• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

خاتم النبیین اور اصحاب لغت

غلام نبی قادری نوری سنی

رکن ختم نبوت فورم
خاتم النبیین اور اصحاب لغت


خاتم النبیین ”ت“کی زبر یا زیرسے ہو قرآن وحدیث کی تصریحات اور صحابہ وتابعین کی تفاسیر اور آئمہ سلف کی شہادتوں سے بھی قطع نظر کرلی جائے اور فیصلہ صرف لغت عرب پر رکھ دیا جائے تب بھی لغت عرب یہ فیصلہ دیتا ہے کہ آیت مذکورہ کی پہلی قرات پر دو معنی ہوسکتے ہیں۔ آخرالنبیین اور نبیوں کے ختم کرنے والے اور دوسری قرات پر ایک معنی ہوسکتے ہیں یعنی آخر النبیین۔لیکن اگر حاصل معنی پر غور کیا جائے تو دونوں کا خلاصہ صرف ایک ہی نکلتا ہے۔ اور بہ لحاظ مراد کہا جاسکتا ہے کہ دونوں قراتوں پر آیت کے معنی لغۃ ً یہی ہیں کہ آپ ﷺ سب انبیاء علیہم السلام کے آخر ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ تفسیر روح المعانی میں تبصریح موجود ہے۔”والخاتم اسم آلۃ لما یختم بہ کا لطابع لما یطبع بہ فمعنی خاتم النبیین الذی ختم النبییون بہ ومآ لہ آخر النبیین ۰ روح المعانی ص 59 ج7 “(اور خاتم بالفتح اس آلہ کا نام ہے جس سے مہر لگائی جائے۔ پس خاتم النبیین کے معنی یہ ہوں گے:”وہ شخص جس پر انبیاء ختم کئے گئے“ اور اس معنی کا نتیجہ بھی یہی آخرالنبیین ہے۔)اور علامہ احمد معروف بہ ملاجیون صاحب نے اپنی تفسیر احمدی میں اسی لفظ کے معنی کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے:”والمآ ل علیٰ کل توجیہ ھو المعنی الآ خر ولذلک فسر صاحب المدارک قراء ۃ عاصم بالاٰ خرو صاحب البیضاوی کل القراء تین بالاٰ خر۰“(اور نتیجہ دونوں صورتوں (بالفتح وبالکسر) میں وہ صرف معنی آخر ہی ہیں اور اسی لئے صاحب تفسیر مدارک نے قرات عاصم یعنی بالفتح کی تفسیر آخر کے ساتھ کی ہے اور بیضاوی ؒنے دونوں قراتوں کی یہی تفسیر کی ہے۔)روح المعانی اور تفسیر احمدی کی ان عبارتوں سے یہ بات بالکل روشن ہوگئی۔ کہ لفظ خاتم کے دو معنی آیت میں بن سکتے ہیں۔ ان کا بھی خلاصہ اور نتیجہ صرف ایک ہی ہے۔یعنی آخر النبیین اور اسی بناء پر بیضاوی ؒ نے دونوں قراتوں کے ترجمہ میں کوئی فرق نہیں کیا۔ بلکہ دونوں صورتوں میں آخر النبیین تفسیر کی ہے۔خدا وند عالم ائمہ لغت کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے صرف اسی پر بس نہیں کی کہ لفظ خاتم کے معنی کو جمع کردیا۔ بلکہ تصریحا ً اس آیت شریفہ کے متعلق جس پر اس وقت ہماری بحث ہے صاف طور پربتلادیا کہ تمام معانی میں سے جو لفظ خاتم میں لغۃً محتمل ہیں اس آیت میں صرف یہی معنی ہوسکتے ہیں کہ آپ ﷺ سب انبیاء کے ختم کرنے والے اور آخری نبی ہیں۔خدائے علیم وخبیر ہی کو معلوم ہے کہ لغت عرب پر آج تک کتنی کتابیں چھوٹی بڑی اور معتبر وغیرمعتبر لکھی گئیں۔ اور کہاں کہاں اور کس صورت میں موجود ہیں۔ ہمیں نہ ان سب کے جمع کرنے کی ضرورت ہے اور نہ یہ کسی بشر کی طاقت ہے۔ بلکہ صرف ان چند کتابوں سے جو عرب وعجم میں مسلم الثبوت اور قابل استدلال سمجھی جاتی ہیں ”مشتے نمونہ از خروارے“ ہدیہ ناظرین کرکے یہ دکھلانا چاہتے ہیں کہ لفظ خاتم بالفتح اور بالکسر کے معنی میں سے ائمہ لغت نے آیت مذکورہ میں کون سے معنی تحریر کئے ہیں۔


