• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

فتنۂ انکارِ جہاد

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
فتنۂ انکارِ جہاد کے تین اصول
اسلام کے محکم اور قطعی فریضے ’’ جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ کی گرفت دشمنانِ اسلام پر جتنی مضبوط ہوتی جا رہی ہے ، اس کے منکرین اور اس میں گمراہ کن تاویلات کا ارتکاب کرنے والے بھی اپنی کوششیں تیز تر کر رہے ہیں ۔ پرانے شکاری نئے جال لے کر میدان میں اتر رہے ہیں اور امت کو اس فریضے کی برکات سے محروم کرنے کیلئے اُن کے قلم تیزی سے رواں دواں ہیں ۔

چاہیے تو یہ تھا کہ وہ عظیم فریضہ جسے رب العالمین جل شانہ نے قرآن مجید کی متعدد آیات میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا، جسے رحمۃ العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی شکل میں سر ا نجام دے کر اُس کا معنیٰ و مفہوم قیامت تک کیلئے دوٹوک انداز میں بیان فرما دیا، جس فریضے کی حقانیت پر چودہ صدیوں کے مفسرین، محدثین اور فقہاء متفق ہیں اور جس عمل کی آج امت مسلمہ شدید محتاج ہے، یہ علم و دانش کے نام نہاد علمبردار خود آگے بڑھ کر اُس کا پرچم تھامتے اور جہادی یلغار کو اپنی بے جا تاویلات کے خس و خاشاک سے روکنے کے بجائے کفار کے ظلم و ستم کو اپنے بازو سے روکتے ۔

ان سے یہ تو نہ ہو سکا کہ راہِ جہاد کا مبارک غبار اُن کا مقدر بنتا کہ یہ سعادت تو ہر شخص کی قسمت میں نہیں لیکن انہوں نے من گھڑت باتوں اور بے سرو پا تاویلوں کے بل بوتے پر وہ کام کر دکھانا چاہا جو کفار سے براہِ راست نہ ہو سکا ۔ وہ لوگ جن کے کپڑوں کی استری بھی کبھی اسلام اور مسلمانوں کیلئے خراب نہیں ہوتی، اُن لوگوں کے خلاف صف آراء ہو گئے جنہوں نے اپنے خون سے گلشن اسلام کی آبیاری کی اور اپنی جانیں بھی مظلوم مسلمانوں کے تحفظ کیلئے قربان کر دیں۔ یہ خونِ شہداء کی کرامت ہے کہ آج امت مسلمہ میں جہاد کے خلاف بولنے والے دانش فروشوں کی کوئی اہمیت نہیں اور ان کی طرف سے جتنی جہاد کی مخالفت بڑھتی جا رہی ہے، شمعِ جہاد کی لو اُتنی ہی بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی ہے گویا:

نورِ خدا ہے ’’ ان ‘‘ کی حرکتوں پر خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

انکارِ جہاد پر آج تک جتنی تحریریں لکھی گئیں، وہ بنیادی طور پر تین نکات کے گرد گھومتی ہیں، گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ فتنۂ انکار ِجہاد کے تین بنیادی اصول ہیں ۔ اگر کوئی شخص ان کے جوابات ذہن نشین کر لے تو باقی تمام وساوس اور شبہات کے کاٹھ کباڑ کو وہ خود ہی نذر آتش کر سکتا ہے ۔

منکرینِ جہاد میں سے جو طبیعت کے ذرا زیادہ تیز اور عقل کے کچے واقع ہوئے ہیں، ان کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام تو امن اور سلامتی کا مذہب ہے ۔ یہ تو ہمیں کفار کے سامنے مسکرانا اور جھکنا ہی سکھاتا ہے۔ لڑائی اور قتل و قتال نہ رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اسلام کا حصہ تھے اور نہ آج ہیں ۔ اس نظریے کا باطل ہونا اتنا واضح ہے کہ قرآن و سنت کا ایک ابتدائی طالب علم بھی اس کی کافی و شافی تردید کر سکتا ہے اور وہ قرآن مجید سے فرضیت ِ جہاد کی چند آیات، ذخیرۂ احادیث سے جہاد کے موضوع پر چند فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت ِ طیبہ سے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات و سرایاکی صرف فہرست ہی پیش کر کے ایسے ملحد کا راستہ روک سکتا ہے اور اس نظریے کی گمراہی واضح کر سکتا ہے ۔

انکارِ جہاد کے پہلے اصول کے قائلین وہی لوگ ہیں جو اخلاق اور بے غیرتی و بزدلی کے درمیان فرق سمجھنے سے بھی محروم ہیں اور یہ تاریخِ انسانیت کے ہرموڑ پر پیش آنے والے اہلِ حق اور باطل کے بچاریوں کے درمیان اُن معرکوں سے بھی آنکھیں چرالیتے ہیں، جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال مرحوم نے کہا تھا:

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرارِ لو لہبی

ایسے لوگ اگر قرآن مجید پڑھتے ہیں تو نجانے سورۃ البقرۃ کی یہ آیت مبارکہ پڑھتے وقت اُن کے احساسات کیا ہوتے ہیں، جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

کتب علیکم القتال و ھو کرہ لکم و عسی ان تکرھوا شیئا و ھو خیر لکم و عسی ان تحبو ا شیئا و ھو شر لکم واللہ یعلم وانتم لا تعلمون ۔
ترجمہ: ’’ تم پر کفار کے خلاف لڑنا فرض کیا گیا اور وہ تمہیں ناگوار ہے، اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لئے بہتر ہو اور ممکن ہے تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لئے بری ہو اور اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے۔‘‘

معروف مفسر ابن کثیر ؒ اس آیت کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ ایمان والوں پر لازم کر رہے ہیں کہ وہ دینِ اسلام سے دشمنوں کے شر کو دور کریں اور امام زھری ؒ فرماتے ہیں کہ جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے، خواہ و عملی طور پر لڑ رہا ہو یا ابھی گھر بیٹھا ہو ۔ وہ اس طرح کہ جو ابھی پیچھے بیٹھا ہے اُس پر بھی فرض ہے کہ جب اُس سے مدد مانگی اور تعاون طلب کیا جائے یا اُسے بھی میدا ن میں نکلنے کا حکم دیا جائے تو وہ بھی نکل کھڑا ہو، ہاں اگر اُس کی ضرورت ہی نہ پڑے تو پھر وہ بے شک بیٹھا رہے۔ میں کہتا ہوں کہ جہاد کی اسی فرضیت کے پیش نظر تو حدیث صحیح میں ہے کہ ’’جو شخص اس حال میں مرا کہ نہ تو اس نے اللہ کے راستے میں لڑائی کی اور نہ اس کے دل میں اس کا شوق ابھرا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔‘‘

اب ذرا غور فرمائیں کہ کہاں قرآن مجید کی اتنی واضح آیت مبارکہ (اور یہ تو صرف ایک مثال ہے ورنہ ایسی درجنوں آیات بلا تکلف پیش کی جا سکتی ہیں) اور کہاں ان مدعیانِ اسلام کی دیدہ دلیری کہ اپنے مزعومہ اخلاق کو بنیاد بنا کر اسلام کے ایک اہم فریضے کا ہی انکار کر رہے ہیں ۔

اس بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے سیرتِ طیبہ کے اہم ترین معرکے غزوئہ بدر کی چند جھلکیاں بھی پڑھتے ہیں تاکہ ان لوگوں کے اس باطل دعویٰ کی حقیقت آشکارا ہو جائے کہ زمانۂ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد و قتال تھا یا نہیں؟

کون،کہاں قتل ہوگا؟
حضرت انس رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ جس شب کی صبح کو بدر کا میدانِ کارزار گرم ہونے والا تھا، اس شب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو میدانِ کارزار کی طرف لے کر چلے تاکہ اہل مکّہ کی قتل گاہیں ہم کو آنکھوں سے دکھلا دیں، چنانچہ آپااپنے دست مبارک سے اشارہ فرماتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے ھذا مصرع فلان غداً ان شاء اللّٰہ (یہ ہے فلاں کی قتل گاہ صبح کو ان شاء اللہ) اور مقام قتل پر ہاتھ رکھ کر نام بنام اسی طرح صحابہ کو بتلاتے رہے۔ قسم ہے اس خدا کی جس نے آپاکو حق دے کر بھیجا، (اگلے دن) کسی ایک نے بھی اس جگہ سے معمولی تجاوز نہ کیا جہاں آپانے اپنے دست مبارک سے اس کے قتل کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ (رواہ مسلم)

’’اے اللّٰہ! انہیں ہلاک فرما‘‘
معرکہ کے آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قریش کی عظیم الشان جماعت کو پورے ساز وسامان کے ساتھ میدانِ کارزار کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو بارگاہ ایزدی میں عرض کیا:

’’اے اللہ! یہ قریش کا گروہ ہے جو تکبر اور غرور کے ساتھ مقابلہ کیلئے آیا ہے تیری مخالفت کرتا ہے اور تیرے بھیجے ہوئے پیغمبر کو جھٹلاتا ہے، اے اللہ! اپنی فتح و نصرت نازل فرما، جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا، اور اے اللہ ان کو ہلاک کر۔‘‘ (سیرۃ ابن ہشام، فتح الباری)

