• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

دعاوی مرزا

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دعاوی مرزا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ وحدہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ
اما بعد


دنیا میں بہت سے گمراہ اور جھوٹے مدعی گزرے ہیں مگر اس مسیلمہ ثانی مرزا غلام احمد جیسا مدعی کاذب اور مفتری کوئی نہیں گذرا۔ جو مدعی بھی کھڑا ہوا وہ ایک ہی دعویٰ کو لے کر کھڑا ہوا۔ مگر مرزائے قادیان کے دعوؤں کا کوئی حد اور شمار نہیں۔ اس شخص نے اس کثرت کے ساتھ قسم قِسم کے مختلف اور متناقض دعویٰ کئے جن کا احاطہ اس ناچیز کو محال نظر آتا ہے اور دعوؤں کی کثرت اور تنوع ہی کی وجہ سے مرزائی امت کے فضلاء کو مرزائے قادیان کے اصل دعویٰ کی تعین میں اختلاف ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ مرزا صاحب نبوت کے مدعی تھے، کوئی کہتا ہے کہ مسیح موعود ہونے کے مدعی تھے، کوئی کہتا ہے کہ مجدد زماں یا امام دوراں یا مہدی زماں ہونے کے مدعی تھے، کوئی کہتا ہے کہ لغوی یا مجازی یا بروزی نبی ہونے کے مدعی تھے، کوئی کہتا ہے کہ مرزا صاحب شریعت اور مستقل نبی تھے اور کوئی کہتا ہے کہ وہ غیر تشریعی نبی تھے۔

اس قسم کے دعویٰ تو مرزا صاحب نے مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے کئے اور یہود اور نصاریٰ کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے موسیٰ اور عیسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا اور شیعوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے یہ کہہ دیا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ سے مشابہت رکھتا ہوں اور ہندوؤں کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے کرشن ہونے کا اور آریوں کے بادشاہ ہونے کا دعویٰ کیا تاکہ ہر طرف سے شکار مل سکے۔

اور باوجود ان مختلف اور متناقض دعوؤں کے بظاہر مدعی اسلام ہی کے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہود اور نصاریٰ اور ہندوؤں اور آریوں میں سے تو کسی نے آپ کو اپنا گرو اور پیشوا اور اوتار نہ مانا، البتہ نا واقف عوام اور بعض تعلیم یافتہ حضرات ان کے فریب میں آ گئے اور انہیں کلمہ گو خیال کرکے یہ سمجھنے لگے کہ یہ بھی مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ ہے۔ چونکہ تعلیم یافتہ طبقہ اکثر دین اسلام اور اس کے اصول سے بے خبر ہوتا ہے اس لیے مدعی کاذب کے مکر و فریب کو سمجھ نہ سکا۔ اور یہ نہ سمجھ سکا کہ نام اسلام کا ہے اور معنی کفر کے ہیں۔ ظاہر ہے اسلام کا نام لیا مگر در پردہ اصول اسلام میں وہ عجیب و غریب تحریف کی کہ جس سے اصل اسلام کی حقیقت ہی بدل گئی اور ایسی تحریف کہ یہود و نصاریٰ سے تحریف میں سبقت لے گیا۔ اور شریعت کے الفاظ کو بظاہر برقرار رکھنا اور اس کی حقیقت کو بدل دینا یہی الحاد اور زندقہ ہے۔

مرزا صاحب نے دعوے تو بے شمار کئے مگر دلیل کسی کی پیش نہیں کہ صرف (اپنے) الہام پر اکتفا کیا۔ اور ان بے شمار دعوؤں سے غرض یہ تھی کہ کوئی فضیلت چھوٹنے نہ پائے اور کوئی فرقہ ہندوستان میں ایسا نہ رہے جس کے وہ مقتداء اور معبود نہ بن جائیں۔ مگر کسی فرقہ پر ان کا افسوں نہ چلا۔ چونکہ مسلمانوں میں ایک جدید تعلیم یافتہ طبقہ دین سے بے خبر ہے اس لیے اس فرقہ پر ہر ملحد اور زندیق کا افسوں اثر کر جاتا ہے۔

مرزا قادیانی کی مثال

مرزا قادیانی ایک طرف تو یہ کہتا ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ظل اور بروز ہوں اور دوسری طرف یہ کہتا ہے کہ میں کرشن جی کا ظل اور بروز ہوں۔ اس کی مثال تو ایسی ہی ہے کہ آج کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میں قائد اعظم کا بھی ظل اور بروز ہوں اور پنڈت نہرو کا بھی ظل اور بروز ہوں۔ ذوالقرنین بھی ہوں اور نمرود بھی۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی ہوں اور ابو جہل بھی۔

غرض یہ کہ مرزا صاحب کے دعوؤں کی کثرت اور تنوع کا یہ عالم ہے کہ تفصیلی طور پر ان کا استیعاب اور استقصاء اگر محال نہیں تو مجھ جیسے کمزور اور ناتواں کے لیے مشکل ضرور ہے۔ تاہم بحق خیر خواہی اہل اسلام اختصار کے ساتھ اس کے دعوؤں کو ہدیہ ناظرین کرتا ہوں تاکہ ناظرین ان دعوؤں کی کثرت اور تنوع کو دیکھ کر اندازہ لگا لیں کہ مسیلمہ قادیان تیرہ صدی کے مدعیان نبوت سے کفر اور دجل میں گوئے سبقت لے گیا ہے۔ تاکہ مسلمان اپنے ایمان کی حفاظت کریں۔ اور یہ مسیلمہ ثانی کفر و دجل میں لاثانی ہے۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
فضائل و کمالات کے دعوے


۱-ملہم من اللہ ہونے کا دعویٰ

سب سے پہلے مرزا صاحب نے براہین احمدیہ میں بمقابلہ آریہ وغیرہ الہام اور کشف کا دعویٰ کیا کہ میں ملہم من اللہ ہوں۔ چنانچہ اس کا دعویٰ ہے کہ خدا نے مجھے اپنے الہام و کلام سے مشرک کیا۔ (روحانی خزائن ۱۵- تریَاق القلوُب: صفحہ 283)

۲-وحی کا دعویٰ

بعد ازاں وحی کا دعویٰ کیا کہ مجھ پر وحی آتی ہے اور وحی منقطع نہیں ہوئی اور وحی اور الہام ایک چیز ہے۔ جو کہے کہ دین میں وحی ختم ہو گئی میں اس دین کو لعنتی دین قرار دیتا ہوں۔ (روحانی خزائن جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 306)

۳-مجدد ہونے کا دعویٰ

بعد ازاں مجدد ہونے کا دعویٰ کیا کہ میں چودھویں صدی کا مجدد بن کر آیا ہوں۔ دیکھو (روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 179)

۴-محدث من اللہ ہونے کا دعویٰ

محدث من اللہ کے معنی یہ ہیں کہ جس شخص سے اللہ دل ہی میں باتیں کرتا ہو۔ مرزا صاحب کہتے ہیں: ”اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ عاجز خدا ئے تعالیٰ کی طرف سے اس امت کے لئے محدث ہو کر آیا ہے اور محدث بھی ایک معنے سے نبی ہی ہوتا ہے گو اس کے لئے نبوت تامّہ نہیں مگر تاہم جزوی طور پر وہ ایک نبی ہی ہے“(روحانی خزائن جلد ۳- توضیحِ مرام: صفحہ 60)

ناظرین غور فرمائیں کہ یہ دعویٰ آئندہ چل کر صراحتاً دعوائے نبوت کی تمہید ہے۔


۵-امام زماں ہونے کا دعویٰ

”میں لوگوں کیلئے تجھے امام بناؤں گا تُو اُن کا رہبر ہو گا اور وہ تیرے پیرو ہونگے “(روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 82، روحانی خزائن جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 495)

۶-خلیفۃ اللہ اور خدا کے جانشین ہونے کا دعویٰ

”میں نے ارادہ کیا کہ اپنا جانشین بناؤں تو میں نے آدم کو یعنی تجھے پیدا کیا ہے“(روحانی خزائن جلد ۱۳- کِتابُ البَریَّۃ: صفحہ 102)

مطلب یہ کہ قرآن کریم میں حق تعالیٰ نے جس آدم کو اپنا خلیفہ بنایا اس سے مرزائے قادیان مراد ہے۔ سبحان اللہ! جس آدم علیہ السلام کو خدا نے اپنا خلیفہ بنایا، تمام روئے زمین کی بادشاہت ان کو عطا کی اور مرزا صاحب کے پاس سوائے چند زمینوں کے کیا رکھا ہے جن کا محصول انگریزی سرکار کو ادا کرتے تھے اور مقدمہ کے لیے کچہری میں حاضری دیتے تھے اور بٹالہ کے تحصیلدار کی خوشامد کرتے تھے۔ کیا اسی زمینداری کا نام خلافت الہٰی اور خدا کی جانشینی ہے؟
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
۷-مہدی ہونے کا دعویٰ

یہ دعویٰ مرزا صاحب کی اکثر تصانیف میں موجود ہے۔ لہٰذا حوالہ کی حاجت نہیں۔ امام مہدی کے ظہور کے بارہ میں بے شمار حدیثیں آئی ہیں جو درجہ تواتر پہنچی ہیں۔ ان میں تصریح ہے کہ امام مہدی مدینہ میں پیدا ہوں گے اور مکہ میں ان کا ظہور ہو گا۔ ان کا نام محمد اور ان کے والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ ہو گا اور ظہور کے بعد تمام روئے زمین کے بادشاہ ہوں گے۔ اور مرزا صاحب کا نام غلام احمد اور ان کے باپ کا نام غلام مرتضیٰ ہے اور یہ قادیان جیسے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ مکہ اور مدینہ ان کو دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوا۔ اور باوجود استطاعت کے حج بھی نہیں کیا۔ اور بجائے جہاد کے انگریزی سرکار کی وفاداری اور ان کے لیے دعا گوئی کو اپنی امت پر واجب کیا۔

مرزا صاحب کہتے ہیں کہ یہ سب حدیثیں(جو امام مہدی کے متعلقہ ہیں) غلط ہیں۔ پھر جب مہدی ہونے کا دعویٰ کیا کہ وہ مہدی موعود میں ہوں، خیر مرزا صاحب نے اپنا نام تو مہدی رکھ لیا مگر یہ بتلائیں کہ بادشاہت کا کیا انتظام کیا؟۔ آپ تو اپنے چھوٹے سے گاؤں قادیان کے بھی بادشاہ نہ تھے، روئے زمین کے تو کیا بادشاہ ہوتے۔ اور یہ بتلائیں کہ مرزا صاحب حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی اولاد سے ہیں؟۔ پھر کہاں سے مہدی بن گئے۔ غرض یہ کہ مرزا صاحب کا مہدی ہونا قطعاً محال ہے۔ اس لیے کہ مہدی موعود کی جو علامتیں احادیث میں مذکور ہیں وہ مرزائے قادیان میں ایک ایک کر کے مفقود ہیں، محض دعویٰ یا نام رکھنے سے مہدی نہیں بن جاتا جب تک احادیث کے مطابق مہدی کے صفات اور علامات نہ ہوں۔ مرزا صاحب سے پہلے بھی بہت لوگوں نے مہدویت کے دعویٰ کئے، نام تو مہدی رکھ لیا مگر امام مہدی کی جو علامتیں احادیث میں مذکور ہیں وہ اپنے میں نہ دکھلا سکے۔ یہی حال مرزائے قادیان کا ہے۔ کہتا ہے کہ میں مہدی ہوں مگر علامتیں نہ دکھلا سکا اور بے خبروں کو گمراہ کرکے دنیا سے روانہ ہوا۔

۸-حارث ہونے کا دعویٰ

حدیث شریف میں کہ ایک شخص حارث نام، امام مہدی کی تائید اور مدد کے لیے لشکر لے کر ماوراء النہر سے روانہ ہو گا جس کے مقدمۃ الجیش پر ایک سردار ہو گا جس کا نام منصور ہو گا۔ ہر مسلمان پر اس کی نصرت ضروری ہے۔(راوہ ابو داؤد وغیرہ، روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 148)

مرزا صاحب (روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 141) میں فرماتے ہیں کہ وہ حارث میں ہوں۔ حارث کے معانی زمیندار کے ہیں(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 148) اور مسلمانوں پر چندہ سے میری نصرت واجب ہے گویا کہ اس حدیث میں حارث سے مرزا صاحب اور نصرت سے چندہ مراد ہے۔ احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ حارث امام مہدی کا مدد گار ہو گا نہ کہ بعینہ مہدی ہو گا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی شخص مہدی بھی ہو اور حارث بھی۔ نیز حدیث میں حارث کا مقامِ خروج ماوراء النہر مذکور ہے نہ کہ قادیان۔ اور ماوراء النہر سے قادیان تک کا راستہ میں افغانستان پڑتا ہے۔ جہاں مدعیان نبوت اور ان کے پیرو ہمیشہ قتل ہوتے رہے۔ نیز اس حدیث میں حارث کی فوج عظیم اور لشکر جرار کا بھی ذکر ہے۔ مرزا صاحب کے پاس فوج کہاں سے آئی؟۔ وہ بیچارے تو ایک معمولی دہقانی آدمی تھے۔ ان کے پاس اتنی دولت کہاں تھی کہ جو لشکروں پر خرچ کرتے۔ وہ اپنے خرچ ہی کے لیے لوگوں سے چندہ مانگتے تھے۔ چندہ مانگنا فقیروں کا کام ہے نہ کہ امیروں اور بادشاہوں کا۔ غرض یہ کہ احادیث میں مذکور جو علامتیں آئی ہیں ان کا کوئی شمہ بھی مرزا صاحب میں نہیں پایا جاتا۔

