• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ختم نبوت ازوائے قران مجید

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الْیَوْمَ اکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنکُمْ واتممت عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ۔

1.یعنی آج میں نے قرآن کے اتارنے اور تکمیل نفوس سے تمہارا دین تمہارے لیے کامل کردیا اور اپنی (نبوت کی) نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کرلیا۔ حاصل مطلب کہ قرآن کریم جس قدر نازل ہونا تھا ہوچکا اور مستعد دلوں میں نہایت حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کرچکا اور تربیت کو کمال تک پہنچا دیا اور اپنی نعمت کو ان پر پورا کردیا۔''(روحانی ص344 تا 349، ج9)

2۔ قرآن شریف جیسا کہ آیت اَلْیَوْمَ اکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ اور آیت ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین میں صریح نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کرچکا ہے اور صریح لفظوں میں فرما چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں۔(روحانی ص174، ج13 )

3۔ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو مخاطب کیا کہ میں نے تمہارے دین کو کامل کیا اور تم اپنی نعمت پوری کی اور اس آیت کو اس طور سے نہ فرمایا کہ آج میں نے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے دین کو کامل کردیا۔ اس میں حکمت یہ ہے تاکہ ظاہر ہو کہ صرف قرآن کی تکمیل نہیں ہوئی بلکہ ان کی بھی تکمیل ہوگئی جن کو قرآن پہنچایا گیا اور رسالت کی علت غائی کمال تک پہنچ گئی۔ (حاشیہ نور القرآن نمبر1، ص19) (روحانی ص352، ج9)

4۔ ہم لوگ ختم ہونا وحی کا مانتے ہیں۔ گو کلام الٰہی اپنی ذات میں غیر محدود ہے لیکن چونکہ وہ مفاسد جن کی اصلاح کے لیے کلام الٰہی نازل ہوئی ہے ( یا رسول آتے ہیں۔ ناقل) وہ قدر محدود سے زیادہ نہیں اس لیے کلام الٰہی بھی اسی قدر نازل ہوئی جس قدر نبی آدم کو ضرورت تھی اور قرآن ایسے زمانے میں آیا کہ جس میں ہر طرح کی ضرورتیں جن کا پیش آنا ممکن تھا پیش آگئی تھیں۔ اس لیے قرآن شریف کی تعلیم بھی انتہائی درجہ پر نازل ہوئی پس انہی معنوں میں شریعت فرقانی مختم و مکمل ٹھہری اور پہلی شریعتیں ناقص رہیں۔ اب قرآن اور دوسری کتابوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی کتابیں خلل سے بھی محفوظ رہتیں تاہم بوجہ ناقص ہونے کے تعلیم کے ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم یعنی قرآن ظہور ہوتا مگر قرآن کے لیے اب یہ ضرورت در پیش نہیں کہ بعد کوئی کتاب آوے کمال کے بعد اور کوئی درجہ باقی نہیں۔ ہاں اگر فرض کیا جائے کہ اصول قرآن دید اور انجیل کی طرح مشرکانہ بنائے جائیں گے یا مسلمان شرک اختیار کرلیں گے تو بیشک ایسی صورتوں میں دوسری شریعت اور دوسرے رسول کا آنا ضروری ہے مگر یہ دونوں قسم کے فرض محال ہیں۔ قرآن شریف کا محرف ہونا اس لیے محال ہے کہ خدا نے خود فرمایا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ یعنی اس کتاب کو ہم نے ہی نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں اور مسلمانوں کا شرک اختیار کرنا اس جہت سے ممتنعات سے ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس بارے میں بھی پیشگوئی کرکے فرما دیا وَمَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ یعنی شرک مخلوق پرستی نہ اپنی کوئی شاخ نکالے گی نہ پہلی حالت پر عود کرے گی۔ پس ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت میں خاتم الرسل ہیں۔ (روحانی ص101،ج1)

مرزائی عذر:

آیت اَلْیَوْمَ اکْمَلْت لکم دینکم کا یہ جواب ہے کہ:
''(1) تورات بھی تمام تھی مگر اس کے بعد پھر کتاب آگئی (2) قرآن شاہد ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام پر بھی نعمت پوری کی گئی تھی (3) انعام صرف نبوت ہی نہیں آیت قرآن کی رو سے نبوت صدیقیت، شہادت، صالحیت سب انعام ہیں کیا یہ بھی بند ہیں؟'' (اکٹ بک ص512 تا 513 )

الجواب:

(1) تورات بیشک تمام تھی مگر اپنے وقت اور قوم کے لیے گذشتہ بنی مخصوص قوموں کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ (ایضاً ص443 )

وَکَانَ النبی یُبْعَثُ اِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً وَبُعِثْتُ اِلَی الناسِ عَامَّۃً پہلے نبی اپنی اپنی قوم کی طرف آئے اور میں تمام دنیا کی طرف۔( اخرجہ البخاری فی الصحیح ص47،ج1 کتاب اتیمم باب نمبر1 و مسلم فی الصحیح ص199،ج1 کتاب المساجد و مواضع الصلوٰۃ واحمد فی مسندہٖ ص304 ج3 واوردہ مرزا خدا بخش القادیانی فی عسل مصفّٰی ص226) (بخاری و مسلم مشکوٰۃ باب سید المرسلین)