اے بنی ہاشم! اٹھو
جنگ بدر کی ابتداء میں جب کافر وں کے تین جنگجو میدان میں آگے بڑھے اور انہوں نے مسلمانوں سے اپنے مدّ مقابل طلب کئے تو انصارِ مدینہ میں سے تین حضرات ان کے مقابلے کیلئے نکلے، انہیں دیکھ کر مشرکین مکّہ نے کہا کہ ہم تو اپنی قوم کے افراد سے ہی مقابلہ کریں گے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن الحارث رضی اللہ عنہم کو نام بنام پکار کر ان کے مقابلے کیلئے نکلنے کا حکم فرمایا۔ اس موقع پر آپا نے ارشاد فرمایا:

’’اے بنی ہاشم! اٹھو اس حق کے ساتھ جس کو اللہ نے تمہارے نبی کو دے کر بھیجا ہے، یہ لوگ باطل کو لے کر اللہ کا نور بجھانے آئے ہیں۔‘‘

اے اللّٰہ! میں تیرے عہد کے وفا کی درخواست کرتا ہوں
جب میدان کارزار گرم ہوگیا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے بنائے گئے چھپّر سے برآمد ہوئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صفوف کو ہموار کیا اور پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لئے ہوئے عریش (چھپّر) میں واپس تشریف لے گئے اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تلوار لے کر چھپّر کے دروازے پر پہریداری کیلئے کھڑے ہوگئے، حضور پر نورانے جب اپنے اصحاب اور احباب کی قلت اور بے سروسامانی کو اور اعداء کی کثرت اور قوت کو دیکھا تو نماز کیلئے کھڑے ہوگئے، دورکعت نماز پڑھی اور دعاء میں مشغول ہوگئے اور یہ دعاء فرمانے لگے:

’’اے اللہ! میں تیرے عہد اور وعدہ کی وفا کی درخواست کرتا ہوں اور اے اللہ! اگر تو چاہے تو تیری پرستش نہ ہو۔‘‘

اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خشوع و خضوع کی ایک خاص کیفیت طاری تھی۔ بارگاہ خداوندی میں کبھی سر بسجود تضرع و ابتہال فرماتے اور کبھی سائلانہ اور فقیرانہ انداز میں ہاتھ پھیلا پھیلا کر فتح و نصرت کی دعا مانگتے تھے۔ محویت کا یہ عالم تھا کہ دوش مبارک سے چادرگر پڑتی تھی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے بدر کے دن کچھ قتال کیا اور آپاکی طرف آیا، دیکھا کہ آپاسر بسجود ہیں اور یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ کہتے جاتے ہیں، میں لوٹ گیا اور قتال میں مصروف ہوگیا، کچھ دیر بعد پھر آپاکی طرف آیا پھر اسی حال میں پایا۔ تین مرتبہ اسی حالت میں پایا، چوتھی بار اللہ نے آپاکو فتح دی۔ (النسائی والحاکم، فتح الباری)

صحیح مسلم میں ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب بدر کا دن ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مشرکین مکہ ایک ہزار ہیں اور آپاکے اصحاب تین سو سے کچھ زیادہ ہیں، تو آپاعریش (چھپّر) میں تشریف لے گئے اور قبلہ رو ہو کر بارگاہ خداوندی میں دعاء کے لئے ہاتھ پھیلائے:

’’اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اس کو پورا فرما۔ اے اللہ! اگر مسلمانوں کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر زمین میں تیری پرستش نہ ہوگی۔‘‘

دیر تک ہاتھ پھیلائے ہوئے یہی دعا فرماتے رہے کہ ’’اے اللہ! اگر یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر زمین پر تیری پرستش نہ ہوگی۔‘‘ اسی حالت میں چادر مبارک دوش مبارک سے گر پڑی۔

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چادر اٹھا کر دوش مبارک پر ڈال دی اور پیچھے سے آکر آپ اکی کمر سے چمٹ گئے، یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔ بخاری کی روایت میں ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپاکا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا:

’’ بس کافی ہے! آپ نے اپنے اللہ کے حضور میں بہت الحاح وآہ وزاری کی۔‘‘

اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

’’بس اللہ سے آپ کا یہ سوال کافی ہے، وہ اپنے وعدہ کو ضرور پورا فرمائے گا۔‘‘

اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

(ترجمہ) ’’یاد کرو اس وقت کو کہ جب تم اللہ سے فریاد کر رہے تھے، پس اللہ نے تمہاری دعا قبول کی کہ میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا جو یکے بعد دیگرے آنے والے ہوں گے اور نہیں بنایا اللہ نے اس امداد کو مگر محض تمہاری بشارت اور خوشخبری کیلئے اور اس لئے کہ تمہارے دل مطمئن ہوجائیں اور حقیقت میں مدد نہیں مگر اللہ کی جانب سے، بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘

صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ آپااس وقت عریش (چھپّر) سے باہر تشریف لائے اور زبان مبارک پر یہ آیت تھی:

(ترجمہ) ’’عنقریب کافروں کی یہ جماعت شکست کھائے گی اور پشت پھیر کر بھاگے گی۔‘‘

ابن اسحٰق کی روایت میں ہے کہ دعا مانگتے مانگتے آپ اپر نیند طاری ہوگئی، تھوڑی دیر بعد آپ ابیدار ہوئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا:

’’اے ابوبکر تجھ کو بشارت ہو، تیر ے پاس اللہ کی مدد آگئی۔ یہ جبرئیل امین گھوڑے کی باگ پکڑے ہوئے ہیں، دانتوں پر ان کے غبار ہے۔‘‘

’’وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘
معرکۂ بدر کے دوران ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عریش سے باہر تشریف لائے اور جہاد و قتال کی ترغیب دی اور فرمایا:

’’قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، آج جو شخص صبر و تحمل اخلاص اور صدق نیت کے ساتھ اللہ کے دشمنوں سے سینہ سپر ہو کر جہاد کرے گا اور پھر اللہ کی راہ میںمارا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو ضرور جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘

عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اس وقت کچھ کھجوریں تھی، جن کے کھانے میںمشغول تھے۔ یکایک جب یہ کلمات طیبات ان کے کان میں پہنچے تو سنتے ہی بول اٹھے:

’’واہ، واہ میرے اور جنگ کے مابین فاصلہ ہی کیا رہ گیا، مگر صرف اتنا کہ یہ لوگ مجھ کو قتل کر ڈالیں۔‘‘

یہ کہہ کر کھجوریں ہاتھ سے پھینک دیں اور تلوار لے کر جہاد شروع کیا اور لڑنا شروع کیا، یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ

عوف بن حارث رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! پروردگار کو بندہ کی کیا چیز ہنساتی ہے۔‘‘ (یعنی خوش کرتی ہے)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ کا برہنہ ہو کر خدا کے دشمن کے خون سے اپنے ہاتھ کو رنگ دینا۔‘‘

عوف رضی اللہ عنہ نے یہ سنتے ہی زرہ اتار کر پھینک دی اور تلوار لے کر قتال شروع کیا، یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ

لیکن وہ اللّٰہ نے پھینکی
معرکہ کی ابتداء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل امین کے اشارے سے ایک مشت خاک لے کر مشرکین کے چہروں پر پھینک ماری اور صحابہ کو حکم دیا کہ کافروں پر حملہ کرو، مشرکین میں سے کوئی بھی ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ اور ناک اور منہ میں یہ مٹی نہ پہنچی ہو۔ خدا ہی کو معلوم ہے کہ اس مشتِ خاک میں کیا تاثیر تھی کہ اس کے پھینکتے ہی دشمن بھاگ اٹھے۔ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی:

(ترجمہ) ’’اور نہیں پھینکی وہ مشتِ خاک آپ نے جس وقت کہ آپ نے پھینکی، لیکن اللہ نے پھینکی۔‘‘

ہم نے ا پنے ربّ کا وعدہ سچا پایا
انس بن مالک رضی اللہ عنہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوبیس سرداران قریش کی لاشوں کو ایک نہایت خبیث، ناپاک اور گندے کنویں میں ڈالنے کا حکم دیا ، کنویں میں جو ڈالے گئے وہ سردار کفار تھے اور باقی مقتولین کسی اور جگہ ڈلوادئیے گئے۔اور آپاکی یہ عادت شریفہ تھی کہ جب آپاکسی قوم پر غلبہ اور فتح پاتے تو تین شب وہاں قیام فرماتے۔ اسی عادت کے مطابق جب تیسرا روز ہواتو آپانے سواری پر زین کسنے کا حکم دیا۔ حسب الحکم پھر آپاچلے اور صحابہ آپاکے پیچھے چل رہے تھے۔ صحابہ کا یہ خیال تھا کہ شاید کسی ضرورت کیلئے تشریف لے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ آپااس کنویں کے کنارے پر جا کھڑے ہوئے اور نام بنام فلاں بن فلاں کہہ کر آواز دی اور یا عتبہ اور یا شیبہ اور یا امیّہ اور یا اباجہل اس طرح نام لے کر پکارا اور فرمایا:

’’تم کو یہ اچھا نہ معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے بے شک جس چیز کا ہمارے ربّ نے ہم سے وعدہ کیا ہم نے اس کو حق پایا۔ کیا تم نے بھی اپنے ربّ کے وعدہ کوحق پایا؟‘‘ (بخاری)

