• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سیرت المہدی

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
سیرت المہدی ۔ سیرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 1 ۔ یونی کوڈ


بِسْمِ اللّٰہ ِالرَّحْمٰنِ الرَّحیْـمْ
نَحمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلیٰ رَسُوْلِہِ الکَرِیْم
وعلیٰ عبدہ المسیح الموعود مع التسلیم
عرض حال
امام بخاری علیہ الرحمۃ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اعمال نیت سے ہوتے ہیں اور ہر شخص اپنی نیت کے مطابق پھل پاتا ہے ۔
خاکسار مرزا بشیر احمد ؐ ابن حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارادہ کیا ہے واللّٰہ الموفّقکہ جمع کروں ان لوگوں کے واسطے جنہو ں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت نہیں اُٹھائی اورنہ آپ کو دیکھا ہے ،آپ کے کلمات و حالات و سوانح اور دیگر مفید باتیں متعلق آپ کی سیرت اور خُلق و عادات وغیرہ کے ۔پس شروع کرتا ہوں میں ا س کام کو آج بروز بدھ بتاریخ ۲۵؍شعبان ۱۳۳۹ھ مطابق ۴؍مئی ۱۹۲۱ء بعد نماز ظہر اس حال میں کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیت الدعا میں بیٹھا ہوں اور میں دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ سے کہ وہ مجھے صراط مستقیم پر قائم رکھے اور اس کتاب کے پورا کرنے کی توفیق دے اللّٰہم آمین ۔
میرا ارادہ ہے واللّٰہ الموفّق کہ جمع کروں اس کتاب میں تمام وہ ضروری باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق خود تحریر فرمائی ہیں اور وہ جو دوسرے لوگوں نے لکھی ہیں نیز جمع کروں تمام وہ زبانی روایات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مجھے پہنچی ہیں یا جو آئندہ پہنچیں اور نیز وہ باتیں جو میرا ذاتی علم اور مشاہدہ ہیں اور میں انشا ء اللہ تعالیٰ صرف وہی روایات تحریر کروں گا جن کو میں صحیح سمجھتا ہوں مگر میں الفاظ ِ روایت کی صحت کا دعویدار نہیں ہوں اور نہ لفظی روایت کا کماحقہ التزام کر سکتا ہوں نیز میں بغرض سہولت تمام روایات اردو زبان میں بیان کروں گا خواہ دراصل وہ کسی اور زبان میں روایت کی گئی ہوںاور فی الحال تمام روایات عموماً بغیر لحاظ معنوی ترتیب کے صرف اسی ترتیب میں بیا ن کروں گا جس میں کہ وہ میرے سامنے آئیں پھر بعد میں خدا نے چاہا اور مجھے توفیق ملی تو انہیں معنوی ترتیب سے مرتب کر دیا جاویگا ۔
اخذ روایات میں جن شرائط کو میں نے محفوظ رکھا ہے ان کا ذکر موجب تطویل سمجھ کر اس جگہ چھوڑتا ہوں۔ اللّٰھم وفق و اعن فا نک انت الموفق و المستعا ن -
خاکسار راقم آثم
مرزا بشیر احمد
قادیان






بسم اللہ الرحمن الرحیم

{ 1} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ ان سے فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہ مجھے معلوم ہوا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یا فرمایا کہ بتایا گیا ہے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ سبحان اللّٰہ و بحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم بہت پڑھنا چاہئیے ۔والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اس وجہ سے آپ اسے بہت کثرت سے پڑھتے تھے حتیّٰ کہ رات کو بستر پر کروٹ بدلتے ہوئے بھی یہی کلمہ آپ کی زبان پر ہوتا تھا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے جب یہ روایت مولوی شیر علی صاحب سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ میں نے بھی دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سبحا ن اللّٰہ بہت پڑھتے تھے اور مولوی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے آپ کو استغفار پڑھتے کبھی نہیں سُنا ۔نیز خاکسار اپنا مشاہدہ عرض کر تا ہے کہ میں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سبحا ن اللّٰہ پڑھتے سنا ہے ۔آپ بہت آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر اور سکون اور اطمینان اور نرمی کے ساتھ یہ الفاظ زبان پر دہراتے تھے اس طرح کہ گویا ساتھ ساتھ صفات باری تعالیٰ پر بھی غور فرماتے جاتے ہیں ۔
{ 2} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر ہر وقت باوضو رہتے تھے جب کبھی رفع حاجت سے فارغ ہو کر آتے تھے وضو کر لیتے تھے سوائے اس کے کہ بیماری یا کسی اور وجہ سے آپ رُک جاویں ۔
{ 3} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیا ن کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز پنجگانہ کے سوا عام طور پر دو قسم کے نوافل پڑھا کر تے تھے ایک نماز اشراق (دو یا چار رکعات )جو آپ کبھی کبھی پڑھتے تھے اور دوسرے نماز تہجد( آٹھ رکعات ) جو آپ ہمیشہ پڑھتے تھے سوائے اس کے کہ آپ زیادہ بیمار ہوں لیکن ایسی صورت میں بھی آپ تہجد کے وقت بستر پر لیٹے لیٹے ہی دعا مانگ لیتے تھے ۔ اور آخری عمر میں بوجہ کمزوری کے عموماً بیٹھ کر نماز تہجد ادا کر تے تھے ۔
{ 4} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر صبح کی نماز کے بعد تھوڑی دیر کے لئے سو جاتے تھے کیونکہ رات کا زیادہ حصّہ آپ جاگ کر گزارتے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ اوّل تو آپ کو اکثر اوقات رات کے وقت بھی مضامین لکھنے پڑتے تھے جو آپ عموماًبہت دیر تک لکھتے تھے دوسرے آپ کو پیشاب کے لئے بھی کئی دفعہ اُٹھنا پڑتا تھا اس کے علاوہ نماز تہجد کے لئے بھی اُٹھتے تھے ۔نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب مٹی کے تیل کی روشنی کے سامنے بیٹھ کر کام کرنا نا پسند کرتے تھے اور اس کی جگہ موم بتیاں استعمال کر تے تھے ۔ایک زمانہ میں کچھ عرصہ گیس کا لیمپ بھی استعمال کیا تھا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ کئی کئی موم بتیاں جلا کر سامنے رکھوا لیتے تھے اگر کوئی بتی بجھ جاتی تھی تو اس کی جگہ اور جلا لیتے تھے اور گھر میں عموماً موم بتیوں کے بنڈل منگوا کر ذخیرہ رکھوا لیتے تھے ۔خاکسار کو یاد ہے کہ ایک دفعہ اس دالان میں جو بیت الفکر کے ساتھ ملحق شمال کی طرف ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام شمالی دیوار کے پاس پلنگ پر بیٹھے ہوئے شاید کسی کام میں مصروف تھے اور پاس موم کی بتیاں جلی رکھی تھیں ۔حضرت والدہ صاحبہ بتیوں کے پاس سے گزریں تو پشت کی جانب سے ان کی اوڑ ھنی کے کنارے کو آگ لگ گئی اور ان کو کچھ خبر نہ تھی ۔حضرت مسیح موعود نے دیکھا تو جلدی سے اُٹھ کر اپنے ہاتھ سے آگ بجھائی ۔اس وقت والدہ صاحبہ کچھ گھبرا گئی تھیں ۔
{ 5} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فریضہ نماز کی ابتدائی سنتیں گھر میں ادا کرتے تھے اور بعد کی سنتیں بھی عموماً گھر میں اور کبھی کبھی مسجد میں پڑھتے تھے ۔ خاکسارنے دریافت کیا کہ حضرت صاحب نماز کو لمبا کر تے تھے یا خفیف؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ عموماً خفیف پڑھتے تھے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 6} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے باغ میں پھر رہے تھے جب آپ سنگترہ کے ایک درخت کے پاس سے گزرے تو میں نے (یعنی والدہ صاحبہ نے) یا کسی اور نے کہا کہ اس وقت تو سنگترہ کو دل چاہتا ہے ۔حضرت صاحب نے فرمایا کیا تم نے سنگترہ لینا ہے ؟ والدہ صاحبہ نے یا اس شخص نے کہا کہ ہاں لینا ہے ۔اس پر حضرت صاحب نے اس درخت کی شاخوں پر ہاتھ مارا اور جب آپ کا ہاتھ شاخوں سے الگ ہو ا تو آپ کے ہاتھ میں ایک سنگترہ تھا اور آپ نے فرمایا یہ لو۔خاکسار نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ وہ سنگترہ کیسا تھا ؟ والدہ صاحبہ نے کہا زرد رنگ کا پکا ہوا سنگترہ تھا ۔ میںنے پوچھا۔ کیا پھر آپ نے اسے کھا یا ؟والدہ صاحبہ نے کہا یہ مجھے یاد نہیں۔میں نے دریافت کیا کہ حضرت صاحب نے کس طرح ہاتھ مارا تھا؟ اس پر والدہ صاحبہ نے اس طرح ہاتھ مار کر دکھایااور کہا کہ جس طرح پھل توڑ نے والے کا ہاتھ درخت پرٹھہرتا ہے اس طرح آپ کا ہاتھ شاخوں پر نہیں ٹھہرا بلکہ آپ نے ہاتھ مارا اور فوراً لوٹا لیا ۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ کیا اس وقت سنگترہ کا موسم تھا ؟ والدہ صاحبہ نے فرما یا کہ نہیں اور وہ درخت بالکل پھل سے خالی تھا ۔خاکسار نے یہ روایت مولوی شیر علی صاحب کے پاس بیان کی تو انہوں نے کہا کہ میں نے یہ روایت حضرت خلیفہ ثانی ؓسے بھی سنی ہے ۔آپ بیان کرتے تھے کہ حضرت صاحب نے میرے کہنے پر ہاتھ مارا اور سنگترہ دیا تھا ۔
{ 7} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میں کسی سفر سے واپس قادیان آرہا تھا تو میں نے بٹالہ پہنچ کر قادیان کے لئے یکہ کرایہ پر کیا ۔اس یکہ میں ایک ہندو سواری بھی بیٹھنے والی تھی جب ہم سوار ہونے لگے تو وہ ہندو جلدی کر کے اُس طرف چڑھ گیا جو سورج کے رُخ سے دوسری جانب تھی اور مجھے سورج کے سامنے بیٹھنا پڑا ۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ جب ہم شہر سے نکلے تو نا گاہ بادل کا ایک ٹکڑا اُٹھا اور میرے اور سورج کے درمیان آگیا اور ساتھ ساتھ آیا ۔ خاکسار نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ کیاوہ ہندو پھر کچھ بولا ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا یاد پڑتا ہے کہ حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ پھر اس ہندو نے بہت معذرت کی اور شرمندہ ہوا ۔والدہ صاحبہ نے فرما یا کہ وہ گرمی کے دن تھے ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہی روایت مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے بھی بیان کی ہے ۔انہوں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ واقعہ سنا تھا ۔صرف یہ اختلاف ہے کہ مولوی صاحب نے بٹالہ کی جگہ امرتسر کا نام لیا اور یقین ظاہر کیا اس بات پر کہ اس ہندو نے اس خارق عادت امر کو محسوس کیا تھا اور بہت شرمندہ ہوا تھا ۔
{ 8} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایاکہ ایک دفعہ کسی مقدمہ کے واسطے میں ڈلہوزی پہاڑ پر جا رہا تھا راستہ میں بارش آگئی مَیں اور میرا ساتھی یکہ سے اُترآئے اور ایک پہاڑی آدمی کے مکان کی طرف گئے جو راستہ کے پاس تھا ۔ میرے ساتھی نے آگے بڑھ کر مالک مکان سے اندر آنے کی اجازت چاہی مگر اس نے روکا اس پر ان کی باہم تکرار ہو گئی اور مالک مکان تیز ہو گیا اور گالیاں دینے لگا ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں یہ تکرار سن کر آگے بڑھا ۔جونہی میری اور مالک مکان کی آنکھیں ملیں تو پیشتر اسکے کہ میں کچھ بولوں اس نے اپنا سر نیچے ڈال لیا اور کہا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ میری ایک جوان لڑکی ہے اس لئے میں اجنبی آدمی کو گھر میں نہیں گھسنے دیتا مگر آپ بے شک اندر آجائیں ۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ وہ ایک اجنبی آدمی تھا نہ میں اسے جانتا تھا اور نہ وہ مجھے جانتا تھا ۔
{ 9} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ جب میں کسی سفر میں تھا ۔رات کے وقت ہم کسی مکان میں دوسری منزل پر چوبارہ میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔اسی کمرے میں سات آٹھ اور آدمی بھی ٹھہرے ہوئے تھے ۔جب سب سو گئے اور رات کا ایک حصّہ گذر گیا تو مجھے کچھ ٹک ٹک کی آواز آئی اور میرے دل میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اس کمرے کی چھت گرنے والی ہے ۔اس پر میں نے اپنے ساتھی مسیتا بیگ کو آواز دی کہ مجھے خدشہ ہے کہ چھت گرنے والی ہے ۔اس نے کہا میاں یہ تمہارا وہم ہے نیا مکان بنا ہوا ہے اور بالکل نئی چھت ہے آرام سے سو جائو ۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں پھر لیٹ گیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد پھر وہی ڈر میرے دل پر غالب ہو ا میں نے پھر اپنے ساتھی کو جگا یا مگر اس نے پھر اسی قسم کا جواب دیا میں پھر ناچار لیٹ گیا مگر پھر میرے دل پر شدت کے ساتھ یہ خیال غالب ہو ااور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا شہتیر ٹوٹنے والا ہے ۔ میں پھر گھبرا کر اُٹھااور اس دفعہ سختی کے ساتھ اپنے ساتھی کو کہا کہ میں جو کہتا ہوں کہ چھت گرنے والی ہے اُٹھو ۔ تو تم اُٹھتے کیوں نہیں ۔اس پر ناچار وہ اُٹھااور باقی لوگوں کو بھی ہم نے جگا دیاپھر میں نے سب کو کہا کہ جلدی باہر نکل کر نیچے اُتر چلو۔دروازے کے ساتھ ہی سیڑھی تھی میں دروازے میں کھڑا ہوگیا اور وہ سب ایک ایک کر کے نکل کر اُترتے گئے ۔جب سب نکل گئے تو حضرت صاحب فرما تے تھے کہ پھر میں نے قدم اُٹھایا ابھی میرا قدم شاید آدھاباہر اور آدھا دہلیز پر تھا کہ یک لخت چھت گری اور اس زور سے گری کہ نیچے کی چھت بھی ساتھ ہی گر گئی حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم نے دیکھا کہ جن چارپائیوں پر ہم لیٹے ہوئے تھے وہ ریزہ ریزہ ہوگئیں ۔خاکسار نے حضرت والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ مسیتا بیگ کون تھا ؟ والد ہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہ تمہارے دادا کا ایک دور نزدیک سے رشتہ دار تھا اور کا رندہ بھی تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے اس روایت کو ایک دفعہ اس طرح پر بیان کیا تھا کہ یہ واقعہ سیالکوٹ کا ہے جہاں آپ ملازم تھے اور یہ کہ حضرت مسیح موعود فرماتے تھے کہ اس وقت میں یہی سمجھتا تھا کہ یہ چھت بس میرے باہر نکلنے کا انتظار کر رہی ہے اور نیز حضرت خلیفۃالمسیح ثانی نے بیان کیا کہ اس کمرہ میں اس وقت چند ہندو بھی تھے جو اس واقعہ سے حضرت صاحب کے بہت معتقد ہو گئے ۔
{ 10} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود ؑ نے بیان فرمایا کہ جب بڑے مرزا صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود کے والد صاحب ) کشمیر میں ملازم تھے تو کئی دفعہ ایسا ہو ا کہ ہماری والدہ نے کہا کہ آج میرا دل کہتا ہے کہ کشمیر سے کچھ آئے گا تو اسی دن کشمیر سے آدمی آگیا اور بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ ادھر والدہ صاحبہ نے یہ کہا اور ادھر دروازہ پر کسی نے دستک دی ۔دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ کشمیر سے آدمی آیا ہے ۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیںکہ تمہارے دادا کشمیر سے اپنے آدمی کو چند ماہ کے بعد خط اور روپیہ دے کر بھیجا کر تے تھے ۔نقدی وغیرہ چاندی سونے کی صورت میں ایک گدڑی کی تہہ کے اندر سلی ہوئی ہوتی تھی جو وہ آدمی راستہ میں پہنے رکھتا تھا اور قادیان پہنچ کر اتار کر اندر گھر میں بھیج دیتا تھا ۔گھر والے کھول کر نقدی نکال لیتے تھے اور پھر گدڑی واپس کر دیتے تھے ۔نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے دادا کشمیر میں صوبہ تھے ۔اس وقت حضرت خلیفۃالمسیح ثانی بھی اوپر سے تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ جس طرح انگریزوں میں آجکل ڈپٹی کمشنر اور کمشنر وغیرہ ہوتے ہیں اسی طرح کشمیر میں صوبے گورنر علاقہ ہوتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہماری دادی صاحبہ یعنی حضرت مسیح موعود کی والدہ صاحبہ کا نام چراغ بی بی تھا وہ دادا صاحب کی زندگی میں ہی فوت ہو گئی تھیں ۔ان کو حضرت صاحب سے بہت محبت تھی اور آپ کو ان سے بہت محبت تھی ۔میں نے کئی دفعہ دیکھا ہے کہ جب آپ ان کا ذکر فرماتے تھے تو آپ کی آنکھیں ڈبڈبا آتی تھیں ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 11} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنوں میں سے منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے ۔نیز بیان کیا حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے کہ جب مبارکہ بیگم (ہماری ہمشیرہ ) پید اہونے لگی تو منگل کا دن تھا اسلئے حضرت صاحب نے دعا کی کہ خدا اُسے منگل کے تکلیف دہ اثرات سے محفوظ رکھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن توام پیدا ہوئے تھے اور فوت ہوئے منگل کے دن ۔اور جاننا چاہئے کہ زمانہ کی شمار صرف اہل دنیا کے واسطے ہے اور دنیا کے واسطے واقعی آپ کی وفات کا دن ایک مصیبت کا دن تھا ۔
( اس روایت سے یہ مراد نہیں ہے کہ منگل کا دن کوئی منحوس دن ہے بلکہ جیسا کہ حصہ دوم کی روایت نمبر ۳۱۱،۳۲۲ و ۳۶۰میں تشریح کی جا چکی ہے۔ اس سے صرف یہ مراد ہے کہ منگل کا دن بعض اجرام سماوی کے مخفی اثرات کے ماتحت اپنے اندر سختی اور تکلیف کا پہلو رکھتا ہے۔ چنانچہ منگل کے متعلق حدیث میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول آتا ہے کہ منگل وہ دن ہے جس میں خدا تعالیٰ نے پتھریلے پہاڑ اور ضرر رساں چیزیں پیدا کی ہیں۔ دیکھو تفسیر ابن کثیر آیت خلق الارض فی یومین الخ )
{ 12} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری بیماری بیمار ہوئے اور آپ کی حالت نازک ہوئی تو میں نے گھبرا کر کہا ’’اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے ‘‘ اس پر حضرت صاحب نے فرمایا ’’ یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا ‘‘خاکسار مختصراً عر ض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ۲۵؍مئی ۱۹۰۸ء یعنی پیر کی شام کو بالکل اچھے تھے رات کو عشاء کی نماز کے بعد خاکسار باہر سے مکان میں آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ والدہ صاحبہ کے ساتھ پلنگ پر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے ۔میں اپنے بستر پر جاکر لیٹ گیا اور پھر مجھے نیند آگئی ۔رات کے پچھلے پہر صبح کے قریب مجھے جگا یا گیا یا شاید لوگوں کے چلنے پھرنے اور بولنے کی آوازسے میں خود بیدار ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسہال کی بیماری سے سخت بیمار ہیں اور حالت نازک ہے اور اِدھر اُدھرمعالج اور دوسرے لوگ کام میںلگے ہوئے ہیں ۔جب میں نے پہلی نظر حضرت مسیح موعود ؑ کے اوپر ڈالی تو میرا دل بیٹھ گیا۔کیونکہ میں نے ایسی حالت آپ کی اس سے پہلے نہ دیکھی تھی اور میرے دل پر یہی اثر پڑا کہ یہ مرض الموت ہے ۔اس وقت آپ بہت کمزور ہو چکے تھے ۔اتنے میں ڈاکٹر نے نبض دیکھی تو ندارد ۔سب سمجھے کہ وفات پاگئے اور یکدم سب پر ایک سناٹا چھا گیا مگر تھوڑی دیر کے بعد نبض میںپھر حرکت پید اہوئی مگر حالت بد ستور نازک تھی اتنے میں صبح ہوگئی اور حضرت مسیح موعود کی چارپائی کو باہر صحن سے اُٹھا کر اند ر کمرے میں لے آئے جب ذرا اچھی روشنی ہوگئی تو حضرت مسیح موعود ؑ نے پوچھا کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے ؟ غالباً شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی نے عرض کیا کہ حضور ہو گیا ہے ۔آپ نے بستر پر ہی ہاتھ مار کر تیمم کیا اور لیٹے لیٹے ہی نماز شروع کر دی مگر آپ اسی حالت میں تھے کہ غشی سی طاری ہوگئی اور نماز کو پورا نہ کر سکے ۔تھوڑی دیر کے بعد آپ نے پھر دریافت فرمایا کہ صبح کی نماز کا وقت ہو گیا ہے عرض کیا گیا حضور ہو گیا ہے آپ نے پھر نیت باندھی مگر مجھے یا دنہیں کہ نماز پوری کر سکے یا نہیں ۔اس وقت آپ کی حالت سخت کرب اور گھبراہٹ کی تھی ۔غالبًا آٹھ یا ساڑھے آٹھ بجے ڈاکٹر نے پوچھا کہ حضور کو خاص طور پر کیا تکلیف محسوس ہوتی ہے ۔مگر آپ جواب نہ دے سکتے اس لئے کاغذ قلم دوات منگوائی گئی اور آپ نے بائیں ہاتھ پر سہارا لے کر بستر سے کچھ اُٹھ کر لکھنا چاہا مگر بمشکل دوچار الفاظ لکھ سکے اور پھر بوجہ ضعف کے کاغذ کے اوپر قلم گھسٹتا ہو ا چلا گیا اور آپ پھر لیٹ گئے ۔یہ آخری تحریر جس میں غالباً زبان کی تکلیف کا اظہار تھا اور کچھ حصّہ پڑھا نہیں جاتا تھا جناب والدہ صاحبہ کو دے دی گئی ۔نو بجے کے بعد حضرت صاحب کی حالت زیادہ نازک ہو گئی اور تھوڑی دیر کے بعد آپ کو غر غرہ شروع ہو گیا ۔غر غرہ میں کوئی آواز وغیر ہ نہیں تھی بلکہ صرف سانس لمبا لمبا اور کھچ کھچ کر آتا تھا خاکسار اس وقت آپ کے سرہانے کھڑا تھا ۔ یہ حالت دیکھ کر والدہ صاحبہ کو جو اس وقت ساتھ والے کمرے میں تھیں اطلاع دی گئی وہ مع چند گھر کی مستورات کے آپ کی چارپائی کے پاس آکر زمین پر بیٹھ گئیں ۔اس وقت ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب لاہوری نے آپ کی چھاتی میںپستان کے پاس انجکشن یعنی دوائی کی پچکاری کی جس سے وہ جگہ کچھ اُبھر آئی مگر کچھ افاقہ محسوس نہ ہوا بلکہ بعض لوگوں نے بُرا منایا کہ اس حالت میں آپ کو کیوں یہ تکلیف دی گئی ہے ۔ تھوڑی دیر تک غرغرہ کا سلسلہ جاری رہا اورہر آن سانسوں کے درمیان کا وقفہ لمبا ہو تا گیا حتّٰی کہ آپ نے ایک لمبا سانس لیا او ر آپ کی روح رفیق اعلیٰ کی طرف پرواز کر گئی ۔ اللھم صل علیہ و علٰی مطاعہ محمد ؐ و بارک وسلم ۔
