• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانیوں کے چند سوالات اور ان کے جوابات قسط نمبر 10

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
س… یہ کس طرح ظاہر ہوگا کہ آپ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں؟

ج… آپ کا یہ سوال عجیب دلچسپ سوال ہے، اس کو سمجھنے کے لئے آپ صرف دو باتیں پیش نظر رکھیں:

اول:…کتب سابقہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پیش گوئی کی گئی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات و علامات ذکر کی گئی تھیں، جو لوگ ان علامات سے واقف تھے ان کے بارے میں قرآن کریم کا بیان ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا پہچانتے ہیں جیسا اپنے لڑکوں کو پہچانتے ہیں۔ اگر کوئی آپ سے دریافت کرے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے پہچانا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟ تو اس کے جواب میں آپ کیا فرمائیں گے؟ یہی نا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات جو کتب سابقہ میں مذکور تھیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر منطبق کرنے کے بعد ہر شخص کو فوراً یقین آجاتا تھا کہ آپ وہی نبی آخر الزمان ہیں (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جو صفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کی ہیں ان کو سامنے رکھ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کی تعیین میں کسی کو ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں ہوسکتا۔ ہاں! کوئی شخص ان ارشاداتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ناواقف ہو یا کج فطری کی بنا پر ان کے چسپاں کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو، یا محض ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس سے پہلوتہی کرے تو اس کا مرض لاعلاج ہے۔

دوم:…بعض قرائن ایسے ہوا کرتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں آدمی یقین لانے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اسے مزید دلیل کی احتیاج نہیں رہ جاتی، مثلاً آپ دیکھتے ہیں کہ کسی مکان کے سامنے محلے بھر کے لوگ جمع ہیں، پورا مجمع افسردہ ہے، گھر کے اندر کہرام مچا ہوا ہے، درزی کفن سی رہا ہے، کچھ لوگ پانی گرم کر رہے ہیں، کچھ قبر کھودنے جارہے ہیں، اس منظر کو دیکھنے کے بعد آپ کو یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہے گی کہ کیا یہاں کسی کا انتقال ہوگیا ہے؟ اور اگر آپ کو یہ بھی معلوم ہو کہ فلاں صاحب کافی مدت سے صاحبِ فراش تھے اور ان کی حالت نازک تر تھی تو آپ کو یہ منظر دیکھ کر فوراً یقین آجائے گا کہ ان صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کی خاص کیفیت، خاص وقت، خاص ماحول اور خاص حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے، جب وہ پورا نقشہ اور سارا منظر سامنے آئے گا تو کسی کو یہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ یہ واقعی عیسیٰ علیہ السلام ہیں یا نہیں؟

تصور کیجئے! حضرت مہدی عیسائیوں کے خلاف مصروفِ جہاد ہیں، اتنے میں اطلاع آتی ہے کہ دجال نکل آیا ہے، آپ اپنے لشکر سمیت بہ عجلت بیت المقدس کی طرف لوٹتے ہیں، اور دجال کے مقابلے میں صف آراء ہوجاتے ہیں، دجال کی فوجیں اسلامی لشکر کا محاصرہ کرلیتی ہیں، مسلمان انتہائی تنگی اور سراسیمگی کی حالت میں محصور ہیں، اتنے میں سحر کے وقت ایک آواز آتی ہے: “قد اتاکم الغوث!” (تمہارے پاس مددگار آپہنچا!)، اپنی زبوں حالی کو دیکھ کر ایک شخص کے منہ سے بے ساختہ نکل جاتا ہے کہ: “یہ کسی پیٹ بھرے کی آواز معلوم ہوتی ہے۔” پھر اچانک حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے سفید منارہ کے پاس نزول فرماتے ہیں اور عین اس وقت لشکر میں پہنچتے ہیں جبکہ صبح کی اقامت ہوچکی ہے اور امام مصلیٰ پر جاچکا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