مفردات القرآن


یہ کتاب امام راغب اصفہانی رحمۃُ اللہ علیہ کی وہ عجیب تصنیف ہے کہ اپنی نظیر نہیں رکھتی۔ خاص قرآن کے لغات کو نہایت عجیب انداز سے بیان فرمایا ہے۔ شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃُ اللہ علیہ نے اتقان میں فرمایا ہے کہ لغات قرآن میں اس سے بہتر کتاب آج تک تصنیف نہیں ہوئی۔ آیت مذکورہ کے متعلق اس کے الفاظ یہ ہیں:”وخاتم النبیین لانہ ختم النبوۃ ای تممھا بمجیۂ۰۔ مفردات راغب ص 142“(آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے نبوت کو ختم کردیا یعنی آپ ﷺ نے تشریف لاکر نبوت کو تمام فرمادیا)


المحکم لابن السیدہ


لغت عرب کی وہ متعمد علیہ کتاب ہے جس کو علامہ سیوطی رحمۃُ اللہ علیہ نے ان معتبرات میں سے شمار کیا ہے کہ جن پر قرآن کے بارے میں اعتماد کیا جا سکے۔”وخاتم کل شیء وخاتمتہ عاقبتہ وآخرہ از لسان العرب“ (اور خاتم اور خاتمہ ہر شے کے انجام اور آخر کو کہا جاتا ہے۔)


تہذیب الا زھری


اس کو بھی سیوطی رحمۃُ اللہ علیہ نے معتبرات لغت میں شمار کیا ہے۔ اس میں لکھا ہے:”والخاتم والخاتم من اسماء النبی ﷺ وفی التنزیل العزیز ماکان محمد ابا احدمن رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین ای آخرھم۰ از لسان العرب“ (اور خاتم بالکسر اور خاتم بالفتح نبی کریم ﷺ کے ناموں میں سے ہیں اور قرآن عزیز میں ہے کہ نہیں ہیں آنحضرت ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول اور سب نبیوں میں آخری نبی ہیں۔)اس میں کس قدر صراحت کے ساتھ بتلادیا گیا کہ خاتم بالکسر اور خاتم بالفتح دونون آنحضرت ﷺ کے نام ہیں۔ اور قرآن مجید میں خاتم النبیین سے آخر النبیین مراد ہے۔کیا آئمہ لغت کی اتنی تصریحات کے بعد بھی کوئی منصف اس معنی کے سوا اور کوئی معنی تجویز کرسکتا ہے؟۔


