ثناء قادری
رکن ختم نبوت فورم
ہمارےقادیانی دوست اپنے اعتقادات کی طرح کپڑے بدلتے ہیں اور کپڑوں کی طرح اپنے اعتقادات تبدیل کرتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ پنجبابی پگڑی چلتی تھی۔ فرق یہ تھا کہ سردار کی پگڑی طرے والی اور باقیوں کی نرم، سوائے محافظوں کے۔
آہستہ آہستہ پگڑی صرف سردار کی رہ گئی اور جناح ٹوپی باقیوں کے لیے۔
اب یہ عالم ہے کہ جناح ٹوپی صرف بڑے لوگوں کے لیے یا جامعہ پاس مولویوں کے لیے اور باقیوں کے لیے پٹھانی ٹوپی۔
یہ ہے ترکی برقعہ جو کہ اب قادیانی خواتین کی نشانی ہے۔ مگر کوشش ہوتی ہے کہ کسی سرکاری تصویر میں برقعہ والی عورت نہ آئے
ترکی برقعہ سمیت یہ تین لباس اب قادیانیوں کا امتیازی لباس بن گئے ہیں۔ بند ‘کلٹ’ میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ جب دنیا کے معاشرے سے کٹ گئے اور اندر کی سرداری ہی زندگی کا مطمع نظر بن جائے تو لباس بھی بدل جاتے ہیں۔
مرزا مسرور اپنی بیگم کے برقعہ پر شرمندہ؟
جب سے یورپ میں برقعہ پر بحث ہوئی ہے، مرزا صاحب کی بیگم غائب۔ کسی سفر پر، کسی جگہ بھی بیگم کی تصویر نہیں، اور نہ ہی کسی اور خاتون خانہ کی۔ وجہ ہے برقعہ۔ آگر خاندان کی عورتیں برقعہ نہ پہنے ہوئے دکھ گئیں تو جماعت کو کیا منہ دکھائیں گے۔ یہ ہوتی ہے منافقت کی سزا، اور ان تمام مرزا خاندان کے سرداروں کی کئی دہائیوں سے عوام پر برقعہ کے مسئلہ پر ظلم ہو رہا ہے، اس کا حساب دینا پڑے گا۔ اس ایک مسئلہ سے ہی اس مذہب کی منافقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مرزا بشیرالدین صاحب تو اتنے دلیر تھے کہ چار بیویاں لے کر انگلستان آ گئے تھے، اور ہر جگہ کسی بیوی کے ساتھ جاتے تھے:
اور مرزا ناصر بھی:
احمدی خلیفو ۔ کچھ تو حق کا ساتھ دو : یا تو برقعہ منع کر دو یا تاویل کر دو یا پھر ہمت کرو۔ یہ بزدلی کیسی؟ اگر یہ آپ کا دھندا محض کاروبار نہیں تو کبھی تو کسی مسئلہ پر کھل کر سیدھی بات کرو۔ کہ ہمیشہ غریب عوام کا خون خشک کرتے رہو گے. یہ بھی بتانا کہ خاندان کے اندر کتنا پردہ ہوتا ہے؟
بالآخر، مکرم مسرور صاحب بمع بیگم، نیو زیلینڈ میں۔ برقعہ اور نقاب برقرار ہے:
ایک زمانہ تھا کہ پنجبابی پگڑی چلتی تھی۔ فرق یہ تھا کہ سردار کی پگڑی طرے والی اور باقیوں کی نرم، سوائے محافظوں کے۔

آہستہ آہستہ پگڑی صرف سردار کی رہ گئی اور جناح ٹوپی باقیوں کے لیے۔

اب یہ عالم ہے کہ جناح ٹوپی صرف بڑے لوگوں کے لیے یا جامعہ پاس مولویوں کے لیے اور باقیوں کے لیے پٹھانی ٹوپی۔

یہ ہے ترکی برقعہ جو کہ اب قادیانی خواتین کی نشانی ہے۔ مگر کوشش ہوتی ہے کہ کسی سرکاری تصویر میں برقعہ والی عورت نہ آئے

ترکی برقعہ سمیت یہ تین لباس اب قادیانیوں کا امتیازی لباس بن گئے ہیں۔ بند ‘کلٹ’ میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ جب دنیا کے معاشرے سے کٹ گئے اور اندر کی سرداری ہی زندگی کا مطمع نظر بن جائے تو لباس بھی بدل جاتے ہیں۔
مرزا مسرور اپنی بیگم کے برقعہ پر شرمندہ؟
جب سے یورپ میں برقعہ پر بحث ہوئی ہے، مرزا صاحب کی بیگم غائب۔ کسی سفر پر، کسی جگہ بھی بیگم کی تصویر نہیں، اور نہ ہی کسی اور خاتون خانہ کی۔ وجہ ہے برقعہ۔ آگر خاندان کی عورتیں برقعہ نہ پہنے ہوئے دکھ گئیں تو جماعت کو کیا منہ دکھائیں گے۔ یہ ہوتی ہے منافقت کی سزا، اور ان تمام مرزا خاندان کے سرداروں کی کئی دہائیوں سے عوام پر برقعہ کے مسئلہ پر ظلم ہو رہا ہے، اس کا حساب دینا پڑے گا۔ اس ایک مسئلہ سے ہی اس مذہب کی منافقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مرزا بشیرالدین صاحب تو اتنے دلیر تھے کہ چار بیویاں لے کر انگلستان آ گئے تھے، اور ہر جگہ کسی بیوی کے ساتھ جاتے تھے:

اور مرزا ناصر بھی:

احمدی خلیفو ۔ کچھ تو حق کا ساتھ دو : یا تو برقعہ منع کر دو یا تاویل کر دو یا پھر ہمت کرو۔ یہ بزدلی کیسی؟ اگر یہ آپ کا دھندا محض کاروبار نہیں تو کبھی تو کسی مسئلہ پر کھل کر سیدھی بات کرو۔ کہ ہمیشہ غریب عوام کا خون خشک کرتے رہو گے. یہ بھی بتانا کہ خاندان کے اندر کتنا پردہ ہوتا ہے؟
بالآخر، مکرم مسرور صاحب بمع بیگم، نیو زیلینڈ میں۔ برقعہ اور نقاب برقرار ہے:
