• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سرور عالم ﷺ کی تفسیرکہ عیسی علیہ السلام آئیں گے

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
سرور عالم ﷺ کی تفسیر

قرآن کے معانی حضور ﷺ سے بڑھ کر کون سمجھ سکتا ہے۔ اب ہم آپ کو حضور ﷺ کے بیان کردہ معانی بتاتے ہیں۔
حدیث نمبر۱: ’’ عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلا فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویفیض المال حتیٰ لا یقبلہ احد حتی تکون السجدۃ الواحدۃ خیرا من الدنیا وما فیھا ثم یقول ابوہریرۃؓ فاقرؤا ان شئتم وان من اہل الکتب الا لیؤمننّ بہ قبل موتہ
(بخاری ج۱ ص۴۹۰، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام، مسلم ج۱ ص۷۸، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)‘‘
{حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ تحقیق ضرور آئیں گے تم میں ابن مریم حاکم وعادل ہوکر، پس صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ اٹھادیں گے۔ ان کے زمانہ میں مال اس قدر ہوگا کہ کوئی قبول نہ کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک سجدہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہو گا۔ اگر تم چاہو تو (قرآن کی یہ آیت) پڑھو ’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمننّ بہ قبل موتہ ‘‘}

2549اس ارشاد میں سرور عالم ﷺ نے قسم کھا کر بیان فرمایا ہے اور مرزاجی کے کہنے کے مطابق قسم کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کلام میں کوئی تاویل یا استثناء نہیں ہے۔ ورنہ قسم بے فائدہ ہوجاتا ہے۔ پس یقینی ثابت ہوگیا کہ:
۱… کہ نازل ہونے والے مریم کے بیٹے ہیں۔ (نہ کہ چراغ بی بی کے)
۲… وہ حاکم اور فیصلے کرنے والے ہوں گے۔ (مرزاجی تو انگریزی عدالتوں میں دھکے کھاتے رہے)
۳… وہ عادل ہوں گے۔ (مرزاجی نے تو محمدی بیگم کے غصہ میں خود اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور اپنے ایک لڑکے کو عاق اور وراثت سے محروم کر دیا تھا اور دوسرے سے بیوی طلاق کروائی تھی)
۴… وہ صلیب توڑیں گے۔ (مرزاجی نے نہ تو صلیب توڑا اور نہ ہی صلیب پرستی میں کمی آئی)
۵… وہ خنزیر کو قتل کریں گے۔ (تاکہ لوگوں کو اس سے نفرت ہو جائے)
۶… جزیہ موقوف کریں گے۔ (ساری دنیا مسلمان ہو جائے گی پھر جزیہ کس سے لیں گے)
۷… اس قدر مال دیں گے کہ کوئی قبول کرنے والے نہ ہو گا۔ (مرزاجی تو کبھی کتابوں، مہمانوں اور کبھی مینارۃ المسیح کے لئے چند ے کی اپیلیں کرتے کرتے تھک گئے تھے)
۸… اس وقت ایک سجدہ دنیا بھر سے بہتر ہوگا۔ (مرزاجی کے آنے کے بعد تو نمازوں اور سجدوں میں نمایاں کمی آگئی۔ پھر جلیل القدر صحابی حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو) 2550’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمننّ بہ قبل موتہ ‘‘ {اور کوئی اہل کتاب نہیں رہے گا مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مرنے سے پہلے ان پر ایمان لائے گا۔}
آنے والے کو قرآن کی رو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام قرار دیتے اور ان کی زندگی کا اعلان کرتے ہیں۔ باقی ہزاروں کی تعداد میں صحابہؓ موجود تھے۔ ان میں سے کسی نے بھی تردید نہیں کی اور حدیث ہے بھی بخاری اور مسلم شریف کی۔ ان الفاظ نے تو آیت کا معنی متعین کر کے معاملہ ہی صاف کر دیا۔
بڑی بات