ابن اسحٰق کی روایت میں اس قدر اضافہ ہے کہ ’’اے گڑھے والو! تم اپنے نبی کے حق میں بہت بُرا قبیلہ تھے، تم نے مجھ کو جھٹلایا اور لوگوں نے میری تصدیق کی، تم نے مجھ کو نکالا اور لوگوں نے ٹھکانہ دیا۔ تم نے مجھ سے قتال کیا اور لوگوں نے میری مدد کی۔ امین کو تم نے خائن بتلایا اور صادق کو کاذب کہا۔ اللہ تم کو بری جزا دے۔‘‘ بخاری اور مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ کیاآپ بے جان لاشوں سے کلام فرماتے ہیں؟‘‘ آپ انے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میرے کلام کو تم ان سے زیادہ نہیں سنتے، مگر وہ جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ (جاری ہے …)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
فتنۂ انکار ِ جہاد کا دوسرا نظریہ ۲
اگر کوئی ماہر ڈاکٹر آپریشن تھیٹر میں انتہائی غور و خوض کے بعد یہ رائے دے کہ اس مریض کے جسم میں جراثیم اس طرح پھیل گئے ہیں کہ اب اس کی زندگی بچانے کیلئے ضروری ہے کہ اس شخص کی ٹانگ کاٹ دی جائے ورنہ ممکن ہے کہ خراب اور سڑی ہوئی ٹانگ کے اثراتِ بد پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے لیں اور یہ آدمی اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تو مریض کے رشتہ داروں عزیز و اقارب اور بہی خواہوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جو ایک زندہ شخص کی چیر پھاڑ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دے۔ کوئی ایک زبان ایسی نہیں ملے گی جو اس سنگدلی پر صدائے احتجاج بلند کرے۔ البتہ یہ ضروری ہوگا کہ اپنے مریض کی ٹانگ کاٹنے پر ڈاکٹر کے شکر گزار ہوں گے، اس کی مہارت کے قصیدے پڑھیں اور آخر کار اسے بھاری فیس بھی ادا کریں گے۔

کیا وجہ ہے کہ جو لوگ ڈاکٹر کی اس نشتر زنی کو درست سمجھتے ہیں وہ جہاد کو اﷲ کی رحمت باور کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ جب اﷲ تعالیٰ کا برگزیدہ پیغمبر (صلی اﷲ علیہ وسلم) اپنے تجربے اور وحی الٰہی کے ذریعے یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ لوگ اب کفر و ظلم میں اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ ان کیلئے نصیحت کی کوئی بات اور ہدایت کا کوئی طریقہ کارگر نہیں ہوسکتا، اب یہ لوگ انسانی معاشروں کیلئے ایسا ناسور بن چکے ہیں جنہیں اگر بروقت کاٹ کر جدا نہ کر دیا گیا تو ان کے زہریلے اثرات سے پوری انسانیت متاثر ہوگی اور کفر و شرک‘ ظلم و شقاوت کے جراثیم پوری انسانی سوسائٹی میں پھیل جائیں گے تو وہ حکم ربانی کے تحت اپنے جانبازوں کو ساتھ لے کر میدان جہاد میں آجاتا ہے تاکہ مسلمانوں میں سے خوش بخت اور سعادت مند لوگ شہادت اور غازی ہونے کا شرف حاصل کرسکیں، کافروں کی شان و شوکت ختم ہو اور انسانی معاشرہ کفر و ظلم کے بڑھتے ہوئے جراثیم سے پاک ہو جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے کسی گوشے میں بھی آپ ﷺ کی سیرت اور جہاد کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی شخص جہاد کے معنی میں کتنی تحریف کیو ںنہ کرے اور اس کیلئے من گھڑت تاویلیں پیش کرے لیکن سیرت طیبہ کا ایک ایک ورق اس کی تردید کر دے گا اور مسلمانو ںکو بتائے گا کہ تمہارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے جہاد کس کو کہا تھا؟ خود جہاد کس طرح کیا تھا اور دوسروں کیلئے کس جہاد کی ترغیب دی تھی؟

جی تو چاہتا ہے کہ منکرین ِ جہاد کے پہلے طبقے کے بارے میں مزید چند باتیں بھی لکھی جائیں کیونکہ مرزا غلام قادیانی ملعون کی آراء اور اُس کے افکار بھی اسی کے قریب قریب ہیں اور جہاد کے شرعی معنیٰ میں تحریف بھی اکثر یہ پہلے نظریہ کے ماننے والے ہی کرتے ہیں لیکن چونکہ ایک تو ان کی گمراہی زیادہ واضح ہے اور ہر کس و ناکس ذرا سے غور سے اسے سمجھ سکتا ہے ‘ دوسرا اس موضوع کو ہم نے سمیٹنا بھی ہے ‘ اس لیے منکرین ِ جہاد کے دوسرے نظریے کی طرف آتے ہیں ۔

موجودہ زمانہ کے بہت سے منکرین ِ جہاد نے یہ نظریہ تراشا ہے کہ زمانۂ رسالت میں تو جہاد بمعنی قتال فی سبیل اللہ موجود تھا اور اہل ایمان اور کفار کے درمیان معرکہ آرائیاں بھی برحق ہیں لیکن اب یہ سب کچھ منسوخ ہے اور اس دور میں کفار سے لڑائی کا حکم باقی نہیں رہا ۔ ظاہر ہے کہ اس باطل دعوی کے ثبوت کیلئے کوئی ایک بھی ڈھنگ کی دلیل نہیں ہے ‘ اس لیے یہ عام طور پر صرف اپنے تخیلات اور قیاس آرائیوں پر ہی گزارہ کرتے ہیں ۔ اگر یہ کسی ایک آیت میں غلط تاویل کر کے اپنی بات منوانا چاہتے ہیں تو خود دوسری آیت ہی ان کی تردید کر دیتی ہے۔

ان کے بے بنیاد خیال کی غلطی تو اسی سے واضح ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ کے بالکل آخری دنوں میں حضرت اسامہ رضی اﷲ عنہ کی سرکردگی میں لشکر اسلام کو روانہ فرما کر مسلمانوں کو اس بات کی عملی تعلیم دی تھی کہ جہاد کا عمل صرف اس وقت تک محدود نہیں جب تک اﷲ کے نبی امت کے درمیان موجود ہوں‘ بلکہ اس عمل کو ہمیشہ قائم و دائم رہنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین نے جہاد کے میدانوں کو آباد رکھتے ہوئے اسلام کو جزیرہ نما عرب سے نکال کر شمالی افریقہ اور افغانستان جیسے دور دراز علاقوں میں پہنچا دیا۔ اپنے وقت کی دو عظیم طاقتوں روم اور ایران کو اس فریضۂ جہاد کے ذریعے مسلمانوں کے سامنے ناک رگڑنے پر مجبو رکر دیا اور دنیا میں کوئی طاقت ایسی نہ رہی جو اسلام کی شان و شوکت اور مسلمانوں کے جان و مال کیلئے خطرہ بن سکے۔

آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس عملی ترغیب کے ساتھ مختلف احادیث میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو جہاد جاری رکھنے کا حکم فرمایا اور اس کی مختلف عملی شکلیں بطور معجزے کے آپﷺ نے خود بیان فرمائیں۔

ا۔ اگر تم نے جہاد چھوڑ دیا تو
حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’جب تم بیع عینہ کرنے لگو گے ( جو سود حاصل کرنے کی ایک شکل ہوتی ہے) اور تم گائے کی دم پکڑ لو گے اور تم کھیتی باڑی پر راضی ہو کر جہاد چھوڑ دو گے تو اﷲ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جو صرف اسی صورت میں دور ہوگی جب تم اپنے دین کی طرف لوٹ آئو گے‘‘ ۔
(ابو دائود شریف ج ۲ ص ۱۳۴)

یہ حدیث ملتے جلتے مختلف الفاظ کے ساتھ مسند احمد‘ کتاب الزہد‘ سنن کبریٰ‘ بیہقی اور مسند ابو یعلیٰ میں بھی منقول ہے۔

۲۔ میری امت سمندروں میں جہاد کرے گی
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اﷲ عنہا کے گھر جایا کرتے تھے وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کھلایا پلایا کرتی تھیں ( کیونکہ وہ آپ ﷺکی رضاعی خالہ ہونے کی وجہ سے مَحرَم تھیں) حضرت ام حرام رضی اﷲ عنہا ‘ حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ کی اہلیہ تھیں۔ ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے۔ حضورﷺ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو نیند آگئی، پھر آپ ﷺ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے۔ ام حرام رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا : ’’اے اﷲ کے رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) آپ کے ہنسنے کی کیا وجہ ہے؟‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے جو سمندر میں اس طرح سوار ہو کر جہاد کریں گے جس طرح بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھتے ہیں۔‘‘ ام حرام رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں میں نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) آپ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں شامل فرما دے پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سر مبارک رکھا اور سوگئے، پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہنستے ہوئے بیدار ہوئے تو ام حرام رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا کہ کس چیز نے آپ کو ہنسایا؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلے جیسی بات ارشاد فرمائی کہ مجھے میری امت کے کچھ لوگ سمندر میں جہاد کرتے ہوئے دکھائے گئے۔ ام حرام رضی اﷲ عنہا نے کہا کہ: اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میرے لئے دعا فرمائیے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے ان میں شامل فرما دے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تم پہلے لشکر والوں میں سے ہو۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں حضرت ام حرام رضی اﷲ عنہا بحری جہاد میں تشریف لے گئیں مگر سمندر سے نکلنے کے بعد اپنی سواری سے گر کر انتقال فرما گئیں۔
(بخاری ۔ مسلم)