(2) ہاں توریت اپنی ذات میں تمام تھی مگر کامل دین الٰہی اور اتمام نبوت اور تعلیم عالمگیر کے رو سے ناقص تھی '' اب قرآن شریف اور دوسری کتابوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی کتابیں اگر ہر ایک طرح کے خلل سے محفوظ بھی رہتیں پھر بھی بوجہ ناقص ہونے تعلیم کے ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم آوے۔ مگر قرآن شریف کے لیے اب یہ ضرورت در پیش نہیں کیونکہ کمال کے بعد اور کوئی درجہ نہیں تو نئی شریعت اور نئے الہام کے نازل ہونے میں بھی امتناع عقلی لازم آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت میں خاتم الرسل ہیں۔''(روحانی ص101 تا 103، ج1 )

اور حضرت یوسف علیہ السلام پر جو نعمت تمام ہوئی وہ اسی طرح کا اتمام تھا کَمَا اَتَمَّھَا عَلٓی ابویک ( پ12 یوسف آیت 6) (یوسف ع1) جیسا کہ اس کے باپ دادوں پر ہوا تھا۔ یعنی وقتی اور حسب ضرورت زمانہ جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں۔

نبوت، صدیقیت، شہادۃ، صالحیت بلاشبہ انعام ہے اسی طرح صاحب شریعت نبی ہونا بھی انعام ہے۔ جس کی قسمت میں ابتدائے آفرینش سے قسام ازل نے ختم نبوت کا تمغہ مقسوم رکھا تھا۔ جبکہ آدم علیہ السلام منجدل فی طینتہٖ گوندھی ہوئی مٹی میں پڑے تھے۔ اس کے بعد بھی اس انعام کی توقع بلکہ تقدیر الٰہی کو الٹ دینے کی ناپاک کوشش کرنا کچھ اوندھی کھوپری والے انسانوں کو ہی سوجھتا ہے اَلاَ اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطَانِ ھُمُ الْخَاسِرُوْنَ ۔(پ28 المجادلہ آیت 19 )

مرزائی عذر:

آیات وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ۔ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا ۔ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تمام بنی اسرائیل کی طرف رسول تھے کیا ان کے بعد بنی اسرائیل ہی کے لیے حضرت داؤد علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام نبی ہو کر نہیں آئے؟ (پاکٹ بک ص514)

الجواب

ہم پہلے ثابت کر آئے ہیں کہ وہ شریعت ناتمام و ناقص تھی۔ اس لیے وقتی ضروریات کے لیے انبیاء کا آنا ضرور تھا۔ اور تورات کے متعلق قرآن شریعت میں ہرگز ہرگز حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ دعویٰ موجود نہیں کہ تمام بنی اسرائیل کے لیے صرف میں ہی اکیلا رسول ہوں بخلاف اس کے قرآن مجید کامل مکمل غیر متبدل اٹل قانون اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لیے اکیلے رسول ہونے کے مدعی ہیں اُرْسِلتُ اِلَی الْخَلْقِ کَآفَّۃً وَخُتِمِ بِیَ النَّبِیُّوْنَ ۔ (صحیح مسلم) میں تمام دنیا جہان کی طرف بھیجا گیا ہوں میرے ساتھ نبیوں کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اَنَا رَسُوْلُ مَن ادرکتُ حَیًّا ومَنْ یُوْلَدُ بَعْدِیْ ۔(کنز العمال ص404،ج11 رقم الحدیث 31886 و طبقات ابن سعد 1۔1۔127)
'' خدا نے سب دنیا کے لیے ایک ہی نبی بھیجا۔'' (روحانی ص144،ج23 )
 

اکرم

رکن ختم نبوت فورم
آیت ختم نبوت کی تشریح
مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا

(سورۃ احزاب :41)

