• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سورہ نساء آیت 159 قبل موتہ میں ہ کی ضمیر اور اسکا درست ترجمعہ

ضیاء رسول امینی

منتظم اعلیٰ
رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (159)
قبل موتہ میں ہ کی ضمیر سے مراد کون
مرزائی کہتے ہیں یہاں قبل موتہ میں ہ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف سے ہے اور اسکا مطلب یہ ہے کہ ہر اہل کتاب اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاتا رہے گا۔
پھر انہی مرزائیوں میں سے کچھ فلاسفر ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اپنی موت سے پہلے واقعہ صلیب پر ایمان لاتے رہیں گے۔
قارئین کرام ہم آج ہ کی ضمیر ہر ہر جگہ فٹ کرکے دیکھتے ہیں اور دلائل سے واضح کرتے ہیں کہ سوائے اس معنی کے کہ تمام اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے (زمانہ مستقبل میں) اس کے علاوہ کوئی بھی معنی پورا نہیں اترتا اس آیت پہ
اس آیت کا سب سے اہم حصہ یکون علیھم شہیدا والا ہے، جس پر مرزائی بات ہی نہیں کرتے اور یہ کہہ دیتے ہیں کہ جی اس پہ تو ہم متفق ہیں۔ لیکن یہی حصہ تمام باطل معنوں کی جڑ کاٹتا ہے
سب سے پہلے یہ ترجمعہ کرتے ہیں کہ
تمام اہل کتاب اپنی موت سے پہلے واقعہ صلیب پر ایمان لاتے رہیں گے اور قیامت کے دن وہ (ایک۔ کیونکہ یکون واحد کا صیغہ ہے) ہوگا ان سب پر گواہ۔
پہلی بات تو یہ کہ تمام اہل کتاب واقعہ صلیب پر(مرزائی دعوے کے مطابق) ایمان لاتے رہیں گے ۔ یہ تو ہے ہی بہت مضحکہ خیز بات کیونکہ یہودی عیسائی دونوں ہی واقعہ صلیب پر ر(مرزائی دعوے کے مطابق) پہلے ہی ایمان رکھتے ہیں۔پھر اتنا خصوصیت کے ساتھ اسکو ذکر کرنے کا کیا مقصد؟ اور قرآن پاک ایک فصیح و بلیغ کتاب ہے اور یہ ترجمعہ اسکی فصاحت و بلاغت کے بالکل برعکس ہے کہ بالکل بے مقصد بے مطلب اور بے تکی بات قرآن پاک میں شامل ہو۔ دوسری بات اگر یہ ترجمعہ کیا جائے تو وہ کون ہوگا جو قیامت کے دن ان سب پر گواہ ہوگا؟ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان سب پر گواہ ہوں گے؟ بالفرض یہ ترجمعہ مان لیا جائے تو بھی غلط ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیسے گواہی دیں گے قیامت کے دن کہ تمام اہل کتاب واقعہ صلیب پر ایمان لاتے رہے ہیں؟ جبکہ وہ تو مرزائیوں کے مطابق فوت ہوگئے ہیں تو کیا نعوذ باللہ وہ جھوٹی گواہی دیں گے؟ اور یہاں یہ ترجمعہ بھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی ایک اہل کتاب تمام اہل کتاب پر گواہی دے گا، کیونکہ ایسا بھی کوئی نہیں جس نے سب اہل کتاب کو واقعہ صلیب پر ایمان لاتے ہوئے دیکھا ہو۔ کیونکہ یہاں گواہ ایک ہے یکون واحد، اور جن پر گواہی دینی ہے وہ جمع ہے علیھم کسی ایک نے سب پر گواہی دینی ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ اگر یہاں واقعہ صلیب پر ایمان لانا مراد لیا جائے تو پھر اس واقعہ پر ایمان لانا ہوگا جو اللہ پاک نے خود بیان فرمایا کہ وہ قتل و صلب نہیں ہوئے۔کیونکہ یہاں لیومنن بہ میں ہ کی جو ضمیر ہے اس کا تعین ہورہا ہے کہ وہ ان آیات میں مذکور کس معاملے یا شخصیت کی طرف اشارہ کررہی ہے تو اگر اس کو واقعہ صلیب کی طرف مانا جائے تو اسی کی طرف مانا جائے گا جو واقعہ ان آیات میں مذکور ہے۔ یہ تو مطلب نہیں ہوسکتا کہ مرزائیوں کے دماغ میں جو واقعہ چل رہا ہے اس پہ ایمان لائیں گے۔ اس طرح سے بھی یہ مفہوم باطل ہوا کیونکہ اہل کتاب مذکورہ واقعہ پر ایمان لاتے ہی نہیں بلکہ وہ اسکے برخلاف ایمان رکھتے ہیں۔
دوسرا ترجمعہ