یہ تمام کوائف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں جب وہ ایک ایک کرکے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آئیں گے تو کون ہوگا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شناخت سے محروم رہ جائے گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی صفات و علامات، ان کا حلیہ اور ناک نقشہ، ان کے زمانہٴ نزول کے سیاسی حالات اور ان کے کارناموں کی جزئیات اس قدر تفصیل سے بیان فرمائی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ جب یہ پورا نقشہ لوگوں کے سامنے آئے گا تو ایک لمحہ کے لئے کسی کو ان کی شناخت میں تردد نہیں ہوگا۔ چنانچہ کسی کمزور سے کمزور روایت میں بھی یہ نہیں آتا کہ ان کی تشریف آوری پر لوگوں کو ان کے پہچاننے میں دقت پیش آئے گی، یا یہ کہ ان کے بارے میں لوگوں میں اختلاف ہوجائے گا، کوئی ان کو مانے گا اور کوئی نہیں مانے گا، اس کے برعکس یہ آتا ہے کہ مسلمان تو مسلمان، دجال کے لشکر سے نمٹنے کے بعد غیرمذاہب کے لوگ بھی سب کے سب مسلمان ہوجائیں گے اور دنیا پر صرف اسلام کی حکمرانی ہوگی۔

یہ بھی عرض کردینا مناسب ہوگا کہ گزشتہ صدیوں سے لے کر اس رواں صدی تک بہت سے لوگوں نے مسیحیت کے دعوے کئے اور بہت سے لوگ اصل و نقل کے درمیان تمیز نہ کرسکے، اور ناواقفی کی بنا پر ان کے گرویدہ ہوگئے، لیکن چونکہ وہ واقعتا “مسیح” نہیں تھے، اس لئے وہ دنیا کو اسلام پر جمع کرنے کے بجائے مسلمانوں کو کافر بناکر اور ان کے درمیان اختلاف و تفرقہ ڈال کر چلتے بنے۔ ان کے آنے سے نہ فتنہ و فساد میں کمی ہوئی، نہ کفر و فسق کی ترقی رک سکی، آج زمانے کے حالات ببانگ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ وہ اس تاریک ماحول میں اتنی روشنی بھی نہ کرسکے جتنی کہ رات کی تاریکی میں جگنو روشنی کرتا ہے۔ وہ یہ سمجھے کہ ان کی من مانی تاویلات کے ذریعہ ان کی مسیحیت کا سکہ چل نکلے گا، لیکن افسوس کہ ان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمودہ علامات اتنی بھی چسپاں نہ ہوئیں جتنی کہ ماش کے دانے پر سفیدی، کسی کو اس میں شک ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد فرمودہ نقشہ کو سامنے رکھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ارشاد فرمودہ ایک ایک علامت کو ان مدعیوں پر چسپاں کرکے دیکھے، اونٹ سوئی کے ناکے سے گزرسکتا ہے مگر ان مدعیوں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفات و علامات منطبق نہیں ہوسکتیں۔ کاش! ان لوگوں نے بزرگوں کی یہ نصیحت یاد رکھی ہوتی:

بصاحب نظرے بنما گوہر خود را

عیسیٰ نتواں گشت بہ تصدیق خرے چند

خاتم النبیین کا صحیح مفہوم وہ ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے

س… ایک بزرگ نے خاتم النبیین یا لفظ خاتمیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:

“اسلام کو خاتم الادیان کا اور پیغمبر اسلام کو خاتم الانبیاء کا خطاب دیا گیا ہے۔ خاتمیت کے دو معنے ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ کوئی چیز ناقص اور غیرمکمل ہو اور وہ رفتہ رفتہ کامل ہوجائے، دوسرے یہ کہ وہ چیز نہ افراط کی مد پر ہو نہ تفریط کی مد پر بلکہ دونوں کے درمیان ہو جس کا نام اعتدال ہے۔ اسلام دونوں پہلووٴں سے خاتم الادیان ہے، اس میں کمال اور اعتدال دونوں پائے جاتے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں اس عالیشان عمارت کی آخری اینٹ ہوں جس کو گزشتہ انبیاء تعمیر کرتے آئے ہیں، یہ اسلام کے کمال کی طرف اشارہ ہے، اسی طرح قرآن مجید میں ہے کہ مذہب اسلام ایک معتدل اور متوسط طریقہ کا نام ہے اور مسلمانوں کی قوم ایک معتدل قوم پیدا کی گئی ہے اس سے اسلام کے اعتدال کا ثبوت ملتا ہے۔” کیا خاتم النبیین کا یہ مفہوم صحیح ہے اور سبھی فرقوں کا اس پر اتفاق ہے؟ راہنمائی فرماکر ممنون فرماویں۔

ج… “خاتم الانبیاء” کا وہی مفہوم ہے جو قرآن و حدیث کے قطعی نصوص سے ثابت اور امت کا متواتر اور اجماعی عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم “آخری نبی” ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت عطا نہیں کی جائے گی، اس مفہوم کو باقی رکھ کر اس لفظ میں جو نکات بیان کئے جائیں وہ سر آنکھوں پر، اپنی عقل و فہم کے مطابق ہر صاحبِ علم نکات بیان کرسکتا ہے، لیکن اگر ان نکات سے متواتر مفہوم اور متواتر عقیدہ کی نفی کی جائے، تو یہ ضلالت و گمراہی ہوگی اور ایسے نکات مردود ہوں گے۔