آیت کا ترجمہ اور تشریح
محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تم میں سے کسی بالغ مرد کے باپ نہیں لیکن اﷲ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النّبییّن ہیں۔ کسی بالغ مَرد کا باپ نہ ہونا اِس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ وہ نبی نہیں ہے۔ اگر قرآن کریم نے یہ دلیل پیش کی ہوتی کہ جو شخص کسی بالغ مَرد کا باپ نہ ہو وہ نبی نہیں ہو سکتا یا قرآن کریم سے پہلے بعض قوموں کا یہ عقیدہ ہوتا تو ہم کہتے کہ قرآن کریم میں اس عقیدہ کا اِستثناء بیان کیا گیا ہے یا اِس عقیدہ کی تردید کی گئی ہے لیکن یہ تو کسی قوم کا مذہب نہیں کہ جو کسی مَرد کا باپ نہ ہو وہ نبی نہیں ہو سکتا۔ مسلمان اور عیسائی تو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی نبوت کے قائل ہیں اور یہودی ان کی بزرگی مانتے ہیں مگر یہ کوئی تسلیم نہیں کرتا کہ ان کے ہاں اَولاد تھی کیونکہ ان کی تو شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ پس اِس آیت کے معنے کیا ہوئے کہ محمدؐ تم میں سے کسی بالغ مَرد کے باپ نہیں لیکن نبی ہیں۔ لازماً اِس فقرہ کی کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ پھر یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ایک شخص جس کے متعلق لوگ غلطی سے یہ کہتے تھے کہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا متبنّٰی ہے اس اظہار کے بعد کہ وہ متبنّٰی نہیں اِس امر کا کیا تعلق تھا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کا ذکر کیا جاتا اور پھر اِس بات کا کیا تعلق تھا کہ آپ ؐ کی ختمِ نبوت کا ذکر کیا جاتا۔ کیا اگر زید رضی اﷲ عنہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے دیتے اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان سے شادی نہ کرتے تو ختم نبوت کا مسئلہ مخفی رہ جاتا۔ کیا اتنے اہم اور عظیم الشان مسائل یونہی ضمناً بیان ہؤا کرتے ہیں؟ اِس کے علاوہ جیسا کہ ہم اُوپر لکھ چکے ہیں کسی مَرد کے باپ ہونے یا نہ ہونے کے ساتھ نبوت کا کوئی تعلق نہیں۔ پس ہمیں قرآن کریم پر غور کرنا چاہئے کہ کیا کسی اَور جگہ کوئی ایسی بات بیان ہوئی ہے جس سے اگر بالغ مَردوں کے باپ ثابت نہ ہوں تو لفظ مُشتبہ ہو جاتا ہے کیونکہ لٰکِنْ کا لفظ عربی زبان میں اور اس کے ہم معنی لفظ دُنیا کی ہر زبان میں کسی شُبہ کے دُور کرنے کے لئے آتے ہیں۔

سورۃ الکو ثر اور آیت خاتم النبیین کا تعلق
اِس اُلجھن کو دُور کرنے کے لئے ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں صاف لکھا ہؤا نظر آتا ہے کہ:-
اِنَّآ اَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ šفَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ šاِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُš

(سورۃ الکوثر)

ہم نے تجھ کو کوثر عطا فرمایا ہے پس تو اﷲ تعالیٰ کی عبادتیں اور قربانیاں کر۔ یقینا تیرا دُشمن ہی نرینہ اولاد سے محروم ہے، تُو نہیں۔
یہ آیت مکّی زندگی میں نازل ہوئی تھی اس میں ان مُشرکینِ مکّہ کا ردّ کیا گیا تھا جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرزندکی وفات ہو جانے پر طعنہ دیا کرتے اور کہا کرتے تھے کہ اس کی تو نرینہ اولاد نہیں۔ آج نہیں تو کل اس کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ (البحر المحیط)

اِس سُورۃ کے نزول کے بعد مسلمانوں کو یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اولاد ہو گی اور زندہ رہے گی لیکن ہؤا یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندہ رہنے والی اولادِ نرینہ تو ان کے خیال کے مطابق ہوئی نہیں اور جن دشمنوں کے متعلق ھُوَ الْاَبْتَرُ کہا گیا تھا ان کی اولادِ نرینہ زندہ رہی۔ چنانچہ ابو جہل کی اولاد بھی زندہ رہی، عاص کی اولاد بھی زندہ رہی، ولید کی اولاد بھی زندہ رہی (گو آگے چل کر ان کی اولاد مسلمان ہو گئی اور ان میں سے بعض لوگ اکابر صحابہ ؓ میں بھی شامل ہوئے) جب حضرت زید ؓ کا واقعہ پیش آیا اور لوگوں کے دلوں میں شُبہات پیدا ہوئے کہ زید ؓ کی مطلّقہ سے جو آپ ؐکا متبنّٰی تھا آپ ؐ نے شادی کر لی ہے اور یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے کیونکہ بہو سے شادی جائز نہیں تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم جو سمجھتے ہو کہ زید (رضی اﷲ عنہ) محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں یہ غلط ہے۔ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تو کسی بالغ جوان مَرد کے باپ ہیں ہی نہیں اور ”مَاکَانَ‘‘ کے الفاظ عربی زبان میں صرف یہی معنی نہیں دیتے کہ اِس وقت باپ نہیں بلکہ یہ معنی بھی دیتے ہیں کہ آئندہ بھی باپ نہیں ہوں گے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے ”کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا‘‘(سورۃ نساء) یعنی اﷲ تعالیٰ عزیز و حکیم تھا، ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ اِس اعلان پر قدرتاً لوگوں کے دلوں پر ایک اَور شُبہ پیدا ہونا تھا کہ مکّہ میں تو سورۃ کوثر کے ذریعہ یہ اعلان کیا گیا تھا کہ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے دشمن تو اولادِ نرینہ سے محروم رہیں گے مگر آنحضرت (صلی اﷲ علیہ وسلم) محروم نہیں رہیں گے لیکن اب سالہا سال کے بعد مدینہ میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) نہ اب کسی بالغ مَرد کے باپ ہیں نہ آئندہ ہوں گے تو اس کے یہ معنے ہوئے کہ سُورۃ کوثر والی پیشگوئی (نعوذ باﷲ) جھوٹی نکلی اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت مشکوک ہے۔