اور کوئی نہ ہوگا اہل کتاب میں سے مگر اپنی موت سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاتا رہے گا اور وہ ہوگا قیامت کے دن ان سب پر گواہ
یہاں مرزائی ایک انتہائی مضحکہ خیز لطیفہ سناتے ہیں کہ ہر اہل کتاب اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نبی ہونے کا اقرار کرتا رہے گا جب ہم کہتے ہیں کہ عیسائی تو سارے انکو خدا مانتے ہیں اور اسی عقیدے کے ساتھ ہی مرتے ہیں اور یہودی انکے انکار کے ساتھ مرتے ہیں تو آگے سے لطیفہ سناتے ہیں کہ وہ جی مرتے وقت چپکے سے ایمان لے آتے ہیں یعنی اگر کوئی چھت سے گر کر مرتا ہے تو گرنے سے فرش تک پہنچنے کے درمیان اپنی موت سے پہلے ایمان لے آتا ہے۔ ایسا لطیفہ شاید ہی کبھی آپ نے سنا ہو کہ نہ کوئی مرتے ہوئے کسی اہل کتاب سے پوچھ سکے کہ ایمان لائے ہو یا نہیں نہ ہماری بات کا کوئی رد کرسکے۔ لیکن ان مرزائیوں کو یہ معلوم نہیں کہ قرآن پاک کوئی بھی غلط معنی خود پہ فٹ نہیں ہونے دیتا یہ قرآن کا معجزہ ہے
اللہ پاک سورہ نساء آیت 46 میں اہل کتاب کے بارے فرماتا ہے فلا یومنون الا قلیلا یعنی یہ نہیں ایمان لاتے مگر بہت کم
اللہ پاک تو فرماتا ہے کہ ان میں سے بہت کم ایمان لاتے ہیں تو مرزئیوں کا یہ ترجمعہ بھی غلط ثابت ہوا کہ تمام اہل کتاب اپنی موت سے پہلے چپکے سے ایمان لے آتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ پاک ہرگز نہ فرماتا کہ ان میں سے بہت قلیل ایمان لاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ایمان لانا اسکو کہتے ہی نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر تو ایمان لایا جائے مگر نبی کریمﷺ کا انکار کیا جائے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کے لیے نبی کریمﷺ پر ایمان لانا شرط ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ میرے بعد ایک رسول آئے گا جس کا نام احمد ہوگا اس پر بھی ایمان لانا اور نبی کریمﷺ کی تشریف آوری کے بعد اگر کوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی مان بھی لے لیکن نبی کریمﷺ کو نہ مانے تو اسکو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا کہا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ نبی پر ایمان لانے کا مطلب ہے نبی کی تعلیم پر ایمان لانا لیکن جب اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے فرمان پر عمل ہی نہیں کرتے تو ایمان لانا کیسا؟
اور پھر وہی اس آیت کا اہم حصہ کہ اگر ہر اہل کتاب اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاتا رہے گا تو قیامت کے دن ان سب پر گواہ کون ہوگا؟ وہ کون سا ایک فرد ہے جس نے قیامت کے دن ان سب پر گواہ ہونا ہے؟ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام جھوٹی گواہی دیں گے جبکہ وہ مرزائیوں کے مطابق پہلے ہی فوت ہوچکے ہیں؟
اور مرزا قادیانی بھی اقرار کرتا ہے کہ بہت سے اہل کتاب مسیح کی نبوت سے کافر رہ کر مرے ہیں
’’ہر ایک شخص خوب جانتا ہے کہ بے شمار اہل کتاب مسیح کی نبوت سے کافر رہ کر واصل جہنم ہو چکے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۶۷، خزائن ج۳ ص۲۸۸)