مرزا صاحب دل بہلانے کے لیے فوج اور لشکر کی یہ تاویل کر لیتے ہیں کہ فوج سے ظاہری فوج مراد نہیں بلکہ روحانی فوج مراد ہے۔ ایسی تاویلوں سے جس کا دل چاہے مہدی اور حارث بن سکتا ہے۔

 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
۹-مسیح ابن مریم علیہ السلام ہونے کا دعویٰ

مرزا صاحب کا یہ دعویٰ تقریباً ان کی تمام کتابوں میں مذکور ہے۔ (تذکرہ صفحہ 41 طبع سوم، روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 463)

بنمای بہ صاحب نظرے گوہر خود را
عیسیٰ نتواں گشت بتصدیق خرے چند

قرآن اور حدیث سے یہ امر صراحتاً ثابت ہے کہ جب یہود نے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو صحیح سالم زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ کما قال تعالیٰ و ما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اللہ الیہ ۔

دوسرے قیامت کے قریب حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول اور آمد کا بیان قرآن میں اجمالاً اور احادیث میں تصریحاً موجود ہے کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور دمشق کے منارہ پر اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔

مرزا صاحب کو جب دعوائے مسیحیت کی فکر ہوئی تو اس کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء کا انکار کیا اور ان کی وفات کے مدعی ہوئے اور دفتر کے دفتر اس بارے میں سیاہ کر ڈالے۔ اس کے بعد اپنے مسیح موعود بننے کے لیے دو طریقے اختیار کیے، ایک تو یہ کہ جن احادیث میں مسیح کے آنے کا بیان آیا ہے اس سے مسیح کے ایک مثیل اور شبیہ آنا مراد ہے اور وہ مثیل میں ہوں اور دوسرا طریقہ یہ کہ جس نبی کا جو مثیل ہوتا ہے خدا کے نزدیک اس کا وہی نام ہوتا ہے۔ یعنی خدا کے نزدیک مرزا صاحب کا نام عیسیٰ بن مریم ہے۔ پھر ایک مدت دراز کے بعد خاص الہام کے ذریعہ اللہ نے یہ ظاہر فرمایا کہ یہ مرزا وہی عیسیٰ ہے جس کے آنے کا وعدہ تھا۔ دیکھو (روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 192)

اور یہ الہام ہوا کہ عیسیٰ اب کہاں، وہ تو مر گئے۔ مسیح موعود تو ہی ہے اور مرزا صاحب نے 1891ء میں اشتہار دیا کہ میرے مسیح موعود ہونے کا سارا قران مجید مصداق ہے اور تمام احادیث صحیح اس کی صحت کی شاہد ہیں۔

اب اس طرح سے مرزا صاحب نے اپنی مسیحیت کا اعلان شروع کیا اور کہا کہ جس مسیح کے آنے کا وعدہ قرآن و حدیث میں کیا گیا ہے اس سے مراد میرا ہی آنا مراد ہے۔ یعنی نزول سے پیدائش کے معنی مراد ہیں اور دمشق والی حدیث اول تو صحیح نہیں اور اگر صحیح اس کو صحیح مان لیا جائے تو اس سے اصلی دمشق مراد نہیں بلکہ قادیان مراد ہے۔ اور حدیث میں جو زرد لباس کا ذکر آیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی حالت صحت اچھی نہ ہو گی اور فرشتوں پر ہاتھ رکھنے سے مقصود یہ ہے کہ دو شخص ان کو مدد دیں گے۔ دیکھو (روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 209)

غرض یہ کہ جو امور مرزا صاحب کی قدرت میں نہ تھے ان میں تاویل کر ڈالی۔ مگر نزول کے بعد منارہ چندی کرکے بنان شروع کیا مگر تکمیل سے قبل فرشتہ اجل نے آن دبوچا۔ حالانکہ حدیث سے یہ واضع ہے کہ دمشق کی جامع مسجد کے منارۂ شرقی پر عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے۔ یعنی وہ منارہ پہلے سے موجود ہو گا۔ لہٰذا احادیث میں جو عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا ذکر ہے وہ وعدہ مرزا صاحب کے قادیان میں پیدا ہونے سے پورا ہو گیا۔ لیکن اب اشکال یہ ہے کہ اگر نزول سے پیدائش مراد ہے تو عیسیٰ علیہ السلام تو بغیر باپ کے ہوئے تھے جیسا کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس کی تصریح ہے، تو پھر مرزا صاحب جو اگر عیسیٰ بننا منظور تھا تو ان کو چاہیے تھا کہ بغیر باپ کے پیدا ہوتے اور اسی جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھائے جاتے اور پھر آسمان سے نازل ہوتے اور جب مرزا صاحب سے کہا گیا کہ آپ تو مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، حالانکہ آپ میں وہ آیات باہرہ اور معجزات ظاہرہ موجود نہیں جو قرآن کریم میں حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت مذکور ہیں کہ وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے اور مٹی کا پرندہ بنا کر اڑاتے تھے اور وہ مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کا چنگا کرتے تھے، لہٰذا آپ بھی تو کوئی معجزہ اور کرشمہ دکھلاتے؟۔ تو مرزائے قادیان نے جواب میں کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا یہ تمام کام محض مسمریزم تھا اور میں ایسی باتوں کو مکروہ جانتا ہوں، ورنہ میں بھی کر دکھاتا۔(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 257تا258)

حق تعالیٰ شانہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جن معجزات کو بطور مدح اور منقبت ذکر کیا ہے، مرزائے قادیان ان کو مکروہ اور قابل نفرت سمجھتا ہے اور سب مسمریزم بتلاتا ہے اور مقصود یہ ہے کہ اظہار معجزات سے سبکدوشی ہو جائے اور کوئی شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے معجزات کا مطالبہ نہ کر سکے۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
۱۰-عیسیٰ علیہ السلام سے افضل ہونے کا دعویٰ

”اِبن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اُس سے بہتر غلامِ احمد ہے“

(روحانی خزائن جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 240)

”خدا نے اِس اُمّت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اُس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے....مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہر گز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہر گز دکھلا نہ سکتا“(روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 152)

مرزا نے اس مسیح موعود کی تفسیر ” دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ “ میں غلام احمد قادیانی کی ہے۔

”اس مسیح کے مقابل پر جس کا نام خدا رکھا گیا خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمدؐ رکھا“(روحانی خزائن جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 233)

مرزا صاحب کا یہ شعر:

”اِبن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اُس سے بہتر غلامِ احمد ہے“
(روحانی خزائن جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 240)

تمام قادیانیوں کو حفظ یاد ہے۔ معاذ اللہ جس مسیح ابن مریم علیہ السلام کا قرآن کا خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار ذکر کیا ہے وہ مرزا صاحب کی موجودگی میں قابل ذکر نہیں اور فارسی شعر یہ ہے:

”اِینک منم کہ حسب بشارات آمدم
عیسیٰ کجاست تابہ نہد پا بہ منبرم“
(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 180)

اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صریح اہانت ہے جو صریح کفر ہے۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تاویلات مرزا کا ایک نمونہ


حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور دجال کے خروج میں اس قدر بے شمار صحیح اور صریح حدیثیں وارد ہوئی ہیں جن کا اطباق مرزا پر محال ہے۔ اس لیے مرزا صاحب نے جب مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو اب فکر ہوئی کہ ان احادیث کو کس طرح اپنے اوپر منطبق کروں، اس لیے تاویل کی راہ اختیار کی، بلکہ ایسی تحریف کی کہ اولین و آخرین میں سے اب تک کسی نے نہیں کی تھی۔

۱-چنانچہ یہ کہہ دیا کہ نزول مسیح سے آسمان سے اترنا مراد نہیں بلکہ مرزا کا اپنے گاؤں میں پیدا ہونا مراد ہے۔

۲- اور حدیث میں جو مسیح علیہ السلام کا دمشق کے سفید مشرقی مینار پر نازل ہونا آیا ہے اس حدیث میں دمشق سے قادیان مراد ہے۔ اور وہ منارہ مرزا کی سکونتی جگہ قادیان کے مشرقی کنارہ پر واقع ہے۔

۳- اور دجال سے با اقبال قومیں یا شیطان یا عیسائی اقوام مراد ہیں۔

۴- اور دجال کے کانا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پادریوں میں دینی عقل نہیں۔

۵-اور احادیث میں جو یہ آیا ہے کہ دجال زنجیروں میں جھکڑا ہوا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ عہد رسالت میں پادریوں کو موانع پیش تھے۔

۶-اور حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ دجال کے ساتھ جنت اور جہنم ہو گی اس سے مراد یہ ہے کہ عیسائی اقوام نے اسباب تعمم مہیا کر لیے ہیں۔

۷-اور حدیث میں جو دجال کے گدھے کا ذکر آیا ہے اس سے ریل گاڑی مراد ہے۔

۸-اور حدیث میں مسیح ابن مریم کا خنزیر کو قتل کرنا آیا ہے اس سے لیکھرام کا قتل مراد ہے۔

۹-اور حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ مسیح صلیب کو توڑیں گے اس سے مراد یہ ہے کہ بعثت مرزا سے صلیبی مذہب رو بزوال ہو گا۔

۱۰- اور حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام وفات پانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقبرہ میں مدفون ہوں گے اس سے مراد یہ ہے کہ مرزا صاحب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قرب روحانی نصیب ہو گا۔
ناظرین کرام غور فرما لیں کہ ایسی تاویلوں سے تو ہر شخص مسیح موعود بن سکتا ہے اور جس کا جی چاہے یہ کہہ سکتا ہے کہ دمشق سے میرا گاؤں مراد ہے اور روضہ اقدس میں دفن ہونے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب روحانی مراد ہے۔ یہ تاویلات نہیں بلکہ تحریفات اور ہذیانات ہیں جو ”دیوانہ گفت ابلہ باور کرو“ کے مصداق ہیں۔ پھر یہ کہ جب مرزا صاحب کے نزدیک دجال سے عیسائی اقوام مراد ہیں تو مرزا صاحب انگریزوں کے لیے دعا کیوں مانگتے تھے؟۔ کیا کسی حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ مسیح موعود دجال کے لیے دعا کرے گا اور اپنی امت کو دجال کے بقا کی دعا کی تلقین کرے گا؟۔

پھر جب مرزا صاحب کے نزدیک دجال کے گدھے سے ریل مراد ہے تو مرزا صاحب بٹالہ سے چل کر لاہور کا سفر ہمیشہ اسی دجال کے گدھے(ریل) پر کیوں کرتے تھے؟۔ اور با ضابطہ دجال کے کارکنوں سے اس گدھے پر سوار ہونے کا ٹکٹ خریدتے تھے۔

کیا کسی حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جو مسیح موعود دجال کے قتل کے لیے نازل ہو گا وہ دجال کے گدھے پر کرایہ دے کر سفر کیا کرے گا اور بجائے قتل کے اس کی سلطنت کے لیے دعا کرے گا؟۔

 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
۱۱-مریم علیہ السلام ہونے کا دعویٰ

”پہلے خدا نے میرا نام مریم رکھا اور بعد اس کے ظاہر کیا کہ اس مریم میں خدا کی طرف سے روح پُھونکی گئی اور پھر فرمایا کہ روح پھونکنے کے بعد مریمی مرتبہ عیسوی مرتبہ کی طرف منتقل ہو گیا اور اس طرح مریم سے عیسیٰ پیدا ہو کر ابن مریم کہلایا“(روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 75)

سبحان اللہ! مرزا صاحب کے کیا حقائق و معارف ہیں۔ کبھی عیسیٰ بنتے ہیں اور کبھی مریم، کبھی مرد اور کبھی عورت اور پھر خود ہی سے پیدا ہوتے ہیں۔ مرزا صاحب پہلے بیٹا(عیسیٰ) بنے اور پھر ماں(مریم) بنے اور پھر ماں سے بیٹا بن گئے۔ گویا کہ بیٹے کا وجود ماں سے مقدم بھی اور موخر بھی ہے اور اس کا عین بھی ہے اور اس کا غیر بھی ہے۔

۱۲-ظلی اور بروزی یا غیر تشریعی نبی ہونے کا دعویٰ

”اور چونکہ وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا وہ میں ہوں اس لئے بروزی رنگ کی نبوت مجھے عطا کی گئی“(روحانی خزائن جلد ۱۸- ایک غلطی کا ازالہ: صفحہ 215)

اس سے مرزا کا مقصود یہ ہے کہ میں عین محمد ہوں۔ ظل اور بروز کا لفظ محض دھوکہ اور فریب کے لیے ہے۔ اپنے کفر اور دجل کو چھپانے کے لیے اس قسم کے الفاظ استعمال کرتا ہے ورنہ در حقیقت مرزا نبوت تشریعیہ اور مستقلہ کا مدعی ہے اور اپنی وحی کو قرآن کی طرح واجب الایمان قرار دیتا ہے اور اپنے منکر کو کافر اور دوزخی بتلاتا ہے۔ حالانکہ مرزا کا اقرار ہے کہ صرف صاحب شریعت نبی کے انکار سے بندہ کافر ہوتا ہے، ملہم من اللہ کے انکار سے کافر نہیں ہے۔

بروزی اور ظلی نبوت کی حقیقت

مرزائے قادیان ایک غلطی کا ازالہ میں لکھتا ہے:

”مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو درحقیقت خاتم النبییّن تھے مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ اور نہ اسؔ سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے کیونکہ میں بارہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود قرار دیا ہے پس اس طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں“(روحانی خزائن جلد ۱۸- ایک غلطی کا ازالہ: صفحہ 212)

اس عبارت کا صاف مطلب یہ ہے کہ مرزا صاحب کو نبوت ملنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خاتمیت نبوت میں کوئی فرق نہیں آتا کیونکہ میں(مرزا قادیانی) آپ کا ظل اور سایہ ہوں اور سایہ اصل کا غیر نہیں ہوتا۔