اِس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ یعنی ہمارے اِس اعلان سے لوگوں کے دلوں میں یہ شُبہ پیدا ہؤا ہے کہ یہ اعلان تو (نعوذ باﷲ) محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے جھوٹا ہونے پر دلالت کرتا ہے لیکن اس اعلان سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے۔ باوجود اِس اِعلان کے محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) اﷲ کے رسُول ہیں بلکہ خاتم النّبییّن ہیں یعنی نبیوں کی مُہر ہیں۔ پچھلے نبیوں کے لئے بطور زینت کے ہیں اور آئندہ کوئی شخص نبوت کے مقام پر فائز نہیں ہو سکتا جب تک کہ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی مُہر اس پر نہ لگی ہو۔ ایسا شخص آپ ؐ کا رُوحانی بیٹا ہو گا اور ایک طرف سے ایسے رُوحانی بیٹوں کے محمد رسُول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی اُمّت میں پیدا ہونے سے اور دوسری طرف اکابرِ مکّہ کی اولاد کے مسلمان ہو جانے سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ سُورۃ کوثر میں جو کچھ بتایا گیا تھا وہ ٹھیک تھا۔ ابو جہل، عاص اور ولید کی اولاد ختم کی جائے گی اور وہ اولاد اپنے آپ کو محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) سے منسوب کر دے گی اور آپ ؐ کی رُوحانی اولاد ہمیشہ جاری رہے گی اور قیامت تک ان میں ایسے مقام پر لوگ فائز ہوتے رہیں گے جس مقام پر کوئی عورت کبھی فائز نہیں ہو سکتی یعنی نبوت کا مقام۔ جو صرف مَردوں کے لئے مخصوص ہے۔

خلا صہ جواب
پس سورۃ کوثر کو سورہ احزاب کے سامنے رکھ کر ان معنوں کے سوا اور کوئی معنے ہو ہی نہیں سکتے۔ اگر خاتم النّبییّن کے یہ معنے کئے جائیں کہ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) تم میں سے کسی بالغ مرد کے باپ نہیں لیکن وہ اﷲ کے رسول ہیں اور آئندہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ تو یہ آیت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے اور سیاق و سباق سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہتا اور کفّار کا وہ اعتراض جس کا سورۃ کوثر میں ذکر کیا گیا ہے پختہ ہو جاتا ہے۔
 

اکرم

رکن ختم نبوت فورم
بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے خاتم النبین قرار دیا ہے اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ اس کے معنی ہیں ’’ تمام انبیاء کو ختم کرنے والا‘‘ اس میں سے نہ تو کوئی مستثنیٰ ہے اور نہ ہی ان معنوں کی تخصیص جائز ہے بلکہ علماء نے لکھا ہے کہ اس میں سے استثناء کرنا یاتخصیص کرنا کفر ہے اور جو ایسا کرے وہ کافر ہے۔ اس کے جواب میں ہم پوچھتے ہیں کہ پھر:

1۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے سرور کونین سید الثقلین محمد ﷺ کے متعلق جنہوں نے مسلمانوں کو خوشخبری دی کہ آخری زمانہ میں نبی اللہ عیسیٰ کو ان کی اصلاح اور ہدایت کے لئے مبعوث کیا جائے گا۔

2۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے ان تمام صحابہ کرام اور محدثین کے متعلق جنہوں نے نزول مسیح کی احادیث کوروایت کیا اور تواتر سے روایت کیا اور ساتھ ہی یقین ظاہر کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانہ میں آنا برحق ہے اوروہ نبی اللہ ہوگا۔

3۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے کہ تمام اہل السنت والجماعت کے آئمہ اور مقلدین کے متعلق جو اس اعتقاد پر قائم ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی پیشگوئی یقینی ہے ۔ وہ یقیناًآئیں گے اور اسلام کو دنیا پر غالب کریں گے اور دجالی فتنے کا ازالہ فرمائیں گے۔

4۔ ان علماء کا کیا فتوی ہے ان تما م متکلمین اور مفسرین کے متعلق جنہوں نے آیت خاتم النبین کی تفسیر بیا ن کرتے ہوئے ساتھ ہی عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کو تسلیم کیا ہے اور لکھاہے کہ وہ متبع شریعت محمدیہ ہو کر آئیں گے اس لئے ان کا آنا ختم نبوت کے منافی نہیں۔

5۔ پھر ان علماء کا کیا فتویٰ ہے ان علماء کرام اور آئمہ عظام کے بارے میں جنہوں نے خاتم النبیین کے معنے اور تفسیر ایسی بیان کی ہے جو اس مطلب سے زیادہ اعلیٰ اورمطلب خیز ہے اور وہ امتی نبی کے آنے میں روک بھی نہیں بن سکتی۔۔۔۔