یہ ہے کہ حدیث میں حضور نبی کریم ﷺ نے قسم کھائی ہے اور مرزا جی کے مسلّم اصول کے تحت اس میں کوئی تاویل واستثناء نہیں ہوسکتی۔ ورنہ قسم میں فائدہ ہی کیا ہے۔ اب آپ خود اندازہ فرمائیں کہ اس حدیث شریف سے مریم علیہا السلام کے بیٹے کا نزول مراد ہے یا چراغ بی بی کے بیٹے کا اور حدیث میں بیان کی گئیں باقی باتیں بھی مرزاغلام احمد قادیانی پر منطبق ہوتی ہیں؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث نمبر۲:
’’ عن ابی ہریرۃؓ عن النی ﷺ قال الانبیاء اخوۃ لعلّات امہاتہم شتی ودینہم واحد وانی اولی الناس بعیسیٰ ابن مریم لانہ لم یکن بینی وبینہ نبی وانہ نازل فاذا رأیتموہ فاعرفوہ رجل مربوع الی الحمرۃ والبیاض علیہ ثوبان ممصران رأسہ یقطرو ان لم یصبہ بلل فیدق الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویدعو الناس الی الاسلام فتہلک فی زمانہا کلہا الا الاسلام وترتع الا 2551سود مع الا بل والنمار مع البقر والذئاب مع الغنم وتلعب الصبیان بالحیات فلا تضرہم فیمکث اربعین سنۃ ثم یتوفی ویصلی علیہ المسلمون
(رواہ ابوداؤد ج۲ ص۱۳۵، مسند احمد ج۲ ص۴۰۶)‘‘
{حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا انبیاء علیہم السلام پدری بھائی ہیں۔ ان کی مائیں جدا جدا ہیں اور دین ایک ہے اور میں عیسیٰ ابن مریم کے سب لوگوں سے زیادہ قریب ہوں۔ اس لئے کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہوا اور وہ نازل ہوگا۔ بس جب تم ان کو دیکھو تو پہچان لو وہ درمیانہ قامت، سرخی سفیدی ملا ہوا رنگ، زرد رنگ کے کپڑے لئے ہوئے اس کے سر سے پانی ٹپک رہا ہوگا۔ گو سر پر پانی نہ ڈالا ہو وہ صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا اور جزیہ ترک کر دے گا اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دے گا۔ اس کے زمانے میں سارے مذاہب ہلاک ہو جائیں گے سوائے اسلام کے، اور شیر اونٹوں کے ساتھ اور چیتے گائے بیلوں کے ساتھ اور بھیڑئیے بکریوں کے ساتھ چرتے پھریں گے اور بچے سانپوں سے کھلیں گے اور وہ ان کو نقصان نہ دیں گے۔ پس عیسیٰ ابن مریم چالیس سال تک رہیں گے اور پھر فوت ہو جائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔} (ہم نے اس روایت کو مرزابشیرالدین محمود کی کتاب (حقیقت النبوۃ حصہ اوّل ص۱۹۲) سے انہی کے ترجمہ کے ساتھ نقل کیا ہے)
اس حدیث کی صحت تو فریقین کے ہاں مسلم ہے۔ اس میں حضور ﷺ کا ارشاد صاف وصریح ہے کہ میں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سب سے زیادہ قریب ہوں۔ ان کے اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں ہوا۔

مرزائی خیانت
’’لم یکن بینی وبینہ‘‘ کا معنی مرزامحمود نے یہ کیا کہ اس کے اور میرے درمیان نبی نہیں۔ حالانکہ لفظ لم یکن کا معنی ہے کوئی نبی نہیںہوا۔ یہ ماضی کا بیان ہے جس کو خلیفہ محمود 2552نے چھپایا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہی عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے تو معلوم ہوا کہ انہی کا رفع ہوا ہے اور وہ زندہ آسمان میں موجود ہیں۔ کیونکہ بقول مرزاجی ’’نزول فرع ہے صعود کی۔‘‘ ملاحظہ ہو (انجام آتھم ص۱۶۸، خزائن ج۱۱ ص۱۶۸) اس حدیث پاک نے بھی مرزائی تاویلات کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
دوسری خیانت
مرزامحمود صاحب نے دوسری خیانت یہ کی کہ ابوداؤد شریف میں مذکور حدیث کے الفاظ ’’ ویقاتل الناس علی الاسلام ‘‘ کو سرے سے کھا گئے۔ کیونکہ مرزاجی نے مقاتلہ نہ کبھی کیا نہ اس کے حق میں تھے۔ وہ تو صرف انگریزوں کے لئے دعائیں کرنا جانتے تھے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث نمبر۳: ’’ عن عبداﷲ بن عمرو ابن العاصؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ ینزل عیسیٰ ابن مریم الی الارض فیتزوج ویولد لہ ویمکث خمسا واربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معی فی قبری فاقوم انا وعیسیٰ ابن مریم فی قبرو احد بین ابی بکر وعمر ‘‘