لسان العرب


لغت کی مقبول کتاب ہے۔ عرب وعجم میں مستندمانی جاتی ہے۔ اس کی عبارت یہ ہے:”خاتمھم وخاتمھم وآخرھم عن اللحیانی ومحمد ﷺ خاتم الانبیاء علیہ وعلیھم الصلوٰۃ والسلام ۰“(خاتم القوم بالکسر اور خاتم القوم بالفتح کے معنی آخر القوم ہیں اور انہی معانی پر لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے‘ محمد ﷺ خاتم الانبیاء (یعنی آخر الانبیاء))اس میں بھی بوضاحت بتلایا گیا کہ بالکسر کی قرات پڑھی جائے یا بالفتح کی ہر صورت میں خاتم النبیین اور خاتم الانبیاء کے معنی آخر النبیین اور آخر الانبیاء ہوں گے۔لسان العرب کی اس عبارت سے ایک قاعدہ بھی مستفاد (دال) ہوتا ہے کہ اگرچہ لفظ خاتم بالفتح اور بالکسر دونوں کے بحیثیت نفس لغت بہت سے معانی ہوسکتے ہیں لیکن جب قوم یا جماعت کی طرف سے اس کی اضافت کی جاتی ہے تو اس کے معنی صرف آخر اور ختم کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ غالباً اسی قاعدہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لفظ خاتم کو تنہا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ قوم اور جماعت کی ضمیر کی طرف اضافت کے ساتھ بیان کیا ہے۔لغت عرب کے تتبع (تلاش) کرنے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ لفظ خاتم بالکسر یا بالفتح جب کسی قوم یا جماعت کی طرف مضاف ہو تو اس کے معنی آخر ہی کے ہوتے ہیں۔ آیت مذکورہ میں بھی خاتم کی اضافت جماعت ”نبیین“ کی طرف ہے۔ اس لئے اس کے معنی آخر النبیین اور نبیوں کے ختم کرنے والے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتے۔ اس قاعدہ کی تائید تاج العروس شرح قاموس سے بھی ہوتی ہے۔ وہوہذا:


تاج العروس


شرح قاموس للعلامتہ الزبیدی میں لحیانی سے نقل کیا ہے:”ومن اسماۂ علیہ السلام الخاتم والخاتم وھو الذی ختم النبوۃ بمجیۂ ۰“(اور آنحضرت ﷺ کے اسماء مبارکہ میں سے خاتم بالکسر اور خاتم الفتح بھی ہے اور خاتم وہ شخص ہے جس نے اپنے تشریف لانے سے نبوت کو ختم کردیا ہو۔)


مجمع البحار


جس میں لغات حدیث کو معتمد طریق سے جمع کیا گیا ہے۔ اس کی عبارت درج ذیل ہے:”الخاتم والخاتم من اسماۂ ﷺ ”ش“ بالفتح اسم ای آخرھم ووبالکسر اسم فاعل۰مجمع البحارص15 ج2 طبع3“(خاتم بالکسر اور خاتم بالفتح نبی کریم ﷺ کے ناموں میں سے ہے۔ بالفتح اسم ہے جس کے معنی آخر کے ہیں۔ اور بالکسر اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی تمام کرنے والے کے ہیں۔) ”خاتم النبوۃ بکسر التاء ای فاعل الختم وھوالا تمام وبفتحھا بمعنی الطابع ایی شیء یدل علیٰ انہ لانبی بعدہ ۰ مجمع البحار ص 15 ج 3طبع 3“ (خاتم النبوۃ بکسر تایعنی تمام کرنے والا اور بالفتح تا بمعنی مہر یعنی وہ شے جو اس پر دلالت کرے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔)


قاموس میں ہے


”والخاتم آخر القوم کالخاتم ومنہ قولہ تعالیٰ وخاتم النبیین ای آخرھم۰“ (اور خاتم بالکسر اور بالفتح‘ قوم میں سب سے آخر کو کہا جاتا ہے اور اسی معنی میں ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد خاتم النبیین یعنی آخر النبیین۔)اس میں بھی لفظ ”قوم“ بڑھا کر قاعدہ مذکورہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ نیز مسئلہ زیر بحث کا بھی نہایت وضاحت کے ساتھ فیصلہ کردیا ہے۔