خاکسار نے والدہ صاحبہ کی یہ روایت جو شروع میں درج کی گئی ہے جب دوبارہ والدہ صاحبہ کے پاس برائے تصدیق بیان کی اور حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کا ذکر آیا تو والدہصاحبہ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پائوں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کرسو گئے ۔اور میں بھی سو گئی لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک یا دو دفعہ رفع حاجت کے لئے آپ پاخانہ تشریف لے گئے ۔اس کے بعد آپ نے زیادہ ضعف محسوس کیا تو اپنے ہاتھ سے مجھے جگایا ۔میں اٹھی تو آپ کو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چارپائی پر ہی لیٹ گئے اور میں آپکے پائوں دبانے کے لئے بیٹھ گئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا تم اب سو جائو ۔میں نے کہا نہیں میں دباتی ہو ں ۔اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جاسکتے تھے اسلئے میں نے چارپائی کے پاس ہی انتظام کر دیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اُٹھ کر لیٹ گئے اور میں پائوں دباتی رہی مگر ضعف بہت ہوگیا تھا اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو ایک قے آئی ۔جب آپ قے سے فارغ ہو کر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگر گوں ہوگئی۔ اس پر میں نے گھبرا کر کہا ’’ اللہ یہ کیا ہو نے لگا ہے ‘‘ تو آپ نے فرمایا ’’ یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا ‘‘خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کیا آپ سمجھ گئی تھیں کہ حضرت صاحب کا کیا منشا ء ہے ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا ’’ہاں‘ ‘والدہ صاحبہ نے یہ بھی فرمایا کہ جب حالت خراب ہوئی اور ضعف بہت ہوگیا تو میں نے کہا مولوی صاحب (حضرت مولوی نورالدین صاحب ) کو بلالیں ؟ آپ نے فرمایا بلا لو نیز فرمایا محمود کو جگا لو ۔پھر میں نے پوچھا محمد علی خان یعنی نواب صاحب کو بلا لوں؟ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ مجھے یا دنہیں کہ حضرت صاحب نے اس کا کچھ جواب دیا، یا نہیں اور دیا تو کیا دیا ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ مرض موت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سخت کرب تھا اور نہایت درجہ بے چینی اور گھبراہٹ اور تکلیف کی حالت تھی اور ہم نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود کا بھی بوقت وفات قریباً ایسا ہی حال تھا ۔یہ بات ناواقف لوگوں کے لئے موجب تعجب ہو گی کیونکہ دوسری طرف و ہ یہ سنتے اور دیکھتے ہیں کہ صوفیا اور اولیاء کی وفات نہایت اطمینان اور سکون کی حالت میں ہوتی ہے ۔سودراصل بات یہ ہے کہ نبی جب فوت ہونے لگتا ہے تو اپنی امت کے متعلق اپنی تمام ذمہ داریاں اس کے سامنے ہو تی ہیں اور ان کے مستقبل کا فکر مزید برآں اسکے دامن گیر ہو تا ہے ۔تمام دنیا سے بڑھ کر اس بات کو نبی جانتا اور سمجھتا ہے کہ موت ایک دروازہ ہے جس سے گذر کر انسان نے خدا کے سامنے کھڑا ہونا ہے پس موت کی آمد جہاں اس لحاظ سے اس کو مسرور کر تی ہے کہ وصال محبوب کا وقت قریب آن پہنچا ہے وہاں اس کی عظیم الشان ذمہ داریوں کا احساس اور اپنی امت کے متعلق آئندہ کا فکر اسے غیرمعمولی کر ب میں مبتلا کر دیتے ہیں مگر صوفیا اور اولیاء ان فکروں سے آزاد ہو تے ہیں ۔ان پر صرف ان کے نفس کا بار ہوتا ہے مگر نبیوں پر ہزاروں لاکھوں کروڑوں انسانوں کا بار ۔پس فرق ظاہر ہے
(اس روایت میں حضرت والدہ صا حبہ نے جو یہ بیان کیا ہے کہ ان کی گھبراہٹ کے اظہار پر حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ فرمایا کہ ’’ یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا۔ ‘‘ اس کے متعلق میں نے حضرت والدہ صا حبہ سے دریافت کیا تھا کہ اس سے کیا مراد ہے جس پر انہوں نے فرمایا کہ حضرت صاحب کی یہ مراد تھی کہ جیسا کہ میں کہا کرتا تھا کہ میری وفات کا وقت قریب ہے ۔ سو اب یہ وہی موعود وقت آگیا ہے اور والدہ صا حبہ نے فرمایا کہ ان الفاظ میں گویا حضرت صاحب نے مجھے ایک رنگ میں تسلی دی تھی کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ یہ وہی مقدر وقت ہے جس کے متعلق میں خدا سے علم پاکر ذکر کیا کرتا تھا اور جس طرح خدا کا یہ وعدہ پورا ہو رہا ہے۔ اسی طرح خدا کے دوسرے وعدے بھی جو میرے بعد خدائی نصرت وغیرہ کے متعلق ہیں۔ پورے ہوں گے اور خدا تم سب کا خود کفیل ہو گا ۔ نیز حضرت والدہ صا حبہ نے فرمایا۔ کہ حضرت صاحب کو اسہال کی شکایت اکثر ہو جایا کرتی تھی۔ جس سے بعض اوقات بہت کمزوری ہو جاتی تھی…… اور آپ اسی بیماری سے فوت ہوئے۔)
{ 13} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جن ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسالہ الوصیت لکھ رہے تھے ایک دفعہ جب آپ شریف (یعنی میرے چھوٹے بھائی عزیزم مرزا شریف احمد ؐ) کے مکان کے صحن میں ٹہل رہے تھے ۔آپ نے مجھ سے کہا کہ مولوی محمدؐ علی سے ایک انگریز نے دریافت کیا تھا کہ جس طرح بڑے آدمی اپنا جانشین مقرر کیا کرتے ہیں مرزا صاحب نے بھی کو ئی جانشین مقرر کیا ہے یا نہیں ؟ اس کے بعد آپ فرمانے لگے تمہارا کیا خیال ہے ۔کیا میں محمود ( خلیفۃ المسیح ثانی ) کو لکھ دوں یا فرمایا مقرر کر دوں ؟والدہ صاحبہ فرماتی ہیں میں نے کہا کہ جس طرح آپ مناسب سمجھیں کر یں ۔
{ 14} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہیں ایک تو وہ ہیں جن کو دنیوی شان و شوکت کا خیال ہے کہ محکمے ہوں، دفاتر ہوں، بڑی بڑی عمارتیں ہوں وغیرہ وغیرہ ۔دوسرے وہ ہیں جو کسی بڑے آدمی مثلاً مولوی نورالدین صاحب کے اثر کے نیچے آکر جماعت میں داخل ہو گئے ہیں اور انہی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ تیسری قسم کے وہ لوگ ہیںجن کو خاص میری ذات سے تعلق ہے اور وہ ہر بات میں میری رضا اور میری خوشی کو مقدم رکھتے ہیں ۔
{ 15} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جس وقت لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے اس وقت حضرت مولوی نورالدین صاحب اس کمرہ میں موجود نہیں تھے جس میں آپ نے وفات پائی ۔ جب حضرت مولوی صاحب کو اطلاع ہو ئی تو آپ آئے اور حضرت صاحب کی پیشانی کو بو سہ دیا اور پھر جلد ہی اس کمرے سے باہر تشریف لے گئے ۔جب حضرت مولوی صاحب کا قدم دروازے کے باہر ہو ا اس وقت مولوی سیّد محمد ؐاحسن صاحب نے رقّت بھری آواز میں حضرت مولوی صاحب سے کہا ’’انت صدّیقی‘‘ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا۔مولوی صاحب یہاںاس سوال کو رہنے دیں قادیان جاکر فیصلہ ہوگا ۔خاکسار کا خیال ہے کہ اس مکالمہ کو میرے سوا کسی نے نہیںسنا ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 16} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین انگوٹھیاںتھیں۔ ایک اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی جس کا آپ نے کئی جگہ اپنی تحریر ات میں ذکر کیا ہے یہ سب سے پہلی انگوٹھی ہے جو دعویٰ سے بہت عرصہ پہلے تیار کرائی گئی تھی ۔دوسری وہ انگوٹھی جس پر آپ کا الہام غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ الخ درج ہے ۔یہ آپ نے دعویٰ کے بعد تیار کروائی تھی اور یہ بھی ایک عرصہ تک آپ کے ہاتھ میں رہی ۔ الہام کی عبارت نسبتاً لمبی ہونے کی وجہ سے اس کا نگینہ سب سے بڑا ہے ۔تیسری وہ جو آخری سالوں میںتیار ہوئی اور جو وفات کے وقت آپ کے ہاتھ میں تھی ۔یہ انگوٹھی آپ نے خود تیار نہیں کروائی بلکہ کسی نے آپ سے عرض کیا کہ میں حضور کے واسطے ایک انگوٹھی تیار کروانا چاہتا ہوںاس پر کیا لکھوائوںحضورنے جواب دیاـ’’ مولا بس ‘‘ چنانچہ اس شخص نے یہ الفاظ لکھوا کرانگوٹھی آپ کو پیش کر دی ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت ایک شخص نے یہ انگوٹھی آپ کے ہاتھ سے اتار لی تھی پھر اس سے والدہ صاحبہ نے واپس لے لی ۔حضر ت مسیح موعود کی وفات کے ایک عرصہ بعد والد ہ صاحبہ نے ان تینوںانگوٹھیوں کے متعلق ہم تینوںبھا ئیوںکے لئے قرعہ ڈالا ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی بڑے بھائی صاحب یعنی حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کے نام نکلی ۔ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ (تذکرہ صفحہ۴۲۸حاشیہ مطبوعہ۲۰۰۴ئ)والی خاکسارکے نام اور ’’مولا بس‘‘ والی عزیزم میاںشریف احمدصاحب کے نام نکلی ۔ہمشیرگان کے حصّہ میںدو اور اسی قسم کے تبرک آئے ۔
{ 17} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر فرمایا کہ ایک دفعہ میںکسی مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا ۔عدالت میں اور اورمقدمے ہوتے رہے اور میںباہر ایک درخت کے نیچے انتظار کر تا رہا۔چونکہ نماز کا وقت ہو گیا تھااس لئے میںنے وہیں نماز پڑھنا شروع کر دی ۔ مگر نماز کے دوران میں ہی عدالت سے مجھے آوازیں پڑنی شروع ہوگئیں مگر میں نماز پڑھتا رہا۔جب میں نماز سے فارغ ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرے پاس عدالت کا بہرا کھڑا ہے ۔سلام پھیرتے ہی اس نے مجھے کہا مرزا صاحب مبارک ہو آپ مقدمہ جیت گئے ہیں۔
{ 18} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جوانی کا ذکر فرمایا کرتے تھے کہ اس زمانہ میںمجھ کو معلوم ہوا یا فرمایا اشارہ ہوا کہ اس راہ میں ترقی کر نے کے لئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں ۔فرماتے تھے پھر میں نے چھ ماہ لگا تار روزے رکھے اور گھر میںیا باہر کسی شخص کو معلوم نہ تھا کہ میںروزہ رکھتا ہوں ۔صبح کا کھانا جب گھرسے آتا تھاتو میں کسی حاجتمند کو دے دیتا تھا اورشام کا خود کھا لیتا تھا۔میںنے حضرت والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ آخرعمر میںبھی آپ نفلی روزے رکھتے تھے یا نہیں؟ والدہ صاحبہ نے کہا کہ آخر عمر میںبھی آپ روزے رکھا کر تے تھے خصوصًاشوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے ہاںمگر آخری دو تین سالوں میں بوجہ ضعف و کمزوری رمضان کے روزے بھی نہیںرکھ سکتے تھے ۔(خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب البریہ میں حضرت صاحب نے روزوں کا زمانہ آٹھ نو ماہ بیان کیا ہے)
{ 19} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹیریا کا دورہ بشیراوّل (ہمارا ایک بڑا بھائی ہوتا تھا جو۱۸۸۸ء میںفوت ہوگیاتھا ) کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا ۔رات کو سوتے ہوئے آپ کو اتھو آ یا اور پھر اس کے بعد طبیعت خراب ہوگئی مگر یہ دورہ خفیف تھا۔پھر اس کے کچھ عرصہ بعدآپ ایک دفعہ نماز کیلئے باہر گئے اور جاتے ہوئے فرما گئے کہ آج کچھ طبیعت خرا ب ہے ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تھوڑی دیر کے بعد شیخ حامد علی (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک پرانے مخلص خادم تھے اب فوت ہو چکے ہیں ) نے دروازہ کھٹکھٹایا کہ جلدی پانی کی ایک گاگر گرم کر دو۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میںسمجھ گئی کہ حضرت صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی ہوگی چنانچہ میں نے کسی ملازم عورت کو کہا کہ اس سے پوچھو میاںکی طبیعت کا کیا حال ہے ۔شیخ حامدعلی نے کہا کہ کچھ خراب ہوگئی ہے ۔میںپردہ کر اکے مسجد میں چلی گئی تو آپ لیٹے ہوئے تھے میںجب پاس گئی تو فرمایا کہ میری طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی لیکن اب اِفاقہ ہے ۔میں نماز پڑھا رہاتھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اُٹھی ہے اور آسمان تک چلی گئی ہے پھر میںچیخ مار کر زمین پر گر گیا اور غشی کی سی حالت ہوگئی ۔والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس کے بعد سے آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہو گئے ۔ خاکسارنے پوچھا دورہ میں کیا ہوتا تھا ۔والدہ صاحبہ نے کہا ہاتھ پائوںٹھنڈے ہو جاتے تھے اوربدن کے پٹھے کھچ جاتے تھے خصوصاً گردن کے پٹھے اور سر میںچکر ہوتا تھا اور اس وقت آپ اپنے بدن کو سہار نہیں سکتے تھے ۔شروع شروع میں یہ دورے بہت سخت ہوتے تھے پھر اس کے بعد کچھ تو دوروں کی ایسی سختی نہیں رہی اور کچھ طبیعت عادی ہوگئی ۔خاکسار نے پوچھا اس سے پہلے تو سر کی کوئی تکلیف نہیں تھی ؟ والدہ صاحبہ نے فرما یا پہلے معمولی سر درد کے دورے ہو ا کرتے تھے ۔خاکسار نے پوچھا کیا پہلے حضرت صاحب خود نماز پڑھاتے تھے والدہ صاحبہ نے کہا کہ ہاںمگر پھر دوروںکے بعد چھوڑ دی ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ یہ مسیحیت کے دعویٰ سے پہلے کی بات ہے ۔
(اس روایت میں جو حضرت مسیح موعود ؑکے دوران سر کے دوروں کے متعلق حضرت والدہ صا حبہ نے ہسٹیریا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس سے وہ بیماری مراد نہیں ہے جو علم طب کی رو سے ہسٹیریا کہلاتی ہے۔ بلکہ یہ لفظ اس جگہ ایک غیر طبی رنگ میں دوران سر اور ہسٹیریا کی جزوی مشابہت کی و جہ سے استعمال کیا گیا ہے۔ ورنہ جیسے کہ حصہ دوم کی روایت نمبر۳۶۵ و ۳۶۹میں تشریح کی جا چکی ہے۔ حضرت مسیح موعود کو حقیقتًا ہسٹیریا نہیں تھا چنانچہ خود حضرت مسیح موعود نے جہاں کہیں بھی اپنی تحریرات میں اپنی اس بیماری کا ذکر کیا ہے ۔ وہاں اس کے متعلق کبھی بھی ہسٹیریا وغیرہ کا لفظ استعمال نہیں کیا اور نہ ہی علم طب کی رو سے دوران سر کی بیماری کسی صورت میں ہسٹیریا یا مراق کہلا سکتی ہے۔ بلکہ دوران سر کی بیماری کے لئے انگریزی میں غالباً ورٹیگو کا لفظ ہے جو غالباً سردرد ہی کی ایک قسم ہے جس میں سر میں چکر آتا ہے اور گردن وغیرہ کے پٹھوں میں کھچاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ اور اس حالت میں بیمار کے لئے چلنا یا کھڑے ہونا مشکل ہو جاتا ہے ۔ لیکن ہوش و حواس پر قطعاً کوئی اثر نہیں پڑتا۔ چنانچہ خاکسار راقم الحروف نے متعدد دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کو دورے کی حالت میں دیکھا ہے اور کبھی بھی ایسی حالت نہیں دیکھی۔ جس میں ہوش و حواس پر کوئی اثر پڑا ہو اور حضرت مسیح موعود کی یہ بیماری بھی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کے مطابق تھی۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ مسیح موعود دو زرد چادروں (یعنی دو بیماریوں) میں لپٹا ہوا نازل ہو گا۔ دیکھو مشکوٰۃ باب اشراط الساعۃ بحوالہ مسلم وغیرہ۔ اور روایت میں جو یہ لفظ آتے ہیں کہ پہلے دورے کے وقت آپ نے کوئی کالی کالی چیز آسمان کی طرف اٹھتی دیکھی۔ سو دوران سر کے عارضہ میں یہ ایک عام بات ہے کہ سر کے چکر کی وجہ سے اردگرد کی چیزیں گھومتی ہوئی اوپر کو اٹھتی نظر آتی ہیں اور بوجہ اس کے کہ ایسے دورے کے وقت مریض کا میلان آنکھیں بند کر لینے کی طرف ہوتا ہے۔ عموماً یہ چیزیں سیاہ رنگ اختیار کر لیتی ہیں اور دورے میں غشی کی سی حالت ہو جانے سے جیسا کہ خود الفاظ بھی اسی حقیقت کو ظاہر کر رہے ہیں۔ حقیقی غشی مراد نہیں بلکہ بوجہ زیادہ کمزوری کے آنکھیں نہ کھول سکنا یا بول نہ سکنا مراد ہے۔ واللہ اعلم) مزید بصیرت کے لئے روایات نمبر ۸۱ ، ۲۹۳ اور ۴۵۹ بھی ملاحظہ کی جائیں جن سے اس سوال پر مزید روشنی پڑتی ہے۔
{ 20} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلی بیعت لدھیانہ میں لی تھی ۔پہلے دن چالیس آدمیوں نے بیعت کی تھی پھر جب آپ گھر میں آئے تو بعض عورتوں نے بیعت کی ۔سب سے پہلے مولوی صاحب (حضرت مولوی نورالدین صاحب ) نے بیعت کی تھی ۔خاکسار نے دریافت کیا کہ آپ نے کب بیعت کی ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا میرے متعلق مشہور ہے کہ میں نے بیعت سے تو قف کیا اور کئی سال بعد بیعت کی ۔یہ غلط ہے بلکہ میں کبھی بھی آپ سے الگ نہیں ہو ئی ہمیشہ آپ کے ساتھ رہی اور شروع سے ہی اپنے آپ کو بیعت میں سمجھا اور اپنے لئے باقاعدہ الگ بیعت کی ضرورت نہیں سمجھی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ابتدائی بیعت کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسیحیّت اور مہدویّت کا دعویٰ نہ تھا بلکہ عام مجددانہ طریق پر آپ بیعت لیتے تھے ۔خاکسار نے والد ہ صاحبہ سے پوچھا کہ حضرت مولوی صاحب کے علاوہ اور کس کس نے پہلے دن بیعت کی تھی ؟ والدہ صاحبہ نے میاں عبداللہ صاحب سنوری اور شیخ حامد علی صاحب کا نام لیا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 21} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعویٰ مسیحیت شائع کر نے لگے تو اس وقت آپ قادیان میں تھے آپ نے اس کے متعلق ابتدائی رسالے یہیں لکھے پھر آپ لدھیانہ تشریف لے گئے اوروہاں سے دعویٰ شائع کیا ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا دعویٰ شائع کرنے سے پہلے آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ میں ایسی بات کا اعلان کر نے لگاہوںجس سے ملک میں مخالفت کا بہت شور پید اہوگا ۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا اس اعلان پر بعض ابتدائی بیعت کرنے والوں کو بھی ٹھوکر لگ گئی ۔