تریاق القلوب میں لکھتے ہیں:

”غرض جیسا کہ صوفیوں کے نزدیک مانا گیا ہے کہ مراتب وجود دوریہ ہیں اسی طرح ابراہیم علیہ السلام نے اپنی خُو اور طبیعت اور دلی مشابہت کے لحاظ سے قریباً اڑھائی ہزار برس اپنی وفات کے بعد پھر عبد اللہ پسر عبد المطلب کے گھر میں جنم لیا اور محمد کے نام سے پکار ا گیا صلی اللہ علیہ و سلم“(روحانی خزائن جلد ۱۵- تریَاق القلوُب: صفحہ 477)

شیخ محمد عمر قادیانی اپنی کتاب (قول فیصل صفحہ 6) میں بحوالہ (اخبار الحکم نمبر 15جلد6 صفحہ 7تا8 بمطابق مؤرخہ 24؍اپریل 1902ء) پر مرزا کا قول اس طرح نقل کیا ہے:
”کمالات متفرقہ جو تمام دیگر انبیاء میں پائے جاتے تھے وہ سب حضرت رسول کریم سے ظلی طور پر عطا کئے گئے اور...پہلے تمام انبیاء ظل تھے نبی کریم کی خاص خاص صفات میں اور اب ہم ان تمام صفات میں نبی کریم کے ظل ہیں“۔

ان عبارتوں میں مرزائے قادیان نے اپنے آپ کو نبی کریم علیہ الصلوۃ وا تسلیم کا ظل اور بروز بتلایا اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ سایہ اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا۔ یہ عقلاً باطل اور محال ہے۔ اگر بروز سے مرزا صاحب کا مطلب ہے کہ روح محمدی نے تیرہ سو سال بعد مرزا کے جسم میں جنم لیا ہے تو یہ عقیدہ اسلام میں کفر ہے۔ یہ عقیدہ ہندوؤں کا ہے جو تناسخ کے قائل ہیں۔ لہٰذا اگر مرزا صاحب کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کا تیرہ سو سال بعد مدینہ منورہ سے چل کر قادیان میں مرزا غلام احمد کے جسم میں بروز ہوا ہے تو یہ بعینہ تناسخ ہے۔ جس کے ہندو اور آریہ قائل ہیں کہ مرنے کے بعد ارواح فنا نہیں ہوتیں بلکہ ہوا میں پھرتی رہتی ہیں اور جب کوئی مردہ جسم پاتی ہیں تو اس میں گھس جاتی ہیں اور پھر اس میں یہ پابندی نہیں کہ انسان کی روح انسان ہی کے جسم میں داخل ہو بلکہ گدھے، کتے وغیرہ کے جسم میں بھی داخل ہو جاتی ہے۔ غرض یہ کہ اگر بروز سے یہ مراد ہے تو یہ حقیقت تناسخ کی ہے اور کیا مرزائے قادیان کے نزدیک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بروز تھی اور حقیقت ابراہیمی اور حقیقت محمدی ایک تھی اور دونوں ایک دوسرے کے عین تھے اور یہ غلط ہے۔ بلکہ یہ لازم آئے گا کہ سرور عالم محمد صلی اللہ علیہ وسلم معاذ اللہ بذاتِ خود کوئی چیز نہ تھے بلکہ ان کا تشریف لانا بعینہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تشریف لانا ہے۔ گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام اصل تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کا ظل اور بروز ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود بالاستقلال نہ رہا اور نہ آپ کی نبوت مستقل رہی اور یہ صریح کفر ہے۔

نیز لازم آئے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ظلی ہو مستقل نہ ہو۔ نیز جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بروز ہوئے تو لازم آئے گا کہ اصل خاتم النبین تو حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ظل اور بروز ہیں اور اگر یہ کہو کہ باوجود ظل اور بروز ہونے کے اصل خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو لازم آئے گا کہ پھر اسی طرح مرزا صاحب جو خاتم النبین کے ظل اور بروز ہیں، اصل خاتم النبین تو مرزا صاحب ہوں گے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، اور ظاہر ہے کہ یہ امر بھی صریح کفر ہے۔ مرزا صاحب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت کے منکر کو کافر بتلاتے ہیں اور یہ کہنا کہ کسی شخص کا سایہ ذی سایہ کا عین ہوتا ہے بالکل غلط اور مہمل ہوتا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ کسی شخص کا سایہ ذی سایہ نہیں ہو سکتا۔ پس اسی طرح نبی کا سایہ بھی نبی نہیں ہو سکتا۔ اور اگر بفرض محال تھوڑی دیر کے لیے مان لیا جائے کہ سایہ اور ذی سایہ ایک ہی ہوتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ اللہ ہیں، یعنی اللہ کا سایہ ہیں تو لازم آئے گا کہ وہ عین خدا ہوں اور مرزا صاحب اپنے خیال میں عین محمد ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سایہ خدا ہیں، تو نتیجہ یہ نکلے گا معاذ اللہ! مرزا صاحب عین خدا ہیں اور اس کے کفر ہونے میں کیا شبہ ہے؟۔ اور مرزا صاحب بار بار یہ کہتے ہیں کہ میں بعینہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں تو کیا مرزا صاحب کے والد کا نام عبد اللہ اور والدہ کا نام آمنہ تھا؟۔ کیا کوئی ادنیٰ مسلمان اس کا تصور کر سکتا ہے کہ قادیان کا ایک دہقان مختاری کے امتحان میں فیل ہونے والا اور انگریزی کچہری کا چکر لگانے والا بعینہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو سکتا ہے؟۔ معاذ اللہ! معاذ اللہ! ثم معاذ اللہ!

اور اگر ظل ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ذی ظل کی کوئی صفت اس میں آ جائے تو اس سے اتحاد اور عینیت ثابت نہیں ہوتی، جس طرح خدا کا ظل ہونے سے نبوت ثابت نہیں ہوتی۔ غالباً مرزا صاحب کی مراد یہ ہے کہ جس طرح آئینہ میں کسی شخص کا عکس پڑ جاتا ہے اسی طرح مرزا صاحب میں بھی کمالات محمدیہ اور انوار رسالت نبویہ کا عکس پڑا ہے مگر اس سے مرزا صاحب کی نبوت ثابت نہیں ہوتی اس لیے کہ آئینہ میں عکس پڑنے سے حقیقت صفت ثابت نہیں ہو جاتی۔ عکس میں ذی عکس کی کوئی حقیقی صفت نہیں آ جاتی بلکہ ایک قسم کی مشابہت اور ہم رنگی آ جاتی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ میری امت کے علماء، انبیاء بنی اسرائیلی کے مشابہ اور ان کے ہم رنگ اور ان کے کمالات کا نمونہ ہے اور یہ مطلب نہیں اس امت کے علماء نبی اور پیغمبر ہیں۔ غرض یہ کہ انعکاس اور ظلیت سے عینیت ثابت نہیں ہوتی۔