6۔ پھر خاتم النبیین کے معنی ’’ تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ بالکل مبہم ہیں ، سوال یہ ہے کہ جو انبیاء گزر چکے اور وفات پا گئے ہیں انہیں بند یا ختم کرنے کے کیا معنی؟ وہ تو پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں اور ایک نبی ( عیسیٰ علیہ السلام) جو عوام کے خیال کے مطابق ابھی زندہ تھے انہیں نہ ختم کر سکے اور نہ ہی ان کا آنا بند ہوا۔

7۔ ایک اور سوا ل بھی اس ترجمہ کے متعلق یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی بھیجنا یا نہ بھیجنا کس کا کام ہے۔ خدا تعالیٰ کا یا نبی کریم ﷺ کا؟

قرآن کریم (سور ہ الدخان آیت 6) میں فرمایا ’’اِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ‘‘ کہ ہم ہی رسول بھیجتے ہیں۔ پس جب رسول بھیجنا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے تو بند کرنا یا ختم کرنا بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ اس طرح خاتم النبین تو خدا کی صفت قرار پائی۔ وہی مرسل النبیین ہوا اور وہی خاتم النبیین ہوا۔حالانکہ قرآن مجید کی گواہی یہ ہے کہ رسول پاک ﷺ خاتم النبیین ہیں۔

8۔ پھر دوسرے انبیاء تو ہمیشہ خواہش کرتے بلکہ دعا مانگتے رہے کہ خدا تعالیٰ ان کے متبعین کو بڑے روحانی درجات عطا فرمائے اور اپنے قرب سے انہیں نوازتا رہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے سامنے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو اعلان ہو گیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ اور بلند مرتبہ نصیب نہ ہوگا کیا یہی فضیلت ہے جو آپ کو عطا کی گئی، کیا یہی اعلیٰ درجہ ہے جو آ پ کی امت کے حصہ میں آیا؟ پہلی امتوں میں شہداء اور صدیقین کے علاوہ خدا تعالیٰ انبیاء بھی مبعوث فرماتا رہا لیکن اس امت میں شہداء اور صدیقین تو ہونگے مگر کسی فرد کو نبوت کے شرف سے نہ نوازا جائے گا۔ شیخ رشید رضا ’’ من یطع اللہ والرسول فاولٰئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

ترجمہ :۔ کہ یہ چار قسمیں (نبی ، صدیق ، شہید اور صالح) خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہیں اور یہ لوگ پہلی تمام امتوں میں موجود تھے اور اس امت میں جو شخص اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرے گا وہ ان میں سے ہوگا اور قیامت کے دن ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے نبوت اور رسالت کو ختم کر دیا ہے اس لئے آئندہ ان تین قسموں میں سے کسی ایک قسم تک ہی ترقی ہو سکے گی یعنی صدیق، شہید اور صالح تک۔

(تفسیر القرآن الحکیم جزء 5 صفحہ 247)

ہم پوچھتے ہیں کہ پھر امت اسلام کی فضیلت کیا ہوئی؟ پھر کس وجہ سے اس امت کو خیر امت کہا جائے؟ جب ختم نبوت کے یہ معنی لئے جائیں کہ اس امت میں کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا آخر اسے کیوں بہترین امت تسلیم کیا جائے ۔ صرف دعویٰ ہی تو کافی نہیں ہو سکتا۔

تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ، عیسائی بلکہ مجوسی اور عرب لوگ ہمیشہ اپنے دین کو زیادہ اعلیٰ قرار دیتے۔ لکھا ہے:

ترجمہ :۔ ’’ مختلف ادیان کے لوگوں نے فخر کرنا شروع کیا۔ یہود نے کہا کہ ہماری کتاب (تورات) سب سے افضل ہے ۔ اللہ نے اس سے تخلیہ میں سرگوشیاں کیں اور کلام کیا، عیسائیوں نے کہا کہ عیسیٰ خاتم النبیین ہے اللہ نے اسے تورات بھی دی اور انجیل بھی، اگر محمد اس کا زمانہ پاتا تو اس کی پیروی کرتا اور ہمارا دین بہتر ہے اور مسلمانوں نے کہا کہ محمدؐ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں اور تمام رسولوں کے سردار ہیں‘‘۔

(تفسیر الدر المنثور جزء2 صفحہ 226)

دیکھا، کیسے ہر مذہب کے پیرو اپنے دین کوافضل اور اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔ پس خاتم النبین کے معنی ’’ تمام نبیوں کو ختم کرنے والا‘‘ کئے جائیں تو خود نبی کریم ﷺ کی ہتک اور امت اسلام کی ایک قسم کی ذلت کاموجب ہیں کیونکہ ان معنوں سے لازم آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے گویا اعلان فرما دیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ منصب نصیب نہ ہوگا ۔ زیادہ سے زیادہ وہ صدیق کا درجہ حاصل کر سکیں گے اور یہ کوئی ایسادرجہ نہیں جسے دوسری امتوں کے مقابل فخر کے ساتھ پیش کیا جا سکے، کیونکہ دوسری امتوں میں بھی شہید اور صدیق بکثرت ہوئے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:

’’ والذین آمنو باللہ ورسلہ اولٰئک ھم الصدیقون والشھداء عند ربھم‘‘۔ (الحدید آیت 19)۔ کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہ خدا کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں‘‘۔