{ 22} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں میر حامد شاہ صاحب کے مکان پر تھے اور سور ہے تھے میں نے آپ کی زبان پر ایک فقرہ جاری ہوتے سنا ۔میں نے سمجھا کہ الہام ہوا ہے پھر آپ بیدار ہوگئے تو میں نے کہا کہ آپ کو یہ الہام ہو ا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں تم کو کیسے معلوم ہو ا؟ میں نے کہا مجھے آواز سنائی دی تھی ۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ الہام کے وقت آپ کی کیا حالت ہو تی تھی ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور ماتھے پر پسینہ آجاتا تھا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑاپنے مکان کے چھوٹے صحن میں (یعنی جو والدہ صاحبہ کا موجود ہ صحن ہے ) ایک لکڑی کے تخت پر تشریف رکھتے تھے غالباً صبح یا شام کا وقت تھا آپ کو کچھ غنودگی ہو ئی تو آپ لیٹ گئے پھر آپ کے ہونٹوں سے کچھ آواز سنی گئی جس کو ہم سمجھ نہیں سکے پھر آپ بیدار ہو ئے تو فرما یا مجھے اس وقت یہ الہام ہوا ہے ۔مگر خاکسار کو وہ الہام یاد نہیںرہا ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ جب آپ کو الہام ہوتا تھا تو اس کے بعد آپ غنودگی سے فوراً بیدار ہو جاتے تھے اور اسے تحریر کر لیتے تھے ۔اوائل میں اپنی کسی عام کتاب پر نوٹ کر لیا کرتے تھے ۔پھر آپ نے ایک بڑے سائز کی کاپی بنوالی اس کے بعد ایک چھوٹی مگر ضخیم نوٹ بک بنوالی تھی ۔خاکسار نے پوچھا کہ اب وہ نوٹ بک کہا ں ہے ؟والدہ صاحبہ نے فرمایا تمہارے بھائی (بھائی سے مراد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ ہیں) کے پاس ہے اور خاکسار کے ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب بھی بیان کر تے تھے کہ میں نے ایک دفعہ حضرت صاحب کو الہام ہو تے دیکھا تھا۔
{ 23} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر کا کام آخری زمانہ میں ٹیڑھے نب سے کیا کرتے تھے اور بغیر خطوط کا سفید کاغذ استعمال فرماتے تھے ۔آپ کی عادت تھی کہ کاغذ لے کر اس کی دو جانب شکن ڈال لیتے تھے تا کہ دونوں طرف سفید حاشیہ رہے اور آپ کالی روشنائی سے بھی لکھ لیتے تھے اور بلیو، بلیک سے بھی اور مٹی کا اُپلہ سا بنوا کر اپنی دوات اس میں نصب کروا لیتے تھے تا کہ گرنے کا خطرہ نہ رہے ۔آپ بالعموم لکھتے ہوئے ٹہلتے بھی جاتے تھے یعنی ٹہلتے بھی جاتے تھے اور لکھتے بھی اور دوات ایک جگہ رکھ دیتے تھے جب اس کے پاس سے گزرتے نب کو تر کر لیتے ۔اور لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی تحریر کو پڑھتے بھی جاتے تھے اور آپ کی عادت تھی کہ جب آپ اپنے طور پر پڑھتے تھے تو آپ کے ہونٹوں سے گنگنانے کی آواز آتی تھی اور سننے والا الفاظ صاف نہیں سمجھ سکتا تھا ۔خاکسار نے مرزا سلطان احمد صاحب کو پڑھتے سنا ہے ان کا طریق حضرت صاحب کے طریق سے بہت ملتا ہے ۔آپ کی تحریر پختہ مگر شکستہ ہو تی تھی ۔جس کو عادت نہ ہو وہ صاف نہیں پڑھ سکتا تھا ۔لکھے ہوئے کو کاٹ کر بدل بھی دیتے تھے ۔ چنانچہ آ پ کی تحریر میں کئی جگہ کٹے ہوئے حصّے نظر آتے تھے اور آپکا خط بہت باریک ہوتا تھا ۔چنانچہ نمونہ درج ذیل ہے ۔
نقل خط علاوہ اسکے مجھے اپنی اولاد کے لئے یہ خیال ہے کہ ان کی شادیاں ایسی لڑکیوں سے ہو ں کہ انہوں نے دینی علوم اور کسی قدر عربی اور فارسی اور انگریزی میں تعلیم پائی ہو اور بڑے گھروں کے انتظام کرنے کے لئے عقل اور دماغ رکھتی ہوں سو یہ سب باتیں کہ علاوہ اور خوبیوں کے یہ خوبی بھی ہو ۔خداتعالیٰ کے اختیار میں ہیں پنجاب کے شریف خاندانوں میں لڑکیوں کی تعلیم کی طرف اس قدر توجہ کم ہے کہ وہ بیچاریاں وحشیوں کی طرح نشوونما پاتی ہیں ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ عبارت ایک خط سے لی گئی ہے جو حضرت مسیح موعود ؑنے ۱۸۹۹ء میں مرزا محمود بیگ صاحب پٹی کو لکھا تھا ۔
{ 24} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب تمہارے تایا (مرزا غلام قادر صاحب یعنی حضرت صاحب کے بڑے بھائی ) لاولد فوت ہوگئے تو تمہاری تائی حضرت صاحب کے پاس روئیں اور کہا کہ اپنے بھائی کی جائیداد سلطان احمد ؐ کے نام بطور متبنّٰے کے کرا دو وہ ویسے بھی اب تمہاری ہے اور اس طرح بھی تمہاری رہے گی ۔چنانچہ حضرت صاحب نے تمہارے تایا کی تمام جائداد مرزا سلطا ن احمد ؐ کے نام کر ا دی ۔خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ حضرت صاحب نے متبنّٰی کی صور ت کس طرح منظور فرمالی ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا یہ تو یونہی ایک بات تھی ورنہ وفات کے بعد متبنّٰے کیسا ۔مطلب تو یہ تھا کہ تمہاری تائی کی خوشی کے لئے حضرت نے تمہارے تایا کی جائداد مرزا سلطان احمد کے نام داخل خارج کرا دی اور اپنے نام نہیں کرائی ۔کیونکہ اس وقت کے حالات کے ماتحت حضرت صاحب سمجھتے تھے کہ ویسے بھی مرزا سلطان احمد ؐ کوآپ کی جائیداد سے نصف حصہ جانا ہے اور باقی نصف مرزا فضل احمد ؐ کو۔پس آپ نے سمجھ لیا کہ گویا آپ نے اپنی زندگی میں ہی مرزا سلطان احمد ؐ کا حصہ الگ کر دیا ۔
{ 25} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب مرزا فضل احمد ؐ فوت ہوا تو اس کے کچھ عرصہ بعد حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ تمہاری اولاد کے ساتھ جائیداد کا حصہ بٹانے والا ایک فضل احمدؐ ہی تھا سو وہ بے چارہ بھی گزر گیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کے دولڑکے تھے ایک حضرت صاحب جن کا نام مرزا غلام احمد ؐ تھا اور دوسرے ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب جو حضرت صاحب سے بڑے تھے ۔ ہمارے دادا نے قادیان کی زمین میں دو گائوں آباد کر کے ان کو اپنے بیٹوں کے نام موسوم کیا تھا چنانچہ ایک کا نام قادرآباد رکھا اور دوسرے کااحمد آباد ۔احمد آباد بعد میں کسی طرح ہمارے خاندان کے ہاتھ سے نکل گیا اور صرف قادر آباد رہ گیا ۔چنانچہ قادر آباد حضر ت صاحب کی اولاد میں تقسیم ہوا اور اسی میں مرزاسلطان احمد ؐ صاحب کا حصہ آیا لیکن خدا کی قدرت اب قریباً چالیس سال کے عرصہ کے بعد احمد آباد جو ہمارے خاندان کے ہاتھ سے نکل کر غیر خاندان میں جا چکا تھا واپس ہمارے پاس آگیا ہے اور اب وہ کلیتہً صرف ہم تین بھائیوں کے پاس ہے یعنی مرزا سلطان احمد صاحب کا اس میں حصہ نہیں ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادرآباد قادیان سے مشرق کی جانب واقع ہے اور احمد آباد جانب شمال ہے ۔
{ 26} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا ہم سے ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے (جوخاکسار کے حقیقی ماموں ہیں ) کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لدھیانہ میں دعویٰ مسیحیت شائع کیا تو مَیں ان دنوں چھوٹا بچہ تھا اور شاید تیسری جماعت میں پڑھتا تھا ۔مجھے اس دعویٰ سے کچھ اطلاع نہیں تھی ۔ایک دن میں مدرسہ گیا تو بعض لڑکوں نے مجھے کہا کہ وہ جو قادیان کے مرزا صاحب تمہارے گھر میں ہیں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے ہیں اور یہ کہ آنے والے مسیح وہ خود ہیں ۔ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ میں نے ان کی تردید کی کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے حضرت عیسیٰ تو زندہ ہیں اور آسمان سے نازل ہو ں گے ۔خیر جب میں گھر آیا تو حضرت صاحب بیٹھے ہوئے تھے ۔میں نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے سنا ہے آپ کہتے ہیں کہ آپ مسیح ہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ میرایہ سوال سن کر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ اُٹھے اور کمرے کے اندر الماری سے ایک نسخہ کتاب فتح اسلام ( جو آپ کی جدید تصنیف تھی ) لا کر مجھے دے دیا اور فرمایا اسے پڑھو ۔ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی دلیل ہے کہ آپ نے ایک چھوٹے بچے کے معمولی سوال پر اس قدر سنجیدگی سے توجہ فرمائی ورنہ یونہی کو ئی بات کہہ کر ٹال دیتے ۔
{ 27} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ میں حدیث میں یہ پڑھتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بال صحابہ برکت کے لئے رکھتے تھے اس خیال سے میں نے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور مجھے اپنے کچھ بال عنایت فرماویں ۔چنانچہ جب آپ نے حجامت کرائی تو مجھے اپنے بال بھجوادئیے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے پاس بھی حضرت صاحب کے کچھ بال رکھے ہیں ۔
{ 28} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ ایک دفعہ جب مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل) قادیان سے باہر گئے ہوئے تھے میں مغرب کی نماز میں آیا تو دیکھا کہ آگے حضرت مسیح موعود ؑ خود نماز پڑھا رہے تھے ۔قاضی صاحب نے فرمایا کہ حضرت صاحب نے چھوٹی چھوٹی دو سورتیں پڑھیں مگر سوزو درد سے لوگوں کی چیخیں نکل رہی تھیں ۔جب آپ نے نماز ختم کرائی تو میں آگے ہوا مجھے دیکھ کر آپ نے فرمایا قاضی صاحب میں نے آپ کو بہت تلاش کیا مگر آپ کو نہیں پایا ۔مجھے اس نماز میں سخت تکلیف ہوئی ہے ۔عشاء کی نماز آپ پڑھائیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ابتدائی زمانہ کی بات ہوگی ۔
{ 29} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جن دنوں میںحضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کرم دین سے گورداسپور میں مقدمہ تھا اور آپ گورداسپور گئے ہوئے تھے ۔ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ سب لوگ کچہری میں چلے گئے یااِدھر اُدھرہو گئے اور حضرت صاحب کے پاس صرف مَیں اور مفتی صادق صاحب رہ گئے ۔حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سو رہے ہیں ۔اسی حالت میں آپ نے سر اُٹھایا او ر کہا کہ مجھے الہام ہوا ہے لکھ لو۔اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت وہاںکوئی قلم دوات یا پنسل موجود نہ تھی آخر ہم باورچی خانہ سے ایک کوئلہ لائے اور اس سے مفتی صاحب نے کاغذ پر لکھا ۔ آپ پھر اسی طرح لیٹ گئے تھوڑی دیر کے بعد پھر آپ نے الہام لکھایا ۔غرض اسی طرح آپ نے اس وقت چند الہامات لکھائے ۔مولوی صاحب نے بیان کیا کہ ان میں سے ایک الہام مجھے یاد ہے اور وہ یہ ہے ’’یسئلونک عن شانک قل اللہ ثم ذرھم فی خوضھم یلعبون‘‘ ۔ یعنی تیری شان کے متعلق سوال کریں گے تو ان سے کہہ دے ’’اللہ ‘‘ پھر چھوڑ دے ان کو ان کی بیہودہ گوئی میں ۔دوسرے دن جب آپ عدالت میں پیش ہوئے تو وکیل مستغیث نے آپ سے منجملہ اور سوالات کے یہ سوال بھی کیا کہ یہ جو آپ نے اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ میں اپنے متعلق لکھا ہے اور اس نے اس کتاب سے ایک عبارت پڑھ کر سنائی جس میں آپ نے بڑے زور دار الفاظ میںاپنے علومرتبت کے متعلق فقرات لکھے ہیں۔ کیا آپ واقعی ایسی ہی اپنی شان سمجھتے ہیں ؟ حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا ہاںیہ اللہ کا فضل ہے یا کوئی ایسا ہی کلمہ بولا جس میں اللہ کی طرف بات کو منسوب کیا تھا ۔مولوی صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب کو اس وقت خیال نہیں آیا کہ یہ سوال و جواب آپ کے الہام کے مطابق تھا ۔پھر جب آپ گورداسپور سے واپس قادیان آنے لگے تو میں نے راستہ میںموڑپر آکر آپ سے عرض کیا کہ حضور میرا خیال ہے کہ حضور کا وہ الہام اس سوال و جواب میں پورا ہوا ہے ۔حضرت صاحب بہت خوش ہوئے کہ ہاں واقعی یہی ہے آپ نے بہت ٹھیک سمجھا ہے ۔مولوی صاحب نے بیان کیا کہ اس کے چند دن بعد مجھے شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے کہا کہ حضرت صاحب ایک اور موقعہ پر بھی ذکر فرماتے تھے کہ مولوی شیر علی نے اس الہام کی تطبیق خوب سمجھی ہے اور خوشی کا اظہار فرماتے تھے ۔
(اس روایت میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب تحفہ گولڑویہ کا ذکر آتا ہے اس کے متعلق یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی میں تحفہ گولڑویہ کی بجائے تریاق القلوب کا نام لکھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سہو ہوا ہے اور درست یہی ہے کہ عدالت میں جس کتاب کے متعلق پوچھا گیا تھا وہ تحفہ گولڑویہ تھی نہ کہ تریاق القلوب۔ جیسا کہ حصہ دوم کی روایت نمبر ۳۸۹میں مسل عدالت کے حوالہ سے ثابت کیا جا چکا ہے۔)
{ 30} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ ہر شخص کی خواب توجہ سے سنتے تھے اور بسا اوقات نوٹ بھی فرمالیتے تھے ۔چنانچہ ایک دفعہ جب مرزا کمال الدین وغیرہ نے مسجد کے نیچے کا راستہ دیوار کھینچ کر بند کر دیا تھا اور احمدیوں کو سخت تکلیف کا سامنا تھا او ر آپ کو مجبورًاقانونی چارہ جوئی کر نی پڑی تھی۔ ( اس موقعہ کے علاوہ کبھی آپ نے کسی کے خلاف خود مقدمہ دائر نہیں کیا ) مَیں نے خواب دیکھا کہ وہ دیوار گرائی جارہی ہے اور مَیں اس کے گرے ہوئے حصے کے اوپر سے گذر رہا ہوں ۔ مَیں نے آپ کے پاس بیان کیا آپ نے بڑی توجہ سے سنا اور نوٹ کر لیا ۔اس وقت میں بالکل بچہ تھا ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 31} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جن دنوں۱۹۰۵ء کا بڑا زلزلہ آیا تھا اور آپ باغ میں رہائش کے لئے چلے گئے تھے۔ مفتی محمد صادق صاحب کے لڑکے محمد منظور نے جواِن دنوں میں بالکل بچہ تھا خواب میں دیکھا کہ بہت سے بکرے ذبح کئے جارہے ہیں ۔ حضرت صاحب کو اس کی اطلاع پہنچی تو کئی بکرے منگوا کر صدقہ کروا دیئے اور حضرت صاحب کی اتبا ع میں اور اکثر لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا ۔میرا خیال ہے اس وقت باغ میں ایک سو سے زیادہ بکرا ذبح ہو ا ہو گا ۔
{ 32} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ۱۹۰۵ء کا زلزلہ آیا تو میں بچہ تھا اور نواب محمد علی خان صاحب کے شہر والے مکان کے ساتھ ملحق حضرت صاحب کے مکان کا جو حصہ ہے اس میں ہم دوسرے بچوں کے ساتھ چارپائیوں پر لیٹے ہوئے سو رہے تھے ،جب زلزلہ آیا تو ہم سب ڈر کر بے تحاشا اُٹھے اور ہم کو کچھ خبر نہیں تھی کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔ صحن میں آئے تو اوپر سے کنکر روڑے برس رہے تھے ہم بھاگتے ہوئے بڑے مکان کی طرف آئے وہاں حضرت مسیح موعود ؑ اور والدہ صاحبہ کمرے سے نکل رہے تھے۔ ہم نے جاتے ہی حضرت مسیح موعودؑ کو پکڑ لیا اور آپ سے لپٹ گئے ۔آپ اس وقت گھبرائے ہو ئے تھے اور بڑے صحن کی طرف جانا چاہتے تھے مگر چاروں طرف بچے چمٹے ہوئے تھے اور والدہ صاحبہ بھی۔ کوئی اِدھر کھینچتا تھا توکوئی اُدھر اور آپ سب کے درمیان میں تھے آخر بڑی مشکل سے آپ اور آپ کے ساتھ چمٹے ہوئے ہم سب بڑے صحن میں پہنچے ۔اس و قت تک زلزلے کے دھکے بھی کمزور ہو چکے تھے ۔تھوڑی دیر کے بعد آپ ہم کو لے کر اپنے باغ میں تشریف لے گئے ۔دوسرے احباب بھی اپنا ڈیرا ڈنڈا اُٹھا کر باغ میں پہنچ گئے ۔وہاں حسب ضرورت کچھ کچے مکان بھی تیار کروا لئے گئے اور کچھ خیمے منگوالئے گئے اور پھر ہم سب ایک لمباعرصہ باغ میں مقیم رہے ۔ان دنوں میں مدرسہ بھی وہیں لگتا تھا ۔گویا باغ میں ایک شہر آباد ہو گیا تھا ۔ اللہ اللہ کیا زمانہ تھا ۔
{ 33} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ مَیں اوائل میں اس بات کا قائل تھا کہ سفر میںقصر نماز عام حالات میںجائز نہیں بلکہ صرف جنگ کی حالت میں فتنہ کے خوف کے وقت جائزہے اور اس معاملہ میں مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل ) کے ساتھ بہت بحث کیا کرتا تھا ۔ قاضی صاحب نے بیان کیا کہ جن دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا گورداسپورمیں مقدمہ تھا ایک دفعہ میں بھی وہاں گیا ۔حضرت صاحب کے ساتھ وہاں مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل) اور مولوی عبدالکریم صاحب بھی تھے مگر ظہر کی نمازکا وقت آیا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ قاضی صاحب آپ نماز پڑھائیں ۔میں نے دل میں پختہ ارادہ کیا کہ آج مجھے موقعہ ملا ہے میں قصر نہیں کروں گابلکہ پوری پڑھوں گا تا اس مسٔلہ کا کچھ فیصلہ ہو ۔قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ ارادہ کر کے ہاتھ اٹھائے کہ قصر نہیںکروں گا حضرت صاحب میرے پیچھے دائیں طرف کھڑے تھے ۔ آپ نے فوراً قدم آگے بڑھاکر میرے کان کے پاس منہ کرکے فرمایا قاضی صاحب دوہی پڑھیں گے نا؟ میں نے عرض کیا حضور دو ہی پڑھوں گا ۔بس اس وقت سے ہمارا مسٔلہ حل ہوگیا اور میں نے اپناخیال ترک کردیا ۔
{ 34} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ میرا ایک لڑکا جو پہلی بیوی سے تھا۔ فوت ہو گیا۔اس کی ماںنے بڑا جزع فزع کیااور اس کی والدہ یعنی بچے کی نانی نے بھی اسی قسم کی حرکت کی ۔ مَیں نے ان کو بہت روکا مگر نہ باز آئیں ،جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس لڑکے کا جنازہ پڑھنے آئے تو جنازہ کے بعد آپ کھڑے ہو گئے اور بہت دیر تک وعظ فرماتے رہے اور آخر میں فرمایا قاضی صاحب اپنے گھر میں بھی میری یہ نصیحت پہنچا دیں ۔میں نے گھر آکربیوی کو حضرت صاحب کا وعظ سنایا پھر اس کے بعد اس کے دوتین لڑکے فوت ہوئے مگر اس نے سوائے آنسو گرانے کے کوئی اور حرکت نہیںکی ۔
{ 35} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان سے گورداسپور جاتے ہوئے بٹالہ ٹھہر ے وہاں کو ئی مہمان جو آپ کی تلاش میں قادیان سے ہوتا ہو ا بٹالہ واپس آیا تھا آپ کے پاس کچھ پھل بطور تحفہ لایا ۔ پھلوں میں انگور بھی تھے ۔آپ نے انگور کھائے اور فرمایا انگور میں ترشی ہوتی ہے مگر یہ ترشی نزلہ کے لئے مضر نہیں ہوتی ۔ پھر آپ نے فرمایا ابھی میرا دل انگو ر کو چاہتا تھا سو خدا نے بھیج دیئے ۔فرمایا کئی دفعہ میں نے تجربہ کیا ہے کہ جس چیز کو دل چاہتا ہے اللہ اسے مہیا کر دیتا ہے۔ پھر ایک دفعہ سنایا کہ مَیں ایک سفر میں جارہا تھا کہ میرے دل میں پونڈے گنّے کی خواہش پید اہوئی مگر وہاں راستہ میں کو ئی گنامیسر نہیں تھا مگر اللہ کی قدرت کہ تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص ہم کو مل گیا جس کے پاس پونڈے تھے ،اس سے ہم کو پونڈے مل گئے ۔
{ 36} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ اوائل میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت دورہ پڑا ۔کسی نے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد کو بھی اطلاع دے دی اور وہ دونوں آگئے ۔پھر ان کے سامنے بھی حضرت صاحب کو دورہ پڑا ۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس وقت میں نے دیکھا کہ مرزا سلطان احمد تو آپ کی چارپائی کے پاس خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے ۔مگر مرزافضل احمد کے چہرہ پر ایک رنگ آتا تھا اورایک رنگ جاتا تھا ۔اور وہ کبھی ادھر بھاگتا تھا اور کبھی اُدھر ۔کبھی اپنی پگڑی اُتار کر حضرت صاحب کی ٹانگوں کو باندھتا تھا اور کبھی پائو ں دبانے لگ جاتا تھا اور گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ کانپتے تھے ۔
