• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

عجائبات مرزا

عبیداللہ لطیف

رکن ختم نبوت فورم
عجائبات مرزا

1۔ قادیانی فرشتے:۔
(i)۔ ٹیچی ٹیچی:
’’( نشان (147ایک دفعہ مارچ 1905ء کے مہینے میں بوقت قلت آمدنی لنگرخانہ کے مصارف میں بہت دقت ہوئی کیوں کہ کثرت سے مہمانوں کی آمد تھی اوراس کے مقابل پر روپیہ کی آمدنی کم ،اس لیے دعا کی گئی۔ 5مارچ 1905ء کو میں نے دیکھ اکہ ایک شخص جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا میرے سامنے آیا اور بہت سا روپیہ میرے دامن میں ڈال دیا۔ میں نے اس کا نام پوچھا ،اس نے کہا:نام کچھ نہیں ،میں نے کہا آخر کچھ تو نام ہوگا۔ اس نے کہا : میرا نام ہے : ٹیچی ٹیچی۔ ٹیچی ٹیچی پنجابی زبان میں و قت مقررہ کو کہتے ہیں یعنی عین ضرورت کے وقت پر آنے والا۔ تب میری آنکھ کھل گئی۔ بعد اس کے خدا تعالیٰ کی طرف سے کیا ڈاک کے ذریعے سے اور کیا براہ راست لوگوں کے ہاتھوں سے اس قدر مالی فتوحات ہوئیں جن کا وہم و گمان بھی نہ تھا اور کئی ہزار روپیہ آگیا۔‘‘
(حقیقت الوحی صفحہ 346،مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 346)
(ii)۔ خیراتی اور شیر علی:۔
’’من جملہ نشانات کے ،ایک نشان یہ ہے کہ تخمیناً پچیس برس کے قریب عرصہ گزر گیا ہے کہ میں گورداسپورہ میں تھا کہ مجھے خواب آئی کہ میں ایک جگہ چارپائی پر بیٹھا ہوں اور اسی چارپائی پر بائیں طرف میرے مولوی عبداﷲ صاحب مرحوم غزنوی بیٹھے ہیں ،جن کی اولاد اب امرتسر میں رہتی ہے۔اتنے میں میرے دل میں محض خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تحریک پیدا ہوئی کہ مولوی صاحب موصوف کو چارپائی سے نیچے اتاردوں۔ چنانچہ میں نے اپنی جگہ کو چھوڑ کر مولوی صاحب کی جگہ کی طرف رجوع کیا،یعنی جس حصہ چارپائی پر وہ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اس حصے میں میں نے بیٹھنا چاہا تب انھوں نے وہ جگہ چھوڑ دی اور وہاں سے کھسک کر پائنتی کی طرف چندانگلی کے فاصلے پر بیٹھے تب پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس جگہ سے بھی ان کو اٹھا دوں ۔ پھر میں ان کیطرف جھکا تو وہ اس جگہ کو بھی چھوڑ کر چند انگلی کی مقدار پر پیچھے ہٹ گئے۔ پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس جگہ سے بھی ان کو اور زیادہ پائنتی کی طرف کیا جائے ۔ تب پھر وہ چند انگلی پائنتی کی طرف کھسک کر ہو بیٹھے۔ القصہ میں ایسا ہی ان کی طرف کھسکتا گیا اور وہ پائنتی کی طرف کھسکتے گئے۔ یہاں تک کہ ان کو آخر کا ر چار پائی پر سے اترنا پڑا اور وہ زمین پر جو محض خاک تھی اور اس پر چٹائی وغیرہ کچھ بھی نہ تھی اتر کر بیٹھ گئے۔
اتنے میں تین فرشتے آسمان سے آئے ۔ ایک کا نام خیراتی تھا ، وہ بھی ان پر زمین پر بیٹھ گئے اور میں چارپائی پر بیٹھا رہا۔۔۔۔۔۔ اور انہی دنوں میں شاید اس رات سے اول یا اس را ت کے بعد میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جومجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے ،مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام شیرعلی ہے، اس نے مجھے ایک جگہ لٹا کر میری آنکھیں نکال لی ہیں اور صاف کی ہیں۔
(تریاق القلوب صفحہ 224-225 ،مندرجہ روحانی خزائن جلد15صفحہ 352-351)
(iii)۔ آئل:۔
جَآءَ نِیْ آئِلٌ وَاخْتَارَ وَاَدَارَ اِصْبَعَہُ وَاَشَارَ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنَ الْعِدَا وََیَسْطُوْا بِکُلِّ مَنْ سَطَا۔ آئل جبرائیل ہے فرشتہ بشارت دینے والا۔
ترجمہ: آیا میرے پاس آئل اور اس نے اختیار کیا(یعنی چن لیا تجھ کو) اور گھمایا اس نے اپنی انگلی کو اور اشارہ کیا کہ خدا تجھے دشمنوں سے بچاوے گا اور ٹوٹ کر پڑے گا اس شخص پر جو تجھ پر اچھلا۔ فرمایا آئل اصل میں ایالت سے ہے۔ یعنی اصلاح کرنے والا جو مظلوم کوظالم سے بچاتا ہے ۔ یہاں جبرائیل نہیں کہاآئل کہا اس لفظ کی حکمت یہی ہے کہ وہ دلالت کرے کہ مظلوم کو ظالموں سے بچاوے اس لیے فرشتہ کانام ہی آئل رکھ دیا۔ پھر اس نے انگلی ہلائی کہ چاروں طرف کے دشمن اور اشارہ کیا کہ یعصمک اﷲ من العداء وغیرہ۔
یہ بھی اس سے پہلے الہام سے ملتا ہے : اِنَّہُ کَرِیْمٌ تَمَشّٰی اَمَامَک َوَعَادٰیوہ کریم ہے تیرے آگے آگے چلتا ہے جس نے تیری عداوت کی اس نے اس کی عداوت کی ۔ چونکہ آئل کا لفظ لغت میں نہ مل سکتا ہوگا یا زبان میں کم مستعمل ہوتا ہوگا اس لیے الہام نے خود ہی اس کی تفصیل کر دی ہے۔‘‘
(بحوالہ تذکرہ صفحہ369طبع چہارم )
(iv)۔ درشنی:۔
’’ایک فرشتہ کو میں نے 20برس کے نوجوان کی شکل میں دیکھا ، صورت اس کی مثل انگریزوں کے تھی اور میز کرسی لگائے ہوئے بیٹھا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ بہت ہی خوب صورت ہیں۔ اس نے کہا: ہاں میں درشنی آدمی ہوں۔‘‘
(ملفوظات مرزا قادیانی جلد چہارم صفحہ 69)
(v)حفیظ:۔
صوفی نبی بخش صاحب لاہوری نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا:
’’ بڑے مرزا صاحب پر ایک مقدمہ تھا۔ میں نے دعا کی تو ایک فرشتہ مجھے خواب میں ملا جو چھوٹے لڑکے کی شکل میں تھا۔ میں نے پوچھا تمھارا کیا نام ہے۔ وہ کہنے لگا ، میرا نام حفیظ ہے۔ پھر وہ مقدمہ رفع دفع ہو گیا۔‘‘
(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 643طبع چہارم)
(vi)۔ مٹھن لال:۔
’’فرمایا : نصف رات سے فجر تک مولوی عبدالکریم کے لیے دعاکی گئی ۔ صبح (کی نماز) کے بعد جب سویا تو یہ خواب آئی۔۔۔۔۔۔میں نے دیکھا کہ عبداﷲ سنوری میرے پاس آیا ہے اور وہ ایک کاغذ پیش کرکے کہتا ہے کہ اس کاغذ پر میں نے حاکم سے دستخط کرانا ہے اور جلدی جانا ہے ۔ میری عورت سخت بیمار ہے اور کوئی مجھے پوچھتا نہیں۔ دستخط نہیں ہوتے۔ اس وقت میں نے عبداﷲ کے چہرے کی طرف دیکھا تو زرد رنگ اور سخت گھبراہٹ اس کے چہرہ پر ٹپک رہی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ لوگ روکھے ہوتے ہیں ،نہ کسی کی سفارش مانیں اور نہ کسی کی شفاعت میں تیرا کاغذ لے جاتا ہوں۔ آگے جب کاغذ لے کر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص مٹھن لال نام جو کسی زمانہ میں بٹالہ میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھا، کرسی پر بیٹھا ہو اکچھ کام کر رہا ہے اور گرد اس کے عملہ کے لوگ ہیں ۔ میں نے جا کر کاغذ اس کو دیا ور کہا کہ یہ ایک میرا دوست ہے اور پرانا دوست ہے اور واقف ہے۔ اس پر دستخط کر دو۔اس نے بلا تامل اسی وقت لے کر دستخط کر دیے۔ پھر میں نے واپس آ کر وہ کاغذ ایک شخص کو دیا اور کہا خبردار ہوش سے پکڑو ابھی دستخط کیے گئے ہیں اور پوچھا کہ عبداﷲ کہاں ہے۔ انھوں نے کہا کہیں باہر گیا ہے۔ بعد اس کے آنکھ کھل گئی اور ساتھ پھر غنودگی کی حالت ہو گئی۔ تب میں نے دیکھا کہ اس وقت میں کہتا ہوں، مقبول کو بلاؤ اس کے کاغذ پر دستخط ہو گئے ہیں۔‘‘
یہ جو مٹھن لال دیکھا گیا ہے ملائک طرح طرح کے تمثلات اختیار کر لیا کرتے ہیں۔ مٹھن لال سے مراد ایک فرشتہ تھا۔‘‘
(تذکرہ طبع چہارم صفحہ 474-473 از مرزا قادیانی)
ٍ-2جوچاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے:۔
(الف)۔نبی آخر الزمان جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی اولاد مبارکہ میں تمام مؤرخین اور محدثین متفق ہیں کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کے تین بیٹے قاسم،عبداﷲ ،ابراہیم اور چاربیٹیاں : فاطمہ، زینب ، رقیہ ، ام کلثوم، رضوان اﷲ علیہم اجمعین ہیں۔ فقط شیعہ حضرات اس بات سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام کی فقط ایک ہی بیٹی ہے جو فاطمہ رضی اﷲ عنہاہے اور باقی بیٹیوں کو سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے پہلے خاوندسے شمار کرتے ہیں لیکن ان کی یہ بات اس لیے غلط قرار پاتی ہے کہ قرآن مقدس میں نبی کریم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے لفظ بنات آیا ہے جو کہ بنت کی جمع ہے یعنی ایک سے زیادہ بیٹیاں ‘جہاں تک پہلے خاوند کی بیٹیوں کا تعلق ہے تواس کے لیے ربائب کا لفظ آیا ہے۔ اس کے لیے ملاحظہ کریں سورۃ النساء آیت نمبر23۔
اب آتے ہیں مرزا قادیانی کی طرف کہ وہ اولاد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتا ہے ملاحظہ ہو۔
-1 ’’تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کے گھر میں گیارہ لڑکے پیدا ہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہو گئے تھے۔‘‘
(چشمہ معرفت صفحہ 286 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 299 ازمرزا قادیانی)
-2 ’’دیکھو ہمارے پیغمبر کے ہاں 12لڑکیاں ہوئیں۔ آپ نے کبھی نہیں کہاکہ لڑکا کیوں نہ ہوا۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 372 طبع جدید از مرزا قادیانی)
ب۔ محترم قارئین! ساری دنیا جانتی ہے کہ اسلامی سال کا آغاز ماہ محرم سے ہوتا ہے اور صفر ہجری سال کا دوسرامہینہ ہے لیکن مرزا قادیانی اس کے برعکس لکھتاہے کہ:
’’اور جیساکہ وہ چوتھا لڑکا تھا اسی مناسبت کے لحاظ سے اس نے اسلامی مہینوں میں سے چوتھا مہینہ لیا یعنی ماہ صفر اور ہفتہ کے دنوں میں سے چوتھا دن لیا یعنی چارشنبہ اور دن کے گھنٹوں میں سے دوپہر کے بعد چوتھا گھنٹہ لیا۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 41 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15صفحہ 218از مرزا قادیانی)
محترم قارئین! اسلامی ہفتے کا آغاز جمعہ سے ہوتا ہے اسی مناسبت سے چہار شنبہ ہفتہ کا پانچواں دن بنتا ہے، جس کی وضاحت اس چاٹ سے ہوتی ہے۔
-1شنبہ،-2 یک شنبہ-3 دوشنبہ-4سہ شنبہ-5 چہارشنبہ-6 پنج شنبہ-7جمعہ
جبکہ مرزاقادیانی چارشنبہ کوچوتھا دن شمار کررہاہے کیوں نہ کرے ۔اس کے آقاؤں(عیسائیوں)کے کیلنڈرمیں ہفتے کے دنوں کاآغازشنبہ(ہفتہ)کی بجائے یک شنبہ (اتوار) سے ہوتاہے۔اور عیسائی کیلنڈر کے مطابق ہی چارشنبہ ہفتے کاچوتھادن بنتاہے۔
محترم قارئین !اب مرزاقادیانی کی زندگی کے کچھ ایسے واقعا ت کاذکرکرتاہوں جنہیں قادیانی ذریت اپنے خودساختہ جعلی نبی کی سادگی سے تعبیرکرتے ہیں لیکن کوئی بھی باشعور شخص ان واقعات سے مرزاقادیانی کی ذہنی اپروچ اوردماغی خلل کا اندازہ لگاسکتا ہے ۔ چنانچہ مرزا قادیانی کابیٹا مرزابشیر احمد رقمطرازہے کہ
’’ڈاکٹرمیرمحمداسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنی جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضورجراب پہنتے تھے تو بے توجہی کے عالم میں اس کی ایڑی پاؤں کے تلے کی طرف نہیں بلکہ اوپرکی طرف ہوجاتی تھی اوربارہا ایک کاج کابٹن دوسرے کاج میں لگاہوتاتھا۔اوربعض اوقات کوئی دوست حضورکے لیے گرگابی ہدیۃً لاتاتوآپ بسااوقات دایاں پاؤں بائیں میں ڈال لیتے تھے اوربایاں دائیں میں۔چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتی پہنتے تھے۔اسی طرح کھناکھانے کایہ حال تھاکہ خودفرمایاکرتے تھے کہ ہمیں تواس وقت پتہ لگتاہے کہ کیاکھارہے ہیں کہ جب کھاتے کھاتے کوئی کنکروغیرہ کاریزہ دانت کے نیچے آجاتاہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ344روایت نمبر378طبع چہارم )
’’ایک دفعہ کوئی شخص آپ کے لیے گرگابی لے آیا۔آپ نے پہن لی مگراس کے الٹے سیدھے پاؤں کاآپ کوپتہ نہیں لگتاتھا۔کئی دفعہ الٹی پہن لیتے تھے اورپھرتکلیف ہوتی تھی بعض دفعہ آپ کاالٹا پاؤں پڑجاتاتوتنگ ہوکرفرماتے ان کی کوئی چیزبھی اچھی نہیں ہے والدہ صاحبہ نے فرمایاکہ میں نے آپ کی سہولت کے واسطے الٹے سیدھے پاؤں کی شناخت کے لئے نشان لگادیے تھے مگرباوجوداس کے آپ الٹاسیدھاپہن لیتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ60روایت نمبر83طبع چہارم)
محترم قارئین !مرزابشیراحمد نے مرزاقادیانی کے حالات زندگی پرمشتمل اپنے حقیقی ماموں ڈاکٹر میرمحمداسماعیل کاایک مضمون اپنی کتاب سیرت المہدی میں روایت نمبر447کے تحت درج کیاہے۔اس مضمون کی تعریف وتوصیف کرتے ہوئے مرزابشیراحمدرقمطرازہے کہ
’’خاکسارعرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر میرمحمداسماعیل صاحب جوہمارے حقیقی ماموں ہیں ان کاایک مضمون الحق دہلی مورخہ۱۹/۲۶جون۱۹۱۴ء میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے شمائل کے متعلق شائع ہواتھایہ مضمون حضرت صاحب کے شمائل میں ایک بہت عمدہ مضمون ہے اورمیرصاحب موصوف کے بیس سالہ ذاتی مشاہدہ اورتجربہ پرمبنی ہے ۔ لہٰذادرج ذیل کیاجاتاہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ409روایت نمبر 447طبع چہارم)
محترم قارئین !آپ بھی اس مضمون کے چنداقتباسات ملاحظہ فرمائیں قادیانی ذریت کی عقلمندی کی داد دیں کہ انہوں کیسی شاندار شخصیت نبوت کے لیے پسندکی ہے ۔لہٰذااب اس مضمون کے اقتباسات درج کیے جاتے ہیں۔
’’بارہادیکھاگیا کہ بٹن اپناکاج چھوڑکردوسرے ہی میں لگے ہوئے ہوتے تھے بلکہ صدری کے بٹن کاجوں میں لگائے ہوئے دیکھے گئے ۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ417روایت نمبر447طبع چہارم)
’’بعض اوقات زیادہ سردی میں دوجرابیں اوپرتلے چڑھالیتے ۔مگربارہاجراب اسطرح پہن لیتے کہ وہ پیر پرٹھیک نہ چڑھتی کبھی توسراآگے لٹکتارہتااورکبھی جراب کی ایڑی کی جگہ پیرکی پشت پرآجاتی ۔کبھی ایک جراب سیدھی دوسری اُلٹی۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ418روایت نمبر 447طبع چہارم)
’’کپڑوں کی احتیاط کایہ عالم تھا کہ کوٹ‘صدری‘ٹوپی‘عمامہ رات کواتارکرتکیہ کے نیچے ہی رکھ لیتے اوررات بھرتمام کپڑے جنہیں محتاط لوگ شکن اورمیل سے بچانے کوالگ جگہ کھونٹی پرٹانک دیتے ہیں۔وہ بسترپرسراورجسم کے نیچے ملے جاتے اورصبح کوان کی ایسی حالت ہوجاتی کہ اگرکوئی فیشن کادلدادہ اورسلوٹ کادشمن ان کودیکھ لے توسرپیٹ لے۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کے پاس کچھ کنجیاں بھی رہتی تھیں یہ یاتورومال میں یااکثر ازاربند میں باندھ کررکھتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ419روایت نمبر 447طبع چہارم)
محترم قارئین !مرزابشیراحمد ایک اور مقام پررقمطرازہے کہ
’’ڈاکٹرمحمداسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاجاموں میں میں نے اکثرریشمی ازاربندپڑاہوادیکھا ہے اور ازاربندمیں کنجیوں کا گچھا بندھاہوتاتھا۔ریشمی ازاربندکے متعلق بعض اوقات فرماتے تھے کہ ہمیں پیشاب کثرت سے اورجلدی جلدی آتاہے توایسے ازاربندکے کھولنے میں بہت آسانی ہوتی ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ614روایت نمبر652طبع چہارم)
’’خاکسارعرض کرتاہے کہ آپ معمولی نقدی وغیرہ اپنے رومال میں جوبڑے سائزکا ململ کابناہواہوتاتھاباندھ لیاکرتے تھے اوررومال کادوسراکنارہ واسکٹ کے ساتھ سلوالیتے تھے یاکاج میں بندھوالیتے تھے ۔اورچابیاں ازاربندسے باندھتے تھے جوبوجھ سے بعض اوقات لٹک آتاتھا ۔اوروالدہ صاحبہ بیان فرتی ہیں کہ حضرت مسیح موعودعموماًریشمی ازاربنداستعمال فرماتے تھے کیونکہ آپ کوپیشاب جلدی جلدی آتاتھااس لیے ریشمی ازاربندرکھتے تھے تاکہ کھلنے میں آسانی ہواورگرہ بھی پڑجاوے توکھولنے میں دقت نہ ہو۔سوتی ازاربندمیں آپ سے بعض دفعہ گرہ پڑجاتی تھی توآپ کوبڑی تکلیف ہوتی تھی۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ49روایت نمبر65طبع چہارم)
’’بیان کیامجھ سے والدہ صاحبہ نے حضرت مسیح موعود۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔کھانا کھاتے ہوئے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے جاتے تھے کچھ کھاتے تھے کچھ چھوڑدیتے تھے ۔کھانے کے بعدآپ کے سامنے سے بہت سے ریزے اُٹھتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ45روایت نمبر56طبع چہارم)
محترم قارئین !یہ توتھے مرزاقادیانی کے کھانے اورلباس پہننے کے انداز واطوار اب اس کی زندگی کے مذیدنادر نمونے بھی ملاحظہ فرمائیں چنانچہ معراجدین عمرقادیانی رقمطرازہے کہ
’’آپ کے ایک بچے نے آپ کی واسکٹ کی جیب میں ایک بڑی اینٹ ڈالدی۔ آپ جب لیٹتے تووہ اینٹ چبھتی کئی دن ایساہوتارہا۔ایک دن کہنے لگے کہ میری پسلی میں درد ہے۔ایسامعلوم ہوتاہے کہ کوئی چیزچبھتی ہے۔وہ حیران ہوااورآپ کے جسد مبارک پر ہاتھ پھیرنے لگااس کاہاتھ اینٹ پرجالگا۔جھٹ جیب سے نکال لی ۔دیکھ کرمسکرائے اور فرمایاکہ چندروزہوئے محمودنے میری جیب میں ڈالی تھی اورکہاتھاکہ اسے نکالنانہیں میں اس سے کھیلوں گا۔‘‘
(مسیح موعودکے مختصرحالات ملحقہ براہین احمدیہ صفحہ53طبع چہارم مرتبہ معراجدین عمرقادیانی)
’’آپ کوشیرینی سے بہت پیارتھااورمرض بول بھی عرصہ سے آپ کولگی ہوئی تھی ۔ اس زمانہ میں آپ مٹی کے ڈھیلے بعض وقت جیب میں ہی رکھتے تھے۔اوراسیجیب میں گڑکے ڈھیلے بھی رکھ لیاکرتے تھے۔‘‘
(مسیح موعودکے مختصرحالات ملحقہ براہین احمدیہ صفحہ 67 طبع چہارم مرتبہ معراجدین عمرقادیانی)
مرزا قادیانی کاکلمہ:۔
مرزابشیراحمدرقمطرازہے کہ
’’ڈاکٹرمیرمحمداسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت خلیفۃالمسیح اوّل فرمایاکرتے تھے کہ ہرنبی کاایک کلمہ ہوتاہے۔مرزاکاکلمہ یہ ہے
’’میں دین کودنیاپرمقدم رکھوں گا۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ824روایت نمبر974طبع چہارم)
تیمم:۔
مرزابشیراحمداپنی کتاب سیرت المہدی میں لکھتا ہے کہ
’’ڈاکٹرمیرمحمداسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کواگرتیمم کرناہوتاتوبسااوقات تکیہ یالحاف پرہی ہاتھ مارکرتیمم کرلیاکرتے تھے ۔
خاکسارعرض کرتاہے کہ تکیہ یالحاف میں سے جو گرد نکلتی ہے وہ تیمم کی غرض سے کافی ہوتی ہے ۔لیکن اگرکوئی تکیہ یالحاف بالکل نیاہو اوراس میں کوئی گردنہ ہوتوپزراس سے تیمم جائز ہوگا۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ774‘775روایت نمبر878طبع چہارم)
نماز میں فارسی نظم:۔
’’ڈاکٹرمیرمحمداسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ گرمیوں میں مسجد مبارک میں مغرب کی نمازپیرسراج الحق صاحب نے پڑھائی ۔حضورعلیہ السلام بھی اس نماز میں شامل تھے۔تیسری رکعت میں رکوع کے بعدانہوں نے بجائے مشہوردعاؤں کے حضور کی ایک فارسی نظم پڑھی۔جس کایہ مصرع ہے
’’اے خدا!اے چارۂ آزارِما‘‘
خاکسارعرض کرتاہے کہ یہ فارسی نظم نہایت اعلیٰ درجہ کی مناجات ہے جوروحانیت سے پرہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ644روایت نمبر707طبع چہارم)
قادیانی خشوع وخضوع:۔
محترم قارئین! قادیانی سلطان القلم سورہ المؤمنون کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کس طرح بازاری زبان استعمال کرتا ہے۔ملاحظہ کریں
’’یاد رکھنا چاہیے کہ نماز اور یاد الٰہی میں جو کبھی انسان کو حالت خشوع میسر آتی ہے اوروجد اور ذوق پیدا ہو جاتا ہے یا لذت محسوس ہوتی ہے یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس انسان کو رحیم خدا سے حقیقی تعلق ہے جیسا کہ اگر نطفہ اندام نہانی کے اندر داخل ہو جائے اور لذت بھی محسوس ہو تواس سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اس نطفہ کو رحم سے تعلق ہو گیا ہے، بلکہ تعلق کے لیے علیحدہ آثار اور علامات ہیں۔ پس یاد الٰہی میں ذوق وشوق جس کو دوسرے لفظوں میں حالت خشوع کہتے ہیں نطفہ کی اسی حالت سے مشابہ ہے جب وہ ایک صورت انزال پکڑ کر اندام نہانی کے اندر گرجاتا ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 192 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 192)
’’جیسا کہ نطفہ کبھی حرام کاری کے طور پر کسی رنڈی کے اندام نہانی میں پڑتا ہے تواس سے بھی وہی لذت ، نطفہ ڈالنے والے کو حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اپنی بیوی کے ساتھ ۔ایساہی بت پرستوں اور مخلوق پرستوں کا خشوع و خضوع اور حالت ذوق و شوق ، رنڈی بازوں سے مشابہ ہے۔ یعنی خشوع اور خضوع مشرکوں اور ان لوگوں کو جو محض اغراض دنیویہ کی بنا پر خدا تعالیٰ کو یا دکرتے ہیں اس نطفہ سے مشابہت رکھتا ہے جو حرامکار عورتوں کے اندام نہانی میں جا کر باعث لذت ہوتا ہے۔ بہرحال جیسا کہ نطفہ میں تعلق پکڑنے کی استعداد ہے مگر صرف حالت خشوع اور رقت اور سوز اس بات پر دلیل نہیں ہے کہ وہ تعلق بھی ہو گیا ہے جیسا کہ نطفہ کی صورت میں جوا س روحانی صورت کے مقابل پر ہی مشاہدہ ظاہر کر رہا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے صحبت کرے اور منی عورت کے اندام نہانی میں داخل ہو جائے اوراس کو اس فعل سے کمال لذت حاصل ہوتویہ لذت اس بات پر دلالت نہیں کرے گی کہ حمل ضرور ہو گیا ہے۔پس ایسا خشوع اور سوزوگداز کی حالت گو وہ کیسی ہی لذت اور سرور کے ساتھ ہو خدا سے تعلق پکڑنے کے لیے لازمی علامت نہیں ہے۔
(ضمیمہ براہین احمدیہ صفحہ 193 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 193)
’’ اور پھرایک مشابہت خشوع اور نطفہ میں ہے اور وہ یہ کہ جب ایک شخص کا نطفہ اس کی بیوی یا کسی اور عورت کے اندر داخل ہوتا ہے تواس نطفہ کا اندام نہانی کے اندر داخل ہونا اور انزال کی صورت پکڑ کر رواں ہو جانا بعینہٖ رونے کی صورت پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ خشوع کی حالت کا نتیجہ بھی رونا ہی ہوتا ہے اور جیسے بے اختیار نطفہ اچھل کر صورت انزال اختیار کرتا ہے۔ یہی صورت کمال خشوع کے وقت رونے سے ہوتی ہے کہ رونا آنکھوں سے اچھلتا ہے اور جیسی انزال کی لذت کبھی حلال طور پر ہوتی ہے جب کہ اپنی بیوی سے انسان صحبت کرتا ہے ۔ یہی صورت خشوع اور سوزوگداز اور گریہ زاری کی ہے یعنی کبھی خشوع اور سوز وگداز محض خدائے واحد ولاشریک کے لیے ہوتا ہے، جس کے ساتھ کسی بدعت اور شرک کا رنگ نہیں ہوتا۔ یہی وہ لذت سوزوگداز کی ایک لذت حلال ہوتی ہے مگر کبھی خشوع اور سوزوگداز اوراس کی لذت بدعات کی آمیزش سے یا مخلوق کی پرستش اور بتوں اور دیویوں کی پوجا میں بھی حاصل ہوتی ہے۔ مگر وہ حرام کاری میں جماع سے مشابہ ہوتی ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ ،حصہ پنجم صفحہ 196 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 196)
-4لیلۃ القدر:۔
محترم قارئین ! اﷲ رب العزت قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِO وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِO لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ﴾
ترجمہ: ہم نے اس (قرآن مجید)کو شب قدر میں نازل کیا اور تمھیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
(سورۃ القدر آیت3-1)
محترم قارئین! شب قدر کے حوالہ سے نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اسے ماہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ اور ان راتوں میں نبی کریم علیہ السلام نے یہ دعا بہ کثرت پڑھنے کی ترغیب دی ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّتُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ
یعنی اے اﷲ ! بے شک تو معافی کو پسند کرتا ہے، پس تو مجھے معاف کر دے۔
مرزا قادیانی اس اسلامی عقیدے کی نفی کرتے ہوئے لیلۃ القدر کا ایک نیا مفہوم ایجاد کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’لیلۃ القدر اس ظلمانی زمانہ کا نام ہے جس کی ظلمت کمال کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ اس لیے وہ زمانہ بالطبع تقاضا کرتا ہے کہ ایک نور نازل ہو جو اس ظلمت کو دور کر ے ۔ اس زمانہ کا نام بطور استعارہ کے لیلۃ القدر رکھا گیا ہے۔ مگر درحقیقت یہ ایک رات نہیں ہے ،یہ ایک زمانہ ہے جو بوجہ ظلمت رات کا ہم رنگ ہے ۔‘‘
(فتح اسلام صفحہ 32مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 32)
قادیانی عقیدہ تثلیث:۔
مرزا قادیانی اپنے عقیدہ تثلیث کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ:
’’اگر یہ استفسار ہو کہ جس خاصیت اور قوت روحانی میں یہ عاجز اور مسیح ابن مریم مشابہت رکھتے ہیں وہ کیا شے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ایک مجموعی خاصیت ہے جو ہم دونوں کے روحانی قویٰ میں ایک خاص طور پر رکھی گئی ہے جس کے سلسلہ کی ایک طرف نیچے کو اور ایک طرف اوپر کو جاتی ہے ۔ نیچے کی طرف سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی دلسوزی اور غم خوار خلق اﷲ ہے جو داعی الی اﷲ کے نفس پاک میں موجود ہے۔ ان تمام سرسبزشاخوں میں پھیلاتی ہے۔ اوپر کی طرف سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی محبت قوی ایمان سے ملی ہوئی ہے جو اول بندہ کے دل میں باارادہ الٰہی پیدا ہو کر رب قدیر کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور پھر ان دونوں محبتوں کے ملنے سے جو درحقیقت ندا اور مادہ کا حکم رکھتی ہیں، اور ایک شدید مواصلت خالق اور مخلوق میں پیدا ہو کر الٰہی محبت کے چمکنے والی آگ سے جو مخلوق کی ہیزم مثال محبت کو پکڑ لیتی ہے ،ایک تیسری چیز پیدا ہو جاتی ہے جس کا نام روح القدس ہے ۔ سو اس درجہ کے انسان کی روحانی پیدائش اس وقت سمجھی جاتی ہے جب کہ خدا تعالیٰ اپنے ارادہ خاص سے اس میں اس طور کی محبت پیدا کر دیتا ہے اور اس مقام اور اس مرتبہ کی محبت میں بطور استعارہ یہ کہنا بجا نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے بھری ہوئی روح اس انسانی روح کو جو بارادہ الٰہی اب محبت سے بھرگئی ہے ، ایک نیا تولد بخشتی ہے۔ اسی وجہ سے اس محبت کی بھری ہوئی روح کو خدا تعالیٰ کی روح سے جو نافخ المحبت سے استعارہ کے طور پر ابنیت کا علاقہ ہوتا ہے اور چوں کہ روح القدس ان دونوں کے ملنے سے انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان دونوں کے لیے بطور ابن ہے اور یہی پاک تثلیث ہے جو اس درجہ محبت کے لیے ضروری ہے جس کو ناپاک طبیعتوں نے مشرکانہ طو رپر سمجھ لیا ہے۔‘‘
(توضیح مرام صفحہ 14-13 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 61‘62از مرزا قادیانی)
قادیانی الہامی حمل:۔
محترم قارئین ! اگر مرزا قادیانی اوراس کی ذریت کی تحریروں کو ملاحظہ کریں تو انسان اس شش و پنج میں پڑ جاتا ہے کہ مرزا قادیانی مرد تھایا عورت یا پھر اس کا تعلق مخنثوں سے تھا۔ آئیے ذرا اس حوالے سے مرزا قادیانی اوراس کی ذریت کی عجیب و غریب تحریروں کو ملاحظہ فرمائیں۔چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’درحقیقت میرے اور میرے خدا کے درمیان ایسے باریک راز ہیں جن کو دنیا نہیں جانتی اور مجھے خدا سے ایک نہانی تعلق ہے جو ناقابل بیان ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 63 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 81)
مرزا قادیانی کا مرید خاص قاضی یا رمحمد قادیانی اپنی کتاب ’’اسلامی قربانی ٹریکٹ نمبر34 پر اس تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی ہے کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا تھا۔سمجھنے والے کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔‘‘
(اسلامی قربانی صفحہ 12از قاضی یار محمد قادیانی)
محترم قارئین ! مرزا قادیانی ایک اورمقام پر رقم طراز ہے کہ:
’’اس نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ میں میرانام مریم رکھا ہے، پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے دوبرس تک صفت مریمیت میں ،میں نے پرورش پائی اور پردہ میں نشوونما پاتا رہا۔ پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو جیسا کہ براہین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ 496 میں درج ہے مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جوسب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم ص 556میں درج ہے:
’’مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا ، پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ 47 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 50)
محترم قارئین ! جب مرزا قادیانی نے اپنے آپ کو الہامی طور پر عورت کے روپ میں پیش کیا تو بعض لوگوں نے مرزا قادیانی پر یہ اعتراض کیا کہ کیا تمھیں حیض بھی آتا ہے تو ایسے ہی ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ :
’’اسی طرح میری کتاب اربعین نمبر4صفحہ 19میں بابوالٰہی بخش صاحب کی نسبت یہ الہام ہے ،یعنی بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے یا کسی پلیدی اور ناپاکی پر اطلاع پائے مگر خدا تعالیٰ تجھے اپنے انعامات دکھلائے گا جو متواتر ہوں گے اور تجھ میں حیض نہیں بلکہ وہ بچہ ہو گیا ہے۔ ایسا بچہ جو بمنزلہ اطفال اﷲ ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی صفحہ 143، مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 581)
محترم قارئین!مذیدقابلِ غوربات یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے اپنے حمل کی مدت دس ماہ بیان کی ہے جبکہ طبی نقطہ نظرسے دیکھاجائے توپتہ چلتا ہے کہ عورت کی مدت حمل زیادہ سے زیادہ نوماہ ہوتی ہے جبکہ بھینس کی مدت حمل دس ماہ ہوتی ہے اب قادیانیوں کواپنے خودساختہ نبی کی جنس کے بارے میں بھی غور کرنا ہوگاکہ وہ مرد تھا یا کہ عورت ‘انسان تھا یاکہ حیوان؟
مذیدملاحظہ فرمائیے کہ مرزاقادیانی الہامی حمل کے ساتھ ساتھ کس طرح دردزِہ کا تذکرہ کرتاہے چنانچہ مرزاقادیانی رقمطراز ہے کہ
’’خدانے مجھے پہلے مریم کاخطاب دیااورپھرنفخ روح کاالہام کیا۔پھر بعداس کے یہ الہام ہواتھا۔فاجاء ھاالمخاض الٰی جزع النخلۃ قالت یالیتنی مت قبل ھذاوکنت نسیامنسیّا۔یعنی پھرمریم کو جومراداس عاجزسے ہے دردزِہ تنہ کھجورکی طرف لے آئی۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ48مندرجہ روحانی خزائن جلد19صفحہ51)
مرشداور مرید کا تعلق:۔
مرشد اورمریدکے درمیان تعلق کاتذکرہ کرتے ہوئے مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’ایساہی قرآن کریم اورحدیث شریف سے معلوم ہوتاہے کہ مرشدکے ساتھ مریدکاتعلق ایسا ہوناچاہیے‘جیساعورت کاتعلق مردسے ہو۔‘‘
کیاکوئی قادیانی بتاسکتاہے کہ قرآن مقدس میں کونسی آیت مبارکہ میں اس تعلق کی تفصیل موجود ہے۔ نیزمرشداورمرید میں سے مرد کاکردار کون اداکرے گااورعورت کاکون؟
دن میں سو مرتبہ پیشاب:۔
قارئین محترم!مرزاقادیانی ساری زندگی مختلف بیماریوں میں مبتلارہا۔انہی بیماریوں میں سے ایک بیماری دن میں سو مرتبہ پیشاب کرنا بھی تھی جس کاتذکرہ کرتے ہوئے مرزاقادیانی خودرقمطرازہے کہ
’’مجھے کئی سال سے ذیابیطس کی بیماری ہے۔پندرہ بیس مرتبہ روزپیشاب آتاہے ۔اوربعض وقت سوسودفعہ ایک ایک دن میں پیشاب آیاہے۔اوربوجہ اس کے کہ پیشاب میں شکرہے‘کبھی کبھی خارش کاعارضہ بھی ہوجاتاہے اورکثرت پیشاب سے بہت ضعف تک نوبت پہنچتی ہے۔ایک دفعہ مجھے ایک دوست نے یہ صلاح دی کہ ذیابیطس کے لیے افیون مفیدہوتی ہے ۔پس علاج کی غرض سے مضائقہ نہیں کہ افیون شروع کردی جائے ۔میں نے جواب دیا کہ یہ آپ نے بڑی مہربانی کی کہ ہمدردی فرمائی لیکن اگر میں ذیابیطس کے لیے افیون کھانے کی عادت کرلوں تومیں ڈرتاہوں کہ لوگ ٹھٹھاکرکے یہ نہ کہیں کہ پہلامسیح توشرابی تھااوردوسراافیونی۔‘‘
(نسیم دعوت صفحہ74‘75مندرجہ روحانی خزائن جلد19صفحہ434‘435)
 
Top