• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت ( حضرت امام ابن تیمیہ حنبلیؒ کا عقیدہ)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت ( حضرت امام ابن تیمیہ حنبلیؒ کا عقیدہ)

عظمت شان :
۱…حضرت امام ابن تیمیہؒ کو قادیانی جماعت نے ساتویں صدی ہجری کا مجدد وامام تسلیم کر لیا ہے۔

(عسل مصفی ج۱ ص۱۶۴)
۲… مرزاغلام احمد قادیانی خود حضرت امام ابن تیمیہؒ کے علو مرتبت کے قائل تھے۔ چنانچہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’فاضل ومحدث ومفسر ابن تیمیہ… جو اپنے وقت کے امام ہیں۔‘‘
(کتاب البریہ حاشیہ ص۲۰۳، خزائن ج۱۳ ص۲۲۱)
حضرات! مرزاقادیانی کی تحریرات سب کی سب کذب وافتراء سے بھری پڑی ہیں۔ چنانچہ میں نے ’’کذبات مرزا‘‘ کے نام سے ایک الگ رسالہ انعامی تین ہزار روپیہ تالیف کیا ہے۔ جس کا پہلا حصہ شائع ہوچکا ہے۔ اس میں مرزاقادیانی کی دو سوصریح کذب بیانیاں جمع کی گئی ہیں۔ آج حیات عیسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ میں مرزاقادیانی کا ایک ایسا جھوٹ درج کرتا ہوں کہ صرف یہی جھوٹ مرزاقادیانی کا غیرمتعصب قادیانی کی توبہ کے لئے کافی محرک ثابت ہوگا۔ مرزاقادیانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں۔
(کتاب البریہ ص۲۰۳ حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۲۲۱)
اب میں ناظرین کے سامنے امام موصوف کی کلام پیش کرتا ہوں تاکہ مرزاقادیانی کے کذب ودجل کی قلعی خود بخود کھل جائے۔
۱… ’’ وکان الروم والیونان وغیرہم مشرکین یعبدون اہیاکل العلویۃ والاصنام الارضیۃ فبعث المسیح رسلہ یدعونہم الی دین اﷲ تعالیٰ فذہب بعضہم فی حیاتہ فی الارض وبعضہم بعد رفعہ الی السماء فدعو ہم الی دین اﷲ ‘‘

(الجواب الصحیح ج۱ ص۱۱۵،۱۱۶)
’’روم اور یونان وغیرہ میں اشکال علویہ وبتان ارضیہ کو پوجتے تھے۔ پس مسیح علیہ السلام نے اپنے نائب بھیجے جو ان کو دین الٰہی کی طرف دعوت دیتے تھے۔ پس بعض تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زمینی زندگی میں گئے اور بعض حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد گئے۔ پس انہوں نے لوگوں کو خدا کے دین کی طرف دعوت دی۔‘‘
۲… ’’ وثبت ایضاً فی الصحیح عن النبیﷺ انہ قال ینزل عیسیٰ ابن مریم من السماء علی المنارۃ البیضاہ شرقی دمشق ‘‘

(الجواب الصحیح ج۱ ص۱۷۷)
’’اور صحیح میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے شرقی سفید منارہ پر اتریں گے۔‘‘
۳… ’’ والمسلمون واہل الکتاب متفقون علی اثبات مسیحین مسیح ہدی من ولد داؤد ومسیح ضلال یقول اہل الکتاب انہ من ولد یوسف ومتفقون علی ان مسیح الہدیٰ سوف یأتی کما یأتی مسیح الضلالۃ لکن المسلمون والنصاری یقولون مسیح الہدیٰ ہو عیسیٰ ابن مریم وان اﷲ ارسلہ ثم یأتی مرۃ ثانیۃ لکن المسلمون یقولون انہ ینزل قبل یوم القیامۃ فیقتل مسیح الضلالۃ ویکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ولا یبقی دینا الا دین الاسلام ویؤمن بہ اہل الکتاب الیہود والنصاریٰ کما قال تعالیٰ (وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ والقول الصحیح الذی علیہ الجمہور قبل موت المسیح وقال تعالیٰ انہ لعلم للساعۃ) ‘‘

(جواب الصحیح ج۱ ص۳۲۹)
’’مسلمان اور اہل کتاب یہود ونصاریٰ دو مسیحوں کے وجود پر متفق ہیں۔ مسیح ہدایت داؤد کی اولاد میں سے ہے اور اہل کتاب کے نزدیک مسیح الضلالت یوسف کی اولاد میں سے ہے اور اس بات پر بھی متفق ہیں کہ مسیح ہدایت عنقریب آئے گا۔ جبکہ آئے گا مسیح الدجال، لیکن مسلمان اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح ہدایت حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ہیں کہ خدا نے ان کو رسول بنایا اور پھر دوبارہ وہی آئیں گے لیکن مسلمان یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ قیامت سے پہلے اتریں گے اور مسیح الدجال کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑیں گے اور خزیر کو قتل کریں گے اور کوئی دین باقی نہ رہے گا۔ مگر دین اسلام، یہود اور نصاریٰ ان کی رسالت پر ایمان لائیں گے۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے: ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ یعنی تمام اہل کتاب حصرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے اور قول صحیح جس پر جمہور امت کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ ’’موتہ‘‘ کی ضمیر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھرتی ہے۔ اس کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے۔ ’’ وانہ لعلم للساعۃ ‘‘ یعنی عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانی ہے۔‘‘
۴… ’’ اذا نزل المسیح ابن مریم فی امتہ لم یحکم فیہم الا بشرع محمدﷺ ‘‘

(الجواب والصحیح ج۱ ص۳۴۹)
’’جب مسیح ابن مریم علیہ السلام آنحضرتﷺ کی امت میں نازل ہوں گے تو شرح محمدی کے مطابق حکم کریں گے۔‘‘
۵… ’’ وان اﷲ اظہر علی یدیہ الایات وانہ صعد الی السماء کما اخبر اﷲ بذالک فی کتابہ کما تقدم ذکرہ ‘‘

(کتاب بالا ج۲ ص۱۸۶)
’’اور اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر معجزات ظاہر کئے اور تحقیق وہ آسمان کی طرف چڑھ گئے۔ جیسے کہ اﷲتعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں خبر دی ہے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔‘‘
۶… ’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ وہذا عند اکثر العلماء معناہ قبل موت عیسیٰ وقد قیل قبل موت الیہودی وہو ضعیف کما قیل انہ قبل موت محمدﷺ وہو اضعف فانہ لواٰمن بہ قبل الموت لنفع ایمانہ بہ فان اﷲ یقبل التوبۃ العبد مالم یغرغر لم یکن فی ہذا فائدۃ فان کل احد بعد موتہ یؤمن بالغیب الذی کان یجحدہ فلا اختصاص للمسیح بہ ولانہ قال قبل موتہ ولم یقل بعد موتہ ولا نہ لا فرق بین ایمانہ بالمسیح وبمحمد صلوات اﷲ علیہما وسلامہ والیہود الذی یموت علی الیہودیۃ فیموت کافرا بمحمد والمیسح علیہما الصلوٰۃ والسلام ولا نہ قال وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ وقولہ لیؤمنن بہ فعل مقسم علیہ وہذا انما یکون فی المستقبل فدل ذالک علی ان ہذا الایمان بعد اخبار اﷲ بہذا ولو ارید قبل موت الکتابی لقال وان من اہل الکتاب الا من یؤمن بہ لم یقل لیؤمنن بہ وایضاً فانہ قال وان من اہل الکتاب وہذا یعم الیہود والنصاریٰ فدل ذالک علی ان جمیع اہل الکتاب الیہود والنصاریٰ یؤمنون بالمسیح قبل موت المسیح وذالک اذا نزل اٰمنت الیہود والنصاریٰ بانہ رسول اﷲ لیس کاذباً کما یقول الیہودی ولا ہو اﷲ کما تقولہ النصاریٰ ‘‘

(الجواب الصحیح ج۲ ص۲۸۳،۲۸۴)
’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ! اس کی تفسیر اکثر علماء نے یہ کی ہے کہ مراد ’’قبل موتہ‘‘ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے اور یہودی کی موت سے پہلے بھی کسی نے معنی کئے ہیں اور یہ ضعیف ہے جیسا کہ کسی نے محمدﷺ کی موت سے پہلے بھی معنی کئے ہیں اور یہ اس سے بھی زیادہ ضعیف ہے۔ کیونکہ اگر ایمان موت سے پہلے لایا جائے تو نفع دے سکتا ہے۔ اس لئے کہ اﷲتعالیٰ توبہ قبول کرتا ہے۔ جب تک کہ بندہ غرغرہ تک نہ پہنچا ہو اور اگر یہ کہا جائے کہ ایمان سے مراد ایمان بعد الغرغرہ ہے تو اس میں کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے کہ غرغرہ کے وقت وہ ہر ایک امر پر جس کا کہ وہ منکر ہے۔ ایمان لاتا ہے۔ پس مسیح علیہ السلام کی کوئی خصوصیت نہ رہی اور ایمان سے مراد ایمان نافع ہے (کیونکہ تمام قرآن شریف میں ایمان انہیں معنوں میں استعمال ہوا ہے کہیں ایمان سے مراد ایمان غیر نافع نہیں لیاگیا۔ پس مطابق اصول قادیانی کے امر متنازعہ فیہ میں کسی لفظ کے معنی وہی صحیح ہوں گے جو معنی تمام قران میں لئے گئے ہوں گے۔ ایمان سے مراد ایمان نافع ماننا ضروری ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بے شمار یہودی وعیسائی کفر پر مر رہے ہیں۔ ابوعبیدہ) اس لئے کہ اﷲتعالیٰ نے ’’قبل موتہ‘‘ فرمایا ہے۔ نہ بعد موتہ اگر ایمان بعد غرغرہ مراد ہوتا تو بعد موتہ فرماتا۔ کیونکہ بعد موت کے ایمان بالمسیح یا بمحمد ﷺ میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہودی یہودیت پر مرتا ہے۔ اس لئے وہ کافر مرتا ہے۔ مسیح علیہ السلام اور محمدﷺ سے منکر ہوتا ہے اور اس آیت میں ’’لیؤمنن بہ‘‘ مقسم علیہ ہے۔ یعنی قسمیہ خبر دی گئی ہے اور یہ مستقبل ہی میں ہوسکتا ہے۔ (نیز جس خبر پر قسم کھائی جائے وہ مضمون بلاتاویل قابل قبول ہوتا ہے۔ اس میں تاویل کرنا حرام ہوتا ہے۔ جیسا کہ خود قادیانی اپنی کتاب (حمامتہ البشریٰ ص۱۴، خزائن ج۷ ص۱۹۲ حاشیہ) پر لکھتا ہے۔ ابوعبیدہ) پس ثابت ہوا۔ یہ ایمان اس خبر کے بعد ہوگا اور اگر موت کتابی کی مراد ہوتی تو اﷲتعالیٰ یوں فرماتے۔ ’’ وان من اہل الکتاب الا من یؤمن بہ ‘‘ اور ’’ لیؤمنن بہ ‘‘ نہ فرماتے اور نیز ’’ وان من اہل الکتاب ‘‘ یہ لفظ عام ہے۔ ہر ایک یہودی ونصرانی کو شامل ہے۔ پس ثابت ہوا کہ تمام اہل کتاب یہود ونصاریٰ مسیح علیہ السلام کی موت سے پہلے مسیح علیہ السلام پر ایمان لائیں گے اور یہ اس وقت ہوگا جب مسیح علیہ السلام اتریں گے تمام یہود ونصاریٰ ایمان لائیں گے کہ مسیح ابن مریم اﷲ کا رسول کذاب نہیں۔ جیسے یہودی کہتے ہیں اور وہ خدا نہیں جیسا کہ نصاریٰ کہتے ہیں۔‘‘
عبارت بالا کے آگے یہ عبارت ہے۔
’’ والمحافظۃ علی ہذا العموم اولی من ان یدعی ان کل کتابی لیؤمنن بہ قبل ان یموت الکتاب فان ہذا یستلزم ایمان کل یہودی ونصرانی وہذا خلاف الواقع وھو لما قال وان من ہم الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ودل علیٰ ان المراد بایمانہم قبل ان یموت ہو علم انہ ارید بالعموم عمومہ من کان موجوداً حین نزولہ ای لا یختلف منہم احد عن الایمان بہ لا ایمان من کان منہم میتا وہذا کما یقال انہ لا یبقی بلد الا دخلہ الدجال الامکۃ والمدینۃ ای فی المدائن الموجودۃ حینئذاٍ وسبب ایمان اہل الکتاب بہ حینئذاٍ ظاہر فانہ یظہر لکل احد انہ رسول یؤید لیس بکذاب ولا ہو رب العالمین فاﷲ تعالیٰ ذکر ایمانہم بہ اذا نزل الیٰ الارض فانہ تعالیٰ لما ذکر رفعہ الی اﷲ بقولہ تعالیٰ ان متوفیک ورافعک الیّٰ وھو ینزل الی الارض قبل یوم القیامۃ ویموت حینئذا خبر بایمانہم بہ قبل موتہ ‘‘

(الجوب الصحیح ج۲ ص۲۸۴)
’’اس عموم کا لحاظ زیادہ مناسب ہے۔ اس دعویٰ سے کہ موتہ سے مراد موت کتابی ہے۔ کیونکہ یہ دعویٰ ہر ایک کتابی، یہودی ونصرانی کے ایمان کو مستلزم ہے اور یہ خلاف واقع ہے۔ اس لئے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ تمام اہل کتاب ایمان لائیں گے تو ثابت ہوا کہ اس عموم سے مراد عموم ان لوگوں کا ہے۔ جو حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول کے وقت موجود ہوں گے۔ کوئی بھی ایمان لانے سے اختلاف نہ کرے گا۔ اس عموم سے مراد وہ اہل کتاب جو فوت ہوچکے ہیں نہیں ہوسکتے۔ یہ عموم ایسا ہے جیسا یہ کہا جاتا ہے کہ کوئی شہر ایسا نہیں ہوگا مگر یہ کہ دجال اس میں ضرور داخل ہوگا۔ سوائے مکہ اور مدینہ شریف کے۔ پس شہروں سے مراد یہاں صرف وہی شہر ہیں جو دجال کے وقت موجود ہوں گے۔ (جو اس سے پہلے صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہوں گے وہ مراد نہیں ہوسکتے) اور اس وقت ہر ایک یہودی ونصرانی کے ایمان کا سبب ظاہر ہے۔ وہ یہ کہ ہر ایک کو معلوم ہو جائے گا کہ مسیح علیہ السلام رسول اﷲ مؤید بتائید اﷲ ہے۔ نہ وہ کذاب ہے نہ وہ خدا ہے۔ پس اﷲتعالیٰ نے اس ایمان کا ذکر فرمایا ہے۔ جو حضرت مسیح علیہ السلام کے نازل ہونے کے وقت ہوگا۔ سب اہل کتاب مسیح علیہ السلام کی موت سے پہلے ان پر ایمان لائیں گے۔‘‘
۸… ناظرین! عربی عبارتیں کہاں تک نقل کرتا جاؤں۔ اب میں صرف اردو ترجمہ پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔ جس کو عربی عبارتوں کا شوق ہو۔ وہ ’’ الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح ‘‘ منگوا کر ملاحظہ فرمالیں۔
عبارت بالا کے بعد یہ عبارت ہے۔
’’صحیحین میں وارد ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ قریب ہے کہ ابن مریم اترین گے۔ حاکم، عادل، پیشوا، انصاف کرنے والا۔ صلیب کو توڑیں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے۔ جزیہ موقوف کریں گے (اور آیت قرآنی ’’وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالہم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ وکان اﷲ عزیزاً حکیما‘‘) اس آیت میںبیان ہے کہ اﷲتعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھالیا اور قتل سے بچا لیا اور بیان فرمایا کہ مسیح علیہ السلام کی موت سے پہلے پہلے اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے… اور لفظ ’’توفی‘‘ لغت عرب میں اس کے معنی ’’پورا لینا‘‘ اور ’’قبضہ میں لینا‘‘ ہے اور یہ تین طرح ہوسکتا ہے۔ (۱)قبض فی النوم (سلانا)۔ (۲)قبض فی الموت (مارنا) اور (۳)قبض الروح معہ البدن (بمعہ جسم اوپر اٹھا لینا) پس مسیح علیہ السلام کی توفی تیسری قسم کی ہے۔ یعنی روح اور جسم دونوں کے ساتھ اٹھائے گئے۔ ان کا حال اہل زمین کی طرح نہیں۔ زمین کے بسنے والے کھانے، پینے، پیشاب پاخانہ کی طرف محتاج ہیں اور مسیح علیہ السلام کو اﷲتعالیٰ نے قبضہ میں لے لیا اور وہ دوسرے آسمان پر رہیں گے۔ اس وقت تک کہ نازل ہوں گے زمین کی طرف۔ ان کا حال کھانے، پینے، پہننے اور سونے اور بول وبراز میں زمین پر بسنے والوں کی طرح نہیں ہے۔‘‘