{ 37} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب محمد ی بیگم کی شادی دوسری جگہ ہوگئی اور قادیان کے تمام رشتہ داروں نے حضرت صاحب کی سخت مخالفت کی اور خلاف کوشش کرتے رہے اور سب نے احمد بیگ والد محمد ی بیگم کا ساتھ دیا اور خود کوشش کر کے لڑکی کی شادی دوسری جگہ کرا دی تو حضرت صاحب نے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد دونوں کو الگ الگ خط لکھا کہ ا ن سب لوگوں نے میری سخت مخالفت کی ہے ۔ اب ان کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں رہا اور ان کے ساتھ اب ہماری قبریں بھی اکٹھی نہیں ہو سکتیں لہٰذا اب تم اپنا آخری فیصلہ کرو اگر تم نے میرے ساتھ تعلق رکھنا ہے تو پھر ان سے قطع تعلق کر نا ہوگا اور اگر ان سے تعلق رکھنا ہے تو پھر میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں رہ سکتا ۔میں اس صورت میں تم کو عاق کرتا ہوں ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا مرزا سلطان احمد کا جواب آیا کہ مجھ پر تائی صاحبہ کے احسانات ہیں میں ان سے قطع تعلق نہیں کر سکتا ۔مگر مرزا فضل احمد نے لکھا کہ میرا تو آپ کے ساتھ ہی تعلق ہے ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔حضرت صاحب نے جواب دیا کہ اگر یہ درست ہے تو اپنی بیوی بنت مرزا علی شیر کو (جو سخت مخالف تھی اور مرزا احمد بیگ کی بھانجی تھی ) طلاق دے دو ۔ مرزافضل احمد نے فوراً طلاق نامہ لکھ کر حضرت صاحب کے پاس روانہ کر دیا ۔والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ پھر فضل احمد باہر سے آکر ہمارے پاس ہی ٹھہرتا تھا مگر اپنی دوسری بیوی کی فتنہ پردازی سے آخر پھر آہستہ آہستہ ادھر جا ملا ۔والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ فضل احمد بہت شرمیلا تھا ۔حضرت صاحب کے سامنے آنکھ نہیں اُٹھاتا تھا ۔حضرت صاحب اس کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ فضل احمد سیدھی طبیعت کا ہے اور اس میں محبت کا مادہ ہے مگر دوسروں کے پھسلانے سے اُدھر جا ملا ہے۔ نیز والدہ صاحبہ نے فرما یا کہ جب فضل احمد کی وفات کی خبر آئی تواس رات حضرت صاحب قریباً ساری رات نہیں سوئے اور دو تین دن تک مغموم سے رہے۔ خاکسار نے پوچھا کہ کیا حضرت صاحب نے کچھ فرمایا بھی تھا ؟ والدہ صاحبہ نے کہا کہ صرف اس قدر فرمایا تھا کہ ہمارا اس کے ساتھ تعلق تونہیں تھا مگر مخالف اس کی موت کو بھی اعتراض کا نشانہ بنا لیں گے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ محمدی بیگم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چچا زاد بہن عمرا لنسا ء کی لڑکی ہے یعنی مرزا نظام الدین و مرزا امام الدین وغیرہ کی حقیقی بھانجی ہے ۔ہماری تائی یعنی بیوہ مرزا غلام قادر صاحب محمدی بیگم کی سگی خالہ ہیں گویا مرزا احمد بیگ صاحب ہوشیارپوری جو محمد ی بیگم کا والد تھا مرزا امام الدین وغیرہ کا بہنوئی تھااس کے علاوہ اور بھی خاندانی رشتہ داریاں تھیں مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی حقیقی ہمشیرہ مرزا احمد بیگ کے بڑے بھائی مرزا غلام غوث صاحب کے ساتھ بیاہی گئی تھیں ۔یہ بہت پُرانی بات ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ تمام رشتہ دار پر لے درجہ کے بے دین اور لامذہب تھے اور اسلام سے ان کو کوئی واسطہ نہیں تھا بلکہ شریعت کی ہتک کرتے تھے ۔حضرت صاحب نے ان کی یہ حالت دیکھ کر خدا کی طرف توجہ کی کہ ان کے لئے کوئی نشان ظاہر ہو تا کہ ان کی اصلاح ہو یا کوئی فیصلہ ہو ۔اس پر خدا نے الہام فرمایا کہ احمدبیگ کی لڑکی محمد ی بیگم کے لئے سلسلہ جنبانی کر ۔اگر انہوں نے منظور کر لیا اور اس لڑکی کی تیرے ساتھ شادی کردی تو پھر یہ لوگ برکتوں سے حصہ پائیںگے ۔اگر انہوں نے انکار کیا تو پھر ان پر اللہ کا عذاب نازل ہو گا ۔اور ان کے گھربیوائوں سے بھر جائیں گے اور خاص لڑکی کے والد کے متعلق فرمایا کہ وہ تین سال کے اند ر بلکہ بہت جلدی مر جائے گا اور جس شخص کے ساتھ لڑکی کا نکاح ہو گا وہ بھی اڑھائی سال کے اند ر مرجائے گا ۔ا ن دو مؤخر الذکر شخصوں کے متعلق جس طرح اللہ کا نشان پورا ہو ا وہ حضرت مسیح موعود کی کتب میں متعدد جگہ درج ہے یعنی احمد بیگ اپنی لڑکی کے نکاح کے صرف چند ماہ بعد پیشگوئی کے مطابق اس جہاں سے رخصت ہو ا اور مرزا سلطا ن محمدجس سے ان لوگوں نے محمدی بیگم کی شادی کروا دی تھی خدا کے عذاب سے خوف زدہ ہوا اور اس کے کئی رشتہ داروں کی طرف سے حضرت صاحب کے پاس عجزو نیاز کے خطوط آئے چنانچہ ان کا اپنا خط بھی جس میں انہوں نے حضرت صاحب کے متعلق عقیدت کا اظہار کیا ہے رسالہ تشحیذالاذہان میں چھپ چکا ہے اس لئے سنت اللہ کے مطابق ان سے وہ عذاب ٹل گیا ۔باقی رشتہ داروں کے متعلق عام پیشگوئی تھی اس کا یہ اثر ہو ا کہ ان کے گھر جو پیشگوئی کے وقت آدمیوں سے بھرے ہوئے تھے بالکل خالی ہو گئے ۔اور اب اس تما م خاندان میں سوائے ایک بچہ کے اور کوئی مرد نہیں اور وہ بچہ بھی احمدی ہوچکا ہے ۔اسکے علاوہ مرزا امام الدین کی لڑکی بھی عرصہ ہو ا احمدی ہو چکی ہے ۔پھر محمدی بیگم کی ماں یعنی بیوہ مرزااحمد بیگ اور مرزا احمد بیگ کا پوتا اور ہماری تائی یعنی محمدی بیگم کی خالہ سب سلسلہ بیعت میں داخل ہو چکے ہیں نیز محمدی بیگم کی سگی ہمشیرہ بھی احمدی ہو گئی تھی مگرا ب فوت ہو چکی ہے ان کے علاوہ اور کئی رشتہ دار بھی احمدی ہو چکے ہیں اورجو ابھی تک سلسلہ میںداخل نہیں ہو ئے وہ بھی مخالفت تر ک کر چکے ہیں ۔اورحضرت مسیح موعود کا یہ الہام کہ ہم اس گھر میں کچھ حسنی طریق پر داخل ہو نگے اور کچھ حسینی طریق پر ۔اپنی پوری شان میں پورا ہو ا ہے ۔
{ 38} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس حجرہ میں کھڑے تھے جو عزیزم میاں شریف احمد کے مکان کے ساتھ ملحق ہے ۔والدہ صاحبہ بھی غالباً پاس تھیں ۔میں نے کوئی بات کرتے ہوئے مرزا نظام الدین کا نام لیا تو صرف نظام الدین کہا حضرت مسیح موعودنے فرما یامیاں آخر وہ تمہارا چچا ہے اس طرح نام نہیں لیا کرتے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین اور مرزاکمال الدین حضرت مسیح موعود کے حقیقی چچا مرزا غلام محی الدین صاحب کے لڑکے تھے اور ان کی سگی بہن جو ہماری تائی ہیں ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب کے عقد میں آئی تھیں مگر باوجود ایسی قریبی رشتہ داری کے حضرت صاحب سے ان کوسخت مخالفت تھی جس کی بنیاد زیادہ تر دینی تھی ۔ یہ لوگ سخت دنیا دار اور بے دین تھے بلکہ مرزا امام الدین جو سر گروہ مخالفت تھا اسلام سے ٹھٹھا کیا کرتا تھا ۔ اس وجہ سے ہمارا ان کے ساتھ کبھی راہ ورسم نہیں ہوا۔ اسی بے تعلقی کے اثر کے نیچے میں نے صرف نظام الدین کا لفظ بول دیا تھا مگر حضرت صاحب کے اخلاق فاضلہ نے یہ بات گوارا نہ کی ۔
{ 39} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ میں نے سنا کہ مرزا امام الدین اپنے مکان میںکسی کومخاطب کر کے بلند آواز سے کہہ رہا تھا کہ بھئی (یعنی بھائی ) لوگ (حضرت صاحب کی طرف اشارہ تھا)دکانیں چلاکر نفع اٹھا رہے ہیںہم بھی کوئی دوکان چلاتے ہیں ۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ پھرا س نے چوہڑوں کی پیری کا سلسلہ جاری کیا ۔والدہ صاحبہ نے فرما یا اصل اور بڑا مخالف مرزا اما م الدین ہی تھا اس کے مرنے کے بعد مرزا نظام الدین وغیرہ کی طرف سے ویسی مخالفت نہیں رہی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا امام الدین کی لڑکی جو مرزا سلطان احمد صاحب کے عقد میں ہیں اب ایک عرصہ سے احمدی ہو چکی ہیں۔
{ 40} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ ایک دفعہ خوا جہ کمال الدین صاحب سے میرا کوئی جھگڑا ہو گیا ۔خوا جہ صاحب نے مجھے کہا قاضی صاحب کیا آپ جانتے نہیں کہ حضرت صاحب میری کتنی عزت کرتے ہیں ؟ میں نے کہا ہاں میں جانتا ہوں کہ بہت عزت کر تے ہیں مگر میں آپ کو ایک بات سناتا ہوں اور وہ یہ کہ میں ایک دفعہ امرتسر سے قادیان آیا اورحضرت صاحب کو اطلاع دے کر حضور سے ملا ۔ قاضی صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت تک ہم لوگوں نے تہذیب نہیں سیکھی تھی ۔جب ملاقات کر نی ہوتی تھی حضرت صاحب کو اطلاع دے کر اندر سے بلا لیا کرتے تھے یا حضرت صاحب خود سن کر باہر آجاتے تھے بعد میں یہ بات نہیں رہی اور ہم نے سمجھ لیا کہ رسول کو اس طرح نہیں بلانا چاہئیے ۔خیر میں حضور سے ملا ۔آپ نے شیخ حامد علی کو بلا کر حکم دیا کہ قاضی صاحب کے واسطے چائے بنا کرلائو ۔مگر میں اس وقت بہت ڈر ا کہ کہیں یہ خاطر تو اضع اس طریق پر نہ ہو جس طرح منافقوں اور کمزور ایمان والوں کی کی جاتی ہے ۔اور میں نے بہت استغفار پڑھا ۔ یہ قصہ سنا کر میں نے خوا جہ صاحب سے کہا کہ خوا جہ صاحب آپ کی عزت بھی کہیں اسی طریق کی نہ ہو ۔چنانچہ میں آپ کو سناتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی آتا ہے کہ آپ کمزور ایمان والوں اور منافقوں کی بہت خاطر تواضع کیا کرتے تھے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آپ نے کچھ مال تقسیم کیا مگر ایک ایسے شخص کو چھوڑ دیا جس کے متعلق سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ وہ میرے خیال میں مومن تھا اور ان لوگوںکی نسبت زیادہ حقدار تھا جن کو آپ نے مال دیا چنانچہ سعد نے اس کی طرف آپ کو توجہ دلائی مگر آپ خاموش رہے ۔پھر توجہ دلائی مگر آپ خاموش رہے ۔ سعد نے پھر تیسر ی دفعہ آپ کوتوجہ دلائی اس پر آپ نے فرمایا سعد تو ہم سے جھگڑا کرتا ہے ۔خدا کی قسم بات یہ ہے کہ بعض وقت میں کسی شخص کو کچھ دیتا ہوں حالانکہ غیرا س کا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہوتا ہے مگر میں اسے اس لئے دیتاہوں کہ کہیں وہ منہ کے بل آگ میں نہ جا پڑے۔یعنی تالیف قلب کے طور پر دیتا ہوں کہ کہیں اسے ابتلا نہ آجاوے ۔قاضی صاحب نے بیان کیا کہ جس کے ایمان کی حالت مطمئن ہو اسے اس ظاہری عزت اور خاطر مدارات کی ضرورت نہیں ہوتی اس کے ساتھ اور طریق پر معاملہ ہو تا ہے ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{41} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اوائل سے ہی مرزا فضل احمد کی والدہ سے جن کو لوگ عام طور پر ’’ پھجے دی ماں ‘‘ کہاکرتے تھے بے تعلقی سی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت صاحب کے رشتہ داروں کو دین سے سخت بے رغبتی تھی اور ان کا ان کی طرف میلان تھا اور وہ اسی رنگ میں رنگین تھیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے مباشرت ترک کردی تھی ہاں آپ اخراجات وغیرہ باقاعدہ دیا کرتے تھے ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میری شادی کے بعد حضرت صاحب نے انہیں کہلا بھیجا کہ آج تک تو جس طرح ہوتا رہا ہوتا رہا اب میں نے دوسری شادی کر لی ہے اس لئے اب اگر دونوں بیویوں میں برابری نہیں رکھو ں گا تو میں گنہگار ہوں گا اس لئے اب دو باتیں ہیں یا تو تُم مجھ سے طلاق لے لو اور یا مجھے اپنے حقوق چھوڑ دو میں تم کو خرچ دیئے جاؤں گا ۔انہوں نے کہلا بھیجا کہ اب میں بڑھاپے میں کیا طلاق لوں گی بس مجھے خرچ ملتا رہے میں اپنے باقی حقوق چھوڑتی ہوں ۔والدہ صاحبہ فرماتی ہیں چنانچہ پھر ایسا ہی ہوتا رہا حتّٰی کہ محمد ی بیگم کا سوال اُٹھا اور آپ کے رشتہ داروں نے مخالفت کر کے محمد ی بیگم کا نکاح دوسری جگہ کر ا دیا اور فضل احمد کی والدہ نے ان سے قطع تعلق نہ کیا بلکہ ان کے ساتھ رہی تب حضرت صاحب نے ان کو طلاق دے دی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ طلاق دینا آپ کے اس اشتہار کے مطابق تھا جو آپ نے ۲؍مئی ۱۸۹۱ء کو شائع کیا اور جس کی سرخی تھی ’’ اشتہار نصرت دین و قطع تعلق از اقارب مخالف دین ‘‘ اس میں آپ نے بیان فرمایا تھا کہ اگر مرزا سلطا ن احمد اور ان کی والدہ اس امر میں مخالفانہ کوشش سے الگ نہ ہوگئے تو پھر آپ کی طرف سے مرزا سلطان احمد عاق اور محروم الارث ہوںگے اور ان کی والدہ کو آپ کی طرف سے طلاق ہوگی ۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ فضل احمد نے اس وقت اپنے آپ کو عاق ہونے سے بچا لیا ۔نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ اس واقعہ کے بعد ایک دفعہ سلطان احمد کی والدہ بیمار ہوئیں تو چونکہ حضرت صاحب کی طرف سے مجھے اجازت تھی میں انہیں دیکھنے کے لئے گئی ۔ واپس آکر میں نے حضرت صاحب سے ذکر کیا کہ پھّجے کی ماںبیمار ہے اور یہ تکلیف ہے ۔ آپ خاموش رہے ۔ میں نے دوسری دفعہ کہاتو فرمایا میں تمہیں دو گولیاں دیتا ہوں یہ دے آئو مگر اپنی طرف سے دینا میرا نام نہ لینا ۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیںکہ اور بھی بعض اوقات حضرت صاحب نے اشارۃً کنایۃً مجھ پر ظاہر کیا کہ میں ایسے طریق پر کہ حضرت صاحب کا نام درمیان میں نہ آئے اپنی طرف سے کبھی کچھ مدد کر دیا کروں سو میں کر دیا کرتی تھی۔
{ 42} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز ظہر کے بعد مسجد میں بیٹھ گئے ان دنوں میںآپ نے شیخ سعد اللہ لدھیانوی کے متعلق لکھا تھا کہ یہ ابتر رہے گا اور اس کا بیٹا جواب موجود ہے وہ نامرد ہے گویا اس کی اولاد آگے نہیںچلے گی (خاکسار عرض کرتا ہے کہ سعد اللہ سخت معاند تھا اور حضرت مسیح موعود کے خلاف بہت بیہودہ گوئی کیا کر تا تھا)مگرابھی آپ کی یہ تحریر شائع نہ ہوئی تھی ۔اس وقت مولوی محمد علی صاحب نے آپ سے عرض کیا کہ ایسا لکھنا قانون کے خلاف ہے ۔ اس کا لڑکا اگر مقدمہ کر دے تو پھر اس بات کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ وہ واقعی نامر د ہے ۔ حضرت صاحب پہلے نرمی کے ساتھ مناسب طریق پر جواب دیتے رہے مگر جب مولوی محمد علی صاحب نے بار بار پیش کیا اور اپنی رائے پر اصرار کیا تو حضرت صاحب کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپ نے غصّے کے لہجے میں فرمایا ۔’’ جب نبی ہتھیا رلگا کر باہر آجاتا ہے تو پھر ہتھیار نہیں اتارتا ۔‘‘
{ 43} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے والد صاحب اوائل میں تعلیم کے لئے باہر گئے تو شائد دلّی کی بات ہے کہ وہ ایک مسجد میں ٹھہرے ہوئے تھے چونکہ زاد ختم ہوگیا تھا کئی وقت فاقے گذر گئے تھے آخر کسی نے ان کو طالب علم سمجھ کر ایک چپاتی دی جو بو جہ باسی ہو جانے کے خشک ہو کر نہایت سخت ہوچکی تھی ۔والد صاحب نے لے لی مگرابھی کھا ئی نہ تھی کہ آپ کا ساتھی جوقادیان کا کوئی شخص تھا اور اس پر بھی اسی طرح فاقہ تھا بولا ۔’’مرزا جی ساڈا وی دھیان رکھنا ‘‘ یعنی مرزا صاحب ہمارا بھی خیال رہے ۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ اس پر والد صاحب نے وہ چپاتی اس کی طرف پھینک دی جو اس کے ناک کے اوپر لگی اور لگتے ہی وہاں سے ایک خون کی نالی بہہ نکلی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ ساتھی بھی قادیان کا کوئی مغل تھامگر حضرت خلیفۃا لمسیح الثانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب سے سنا ہے کہ وہ کو ئی نائی یا مراثی تھا چنانچہ حضرت صاحب لطیفہ کے طور پر بیان فرماتے تھے کہ ان لوگوں کو ایسے موقعہ پر بھی ہنسی کی بات ہی سوجھتی ہے۔
{ 44} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ تمہارے دادا نے قادیان کی جائیداد پر حقوق مالکانہ برقرار رکھوانے کے لئے شروع شروع میں بہت مقدمات کئے اور جتنا کشمیر کی ملازمت میں اور اس کے بعد روپیہ جمع کیا تھااور وہ قریباً ایک لاکھ تھا سب ان مقدمات پر صرف کر دیا ۔ والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ اس زمانے میں اتنے روپے سے سو گنے بڑی جائیداد خریدی جا سکتی تھی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ دادا صاحب کو یہ خیال تھا کہ خواہ کچھ ہوقا دیان اور علاقہ کے پرانے جدّی حقوق ہاتھ سے نہ جائیں اور ہم نے سنا ہے کہ دادا صاحب کہا کرتے تھے کہ قادیان کی ملکیت مجھے ایک ریاست سے اچھی ہے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان ہمارے بزرگوں کا آباد کیا ہو ا ہے جو آخر عہد بابری میں ہندوستان آئے تھے ۔قادیان اور کئی میل تک اس کے ارد گر د کے دیہات ہمارے آباء کے پاس بطور ریاست یا جاگیر کے تھے ۔رام گڑھی سکھوں کے زمانہ میں ہمارے خاندان کو بہت مصائب دیکھنے پڑے اور سخت تباہی آئی لیکن پھر را جہ رنجیت سنگھ کی حکومت کے عہد میں ہماری جاگیر کا کچھ حصہ ہمارے آباء کو واپس مل گیا تھا۔لیکن پھر ابتداء سلطنت انگریزی میں پچھلے کئی حقوق ضبط ہو گئے اور کئی مقدمات کے بعد جن پر دادا صاحب کا زَرِ کثیر صرف ہوا صرف قادیان اوراس کے اندر مشمولہ دو دیہات پر حقوق مالکانہ اور قادیان کے قریب کے تین دیہات پر حقوق تعلقہ داری ہمارے خاندان کے لئے تسلیم کئے گئے ۔یہ حقوق اب تک قائم ہیںہاں درمیان میں بعض اپنے ہی رشتہ داروں کی مقدمہ بازی کی وجہ سے ہمارے تایا صاحب کے زمانہ میں قادیان کی جائداد کا بڑا حصہ مرزا اعظم بیگ لاہوری کے خاندان کے پاس چلا گیا تھا اور قریباً پینتیس سال تک اسی خاندان میں رہا لیکن اب حال میں وہ حصہ بھی خدا کے فضل سے ہم کو واپس آگیا ہے ۔ والدہ صاحبہ فرماتی تھیںکہ جب تمہارے تایا کے زمانہ میں قادیان کی جائداد کا بڑا حصہ مرزا اعظم بیگ کو چلا گیا تو تمہارے تایا کو سخت صدمہ ہو ا جس سے وہ بیمارہو گئے اور قریباً دو سال بعد اسی بیماری میں فوت ہوئے مگر باوجود خلاف ڈگری ہوجانے کے انہوں نے اپنی زندگی میں فریق مخالف کو قبضہ نہیں دیا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی مقدمہ اور وہی ڈگری ہے جس کا حضرت مسیح موعود نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے کہ آپ نے اپنے بھائی کو روکا تھا کہ مقابلہ نہ کریں اور حق تسلیم کر لیں کیونکہ آپ کو خدا نے بتایا تھا کہ مقدمہ کا انجام خلاف ہے مگر حضرت صاحب فرماتے تھے کہ بھائی صاحب نے عذر کر دیا اور نہ مانا ۔پھر جب ڈگری ہو جانے کی خبر آئی تواس وقت حضرت صاحب اپنے حجرے میں تھے ۔تایا صاحب باہر سے کانپتے ہوئے ڈگری کا پرچہ ہاتھ میں لئے اندر آئے اور حضرت صاحب کے سامنے وہ کاغذ ڈال دیا اور کہا ۔ ’’ لے غلام احمدؐ جو تو کہندا سی اوہوای ہو گیا اے ‘‘ ۔ یعنی لو غلام احمدؐجو تم کہتے تھے وہی ہوگیا ہے اور پھر غش کھا کر گر گئے والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ پھر تایا صاحب کی وفات کے بعد حضرت صاحب نے مرزا سلطان احمد صاحب کو بلا کر فرمایا کہ قبضہ دے دو۔چنانچہ مرزا سلطان احمد صاحب نے ڈگری کے مطابق قبضہ دے دیا اور جائداد کا کچھ حصہ اونے پونے فروخت کرکے خرچے کا روپیہ بھی اد اکر دیا ۔
(اس روایت میں جو خاکسار کی طرف سے یہ فقرہ درج ہوا ہے کہ ’’قادیان اور اس کے اندر مشمولہ دو دیہات پر حقوق مالکانہ … تسلیم کئے گئے ‘‘ یہ درست نہیں ہے بلکہ سہو قلم سے یہ الفاظ درج ہو گئے ہیں کیونکہ حق یہ ہے کہ قادیان کے مشمولہ دو گائوں جن کا نام قادر آبادا ور احمد آباد ہے وہ دونوں دادا صاحب نے سلطنت انگریزی کے قیام کے بعد آباد کئے تھے اس لئے الفاظ ’’اور اس کے اندر مشمولہ دو دیہات ‘‘حذف سمجھے جانے چاہئیں۔)
{ 45} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد مرزا غلام مرتضٰی صاحب نے ۱۸۷۶ء ماہ جون یا حضرت صاحب کی ایک تحریر کے مطابق ۲۰؍اگست ۱۸۷۵ء میں وفات پائی اور آپ کے بھائی مرزا غلام قادر صاحب ۱۸۸۳ء میں فوت ہوئے ۔دادا صاحب کی عمر وفات کے وقت اسّی سے اوپر تھی اور تایا صاحب کی عمر پچپن سال کے لگ بھگ تھی ۔حضرت مسیح موعود کی تاریخ پیدائش کے متعلق اختلاف ہے ۔خود آپ کی اپنی تحریرات بھی اس بارے میں مختلف ہیں ۔دراصل وہ سکھوں کا زمانہ تھا اور پیدائشوں کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا تھا ۔حضرت مسیح موعود نے بعض جگہ ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء بیان کیا ہے مگر آپ کی اپنی ہی دوسری تحریرات سے اس کی تردید ہوتی ہے۔درحقیقت آپ نے خود اپنی عمر کے متعلق اپنے اندازوں کو غیر یقینی قراد دیا ہے ۔دیکھو براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ۱۹۳۔ (اور صحیح تاریخ ۱۸۳۶ء معلوم ہوئی ہے)
(نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی ایک دوسری تحریر سے دادا صاحب کی وفات کی تاریخ جون ۱۸۷۴ء ثابت ہوتی ہے ۔ مگر جہاں تک میری تحقیق ہے ۱۸۷۵ء اور ۱۸۷۴ء ہر دو غلط ہیں اور جیسا کہ سرکاری کاغذات سے پتہ لگتا ہے صحیح تاریخ ۱۸۷۶ء ہے۔ مگر حضرت صاحب کو یاد نہیں رہا۔ واللہ اعلم)
{ 46} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود پانچ بہن بھائی تھے ۔ سب سے بڑی حضرت صاحب کی وہ ہمشیرہ تھیں جن کی شادی مرزا غلام غوث ہوشیار پوری کے ساتھ ہوئی تھی ۔ حضرت صاحب کی یہ ہمشیرہ صاحب رویاء و کشف تھیں ان کا نام مراد بی بی تھا ۔ان سے چھوٹے مرزا غلام قادر صاحب تھے ۔ان سے چھوٹا ایک لڑکا تھا جو بچپن میں فوت ہو گیا ۔اس سے چھوٹی حضرت صاحب کی وہ ہمشیرہ تھیں جو آپ کے ساتھ توام پیدا ہوئی اور جلد فوت ہو گئی اس کا نام جنت تھا سب سے چھوٹے حضرت مسیح موعود تھے ۔ والدہ صاحبہ بیان کرتی تھیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہماری بڑی ہمشیرہ کو ایک دفعہ کسی بزرگ نے خواب میں ایک تعویذ دیا تھا ۔بیدار ہوئیں تو ہاتھ میں بھوج پتر پر لکھی ہوئی سورۃ مریم تھی ۔ (خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ بھوج پتر دیکھا ہے جو اب تک ہماری بڑی بھاوج صاحبہ یعنی والدہ مرزا رشید احمد صاحب کے پاس محفوظ ہے)
{ 47} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یوں تو الہامات کا سلسلہ بہت پہلے سے شروع ہو چکا تھا لیکن وہ الہام جس میں آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اصلاح خلق کے لئے صریح طور پر مامور کیا گیا مارچ۱۸۸۲ ء میں ہواجب کہ آپ براہین احمدیہ حصہ سوئم تحریر فرما رہے تھے (دیکھو براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ۲۳۸)لیکن اس وقت آپ نے سلسلہ بیعت شروع نہیں فرمایا بلکہ اس کے لئے مزید حکم تک توقف کیا چنانچہ جب فرمان الٰہی نازل ہوا تو آپ نے بیعت کے لئے دسمبر ۱۸۸۸ء میں اعلان فرمایا اور بذریعہ اشتہار لوگوں کو دعوت دی اور شروع ۱۸۸۹ء میں بیعت لینا شروع فرما دی لیکن اس وقت تک بھی آپ کو صرف مجدّد و مامور ہونے کا دعویٰ تھا او رگو شروع دعویٰ ماموریت سے ہی آپ کے الہامات میں آپ کے مسیح موعود ہو نے کی طرف صریح اشارات تھے لیکن قدرت الٰہی کہ ایک مدت تک آپ نے مسیح موعود ہو نے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ صرف یہ فرماتے رہے کہ مجھے اصلاح خلق کے لئے مسیح ناصری کے رنگ میں قائم کیا گیا ہے اور مجھے مسیح سے مماثلت ہے ۔اس کے بعد شروع ۱۸۹۱ء میں آپ نے حضرت مسیح ناصری کی موت کے عقیدہ کا اعلان فرمایا اور یہ دعویٰ فرمایاکہ جس مسیح کااس امت کے لئے وعدہ تھا وہ مَیں ہوں ۔آپ کی عام مخالفت کا اصل سلسلہ اسی دعویٰ سے شروع ہوتا ہے ۔ آپ کے نبی اور رسول ہونے کے متعلق بھی ابتدائی الہامات میں صریح اشارے پائے جاتے ہیں مگر اس دعویٰ سے بھی مشیت ایزدی نے آپ کو روکے رکھا حتّٰی کہ بیسویں صدی کا ظہور ہو گیا تب جا کر آپ نے اپنے متعلق نبی اور رسول کے الفاظ صراحتًا استعمال فرمانے شروع کئے ۔اور خاص طور پر مثیل کرشن علیہ السلام ہونے کا دعویٰ توآپ نے اس کے بھی بہت بعد یعنی۱۹۰۴ء میں شائع کیا ۔اور یہ سب کچھ خدائی تصرف کے ماتحت ہو ا آپ کا اس میں ذرہ دخل نہیں تھا ۔آنحضرت ﷺ کے حالات زندگی میں بھی یہی تدریجی ظہور نظر آتا ہے اور اس میں کئی حکمتیں ہیں جن کے بیان کی اس جگہ گنجائش نہیں ۔
{ 48} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کے دادا یعنی مرزا گُل محمد صاحب بڑے پارسا اور متقی اور علم دوست آدمی تھے ۔ان کے زمانہ میں قادیان باعمل علماء کا ایک مرکز تھا ۔مگر ان کے زمانہ میں سکھوںکی طرف سے ہماری جدّی ریاست پر حملے شروع ہو گئے تھے اور کئی گائوں چھن بھی گئے تھے مگر انہوں نے بڑا حصہ جاگیر کا بچا ئے رکھا ان کی وفات کے بعدجو غالباً ۱۸۰۰ء میں واقع ہوئی ان کے لڑکے مرزا عطا محمد صاحب خاندان کے رئیس ہوئے ا ن کے زمانہ میںرام گڑھی سکھوں نے ساری ریاست چھین لی اور ا ن کو قادیان میں جو ان دنوںمیں فصیل سے محفوظ تھا محصور ہونا پڑا ۔ آخر سکھوں نے دھوکے سے شہر پر قبضہ پالیا اور ہمارے کتب خانے کو جلا دیا اور مرزا عطا محمد صاحب کو مع اپنے عزیزوں کے قادیان سے نکل جاناپڑا ۔چنانچہ مرزا عطا محمد صاحب بیگو وال ریاست کپورتھلہ میں چلے گئے جہاں کے سکھ رئیس نے ان کو بڑی عزت سے جگہ دی اور مہمان رکھا ۔چند سال کے بعد مرزا عطا محمد صاحب کو دشمنوں نے زہر دلوا دیا اور وہ فوت ہوگئے اس وقت ہمارے دادا صاحب کی عمر چھوٹی تھی مگر والدہ صاحبہ بیان کر تی ہیں کہ باوجود اس کے وہ اپنے والد صاحب کا جنازہ قادیان لائے تاخاندانی مقبرہ میں دفن کریں ۔یہاں کے سکھوں نے مزاحمت کی لیکن قادیان کی عام پبلک خصوصاً کمیں لوگوں نے دادا صاحب کا ساتھ دیا اور حالت یہاں تک پہنچی کہ سکھوں کو خوف پیدا ہو ا کہ بغاوت نہ ہو جاوے اس لئے انہوں نے اجازت دے دی ۔ اس کے بعد دادا صاحب واپس چلے گئے ۔اس زمانہ میں سکھوں نے ہماری تمام جائداد اور مکانات پر قبضہ کیا ہو اتھا اور بعض مسجدوںکو بھی دھرم سالہ بنالیا تھا ۔پھر را جہ رنجیت سنگھ کے عہد میں رام گڑھیوں کا زور ٹوٹ گیا اور سارا ملک را جہ رنجیت سنگھ کے ماتحت آگیا ۔اس وقت دادا صاحب نے را جہ سے اپنی جدّی جائداد کا کچھ حصہ واپس حاصل کیا اور قادیان واپس آگئے اس کے بعد دادا صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی مرزا غلام محی الدین صاحب نے مہارا جہ رنجیت سنگھ کے ماتحت کئی فوجی خدمات انجام دیں ۔چنانچہ یہ سب باتیں کتاب پنجاب چیفس مصنفہ سرلیپل گریفن میں مفصل درج ہیں ۔سکھ حکومت کے اختتا م پر پھر ملک میں بد امنی پھیلی اور ہمارے خاندان کو پھر مصائب کا سامنا ہوا چنانچہ ہمارے دادا صاحب اور ان کے بھائی مرزا غلام محی الدین صاحب کے قلعہ بسراواں میں قید کئے جانے کا واقعہ غالبًا اسی زمانہ کا ہے ۔اس کے بعد انگریز آئے تو انہوں نے ہماری خاندانی جاگیر ضبط کر لی ۔اور صرف سات سو روپیہ سالانہ کی ایک اعزازی پنشن نقدی کی صورت میں مقرر کر دی جو ہمارے دادا صاحب کی وفات پر صرف ایک سو اسّی رہ گئی اور پھر تایا صاحب کے بعد بالکل بند ہوگئی ،علاوہ ازیں ان تغیرات عظیمہ یعنی سکھوں کے آخر عہد کی بدامنی اور پھر سلطنت کی تبدیلی کے نتیجہ میں قادیان اور اس کے گرد و نواح کے متعلق ہمارے حقوق مالکانہ کے بارے میں بھی کئی سوال اور تنازعات پیداہوگئے چنانچہ اس زمانہ میں بعض دیہات کے متعلق ہمارے حقوق بالکل تلف ہو گئے اور صرف قادیا ن اور چند ملحقہ دیہات کے متعلق دادا صاحب نے زَرِ کثیر صرف کرکے کچھ حقوق واپس لئے ۔سناگیا ہے کہ مقدمات سے پہلے دادا صاحب نے تمام رشتہ داروں سے کہا کہ میں مقدمہ کر نا چاہتا ہوں اگر تم نے ساتھ شامل ہونا ہے تو ہو جائو لیکن چونکہ کامیابی کی امید کم تھی اس لئے سب نے انکار کیا اور کہا کہ آپ ہی مقدمہ کریں اور اگر کچھ ملتا ہے تو آپ ہی لے لیں ۔لیکن جب کچھ حقوق مل گئے تودادا صاحب کے مختار کی سادگی سے تمام رشتہ داروں کا نام خانہ ملکیت میں درج ہو گیا مگر قبضہ صرف دادا صاحب کا رہا اور باقیوں کو صرف آمد سے کچھ حصہ مل جاتا تھا ۔ہمارے خاندان کا ۱۸۶۵ء کے قریب کا شجرہ درج ذیل ہے ۔

جن اسماء کے گرد چوکور خطوط دکھائے گئے ہیں وہ ان لوگوں کے نام ہیں جو۱۸۶۵ء میں قادیان میں حصہ دار درج تھے ۔قادیان کی کل ملکیت پانچ حصوں میںتقسیم کی گئی تھی ۔دو حصے اولاد مرزا تصدق جیلانی کو آئے تھے اور دو حصے اولاد مرزا گُل محمد صاحب کو اور ایک حصہ خاص مرزا غلام مرتضٰی صاحب کو بحیثیت منصرم کے آیا تھا جو بعد میں صرف ان کی اولاد میں تقسیم ہو ا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کی وفات کے بعد غیر قابض شرکاء نے مرزا امام الدین وغیرہ کی فتنہ پردازی سے ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب پر دخل یابی جائیدادکا دعوٰی دائر کر دیا اور با لآخر چیف کورٹ سے تا یا صاحب کے خلاف فیصلہ ہوا ۔اس کے بعد پسر ان مرزا تصدق جیلانی اور مرزا غلام غوث ولد مرزا قاسم بیگ کا حصہ تو اس سمجھوتے کے مطابق جو پہلے سے ہو چکا تھا مرزا ا عظم بیگ لاہوری نے خرید لیا جس نے مقدمہ کا سارا خرچ اسی غرض سے برداشت کیا تھا اور پسران غلام محی الدین صاحب اپنے اپنے حصہ پر خود قابض ہوگئے ۔مرزاغلام حسین کی چونکہ نسل نہیں چلی اس لئے ان کا حصہ پسران مرزا غلام مرتضٰی صاحب و پسران مرزا غلام محی الدین کو آگیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت مرزا تصدق جیلانی اور مرزا قاسم بیگ کی تمام شاخ معدوم ہو چکی ہے ۔ علی ھذا القیاس مرزا غلام حیدر کی بھی شاخ معدوم ہے ۔ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب اور مرزا امام الدین اور مرزا کمال الدین بھی لا ولد فوت ہوئے ۔ہاں مرزا نظام الدین کا ایک لڑکا مرزا گُل محمد موجود ہے مگر وہ احمدی ہو کر حضرت صاحب کی روحانی اولاد میں داخل ہو چکاہے ۔ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی ’’ یَنْقَطِعُ اٰ بَاؤُکَ وَیُبْدَئُ مِنْکَ‘‘َ(تذکرہ صفحہ ۳۹۷مطبوعہ۲۰۰۴ئ) اور یہ الہام اس وقت کا ہے جب آپ کے شجرہ خاندانی کی یہ تمام شاخیں سر سبز تھیں۔
{ 49} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میںحضرت مسیح موعود علیہ السلام تمہارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا ۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کربجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا ۔اور اِدھر اُدھر پھراتا رہا ۔پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کردیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلاگیا ۔حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیںآئے اور چونکہ تمہارے دادا کا منشا ء رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں اس لئے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخوا ہ پر ملازم ہو گئے اور کچھ عرصہ تک وہاں ملازمت پر رہے ۔پھر جب تمہاری دادی بیمار ہوئیں تو تمہارے دادا نے آدمی بھیجا کہ ملازمت چھوڑ کر آجائو جس پر حضرت صاحب فوراً روانہ ہوگئے ۔امرتسر پہنچ کر قادیان آنے کے واسطے یکہ کرایہ پر لیا ۔اس موقعہ پر قادیان سے ایک اور آدمی بھی آپ کے لینے کے لئے امرتسر پہنچ گیا ۔اس آدمی نے کہا یکہ جلدی چلائو کیونکہ ان کی حالت بہت نازک تھی ۔پھر تھوڑی دیر کے بعدکہنے لگا بہت ہی نازک حالت تھی جلدی کرو کہیں فوت نہ ہو گئی ہوں۔والدہ صاحبہ بیان کر تی تھیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں اسی وقت سمجھ گیا کہ دراصل والدہ فوت ہوچکی ہیں کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتیں تو وہ شخص ایسے الفاظ نہ بولتا ۔چنانچہ قادیان پہنچے تو پتہ لگا کہ واقعی وہ فوت ہو چکی تھیں ۔والدہ صاحبہ بیان کر تی ہیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہمیں چھوڑ کر پھر مرزا امام الدین اِدھر اُدھر پھر تا رہا ۔آخر اس نے چائے کے ایک قافلہ پر ڈاکہ مارا اور پکڑا گیا مگر مقدمہ میں رہا ہو گیا۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہماری وجہ سے ہی اسے قید سے بچالیا ورنہ خواہ وہ خود کیسا ہی آدمی تھا ہمارے مخالف یہی کہتے کہ ان کا ایک چچا زاد بھائی جیل خانہ میں رہ چکا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیالکوٹ کی ملازمت ۱۸۶۴ء تا۱۸۶۸ء کا واقعہ ہے۔
(اس روایت سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سیالکوٹ میں ملازم ہونا اس وجہ سے تھا کہ آپ سے مرزا امام الدین نے دادا صاحب کی پنشن کا روپیہ دھوکا دے کر اڑا لیا تھا کیونکہ جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیفات میں تصریح کی ہے آپ کی ملازمت اختیار کرنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ آپ کے والد صاحب ملازمت کے لئے زور دیتے رہتے تھے ورنہ آپ کی اپنی رائے ملازمت کے خلاف تھی اسی طرح ملازمت چھوڑ دینے کی بھی اصل وجہ یہی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ملازمت کو ناپسند فرماتے تھے اور اپنے والد صاحب کو ملازمت ترک کر دینے کی اجازت کے لئے لکھتے رہتے تھے لیکن دادا صاحب ترک ملازمت کی اجازت نہیں دیتے تھے مگر بالآخر جب دادی صاحبہ بیمار ہوئیں تو دادا صاحب نے اجازت بھجوا دی کہ ملازمت چھوڑ کر آجائو۔ )
{ 50} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ طبابت کا علم ہمارا خاندانی علم ہے اور ہمیشہ سے ہمارا خاندان اس علم میں ماہر رہا ہے ۔ دادا صاحب نہایت ماہر اور مشہور حاذق طبیب تھے۔تایا صاحب نے بھی طب پڑھی تھی ۔حضرت مسیح موعود ؑ بھی علم طب میں خاصی دسترس رکھتے تھے اور گھر میں ادویہ کا ایک ذخیرہ رکھا کرتے تھے جس سے بیماروں کو دوا دیتے تھے۔ مرزا سلطان احمدصاحب نے بھی طب پڑھی تھی ۔ اور خاکسار سے حضرت خلیفہ ثانی نے ایک دفعہ بیان کیاتھا کہ مجھے بھی حضرت مسیح موعود ؑنے علم طب کے پڑھنے کے متعلق تاکید فرمائی تھی ۔ خاکسار عرض کرتاہے کہ باوجود اس بات کے کہ علم طب ہمارے خاندان کی خصوصیت رہا ہے ۔ہمارے خاندان میں سے کبھی کسی نے اس علم کو اپنے روزگار کا ذریعہ نہیں بنایااور نہ ہی علاج کے بدلے میں کسی سے کبھی کچھ معاوضہ لیا ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 51} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ تمہاری دادی ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھیں۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم اپنی والد ہ کیساتھ بچپن میںکئی دفعہ ایمہ گئے ہیں۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہاں حضرت صاحب بچپن میں چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور چاقو نہیں ملتا تھا تو سر کنڈے سے ذبح کر لیتے تھے ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ ایمہ سے چند بوڑھی عورتیں آئیںتو انہوں نے باتوںباتوں میں کہا کہ سندھی ہمارے گائوںمیں چڑیاںپکڑا کرتا تھا۔والدہ صاحبہ نے فرمایاکہ میں نہ سمجھ سکی کہ سندھی سے کون مراد ہے ۔آخر معلوم ہو ا کہ ان کی مراد حضرت صاحب سے ہے ۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ دستور ہے کہ کسی منت ماننے کے نتیجہ میں بعض لوگ خصوصاً عورتیںاپنے کسی بچے کا عرف سندھی رکھ دیتے ہیں چنانچہ اسی وجہ سے آپ کی والدہ اور بعض عورتیں آپ کو بھی بچپن میںکبھی اس لفظ سے پکارلیتی تھیں ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ سندھی غالباً دسوندھی یا د سبندھی سے بگڑاہو اہے جو ایسے بچے کو کہتے ہیں جس پر کسی منت کے نتیجہ میںدس دفعہ کو ئی چیز باندھی جاوے اور بعض دفعہ منت کوئی نہیں ہوتی بلکہ یونہی پیارسے عورتیںاپنے کسی بچے پر یہ رسم اداکرکے اسے سندھی پکارنے لگ جاتی ہیں ۔
(اس روایت میں جو یہ ذکر آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ بچپن میں کبھی کبھی شکار کی ہوئی چڑیا کو سرکنڈے سے ذبح کر لیتے تھے اس کے متعلق یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس جگہ سرکنڈے سے پورا گول سرکنڈا مراد نہیں ہے بلکہ سرکنڈے کا کٹا ہوا ٹکڑا مراد ہے۔ جو بعض اوقات اتنا تیز ہوتا ہے کہ معمولی چاقو کی تیزی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ چنانچہ خود خاکسار راقم الحروف کو کئی دفعہ بچپن میں سرکنڈے سے اپنے ہاتھوں کو زخمی کرنے کا اتفاق ہوا ہے اور پھر ایک چڑیا جیسے جانور کا چمڑا تو اس قدر نرم ہوتا ہے کہ ذرا سے اشارے سے کٹ جاتا ہے۔
دوسری بات جو اس روایت میں قابل نوٹ ہے وہ لفظ سندھی سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی یہ کہ اس لفظ سے کیا مراد ہے اور وہ عورتیں کون تھیں جنہوں نے حضرت والدہ صاحبہ کے سامنے حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا ۔سو روایت کرنے والی عورتوں کے متعلق میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے دریافت کیا ہے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون عورتیں تھیں۔ مجھے صرف اس قدر علم ہے کہ وہ باہر سے قادیان آئی تھیں۔ اور ایمہ ضلع ہوشیار پور سے اپنا آنا بیان کرتی تھیں۔ اس کے سوا مجھے ان کے متعلق کوئی علم نہیں ہے۔ لفظ سندھی کے متعلق خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے اس لفظ کے متعلق مزید تحقیق کی ہے یہ لفظ ہندی الاصل ہے جس کے معنی مناسب وقت یا صلح یا جوڑ کے ہیں۔ پس اگر یہ روایت درست ہے تو بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اس لفظ کے کبھی کبھی استعمال ہونے میں خدا کی طرف سے یہ اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہ شخص ہے جو عین وقت پر آنے والا ہے یا یہ کہ یہی وہ شخص ہے جو خدا کی طرف سے صلح اور امن کا پیغام لے کر آئے گا۔ (دیکھو حدیث یضع الحرب) یا یہ کہ یہ شخص لوگوں کو خدا کے ساتھ ملانے والا ہو گا۔ یا یہ کہ یہ خود اپنی پیدائش میں جوڑا یعنی توام پیدا ہونے والا ہو گا (مسیح موعود کے متعلق یہ بھی پیشگوئی تھی کہ وہ جوڑا پیدا ہو گا) پس اگر یہ روایت درست ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ انہیں اشارات کی غرض سے ہے۔ واللہ اعلم
باقی رہا کسی معاند کا یہ مذاق اڑانا کہ گویا حضرت مسیح موعود ؑ کا نام ہی سندھی تھا۔ سو اصولاً اس کا یہ جواب ہے کہ جب تک کسی نام میں کوئی بات خلاف مذہب یا خلاف اخلاق نہیں ہے اس پر کوئی شریف زادہ اعتراض نہیں کر سکتا۔ گزشتہ انبیاء کے جو نام ہیں ۔ وہ بھی آخر کسی نہ کسی زبان کے لفظ ہیں۔ اور کم از کم بعض ناموں کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان کے کیا کیا معنی ہیں۔ پھر اگر بالفرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی ہندی الاصل نام پا لیا۔ تو اس میں حرج کونسا ہو گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بالکل بے بنیاد اور سراسر افترا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام سندھی تھا۔ اور اگر کسی مخالف یا معاند کے پاس اس کی کوئی دلیل ہے تو وہ مرد میدان بن کر سامنے آئے اور اسے پیش کرے ورنہ اس خدائی وعید سے ڈرے۔ جو مفتریوں کے لئے * کی صورت میں مقرر ہے۔ حقیقت یہ ہے جسے ساری دنیا جانتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام مرزا غلام احمد تھا۔ چنانچہ (۱) یہی نام آپ کے والدین نے رکھا اور (۲) اسی نام سے آپ کے والد صاحب آپ کو ہمیشہ پکارتے تھے اور (۳)اسی نام سے سب دوست و دشمن آپ کو یاد کرتے تھے اور (۴)میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیالکوٹ کی ملازمت (از۱۸۶۴ء تا ۱۸۶۸ء ) کے بعض سرکاری کاغذات دیکھے ہیں۔ جو اب تک محفوظ ہیں ان میں بھی یہی نام درج ہے اور (۵) اسی نام کی بناء پر دادا صاحب نے اپنے ایک آباد کردہ گائوں کا نام احمد آباد رکھا اور (۶) دادا صاحب کی وفات کے بعد جو حضرت صاحب کے دعویٰ مسیحیت سے چودہ سال پہلے ۱۸۷۶ء میں ہوئی۔ جب کاغذات مال میں ہمارے تایا اور حضرت صاحب کے نام جائداد کا انتقال درج ہوا۔ تو اس میں بھی غلام احمد نام ہی درج ہوا اور (۷) کتاب پنجاب چیفس میں بھی جو حکومت کی طرف سے شائع شدہ ہے یہی نام لکھا ہے اور (۸)دوسرے بھی سارے سرکاری کاغذات اور دستاویزات میں یہی نام درج ہوتا رہا ہے اور (۹)دوسرے عزیزوں اور قرابت داروں کے ناموں کا قیاس بھی اسی نام کا مؤیدہے اور (۱۰) خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ہمیشہ اپنے خطوط اور تحریرات اور تصانیف وغیرہ میں … یہی نام استعمال کیا اور (۱۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر عدالت ہائے انگریزی میں جتنے مقدمات ہوئے ان سب میں حکام اور مخالفین ہر دو کی طرف سے یہی نام استعمال ہوتا رہا اور (۱۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ سے پہلے جب اول المکفرین مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے براہین احمدیہ پر ریویو لکھا تو انہوں نے اس میں بھی یہی نام لکھا اور (۱۳) اشد المعاندین مولوی ثناء اللہ امرتسری نے اپنی جملہ مخالفانہ تصنیفات میں ہمیشہ یہی نام استعمال کیا اور (۱۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جن بیسیوں ہندو ،سکھ ،عیسائی ،مسلمان اخباروں نے آپ کے متعلق نوٹ لکھے انہوں نے بھی اسی نام سے آپ کا ذکر کیا۔ اگر باوجود اس عظیم الشان شہادت کے کسی معاند کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام غلام احمد نہیں تھا۔ بلکہ سندھی یا کچھ اور تھا۔ تو اس کا ہمارے پاس اس کے سوا کوئی علاج نہیں کہ * اللہ علی الکاذبین) اسی ضمن میں روایات نمبر ۲۵ ، ۴۴ ،۹۸ ،۱۲۹،۱۳۴،۴۱۲ اور ۴۳۸ بھی قابل ملاحظہ ہیں جن سے اس بحث پر مزید روشنی پڑتی ہے۔