ظاہر ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں بحری جہاد کا کوئی امکان نہیں تھا۔ پہلی مرتبہ سمندر میں جہاد کی سعادت حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں حاصل کی تھی۔ صدیوں بعد عثمانی ترکوں کے بحری بیڑوں نے دنیا کے معروف بحری راستوں پر مسلمانوں کا تسلط قائم کرکے اس پیشین گوئی کو عملی شکل دی تھی۔

۳۔ قسطنطنیہ ضرور فتح ہوگا
ایک مرتبہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’قسطنطنیہ ضرور فتح ہوگا۔ اس وقت اس شہر کا امیر بہترین امیر ہوگا اور وہ لشکر بھی بہترین لشکر ہوگا۔‘‘
(مسند احمد)

اسی طرح بخاری شریف اور مسلم شریف میں یہ حدیث بھی منقول ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میری امت کی پہلی فوج جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) پر حملہ آور ہوگی اﷲ تعالیٰ نے اسے بخش دیا ہے۔‘‘

قیصر روم اپنے زمانے کی دو عظیم طاقتوں میں سے ایک تھا اس سے اس کے شہر قسطنطنیہ کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں جب ابھی مسلمان جزیرہ نمائے عرب سے ہی نہیں نکل پائے تھے، ایشیا کے کنارے پر واقع اس شہر کو فتح کرنا مسلمانوں کیلئے ناقابل تصور سمجھا جاسکتا تھا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیث میں جو فضیلت وارد ہوئی ہے اسے حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں نے کئی مرتبہ کوششیں کیں۔ سب سے پہلے امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ۴۸ھ ۶۶۸ ء میں ایک لشکر قسطنطنیہ روانہ فرمایا، اس لشکر میں ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ‘ ابن عباس رضی اﷲ عنہ‘ ابن عمر رضی اﷲ عنہ‘ ابن زبیر رضی اﷲ عنہ‘ عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ‘ ابو درداء رضی اﷲ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم شریک تھے۔ مختلف ادوار حکومت میں اس شہر کی فتح کیلئے مسلمان لشکر کشی کرتے رہے لیکن یہ سعادت بھی اﷲ تعالیٰ نے ایک ترک حکمران محمد الفاتح کی قسمت میں لکھی، جس نے ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کو ۵۳ دنوں کے محاصرے کے بعد اسے مکمل طور پر فتح کر لیا۔

۴۔ ہندوستان پر مسلمان حملہ کریں گے
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’میری امت میں سے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اﷲ نے آگ سے بچا لیا ہے، ایک وہ جماعت جو ہندوستان میں جہاد کرے گی اور دوسری وہ جماعت جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگی۔‘‘ (نسائی شریف ج ۲ صفحہ ۶۳)

اس حدیث کے ذریعے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی امت کو غزوۂ ہند کی فضیلت بتائی ہے اور ساتھ ہی اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ غزوئہ بدر میں حق و باطل اور کفر و اسلام کے درمیان برپا ہونے والا معرکہ ختم نہیں ہوگا بلکہ مسلمان‘ مشرکین مکہ کی طرح ایک دن مشرکینِ ہند کے خلاف بھی نبرد آزما ہوں گے اور فریضۂ جہاد جاری و ساری رہے گا۔ ہندوستان پر سب سے پہلے کامیاب حملے کا اعزاز محمد بن قاسم کو حاصل ہے۔ ان کے بعد سترہ مشہور حملوں کیلئے سلطان محمود غزنویؒ کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن کشمیر اور احمد آباد میں مسلمانوں کے قتل عام اور ان کے زندہ آگ میں جلائے جانے کے واقعات مسلمانوں کو بتا رہے ہیں کہ بشارت کا یہ دروازہ ابھی بند نہیں ہوا ، خوش بخت لوگ اب بھی عزوئہ ہند کی سعادت کو حاصل کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔

۵۔ جہاد جاری رہے گا:
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جہاد اس وقت تک جاری ہے جب سے اﷲ نے مجھے بھیجا یہاں تک کہ اس امت کا آخری حصہ دجال سے قتال کرے گا۔ (اس جہاد کو) کسی ظالم کا ظلم یا کسی عادل کا عدل ختم نہیں کرسکے گا۔‘‘
(ابو دائود بحوالہ مشکوٰۃ)

اس حدیث شریف میں محبوب خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے واضح طور پر بتا دیا کہ سعادت مندوں اور خوش بخت لوگوں کیلئے جہاد کا راستہ ہمیشہ کیلئے کھلا ہوا ہے اور اسے کوئی شخص بند نہیں کرسکتا۔

مسلمانوں میں سے روح جہاد ختم کرنے کیلئے جو کوششیں ہوئیں ان کی داستان بہت طویل اور دردناک ہے۔ متحدہ ہندوستان کے زمانے میں انگریز کے پروردہ ایک شخص غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور جہاد کی حرمت کا فتویٰ دیا۔ علمائے حق کی جدوجہد سے قادیانی فتنہ تو بے نقاب ہو گیا لیکن بعد ازاں کچھ ایسے لوگوں نے مسلمانوں کو جہاد سے روکنے کی ذمہ داری سنبھالی جو بظاہر تو جہاد کا انکار نہیں کرتے تھے لیکن وہ جہاد کی محض ایسی تشریح کرتے جس کا سیرت طیبہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ ایسا جہاد جس میں نہ تیر و تفنگ کی ضرورت پڑے ‘ نہ اس میں زخم لگیں اور نہ اس میں شہادت کی سعادت میسر آئے۔ ظاہر ہے کہ ایسے جہاد کا قرآن و سنت میں ذکر کردہ جہاد سے فرق بالکل واضح ہے۔ آج بھی مسلمانوں کے درمیان ایسے نام نہاد دانشور موجود ہیں جن کے خیال میں کفار اپنے مظالم میں بالکل برحق ہیں اور ان کے خلاف فلسطین و کشمیر میں برسرپیکار مجاہدین دہشت گرد ہیں۔

جہاد کو ختم کرنے کی یہ سب کوششیں اپنی جگہ ہوتی رہیں گی لیکن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے واضح طور پر بتا دیا کہ کسی کا ظلم یا کسی کا عدل اﷲ کے اس فریضے کو ختم نہیں کرسکتا۔ اس لئے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے عشاق ‘ مسلمان مائوں‘ بہنوں کے محافظ اور قرآن و سنت پر پختہ یقین رکھنے والے نوجوان آج اس مادی دور میں بھی اپنا سب کچھ لٹا کر اس فریضے کا احیاء کر رہے ہیں۔

۶۔ مسلمانوں کی ایک جماعت قیامت تک قتال کرے گی
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا اس پر مسلمانوں کی ایک جماعت قتال کرتی رہے گی یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔‘‘ (مسلم بحوالہ مشکوٰۃ)

اس حدیث شریف کا مطلب بالکل واضح ہے کہ اس دین کی بقاء اور تحفظ کیلئے اﷲ تعالیٰ ہر دور اور ہر زمانے میں ایسے مجاہدین کو پیدا فرماتا رہے گا جو اس کے راستے میں کفار سے لڑیں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اسی لئے دیکھیں کہ مسلمان جب مایوسی کے گہرے اندھیروں میں گھرنے لگتے ہیں، وسائل ان کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور دنیا والے ان کو ختم کرنے پر متفق و متحد ہو جاتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ غیب سے کسی مجاہد کو کھڑا کر دیتا ہے اور وہ دوبارہ سے امت میں فریضہ جہاد کا احیاء کرکے امت مسلمہ میں ایک نئی روح پھونک دیتا ہے۔

چونکہ بہت سی احادیث میں مسلمانوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کا ذکر آیا ہے اور اسے مسلمانوں کا نقطئہ عروج بتایا گیا ہے اس لئے شکستہ دلوں سے مایوسی کو دور کرنے کیلئے ہم آخر میں ان مستند روایات کا ذکر کرتے ہیں جس میں اس جہاد کی تفاصیل آئی ہیں۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق کی مشرقی سمت میں سفید مینار کے پاس ( یا دوسری روایت کے مطابق بیت المقدس میں امام مہدی کے پاس) ہوگا اس وقت امام (مہدی) نماز فجر پڑھانے کیلئے آگے بڑھ چکے ہونگے اور نماز کی اقامت بھی ہو چکی ہوگی۔

امام مہدی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو امامت کیلئے بلائیں گے مگر وہ انکار کریں گے اور فرمائیں گے کہ ( یہ اس امت کا اعزاز ہے کہ) اس کے بعض لوگ بعض کے امیر ہیں۔ جب امام (مہدی) پیچھے ہٹنے لگیں گے تو آپ علیہ السلام(ان کی پشت پر ہاتھ رکھ کر) فرمائیں گے کہ تم ہی نماز پڑھائو کیونکہ اس نماز کی اقامت تمہارے لئے ہوچکی ہے، چنانچہ اس وقت کی نماز امام مہدی ہی پڑھائیں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور رکوع سے اٹھ کر ’’سمع اﷲ لمن حمدہ‘‘ کے بعد یہ جملہ ارشاد فرمائیں گے ’’ قتل اﷲ الدجال و اظھر المؤمنین ‘‘ (اﷲ تعالیٰ نے دجال کو قتل کر دیا اور ایمان والوں کو غلبہ عطا فرمایا)

غرض نماز سے فارغ ہو کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دروازہ کھلوائیں گے جس کے پیچھے دجال ہوگا اور اس کے ساتھ سترّ ہزار مسلح یہودی ہوں گے۔ آپ ہاتھ کے اشارے سے فرمائیں گے کہ میرے اور دجال کے درمیان سے ہٹ جائو۔ دجال ‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر اس طرح گھلنے لگے گا جیسے پانی میں نمک گھلتا ہے۔ اس وقت جس کافر پر عیسیٰ علیہ السلام کے سانس کی ہوا پہنچے گی ‘ مر جائے گا اور جہاں تک آپ کی نظر جائے گی وہیں تک سانس پہنچے گا۔

مسلمان پہاڑ سے اتر کر دجال کے لشکر پر ٹوٹ پڑیں گے اور یہودیوں پر ایسا رعب چھائے گا کہ ڈیل ڈول والا یہودی تلوار تک نہ اٹھا سکے گا۔ غرض جنگ ہوگی اور دجال بھاگ کھڑا ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا تعاقب کریں گے اور فرمائیں گے کہ میری ایک ضرب تیرے لئے مقدرہوچکی ہے جس سے تو نہیں بچ سکتا۔ اس وقت آپ علیہ السلام کے پاس دو تلواریں اور ایک حربہ ہوگا جس سے آپ دجال کو بابِ لد پر قتل کردیں گے۔ پاس ہی افیق نامی گھاٹی ہوگی۔ حربہ اس کے سینے کے بیچوں بیچ لگے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا خون جو آپ کے حربہ پر لگ گیا ہوگا مسلمانوں کو دکھائیں گے، بالآخر دجال کے ساتھیوں ( یہودیوں) کو شکست ہو جائے گی اور مسلمان ان کو چن چن کر قتل کریں گے۔ کسی یہودی کو کوئی چیز پناہ نہیں دے گی حتیٰ کہ درخت اور پتھر بول اٹھیں گے کہ یہ ہمارے پیچھے کافر یہودی چھپا ہوا ہے آکر اسے قتل کر دو۔ باقی ماندہ تمام اہل کتاب ایمان لے آئیں گے۔ عیسیٰ علیہ السلام اور مسلمان خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب توڑ دیں گے۔
( بحوالہ علامات قیامت اور نزول مسیح علیہ السلام)

اس سلسلے کی مزید چند باتیں ان شاء اللہ اگلی ملاقات میں عرض کی جائیں گی
( جاری ہے…)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
جہاد اور منکرین ِ جہاد ۳
جن منکرین ِ جہاد نے فریضۂ جہاد کو صرف زمانۂ رسالت کے ساتھ ہی مختص گردانا ، انہوں نے درحقیقت دینِ اسلام کی بنیادوں کو منہدم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار ہا حکمِ جہاد نازل فرما دیا اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عملی شکل کو بالکل واضح فرما دیا ‘ بدر سے لے کر تبوک تک ‘ پھر کسی دلیل کے بغیر یہ گمراہ کن دعویٰ کر دینا کہ یہ سب کچھ تو صرف نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے‘ امت کیلئے ان آیات و غزوات میں کوئی دلیل نہیں ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کل کو کوئی دوسرا ملحد اور زندیق اٹھے اور یوں کہے کہ نماز تو برحق ہے‘ اس کیلئے جو آیات و احادیث بیان کی جاتی ہیں وہ بھی درست ہیں لیکن یہ سب صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھیں ‘ اب ان کا زمانہ نہیں ۔

اسی طرح کوئی شخص زکوٰۃ ، روزے ، حج اور دیگر احکامِ اسلام کے بارے میں بھی کہہ سکتا ہے بلکہ ایک بے دین نے تو بہت پہلے شراب اور خنزیر کی حرمت کے بارے میں ایسا ہی فلسفہ پیش کیا تھا کہ چودہ سو برس پہلے یہ اشیاء چونکہ مضر صحت تھیں ‘ شراب گندے برتنوں میں تیار ہوتی تھی اور خنزیروں کی صفائی ستھرائی کا بھی کوئی انتظام نہیں ، اس لیے یہ اُس وقت تو حرا م تھیں لیکن اب چونکہ شراب حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق تیار کی جاتی ہے اور اس میں مضر جراثیم بھی نہیں ہوتے ، اسی طرح خنزیر وں کی پرورش کیلئے بہترین فارم ہائوس ہیں ‘ جہاں گندگی کا گزر بھی نہیں ہوتا ‘ اس لیے (نعوذ باللہ) یہ اشیاء اب حرام نہیں رہیں۔

اللہ تعالیٰ کی پناہ ایسی گمراہی اور کج فہمی سے کہ جو اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ ابدی فرائض اور دائمی حرمات کو اپنے لغو اور لچر فلسفوں سے ختم کرنے کی کوشش کرے ۔

یادرکھیں کہ جو احکام ‘ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھے ‘ جنہیں ‘’’ خصائص ‘‘ کہا جاتا ہے ‘ یہ صرف وہ ہی احکام ہیں ‘ جن کے بارے میں شریعت نے بالکل وضاحت سے کہہ دیا ہے کہ یہ حکم سب کیلئے نہیں مثلاً چار سے زیادہ نکاح کرنا اور اہلِ علم نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھ کر ان کو واضح کیا ہے ۔ ان کے علاوہ جتنے احکام ہیں ‘ وہ اپنے اوقات اور اپنی شرائط کے ساتھ قیامت تک کے تمام انسانوں کیلئے ہیں ۔

جہاد کے بارے میں کسی ایک مفسر ‘ محدث یا فقیہ نے ’’ اِس زمانے‘‘ اور ’’اُس زمانے‘ ‘ کا فرق بیان نہیں کیا اور نہ ہی اس کو خصائص نبوی میں سے قرار دیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو قرآن مجید نے ایمان والوں کیلئے اسوئہ حسنہ یعنی زندگی گزارنے کا بہترین نمونہ قرار دیا ہے ‘ اب جب تک کسی خاص عمل کے بارے میں کوئی دلیل تخصیص نہ آجائے کہ جس سے یہ پتہ چلے کہ یہ حکم صرف جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہے ‘ بقیہ امت کیلئے نہیں ‘ تب تک یہی سمجھا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اعمال اور احکام کی پیروی کرنے کا حکم تا قیامِ قیامت باقی ہے ۔ جہاد کے بارے میں کسی آیت یا حدیث میں کوئی دلیلِ تخصیص نہیں بلکہ خود قرآن مجید میں دو واضح اشارات ہیں‘ جن سے پتہ چلتا ہے کہ جہاد کا عمل ‘ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی جاری رہے گا ۔

(۱)… غزوئہ احد کے حالات کو ذہن میں رکھیں کہ جب یہ افواہ اڑی کہ رحمت ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا گیا ہے تو کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دل برداشتہ ہو کر میدان سے پیچھے ہٹنے لگے کہ اب لڑنے کا کیا فائدہ ‘ اس بات پر تنبیہ کرنے کیلئے یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی :

وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افا ئِن مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر اللہ شیئا و سیجزی اللہ الشکرین(آل عمران ۱۴۴)
ترجمہ:’’ اور محمد تو ایک رسول ہیں ان سے پہلے بہت رسول گزرے پھر کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا شہید کر دئیے جائیں تو تم الٹے پائوں پھر جائو گے اور جو کوئی الٹے پائوں پھر جائے گا تو اللہ تعالیٰ کا کچھ بھی نہیں بگاڑے گا اور اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو ثواب دے گا ‘‘۔

اس آیت ِ مبارکہ پر غور کریں تو بغیر کسی ادنیٰ تردد کے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حضرت صحابہ رضی اللہ عنہم کو بتایا جا رہا ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا سے پردہ فرما لینا بھی ‘ جہاد چھوڑنے کا بہانہ نہیں بن سکتا اور تم لوگوں نے یہ جہاد ‘ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی جاری رکھنا ہے ۔ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اُن کے بعد تابعین کرام رحمہم اللہ نے کس طرح دل و جان سے اس حکم کو نبھایا ‘ اس کی ایک مختصر سی جھلک یہ فہرست ہے ۔ اس فہرست کو غور سے پڑھیں اور اُن نام نہاد دانشوروں کی عقل و دانش کی داد دیں ‘ جو کہتے ہیں کہ جہاد کا حکم توصرف زمانۂ رسالت کے ساتھ خاص تھا :

عہد صدیقی ؓ کے اقدامات
(۱)…لشکر اسامہ کی روانگی رومیوں کے خلاف (۲)… منکرین، مرتدین اور جعلی نبیوں کی سرکوبی کے لیے گیارہ ٹیمیں روانہ کیں جن کے امراء یہ تھے :

(۱)… خالد بن ولید (۲)… عکرمہ بن ابو جہل (۳)… شرحبیل بن حسنہ (۴)… خالد بن سعید (۵) … عمرو بن عاص (۶)… حذیفہ بن محسن (۷)… عرفجہ بن ہرثمہ (۸) … طریفہ بن عاجز (۹) سوید بن مقرن (۱۰)… علاء بن حضرمی (۱۱)… مہاجربن ابی امیہ رضی اللہ عنہم۔

(۳)… جنگ ذات السلاسل (۴)… جنگ قارن (۵)… جنگ دلجہ (۶)… جنگ لیس (۷)… فتح حیرہ (۸)… فتح انبار (۹)… فتح عین التمر (۱۰)… جنگ حصید (۱۱)… جنگ مضیخ (۱۲)… جنگ فراض (۱۳)… جنگ یرموک ۔