{حضرت عبداﷲ بن عمر وبن عاصؓ نے روایت کیاکہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام زمین پر اتریں گے۔ یہاں شادی کریں گے۔ ان کی اولاد بھی ہوگی اور زمین میں ۴۵سال رہ کر وفات پائیں گے اور میرے ساتھ گنبد خضریٰ میں دفن ہوں گے۔}
(رواہ ابن جوزی فی الوفا باحوال المصطفیٰ، مشکوٰۃ ص۴۸۰، باب نزول عیسیٰ ابن مریم)
اس روایت کو مرزاقادیانی نے نقل کر کے ’’فیتزوج ویولد لہ‘‘ کے حصہ سے محمدی بیگم کے اپنے نکاح میں آنے کی خوشخبری پر محمول کیا ہے اور ’’یدفن معی فی قبری‘‘ سے اپنا فنا فی الرسول ہونا ثابت کیا ہے۔ بہرحال حدیث کو صحیح تسلیم کر گیا ہے۔
یہ حدیث امام ابن جوزیؒ نے نقل فرمائی ہے جو مرزائیوں کے مسلم مجدد صدی ششم ہیں۔ گویا صحت حدیث سے انکار ہی نہیں ہوسکتا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ:
۱… 2553حدیث میں ’’الی الارض‘‘ کے لفظ سے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین کی طرف نازل ہوں گے۔ معلوم ہوا کہ زمین پر پہلے سے (یعنی اس وقت) نہیں ہیں۔
۲… چونکہ پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شادی نہ کی تھی۔ اس لئے اب ان کی شادی کرنے کا ذکر بھی کر دیا۔
۳… اور یہ تصریح بھی فرمادی گئی کہ قیامت کے دن حضور ﷺ ایک ہی مقبرے سے ابوبکرؓ وعمرؓ کے درمیان بمعہ عیسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوں گے۔

مرزائی وہم
یہاں مرزائی یہ کہہ دیتے ہیں کہ حضور ﷺ کی قبر میں کیسے دفن ہوں گے۔ مگر مرزاجی نے خود (نزول المسیح ص۴۷، خزائن ج۱۴ ص۴۲۵) پر لکھا ہے کہ ’’ان (یعنی حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ) کو یہ مرتبہ ملا کہ آنحضرت ﷺ سے ایسے ملحق دفن کئے گئے کہ گویا ایک ہی قبر ہے۔‘‘ یہی مطلب مرقاۃ میں مرزائیوں کے مسلم مجدد حضرت ملا علی قاریؒ نے بیان فرمایا ہے۔
۴… اس کے ساتھ وہ روایت بھی ملا دیجئے کہ حضرت عائشہؓ نے حضور کریم ﷺ سے اجازت چاہی کہ میں آپ ﷺ کے پہلو میں دفن ہو جاؤں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہاں تو جگہ نہیں ہے۔ صرف ایک قبر کی جگہ ہے جہاں عیسیٰ علیہ السلام دفن ہوں گے۔ ان کی قبر چوتھی ہوگی۔ اس روایت نے بھی مرزائیوں کی تمام تاویلی خرافات کو ختم کر کے رکھ دیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث نمبر۴: ’’ ان روح اﷲ عیسیٰ نازل فیکم فاذا رأیتموہ فاعرفوہ فانہ رجل مربوع الی الحمرۃ والبیاض ثم یتوفی ویصلی علیہ المسلمون
(رواہ الحاکم عن ابی ہریرۃؓ فی المستدرک ص۴۹۰)‘‘
2554یہ حدیث مرزائیوں کے امام اور مجدد صدی چہارم نے روایت کی ہے۔ اس لئے اس کی صحت میں تو شک ہو ہی نہیں سکتا۔ اس حدیث میں حضور ﷺ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے قرآنی لقب ’’یعنی روح اﷲ‘‘ سے یاد فرمایا۔ تمام باتوں کا ذکر کر کے فرمایا جاتا ہے کہ اس کے بعد وہ فوت ہوں گے اور مسلمان ان کا نماز جنازہ پڑھیں گے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث نمبر۵: ’’ عن ابی ہریرۃؓ انہ قال قال رسول اﷲ ﷺ کیف انتم اذنزل ابن مریم من السماء فیکم وامامکم منکم
(کتاب الاسماء والصفات البیہقی ص۴۲۴)‘‘
{حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ سرور عالم ﷺ نے فرمایا اس وقت (مارے خوشی کے) تمہارا کیا حال ہوگا جب مریم کے بیٹے تم میں آسمان سے نازل ہوں گے اور تمہارا امام (نماز کا) تمہیں میں سے ہوگا۔} روایات میں آتا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام نماز پڑھانے کے لئے تیار ہوں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو جائیں گے۔ وہ ان سے نماز پڑھانے کا کہیں گے وہ انکار کرتے ہوئے فرمائیں گے کہ اس نماز کی اقامت آپ کے لئے کی گئی ہے۔ (آپ ہی پڑھائیں گے)
اور بعض روایات میں ہے کہ اس امت کو اﷲتعالیٰ نے فضیلت دی ہے۔ بہرحال وہ نماز خود حضرت مہدی علیہ السلام ہی پڑھائیں گے۔ اس حدیث میں من السماء کا صاف لفظ موجود ہے اور اس کو مرزائیوں کے مسلم مجدد صدی چہارم امام بیہقیؒ نے روایت کیا ہے۔ اس لئے اور زیادہ معتبر ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2555حدیث نمبر۶: ’’ عن ابن عباسؓ (فی حدیث طویل) قال رسول اﷲ ﷺ فعند ذالک ینزل اخی عیسیٰ بن مریم من السماء علی جبل افیق اماماً ھادیاً حکماً عادلاً
(کنزالعمال ج۱۲ ص۶۱۹، حدیث نمبر۳۹۷۲۶)‘‘
۱… اس حدیث میں سرور عالم ﷺ نے من السماء کا لفظ اضافہ کر کے مرزاقادیانی کا منہ بند کر دیا ہے۔
۲… اس میں اخی (میرا بھائی) فرماکر عیسیٰ علیہ السلام جو پیغمبر ہیں۔ وہی میرے بھائی ہیں۔ (کوئی چراغ بی بی کا بیٹا حضور ﷺ کا مصنوعی بھائی نہیں ہے)
اس حدیث کو مرزاجی نے (حمامتہ البشریٰ ص۱۸، خزائن ج۷ ص۱۹۷) میںنقل کیا۔ مگر خیانت کر کے ’’من السمائ‘‘ کا لفظ کھا گیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث نمبر۷: ’’ عن عبداﷲ بن عمروؓ (فی حدیث طویل) قال قال رسول اﷲ ﷺ فیبعث اﷲ عیسیٰ ابن مریم کانہ عروۃ بن مسعود فیطلبہ فیہلکہ
(رواہ مسلم بحوالہ مشکوٰۃ باب لا تقوم الساعۃ ص۴۸۱)‘‘
سرور عالم ﷺ نے جیسے کہ مشکوٰۃ شریف میں ہے معراج کے ذکر میں آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ملاقات کے ذکر میں فرمایا کہ: ’’فاذا اقرب من رأیت بہ شبیہاً عروۃ بن مسعود (مشکوٰۃ ص۵۰۸، باب بدالخلق)‘‘ {حضرت عیسیٰ کی مشابہت زیادہ تر عروۃ بن مسعودؓ سے تھی۔}
اب آپ خود ہی فرمائیں جس عروۃ بن مسعودؓ کے مشابہ ہستی کو آسمان میں دیکھا۔ حدیث نمبر۷ میں انہی کے نزول کا ذکر فرماتے اور پھر حضرت عروہ بن مسعودؓ سے تشبیہ 2556دے کر ارشاد کرتے ہیں کہ یہ دجال کا پیچھا کر کے اس کو ہلاک کریں گے۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے خردماغ انسانوں کو بھی بتادیا کہ نازل ہونے والے وہی عیسیٰ ابن مریم ہیں جو حضرت عروہ بن مسعودؓ کے مشابہ ہیں۔ جن کو آسمان میں دیکھا تھا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث نمبر۸: ’’ عن نواس بن سمعانؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ فبینما ھو کذالک اذبعث اﷲ المسیح ابن مریم فینزل عند المنارۃ البیضاء شرقی دمشق بین مہروزتین واضعاً کفیہ علیٰ اجنحۃ ملکین اذاطأطأ رأسہ قطرو اذا رفعہ تحدر منہ جمان کاللؤلؤ فلایحل لکا فریجد ریح نفسہ الامات ونفسہ ینتہی حیث ینتہی طرفہ فیطلبہ حتی یدرکہ بباب لد فیقتلہ
(مسلم ج۲ ص۴۰۱)‘‘
مرزا نے (ازالتہ الاوہام ص۲۰۲تا۲۰۶، خزائن ج۳ ص۱۹۹تا۲۰۱) پر یہ حدیث نقل کی ہے۔ مسلم شریف کی اس حدیث نے بھی مرزاغلام احمد کی نیند حرام کر رکھی۔ کبھی کہتا ہے یہ خواب یا کشف تھا۔ حالانکہ اس طویل حدیث کے الفاظ میں ہے۔ ’’ ان یخرج وانا فیکم فانا حجیجۃ لکم ‘‘ اگر وہ خروج کر لے جب کہ میں تم میں ہوں تو میں اس سے جھگڑ لوں گا۔ کوئی بھی عقل مند اس کو خواب یا کشف نہیں کہہ سکتا۔ کبھی کہتا ہے امام بخاریؒ نے اس کو ضعیف سمجھ کر روایت نہیں کیا۔ حالانکہ امام بخاریؒ کا کسی حدیث کونقل نہ کرنا ضعف کی دلیل نہیں۔ ورنہ حدیث مجدد، کسوف وخسوف کی حدیث ان لمہدینا آیتین اور حدیث ابن ماجہ لا مہدی الا عیسیٰ بخاری میں نہیں ہیں۔ جن پر مرزا نے اپنی (فرضی) مسیحیت کی (فرضی) بنیاد رکھی ہے۔ اس حدیث اور تمام احادیث نزول مسیح سے مراد نزول من السماء ہے۔ خود اسی حدیث کو نواس بن سمعان کے بارے میں (ازالتہ الاوہام ص۸۱، خزائن ج۳ ص۱۴۲) پر لکھا ہے:
’’صحیح مسلم کی حدیث میں جو یہ لفظ موجود 2557ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے اتریں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا۔‘‘ (جادو وہ جو سرپر چڑھ کر بولے)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث نمبر۹: حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا۔
’’ والذی نفسی بیدہ لیہلن ابن مریم بفج الروحاء حاجاً او معتمراً اولیشنّینہما
(رواہ مسلم فی صحیحہ ج۱ ص۴۰۸)‘‘
{مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔} ’’ابن مریم فج روحائ‘‘ میں حج کے لئے لبیک کہیں گے یا عمرے کے لئے یا دونوں کی نیت کر کے۔
اس حدیث میں بھی سرور عالم ﷺ نے قسم کھائی ہے۔اس لئے تمام الفاظ حدیث کو ظاہر پر ہی محمول کرنا ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود حج کریں گے۔ (کوئی اور ان کی طرف سے نہیں کرے گا) اور فج روحاء سے مراد وہی روحاء کی گھاٹی ہوگی۔ نزول سے مراد نیچے اترنا ہی ہوگا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حدیث نمبر۱۰: حضرت ربیع سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نصاریٰ حضور ﷺ کے پاس آئے اور جھگڑنے لگے عیسیٰ ابن مریم کے بارہ میں
’’ وقالوا لہ من ابوہ وقالوا علی اﷲ الکذب والبہتان فقال لہم النبی ﷺ الستم تعلمون انہ لا یکون ولد الا وھو یشبہہ اباہ قالوا بلیٰ قال الستم تعلمون ان ربنا حی لا یموت وان عیسیٰ یأتی علیہ الفناء فقالوا بلیٰ
(درمنثور ج۲ ص۳)‘‘
ربیع کہتے ہیں کہ نجران کے عیسائی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے 2558حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جھگڑنے لگے۔ کہنے لگے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ کون ہے۔ (مطلب یہ تھا کہ وہ خدا کا بیٹا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیٹے میں باپ کی مشابہت ہوتی ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر تمہارا رب زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا۔ حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام پر یقینا موت آئے گی تو انہوںنے کہا کیوں نہیں۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے تھے تو یہاں پر بہت آسان تھا کہ آپ ﷺ الوہیت مسیح کے ابطال کے لئے فرمادیتے کہ عیسیٰ علیہ السلام تو مر گئے وہ کیسے خدا ہوسکتے ہیں۔ یہ بات ابطال الوہیت اورابنیت پر زیادہ صاف دلیل ہو جاتی یا یوں ہی فرمادیتے کہ تمہارے خیال میں تو وہ مرگئے ہیں تو پھر خدایا خدا کے بیٹے کس طرح ہوسکتے ہیں۔ پھر بھی بہترین دلیل تھی۔ مگر ممکن تھا کہ کوئی مرزائی چودھویں صدی میں اپنی کور چشمی سے اس سے موت مسیح ثابت کر دیتا۔ سرور عالم ﷺ نے نہایت صفائی سے حق اور صرف حق فرمایا کہ خداتعالیٰ حی ہیں جو کبھی نہیں مرتے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر فنا آئے گی۔ یعنی بجائے ماضی کے مستقبل کا صیغہ استعمال فرمایا۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے ہوتے تو یقینا اس بحث میں یہی بہتر تھا کہ ان ’’ عیسیٰ قداتیٰ علیہ الفنائ ‘‘ فرمادیتے۔
 
Top