خاتم النبیین اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام

س… خاتم النبیین کے کیا معنی ہیں؟ آخری نبی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت نہیں عطا کی جائے گی۔ مولانا صاحب! اگر خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا تو حضرت عائشہ کے قول کی وضاحت کردیں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: “اے لوگو! یہ تو کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین تھے، مگر یہ نہ کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔” (حضرت عائشہ، تکملہ مجمع البحار)۔

ج… اسی تکملہ مجمع البحار میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ ارشاد، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کے پیش نظر فرمایا ہے۔ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ملی تھی اس لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا منشا یہ ہے کہ کوئی بددین خاتم النبیین کے لفظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نہ آنے پر استدلال نہ کرے، جیسا کہ مرزا قادیانی نے کہا ہے کہ آیت خاتم النبیین حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کو روکتی ہے۔ پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ ارشاد مرزا قادیانی کی تردید و تکذیب کے لئے ہے۔

س… مہدی اس دنیا میں کب تشریف لائیں گے؟ اور کیا مہدی اور عیسیٰ ایک ہی وجود ہیں؟

ج… حضرت مہدی رضوان اللہ علیہ، آخری زمانہ میں قربِ قیامت میں ظاہر ہوں گے، ان کے ظہور کے تقریباً سات سال بعد دجال نکلے گا اور اس کو قتل کرنے کے لئے عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو الگ الگ شخصیتیں ہیں۔ مرزا قادیانی نے خودغرضی کے لئے عیسیٰ اور مہدی کو ایک ہی وجود فرض کرلیا، حالانکہ تمام اہل حق اس پر متفق ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی علیہ الرضوان دونوں الگ الگ شخصیتیں ہیں۔

نبوت تشریعی اور غیرتشریعی میں فرق

س… ام الموٴمنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں:

“قولوا انہ خاتم النبیین ولا تقولوا لا نبی بعدہ۔”

ج… تکملہ مجمع البحار میں علامہ محمد طاہر پٹنی نے یہ قول نقل کرکے لکھا ہے:

“وھذا ناظر الی نزول عیسیٰ۔”

یعنی یہ ارشاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے پیش نظر فرمایا۔

س… امام عبدالوہاب شعرانی فرماتے ہیں: “مطلق نبوت نہیں اٹھائی گئی محض تشریعی نبوت ختم ہوئی ہے۔ جس کی تائید حدیث میں حفظ القرآن ․․․․الخ۔ سے بھی ہوتی ہے (جس کے معنی یہ ہیں کہ جس نے قرآن حفظ کرلیا اس کے دونوں پہلووٴں سے نبوت بلاشبہ داخل ہوگئی) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول مبارک “لا نبی بعدی ولا رسول” سے مراد صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو شریعت لے کر آئے۔ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں: “جو نبوت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے منقطع ہوئی ہے وہ صرف غیرتشریعی نبوت ہے نہ کہ مقامِ نبوت۔” اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے اس لئے اس نے ان کی خاطر تشریعی نبوت باقی رکھی۔ مذکورہ بالا دو اقوال واضح فرمادیں۔ تشریعی اور غیرتشریعی بھی واضح فرمادیں، کیا اس کو اپنے لئے دلیل بناسکتے ہیں؟

ج… شیخ ابن عربی اولیاء اللہ کے کشف و الہام کو “نبوت” کہتے ہیں اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کو جو منصب عطا کیا جاتا ہے اسے “نبوت تشریعی” کہتے ہیں۔ یہ ان کی اپنی اصطلاح ہے۔ چونکہ انبیاء کرام کی نبوت ان کے نزدیک تشریع کے بغیر نہیں ہوتی اس لئے ولایت والی نبوت واقعتا نبوت ہی نہیں۔ علامہ شعرانی اور شیخ ابن عربی بھی انبیاء کرام والی نبوت (جو ان کی اصطلاح میں نبوت تشریعی کہلاتی ہے) کو ختم مانتے ہیں اور ولایت کو جاری۔ اور یہی عقیدہ اہل سنت والجماعت کا ہے، فرق صرف اصطلاح کا ہے۔ والله اعلم!

