مرزا غلام احمد قادیانی " دابۃ الارض " کی تشریحات اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر کرتے ہیں ۔ قرآن و حدیث سے جس دابۃ الارض کا مفہوم ملتا ہے مرزا غلام قادیانی ایک نیا مفہوم عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں جس کو ہم اپنی اس پوسٹ کے اندر واضح کر آئیے ہیں اس جگہ ہم ان تمام اسلامی تعلیمات کو نقل کرتے ہیں جو قرآن وحدیث سے ماخوذ ہیں
اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے :
وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَاۗبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ 82 النمل
ترجمہ کنز الایمان
اور جب بات ان پر آپڑے گی (ف۱۳۷) ہم زمین سے ان کے لیے ایک چوپایہ نکالیں گے (ف۱۳۸) جو لوگوں سے کلام کرے گا (ف۱۳۹) اس لیے کہ لوگ ہماری آیتوں پر ایمان نہ لاتے تھے (ف۱٤۰)
تفسیرخزائن العرفان
(ف137) یعنی ان پر غضبِ الٰہی ہو گا اور عذاب واجب ہو جائے گا اور حجت پوری ہو چکے گی اس طرح کہ لوگ امر بالمعروف اور نہی منکر ترک کر دیں گے اور ان کی درستی کی کوئی امید باقی نہ رہے گی یعنی قیامت قریب ہو جائے گی اور اس کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں گی اور اس وقت توبہ نفع نہ دے گی ۔
(ف138) اس چوپایہ کو دابۃ الارض کہتے ہیں یہ عجب شکل کا جانور ہو گا جو کوہ صفا سے برآمد ہو کر تمام شہروں میں بہت جلد پھرے گا ، فصاحت کے ساتھ کلام کرے گا ، ہر شخص کی پیشانی پر ایک نشان لگائے گا ، ایمانداروں کی پیشانی پر عصائے موسٰی علیہ السلام سے نورانی خط کھینچے گا ، کافر کی پیشانی پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگُشتری سے سیاہ مہر لگائے گا ۔
(ف139) بزبان فصیح اور کہے گا ہذا مؤمن و ہذا کا فِر یہ مؤمن ہے اور یہ کافر ہے ۔
(ف140) یعنی قرآن پاک پر ایمان نہ لاتے تھے جس میں بَعث و حساب و عذاب و خروجِ دابۃ الارض کا بیان ہے اس کے بعد کی آیت میں قیامت کا بیان فرمایا جاتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے :
وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَاۗبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ 82 النمل
ترجمہ کنز الایمان
اور جب بات ان پر آپڑے گی (ف۱۳۷) ہم زمین سے ان کے لیے ایک چوپایہ نکالیں گے (ف۱۳۸) جو لوگوں سے کلام کرے گا (ف۱۳۹) اس لیے کہ لوگ ہماری آیتوں پر ایمان نہ لاتے تھے (ف۱٤۰)
تفسیرخزائن العرفان
(ف137) یعنی ان پر غضبِ الٰہی ہو گا اور عذاب واجب ہو جائے گا اور حجت پوری ہو چکے گی اس طرح کہ لوگ امر بالمعروف اور نہی منکر ترک کر دیں گے اور ان کی درستی کی کوئی امید باقی نہ رہے گی یعنی قیامت قریب ہو جائے گی اور اس کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں گی اور اس وقت توبہ نفع نہ دے گی ۔
(ف138) اس چوپایہ کو دابۃ الارض کہتے ہیں یہ عجب شکل کا جانور ہو گا جو کوہ صفا سے برآمد ہو کر تمام شہروں میں بہت جلد پھرے گا ، فصاحت کے ساتھ کلام کرے گا ، ہر شخص کی پیشانی پر ایک نشان لگائے گا ، ایمانداروں کی پیشانی پر عصائے موسٰی علیہ السلام سے نورانی خط کھینچے گا ، کافر کی پیشانی پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگُشتری سے سیاہ مہر لگائے گا ۔
(ف139) بزبان فصیح اور کہے گا ہذا مؤمن و ہذا کا فِر یہ مؤمن ہے اور یہ کافر ہے ۔
(ف140) یعنی قرآن پاک پر ایمان نہ لاتے تھے جس میں بَعث و حساب و عذاب و خروجِ دابۃ الارض کا بیان ہے اس کے بعد کی آیت میں قیامت کا بیان فرمایا جاتا ہے ۔
آخری تدوین
: