہیں باز گردانیدن یعنی روکے رکھنا۔
۲… قرآن شریف میں یہ لفظ مندرجہ ذیل جگہوں میں استعمال ہوا ہے۔
الف… ’’ ویکفوا ایدیہم (نسائ:۹۱)‘‘
ب… ’’ فکف ایدیہم عنکم (مائدہ:۱۱)‘‘
ج… ’’ کفوا ایدیہم (نسائ:۷۷)‘‘
د… ’’ وکف ایدی الناس عنکم (فتح:۲۰)‘‘
و… ’’ ھو الذی کف ایدیہم عنکم وایدیکم عنہم (فتح:۲۴)‘‘
ان تمام آیات کو مکمل طور پر پڑھ کر دیکھ لیا جائے۔ سیاق وسباق پر غور کر لیا جائے۔ کف کے مفعول کو عن کے مجرور سے بکلی روکا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورۂ فتح کی آیۃ ’’ وھو الذی کف ایدیہم عنکم وایدیکم عنہم ببطن مکۃ من بعد ان اظفرکم علیہم ‘‘ ہی کو لے لیجئے۔ ’’اور وہ (اﷲ) وہی ہے جس نے روک رکھے ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے مکہ کے قریب میں، بعد اس کے کہ اﷲتعالیٰ نے قابو دیا تم کو ان پر۔‘‘ اس آیت میں صلح حدیبیہ کی طرف اشارہ ہے اور قادیانی بھی بلانکیر اس امر کو صحیح مانتے ہیں کہ صلح حدیبیہ میں مطلق کوئی لڑائی بھڑائی مسلمانوں اور کفار کے درمیان نہیں ہوئی۔
تفصیل کے لئے دیکھئے جلالین، ابن کثیر اور تفسیر کبیر یہاں قادیانیوں کے مسلمہ مجددین ہماری تائید میں رطب اللسان ہیں۔
دوسری آیت سورۂ مائدہ کی ملاحظہ ہو۔
’’ یایہا الذین آمنوا اذکروا نعمۃ اﷲ علیکم اذہم قوم ان یبسطوا الیکم ایدیہم فکف ایدیہم عنکم ‘‘
اے مسلمانو! تم اﷲتعالیٰ کی وہ نعمت یاد کرو جو اس نے تم پر کی۔ جب کفار نے تم پر دست درازی کرنی چاہی تو ہم نے ان کے ہاتھ تم سے روکے رکھے۔
ناظرین! جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں کفار یہود نے ہلاک کرنے کی تدبیر کی اور قتل کے ارادے سے سارا انتظام کر لیا تھا۔ ٹھیک اسی طرح یہود بنی نضیر نے رسول کریمﷺ کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا۔ یہود بنی نضیر کو اﷲتعالیٰ نے اپنے ناپاک ارادہ میں بکلی ناکام رکھا۔
(دیکھو قادیانیوں کے مسلمہ امام ومجدد ابن کثیر کی تفسیر ابن کثیر بذیل آیت ہذا)
اﷲتعالیٰ نے حضرت رسول کریمﷺ کی حفاظت کے فعل کو کف کے لفظ سے ظاہر فرمایا۔ وہی لفظ اﷲ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کے شر سے بچانے کے لئے استعمال فرمایا۔ ’’ واذ کففت بنی اسرائیل عنک ‘‘
رسول کریمﷺ کو یہود کے شر سے بکلی محفوظ رکھنے پر اﷲتعالیٰ مسلمانوں کو شکریہ کا حکم دے رہے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حکم ہورہا ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو تم تک پہنچنے سے روک لیا۔ پس اس پر ہمارا شکریہ ادا کرو۔ اندریں حالت کوئی وجہ نہیں کہ ’’کف‘‘ کے معنی ہر قسم کے شر اور تکلیف سے بچانے کے نہ کریں۔

ایک عجیب نکتہ