حضرت آدم علیہ السلام کمالات خداوندی کا آئینہ اور نمونہ تھے مگر معاذ اللہ عین خدا نہ تھے۔

پس خلیفہ ساخت صاحب سینہ
تابود شاہیش را آئینہ

اور خلفاء راشدین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات علمیہ و عملیہ کا آئینہ اور نمونہ تھے مگر نبی نہ تھے۔ فقط نبی کے خلیفہ اور جانشین تھے۔ جیسا کہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ”ازالتہ الخفاء عن خلافتہ الخلفاء“ میں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قوت علمیہ اور قوت عملیہ میں تشبیہ ثابت کی ہے اور عقلی و نقلی دلائل سے اس کو ثابت کیا ہے۔ جس سے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی فضیلت ثابت ہوئی نہ کہ نبوت۔

خلاصہ کلام یہ کہ ظلیت اور انعکاس سے اتحاد اور عینیت کا ثابت کرنا سراسر غلط اور باطل ہے۔ ظلیت اور انعکاس سے صرف ایک قسم کی مشابہت اور ہم رنگی ثابت ہوتی ہے۔ سو اگر مرزا صاحب کا گمان یہ ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کا آئینہ اور نمونہ ہوں اور کمالات نبوت میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ اور ہم رنگ ہوں تو مرزا صاحب اور ان کی امت بتلائے کہ مرزائے قادیان کن کن کمالات علمیہ عملیہ میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا آئینہ اور نمونہ تھے؟۔
مرزا صاحب کمالات نبوت کا تو کیا آئینہ ہوتے وہ تو حرص و طمع اور مکر و فریب اور طعن و تشنیع اور بد زبانی اور بد گمانی کا آئینہ اور جھوٹ کا مجسمہ تھے۔ آج اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میں قائد اعظم اور قائد ملت کا ظل اور بروز اور مظہر اتم ہوں لہٰذا میری اطاعت واجب ہے تو حکومت پاکستان اس کو یا تو جیل خانے بھیج دے گی یا پاگل خانے میں۔ ظاہر ہے اگر کوئی سیاہ فام اور چیچک رو اور نابینا اور لولا اور لنگڑا یہ دعویٰ کرنے لگے کہ میں سیدنا یوسف علیہ السلام کا ظل اور بروز ہوں تو کون اس کو قبول کرنے پر تیار ہو گا۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دعویٰ ظلیت و بروزیت کا جائزہ

جب کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں دلاں شخص کا ظل اور بروز ہوں اور اس کا عکس اور مظہر اتم ہوں تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ یہ شخص صفات کمال میں اس کا نمونہ ہے اور اخلاق و اعمال میں اس کا شبیہ اور مثیل ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ اس کا عکس اور تصویر ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے۔ اگرچہ ذات مختلف ہے مگر آئینہ میں جو عکس اور نقش نظر آ رہا ہے وہ اصل کے ہم رنگ ہے اور بظاہر ہو بہو وہی معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا جب مرزا صاحب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں سرور عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل اور بروز ہوں اور حضور پرنور کا مظہر اتم ہوں تو اس کا مطلب بھی یہی سمجھا جائے گا کہ معاذ اللہ مرزا صاحب صفات کمال اور مکارم اخلاق اور محاسن اعمال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شبیہ اور مثیل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہیں۔ تو ہم مرزا صاحب کے حالات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور صفات کے ساتھ موازنہ کرکے جائزہ لیتے ہیں کہ مرزا صاحب کے اس دعویٰ میں کس حد تک صداقت ہے۔ موازنہ کے لیے صرف چند باتیں ذکر کرتے ہیں تاکہ ناظرین پر مرزا صاحب کے دعویٰ ظل اور بروز کی حقیقت واضح ہو جائے۔

سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صفات و کمالات

۱-آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے مگر تعلیم الہٰی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو علم و حکمت سے بھر دیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو علم و حکمت میں رشک حکماء عالم بنا دیا۔

در فشانی نے تیری قطروں کو دریا کر دیا
دل کو روشن کر دیا آنکھوں کو بینا کر دیا
خود نہ تھے جو راہ پرواروں کے ہادی ہو گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا

۲-آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کی ازواج مطہرات کی تمام زندگی فقیرانہ اور درویشانہ گزری، دو دو مہینے گھر میں چولھا نہیں سلگتا تھا صرف کھجور اور پانی پر گزر تھا۔ خرقہ اور گڈری آپ کا لباس تھا اور بوریا آپ کا فرش تھا۔ دن میں بکثرت روزے رکھتے اور رات تہجد میں کئی کئی پارے پڑھتے کہ پاؤں پر دم آ جاتا۔

۳-مدینہ منورہ ہجرت کر جانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جہاد فرض ہوا تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جہاد کا حکم دیا۔ اول مشرکین عرب سے جہاد کیا۔ غزوۂ بدر میں قریش مکہ کے سر پر ضرب کاری لگائی اور برابر سلسلہ جہاد کا جاری رہا۔ غزوۂ خندق 5ھ میں ارشاد فرمایا کہ ” الآنَ نَغْزُوهُمْ وَلا يَغْزُونَا “۔ اب ہم ان پر حملہ آور ہوں گے اور یہ لو ہم پر حملہ آور نہ ہوں گے۔ یعنی اب ان کی طاقت ختم ہوئی۔ چنانچہ 6ھ میں صلح حدیبیہ ہوئی جس کا مطلب یہ ہوا کہ قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کو تسلیم کر لیا۔ بعد ازاں 7ھ میں خیبر فتح کیا جو یہودیوں کا گڑھ تھا اور وہاں ان کے قلعے تھے۔

اس طرح یہودیت کا خاتمہ فرمایا اور 8ھ میں مکہ مکرمہ اور حنین اور طائف کو فتح فرمایا۔ اس کے بعد حجاز اور نجد اور یمن کا تمام طویل عریض رقبہ اسلام کے زیر نگیں آ گیا۔ پھر اسی سال میں موتہ جو علاقہ شام کے قریب تھا وہاں آٹھ ہزار کا لشکر روانہ فرمایا جس نے قیصر روم کے ڈیڑھ لاکھ مسلح لشکر جرار کو شکست دی۔ اس کے بعد 9ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کے مقابلہ کے لیے تیس ہزار صحابہ کی معیت میں خروج فرمایا۔ قیصر روم مرعوب ہو کر واپس ہو گیا اور آپ بلا مقابلہ کے مظفر و منصور واپس آئے۔

۴-پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے حسب ارشاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء خاص کر ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے قیصر و کسری کے مقابلہ کے لیے فوجیں روانہ کیں جو آدھی آدھی دنیا کے فرمانروا تھے ایک ہی ہلہ میں دونوں کو پچھاڑا جس کا تماشہ ساری دنیا نے دیکھا اور شام اور ایران اور عراق اور مصر وغیرہ وغیرہ فتح کرکے اسلام قلمرو میں شامل کر دئیے۔ اور آج یہ مستقل چار سلطنتیں ہیں جو اب تک مسلمانوں کے زیر اقتدار ہیں۔ اور اگر ان چاروں سلطنتوں کا رقبہ حجاز اور نجد اور یمن کے رقبہ کے ساتھ ملا لیا جائے تو امریکہ کی سلطنت کے رقبہ سے کم نہ ہو گا بلکہ زیادہ ہو گا۔