خلیفۂ ثانی سیدنا عمر بن خطاب ؓ کے اقدامات
(۱)… فتح دمشق (۲)… جنگ فحل (۳)… فتح بیسان (۴)… فتح صیدا ء (۵)… فتح حبیل (۶)… فتح عرقہ (۷)… فتح بیروت (۸)… فتح کرک (۹)… جنگ باقشیا (۱۰)… جنگ بویب (۱۱)… جنگ قادسیہ (۱۲)… فتح بابل و کوثی (۱۳)… فتح بہرہ شیر (۱۴)… فتح مدائن (۱۵)… معرکہ جلولا ء (۱۶)… فتح حمص (۱۷)… فتح قنسرین (۱۸)… فتح حلب وانطاکیہ (۱۹)… فتح بفراس و مرعش و حرث (۲۰)… فتح قیساریہ (۲۱)… فتح اجنادین (۲۲)…فتح بیت المقدس (۲۳)… فتح تکریت (۲۴) … فتح جزیرہ (۲۵)… فتح اہواز (۲۶)… فتح مصر (۲۷)… جنگ نہاوند (۲۸)… فتح ہمدان (۲۹)… فتح اردن (۳۰)… فتح رے (۳۱)… فتح جرجان (۳۲)… فتح طبرستان (۳۳)… فتح آذر بیجان (۳۴)… فتح باب (۳۵)… فتح توج (۳۶)… دارابجرہ کی فتح (۳۷)… فتح کرمان (۳۸)… فتح سجستان (۳۹)… فتح مکران (۴۰)… فتح آرمینیا۔

خلیفۂ ثالث عثمان ذوالنورین ؓ کے اقدامات
(۱)… فتح اسکندریہ (بغاوت کے بعد دوبارہ فتح ) (۲)… فتح آرمینیا (بغاوت کے بعد دوبارہ فتح ) (۳)… فتح افریقہ (جس میں طرابلس ، الجیریا ، تیونس ، مراکش اور طنجہ وغیرہ کے علاقے شامل تھے ) (۴)… فتح قبرص (۵)… فتح روڈس وغیرہ ۔

امیر معاویہ بن ابی سفیان ؓ کے اقدامات
(۱)… سندھ کے علاقوں کی فتوحات اور معرکے (۲)… ترکستان کی فتوحات (۳)… شمالی افریقہ کی فتوحات ارواڈ اور روڈس کی فتح (۵)… قسطنطنیہ پر حملے ۔

عبدالملک بن مروان کے اقدامات
افریقی مقبوضات پر دوبارہ قبضہ اور بغاوتوں کا استیصال ۔

ولید بن عبدالملک
(۱)… ترکستان کی فتوحات (۲)… چین پر فوج کشی اور خاقان کی اطاعت (۳)… سمر قند کی فتح (۴)… فتح سندھ (۵)… فتوحات اندلس (۶)… فتح قرطبہ (۷)… تدمیر کی صلح (۸) … طلیطلہ پر قبضہ (۹)… قرمونہ پر قبضہ (۱۰)… اشبیلیہ کی فتح (۱۱)… ماردہ کی فتح (۱۲)… شمالی اندلس کی فتوحات (۱۳)… بشکنس کی فتح (۱۴)… استوانس کی فتح (۱۵)… جلیقیہ کی فتح (۱۶)… فتوحات شام (۱۷)… بحرروم کے جزائر کی فتوحات ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام رحمہم اللہ بلکہ بعد میں آنے والے تمام زمانوں کے مجاہدین کی کاوشیں ‘ کوئی ہوس ملک گیری نہیں تھیں ‘ ان حضرات کے سامنے تو ایسی واضح احادیث مبارکہ تھیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ جہاد کے مبارک اور منور عمل نے قیامت تک جاری رہنا ہے ۔ یہ حضرات انہی بشارتوں کو حاصل کرنے کیلئے میدان ِ جہاد میں اترے اور آج ہم انہی کی بے بہا قربانیوں کی بدولت مسلمان ہیں ۔ ایسی کئی احادیث ’’ القلم کے گذشتہ شمارے میں پیش کی جا چکی ہیں ۔ ایک حدیث مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے :

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا کہ اب (مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ) ہجرت کی ضرورت نہیں رہی لیکن جہاد اور (اُس کی ) نیت تو (ہمیشہ کیلئے ) ہے اور جب تمہیں جہاد کیلئے نکلنے کا حکم دیا جائے تو نکل پڑو ‘‘ ۔ (بخاری ‘الجہاد)

(۲)… قرآن مجید کے ۲۶ ویں پارے میں سورئہ محمد ہے ‘ جس کا دوسرا نام مفسرین کرام نے سورۃ القتال بھی لکھا ہے ‘ اس سورت کی آیت نمبر ۴ میں ایک جملہ ہے:

حتی تضع الحرب او زارھا
’’ (ان کافروں کو قتل کرو ) یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے ‘‘ ۔

اس جملے کے تحت معروف مفسر امام ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں :

امام مجاہدؒ فرماتے ہیں : (کہ مطلب یہ ہے کہ جہاد کا سلسلہ جاری رہے گا ) یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نزول ہو جائے ۔ امام مجاہدؒ نے گویا کہ اس حدیث شریف سے یہ تفسیر سمجھی ہے ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

لا تزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق حتی یقاتل آخر ھم الدجال
یعنی میری امت کی ایک جماعت برابر حق پر ظاہر رہے گی یہاں تک کہ ان کا آخری شخص دجال سے قتال کرے گا ۔ اور مسند احمد اور نسائی کی روایت ہے کہ حضرت سلمۃ بن نفیل رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا لوگوں نے گھوڑوں کو چھوڑ دیا ہے اور اسلحہ رکھ دیا ہے اور ’’جنگ نے اپنے ہتھیار رکھ دئیے ہیں‘‘ اور لوگوں نے کہہ دیا ہے کہ اب قتال ہے ہی نہیں تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اب قتال آچکا ہے میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ لوگوں پر چھائی رہے گی اور جن لوگوں کے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے یہ ان سے لڑیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں ان سے روزی عطا ء فرمائے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم(یعنی قیامت کا وقت ) آجائے گا اور وہ اسی حالت پر ہوں گے خوب سن لو کہ مسلمانوں کی زمین شام میں ہے اور گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت کے دن تک خیر رکھ دی گئی ہے ۔

اور امام قتادہ فرماتے ہیں کہ حتی تضع الحرب اوزارھا کا مطلب یہ ہے کہ شرک باقی نہ رہے اور اس آیت کا مفہوم دوسری آیت وقتلو ھم حتی لا تکون فتنۃ و یکون الدین للہ جیسا ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر )

اسی طرح امام فخر الدین رازی ؒ فرماتے ہیں :

وہ کون سا وقت ہو گا جب جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے گی ؟ ہم کہتے ہیں اس میں کئی اقوال ہیں جن سب کا حاصل یہ ہے کہ یہ وہ وقت ہو گا جب کافروں کی کوئی جماعت ایسی نہیں رہے گی جو مسلمانوں سے لڑ سکے ، کہا جاتا ہے کہ ایسا دجال کے قتل اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت ہو گا ۔ ( تفسیر کبیر )

الحمد للہ تعالیٰ! گزشتہ پوسٹ میں پیش کی گئی روایات ِ احادیث اور آج کی معروضات کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ جہاد کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ صرف زمانۂ رسالت کے ساتھ خاص تھا اور اب اس کا حکم باقی نہیں رہا ‘ سراسر گمراہی اور دجل وفریب ہے ۔ اس امت میں کوئی بھی قابلِ ذکر شخصیت کبھی بھی اس نظریے کی قائل نہیں رہی ہے ۔

یہ نظریہ بلکہ شیطانی وسوسہ دورِ حاضر کی پیدا وار ہے اور اس کا واحد مقصد مسلمانوں کو فریضۂ جہاد سے دور کر کے یہود و نصاریٰ کو خوش کرنا ہے ۔ جس طرح پوری دنیا میں اہلِ ایمان کو کفار کی یلغار کا سامنا ہے ‘ مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا جا رہا ہے ‘ کلمہ گو ہزاروں قیدی کفار کی جیلوں میں سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں اور بالخصوص ہمارے پڑوس ہندوستان میں تو کھلم کھلا مسلمانوں کو ملک بدر کرنے ‘ مساجد منہدم کرنے اور اذان پر پابندی لگانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں‘ ان حالات کے تناظر میں تو ضرورت تھی کہ اہلِ ایمان میں جذبۂ جہاد کو مزید عام کیا جائے اور شوق ِ شہادت سے دلوں کو گرمایا جائے تاکہ زمین میں ہر سو پھیلا ہوا فساد ختم ہو ‘ شعائر اسلام کی حفاظت ہو اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔

لیکن افسوس ہے اُن لوگوں پر جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں لیکن اُن کی تمام ترجدوجہد کا محور صرف یہی ہے کہ اہلِ ایمان کو کیسے فریضۂ جہاد سے دور کیا جائے ۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ لوگ اپنی مذموم کاوشوں میں بری طرح ناکام ہوں گے اور ان شاء اللہ ‘جہادی پرچم پوری آب و تاب کے ساتھ لہراتے رہیں گے ۔
(جاری ہے…)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
جہاد جاری رہے گا (احادیث و واقعات کی روشنی میں)
جہاد اور مجاہدین کے خلاف قلمی محاذ پر بر سرِ پیکار لوگوں کے دو نظریات اور قرآن و سنت کی روشنی میں ان کی تردید ‘ آپ ان پچھلی پوسٹس میں پڑھ چکے ہیں ۔ اب کی پوسٹ میں ہم ان کے تیسرے گمراہ کن نظریے کا جائزہ لیں گے ۔