۹… ’’قلت وصعود الآدمی ببدنہ الیٰ السماء قد ثبت فی امر المسیح عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فانہ صعد الی السماء وسوف ینزل الی الارض ہذا مما یوافق النصاریٰ علیہ المسلمین فانہم یقولون ان المسیح صعد الی السماء ببدنہ وروحہ کما یقول المسلمون ویقولون انہ سوف ینزل الی الارض ایضاً کما یقول المسلمون وکما اخبر بہ النبیﷺ فی الاحادیث الصحیحۃ… وان نزولہ من اشراط الساعۃ کما دل علی ذالک الکتاب والسنۃ‘‘ (الجواب الصحیح ج۴ ص۱۶۹،۱۷۰)
’’میں (امام ابن تیمیہؒ) کہتا ہوں کہ آدمی کا جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ جانا یقینا مسیح کے بارہ میں پایۂ ثبوت کو پہنچ چکا ہے۔ پس وہ آسمان پر چڑھ گئے اور عنقریب زمین پر اتریں گے اور نصاریٰ بھی اس بیان میں مسلمانوں سے موافق ہیں۔ وہ بھی مسلمانوں کی طرح یہی کہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام جسم کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے اور عنقریب زمین پر اتریں گے۔‘‘
۱۰… ’’وعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اذا نزل من السماء انما یحکم فیہم بکتاب ربہم وسنۃ نبیہم‘‘ (زیارت القبور ص۷۵) ’’اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام جب آسمان پر سے نازل ہوں گے تو وہ قرآن کریم اور سنت نبویﷺ کے مطابق حکم دیں گے۔‘‘
۱۱… ’’والنبیﷺ قد اخبرہم ینزل عیسیٰ من السماء‘‘ (زیارت القبور ص۷۵)
’’اور نبیﷺ نے مسلمانوں کو خبر دی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے۔‘‘ (نہ کہ ماں کے پیٹ سے نکلیں گے) یہ مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ ہیں۔ ابوعبیدہ!
حضرات! میرے اقتباسات کے مطالعہ سے شاید آپ تھک گئے ہوں گے۔ مرزاقادیانی کے دجل وفریب کی وسعت اور گہرائیوں کا بھی اندازہ لگائیں کہ باوجود ابن تیمیہ کی ان تصریحات کے بھی ہانکے جاتا ہے کہ ’’ایسا ہی فاضل ومحدث ومفسر امام ابن تیمیہؒ وابن قیم جو اپنے اپنے وقت کے امام ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں۔‘‘
(کتاب البریہ حاشیہ ص۲۰۳، خزائن ج۱۳ ص۲۲۱)
کیا اب مجھے اجازت ہے کہ مرزاقادیانی کا صریح جھوٹ وافتراء ثابت ہو جانے کے بعد مرزاقادیانی کا اپنا فتویٰ ان کی شان میں لکھ دوں۔
۱… ’’دروغ گوئی کی زندگی جیسی کوئی لعنتی زندگی نہیں۔‘‘ (نزول المسیح ص۲، خزائن ج۱۸ ص۳۸۰)
۲… ’’ظاہر ہے کہ جو ایک بات میں جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۲۲، خزائن ج۲۳ ص۲۳۱)
۳… ’’جھوٹ ام الخبائث ہے۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۷ ص۲۸، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۱)
۴… ’’جھوٹ بولنے سے مرنا بہتر ہے۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۷ ص۳۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۴)
۵… ’’جھوٹے پر خدا کی لعنت۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۱۱، خزائن ج۲۱ ص۲۷۵)
۶… ’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۳ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۵۶)
۷… ’’اے بیباک لوگو جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۰۶، خزائن ج۲۲ ص۲۱۵)
۸… ’’جھوٹ بولنے سے بدتر دنیا میں اور کوئی کام نہیں۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۲۶، خزائن ج۲۲ ص۴۵۹)
 
Top