ایک دفعہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو جو ان کے پاس بیٹھے تھے فرمایا: کلکم صدیق و شہید کہ تم میں سے ہر ایک صدیق اور شہید ہے۔

حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’کُلُّ مُؤْمِن صِدِّیْقٌ وَ شَہِیْدٌ‘‘

(الدر المنثور الجزء 6 صفحہ 176)

کہ ہر مومن صدیق اور شہید ہے۔

پس خدارا غور کیجئے کہ خاتم النبین کے یہ معنے حضور ﷺ کی کس شان کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دوسرے انبیاء کی امتوں میں کئی تابع نبی مبعوث ہوئے اور آنحضرت ﷺ کا کوئی امتی اس درجہ کو حاصل نہ کر سکا۔

9۔ اگر ’’تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ کا یہ مطلب لیا جائے کہ نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے جو شریعت کاملہ عطا فرمائی تھی اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے تما م انبیاء سابقین کی شرائع کو منسوخ کر دیا ہے ۔ اب آئندہ ان شرائع پر عمل کرنا جائز نہیں ہوگا صرف شریعت اسلام ہی کی پیروی ضروری ہوگی اور چونکہ یہ شریعت کامل بھی ہے اور اس کی حفاظت کا وعدہ بھی خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے اس لئے کسی نئی شریعت کے اترنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔تو اس مطلب کی رو سے کوئی ایسا نبی تو نہیں آسکتا جو نئی شریعت لائے اور نبی کریم ﷺ کا امتی نہ ہو لیکن ایسا نبی جو اسی شریعت سے فیضیاب ہو اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کی برکت سے ہی اس کو نبوت کے منصب پر فائز کیا گیا ہو اسے اسلام اور امت اسلام کے احیاء کے لئے مبعوث کیا گیا ہو آ سکتا ہے اور اس کے آنے میں کوئی شرعی روک نہیں ہے۔

See all answers
 

اکرم

رکن ختم نبوت فورم
حدیث ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ کے معانی از بزرگان ِ سلف
معترضین یہ ثابت کرنے کے لئے کہ آنحضور ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا حدیث’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ پیش کرتے ہیں۔ اور مطلب یہ کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا۔

ان کے اس دعویٰ کی غلطی ثابت کرنے کے لئے ہم ذیل میں ان چند بزرگان کے حوالے درج کرتے ہیں جنہوں نے اس حدیث کی تشریح فرمائی ہے کہ میرے بعد شریعت لانے والا کوئی نبی نہیں ہو گا:۔

زوجہ رسول ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
لوگو ! آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین تو کہو مگر ہر گز یہ نہ کہو کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔

(تفسیر الدرالمنثور جلد 5 صفحہ 204)

عالم بے بدل حضرت ابن قتیبہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول آنحضرت ﷺ کے فرمان ’لانبی بعدی‘ کے مخالف نہیں کیونکہ حضور ﷺ کا مقصد اس فرمان سے یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کو منسوخ کرنے والا ہو ۔

(تاویل مختلف الاحادیث صفحہ 236)

محدث امت امام محمد طاہر گجراتی
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کا یہ قول ’لانبی بعدی‘ کے منافی نہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کی مراد یہ ہے کہ ایسا نبی نہیں ہوگا جو آپ ﷺ کی شریعت کو منسوخ کرے ۔

(تکملہ مجمع البحار صفحہ85)

حضرت امام عبدالوہاب شعرانی
مطلق نبوت نہیں اٹھائی گئی ۔ محض تشریعی نبوت ختم ہوئی ہے ۔۔۔ اور آنحضرت ﷺ کے قول مبارک ’لا نبی بعدی و لا رسول‘ سے مراد صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو نئی شریعت لے کر آئے ۔

(الیواقیت والجواہر جلد 2صفحہ 24)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
آنحضرت ﷺ کے اس قول ’لا نبی بعدی‘ سے ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ جو نبوت اور رسالت ختم ہوگئی ہے وہ حضور ﷺ کے نزدیک نئی شریعت والی نبوت ہے ۔

(قرۃ العینین صفحہ 319)

حضرت حافظ برخوردار صاحب
اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی ایسانبی نہیں جو نئی شریعت لے کر آئے ، ہاں اللہ چاہے انبیاء ، اولیا میں سے ۔

(نبراس صفحہ 445 حاشیہ)

حضرت محی الدین ابن عربی
قول رسول کہ رسالت اور نبوت منقطع ہوگئی ہے ۔ میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی ، سے مراد یہ ہے کہ اب ایسا نبی نہیں ہوگا جو میری شریعت کے مخالف شریعت پر ہو ۔ بلکہ جب کبھی کوئی نبی ہوگا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہوگا۔

(فتوحات مکیہ جلد2 صفحہ3)

نواب نورالحسن خان
حدیث ’لاوحی بعدی‘ بے اصل ہے۔البتہ ’لانبی بعدی‘ آیا ہے ۔ جس کے معنی نزدیک اہل علم کہ یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہ لاوے گا ۔