ان تمام مقامات میں جہاں فعل کف استعمال ہوا ہے۔ اس کا مفعول ایدی (ہاتھ) اور عن کا مجرور ضمیریں ہیں۔ مطلب جس کا یہ ہے کہ آپس میں دونوں فریقوں کا اجتماع ہوجانا تو اس صورت میں صحیح ہے۔ صرف باہمی جنگ وجدل اور قتل ولڑائی نہیں ہوتی۔ یعنی ایک فریق کے ہاتھ دوسرے تک نہیں پہنچتے۔ مگر اس مقام زیر بحث میں اس علاّم الغیوب نے قادیانیوں کا ناطقہ اپنی فصیح وبلیغ کلام میں اس طریقہ سے بند کیا ہے کہ اب ان کے لئے ’’ نہ پائے رفتن ونہ جائے ماندن ‘‘ کا معاملہ ہے۔ یہاں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’ اذ کففت بنی اسرائیل عنک ‘‘ (یعنی جب میں نے روک لیا بنی اسرائیل کو تجھ سے) اور یوں نہیں فرمایا: ’’ اذ کففت ایدی بنی اسرائیل عنک ‘‘ (یعنی جب میں نے روک لئے ہاتھ بنی اسرائیل کے تجھ سے)
ناظرین باتمکین! آپ اپنی ذہانت وفطانت کو ذرا کام میں لائیے اور کلام اﷲ کی فصاحت کی داد دیجئے۔ بقیہ تمام صورتوں میں دونوں مخالف پارٹیوں کا آپس میں ملنا اور اکٹھا ہونا مسلم ہے۔ وہاں ایک پارٹی سے اپنی مخالف پارٹی کے صرف ہاتھوں کو روکا گیا۔ اس واسطے تمام جگہوں میں ’’ایدی‘‘ کو ضرور استعمال کیاگیا ہے۔ مگر یہاں چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لینے کے سبب خدا تعالیٰ نے یہود کو اپنی تمام تدبیروں کے باوجود حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک پہنچنے سے روک لیا۔ اس واسطے ’’ کف ‘‘ کا مفعول بنی اسرائیل کو قرار دیا۔ ان کے ہاتھوں کا روکنا مذکور نہیں ہوا۔
دوسرا نکتہ
آیت: ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ میں ہم دلائل عقلی ونقلی سے ثابت کر چکے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے یہود کے مکر کے بالمقابل حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے چار وعدے فرمائے تھے اور یہ آیت بطور بشارت تھی۔ اﷲتعالیٰ اسی وعدے کے پورا کرنے کا بیان فرمارہے ہیں۔ جس کو دوسری جگہ ان الفاظ میں ارشاد فرمایا۔ ’’ واذ ایدتک بروح القدس ‘‘ (یعنی جب ہم نے تمہیں مدد دی روح القدس کے ساتھ) ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھا کر آسمان پر لے گئے۔
مرزاغلام احمد قادیانی کی مضحکہ خیز اور توہین آمیز تفسیر اور اس کا ردناظرین کی تفریح طبعی اور نکتہ فہمی کے لئے پیش کرتا ہوں۔
’’اسی طرح اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فرمایا تھا۔ ’’ اذ کففت بنی اسرائیل عنک ‘‘ یعنی یاد کر وہ زمانہ جب کہ بنی اسرائیل کو جو قتل کا ارادہ رکھتے تھے۔ میں نے تجھ سے روک دیا۔ حالانکہ تواتر قومی سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو یہودیوں نے گرفتار کر لیا تھا اور صلیب پر کھینچ دیا تھا۔ لیکن خدا نے آخر جان بچادی۔ پس یہی معنی ’’ اذ کففت ‘‘ کے ہیں۔‘‘
(نزول المسیح ص۱۵۱، خزائن ج۱۸ ص۵۲۹)
اسی مضمون کو مرزاقادیانی دوسری جگہ اس طرح لکھتے ہیں:
’’پھر بعداس کے مسیح علیہ السلام ان کے حوالہ کیاگیا اور اس کو تازیانے لگائے گئے اور جس قدر گالیاں سننا اور فقیہوں اور مولویوں کے اشارہ سے طمانچے کھانا اور ہنسی اور ٹھٹھے اڑائے جانا اس کے حق میں مقدر تھا سب نے دیکھا۔ آخر صلیب دینے کے لئے تیار ہوئے… تب یہودیوں نے جلدی سے مسیح علیہ السلام کو دو چوروں کے ساتھ صلیب پر چڑھا دیا۔ تاشام سے پہلے ہی لاشیں اتاری جائیں۔ مگر اتفاق سے اسی وقت ایک سخت آندھی آگئی… انہوں نے تینوں مصلوبوں کو صلیب پر سے اتار لیا… سو پہلے انہوں نے چوروں کی ہڈیاں توڑیں… جب چوروں کی ہڈیاں توڑ چکے اور مسیح علیہ السلام کی نوبت آئی تو ایک سپاہی نے یوں ہی ہاتھ رکھ کر کہہ دیا کہ یہ تو مرچکا ہے۔ کچھ ضرور نہیں کہ اس کی ہڈیاں توڑی جائیں اور ایک نے کہا میں ہی اس لاش کو دفن کروں گا۔ پس اس طور سے مسیح زندہ بچ گیا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۸۰تا۳۸۲، خزائن ج۳ ص۲۹۵تا۲۹۷)
اسی کتاب میں مزید تشریح یوں کی ہے: ’’مسیح پر جو یہ مصیبت آئی کہ وہ صلیب پر چڑھایا گیا اور کیلیں اس کے اعضاء میں ٹھوکی گئیں۔ جن سے وہ غشی کی حالت میں ہوگیا۔ یہ مصیبت درحقیقت موت سے کچھ کم نہ تھی۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۲، خزائن ج۳ ص۳۰۲)
تحفہ گولڑویہ میں لکھتے ہیں: ’’اب تک خداتعالیٰ کا وہ غصہ نہیں اترا جو اس وقت بھڑکا تھا۔ جب کہ اس ’’ وجیہہ ‘‘ نبی کو گرفتار کراکر مصلوب کرنے کے لئے کھوپری کے مقام پر لے گئے تھے اور جہاں تک بس چلا تھا ہر ایک قسم کی ذلت پہنچائی تھی۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۶۷، خزائن ج۱۷ ص۱۹۹،۲۰۰)
میں اس قادیانی تفسیر پر مزید حاشیہ آرائی کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ صرف اتنا کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جب ہر ممکن ذلت وخواری میں مسیح علیہ السلام کو خدا نے مبتلا کرایا۔ یہاں تک کہ وہ ایسے بے ہوش ہوگئے کہ دیکھنے والے انہیں مردہ تصور کر کے چھوڑ گئے۔ کیا اس کے بعد بھی خدا کو یہ حق پہنچتا ہے کہ یوں کہے اور بالفاظ مرزا کہے۔ ’’یاد کر وہ زمانہ جب بنی اسرائیل کو جو قتل کا ارادہ رکھتے تھے۔ میں نے تجھ سے روک لیا۔‘‘
(نزول المسیح ص۱۵۱، خزائن ج۱۸ ص۵۲۹)
اس آیت کی ابتداء میں باری تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فرماتے ہیں۔ ’’اذکر نعمتی‘‘ یعنی یاد کرمیری نعمتیں۔ انہیں نعمتوں میں سے ایک نعمت بنی اسرائیل سے حضرت مسیح علیہ السلام کو بچانا بھی ہے۔
میں پھر عرض کرتا ہوں کہ دنیا جہاں میں ایسے موقعوں پر سینکڑوں دفعہ ایک انسان دوسروں کے نرغہ سے بال بال بچ جاتا ہے۔ پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بال بال بھی بچ گئے ہوتے۔ جب بھی اس بچانے کو مخصوص طور سے بیان کرنا باری تعالیٰ کی شان عالی کے لائق نہ تھا۔ ایسا بچ جانا عام بات ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزانہ رنگ اور عجیب طریقہ سے یہود کے درمیان سے بچ کر آسمان پر چلا جانا ایک خاص نعمت ہے۔ جس کو باری تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے بیان کر کے شکریہ کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ ورنہ اگر مرزاقادیانی کا بیان اور تفسیر صحیح تسلیم کر لی جائے تو کیا اس نعمت کے شکریہ کے مطالبہ پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام یوں کہنے میں حق بجانب نہ ہوں گے۔ یا اﷲ یہ بھی آپ کا کوئی مجھ پر احسان تھا کہ تمام جہان کی ذلتیں اور مصائب مجھے پہنچائی گئیں۔ میرے جسم میں میخیں ٹھونکی گئیں۔ میں نے ’’ ایلی ایلی لما سبقتنی ‘‘ کے نعرے لگائے۔ یعنی اے میرے خدا۔ اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ہے۔ پھر بھی تیری غیرت جوش میں نہ آئی۔ اندھیری رات میں وہ مجھے مردہ سمجھ کر پھینک گئے۔ میرے حواریوں نے چوری چوری میری مرہم پٹی کی۔ میں یہود کے ڈر سے بھاگا بھاگا ایران اور افغانستان کے دشوار گزار پہاڑوں میں ہزار مشکلات کے بعد درۂ خیبر کے راستہ پنجاب، یوپی، نیپال پہنچا اور وہاں کی گرمی کی شدت برداشت نہ کر سکنے کے سبب کوہ ہمالیہ کے دشوار گزار دروںمیں سے گرتا پڑتا سرینگر پہنچا۔ وہاں ۸۷برس گمنامی کی زندگی بسر کر کے مرگیا اور وہیں دفن کر دیا گیا۔ اس میں آپ نے کون سا کمال کیا کہ مجھے نعمت کے شکریہ کا حکم دیتے ہیں۔ کیا یہ کہ میری جان جسم سے نہ نکلنے دی اور اس حالت کا شکریہ مطلوب ہے۔ سبحان اﷲ! واہ رے آپ کی خدائی!! ہاں ایسی ذلت سے پہلے اگر میری جان نکال لیتا تو بھی میں آپ کا احسان سمجھتا۔ اب کوئی سا احسان ہے۔ اگر تو کہے کہ میں نے تیری جان بچا کر صلیب پر مرنے اور اس طرح ملعون ہونے سے بچا لیا تو اس کا جواب بھی سن لیں۔
۱… کیا تیرا معصوم نبی اگر صلیب پر مر جائے تو واقعی تیرا یہی قانون ہے کہ وہ لعنتی ہوجاتا ہے۔ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر جان بچانے کے کیا معنی۔
۲… باوجود اپنی اس تدبیر کے جس پر آپ مجھ سے شکریہ کا مطالبہ چاہتے ہیں۔ یہودی اور عیسائی مجھے ملعون ہی سمجھتے ہیں۔ آپ کی کس بات کا شکریہ ادا کروں۔
۳… اگر آپ کے ہاں نعوذ باﷲ ایسا ہی عجیب قانون ہے کہ ہر معصوم مظلوم پھانسی پر چڑھائے جانے اور پھر مرجانے پر ملعون ہوجاتا ہے اور آپ نے مجھے لعنتی موت سے بچانا چاہا تو معاف کریں۔ اگر میں یوں کہوں کہ آپ کا اختیار کردہ طریق کار صحیح نہ تھا۔ جیسا کہ نتائج نے ثابت کر دیا۔ جس کی تفصیل نمبر:۲ میں میں عرض کر چکا ہوں۔ اگر مجھے اپنی مزعومہ لعنتی موت سے بچانا تھا تو کم ازکم یوں کرتے کہ ان کی گرفتاری سے پہلے مجھے موت دے دیتے۔ تاکہ میری اپنی امت تو ایک طرف، یقینا یہودی بھی میری لعنتی موت کے قائل نہ ہو سکتے۔ پس مجھے بتایا جائے کہ میں کس بات کا شکریہ ادا کروں۔