{ 52} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے جھنڈا سنگھ ساکن کالہواں نے کہ میں بڑے مرزا صاحب کے پاس آیا جایاکرتا تھا ۔ایک دفعہ مجھے بڑے مرزا صاحب نے کہا کہ جائو غلام احمدکو بلالائو ایک انگریز حاکم میرا واقف ضلع میںآیا ہے اس کا منشاء ہو توکسی اچھے عہدہ پر نوکر کرا دوں ۔جھنڈا سنگھ کہتا تھا کہ میںمرزا صاحب کے پاس گیا تو دیکھاچاروںطرف کتابوںکا ڈھیر لگا کر اس کے اند ر بیٹھے ہو ئے کچھ مطالعہ کررہے ہیں ۔میں نے بڑے مرزا صاحب کا پیغام پہنچا دیا ۔مرزا صاحب آئے اور جواب دیا ’’ میں تو نوکر ہو گیا ہوں‘‘بڑے مرزا صاحب کہنے لگے کہ اچھا کیا واقعی نوکر ہوگئے ہو ؟مرزا صاحب نے کہا ہاں ہو گیاہوں۔اس پر بڑے مرزا صاحب نے کہا اچھا اگر نوکر ہو گئے ہوتو خیر ہے ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ کالہواں قادیان سے جنوب کی طرف دو میل کے فاصلہ پرا یک گائوں ہے او ر نوکر ہونے سے مراد خدا کی نوکری ہے۔نیز خاکسار عرض کرتاہے کہ جھنڈاسنگھ کئی دفعہ یہ روایت بیان کر چکا ہے اوروہ قادیان کی موجودہ ترقی کو دیکھ کرحضرت مسیح موعود ؑ کا بہت ذکر کیا کرتا ہے اور آپ سے بہت محبت رکھتا ہے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کو بوجہ خاندان میں سب سے بڑا اور معزز ہونے کے عام طور پر لوگ بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے چنانچہ خود حضرت مسیح موعود ؑ بھی عمومًا ان کے متعلق یہی الفاظ فرماتے تھے ۔
{ 53} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود ؑصدقہ بہت دیا کرتے تھے اور عموماً ایسا خفیہ دیتے تھے کہ ہمیں بھی پتہ نہیں لگتا تھا ۔خاکسار نے دریافت کیا کہ کتنا صدقہ دیا کرتے تھے ؟والدہ صاحبہ نے فرمایا بہت دیاکرتے تھے۔اور آخری ایام میں جتناروپیہ آتا تھا اس کا دسواں حصہ صدقے کے لئے الگ کردیتے تھے اور اس میں سے دیتے رہتے تھے۔والدہ صاحبہ نے بیان فرمایا کہ اس سے یہ مراد نہیںکہ دسویں حصہ سے زیادہ نہیںدیتے تھے بلکہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بعض اوقات اخراجات کی زیادت ہوتی ہے تو آدمی صدقہ میںکوتاہی کرتا ہے لیکن اگر صدقہ کا روپیہ پہلے سے الگ کر دیاجاوے تو پھر کوتاہی نہیں ہوتی کیونکہ وہ روپیہ پھر دوسرے مصرف میںنہیںآسکتا۔والدہ صاحبہ نے فرمایا اسی غرض سے آپ دسواں حصہ تما م آمد کا الگ کر دیتے تھے ورنہ ویسے دینے کو تو اس سے زیادہ بھی دیتے تھے ۔خاکسار نے عرض کیا کہ کیا آپ صدقہ دینے میں احمدی غیر احمدی کا لحاظ رکھتے تھے ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا نہیںبلکہ ہر حاجت مند کو دیتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس زمانہ میںقادیان میں ایسے احمدی حاجت مند بھی کم ہی ہوتے تھے ۔
{ 54} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود ؑ جب کسی سے قرضہ لیتے تھے تو واپس کرتے ہوئے کچھ زیادہ دے دیتے تھے ۔خاکسار نے پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی مثال یاد ہے ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ اس وقت مثال تو یاد نہیں مگر آپ فرمایا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے ایسا فرمایا ہے ۔اور والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت صاحب کو ئی نیکی کی بات نہیں بیان فرماتے تھے جب تک کہ خود اس پر عمل نہ ہو ۔خاکسار نے دریافت کیا کہ کیا حضرت مسیح موعود ؑ نے کبھی کسی کو قرض بھی دیا ہے ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا ہاں کئی دفعہ دیا ہے ۔چنانچہ ایک دفعہ مولوی صاحب (خلیفہ اول )اور حکیم فضل الدین صاحب بھیروی نے آپ سے قرض لیا ۔مولوی صاحب نے جب قرض کا روپیہ واپس بھیجا تو آپ نے واپس فرما دیا اور کہلا بھیجا کہ کیا آپ ہمارے روپے کو اپنے روپے سے الگ سمجھتے ہیں ۔مولوی صاحب نے اسی وقت حکیم فضل الدین صاحب کو کہلا بھیجا کہ میں یہ غلطی کر کے جھاڑ کھا چکا ہوں ۔دیکھنا تم روپیہ واپس نہ بھیجنا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے کسی سے سنا ہے کہ مولوی صاحب نے یہ بھی حکیم صاحب کو کہا تھاکہ اگر ضرور واپس دینا ہوا تو کسی او ر طرح دے دینا ۔
{ 55} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ آخری ایام میں حضرت مسیح موعود نے میرے سامنے حج کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔چنانچہ میں نے آپکی وفات کے بعد آپ کی طرف سے حج کروا دیا ۔ (حضرت والدہ صاحبہ نے حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم کو بھیج کر حضرت صاحب کی طرف سے حج بدل کروایا تھا) اور حافظ صاحب کے سارے اخراجات والدہ صاحبہ نے خود برداشت کئے تھے۔ حافظ صاحب پرانے صحابی تھے اور اب عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں۔
{ 56} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود کھانوں میں سے پرندہ کا گوشت زیادہ پسند فرماتے تھے ۔شروع شروع میں بٹیر بھی کھا تے تھے لیکن جب طاعون کا سلسلہ شروع ہو ا تو آپ نے اس کاگوشت کھانا چھوڑدیا کیونکہ آپ فرماتے تھے کہ اس میں طاعونی مادہ ہوتا ہے ۔ مچھلی کا گوشت بھی حضرت صاحب کو پسند تھا۔ناشتہ باقاعدہ نہیں کرتے تھے ۔ہاں عمومًا صبح کو دودھ پی لیتے تھے ۔خاکسار نے پوچھا کہ کیا آپ کو دودھ ہضم ہو جاتاتھا ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ہضم تو نہیں ہوتا تھا مگر پی لیتے تھے ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ پکوڑے بھی حضرت صاحب کو پسند تھے ۔ایک زمانے میں سکنجبین کا شربت بہت استعمال فرمایا تھا مگر پھر چھوڑ دی ۔ایک دفعہ آپ نے ایک لمبے عرصہ تک کو ئی پکی ہوئی چیز نہیں کھائی صرف تھوڑے سے دہی کے ساتھ روٹی لگا کر کھا لیا کرتے تھے ۔کبھی کبھی مکی کی روٹی بھی پسند کرتے تھے ۔کھانا کھاتے ہوئے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے جاتے تھے کچھ کھاتے تھے کچھ چھوڑ دیتے تھے ۔کھانے کے بعد آپ کے سامنے سے بہت سے ریزے اُٹھتے تھے ۔ایک زمانہ میں آپ نے چائے کا بہت استعمال فرمایاتھامگر پھر چھوڑدی ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا حضرت صاحب کھانا بہت تھوڑا کھاتے تھے اور کھانے کا وقت بھی کو ئی خاص مقرر نہیں تھا۔صبح کا کھانا بعض اوقات بارہ بارہ ایک ایک بجے بھی کھاتے تھے ۔شام کاکھانا عموماً مغرب کے بعد مگر کبھی کبھی پہلے بھی کھالیتے تھے۔غرض کوئی وقت معین نہیںتھا ،بعض اوقات خود کھانا مانگ لیتے تھے کہ لائو کھانا تیار ہے تو دے د و پھر میںنے کام شروع کرنا ہے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ آپ کس وقت کام کرتے تھے ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ بس سارا د ن کام میں ہی گزرتا تھا ۔ ۱۰بجے ڈاک آتی تھی تو ڈاک کا مطالعہ فرماتے تھے اور اس سے پہلے بعض اوقات تصنیف کا کام شروع نہیں فرماتے تھے تا کہ ڈاک کی وجہ سے درمیان میں سلسلہ منقطع نہ ہو ۔مگر کبھی پہلے بھی شروع کر دیتے تھے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ روزانہ اخبار عام لاہور منگواتے اور باقاعدہ پڑھتے تھے ۔اس کے علاوہ آخری ایام میں اور کوئی اخبار خود نہیں منگواتے تھے ۔ہاں کبھی کوئی بھیج دیتا تھا تو وہ بھی پڑھ لیتے تھے ۔
{ 57} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ پہلے لنگر کا انتظام ہمارے گھر میںہوتا تھا اور گھر سے سارا کھانا پک کر جاتا تھا مگر جب آخری سالوںمیںزیادہ کام ہو گیاتو میں نے کہہ کر باہر انتظام کروا دیا۔خاکسار نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ کیا حضرت صاحب کسی مہمان کے لئے خاص کھانا پکانے کیلئے بھی فرماتے تھے ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا ہاں بعض اوقات فرماتے تھے کہ فلاںمہمان آئے ہیں ان کے لئے یہ کھانا تیار کر دو۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ شروع میں سب لوگ لنگر سے ہی کھا نا کھاتے تھے خواہ مہمان ہوں یا یہاں مقیم ہوچکے ہوں۔مقیم لوگ بعض اوقات اپنے پسند کی کوئی خاص چیز اپنے گھروںمیں بھی پکا لیتے تھے مگر حضرت صاحب کی یہ خواہش ہو تی تھی کہ اگر ہو سکے تو ایسی چیز یںبھی ان کے لئے آپ ہی کی طرف سے تیار ہو کر جاویں اور آپ کی خواہش رہتی تھی کہ جو شخص جس قسم کے کھانے کا عادی ہو اس کو اسی قسم کا کھانا دیا جاسکے ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میںلنگر کا انتظام خود آپ کے ہاتھ میںرہتاتھامگر آپ کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اوّل نے یہ انتظام صدر انجمن احمدیہ قادیان کے سپر د فرما دیا ۔والدہ صاحبہ فرماتی ہیںکہ حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں بعض لوگ حضرت صاحب سے کہاکرتے تھے کہ حضور کو انتظام کی وجہ سے بہت تکلیف ہوتی ہے اور حضورکا حرج بھی بہت ہوتا ہے اپنے خدام کے سپرد فرمادیں مگر آپ نے نہیں مانا کیونکہ آپ کو یہ اندیشہ رہتا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ ان کے پاس انتظام جانے سے کسی مہمان کو تکلیف ہو ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کوشش ان لوگوں کی طرف سے تھی جو آپ کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ایسا نہیں کہتے تھے بلکہ ان کی نیتوںمیں فساد تھا اور جو منافقین مدینہ کی طرح آپ پر اخراجات لنگر خانہ کے متعلق شبہ کرتے تھے ۔ قال اللّٰہ تعالٰی ’’و منھم من یلمزک فی الصدقات ـ‘‘
{ 58} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیا ن فرمایا کہ تمہارے تایا کے ہاںایک لڑکی اور ایک لڑکا پیدا ہوئے تھے مگر دونوں بچپن میں فوت ہوگئے ۔لڑکی کا نام عصمت اور لڑکے کا نام عبدالقادر تھا ۔حضرت صاحب کو اپنے بھائی کی اولاد سے بہت محبت تھی چنانچہ آپ نے اپنی بڑی لڑکی کا نام اسی واسطے عصمت رکھا تھا ۔
{59} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ بڑی بیوی سے حضرت مسیح موعود ؑکے دو لڑکے پیدا ہوئے ۔ اعنی مرزا سلطان احمد صاحب اورمرزا فضل احمد۔حضرت صاحب ابھی گویا بچہ ہی تھے کہ مرزا سلطان احمدپیداہوگئے تھے ۔اور ہماری والدہ صاحبہ سے حضرت مسیح موعود ؑکی مندرجہ ذیل اولاد ہوئی ۔عصمت جو ۱۸۸۶ء میںپیدا ہوئی اور ۱۸۹۱ء میںفوت ہوگئی۔بشیر احمد اوّل جو ۱۸۸۷ء میں پیدا ہوا اور ۱۸۸۸ء میںفوت ہوگیا۔حضرت خلیفہ ثانی مرزا بشیرالدین محمود احمدجو۱۸۸۹ء میںپیدا ہوئے ۔شوکت جو ۱۸۹۱ء میں پیدا ہوئی اور ۱۸۹۲ء میں فوت ہوگئی ۔خاکسار مرزا بشیر احمدجو ۱۸۹۳ء میں پیدا ہوا ۔مرزاشریف احمدجو۱۸۹۵ء میںپیدا ہوئے۔مبارکہ بیگم جو ۱۸۹۷ء میں پیدا ہوئیں۔مبارک احمدجو ۱۸۹۹ء میں پیدا ہوا اور ۱۹۰۷ء میں فوت ہوگیا۔امۃ النصیر جو۱۹۰۳ء میں پیداہوئی اور ۱۹۰۳ء میںہی فوت ہوگئی ۔امۃ الحفیظ بیگم جو ۱۹۰۴ء میں پیدا ہوئیں ۔سوائے امۃ الحفیظ بیگم کے جو حضرت صاحب کی وفات کے وقت صرف تین سال کی تھیں باقی سب بچوں کی حضرت صاحب نے اپنی زندگی میں شادی کر دی تھی ۔
{ 60} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیا ن کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب تم بچے تھے اور شاید دوسری جماعت میں ہو گے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ رفع حاجت سے فارغ ہوکر آئے توتم اس وقت ایک چارپائی پر الٹی سیدھی چھلانگیں مار رہے اور قلا بازیاں کھا رہے تھے آپ نے دیکھ کر تبسّم فرمایا اور کہا دیکھو یہ کیا کر رہا ہے پھرفرمایا اسے ایم ۔اے کرانا ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ یہ فقرہ روزمرہ کی زبان میںبے ساختہ نکلا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر غورکریںتو اس میںدو تین پیشگوئیاںہیں ۔
{ 61} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیامجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ ہمیشہ رات کو سوتے ہوئے پاجامہ اتار کر تہ بند باندھ لیتے تھے اور عموماً کرتہ بھی اتار کر سوتے تھے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ جب رفع حاجت کے بعد طہارت سے فارغ ہوتے تھے تو اپنا ہاتھ مٹی سے ملکر پانی سے دھوتے تھے ۔
{ 62} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض اوقات گھر میں بچوں کو بعض کہانیاں بھی سنایا کرتے تھے ۔چنانچہ ایک برے بھلے کی کہانی بھی آپ عموماً سناتے تھے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک برا آدمی تھا اور ایک اچھا آدمی تھا ۔ اور دونو نے اپنے رنگ میں کام کئے اور آخرکار بر ے آدمی کا انجام برا ہوا اور اچھے کا اچھا ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ایک بینگن کی کہانی بھی آپ سناتے تھے جس کا خلاصہ یہ تھاکہ ایک آقا تھا اس نے اپنے نو کر کے سامنے بینگن کی تعریف کی تو اس نے بھی بہت تعریف کی چند دن کے بعد آقا نے مذمت کی تو نوکر بھی مذمت کر نے لگا ۔آقا نے پوچھا یہ کیا بات ہے کہ اس دن تو تُو تعریف کر تاتھا اور آج مذمت کرتا ہے ۔نوکر نے کہامیںتوحضور کا نوکر ہوںبینگن کا نوکر نہیں ہوں ۔
{ 63} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ ہم تینوں بھائیوں نے مل کر ایک ہوائی بندوق کے منگانے کا ارادہ کیا مگر ہم فیصلہ نہ کر سکتے تھے کہ کونسی منگوائیں آخر ہم نے قرعہ لکھ کر حضرت صاحب سے قر عہ اُٹھوایا اور جو بندوق نکلی وہ ہم نے منگالی ۔اور پھر اس سے بہت شکار کیا۔ (یہ ۲۲ بور کی بی۔ایس اے ائیر رائفل تھی)
{ 64} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ ہم گھر کے بچے مل کر حضرت صاحب کے سامنے میاں شریف احمد کو چھیڑ نے لگ گئے کہ ابّا کو تم سے محبت نہیں ہے اور ہم سے ہے۔ میاں شریف بہت چڑتے تھے ۔ حضرت صاحب نے ہمیں روکا بھی کہ زیادہ تنگ نہ کرو مگر ہم بچے تھے لگے رہے ۔آخر میاںشریف رونے لگ گئے اور ان کی عادت تھی کہ جب روتے تھے تو ناک سے بہت رطوبت بہتی تھی ۔ حضرت صاحب اُٹھے اور چاہاکہ ان کو گلے لگا لیں تاکہ ان کا شک دور ہو مگر وہ اس وجہ سے کہ ناک بہہ رہا تھا پرے پرے کھچتے تھے ۔ حضرت صاحب سمجھتے تھے کہ شائد اسے تکلیف ہے اس لئے دور ہٹتا ہے۔ چنانچہ کافی دیر تک یہی ہو تا رہا کہ حضرت صاحب ان کو اپنی طرف کھینچتے تھے اور وہ پرے پرے کھچتے تھے ۔اور چونکہ ہمیں معلوم تھا کہ اصل بات کیا ہے اس لئے ہم پاس کھڑے ہنستے جاتے تھے ۔
{ 65} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ہم بچے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خواہ کام کر رہے ہوں یا کسی اور حالت میں ہو ں ہم آپ کے پاس چلے جاتے تھے کہ ابّا پیسہ دو اور آپ اپنے رومال سے پیسہ کھول کر دے دیتے تھے ۔اگر ہم کسی وقت کسی بات پر زیادہ اصرار کرتے تھے تو آپ فرماتے تھے کہ میاں میں اس وقت کام کر رہا ہوںزیادہ تنگ نہ کرو ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ آپ معمولی نقدی وغیرہ اپنے رومال میں جو بڑے سائز کا ململ کا بنا ہوا ہوتا تھا باندھ لیا کرتے تھے اور رومال کا دوسرا کنارہ واسکٹ کے ساتھ سلوا لیتے یا کاج میں بندھوا لیتے تھے ۔اور چابیاںازار بند کے ساتھ باندھتے تھے جو بوجھ سے بعض اوقات لٹک آتا تھا ۔اور والدہ صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ عموماً ریشمی ازار بند استعمال فرماتے تھے کیونکہ آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا اس لئے ریشمی ازار بند رکھتے تھے تاکہ کھلنے میں آسانی ہو اور گرہ بھی پڑ جاوے تو کھولنے میں دقت نہ ہو ۔سوتی ازار بند میں آپ سے بعض دفعہ گرہ پڑ جاتی تھی تو آپ کو بڑی تکلیف ہو تی تھی ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 66} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ تمہارے دادا کی زندگی میں حضرت صاحب کو سل ہوگئی اور چھ ماہ تک بیمار رہے اور بڑی نازک طبیعت ہوگئی۔ حتّٰی کہ زندگی سے ناامیدی ہو گئی چنانچہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے چچا آپ کے پاس آکر بیٹھے اور کہنے لگے کہ دنیا میںیہی حال ہے سبھی نے مرنا ہے کوئی آگے گذر جاتا ہے کوئی پیچھے جاتا ہے اس لئے اس پر ہراساں نہیں ہو نا چاہئیے ۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے دادا خود حضرت صاحب کا علاج کرتے تھے اور برابر چھ ماہ تک انہوں نے آپ کو بکرے کے پائے کاشوربا کھلایاتھا ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ اس جگہ چچا سے مراد مرزا غلام محی الدین صاحب ہیں ۔
{ 67} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے ہماری پھوپھی صاحبہ یعنی مرزا امام الدین کی ہمشیرہ نے جو ہماری تائی کی چھوٹی بہن ہیں اور مرزا احمدبیگ ہوشیار پوری کی بیوہ ہیں کہ ایک دفعہ ہمارے والد اور تایا کو سکھوںنے بسرا واںکے قلعہ میں بند کر دیا تھا اور قتل کا ارادہ رکھتے تھے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ غالباً سکھوں کے آخری عہد کی بات ہے جبکہ راجہ رنجیت سنگھ کے بعد ملک میں پھر بدامنی پھیل گئی تھی۔ اس وقت سنا ہے کہ ہمارے دادا اور ان کے بھائی مرزا غلام محی الدین صاحب کو سکھوں نے قلعہ میں بند کر دیا تھا اور سننے میں آیا ہے کہ جب مرزا غلام حیدر ان کے چھوٹے بھائی کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے لاہور سے کمک لا کر ان کو چھڑایا تھا ۔خاکسار عرض کرتا ہے ۔ بسراواں قادیان سے قریباً اڑھائی میل مشرق کی طرف ایک گائوں ہے اس زمانہ میں وہاں ایک خام قلعہ ہوتا تھا جو اب مسمار ہو چکا ہے مگر اس کے آثار باقی ہیں ۔