(اقتراب الساعہ صفحہ 162)

مولوی محمد زمان خان آف دکن
حدیث ’لاوحی بعدی‘ باطل و بے اصل ہے ۔ ہاں ’لانبی بعدی‘ صحیح ہے ۔ لیکن معنی اس کے علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ کوئی نبی صاحب شرع کہ شرع محمدی کو منسوخ کرے بعد حضرت ﷺ کے حادث نہ ہو ۔

(ہدیہ مہدویہ صفحہ 301)

امام اہل سنت حضرت ملا علی قاری
خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ ﷺ کے دین کو منسوخ کرے اور آپ کا امتی نہ ہو۔

(الموضاعات الکبریٰ صفحہ 292)

شیخ عبدالقادر کردستانی
آنحضرت ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نئی شریعت لے کر مبعوث نہ ہوگا۔

(تقریب المرام جلد 2صفحہ233)

فرقہ مہدویہ کے بزرگ سید شاہ محمد
ہمارے محمد ﷺ خاتم نبوت تشریعی ہیں فقط ۔

(ختم المہدیٰ سبل السویٰ صفحہ 24)

خلیفہ الصوفیاء شیخ العصر حضر ت ا لشیخ بالی آفندی
خاتم الرسل وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی صاحب شریعت جدیدہ پیدا نہ ہوگا ۔

(شرح فصوص الحکم صفحہ 56) (مقامات مظہری صفحہ 88)

مولانا ابوالحسنات عبدالحئی فرنگی محل
’بعد آنحضرت ﷺ کے یا زمانے میں آنحضرت کے مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرع جدید ہوناالبتہ ممتنع ہے ۔ ‘

(دافع الوسواس صفحہ 16)

ان مندرجہ بالا ارشادات سے روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے غیر مشروط آخری نبی ہونے کا جو تصور چودھویں صدی میں پیدا ہو ا اس کا گزشتہ تیرہ صدیوں کی اسلامی تاریخ میں کوئی نشان نہیں ملتا ۔ بلکہ علمائے سلف محض زمانی لحاظ سے آخری نبی ہونے کے خیال کو ردّ کرتے رہے ہیں ۔

نامور صوفی حکیم ترمذی
’خاتم النبیین کی یہ تاویل کہ آپ ﷺ مبعوث ہونے کے اعتبار سے آخری نبی ہیں بھلا اس میں آپ کی کیافضیلت و شان ہے اور اس میں کون سی علمی بات ہے ۔ یہ تو محض احمقوں اور جاہلوں کی تاویل ہے ۔‘

(کتاب ختم الاولیاء صفحہ 341)

بانی دیوبند مولوی محمد قاسم نانوتوی
’عوام کے خیال میں تو رسول اللہ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ ﷺ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانے میں بالذات کچھ فضیلت نہیں ۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی ۔۔۔ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدیہ میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔ ‘

(تحذیر الناس صفحہ 3، 28)

یہی عقیدہ حضرت بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کا ہے ۔ حضرت بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں :۔
’’تمام نبوتیں اس پر ختم ہیں اور اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے ۔ مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں یعنی وہ نبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور جو اس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے وہ ختم نہیں ۔ کیونکہ وہ محمدی نبوت ہے یعنی اس کا ظل ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہے اور اسی کا مظہر ہے اور اسی سے فیض یاب ہے ۔ ‘‘

(چشمہ معرفت ۔روحانی خزائن جلد 23صفحہ340)

See all answers
 

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
حدیث ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ کے معانی از بزرگان ِ سلف
معترضین یہ ثابت کرنے کے لئے کہ آنحضور ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا حدیث’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ پیش کرتے ہیں۔ اور مطلب یہ کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا۔

ان کے اس دعویٰ کی غلطی ثابت کرنے کے لئے ہم ذیل میں ان چند بزرگان کے حوالے درج کرتے ہیں جنہوں نے اس حدیث کی تشریح فرمائی ہے کہ میرے بعد شریعت لانے والا کوئی نبی نہیں ہو گا:۔

زوجہ رسول ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
لوگو ! آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین تو کہو مگر ہر گز یہ نہ کہو کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔

(تفسیر الدرالمنثور جلد 5 صفحہ 204)

عالم بے بدل حضرت ابن قتیبہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول آنحضرت ﷺ کے فرمان ’لانبی بعدی‘ کے مخالف نہیں کیونکہ حضور ﷺ کا مقصد اس فرمان سے یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کو منسوخ کرنے والا ہو ۔

(تاویل مختلف الاحادیث صفحہ 236)

محدث امت امام محمد طاہر گجراتی
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کا یہ قول ’لانبی بعدی‘ کے منافی نہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کی مراد یہ ہے کہ ایسا نبی نہیں ہوگا جو آپ ﷺ کی شریعت کو منسوخ کرے ۔

(تکملہ مجمع البحار صفحہ85)