پھر مرزائی ایک اور شوشہ چھوڑتے ہیں کہ ابن ابی کعب کی قرات میں موتہ واحد کی جگہ موتھم جمع آیا ہے۔ یعنی اس سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گویا اللہ پاک نعوذ باللہ اپنے کلام کی حفاظت نہیں کرسکتا اور قرآن پاک میں تحریف کردی گئی یہ ایسے عقیدے مرزائی ہی رکھ سکتے ہیں۔ قارئین کرام یہ موتھم کی قرات والی روایت ہی ضعیف ہے اور مجھے حیرانگی ہوتی ہے مرزائیوں پر ایک طرف کہتے ہیں کہ ہم احادیث کو قرآن کے مطابق پرکھتے ہیں جو قرآن کے مطابق ہو اسے ہم درست مانتے ہیں جو قرآن کے خلاف ہو اسے مانتے ہی نہیں اور دوسری طرف قرآن پاک کو صحابی کی روایت سے پرکھ رہے ہیں پرکھ ہی نہیں بلکہ ایک ضعیف روایت کی وجہ سے قرآن پاک کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہاں کیوں نہ یاد آیا ان کو کہ یہ قرآن کے خلاف ہے اس لیے ہم نہیں مانتے؟ یہ ہے مرزائیت کا گھناونا چہرہ
پھر اگر یہاں موتھم لفظ سمجھا جائے تو آیت کا ترجمعہ یوں ہوگا کہ کوئی نہ ہوگا اہل کتاب میں سے مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاتا رہے گا سب کی موت سے پہلے۔ کیونکہ موتھم جمع یعنی ترجمعہ یوں گا بلکہ لطیفہ یوں ہوگا کہ تمام اہل کتاب تمام اہل کتاب کی موت سے پہلے ایمان لاتے رہیں گے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
پھر وہی آیت کا اہم حصہ کہ اگر بالفرض یہ لطیفہ بھی مان لیا جائے تو پھر قیامت کے دن وہ ایک کون ہوگا جس نے سب پر گواہی دینی ہے؟ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام جھوٹی گواہی دیں گے؟
اب آتے ہیں درست ترجمعے پر
ترجمعہ
اور کوئی نہ ہوگا اہل کتاب میں سے مگر وہ ضرور ایمان لائے گا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ۔ اور وہ ہوگا قیامت کے دن ان پر گواہ۔
یہاں اللہ پاک نے لَيُؤْمِنَنَّ فرمایا ہے جو لام اور نون تاکید ثقیلہ کے ساتھ ہے جو کہ صرف مستقبل کے زمانہ کے لیے خاص ہوتا ہے۔ یعنی اللہ پاک نے فرمایا کہ مستقبل میں ایسا ہوگا کہ کوئی بھی اہل کتاب ایسا موجود نہ ہوگا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کی موت سے قبل ان پر ایمان نہ لائے۔ یعنی اس وقت جو موجود ہوں گے ان میں سے کوئی ایسا نہ رہے گا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لاتا ہو اور یہ تب ہی ہوگا جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے اور تب انکی زندگی میں ہی یہ وقت آئے گا جب اللہ کا وعدہ پورا ہوگا کہ روئے زمین پر پر ایک بھی ایسا اہل کتاب نہ رہے گا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ اور قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان سب پر گواہ ہوں گے کیونکہ ان کے سامنے ہی یہ ہوگا کہ سب ایمان لے آئیں گے۔ اور پھر یہاں اللہ پاک کا وہ فرمان بھی پورا اترتا ہے کہ بہت کم اہل کتاب ایمان لانے والے ہیں یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قبل ہزاروں سال تک عیسائی یہودی کفر پر مرتے رہے بہت کم تھے جو کہ ایمان لائے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت بھی جتنے موجود ہوں گے وہ سب مل کر بھی تمام اہل کتاب کے مقابلے میں کم ہی بنیں گے
مرزائی شوشہ نمبر 1
کہتے ہیں حدیث میں آیا ہے کہ 70000 یہودی دجال کے ساتھ مل جائیں گے تو وہ پھر کیسے ایمان لائیں گے؟
تو مرزائی جی جو 70000 دجال کے ساتھ مل جائیں گے وہ دجال کے ساتھ ہی مارے جائیں گے۔ اور وہی رہ جائیں گے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے ہوں گے اور اللہ کا وعدہ پورا ہوجائے گا۔
شوشہ نمبر 2
وہ جی قرآن میں ہے کہ یہود و نصاریٰ تو قیامت تک رہیں گے۔

إِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
آل عمران ۵۵
﴿مرزای ترجمعہ﴾جس وقت الله نے فرمایا اے عیسیٰ! بے شک میں تمہیں وفات دینے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں سے پاک کرنے والا ہوں اور جو لوگ تیرے تابعدار ہوں گے انہیں ان لوگوں پر قیامت کے دن تک غالب رکھنے والا ہوں جو تیرے منکر ہیں پھر تم سب کو میری طرف لوٹ کر آنا ہوگا پھر میں تم میں فیصلہ کروں گا جس بات میں تم جھگڑتے تھے۔
