• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

خدائی قہر ہیضہ

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اور خدا کے غضب کی تلوار مرزا قادیانی پر چل گئی
۔

مرزا قادیانی نے اپنے چند مرید اس وقت کے افغانستان کے امیر حبیب الله مرحوم کے پاس بھیجے اور اسے اپنی جعلی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی ۔ امیر نے مرزا کے ان مریدوں کو سنگسار کر دیا کیونکہ وہ مرتد ہوگئے تھے ، مرزا نے سنگسار ہونے والے اپنے ایک مرید کا ذکر کرتے ہوئے اپنی سچائی کا نشان نمبر 158 لکھا اور یہ الفاظ لکھے :.
" شہید مرحوم کے قتل سے میری سخت اہانت کی گئی اس لیئے خدا کے قہر نے کابل پر غضب کی تلوار کھینچی ۔ اس مظلوم شہید کے قتل کیے جانے کے بعد سخت ہیضہ کابل میں پھوٹا اور وہ لوگ جو مشورہ شہید کے قتل میں شریک تھے اکثر ہیضہ کا شکار ہوگئے " ( خزائن جلد 22 صفحہ 364 )
جولائی 1907ء میں مرزا قادیانی کو اس کے خدا یلاش کالو کالا نے سچ مچ ایک الہام کیا جو کہ یہ تھا :.
" ہیضہ کی آمدن ہونے والی ہے " ( تذکرہ صفحہ 614 )

اس الہام کے مطابق مئی 1908ء میں وہ گھڑی آپہنچی جب مرزا پر الله کے غضب کی تلوار یعنی ہیضہ نے اپنی پوری قوت یعنی قے اور دستوں کے ساتھ ایسا حملہ کیا کہ اس بچنے کا موقع نہ دیا ۔

مرزا قادیانی کے سسر یعنی نصرت جہاں بیگم کے والد میر ناصر نواب کے مطابق مرزا قادیانی نے اس سے جو آخری الفاظ کہے وہ یہ تھے :.
" میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے " ( حیات ناصر ، مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانی قادیانی صفحہ 14 )

مرزا قادیانی نے اپنی بیماری کے بارے بلکل صحیح تشخیص کی تھی کیونکہ وہ خود علم طب میں خاصی دسترس رکھتا تھا ، کیونکہ اس بات کی گواہی خود اس کا بیٹا مرزا بشیر الدین احمد دیتا ہے :.

" طباعت کا علم ہمارا خاندانی علم ہے اور ہمیشہ سے ہمارا خاندان اس علم میں ماہر رہا ہے ۔ دادا صاحب نہایت ماہر اور مشہور حاذق طبیب تھے ۔ تایا صاحب نے بھی طب پڑھی تھی ۔ حضرت مسیح موعود ( نقلی اور جعلی ) بھی علم طب میں خاصی دسترس رکھتے تھے " ( سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 40 )

ہیضہ کے بارے میں مرزا قادیانی کا دست راست اور جماعت مرزائیہ کا پہلا خلیفہ حکیم نورالدین لکھتا ہے کہ :.

" یہ ایک متعدی مرض ہے جو وبا کے طور پر پھیلا کرتا ہے اس میں کثرت سے قے اور دست آکر مریض نڈھال ہو جاتا ہے " ( بیاض نور الدین حصہ دوم صفحہ 406 )

اور مرزا قادیانی کے آخری وقت کا جو نقشہ اس کے بیٹے نے کھینچا ہے اس میں دستوں اور قے دونوں کا ایک ساتھ آنا لکھا ہے یہاں تک کہ اس کی بیوی کے بقول یہ لمحہ آ پہنچا :.
" اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جا سکتے تھے اس لیئے چارپائی کے پاس انتظام کروا دیا ( یعنی عارضی لیٹرین بنوا دی گئی یا کوئی برتن وغیرہ رکھوا دیا گیا ) اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے اور میں پاوں دباتی رہی مگر ضعف بہت ہوگیا تھا اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو ایک قے آئی ۔ جب قے سے فارغ ہو کر لیٹنے لگے تو ضعف اتنا تھا کہ اپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگر گوں ہوگئی " ( سیرت المہدی ، جلد اول ، حصہ اول ، روایت نمبر 12 , صفحات 10, 11 )
اب مرزا کا خود علم طب کا دسترس رکھنا اور ہیضے کی تمام علامات کا پایا جانا یہ سب چیزیں سامنے رکھتے ہوئے مرزا قادیانی کی اپنی یہ تشخیص ٹھیک معلوم ہوتی ہے کہ " میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے " لیکن نہ جانے کیوں جماعت مرزائیہ اپنے مسیح اور اپنے نبی کی اس بات کو ماننے کے لیئے تیار ہی نہیں ۔ شاید انہیں مرزا قادیانی کی وہ دعا معلوم ہے جو اس نے " مولانہ ثناء الله امرتسری کے ساتھ آخری فیصلہ " کے عنوان سے ایک اشتہار کی صورت میں شائع کی تھی اور اس میں یہ لکھا تھا کہ مرزا قادیانی اور مولانہ ثناء الله امرتسری رحمتہ الله علیہ میں سے جو جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہو جائے اور ہلاک بھی عام موت سے نہیں بلکہ طاعون یا ہیضہ وغیرہ کسی بیماری سے ہو ۔ ( تفصیل کے لیئے : مجموعہ اشتہارات ، جلد 3 صفحات 578 تا 580 )

اور مرزا قادیانی 26 مئی 1908ء کو مولانہ ثناء الله امرتسری رحمتہ الله علیہ کی زندگی میں ہی بمرض ہیضہ اس دنیا سے جہنم کی طرف کوچ کر گیا جبکہ مولانہ اس کے بعد سالوں تک زندہ رہے ، 1947ء میں تقیسم ہند کے وقت آپ امرتسر سے پاکستان آگئے اور 15 مارچ 1948ء کو سرگودھا میں آپ کی وفات ہوئی ۔

مرزا قادیانی کی زندگی کے آخری آیام میں زبان بھی بند ہوگئی تھی اور گویائی نے جواب دے دیا تھا ۔ چنانچہ مرزا نے اپنی زندگی کی آخری تحریر جو لکھی وہ مندرجہ زیل ہے جو اس کے مریدوں نے بمشکل سے پڑھی کیونکہ قلم پھسل گیا تھا :.
" تکلیف یہ ہے کہ آواز نہیں نکلتی ۔ دوائی پلائی جائے " ( سیرت المہدی ، جلد 2 صفحہ 415 )

یوں کہا کرتا تھا مر جائیں گے اور
اور تو زندہ رہے ، خود ہی مر گیا
اس سے بیماروں کا ہوگا کیا علاج
کالرا ہیضہ سے خود مسیحا مر گیا
 
Top