{ 68} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب میں چھوٹی لڑکی تھی تو میرصاحب (یعنی خاکسار کے نانا جان) کی تبدیلی ایک دفعہ یہاں قادیان بھی ہوئی تھی اور ہم یہاں چھ سات ماہ ٹھہرے تھے پھر یہاں سے دوسری جگہ میر صاحب کی تبدیلی ہوئی تو وہ تمہارے تایا سے بات کر کے ہم کو تمہارے تایا کے مکان میں چھوڑ گئے تھے اور پھر ایک مہینہ کے بعد آکر لے گئے اس وقت تمہارے تایا قادیان سے باہر رہتے تھے اور آٹھ روز کے بعد یہاں آیا کرتے تھے اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے ان کو دیکھا ہے۔ خاکسار نے پوچھا کہ حضرت صاحب کو بھی ان دنوں میں آپ نے کبھی دیکھا تھا یا نہیں؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب رہتے تو اسی مکان میں تھے مگر میں نے آپ کو نہیں دیکھا اور والدہ صاحبہ نے مجھے وہ کمرہ دکھایا جس میں ان دنوں میں حضرت صاحب رہتے تھے۔ آج کل وہ کمرہ مرزا سلطان احمد صاحب کے قبضہ میں ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب ابتداء سے ہی گوشہ نشین تھے اس لئے والدہ صاحبہ کو دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا ہو گا۔خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ یہ کب کی بات ہے ؟والدہ صاحبہ نے فرمایا مجھے تاریخ تو یاد نہیں مگر یہ یاد ہے کہ جب ہم یہاں قادیان آئے تھے تو ان دنوں میں تمہارے دادا کی وفات کی ایک سالہ رسم ادا ہوئی تھی۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس حساب سے وہ زمانہ ۱۸۷۷ء کا بنتا ہے ۔ اس وقت والدہ صاحبہ کی عمر نو دس سال کی ہو گی اور حضرت صاحب کی عمر غالباً چالیس سال سے اوپر تھی۔ (خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت جبکہ کتاب ہذا کی دوسری ایڈیشن زیر تیاری ہے وہ کمرہ جس میں حضرت صاحب ان ایام میں رہتے تھے ایک دوسرے کمرے کے تبادلہ میں ہمارے پاس آگیا ہے اور یہ وہ چوبارہ ہے جو حضرت والدہ صاحبہ کے موجودہ باورچی خانہ کے صحن کے ساتھ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان سے ملحق ہے ۔)
{ 69} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ میری شادی سے پہلے حضرت صاحب کو معلوم ہوا تھا کہ آپ کی دوسری شادی دلّی میں ہو گی چنانچہ آپ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کے پاس اس کا ذکر کیا تو چونکہ اس وقت اس کے پاس تمام اہل حدیث لڑکیوں کی فہرست رہتی تھی اور میر صاحب بھی اہل حدیث تھے اور اس سے بہت میل ملاقات رکھتے تھے اس لئے اس نے حضرت صاحب کے پاس میر صاحب کا نام لیا آپ نے میر صاحب کو لکھا ۔ شروع میں میر صاحب نے اس تجویز کو بوجہ تفاوت عمر ناپسند کیا مگر آخر رضامند ہو گئے اور پھر حضرت صاحب مجھے بیاہنے دلّی گئے۔ آپ کے ساتھ شیخ حامد علی اور لالہ ملاوامل بھی تھے ۔ نکاح مولوی نذیر حسین نے پڑھا تھا ۔ یہ ۲۷؍ محرم ۱۳۰۲ھ بروز پیر کی بات ہے۔ اس وقت میری عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ حضرت صاحب نے نکاح کے بعد مولوی نذیر حسین کو پانچ روپے اور ایک مصلّٰی نذر دیا تھا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت حضرت مسیح موعود کی عمر پچاس سال کے قریب ہو گی ۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے تایا میرے نکاح سے ڈیڑھ دو سال پہلے فوت ہو چکے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ تایا صاحب ۱۸۸۳ء میں فوت ہوئے تھے جو کہ تصنیف براہین کا آخری زمانہ تھا اور والدہ صاحبہ کی شادی نومبر۱۸۸۴ء میں ہوئی تھی اور مجھے والدہ صاحبہ سے معلوم ہوا ہے کہ پہلے شادی کا دن اتوار مقرر ہوا تھا مگر حضرت صاحب نے کہہ کر پیر کروا دیا تھا۔
{ 70} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیاہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ حضرت مسیح موعود کا زمانہ عجیب تھا قادیان میں دو دن گرمی نہیں پڑتی تھی کہ تیسرے دن بارش ہوجاتی تھی ۔جب گرمی پڑتی اور ہم حضرت صاحب سے کہتے کہ حضور بہت گرمی ہے تو دوسرے دن بارش ہو جاتی تھی ۔نیز مولوی سید سرور شاہ صاحب نے بیان کیا کہ اس ز مانہ میں فصلوں کے متعلق بھی کبھی شکایت نہیں ہو ئی ۔ خاکسار نے گھر آگر والدہ صاحبہ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرما یا کہ حضرت صاحب جب فرماتے تھے کہ آج بہت گرمی ہے تو عموماً اسی دن یا دوسرے دن بارش ہو جاتی تھی ۔اور آپ کے بعد تو مہینوں آگ برستی ہے اور بارش نہیں ہوتی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں قادیان میں کبھی نماز استسقا نہیں پڑھی گئی اور آپ کے بعد کئی دفعہ پڑھی گئی ہے۔
(اس روایت کے متعلق یہ بات قابل نوٹ ہے کہ میرا یہ خیال کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کبھی استسقا کی نماز نہیں پڑھی گئی۔ درست نہیں نکلا۔ دیکھو حصہ دوم روایت نمبر ۴۱۵مگر یہ خیال کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان میں بالعموم زیادہ دنوں تک مسلسل شدت کی گرمی نہیں پڑتی تھی۔ بہر حال درست ہے۔)
{ 71} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ایک عام عادت تھی کہ صبح کے وقت باہر سیر کو تشریف لے جا یا کرتے تھے ۔اور خدّام آپ کے ساتھ ہوتے تھے اور ایک ایک میل دو دو میل چلے جاتے تھے ۔اور آپ کی عادت تھی کہ بہت تیز چلتے تھے مگر بایں ہمہ آپ کی رفتا رمیں پورا پورا وقار ہوتا تھا ۔حضور سیر پر جاتے ہوئے حضرت مولوی صاحب (خلیفہ اوّل) کو بھی ساتھ جانے کے لئے بلالیا کر تے تھے ۔لیکن چونکہ مولوی صاحب بہت آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر چلتے تھے اس لئے تھوڑی دور چل کر حضرت صاحب سے پیچھے رہ جاتے تھے ۔ جب حضور کو پتہ لگتا تھا تو مولوی صاحب کے انتظار کے لئے تھوڑی دیر سڑک پر ٹھہر جاتے تھے مگر مولوی صاحب پھر تھوڑی دور چل کر آپ سے پیچھے رہ جاتے تھے اور دو چار آدمی مولوی صاحب کے ساتھ ساتھ ہو جاتے تھے اور میںنے دیکھا ہے کہ حضرت صاحب سیر پر جاتے وقت نواب محمد علی خان صاحب کوبھی ساتھ لے جایا کرتے تھے اور کئی دفعہ آپ اپنے گھر سے باہر نکل کر چوک میں اپنے خدام کے ساتھ نواب صاحب کا انتظار کیا کرتے تھے اور بعض اوقات نواب صاحب کو آنے میں دیر ہوجاتی تھی تو آپ کئی کئی منٹ ان کے دروازہ کے سامنے چوک میں کھڑے رہتے تھے اور پھر ان کو ساتھ لے کر جاتے تھے اور سیر میں حضور کی اپنے خدام کے ساتھ گفتگو ہوا کرتی تھی اور حضور تقریر فرماتے جاتے تھے اور اخبار والے اپنے طور پر نوٹ کر تے جاتے تھے ۔
حضرت مسیح موعود ؑ عموماً سیر کے لئے بسراواں کے راستہ یا بوٹر کے راستہ پر جایا کرتے تھے ۔بعض اوقات اپنے باغ کی طرف بھی چلے جاتے تھے اور شہتوت بیدانہ وغیرہ تڑوا کر خدام کے سامنے رکھوا دیتے تھے ۔اور خود بھی کھاتے تھے ۔سیر میں جب ایسا ہوتا کہ کسی شخص کا قدم بے احتیاطی سے حضور کے عصاپر پڑجاتا اور وہ آپ کے ہاتھ سے گر جاتا تو حضور کبھی منہ موڑ کر نہیںدیکھتے تھے کہ کس سے گر اہے اور بعض اوقات جب جلسوںوغیرہ کے موقعہ پر سیر میں کثرت کے ساتھ لوگ حضور کے ساتھ ہو جاتے تھے تو بعض خدام خود بخود ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر حضور کے تین طرف ایک چکر سابنا لیتے تھے تاکہ حضور کو تکلیف نہ ہو ۔مگر آخری جلسہ میں جو حضور کی زندگی میںہوا جب حضور بوٹر (شمال ) کی طرف سیر کے لئے نکلے توا س کثرت کے ساتھ لوگ حضور کے ساتھ ہوگئے کہ چلنا مشکل ہو گیا لہٰذا حضور تھوڑی دور جاکر واپس آگئے ۔خاکسار کو یاد ہے کہ حضور ایک دفعہ بسراواں (مشرق ) کے راستہ پر سیر کر کے واپس تشریف لا رہے تھے کہ راستہ میں قادیان سے جاتے ہوئے مرزا نظام الدین ملے جو حضور کے چچا زاد بھائی تھے مگر سخت مخالف تھے ۔وہ اس وقت گھوڑے پر سوار تھے حضور کوآتا دیکھ کر وہ گھوڑے سے اُترآئے اور راستہ سے ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔جب آپ پاس سے گذرے تو انہوں نے ادب کے ساتھ جھک کر سلام کیا ۔ خاکسار عرض کرتاہے کہ حضور کو جب کوئی شخص ہاتھ اُٹھا کر پاس سے گذرتا ہوا سلام کرتا تھا تو حضور بھی اس کے جواب میں ہاتھ اٹھاتے تھے ۔
{ 72} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درمیانہ قد تھا ۔رنگ گندمی تھا چہرہ بھاری تھا ،بال سیدھے اور ملائم تھے ۔ہاتھ پائوںبھرے بھرے تھے ۔آخری عمر میں بدن کچھ بھاری ہو گیا تھا ۔آپ کے رنگ ڈھنگ اور خط و خال میں ایک خداداد رعب تھامگر آپ سے ملنے والوں کے دل آپ کے متعلق محبت سے بھر جاتے تھے اور کوئی مخفی طاقت لوگوں کو آپ کی طرف کھینچتی تھی ۔ سینکڑوںلوگ مخالفت کے جذبات لے کر آئے اور آپ کا چہرہ دیکھتے ہی رام ہو گئے ۔اور کوئی دلیل نہیںپوچھی ۔رعب کا یہ حال تھا کہ کئی شقی بد ارادوں کے ساتھ آپ کے سامنے آتے تھے مگر آپ کے سامنے آکر دم مارنے کی طاقت نہ ملتی تھی ۔
{ 73} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی سیّد محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مردان کا کوئی آدمی میاں محمد یوسف صاحب مردانی کے ساتھ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کے علاج کے واسطے یہاں قادیان آیا۔یہ شخص سلسلہ کا سخت دشمن تھا اور بصد مشکل قادیان آنے پر رضامند ہوا تھا مگر اس نے میاں محمد یوسف صاحب سے یہ شرط کر لی تھی کہ قادیان میں مجھے احمدیوں کے محلہ سے باہر کوئی مکان لے دینا اور میںکبھی اس محلہ میں داخل نہیں ہو ں گا ۔خیر وہ آیا اور احمدی محلہ سے باہر ٹھہر ا اور حضرت مولوی صاحب کا علاج ہوتا رہا ۔جب کچھ دنوں کے بعد اسے کچھ افاقہ ہوا تو وہ واپس جانے لگا ۔میا ں محمد یوسف صاحب نے اس سے کہا کہ تم قادیان آئے اور اب جاتے ہو ہماری مسجد تو دیکھتے جائو۔اس نے انکار کیا ،میاں صاحب نے اصرار سے اسے منایا تواس نے اس شرط پر مانا کہ ایسے وقت میں مجھے وہاں لے جائو کہ وہاں کوئی احمدی نہ ہوا ور نہ مرزا صاحب ہوں ۔چنانچہ میاں محمدیوسف صاحب ایسا وقت دیکھ کر اسے مسجد مبارک میں لائے مگر قدرت خدا کہ اِدھر اس نے مسجد میںقدم رکھا اور اُدھر حضرت مسیح موعود کے مکان کی کھڑکی کھلی اور حضور کسی کام کے لئے مسجد میںتشریف لے آئے ۔ اس شخص کی نظر حضور کی طرف اُٹھی اور وہ بیتا ب ہو کر حضور کے سامنے آگرا اوراسی وقت بیعت کر لی ۔
{ 74} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں فخر الدین صاحب ملتانی نے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں ایک دفعہ میرے والد یہاں آئے اور وہ سخت مخالف اور بد گو تھے اور یہاں آکر بھی بڑی تیزی کی باتیں کرتے رہے اور وہ جب ملتان میں تھے تو کہتے تھے کہ میں اگر کبھی مرزا سے ملا تو (نعوذ باللہ ) اسکے منہ پر بھی لعنتیں ڈالوںگا یعنی سامنے بھی یہی کہو ں گا جو یہاں کہتاہوں۔ خیر میں انہیں حضرت صاحب کے پاس لے گیا ،حضور جب باہر تشریف لائے تو وہ ادب سے کھڑے ہوگئے اور پھر خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئے ۔اس وقت مجلس میں اور لوگ بھی تھے ۔حضور نے بیٹھے بیٹھے تقریر فرمانی شروع کی اور کئی دفعہ کہا کہ ہم توچاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے پاس آئیں اور ہماری باتیں سنیں اور ہم سے سوال کریں اور ہم ان کے واسطے خرچ کرنے کو بھی تیار ہیں لیکن اول تو لوگ آتے نہیں اور اگر آتے ہیں تو خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور پھر پیچھے جا کر باتیں کرتے ہیں ۔غرض حضور نے کھول کھول کر تقریر کی اور تبلیغ فرمائی اور انہیں بات کرنے پر کئی دفعہ ابھارا ۔میرا والد بڑا چرب زبان ہے مگر ان کے منہ پر گویا مہر لگ گئی اور وہ ایک لفظ بھی نہیں بول سکے ۔وہاں سے اُٹھ کر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ وہاں بولے کیوں نہیں؟ انہوں نے کچھ کہہ کر ٹال دیا ۔ میاں فخر الدین صاحب کہتے تھے کہ حضرت صاحب نے اس تقریر میں میرے والدکو مخاطب نہیں کیا تھا بلکہ عام تقریر فرمائی تھی ۔
{ 75} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا حضرت امیر المومنین خلیفہ ثانی نے کہ ایک دفعہ ایک ہندو جو گجرات کا رہنے والا تھاقادیان کسی بارات کے ساتھ آیا ۔یہ شخص علم توجہ کا بڑا ماہر تھا چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم لوگ قادیان آئے ہوئے ہیں چلو مرزا صاحب سے ملنے چلیں اور اس کا منشاء یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے حضرت صاحب پر اپنی توجہ کا اثر ڈال کر آپ سے بھری مجلس میں کو ئی بیہودہ حرکات کرائے۔ جب وہ مسجد میں حضور سے ملا تو اس نے اپنے علم سے آپ پر اپنا اثر ڈالنا شروع کیا مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ یکلخت کانپ اُٹھا مگر سنبھل کر بیٹھ گیا اور اپنا کا م پھر شروع کردیا اور حضرت صاحب اپنی گفتگو میں لگے رہے مگر پھر اس کے بدن پر ایک سخت لرزہ آیا اور اس کی زبان سے بھی کچھ خوف کی آواز نکلی مگر وہ پھر سنبھل گیا ۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد اس نے ایک چیخ ماری اور بے تحاشا مسجد سے بھاگ نکلا اور بغیر جو تا پہنے نیچے بھاگتا ہوا اتر گیا ۔اس کے ساتھی اور دوسرے لوگ اس کے پیچھے بھاگے اور اس کو پکڑ کر سنبھالا ۔جب اس کے ہوش ٹھکا نے ہوئے تو اس نے بیان کیا کہ میں علم توجہ کا بڑا ماہر ہوں میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ مرزا صاحب پر اپنی توجہ ڈالوں اور مجلس میںان سے کوئی لغو حرکات کرا دوں لیکن جب میںنے توجہ ڈالی تو میں نے دیکھا کہ میرے سامنے مگر ایک فاصلہ پر ایک شیر بیٹھاہے میں اسے دیکھ کر کانپ گیا لیکن میں نے جی میں ہی اپنے آپ کو ملامت کی کہ یہ میرا وہم ہے ۔چنانچہ میں نے پھر مرزا صاحب پر توجہ ڈالنی شروع کی تو میں نے دیکھا کہ پھر وہی شیر میرے سامنے ہے اور میرے قریب آگیا ہے اس پر پھر میرے بدن پر سخت لرزہ آیا مگر میں پھر سنبھل گیا اور میں نے جی میں اپنے آپ کو بہت ملامت کی کہ یونہی میرے دل میںوہم سے خوف پیدا ہوگیا ہے چنانچہ میں نے اپنا دل مضبوط کر کے اور اپنی طاقت کو جمع کر کے پھر مرزا صاحب پر اپنی توجہ کااثر ڈالا اور پورا زور لگا یا۔ اس پر نا گہاں میں نے دیکھاکہ وہی شیر میرے اوپر کود کر حملہ آور ہوا ہے اس وقت میںنے بے خود ہو کر چیخ ماری اور وہاں سے بھاگ اُٹھا ۔حضرت خلیفہ ثانی بیان فرماتے تھے کہ وہ شخص پھر حضرت صاحب کا بہت معتقد ہوگیا تھا اور ہمیشہ جب تک زندہ رہا آپ سے خط و کتابت رکھتا تھا ۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
{ 76} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ منشی محمد اروڑا صاحب مرحوم کپورتھلوی حضرت مسیح موعود ؑ کے ذکر پر کہا کر تے تھے کہ ہم تو آپ کے منہ کے بھوکے تھے ۔بیمار بھی ہوتے تھے تو آپ کا چہرہ دیکھنے سے اچھے ہو جاتے تھے ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ منشی صاحب مرحوم پرانے مخلصوںمیں سے تھے اور عشاق مسیح موعود ؑ میں ان کا نمبر صف اوّل میں شمار ہونا چاہئیے ۔
{ 77} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیاحضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّل نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کسی سفر میں تھے ۔ سٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دیر تھی۔ آپ بیوی صاحبہ کے ساتھ سٹیشن کے پلیٹ فارم پرٹہلنے لگے۔یہ دیکھ کر مولوی عبدالکریم صاحب جن کی طبیعت غیور اور جوشیلی تھی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اور پھرغیر لوگ ادھر ادھر پھرتے ہیں آپ حضرت صاحب سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جاوے ۔مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہا میں تو نہیں کہتا آپ کہہ کر دیکھ لیں ۔ناچار مولوی عبدالکریم صاحب خود حضرت صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حضور لوگ بہت ہیں بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں۔حضرت صاحب نے فرمایا جائو جی میں ایسے پردہ کا قائل نہیں ہوں ۔مولوی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب سر نیچے ڈالے میری طرف آئے میں نے کہا مولوی صاحب ! جواب لے آئے ؟۔
{ 78} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جن دنوں میں ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمار تھا ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّل کو اس کے دیکھنے کے لئے گھر میںبلایااس وقت آپ صحن میں ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھے اور صحن میں کوئی فرش وغیرہ نہیں تھا ۔ مولوی صاحب آتے ہی آپ کی چارپائی کے پاس زمین پر بیٹھ گئے ۔حضرت صاحب نے فرمایا مولوی صاحب چار پائی پر بیٹھیں ۔مولوی صاحب نے عرض کیا حضورمیں بیٹھا ہوں اور کچھ اونچے ہو گئے اور ہاتھ چارپائی پر رکھ لیا ۔مگر حضرت صاحب نے دوبارہ کہا تو مولوی صاحب اُٹھ کر چارپائی کے ایک کنارہ پر پائنتی کے اوپر بیٹھ گئے ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ حضرت مولوی صاحب میں اطاعت اور ادب کا مادہ کمال درجہ پر تھا۔
{ 79} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جماعت احمدیہ کپورتھلہ اور غیر احمدیوں کا وہاں کی مسجد کے متعلق ایک مقدمہ ہوگیا ۔جس جج کے پاس یہ مقدمہ گیا وہ خود غیر احمدی تھا اور مخالف تھا ۔اس نے اس مقدمہ میں خلاف پہلو اختیار کرنا شروع کیا ۔ اس حالت میں جماعت کپور تھلہ نے گھبراکر حضرت مسیح موعود کو خطوط لکھے اور دعا کے لئے درخواست کی ۔ حضرت صاحب نے ان کو جواب لکھا کہ اگر میں سچا ہوں تو مسجد تم کو مل جائے گی ۔مگر جج نے بدستور مخالفانہ روش قائم رکھی ۔ آخر اس نے احمدیوں کے خلاف فیصلہ لکھا ۔ جس دن اس نے فیصلہ سنانا تھا اس دن وہ صبح کے وقت کپڑے پہن کر اپنی کوٹھی کے برآمدہ میں نکلا اور اپنے نوکر کو کہا کہ بوٹ پہنائے اور آپ ایک کرسی پر بیٹھ گیا ۔نوکر نے بوٹ پہنا کر فیتہ باندھنا شروع کیا کہ یکلخت اسے کھٹ کی سی آواز آئی اس نے اوپر نظر اُٹھائی تو دیکھا کہ اس کا آقا بے سہارا ہو کر کرسی پر اوندھا پڑا تھا۔اس نے ہاتھ لگایا تو معلوم ہو امرا ہو ا ہے گویا یکلخت دل کی حرکت بند ہوکر اس کی جان نکل گئی ۔اس کا قائم مقام ایک ہندو مقرر ہو اجس نے اس کے لکھے ہوئے فیصلہ کو کاٹ کر احمدیوں کے حق میں فیصلہ کر دیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے مولوی محمداسماعیل صاحب مولوی فاضل نے ذکر کیا کہ میں ایک دفعہ کپور تھلہ گیا تھا تو وہاں دیکھا کہ وہاں کی جماعت نے حضرت مسیح موعود ؑکی یہ عبارت کہ ’’ اگر میں سچاہوں تو مسجد تم کو مل جائے گی ‘‘۔خوبصورت موٹی لکھوا کراسی مسجد میں نصب کرائی ہو ئی ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ کپورتھلہ کی جماعت بہت پرانی جماعت ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ کے دیرینہ مخلصین میں سے ہے ۔میں نے سنا ہوا ہے کہ ان کے پاس حضرت مسیح موعود ؑ کی ایک تحریر ہے جس میں لکھا ہے کہ میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح کپورتھلہ کی جماعت نے دنیامیں میرا ساتھ دیا ہے اسی طرح جنت میںبھی میرے ساتھ ہو گی ۔
{ 80} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔اے نے کہ میرا دادا جسے لوگ عام طور پر خلیفہ کہتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سخت مخالف تھا اور آپ کے حق میں بہت بدزبانی کیا کرتا تھا اور والد صاحب کو بہت تنگ کیا کرتا تھا۔ والد صاحب نے اس سے تنگ آکر حضرت مسیح موعود ؑ کو دعا کے لئے خط لکھا ۔ حضرت مسیح موعودؑ کا جواب گیا کہ ہم نے دعا کی ہے۔ والد صاحب نے یہ خط تمام محلہ والوں کو دکھا دیا اور کہا کہ حضرت صاحب نے دعا کی ہے اب دیکھ لینا خلیفہ گالیاں نہیں دے گا۔دوسرے تیسرے دن جمعہ تھا ۔ ہمارا دادا حسب دستور غیر احمدیوںکے ساتھ جمعہ پڑھنے گیا مگر وہاں سے واپس آکر غیرمعمولی طور پر حضرت مسیح موعودؑکے متعلق خاموش رہا حالانکہ اس کی عاد ت تھی کہ جمعہ کی نماز پڑھ کرگھر آنے کے بعد خصوصاً بہت گالیاںدیا کرتاتھا ۔ لوگوںنے اس سے پوچھا کہ تم آج مرزا صاحب کے متعلق خاموش کیوں ہو ؟ اس نے کہا کسی کے متعلق بدزبانی کرنے سے کیاحاصل ہے اور مولوی نے بھی آج جمعہ میں وعظ کیاہے کہ کوئی شخص اپنی جگہ کیسا ہی برا ہو ہمیںبد زبانی نہیںکرنی چاہئیے ۔لوگوںنے کہا اچھایہ بات ہے ؟ ہمیشہ تو تم گالیاں دیتے تھے اور آج تمہارا یہ خیال ہوگیا ہے ! بلکہ اصل میں بات یہ ہے کہ بابو( میرے والد کو لوگ بابو کہا کرتے تھے ) کل ہی ایک خط دکھا رہا تھا کہ قادیان سے آیا ہے اور کہتاتھا کہ اب خلیفہ گالی نہیں دے گا ۔مولوی رحیم بخش صاحب کہتے تھے کہ اس کے بعد باوجود کئی دفعہ مخالفوں کے بھڑکانے کے میرے دادا نے کبھی حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق بد زبانی نہیںکی اور کبھی میرے والد صاحب کو احمدیت کی وجہ سے تنگ نہیں کیا۔