کفار کی طاقت سے مرعوب اور راہِ الٰہی میں قربانی پیش کرنے سے کنارہ کش لوگ ‘ جب قرآن مجید میں آیات ِ جہاد پڑھتے ہیں اور اُنہیں کلام اللہ کی پوری پوری سورتیں فریضۂ جہاد کے بارے میں نظر آتی ہیں ‘ اسی طرح وہ نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بدر کے میدان میں اور کبھی احد پہاڑ کے دامن میں کھڑے دیکھتے ہیں‘ کبھی پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں مدینہ منورہ کے ارد گرد خندق کھو دتے ، بنو قریظہ کے قتل کا حکم دیتے ، خیبر اور مکہ مکرمہ پر چڑھائی کرتے اور کبھی سینکڑوں میل دور تبوک کی طرف سفر کرتے نظر آتے ہیں تو اُن کی یہ ہمت اور جرأت تو نہیں ہوتی کہ فریضۂ جہاد کا انکار کر دیں یا اس کے شرعی معنی کو بدل کر ہر نیکی کے کام کو جہاد قرار دے ڈالیں تو اس کیلئے وہ ایک نئے گمراہی کے راستے کا انتخاب کرتے ہیں ۔

یہ جہاد کیلئے ایسی خود ساختہ اور من گھڑت شرائط عائد کرتے ہیں ‘ جن کا قرآن و حدیث میں کوئی تذکرہ ہے نہ آج تک کسی مفسر ، محدث یا فقیہ نے اُن کا ذکر کیا ہے ۔ وہ ان مظلوم مسلمانوں کو جو کفار کے ظلم و ستم کا شکار ہوں ‘ بجائے جہاد کی تلقین کرنے کے الٹا اُن کی مسلح جدوجہد کو صرف اس لیے غلط قرار دیتے ہیں کہ یہ کسی منظم حکومت کے ماتحت نہیں ہے ۔ گویا جب تک اُن کی منظم حکومت ( وہ بھی ان نام نہاد دانشوروں کی نظر میں صرف وہ ہی حکومت ہو گی جسے کفار تسلیم کر لیں) قائم نہیں ہوتی ‘ تب تک اُن کا کام صرف مار کھانا اور ظلم سہنا ہی ہے ۔

ان میں سے بعض اقدامی جہاد کی شرائط اٹھا کر دفاعی جہاد پر چسپاں کر دیں گے اور بعض مجاہدین کی تعداد میں کمی کو بہانہ بنا کر جہاد کے غیر شرعی ہونے کے حکم صادر فرما دیں گے ۔ کچھ حضرات استطاعت اور مقابلے کی طاقت نہ ہونے کو بہانہ بنا کر جہاد سے پہلو تہی کریں گے ۔ حالانکہ جہاد کیلئے استطاعت اور تربیت حاصل کرنا ‘ یہ بھی تو خود ایک فرض ہے ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ملیں گے جو باقی تو پورے مدنی دور کے دین پر عمل کریں گے لیکن صرف جہاد کو چھوڑنے کیلئے فوراً الٹی قلابازی لگا کر مکی دور میں پہنچ جائیں گے ۔

اگر ان لوگوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا الگ الگ جائزہ لیا جائے تو یہ پوری ایک کتاب کا موضوع بن جائے گا ۔ اس لیے ہم اصولی طور پر زمانۂ رسالت سے صرف چند ایسے مستند واقعات پیش کرتے ہیں جن سے خود بخود ان لوگوں کے بے بنیاد خیالات کی تردید ہو جاتی ہے ۔

(۱)… صلح حدیبیہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ قریش کا جو آدمی اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر یعنی بھاگ کر محمد ﷺ کے پاس جائے گا ، محمد ﷺ اسے واپس کریں گے ۔ جب رسول کریم ﷺ مدینہ واپس تشریف لے آئے تو ابو بصیرؓ نامی ایک مکّی مسلمان جنہیں مکہ میں اذیتیں دی جاتی تھیں ، وہ چھوٹ کر بھاگ نکلے ۔ قریش نے ان کی واپسی کے لیے دو آدمی بھیجے اور یہ کہلوایا کہ ہمارے اور آپ کے درمیان عہد و پیمان ہے ، اس کی پابندی کیجئے ۔ نبی ﷺ نے ابو بصیر ؓ کو ان دونوں کے حوالے کر دیا ۔ یہ دونوں اسے لا رہے تھے کہ ذوالحلیفہ کے مقام پر ایک چال کے ساتھ ابو بصیر ؓ نے ایک شخص کو قتل کر دیااور دوسرا بھاگ کر مدینے پہنچ گیا۔ نبی ﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ ’’ یہ خوفزدہ نظر آتا ہے ۔ ‘‘ اس نے کہا ’’بخدا ! میرا ساتھی قتل کر دیا گیا ہے اور مجھے بھی قتل کر دیا جائے گا ۔ اتنے میں ابو بصیرؓ آگئے اور بولے:’’ یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ نے آپ کا عہد پورا کر دیا کہ آپ نے مجھے ان کی طرف پلٹا دیا ۔ پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی ۔ ‘‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ اسے کوئی ساتھ مل جائے تو یہ جنگ کی آگ بھڑکا دے گا‘‘ ۔ یہ سن کر ابو بصیر ؓ سمجھ گئے کہ انہیں پھر کافروں کے حوالے کر دیا جائے گا ۔ اس لیے وہ مدینہ سے نکل کر ساحل سمندر پر آگئے ۔ ادھر ابو جندل بن سہیل ؓ بھی چھوٹ بھاگے اور ابو بصیر سے آملے یہاںتک کہ ان کی ایک جماعت اکٹھی ہو گئی ۔ اس کے بعد ان لوگوں کو ملکِ شام آنے جانے والے کسی بھی قریشی قافلے کا پتہ چلتا تو وہ اس سے چھیڑ چھاڑ کر تے اور قافلے والوں کو مار کر ان کا مال لوٹ لیتے۔ قریش نے تنگ آکر نبی ﷺ کو اللہ اور قرابت کا واسطہ دے کر پیغام بھیجا کہ آپ انہیں اپنے پاس بلا لیں اور اب جو بھی آپ کے پاس جائے گا ، مامون رہے گا ۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے انہیں بلوا لیا اور وہ مدینہ آگئے ۔ ( فتح الباری :۷؍۴۳۹،زاد المعاد :۲؍۱۲۲)

ابو بصیرؓ اور ابو جندل رضی اللہ عنہما کے واقعہ سے ثابت ہوا کہ ظلم کے خلاف بدلہ لینے کے لیے منظم حکومت کی صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک کوئی شرط نہ تھی وگرنہ وہ اس شرط کا ضرور اہتمام کرتے ۔لیکن اگر ایسی کوئی شرط نام نہاد دانشوروں کے بقول تھی تو کیا یہ لوگ (نعوذ باللہ) ان صحابہ رضی اللہ عنہم پر اپنی تعریف کی روشنی میں دہشت گردی کا الزام لگانے کی ہمت کریں گے !

(۲)…نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی حارث بن عمیر ؓ کو سفیر بنا کر بصریٰ کے حکمران کے پاس بھیجا تو قیصرروم کے گورنر شرجیل بن عمرو نے انہیں شہید کر دیا ۔ نبی ﷺ نے اپنے ایک صحابی کا بدلہ لینے کے لیے تین ہزار کا ایک لشکر تیار کیا اور اس پر تین امیر مقرر فرمائے ۔ پہلے امیر تھے زید بن حارثہؓ یہ شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابی طالبؓ اور یہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہؓ ، اسے غزوئہ موتہ کہا جاتا ہے ۔ صحیح بخاری میں حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے دوران معرکہ ہی اس کے بارے میں صحابہ کو بتانا شروع کر دیا ( کیونکہ آپ پر وحی نازل ہوتی تھی اور یہ اللہ کے بتانے سے ہی بیان کیا ،) فرمایا علَم جہاد زید ؓ نے پکڑا وہ شہید کر دیے گئے پھر جعفر ؓ نے پکڑا وہ شہید ہو گئے پھر ابن رواحہؓ نے پکڑا وہ بھی شہید ہو گئے ۔ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بھی بہہ رہے تھے ۔پھر اللہ کی تلواروں سے ایک تلوار (خالد بن ولیدؓ ) نے جھنڈا پکڑا تو اللہ نے فتح عطا فرمادی ۔

اب فتح الباری میں ہے کہ ابو قتادہ ؓ کی حدیث ہے :

’’ ثم اخذ اللواء خالد بن ولید ولم یکن من الامراء وھو امیر نفسہ ‘‘

’’ پھر خالد ؓ نے جھنڈا پکڑا اور وہ مقرر نہیں کئے گئے ، وہ خود ہی امیر بن گئے ‘‘ ۔

پھر رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی :

’’ اللھم ھو سیف من سیوفک فانصرہ ‘‘

’’ اے اللہ ! یہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے تو اس کی مدد فرما ‘‘ ۔ ( مسند احمد : ۵؍ ۲۹۹ )