کیا پاکستانی آئین کے مطابق کسی کو مصلح یا مجدد ماننا کفر ہے؟

س… آپ کے اور میرے علم کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی علیہ السلام دنیا میں تشریف لائیں گے، لیکن پاکستانی آئین کے مطابق، جو بھٹو دور میں بنا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی مصلح، کوئی مجدد یا کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اگر کوئی شخص اس بات پر یقین رکھتا ہے تو وہ غیرمسلم ہے۔ اس لحاظ سے تو میں اور آپ بھی غیرمسلم ہوئے، کیونکہ آپ نے بعض سوالات کے جوابات میں کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی تشریف لائیں گے، براہ مہربانی اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں۔

ج… جناب نے آئین پاکستان کی جس دفعہ کا حوالہ دیا ہے اس کے سمجھنے میں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، اور آپ نے اس کو نقل بھی غلط کیا ہے۔ آئین کی دفعہ ۲۶۰ (۳) کا پورا متن یہ ہے:

“جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم (جو آخری نبی ہیں) کے خاتم النبیین ہونے پر قطعی اور غیرمشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا جو شخص کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے وہ آئین یا قانون کی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہے۔”

آئین کی اس دفعہ میں ایک ایسے شخص کو غیرمسلم کہا گیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت جاری ہونے کا قائل ہو، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کے حصول کا مدعی ہو یا ایسے مدعیٴ نبوت کو اپنا دینی پیشوا تسلیم کرتا ہو۔

حضرت مہدی رضی اللہ عنہ نبی نہیں ہوں گے، نہ نبوت کا دعویٰ کریں گے، اور نہ کوئی ان کو نبی مانتا ہے۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بلاشبہ نبی ہیں، مگر ان کو نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں ملی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سو سال پہلے مل چکی ہے۔ مسلمان ان کی تشریف آوری کے بعد ان کی نبوت پر ایمان نہیں لائیں گے بلکہ مسلمانوں کا ان کی نبوت پر پہلے سے ایمان ہے، جس طرح حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور دیگر انبیاء کرام کی نبوت پر ایمان ہے (علیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰت والتسلیمات)۔ اس لئے آئینِ پاکستان کی اس دفعہ کا اطلاق نہ تو حضرت مہدی رضی اللہ عنہ پر ہوتا ہے، کیونکہ وہ مدعیٴ نبوت نہیں ہوں گے، نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ہوتا ہے، کیونکہ ان کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی ہے نہ کہ بعد کی، اور نہ ان مسلمانوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جو ان حضرات کی تشریف آوری کے قائل ہیں۔

اس دفعہ کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حاصل ہونے والی نبوت کا دعویٰ کیا۔ “یا ایھا الناس انی رسول الله الیکم جمیعا۔” (الاعراف:۱۵۸) کا نعرہ لگایا، اور لوگوں کو اس نئی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی، نیز اس کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنہوں نے ایسے لوگوں کو اپنا دینی مصلح اور پیشوا تسلیم کیا اور ان کی جماعت میں داخل ہوئے۔

امید ہے یہ مختصر سی وضاحت آپ کی غلط فہمی رفع کرنے کے لئے کافی ہوگی۔

ختم نبوت کی تحریک کی ابتداء کب ہوئی؟

س… ختم نبوت کی تحریک کی ابتداء کب ہوئی؟ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب جھوٹے مدعیانِ نبوت نے دعویٰ کیا تھا یا کسی اور دور میں؟

ج… ختم نبوت کی تحریک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: “انا خاتم النبیین لا نبی بعدی” سے ہوئی۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مدعیانِ نبوت کے خلاف جہاد کرکے اس تحریک کو پروان چڑھایا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کس عمر میں نازل ہوں گے؟

س… ہم سب مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ حدیث کی روشنی میں بیان کریں کہ وہ دوبارہ اس دنیا میں پیدا ہوں گے یا پھر اس عمر میں تشریف لائیں گے جس عمر میں آپ کو آسمان پر اللہ تعالیٰ نے اٹھالیا۔ میں ایک مرتبہ پھر آپ سے گزارش کروں گا کہ جواب ضرور دیں اس طرح ہوسکتا ہے کہ آپ کی اس کاوش سے چند قادیانی اپنا عقیدہ درست کرلیں، یہ ایک قسم کا جہاد ہے، آپ کی تحریر ہمارے لئے سند کا درجہ رکھتی ہے۔