۵-حق جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خلق عظیم سے سرفراز فرمایا۔ ” وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں نازل فرمایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنان خدا سے جہاد فرمایا مگر زبان مبارک سے کسی بڑے سے بڑے دشمن کے حق میں گالی نہیں نکالی۔ مکہ کی تیرہ سالہ مظلومانہ زندگی سے نکل کر مدینہ منورہ کی سر زمین پر قدم رکھا تو مسلمانوں کو تقویٰ اور پرہیز گاری اور آخرت کی تیاری کی تلقین فرمائی اور اپنی تیرہ سالہ ظالم دشمنوں کی شکوہ شکایت کا کوئی حرف زبان مبارک سے نہیں نکلا۔

مرزا آنجہانی کے حالات

۱- جو شخص مرزا صاحب کی کتابوں کا مطالعہ کرے گا اس پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گی کہ ان کی ساری تصانیف میں سوائے اپنی تعلیوں اور دعوؤں اور انبیاء کرام سلام اللہ علیہم کی توہین و تحقیر اور ان کے معجزات کے انکار کے اور کچھ بھی نہیں۔ خاص کر ان کی تصانیف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت اور ان کے سب و شتم سے بھری پڑی ہیں اور ان کے مرید طوطے کی طرح ان کو رٹے ہوئے ہیں۔

۲-مرزا صاحب کی زندگی امیرانہ تھی مشک اور عنبر اور مرغ اور مزعفر اور مقویات اور مفرحات استعمال کرتے اور تقویت اعصاب کے لیے انگریزی دوائیں استعمال کرتے۔ اور بیویوں کے لیے عمدہ عمدہ کپڑے اور قسم قسم کے زیورات تیار ہوتے تھے۔ مرزا صاحب نے اپنی بیویوں کا نام امہات المومنین رکھا ہوا تھا جو دنیا کی عیش و عشرت میں نوابوں اور امیروں کی بیگمات سے کہیں آگے تھیں اور مرزا صاحب بجائے عبادت کے عیش و عشرت اور خواب استراحت میں وقت گزارتے۔ مرزا صاحب تہجد اور تراویح میں کیا قرآن پڑھتے مرزا صاحب حافظ قرآن نہ تھے۔ حالانکہ مرزا صاحب کا دعویٰ یہ ہے کہ میرا خروج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ ہے جو پہلی بعثت سے اکمل ہے تو سوال یہ کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعثت ثانیہ میں قرآن بھول گئے؟۔

۳-مرزا صاحب نے نہ کوئی ہجرت کی اور نہ ہی کبھی کافروں سے جہاد کیا بلکہ اپنی امت کے لیے نصاریٰ سے جہاد و قتال کو صرف ممنوع ہی نہیں فرمایا بلکہ ان کی اطاعت کو واجب قرار دیا۔ چنانچہ مرزا صاحب ضرورۃ الامام(روحانی خزائن جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 493) میں لکھتے ہیں کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ، اس کی رو سے انگریز ہمارے اولوالامر ہیں۔ اس لیے میری نصیحت اپنی جماعت کو بھی ہے کہ دل کی سچائی سے ان کے مطیع رہیں۔ غرض یہ کہ مرزا صاحب نے مسئلہ جہاد کو منسوخ کر دیا۔ اور عقیدہ جہاد کو وحشیانہ عقیدہ قرار دیا۔ اس طرح مرزا صاحب اور ان کی امت نے جہاد سے تائب ہو کر نصاریٰ کی اطاعت کو اپنا فریضہ اور مقصود بنا لیا۔ اس طرح ساری زندگی انگریزوں کی اطاعت شعاری اور ان کی باج گزاری میں گزاری۔

اے مسلمانو! خدارا انصاف کرو، کیا ایسا شخص جو ساری عمر کافروں کا اطاعت شعار اور باج گزار رہا وہ اس رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل اور مثیل کیسے بن سکتا کہ جس نے دس سال کی مدت میں یہود نصاریٰ اور مشرکین سے جہاد کیا اور ان کو شکست دی اور ایسی عظیم الشّان سلطنت قائم کہ پاکستان جیسی سلطنت اس کے ایک گوشہ میں رکھی جا سکے۔


۴-مرزا صاحب بتلائیں کہ انہوں نے اور ان کے ابو بکر و عمر نے یعنی خلیفہ نور الدین اور خلیفہ بشیر الدین نے بھی کوئی علاقہ کافروں کا فتح کیا؟۔ یہ مساکین کیا فتح کرتے، یہ تو قادیان جیسا گاؤں بھی انگریزوں سے نہ لے سکے۔ پھر دعویٰ یہ ہے کہ میں آدم خلیفۃ اللہ بھی ہوں اور داؤد بھی ہوں اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے شان میں بڑھ کر ہوں۔ آپ انبیاء علیہم السلام سے تو کیا بڑھ کر ہوتے آپ تو ابوبکر رضی اللہ عنہما اور عمر رضی اللہ عنہ کے غلاموں کے برابر نہیں ہو سکے۔ جن مسلمان بادشاہوں نے کافروں سے جہاد کیا اور ان کا علاقہ فتح کیا مرزا صاحب تو ان کے برابر بھی نہیں ہو سکتے۔ آج اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میں قائد اعظم کا ظل اور بروز ہوں یا محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ فاتح ہند کا ظل اور بروز ہوں تو غالباً کوئی مجنوں ہی اس کی تصدیق کرے گا۔

۵-مرزا صاحب اپنے لیے مدعی تو حلق عظیم کے ہیں، مگر علماء و مشائخ کو گالیاں دینے میں مشاق ہیں۔ ہر وقت نئی گالی تراشتے۔ مثلاً اندھیرے کے کیڑو، جھوٹ کا گوہ کھایا، رئیس الدجالین اور ذریت شیطان، عقب الکلب، فول الفول، کھوپڑی میں کیڑا، مرے ہوئے کیڑے، علیھم نعال لعن اللہ الف الف مرۃ، ہامان الہالکین اور خنزیر اور کتے، حرام زادہ، ولد الحرام، اوباش، چوہڑے، چمار، زندیق اور ملعون وغیرہ۔ معمولی الفاظ تو بے تکلف اور بے اختیار نکل آتے ہیں جیسا کے عصائے موسیٰ اور المسیح الدجال میں تفصیل کے ساتھ اس کا ذکر ہے۔ یہ بد زبانی اور دعویٰ یہ کہ میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل اور مثیل اور مظہر اتم ہوں۔ (تفصیل احتساب قادیانیت جلد دوم میں شامل رسالہ ”شرائط نبوت“ کے آخری حصہ پر دیکھ جا سکتی ہے)