یہ ہے وہ قدرتی جواب جو قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذہن میں آنا چاہئے۔ بشرطیکہ قادیانی اقوال واہیہ کو ٹھیک تسلیم کر لیا جائے۔ ہاں اسلامی تفسیر کو صحیح تسلیم کر لیں تو وہ حالت یقینا قابل ہزارشکر ہے۔ ہزارہا یہود قتل کے لئے تیار ہو کر آتے ہیں۔ مکان کو گھیر لیتے ہیں۔ مکروفریب کے ذریعہ گرفتاری کا مکمل سامان کر چکے ہیں۔ موت حضرت مسیح علیہ السلام کو سامنے نظر آتی ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ یعنی ’’(اے عیسیٰ علیہ السلام) میں تجھ پر قبضہ کرنے والا ہوں اور آسمان پر اٹھانے والا ہوں۔‘‘ پھر اس وعدہ کو اﷲتعالیٰ پورا کرتے ہیں اور یوں اعلان کرتے ہیں۔ ’’وایدناہ بروح القدس‘‘ یعنی ہم نے مسیح علیہ السلام کو جبرائیل فرشتہ کے ساتھ مدد دی۔ (جو انہیں اٹھا کر دشمنوں کے نرغہ سے بچا کر آسمان پر لے گئے) دوسری جگہ اس وعدہ کا ایفاء یوں مذکور ہے۔ ’’ماقتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ (یہود نے یقینی بات ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اٹھا لیا اﷲتعالیٰ نے ان کو آسمان پر) اسی ایفاء وعدہ اور معجزانہ حفاظت کو بیان کر کے شکریہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس آیت میں ’’واذ کففت بنی اسرائیل عنک‘‘ یعنی اے عیسیٰ علیہ السلام یاد کر ہماری نعمت کو جب ہم نے تم سے بنی اسرائیل کو روک لیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر واجب ہے کہ گردن مارے احسان کے جھکا دیں اور یوں عرض کریں۔ ’’رب اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علیّ‘‘ یا اﷲ مجھے توفیق دے کہ میں واقعی تیری معجزانہ نعمتوں کا شکریہ ادا کروں۔

قادیانی اعتراض اور اس کا جواب

اعتراض از مرزاقادیانی: ’’دیکھو آنحضرتﷺ سے بھی عصمت کا وعدہ کیاگیا تھا۔ حالانکہ احد کی لڑائی میں آنحضرتﷺ کو سخت زخم پہنچے تھے اور یہ حادثہ وعدہ عصمت کے بعد ظہور میں آیا تھا۔ اسی طرح اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فرمایا تھا۔ ’’واذ کففت بنی اسرائیل عنک‘‘ یعنی یاد کر وہ زمانہ کہ جب بنی اسرائیل کو جو قتل کا ارادہ رکھتے تھے۔ میں نے تجھ سے روک دیا۔ حالانکہ تواتر قومی سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح کو یہودیوں نے گرفتار کر لیا تھا اور صلیب پر کھینچ دیا تھا۔ لیکن خدانے آخر جان بچادی۔ پس یہی معنی ’’ اذ کففت ‘‘ کے ہیں۔ جیسا کہ ’’ واﷲ یعصمک من الناس ‘‘ کے ہیں۔‘‘
(نزول المسیح ص۱۵۱، خزائن ج۱۸ ص۵۲۹)
جواب از ابوعبیدہ نمبر:۱
مضمون ما سبق میں اس کا حقیقی اور الزامی رنگ میں جواب موجود ہے۔
جواب نمبر:۲…