اس میں الی یوم القیامة کے الفاظ سے مرزای یہ استدلال کرتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام کے تابعداروں کا منکروں پہ قیامت تک غلبہ رہنا ہے لہذا قیامت تک تابعدار اور منکر ہر وقت بنا کسی وقفے کے موجود رہیں گے تو یہ ممکن نہیں کہ کوی ایسا وقت آے جب سب عیسی علیہ السلام پر ایمان لے آئیں اور کوی بھی منکر نہ رہے۔ لہذا یہ ترجمعہ غلط ہے۔
ان لوگوں کا چونکہ عقل اور علم سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں اس لیے اس طرح کی بونگیاں مارتے ہیں۔
حالانکہ اللہ پاک نے صرف اتنا ہی فرمایا ہے کہ تمام اہل کتاب حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات سے پہلے ان پہ ایمان ضرور لایں گے یہ نہیں فرمایا کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد پھر قیامت تک اس ایمان پہ قایم رہیں گے اور دوبارہ کوئی منکر پیدا نہیں ہوگا۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد پھر کچھ منکرین پیدا ہوجائیں۔
اسکی مذید وضاحت کے لیے میرا یہ مضمون دیکھیں۔

http://www.khatmenbuwat.org/threads/حیات-عیسی-علیہ-السلام-کا-قرآن-پاک-سے-ثبوت-اور-مرزائیوں-کے-دجل-کا-پوسٹ-مارٹم.2867/
اب اس بات کو مرزا قادیانی نے بھی تسلیم کیا ہے
’’اس پر اتفاق ہوگیا ہے کہ مسیح کے نزول کے وقت اسلام دنیا پر کثرت سے پھیل جائے گا اور ملل باطلہ ہلاک ہوجائیں گی اور راستبازی ترقی کرے گی‘‘۔
(ایام الصلح، رخ14، صفحہ 381)
’’اور پھر اسی ضمن میں مسیح موعود کے آنے کی خبر دی اور فرمایا کہ اس کے ہاتھ سے عیسائی دین کا خاتمہ ہوگا اور فرمایا کہ وہ ان کی صلیب کو توڑ دیگا‘‘۔
(شہادۃ القرآن، رخ 6، صفحہ 307)
’’…خدا تعالیٰ کی طرف سے صور پھونکاجائے گا تب ہم تمام فرقوں کو ایک ہی مذہب پر جمع کردیں گے‘‘۔
(شہادۃ القرآن، رخ 6، صفحہ 311)
’’تب اُن دنوں میں خدا تعالیٰ اس پھوٹ کو دور کرنے کے لئے آسمان سے بغیر انسانی ہاتھوں کے اور محض آسمانی نشانوں سے اپنے کسی مرسل کے ذریعہ جو صُور یعنی قرنا کا حکم رکھتا ہوگا اپنی پُر ہیبت آواز لوگوں تک پہنچائے گا جس میں ایک بڑی کشش ہوگی اور اس طرح پر خدا تعالیٰ تمام متفرق لوگوں کو ایک مذہب پر جمع کردے گا‘‘۔
(چشمہ معرفت، رخ 23، صفحہ 88)
مرزا کے بیٹے اور دوسرے مرزائی خلیفہ مرزامحمود نے مسند احمد کی ایک حدیث کا اردو ترجمہ کرتے ہوئے لکھا تھا :۔
’’…اس کے زمانے میں اللہ تعالیٰ سب مذاہب کو ہلاک کردے گا اور صرف اسلام رہ جائے گا‘‘۔
(حقیقۃ النبوۃ، انوار العلوم، جلد 2، صفحہ 508)
جی اب مرزائی بتائیں کے جب قیامت تک اہل کتاب یہودی عیسائی موجود رہیں گے تو مرزا قادیانی پر کیا فتوی دو گے جس نے کہا کہ تمام باطل مذاہب مٹ جائیں گے اور اسلام پر جمع ہوجائیں گے؟ قارئین کرام ثابت ہوا کہ سوائے آخری ترجمعے کے جو کہ مسلمان 14 سو سال سے کرتے آئے ہیں کوئی اور ترجمعہ اس آیت پر فٹ نہیں ہوتا۔ اللہ پاک مرزائیوں کو ہدایت دے
باقی مرزائی مختلف تفاسیر کا نام لکھ دیتے ہیں مگر کسی کا اصل سکین پیش نہیں کرتے نہ مکمل حوالہ دیتے ہیں کیونکہ انہوں نے کوئی نہ کوئی دجل کرنا ہوتا ہے۔ اگلے حصے میں تفسیر ابن جریر ، تفسیر فتح البیان اور تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اس آیت سے متعلق مرزائیوں کے دھوکے کا پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔
 
آخری تدوین :
Top