(اس روایت کے متعلق یہ بات قابل نوٹ ہے کہ اس کے راوی صاحب نے اب حضرت خلیفۃ المسیح کے منشاء کے ماتحت اپنا نام عبدالرحیم رکھ لیا ہے اور عموماً مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں۔)
{ 81} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود ؑ کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا ۔ دوسرا رمضان آیا تو آپ نے روزے رکھنے شروع کئے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ ہو ا اس لئے باقی چھوڑ دیئے اور فدیہ ادا کر دیا ۔اس کے بعد جو رمضان آیا تواس میںآپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کر دیا ۔اسکے بعد جو رمضان آیا تو آپ کا تیرہواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اورباقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا ۔اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادافرماتے رہے ۔خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتداء دوروں کے زمانہ میں روزے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضاء کیا ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں صرف فدیہ ادا کر دیا تھا ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعو د ؑ کو دوران سر او ر برد ا طراف کے دورے پڑنے شروع ہوئے تو اس زمانہ میں آپ بہت کمزور ہو گئے تھے اور صحت خراب رہتی تھی اس لئے جب آپ روزے چھوڑتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پھر دوسرے رمضان تک ان کے پورا کر نے کی طاقت نہ پاتے تھے مگر جب اگلا رمضان آتا تو پھر شوق عبادت میں روزے رکھنے شروع فرمادیتے تھے لیکن پھر دورہ پڑتا تھا تو ترک کر دیتے تھے اور بقیہ کا فدیہ اد اکر دیتے تھے ۔واللّٰہ اعلم ۔
{ 82} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود ؑاوائل میںغرارے استعمال فرمایا کرتے تھے پھر میںنے کہہ کر وہ ترک کروا دئے ۔اس کے بعد آپ معمولی پاجامے استعمال کرنے لگ گئے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ غرارہ بہت کھلے پائنچے کے پائجامے کو کہتے ہیں ۔ (پہلے اس کا ہندوستان میں بہت رواج تھا اب بہت کم ہوگیا ہے۔)
{ 83} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ عام طور پر سفید ململ کی پگڑی استعمال فرماتے تھے جو عمومًا دس گز لمبی ہو تی تھی ۔پگڑی کے نیچے کلاہ کی جگہ نرم قسم کی رومی ٹوپی استعمال کرتے تھے۔اور گھر میں بعض اوقات پگڑی اتار کر سر پر صرف ٹوپی ہی رہنے دیتے تھے ۔بدن پر گرمیوںمیں عمومًا ململ کا کرتہ استعمال فرماتے تھے ۔اس کے اوپر گرم صدری اور گرم کوٹ پہنتے تھے ۔ پاجامہ بھی آپ کا گرم ہوتا تھا ۔نیز آپ عمومًا جراب بھی پہنے رہتے تھے بلکہ سردیوںمیںدو دو جوڑے اوپر تلے پہن لیتے تھے ۔پائوں میںآپ ہمیشہ دیسی جوتا پہنتے تھے ۔ نیز بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب سے حضرت مسیح موعو دؑ کو دورے پڑنے شروع ہوئے اس وقت سے آپ نے سردی گرمی میں گرم کپڑے کا استعمال شروع فرمادیا تھا ۔ان کپڑوں میںآپ کو گرمی بھی لگتی تھی اور بعض اوقات تکلیف بھی ہوتی تھی مگر جب ایک دفعہ شروع کر دیئے تو پھر آخر تک یہی استعمال فرماتے رہے ۔اور جب سے شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی ثم لاہوری احمدی ہوئے وہ آپ کے لئے کپڑوںکے جوڑے بنوا کر باقاعدہ لاتے تھے اور حضرت صاحب کی عادت تھی کہ جیسا کپڑا کوئی لے آئے پہن لیتے تھے ۔ایک دفعہ کوئی شخص آپ کے لئے گر گابی لے آیا ۔آپ نے پہن لی مگر اس کے الٹے سیدھے پائوں کا آپ کو پتہ نہیںلگتا تھا کئی دفعہ الٹی پہن لیتے تھے اور پھر تکلیف ہوتی تھی بعض دفعہ آ پ کا اُلٹاپائوںپڑ جاتا تو تنگ ہوکر فرماتے ان کی کوئی چیز بھی اچھی نہیں ہے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میںنے آپ کی سہولت کے واسطے الٹے سیدھے پائوں کی شناخت کیلئے نشان لگا دیئے تھے مگر باوجود اس کے آپ اُلٹا سیدھا پہن لیتے تھے اس لئے آپ نے اسے اتاردیا ۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب نے بعض اوقات انگریزی طرز کی قمیص کے کفوںکے متعلق بھی اسی قسم کے ناپسندیدگی کے الفاظ فرمائے تھے ۔ خاکسارعرض کرتاہے کہ شیخ صاحب موصوف آپ کے لئے انگریزی طرز کی گرم قمیص بنوا کر لایا کرتے تھے ۔آپ انہیںاستعما ل تو فرماتے تھے مگر انگریزی طرز کی کفوں کو پسند نہیںفرماتے تھے ۔کیونکہ اول تو کفوںکے بٹن لگانے سے آپ گھبراتے تھے دوسرے بٹنوںکے کھولنے اور بند کرنے کا التزام آپ کے لئے مشکل تھا۔بعض اوقات فرماتے تھے کہ یہ کیا کان سے لٹکے رہتے ہیں۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ لباس کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑکا عام اصول یہ تھا کہ جس قسم کا کپڑا مل جاتا تھا پہن لیتے تھے ۔مگر عمومًا انگریزی طریق لباس کو پسند نہیں فرماتے تھے کیونکہ اول تو اسے اپنے لئے سادگی کے خلاف سمجھتے تھے دوسرے آپ ایسے لباس سے جو اعضاء کو جکڑا ہوا رکھے بہت گھبراتے تھے۔گھر میں آپ کے لئے صرف ململ کے کُرتے اور پگڑیاں تیار ہوتی تھیں۔باقی سب کپڑے عمومًا ہدیۃً آپ کو آجاتے تھے ۔شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری اس خدمت میں خاص امتیاز رکھتے تھے ۔ خاکسار عرض کرتاہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ بعض اوقات کمر پر پٹکا بھی استعمال فرماتے تھے اور جب کبھی گھر سے باہر تشریف لے جاتے تھے تو کوٹ ضرور پہن کر آتے تھے۔اور ہاتھ میںعصارکھنا بھی آپ کی سنت ہے ۔والدہ صاحبہ بیان کر تی ہیں کہ میں حضرت صاحب کے واسطے ہر سال نصف تھان کے کُرتے تیار کیا کرتی تھی لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئی تھی میں نے پورے تھا ن کے کُرتے تیار کئے ۔حضرت صاحب نے مجھے کہا بھی کہ اتنے کُرتے کیا کر نے ہیں مگر میں نے تیار کر لئے ان میں سے اب تک بہت سے کُرتے بے پہنے میرے پاس رکھے ہیں ۔
{ 84} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیا ن کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن خوشبو لگا تے اور کپڑے بدلتے تھے ۔
{ 85} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود ؑ جب کبھی مغرب کی نماز گھر میں پڑھا تے تھے تو اکثر سورہ یوسف کی وہ آیات پڑھتے تھے جس میں یہ الفاظ آتے ہیں اِنَّمَا اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْ اِلَی اللّٰہِ ـ (یوسف:۸۷)خاکسارعرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی آواز میںبہت سوز اور درد تھا ۔ اور آپ کی قراء ت لہر دار ہوتی تھی ۔
{ 86} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ میں نے کبھی حضرت مسیح موعودؑ کو اعتکاف بیٹھتے نہیں دیکھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بھی مجھ سے یہی بیان کیا ہے ۔
{ 87} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا ہم سے سید فضل شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہاں مسجد مبارک میں تشریف رکھتے تھے ۔میں پاس بیٹھا تھا ۔بھائی عبدا للہ صاحب سنوری بھی پاس تھے اور بعض اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔حضرت صاحب سب کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے ۔مگر جب بھائی عبداللہ صاحب بولتے تھے تو حضرت صاحب دوسروںکی طرف سے توجہ ہٹا کر ان کی طرف توجہ کرلیتے تھے ۔مجھے اس کا ملال ہوا اور میں نے ان پر رشک کیا ۔حضرت صاحب میرے اس خیال کو سمجھ گئے اور میری طرف مخاطب ہو کر فرمانے لگے شاہ صاحب آپ جانتے ہیں یہ کون ہیں ؟ میں نے عرض کیاہاں حضرت میں بھائی عبداللہ صاحب کو جانتا ہوں ۔آپ نے فرمایا ہمارا یہ مذہب ہے کہ ’’قدیمان خود را بیفزائے قدر‘‘ یہ آپ سے بھی قدیم ہیں ۔سید فضل شاہ صاحب کہتے تھے کہ اس دن سے میں نے سمجھ لیا کہ ہمارا ان سے مقابلہ نہیں یہ ہم سے آگے ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جس وقت سید فضل شاہ صاحب نے یہ روایت بیان کی اس وقت میاں عبداللہ صاحب سنوری بھی پاس بیٹھے تھے اورمیں نے دیکھا کہ ان کی آنکھیںپر نم تھیں ۔
{ 88} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب نے ۱۸۸۴ء میں ارادہ فرمایا تھا کہ قادیان سے باہر جاکر کہیں چِلّہ کشی فرمائیں گے اور ہندوستان کی سیر بھی کریں گے ۔ چنانچہ آپ نے ارادہ فرمایا کہ سو جان پور ضلع گورداسپور میں جاکر خلوت میں رہیں اور اس کے متعلق حضور نے ایک اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا پوسٹ کارڈبھی مجھے روانہ فرمایا ۔میں نے عرض کیا کہ مجھے بھی اس سفر اور ہندوستان کے سفر میں حضور ساتھ رکھیں ۔حضور نے منظور فرما لیا ۔مگر پھر حضور کو سفر سو جان پور کے متعلق الہام ہوا کہ تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی۔ چنانچہ آپ نے سوجان پور جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور ہوشیار پور جانے کا ارادہ کر لیا۔جب آپ ماہ جنوری ۱۸۸۶ء میں ہوشیار پور جانے لگے تو مجھے خط لکھ کر حضور نے قادیان بلا لیا اور شیخ مہر علی رئیس ہوشیار پور کو خط لکھا کہ میں دو ماہ کے واسطے ہوشیا رپور آنا چاہتا ہوں کسی ایسے مکان کا انتظام کر دیںجو شہر کے ایک کنارے پر ہو اور اس میں بالا خانہ بھی ہو ۔شیخ مہر علی نے اپنا ایک مکان جو طویلہ کے نا م سے مشہور تھا خالی کروا دیا ۔حضور بہلی میں بیٹھ کر دریا بیاس کے راستہ تشریف لے گئے ۔ میں اور شیخ حامد علی اور فتح خان ساتھ تھے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ فتح خاں رسول پور متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا تھا اور حضور کا بڑا معتقد تھامگر بعد میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے اثر کے نیچے مرتد ہوگیا ۔حضورجب دریا پر پہنچے تو چونکہ کشتی تک پہنچنے کے رستہ میںکچھ پانی تھا اس لئے ملاح نے حضور کو اُٹھا کر کشتی میں بٹھا یا جس پر حضور نے اسے ایک روپیہ انعام دیا ۔دریا میں جب کشتی چل رہی تھی حضور نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میاں عبداللہ کامل کی صحبت اس سفر دریا کی طرح ہے جس میں پار ہونے کی بھی امید ہے اور غرق ہو نے کا بھی اندیشہ ہے ۔میں نے حضور کی یہ بات سرسری طور پرسنی مگر جب فتح خان مرتد ہوا تو مجھے حضرت کی یہ بات یاد آئی ۔خیر ہم راستہ میں فتح خان کے گائوں میں قیام کرتے ہوئے دوسرے دن ہوشیار پور پہنچے ۔وہاں جاتے ہی حضرت صاحب نے طویلہ کے بالاخانہ میں قیام فرمایا اور اس غرض سے کہ ہمارا آپس میں کو ئی جھگڑا نہ ہو ہم تینوں کے الگ الگ کام مقرر فرمادیئے ۔چنانچہ میرے سپرد کھانا پکانے کا کام ہوا ۔فتح خان کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ بازار سے سودا وغیرہ لایا کرے ۔شیخ حامد علی کا یہ کام مقرر ہوا کہ گھر کا بالائی کام اور آنے جانے والے کی مہمان نوازی کرے ۔اس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ نے بذریعہ دستی اشتہارات اعلان کر دیا کہ چالیس دن تک مجھے کوئی صاحب ملنے نہ آویں اور نہ کوئی صاحب مجھے دعوت کے لئے بلائیں ۔ان چالیس دن کے گذرنے کے بعد میں یہاں بیس دن اور ٹھہروں گا ۔ان بیس دنوں میں ملنے والے ملیں۔ دعوت کا ارادہ رکھنے والے دعوت کر سکتے ہیں اور سوال و جواب کر نے والے سوال جواب کر لیں ۔ اور حضرت صاحب نے ہم کو بھی حکم دے دیا کہ ڈیوڑھی کے اند ر کی زنجیر ہر وقت لگی رہے اور گھر میں بھی کوئی شخص مجھے نہ بلائے ۔میں اگر کسی کوبلائوں تو وہ اسی حد تک میری بات کا جواب دے جس حد تک کہ ضروری ہے اور نہ اوپر بالا خانہ میں کوئی میرے پاس آوے ۔ میرا کھانا اوپر پہنچا دیا جاوے مگر اس کا انتظا ر نہ کیا جاوے کہ میں کھانا کھالوں ۔خالی برتن پھر دوسرے وقت لے جا یا کریں ۔نماز میں اوپر الگ پڑھا کروں گا تم نیچے پڑھ لیا کرو ۔جمعہ کے لئے حضرت صاحب نے فرمایا کہ کوئی ویران سی مسجد تلاش کرو جو شہر کے ایک طرف ہو جہاں ہم علیحدگی میںنماز ادا کر سکیں ۔چنانچہ شہر کے باہر ایک باغ تھا اس میں ایک چھوٹی سی ویران مسجد تھی وہاں جمعہ کے دن حضور تشریف لے جایا کرتے تھے اور ہم کو نمازپڑھاتے تھے اور خطبہ بھی خود پڑھتے تھے ۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ میں کھانا چھوڑ نے اوپر جایا کرتا تھا اور حضور سے کوئی بات نہیںکرتا تھا مگر کبھی حضور مجھ سے خود کوئی بات کرتے تھے تو جواب دے دیتا تھا ۔ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا۔ میاں عبداللہ !ان دنوںمیں مجھ پر بڑے بڑے خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلے ہیں اور بعض اوقات دیر دیر تک خدا تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے ۔اگر ان کو لکھا جاوے تو کئی ورق ہوجاویں ۔ چنانچہ میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیںکہ پسر موعود کے متعلق الہامات بھی اسی چلّہ میں ہوئے تھے اور بعد چلّہ کے ہوشیار پور سے ہی آپ نے اس پیشگوئی کا اعلان فرمایا تھا (خاکسار عرض کرتا ہے ملاحظہ ہو اشتہار ۲۰فروری ۱۸۸۶ء ) جب چالیس دن گذر گئے تو پھر آپ حسب اعلان بیس دن اور وہاں ٹھہرے ۔ان دنوںمیں کئی لوگوں نے دعوتیں کیں اور کئی لوگ مذہبی تبادلہ خیالات کے لئے آئے اور باہر سے حضور کے پرانے ملنے والے لوگ بھی مہمان آئے۔ انہی دنوںمیں مرلی دھر سے آپ کا مباحثہ ہوا جو سرمہ چشم آریہ میںدرج ہے ۔جب دو مہینے کی مدت پوری ہوگئی تو حضرت صاحب واپس اسی راستہ سے قادیان روانہ ہوئے ۔ہوشیار پور سے پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ایک بزرگ کی قبر ہے جہاں کچھ باغیچہ سالگا ہوا تھا ۔وہاں پہنچ کر حضور تھوڑی دیر کیلئے بہلی سے اُتر آئے اور فرمایا یہ عمدہ سایہ دار جگہ ہے یہاں تھوڑی دیر ٹھہر جاتے ہیں۔اس کے بعد حضور قبر کی طرف تشریف لے گئے میں بھی پیچھے پیچھے ساتھ ہوگیا اور شیخ حامد علی اور فتح خان بہلی کے پاس رہے ۔آپ مقبرہ پر پہنچ کر اس کا دروازہ کھول کر اندر گئے اور قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور تھوڑی دیر تک دعا فرماتے رہے پھر واپس آئے اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’جب میںنے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو جس بزرگ کی یہ قبر ہے وہ قبر سے نکل کر دوزانو ہو کر میرے سامنے بیٹھ گئے اور اگر آپ ساتھ نہ ہو تے تو میں ان سے باتیںبھی کرلیتا۔ان کی آنکھیں موٹی موٹی ہیں اور رنگ سانولا ہے‘‘ پھر کہا کہ دیکھو اگر یہاں کوئی مجاور ہے تواس سے ان کے حالات پوچھیں ۔چنانچہ حضور نے مجاور سے دریافت کیا ۔اس نے کہا میں نے ان کو خود تو نہیں دیکھا کیونکہ ان کی وفات کو قریباً ایک سو سال گذر گیا ہے۔ہاں اپنے باپ یا داداسے سنا ہے کہ یہ اس علاقہ کے بڑے بزرگ تھے اور اس علاقہ میں ان کا بہت اثر تھا ۔ حضور نے پوچھا ان کا حلیہ کیا تھا ؟ وہ کہنے لگاکہ سنا ہے سانولہ رنگ تھا اور موٹی موٹی آنکھیں تھیں ۔پھر ہم وہاں سے روانہ ہو کر قادیان پہنچ گئے ۔خاکسار نے میاں عبداللہ صاحب سے دریافت کیا کہ حضرت صاحب اس خلوت کے زمانہ میں کیا کرتے تھے اورکس طرح عبادت کرتے تھے ؟ میاں عبداللہ صاحب نے جواب دیا کہ یہ ہم کو معلوم نہیں کیونکہ آپ اوپر بالا خانہ میں رہتے تھے اور ہم کو اوپر جانے کا حکم نہیں تھا ۔ کھانے وغیرہ کے لئے جب ہم اوپر جاتے تھے تو اجازت لے کر جاتے تھے ۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دن جب میں کھانا رکھنے اوپر گیا تو حضور نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ بُوْرِکَ مَنْ فِیْھَا وَمَنْ حَوْلَھَا اورحضور نے تشریح فرمائی کہ مَنْ فِیْھَا سے میں مراد ہوں اور مَنْ حَوْلَھَا سے تم لوگ مراد ہو ۔میاں عبداللہ صاحب بیان کر تے تھے کہ میںتو سارا دن گھر میں رہتا تھا صرف جمعہ کے دن حضور کے ساتھ ہی باہر جاتا تھا اور شیخ حامد علی بھی اکثر گھرمیں رہتا تھا لیکن فتح خان اکثر سارا دن ہی باہر رہتا تھا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اغلب ہے کہ اس الہام کے وقت بھی وہ باہر ہی ہو ۔ میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ فتح خان ان دنوں میں اتنا معتقد تھاکہ ہمارے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کرتا تھا کہ حضرت صاحب کو تو میں نبی سمجھتا ہوں اور میںاس کی اس بات پر پرانے معروف عقیدہ کی بنا پر گھبرا تا تھا ۔ میاں عبداللہ صاحب نے یہ بھی بیان کیا کہ ایک دفعہ میں کھانا چھوڑ نے گیا تو حضورنے فرمایا مجھے خدا اس طرح مخاطب کرتا ہے اور مجھ سے اس طرح کی باتیں کرتا ہے کہ اگر میںان میں سے کچھ تھوڑا سا بھی ظاہر کروںتو یہ جتنے معتقد نظر آتے ہیں سب پھر جاویں ۔
{ 89} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ بیت الفکر میں (مسجد مبارک کے ساتھ والا حجرہ جو حضرت صاحب کے مکان کا حصہ ہے ) لیٹے ہوئے تھے اور میںپائوں دبا رہا تھاکہ حجرہ کی کھڑکی پر لالہ شرم پت یا شاید لالہ ملا وامل نے دستک دی ۔میں اُٹھ کر کھڑکی کھولنے لگا مگر حضرت صاحب نے بڑی جلدی اُٹھ کر تیزی سے جاکر مجھ سے پہلے زنجیر کھول دی اور پھر اپنی جگہ جاکر بیٹھ گئے اور فرمایا آپ ہمارے مہمان ہیں اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہئیے ۔
{ 90} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیا ن کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ بشیراوّل کی پیدائش کے وقت میں قادیان میں تھا ۔قریباً آدھی رات کے وقت حضرت مسیح موعود ؑ مسجد میں تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا میاں عبداللہ اس وقت ہمارے گھر میں دردِ زِہ کی بہت تکلیف ہے ۔آپ یہاں یٰسین پڑھیں اور میں اندر جاکر پڑھتا ہوں اور فرمایا کہ یٰسین کا پڑھنا بیمار کی تکلیف کو کم کرتا ہے چنانچہ نزع کی حالت میں بھی اسی لئے یٰسین پڑھی جاتی ہے کہ مرنے والے کو تکلیف نہ ہو۔اور یٰسین کے ختم ہو نے سے پہلے تکلیف دور ہوجاتی ہے ۔ اس کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے اور میںیٰسین پڑھنے لگ گیا تھوڑی دیر کے بعد جب میں نے ابھی یٰسین ختم نہیں کی تھی آپ مسکراتے ہو ئے پھر مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا ہمارے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے ۔اسکے بعد حضرت صاحب اندر تشریف لے گئے اور میںخوشی کے جوش میں مسجد کے اوپر چڑھ کر بلند آواز سے مبارک باد مبارک باد کہنے لگ گیا۔
 
Top