’’ عصم ‘‘ کے معنی ہیں ’’بچا لینا‘‘ یعنی دشمن کا طرح طرح کے حملے کرنا اور ان حملوں کے باوجود جان کا محفوظ رکھنا۔ لیکن ’’ کف ‘‘ کے معنی ہیں روک لینا۔ یعنی ایک چیز کو دوسری تک پہنچنے کا موقعہ ہی نہ دینا۔ یہ دونوں آپس میں ایک جیسے کس طرح ہوسکتے ہیں؟ ہم اس پر بھی مفصل بحث کر کے ثابت کر آئے ہیں کہ کف کے استعمال کے موقعہ پر ضروری ہے کہ ایک فریق کو دوسرے فریق سے مطلق کسی قسم کا گزند نہ پہنچے۔ جب ہم شواہد قرآنی سے ثابت کر چکے ہیں کہ تمام قرآن کریم میں جہاں جہاں کف کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مکمل حفاظت کے معنوںمیں استعمال ہوا ہے تو ان معنوں کے خلاف اس آیت کے معنی کرنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟
لیجئے! ہم خود مرزاقادیانی کا اپنا اصول ایسے موقعہ پر صحیح معنوں کی شناخت کا پیش کر کے قادیانی جماعت سے درخواست کرتے ہیں کہ اگر ایمان کی ضرورت ہے تو اسلامی تفسیر کے خلاف اپنی تفسیر بالرائے کو ترک کر دو۔
’’اگر قرآن شریف اوّل سے آخر تک اپنے کل مقامات میں ایک ہی معنوں کو استعمال کرتا تو محل مبحوث فیہ میں بھی یہی قطعی فیصلہ ہوگا جو معنی … سارے قرآن شریف میں لئے گئے ہیں وہی معنی اس جگہ بھی مراد ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۲۹، خزائن ج۳ ص۲۶۷)
ہم چیلنج کرتے ہیں کہ تمام قرآن شریف میں جہاں جہاں کف کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ انہیں مذکورہ بالا معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ پس محل نزاع میں اس کے خلاف معنی کرنا حسب قول مرزا الحاد اور فسق ہوگا۔
جواب نمبر:۳…
ایک لمحہ کے لئے ہم مان لیتے ہیں۔ نہیں بلکہ قادیانی تحریف کی حقیقت الم نشرح کرنے کے لئے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ’’عصم‘‘ اور ’’کف‘‘ ہم معنی ہیں۔ پھر بھی قادیانی ہی جھوٹے ثابت ہوں گے۔ کیونکہ رسول کریمﷺ کے ساتھ وعدۂ ’’عصمت‘‘ جو خدا نے کیا۔ وہ مکمل حفاظت کے رنگ میں ظاہر کیا۔ یقینا قادیانی دجل وفریب کا ناطقہ بند کرنے کو ایسا کیاگیا۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ’’واﷲ یعصمک من الناس‘‘ کی بشارت کے بعد رسول کریمﷺ کو کفار کوئی جسمانی گزند بھی نہیں پہنچا سکے۔
قادیانی کا یہ کہنا کہ جنگ احد میں رسول کریمﷺ کا زخمی ہونا اور دانت مبارک کا ٹوٹ جانا اس بشارت کے بعد ہوا ہے۔ یہ ’’دو دو نے چارروٹیاں‘‘ والی مثال ہے اور قادیانی کے تاریخ اسلام اور علوم قرآنی سے کامل اور مرکب جہالت کا ثبوت ہے۔
جنگ احد ہوا تھا شوال ۳ھ میں اور رسول کریمﷺ کو زخم اور دیگر جسمانی تکلیف بھی اسی ماہ میں لاحق ہوئی تھی۔ جیسا کہ قادیانی خود تسلیم کر رہا ہے۔ مگر یہ آیت سورۂ مائدہ کی ہے۔ جو نازل ہوئی تھی۔ ۵ھ اور ۷ھ کے درمیان زمانہ میں۔ دیکھو خود مولوی محمد علی امیر جماعت لاہوری اپنی تفسیر میں یوں رقمطراز ہے۔
’’ان مضامین پر جن کا ذکر اس سورۂ مائدہ میں ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے اور یہ رائے اکثر محققین کی بھی ہے کہ اس سورت کے اکثر حصہ کا نزول پانچویں اور ساتویں سال ہجری کے درمیان ہے۔‘‘
(بیان القرآن ص۴۰۳، مطبوعہ ۱۴۰۱ھ)