 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
۱۳-نبوت و رسالت کا دعویٰ

”سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیاں میں اپنا رسول بھیجا“(روحانی خزائن جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 231)

”حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مُرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ“(روحانی خزائن جلد ۱۸- ایک غلطی کا ازالہ: صفحہ 206)

”وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا تا تم سمجھو کہ قادیان اِسی لئے محفوظ رکھی گئی کہ وہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا“(روحانی خزائن جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 225تا226)

مستقل نبوت و رسالت وحی و شریعت کا دعویٰ

مرزا اپنے لیے مستقل اور تشریعی نبوت کا مدعی ہے۔ جیسا کہ عبارات ذیل سے واضح ہے:

”اور مجھے بتلایا گیا تھا کہ تیری خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے اور تو ہی اِس آیت کا مصداق ہے کہ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ(روحانی خزائن جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 113)

اس عبارت میں مرزائے قادیان نے ایک دعویٰ تو اپنی رسالت اور تشریعی نبوت کا کیا ہے اور دوسرا دعویٰ یہ کیا کہ اس آیت کا مصداق مرزائے قادیان ہے نہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ یعنی حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم جن پر یہ آیت نازل ہوئی وہ اس کے مصداق نہیں۔
حق تعالیٰ جل شانہ نے یہ آیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں اتاری کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو تمام ادیان پر غالب کرے گا، قادیان کا دہقان کہتا ہے کہ اس آیت کا مصداق میں ہوں۔

”خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین حق.... اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا“(روحانی خزائن ۔ جلد ۱۷- اربعین: صفحہ 426)

”اور اگر کہو کہ صاحب الشریعت افترا کرکے ہلاک ہوتا ہے نہ ہر ایک مفتری۔ تو اول تو یہ دعویٰ بے دلیل ہے۔ خدا نے افترا کے ساتھ شریعت کی کوئی قید نہیں لگائی۔ ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعت ہو گیا۔ پس اس تعریف کے رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔ مثلاً یہ الہام قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذالک ازکٰی لھم ۔ یہ براہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور اس پر تئیس برس کی مدت بھی گذر گئی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُف الْأُولَى صُحُف إِبْرَاهِيم وَمُوسَى ۔ یعنی قرآنی تعلیم توریت میں بھی موجود ہے۔ اور اگر یہ کہو کہ شریعت وہ ہے جس میں باستیفاء امر اور نہی کا ذکر ہو تو یہ بھی باطل ہے کیونکہ اگر توریت یا قرآن شریف میں باستیفاء احکام شریعت کا ذکر ہوتا تو پھر اجتہاد کی گنجائش نہ رہتی“(روحانی خزائن جلد ۱۷- اربعین: صفحہ 435تا436)

اِنَّا اَرْسَلْنَا اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھدًاعلیکم کما ارسلنا الٰی فرعون رسولًا ۔ ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے اُسی رسول کی مانند جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا“(روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 105)

یٰسٓ۔ انک لمن المرسلین ۔ علٰی صراط مستقیم۔ تنزیل العزیز الرحیم ۔ اے سردار تُو خدا کا مُرسل ہے راہ راست پر اُس خدا کی طرف سے جو غالب اور رحم کرنے والا ہے“(روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 110)

انا ارسلنا احمد الٰی قومہ فاعرضوا وقالوا کذّاب اشر ترجمہ:۔ ہم نے احمد کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ تب لوگوں نے کہا کہ یہ کذاب ہے“(روحانی خزائن جلد ۱۷- اربعین: صفحہ 423تا424)

فکلّمنی ونادانی وقال: ’’إنی مرسلک إلی قوم مفسدین، وإنی جاعلک للنّاس إماما, وإنی مستخلفک إکراما، کما جرت سُنّتی فی الأولین(روحانی خزائن جلد ۱۱- انجام آتھم: صفحہ 79)

”ان الہامات میں میری نسبت بار بار بیان کیا گیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ ،خدا کا مامور، خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے“(روحانی خزائن جلد ۱۱- انجام آتھم: صفحہ 62)

ان تمام عبارات سے صاف عیاں ہے کہ مرزائے قادیان مستقل اور تشریعی نبوت کا مدعی تھا اور وہ اپنی نبوت و رسالت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے ہم پلہ بلکہ اس سے بڑھ کر سمجھتا تھا جیسا کہ ہم عنقریب بیان کریں گے۔ اور یہ عبارتیں اس قدر تصریح اور واضح ہیں کہ ان میں ظلیت اور بروزیت کی تاویل نہیں چل سکتی۔
ان تصریحات کے باوجود مرزا نے اپنی پردہ پوشی اور مخالفین کو خاموش کرنے کے لیے ظل اور بروز کی اصطلاح نکالی۔ تاکہ ختم نبوت کی نصوص قطعیہ کی مخالفت سے بچنے کے لیے ایک جدید راہ نکل آئے اور دفع الزام کے لیے یہ کہہ دیا کہ میں مستقل نبی نہیں بلکہ بروزی اور ظلی نبی ہوں۔

اگر نبوت تشریعی یا غیر تشریعی کا دروازہ حسب ارشاد خداوندی خاتم النبین بند نہ ہوا ہوتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت اور مشابہت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت مل سکتی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ملتی، جیسا کہ حدیث میں ہے: لو کان بعدی نبی لکان عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں فرمایا: انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی اور ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو حضرت ابراہیم کے مشابہ قرار دیا مگر وہ نبی نہیں بنائے گئے۔

پس معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخص کو کسی قسم کی نبوت ملنے کا امکان نہیں خواہ وہ تشریعی ہو یا غیر تشریعی۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
۱۵-ظلی طور پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور احمد ہونے کا دعویٰ

دیکھو (روحانی خزائن جلد ۱۸- ایک غلطی کا ازالہ: صفحہ 209)

۱۶-آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مظہر اتم ہونے کا دعویٰ

دیکھو (روحانی خزائن جلد ۱۶- خُطبۃً اِلھَامِیَّۃً: صفحہ 267)

۱۷-رحمۃ العالمین صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا دعویٰ

دیکھو (تذکرہ صفحہ 81 طبع سوم)

۱۸-ظلی طور پر خاتم الانبیاء ہونے کا دعویٰ

مرزا صاحب کا ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ میں ظلی طور پر خاتم الانبیاء بھی ہوں۔

چنانچہ لکھتے ہیں:

”مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو درحقیقت خاتم النبییّن تھے مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ اور نہ اسؔ سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے کیونکہ میں بارہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود قرار دیا ہے پس اس طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ہوں صلی اللہ علیہ وسلم پس اس طور سے خاتم النبییّن کی مُہر نہیں ٹوٹی کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت محمد تک ہی محدود رہی یعنی بہرحال محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی رہا نہ اور کوئی“(روحانی خزائن جلد ۱۸- ایک غلطی کا ازالہ: صفحہ 212)
 
Top