ج… حضرت عیسیٰ علیہ السلام جس عمر میں آسمان پر اٹھائے گئے اسی عمر میں نازل ہوں گے، ان کا آسمان پر قیام ان کی صحت اور عمر پر اثر انداز نہیں، جس طرح اہل جنت، جنت میں سدا جوان رہیں گے اور وہاں کی آب و ہوا ان کی صحت اور عمر کو متأثر نہیں کرے گی۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام جہاں اس وقت قیام فرما ہیں، وہاں زمین کے نہیں آسمان کے قوانین جاری ہیں، قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ: “تیرے رب کا ایک دن تمہاری گنتی کے حساب سے ایک ہزار برس کے برابر ہے۔”

اس قانونِ آسمانی کے مطابق ابھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہاں سے گئے ہوئے دو دن بھی نہیں گزرے۔ آپ غور فرماسکتے ہیں کہ صرف دو دن کے انسان کی صحت و عمر میں کیا کوئی نمایاں تبدیلی رونما ہوجاتی ہے؟

مشکل یہ ہے کہ ہم معاملاتِ الٰہیہ کو بھی اپنی عقل و فہم اور مشاہدہ و تجربہ کے ترازو میں تولنا چاہتے ہیں، ورنہ ایک موٴمن کے لئے فرمودہٴ خدا اور رسول سے بڑھ کر یقین و ایمان کی کون سی بات ہوسکتی ہے؟

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ پیدا ہونے کا سوال تو جب پیدا ہوتا کہ وہ مرچکے ہوتے، زندہ تو دوبارہ پیدا نہیں ہوا کرتا، اور پھر کسی مرے ہوئے شخص کا کسی اور قالب میں دوبارہ جنم لینا تو “آواگون” ہے جس کے ہندو قائل ہیں۔ کسی مدعیٴ اسلام کا یہ دعویٰ ہی غلط ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روحانیت نے اس کے قالب میں دوبارہ جنم لیا ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام بحیثیت نبی کے تشریف لائیں گے یا بحیثیت امتی کے؟

س… حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے۔ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام بحیثیت نبی تشریف لائیں گے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کی حیثیت سے؟ اگر آپ بحیثیت نبی تشریف لائیں گے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین کیسے ہوئے؟

ج… حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب تشریف لائیں گے تو بدستور نبی ہوں گے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے ان کی شریعت منسوخ ہوگئی اور ان کی نبوت کا دور ختم ہوگیا۔ اس لئے جب وہ تشریف لائیں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی پیروی کریں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے آئیں گے۔ ان کی تشریف آوری ختم نبوت کے خلاف نہیں کیونکہ نبی آخر الزمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مل چکی تھی۔

کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کے متعلق قرآن خاموش ہے؟

س… زید یہ اعتقاد رکھے اور بیان کرے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے یا وفات دئیے جانے کے بارے میں قرآن پاک خاموش ہے، جیسا کہ زید کی یہ عبارت ہے: “قرآن نہ اس کی تصریح کرتا ہے کہ اللہ ان کو جسم و روح کے ساتھ کرہٴ زمین سے اٹھاکر آسمان پر کہیں لے گیا اور نہ یہی صاف کہتا ہے کہ انہوں نے زمین پر طبعی موت پائی اور صرف ان کی روح اٹھائی گئی، اس لئے قرآن کی بنیاد پر نہ تو ان میں سے کسی ایک پہلو کی قطعی نفی کی جاسکتی ہے اور نہ اثبات۔”

تو زید جو یہ بیان کرتا ہے، آیا اس بیان کی بنا پر مسلمان کہلائے گا یا کافر؟ وضاحت فرمائیں۔

ج… جو عبارت سوال میں نقل کی گئی ہے، یہ مودودی صاحب کی تفہیم القرآن کی ہے، بعد کے ایڈیشنوں میں اس کی اصلاح کردی گئی ہے۔ اس لئے اس پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا جاسکتا البتہ گمراہ کن غلطی قرار دیا جاسکتا ہے۔

قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کی تصریح “بل رفعہ الله الیہ” اور “انی متوفیک ورافعک الی” میں موجود ہے۔ چنانچہ تمام ائمہ تفسیر اس پر متفق ہیں کہ ان آیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کو ذکر فرمایا ہے اور رفع جسمانی پر احادیث متواترہ موجود ہیں۔ قرآن کریم کی آیات کو احادیث متواترہ اور امت کے اجماعی عقیدہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ آیات رفع جسمانی میں قطعی دلالت کرتی ہیں اور یہ کہنا غلط ہے کہ قرآن کریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کی تصریح نہیں کرتا۔
 
Top