کلیات ابی البقاء


لغت عرب کی مشہور ومعتمد کتا ب ہے۔ اس میں مسئلہ زیر بحث کو سب سے زیادہ واضح کردیا ہے۔ ملاحظہ ہو:”وتسمیۃ نبینا خاتم الا نبیاء لان الخاتم آخر القوم قال اللہ تعالیٰ ماکان محمد ابا احدمن رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین۰ کلیات ابی البقاء ص 319“(اور ہمارے نبی ﷺ کا نام خاتم الانبیاء اس لئے رکھا گیا کہ خاتم آخر قوم کو کہتے ہیں۔ (اور اسی معنی میں) خدا وند عالم نے فرمایا ہے کہ نہیں ہیں محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ لیکن اللہ کے رسول ہیں اور آخرسب نبیوں کے۔)اس میں نہایت صاف کردیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کے خاتم الانبیاء اور خاتم النبیین نام رکھنے کی وجہ ہی یہ ہے کہ ”خاتم“ خاتم القوم کو کہا جاتا ہے۔ اور آپ ﷺ آخر النبیین ہیں۔ نیز ابوالبقاء نے اس کے بعد کہا ہے کہ:”ونفی الا عم یستلزم نفی الا خص ۰“ (اور عام کی نفی‘ خاص کی نفی کو بھی مستلزم ہے۔)جس کی غرض یہ ہے کہ نبی عام ہے۔ تشریعی ہو یا غیر تشریعی۔ اور رسول خاص تشریعی کے لئے بولا جاتا ہے۔ اور آیت میں جبکہ عام یعنی نبی کی نفی کردی گئی تو خاص یعنی رسول کی بھی نفی ہونا لازمی ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ اس آیت سے تشریعی اور غیر تشریعی ہر قسم کے نبی کا اختتام اور آپ ﷺ کے بعد پیدا ہونے کی نفی ثابت ہوتی ہے۔ جو لوگ آیت میں تشریعی اور غیر تشریعی کی تقسیم گھڑتے ہیں علامہ ابوالبقاء نے پہلے ہی سے ان کے لئے رد تیار رکھا ہے۔


صحاح العربیہ للجوہری


جس کی شہرت محتاج بیان نہیں۔ اس کی عبارت یہ ہے:”والخاتم والخاتم بکسر التاء وفتحھا والخیتام والخاتام کلہ بمعنی والجمع الخواتیم وخاتمۃ الشیئ آخرہ ومحمد ﷺ خاتم الانبیاء علیہم السلام ۰“(اور خاتم اور خاتم تا کے زیر اور زبر دونوں سے اور ایسے ہی خیتام اور خاتام سب کے معنی ایک ہیں۔ اور جمع خواتیم آتی ہے۔ اور خاتمہ کے معنی آخر کے ہیں اور اسی معنی میں محمد ﷺ کو خاتم الانبیاء علیہم السلام کہا جاتا ہے۔)


اس میں تصریح کردی گئی ہے کہ خاتم اور خاتم بالکسر وبالفتح دونوں کے ایک معنی ہیں۔ یعنی آخر قوم۔


منتہی الارب


میں لفظ خاتم کے متعلق لکھا ہے:”خاتم کصاحب مہر وانگشتری‘ وآخر ہر چیز ے وپایان آں وآخر قوم وخاتم بالفتح مثلہ ومحمد خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم وعلیہم اجمعین۰“


صراح میں ہے


”خاتمۃ الشیئ آخرہ ومحمد خاتم الا نبیاء بالفتح صلوات اللہ علیہ وعلیہم اجمعین۰“ (خاتمہ شے کے معنی آخر شے کے ہیں اور اسی معنی میں محمد ﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔)لغت عرب کے غیر محدود دفتر میں سے یہ چند اقوال آئمہ لغت بطور مشتے نمونہ از خروارے پیش کئے گئے ہیں۔ جن سے انشاء اللہ تعالیٰ ناظرین کو یقین ہوگیا ہوگا کہ ازردئے لغت عرب‘آیت مذکورہ میں خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتے۔اور لفظ خاتم کے معنی آیت میں آخر اور ختم کرنے والے کے علاوہ ہر گز مراد نہیں بن سکتے۔یہاں تک بحمد اللہ یہ بات بالکل روشن ہوچکی ہے کہ آیت مذکورہ میں خاتم بالفتح اور بالکسر کے حقیقی معنی صرف دو ہوسکتے ہیں۔ اور اگر باالفرض مجازی معنی بھی لئے جائیں تواگرچہ اس جگہ حقیقی معنی کے درست ہوتے ہوئے اس کی ضرورت نہیں۔ لیکن بالفرض اگر ہوں تب بھی خاتم کے معنی مہر کے ہوں گے۔ اوراس وقت آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ آپ ﷺ انبیاء پر مہر کرنے والے ہیں۔
 
Top