اب رہا سوال خاص اس آیت ’’ واﷲ یعصمک من الناس ‘‘ کے نزول کا سواس بارہ میں ہم قادیانی نبی اور اس کی امت کے مسلم مجدد صدی نہم علامہ جلال الدین سیوطی کا قول پیش کرتے ہیں۔
’’ واﷲ یعصمک من الناس فی صحیح ابن حبان عن ابی ہریرۃؓ انہا نزلت فی السفر واخرج ابن ابی حاتم وابن مردویہ عن جابر انہا نزلت فی ذات الرقاع باعلیٰ نخل فی غزوۃ بنی انمار ‘‘
(تفسیر اتقان جزو اوّل ص۳۲)
مطلب جس کایہ ہے کہ غزوہ بنی انمار کے زمانہ میں یہ آیت سفر میں نازل ہوئی تھی۔ جب اس آیت کا وقت نزول غزوہ بنی انمار کا زمانہ ثابت ہوگیا تو اس کی تاریخ نزول کا قطعی فیصلہ ہوگیا۔ کیونکہ یہ بات تاریخ اسلامی کے ادنیٰ طالب علم سے بھی معلوم ہوسکتی ہے کہ غزوہ بنی انمار ۵ھ میں واقع ہوا تھا۔ مفصل دیکھو کتب تاریخ اسلام ابن ہشام وغیرہ۔
لیجئے! ہم اپنی تصدیق میں مرزاقادیانی کا اپنا قول ہی پیش کرتے ہیں۔ تاکہ مخالفین کے لئے کوئی جگہ بھاگنے کی نہ رہے۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’لکھا ہے کہ اوّل مرتبہ میں جناب پیغمبر خداﷺ چند صحابی کو برعایت ظاہر اپنی جان کی حفاظت کے لئے رکھا کرتے تھے۔ پھر جب یہ آیت ’’ واﷲ یعصمک من الناس ‘‘ نازل ہوئی تو آنحضرتﷺ نے ان سب کو رخصت کر دیا اور فرمایا کہ اب مجھ کو تمہاری حفاظت کی ضرورت نہیں۔‘‘
(الحکم ص۲، مورخہ ۲۴؍اگست ۱۸۹۹ئ، بحوالہ تفسیر القرآن موسومہ بہ خزینۃ العرفان قادیانی ص۵۹۲)

مرزاغلام احمد قادیانی کا سیاہ جھوٹ
پس مرزاقادیانی کا یہ لکھنا کہ: ’’جنگ احد کا حادثہ وعدہ عصمت کے بعد ظہور میں آیا تھا۔‘‘ بہت ہی گندہ اور سیاہ جھوٹ ہے۔ اﷲتعالیٰ جھوٹوں کے متعلق فرماتے ہیں: ’’ لعنۃ اﷲ علی الکذبین ‘‘ اور خود مرزاقادیانی جھوٹ بولنے والے کے بارہ میں لکھتے ہیں:

۱…
’’جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۰۶، خزائن ج۲۲ ص۲۱۵)
۲…
’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۳، خزائن ج۱۷ ص۵۶ حاشیہ)
۳…
’’جھوٹ بولنے سے بدتر دنیا میں اور کوئی برا کام نہیں۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۲۶، خزائن ج۲۲ ص۴۵۹)
۴…
’’جھوٹے پر خدا کی لعنت۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۱۱، خزائن ج۲۱ ص۲۷۵)
۵…
’’جھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے۔‘‘
(ریویو جلد اوّل نمبر۴ بابت ماہ اپریل ۱۹۰۲ء ص۱۴۸)
۶…
’’جھوٹ بولنے سے مرنا بہتر ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۷ ص۳۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۴)
۷…
’’جھوٹ ام الخبائث ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۷ ص۲۸، اشتہارات ج۳ ص۳۱)
حضرات! فرمائیے اور اپنی مطہر اور پاکیزہ ضمیروں سے مشورہ کر کے جواب دیجئے کہ مرزاقادیانی کی حیثیت اپنے ہی فتویٰ کی رو سے کیا رہ جاتی ہے؟ نبی، محدث، مسیح، موعود اور مجدد تو درکنار کیا وہ شریف انسان بھی ثابت ہوسکتے ہیں؟
 
Top