حضرت امام عبدالوہاب شعرانی
مطلق نبوت نہیں اٹھائی گئی ۔ محض تشریعی نبوت ختم ہوئی ہے ۔۔۔ اور آنحضرت ﷺ کے قول مبارک ’لا نبی بعدی و لا رسول‘ سے مراد صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو نئی شریعت لے کر آئے ۔

(الیواقیت والجواہر جلد 2صفحہ 24)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
آنحضرت ﷺ کے اس قول ’لا نبی بعدی‘ سے ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ جو نبوت اور رسالت ختم ہوگئی ہے وہ حضور ﷺ کے نزدیک نئی شریعت والی نبوت ہے ۔

(قرۃ العینین صفحہ 319)

حضرت حافظ برخوردار صاحب
اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی ایسانبی نہیں جو نئی شریعت لے کر آئے ، ہاں اللہ چاہے انبیاء ، اولیا میں سے ۔

(نبراس صفحہ 445 حاشیہ)

حضرت محی الدین ابن عربی
قول رسول کہ رسالت اور نبوت منقطع ہوگئی ہے ۔ میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی ، سے مراد یہ ہے کہ اب ایسا نبی نہیں ہوگا جو میری شریعت کے مخالف شریعت پر ہو ۔ بلکہ جب کبھی کوئی نبی ہوگا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہوگا۔

(فتوحات مکیہ جلد2 صفحہ3)

نواب نورالحسن خان
حدیث ’لاوحی بعدی‘ بے اصل ہے۔البتہ ’لانبی بعدی‘ آیا ہے ۔ جس کے معنی نزدیک اہل علم کہ یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہ لاوے گا ۔

(اقتراب الساعہ صفحہ 162)

مولوی محمد زمان خان آف دکن
حدیث ’لاوحی بعدی‘ باطل و بے اصل ہے ۔ ہاں ’لانبی بعدی‘ صحیح ہے ۔ لیکن معنی اس کے علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ کوئی نبی صاحب شرع کہ شرع محمدی کو منسوخ کرے بعد حضرت ﷺ کے حادث نہ ہو ۔

(ہدیہ مہدویہ صفحہ 301)

امام اہل سنت حضرت ملا علی قاری
خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ ﷺ کے دین کو منسوخ کرے اور آپ کا امتی نہ ہو۔

(الموضاعات الکبریٰ صفحہ 292)

شیخ عبدالقادر کردستانی
آنحضرت ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نئی شریعت لے کر مبعوث نہ ہوگا۔

(تقریب المرام جلد 2صفحہ233)

فرقہ مہدویہ کے بزرگ سید شاہ محمد
ہمارے محمد ﷺ خاتم نبوت تشریعی ہیں فقط ۔

(ختم المہدیٰ سبل السویٰ صفحہ 24)

خلیفہ الصوفیاء شیخ العصر حضر ت ا لشیخ بالی آفندی
خاتم الرسل وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی صاحب شریعت جدیدہ پیدا نہ ہوگا ۔

(شرح فصوص الحکم صفحہ 56) (مقامات مظہری صفحہ 88)

مولانا ابوالحسنات عبدالحئی فرنگی محل
’بعد آنحضرت ﷺ کے یا زمانے میں آنحضرت کے مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرع جدید ہوناالبتہ ممتنع ہے ۔ ‘

(دافع الوسواس صفحہ 16)

ان مندرجہ بالا ارشادات سے روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے غیر مشروط آخری نبی ہونے کا جو تصور چودھویں صدی میں پیدا ہو ا اس کا گزشتہ تیرہ صدیوں کی اسلامی تاریخ میں کوئی نشان نہیں ملتا ۔ بلکہ علمائے سلف محض زمانی لحاظ سے آخری نبی ہونے کے خیال کو ردّ کرتے رہے ہیں ۔

نامور صوفی حکیم ترمذی
’خاتم النبیین کی یہ تاویل کہ آپ ﷺ مبعوث ہونے کے اعتبار سے آخری نبی ہیں بھلا اس میں آپ کی کیافضیلت و شان ہے اور اس میں کون سی علمی بات ہے ۔ یہ تو محض احمقوں اور جاہلوں کی تاویل ہے ۔‘

(کتاب ختم الاولیاء صفحہ 341)

بانی دیوبند مولوی محمد قاسم نانوتوی
’عوام کے خیال میں تو رسول اللہ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ ﷺ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانے میں بالذات کچھ فضیلت نہیں ۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی ۔۔۔ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدیہ میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔ ‘

(تحذیر الناس صفحہ 3، 28)

یہی عقیدہ حضرت بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کا ہے ۔ حضرت بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں :۔
’’تمام نبوتیں اس پر ختم ہیں اور اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے ۔ مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں یعنی وہ نبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور جو اس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے وہ ختم نہیں ۔ کیونکہ وہ محمدی نبوت ہے یعنی اس کا ظل ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہے اور اسی کا مظہر ہے اور اسی سے فیض یاب ہے ۔ ‘‘

(چشمہ معرفت ۔روحانی خزائن جلد 23صفحہ340)

See all answers
آدھے حوالے پیش کرنا تو یہودیوں کی عادت تھی ، اپ لوگوں نے کب سے یہ عادت شروع کر دی ؟
 
Top