یہی حدیث کتاب الجہاد میں ہے تو وہاں یہ وضاحت ہے :

’’ ثم اخذھا خالد بن الولید من غیر امرۃ ‘‘

’’ پھر جھنڈاخالد بن ولید ؓ نے پکڑ لیا اور انہیں امیر نہیں مقرر کیا گیا ‘‘ ۔

اس حدیث میں بھی غور کریں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بغیر اجازت آگے بڑھے اور جہاد کیا اور اللہ نے فتح عطا فرمائی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا ‘ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس دن نو(۹) تلواریں میرے ہاتھ سے ٹوٹی تھیں ۔سنن ابی دائود میںعوف بن مالک الاشجعی ؓ کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غزوہ میں حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ کو واپسی پر اپنی طرف سے مقرر کردہ امیر ہی قرار دیا ۔

(سنن ابی دائود ، کتاب الجہاد:۲۷۱۹ )

(۳)… ۴؍ ہجری کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عضل اور قارہ (قبائل ) کے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ کچھ لوگوں کو دین سکھانے اور قرآن کی تعلیم دینے کے لیے ہمارے ہمراہ روانہ کیجئے ۔ آپ نے کچھ لوگوں کو سیدنا عاصم بن ثابت ؓ کی امارت میں روانہ کر دیا ۔ جب یہ لوگ رجیع نامی چشمے پر پہنچے تو مذکورہ قبائل کے افراد نے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کو ان کے پیچھے لگا دیا ۔ بنو لحیان کے تقریباً سو تیرا نداز ان کے نشانات قدم دیکھتے ہوئے ان صحابہ تک جا پہنچے ۔ صحابہ کرام ایک ٹیلے پر پناہ گزیں ہو گئے ۔ بنو لحیان نے انہیں گھیرے میں لے کر کہا کہ تمہارے لیے عہد و پیمان ہے کہ اگر تم ہمارے پاس اتر آئو تو ہم تمہارے کسی آدمی کو قتل نہیں کر یں گے ۔ سیدنا عاصمؓ نے اترنے سے انکار کر دیا اور اپنے رفقاء سمیت ان سے جنگ شروع کر دی ۔ بالآخر سات صحابی شہید ہو گئے ۔ بنو لحیان نے اپنا عہد و پیمان پھر دہرایا تو باقی تین صحابی ان کے پاس اتر آئے لیکن انہوں نے قابو پاتے ہی بد عہدی کی اور انہیں اپنی کمانوں کی تانت سے باندھ لیا ۔ اس پر تیسرے صحابی نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ پہلی بد عہدی ہے ، ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا ۔ تو انہوں نے اسے بھی شہید کر ڈالا اور باقی دو صحابہ کو مکہ لے جا کر بیچ دیا ۔‘‘

( صحیح بخاری ۴۰۸۶، ابن ہشام :۲؍۱۶۹)

مذکورہ واقعہ سے ثابت ہوا کہ اگر کہیں تین مسلمان بھی ہوں تو وہ ایک کو اپنا امیر مقرر کر کے ظلم کے خلاف جہاد کا راستہ اختیار کریں گے اور اسلام انہیں اپنے دفاع میں لڑنے کا حق دیتا ہے ۔

(۴)… عہد نبوی میں شہر بن باذان صحابی ؓ یمن کے گورنر مقرر تھے لیکن ان کی وفات پر اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور اپنی قوم کو لے کر صنعاء (دارالحکومت) پر قبضہ جما لیا اور باذان کی بیوی ’’ مرزبانہ‘‘ کو زبردستی اپنے حرم میں شامل کر لیا ۔ اس طرح ایک اسلامی علاقہ کفار کے تسلط میں چلا گیا ۔ چنانچہ فیروز دیلمی قیس بن عبد یغوث ، دادویہ رضی اللہ عنہم اور کچھ دیگر صحابہ نے مرزبانہ کے ساتھ مل کر اسود عنسی کے خلاف کاروائی کا پروگرام تشکیل دیا ۔ حسب پروگروام مر زبانہ نے اس رات اسود عنسی کو بہت زیادہ شراب پلا کر مدہوش کر دیا جبکہ دیگر صحابہ نے اس محل کی دیوار میں نقب لگایا اور اندر جا کر اسود عنسی کو قتل کر دیا ۔ چنانچہ اس طرح اسود عنسی کے غاصبانہ تسلط کا خاتمہ کیا گیا ۔

صحیح روایات کے مطابق نبی کریم ﷺ نے بذریعہ وحی اپنے صحابہ کو اس گوریلا کاروائی سے مطلع کیا اور جب یہ خبر یمن سے مدینہ پہنچی تو ابو بکر ؓ خلیفہ بن چکے تھے ۔

(فتح الباری :۸؍۹۳، دلائل النبوۃ :۵؍۳۳۴تا ۳۳۶)

نبی کریم ﷺ کے دور میں یہ گوریلا کاروائی کی گئی جبکہ یمن میں کوئی ’’منظم حکومت ‘‘ اس وقت موجود نہ تھی بلکہ اسود عنسی جس نے منظم حکومت کا شیرازہ بکھیر ا تھا ، اس کذاب کو ’’غیر علانیہ ‘‘ خفیہ طور پر اور بغیر کسی’’ منظم حکومت ‘‘ کے قتل کر کے اسلامی اقتدار بحال کیا گیا ۔

ان تمام واقعات میں غور کریں تو موجودہ دور میں جب جہاد مسلمانوں کیلئے سانس لینے سے زیادہ ضروری ہو گیا ہے ‘ جہاد کے خلاف جتنے وساوس اور شبہات پیدا کیے جاتے ہیں‘ سب مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ثابت ہوںگے ۔ یہاں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی اہلِ حق کے درمیان امورِ مجتہد فیہا میں نصوص کے ثبوت اور ان کی تطبیق کی بابت اختلاف ہو جاتا ہے لیکن اس کا مقصد کسی فریضے کا انکار ‘ اس میں بے جا تاویل یا اُسے معطل کرنا نہیں ہوتا بلکہ شرعی دلائل کی روشنی میں ‘شرعی حدود کے اندر اپنی رائے کا اظہار کرنا مقصد ہوتا ہے ‘ ایسی صورت میں کسی کی تفسیق اور تضلیل درست نہیں ۔

کچھ لوگوں کا جہاد کے ساتھ یہ بھی عجیب رویہ ہے کہ اتنی عظمت والا عمل ‘ جو فرائض اسلام میں سے ہے‘ یہی تمام مفسرین ‘ محدثین اور فقہاء کا متفقہ فیصلہ ہے ‘ اس کی اہمیت کو امت مسلمہ کے دلوں سے کھرچ کھرچ کر نکالنے کے لیے چند ایسی روایات کا سہارا لیتے ہیں ‘ جو یا تو بے بنیاد اور من گھڑت ہوتی ہیں یا اُن کا صحیح مفہوم نظر انداز کر کے خواہ مخواہ انہیں جہاد کے مقابلے میں پیش کر دیا جاتا ہے ۔ حالانکہ آسان سی بات ہے کہ جب جہاد کی فرضیت ‘ ترکِ جہاد پر وعیدیں اور مجاہدین کے فضائل یہ سب کچھ قرآن مجید کی آیات ِ مبارکہ اور صریح و صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں تو پھر دین ِاسلام کے کسی اور عمل کو اس کے مقابلے میں لانے کی کیا ضرورت ہے ۔

دینِ اسلام کے جتنے بھی احکامات ہیں‘ سب پر عمل ضروری ہے ۔ تمام اعمال کے اپنے اپنے فضائل ہیں ۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ تمام کام بھی کیے ہیں اور ساتھ جہاد بھی کیا ہے ۔ پھر آج کے کسی مسلمان کیلئے یہ کیسے جائز ہو گیا کہ وہ کسی ایک کام کا انتخاب کر لے اور باقی کا انکار کر دے یا اُس کی اہمیت اور عظمت کو کم کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہو جائے ۔

رحمت ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب قیامت تک جہاد جاری رہنے کی پیشین گوئی فرمائی ہے ۔ ایسی کئی روایات ہم اس سلسلۂ مضامین کیلئے عرض کر چکے ہیں ۔ آج دنیا بھر میں جہادی بہاریں امت مسلمہ کیلئے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرن بن کر ان کی عملی تصدیق کر رہی ہیں ۔ اللہ کے نیک بندے ‘ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار امتی اپنے مقدس لہو سے فریضۂ جہاد کی آبیاری کر رہے ہیں ۔ راہِ حق کے فدائیوں کے جذبات قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یادیں تازہ کر رہے ہیں ۔ مسلمان خواتین کے خیالات کا رخ بھی بدل رہا ہے اور وہ حضرت ام عمارہؓ ، حضرت خنساء ؓ اور حضرت صفیہؓ کا کردار ادا کر نے کیلئے بے تاب ہیں ۔ مسلمانوں کے معصوم بچے بھی حضرت معاذؓ اور حضرت معوذؓ کے نقشِ قدم پر چلنے کا عہد کر رہے ہیں ۔

ان تمام آسمانی اور زمینی حقائق کے پیش نظر ہمیں یقین ہے کہ منکرینِ جہاد جتنا بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں اور یہود و نصاریٰ کو خوش کرنے کیلئے جس قدر بھی قلم و قرطاس کا دامن داغدار کر لیں ‘ فتنۂ انکار ِجہاد اپنی موت آپ مر جائے گا اور جہاد جاری رہے گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
 
Top