• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی مشن :یہود ونصاریٰ کی چاکری اور جہاد فی سبیل اﷲ کی مخالفت

عبیداللہ لطیف

رکن ختم نبوت فورم
قادیانی مشن :یہود ونصاریٰ کی چاکری اور جہاد فی سبیل اﷲ کی مخالفت
(Ubaid Ullah Latif, Faisalabadd)

قادیانی مشن :یہود ونصاریٰ کی چاکری اور جہاد فی سبیل اﷲ کی مخالفت
(Ubaid Ullah Latif, Faisalabadd)

محترم قارئین!جس طرح اسلام کے دو حصے ہیں اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور محمدرسول اﷲ ﷺ کی اطاعت۔اسی طرح مرزاقادیانی نے بھی اپنے مذہب کے دو حصے بیان کیے ہیں چنانچہ مرزاقادیانی اپنے مذہب کا اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’سومیرامذہب جس کو میں باربارظاہرکرتاہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ایک یہ کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کریں‘دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں پناہ دی ہو ۔سو وہ سلطنت برطانیہ ہے۔‘‘
(شہادت القرآن صفحہ84مندرجہ روحانی خزائن جلد6صفحہ3800)

مرزاقادیانی کی درج ذیل تحریر سے بھی اس کی سوچ کی عکاسی ہوتی ہے کہ وہ کس حد تک انگریز کی غلامی میں اپنے آپ کو گرا سکتا ہے چنانچہ ملکہ برطانیہ کی چاپلوسی کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’میں اس(اﷲ تعالیٰ)کاشکرکرتاہوں کہ اس نے مجھے ایک ایسی گورنمنٹ کے سایہ رحمت کے نیچے جگہ دی جس کے زیرسایہ میں بڑی آزادی سے اپناکام نصیحت اوروعظ کااداکررہاہوں۔اگرچہ اس محسن گورنمنٹ کا ہر ایک پررعایہ میں سے شکرواجب ہے مگرمیں خیال کرتا ہوں کہ مجھ پر سب سے زیادہ واجب ہے کیونکہ یہ میرے اعلیٰ مقاصدجوجناب قیصرہ ہندکی حکومت کے سایہ کے نیچے انجام پذیرہورہے ہیں ہرگزممکن نہ تھا کہ وہ کسی اور گورنمنٹ کے زیرسایہ انجام پذیرہوسکتے اگرچہ وہ کوئی اسلامی گورنمنٹ ہی ہوتی۔
اب میں حضورملکہ معظمہ زیادہ مصدع اوقات ہونا نہیں چاہتا اوراس دعاپرعریضہ ختم کرتاہوں کہ
اے قادر و کریم اپنے فضل و کرم سے ہماری ملکہ معظمہ کو خوش
رکھ جیساکہ ہم اس کے سایہ عاطفت کے نیچے خوش ہیں ۔اور
اس سے نیکی کر جیسا کہ ہم اس کی نیکیوں اور احسانوں کے نیچے
زندگی بسرکررہے ہیں۔اوران معروضات پر کریمانہ توجہ کرنے
کے لیے اس کے دل میں آپ الہام کرکہ ہرایک قدرت اور
طاقت تجھی کو ہے۔
آمین ثم آمین
الملتمس
خاکسار:میرزاغلام احمدازقادیاں
ضلع گورداسپورہ پنجاب۔‘‘
(تحفہ قیصریہ صفحہ32,31مندرجہ روحانی خزائن جلد12صفحہ284,283)
محترم قارئین!قرآن مقدس والدین کے حقوق کاذکرکرتے ہوئے اولاد کو والدین کے لیے دعاکرنے کی ترغیب دی ہے اور رب کائنات نے دعا کے الفاظ بھی سکھلائے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ
’’اے میرے رب !تو ان(میرے والدین) پراس طرح رحم کر جس طرح انہوں نے مجھ پر بچپن میں کیا۔‘‘
بالکل یہی اسلوب مرزاقادیانی نے اپنے سرپرستوں اورروحانی والدین(گورنمنٹ برطانیہ اورملکہ برطانیہ) کودعا دیتے ہوئے اختیار کیاہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی اپنے آپ کو انگریز کا خود کاشتہ پودا قرار دیتے ہوئے انگریز گورنر کے نام خط میں یوں رقم طراز ہے:
’’صرف یہ التماس ہے کہ سرکار دو لتمدارایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار، جانثار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں ۔ اس خود کاشتہ پودا کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اوراپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں ۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے۔‘‘
(بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد2 طبع چہارم ص 198ازمرزاقادیانی)
جب دین اسلام کے لیے خون بہانے اور جہاد و قتال کی باری آتی ہے تویہی مرزاقادیانی نہ صرف جہاد کو بے ہودہ رسم قرار دیتا ہے بلکہ جہاد فی سبیل اﷲ کو صریحاً حرام قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے:
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
تم میں سے جن کو دین و دیانت سے ہے پیار
اب اس کا فرض ہے کہ وہ دل کرکے استوار
لوگوں کو بتائے کہ اب وقت مسیح ہے
اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص 41 تا44مندرجہ روحانی خزائن ج 17ص 77تا80)
بلکہ اس بات کا بھی اعلان کرتا ہے:
’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھیں اور اشتہار شائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔(سفیدجھوٹ) میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب ، مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے مسلمان اس سلطنت(برطانیہ) کے سچے خیرخواہ ہو جائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔‘‘
(تریاق القلوب ص 28,27 مندرجہ روحانی خزائن ج 15 ص 156,155)
ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی جہاد کو منسوخ قرار دیتے ہوئے لکھتاہے کہ
’’ آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا، خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا۔ اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اس رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کی نافرمانی کرتا ہے جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرما دیا تھا کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیں گے۔ سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں۔ ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا ہے۔‘‘
(اشتہار چندہ مینارۃ المسیح بحوالہ مجموعہ اشتہارات ج 2 ص 408 طبع چہارم)
مزید مرزا غلام احمد قادیانی اپنے مشن کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’ میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کاانکار ہے‘‘
( مجموعہ اشتہارات ج 2 ص 198 طبع چہارم از مرزا غلام قادیانی)
ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کے وقت میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی قتل سے بچا نہیں سکتا تھا اور شیر خوار بچے بھی قتل کیے جاتے تھے۔ پھر ہمارے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کے وقت میں بچوں اور بڈھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیا گیا اور پھر بعض قوموں کے لیے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذہ سے نجات پانا قبول کیا گیا اور پھر مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کر دیا گیا۔‘‘
(اربعین نمبر4 حاشیہ ص13 مندرجہ روحانی خزائن ج 17ص 443)
ایک اورمقام پر اپنی جہاددشمنی واضح کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’پھرمیں اپنے والداوربھائی کی وفات کے بعدایک گوشہ نشین آدمی تھا۔تاہم سترہ برس سے سرکارانگریزی کی امداداورتائیدمیں اپنی قلم سے کام لیتارہا۔اس سترہ برس کی مدت میں جس قدر میں نے کتابیں تالیف کیں‘ان سب میں سرکارانگریزی کی اطاعت اورہمدردی کے لیے لوگوں کوترغیب دی اورجہادکی ممانعت کے بارے میں نہایت موثرتقریریں لکھیں۔اورپھرمیں نے قرین مصلحت سمجھ کراسی امرممانعت جہادکوعام ملکوں میں پھیلانے کے لیے عربی اورفارسی میں کتابیں تالیف کیں جن کی چھپوائی اوراشاعت پرہزارہاروپیہ خرچ ہوئے اوروہ تمام کتابیں عرب اوربلادشام اورروم اورمصر اوربغداداورافغانستان میں شائع کی گئیں۔میں یقین رکھتاہوں کہ کسی نہ کسی وقت ان کااثرہوگا۔کیااس قدربڑی کاروائی اوراس قدردوردرازمدت تک ایسے انسان سے ممکن ہے جودل میں بغاوت کاارادہ رکھتاہو؟پھرمیں پوچھتا ہوں کہ جوکچھ میں نے سرکارانگریزی کی امداداورحفظ امن اورجہادی خیالات کے روکنے کے لیے برابرسترہ سال تک پورے جوش سے پوری استقامت سے کام لیا۔کیااس کام کی اوراس خدمت نمایاں کی اوراس مدت درازکی دوسرے مسلمانوں میں جومیرے مخالف ہیں کوئی نظیرہے؟اگرمیں نے یہ اشاعت گورنمنٹ انگریزی کی سچی خیرخواہی سے نہیں کی تومجھے ایسی کتابیں عرب اوربلادشام اورروم وغیرہ بلاداسلامیہ میں شائع کرنے سے کس انعام کی توقع تھی؟یہ سلسلہ ایک دودن کانہیں بلکہ برابرسترہ سال کاہے اوراپنی کتابوں اوررسالوں کے جن مقامات میں میں نے یہ تحریریں لکھی ہیں ان کتابوں کے نام معہ انکے نمبرصفحوں کے یہ ہیں جن میں سرکارانگریزی کی خیرخواہی اوراطاعت کاذکرہے۔
نمبر نام کتاب تاریخ طبع نمبرصفحہ
۱۔ براہین احمدیہ حصہ سوم ۱۸۸۲ء الف سے ب تک (شروع کتاب)
۲۔ براہین احمدیہ حصہ چہارم ۱۸۸۴ء الف سے دتک ایضاً
۳۔ آریہ دھرم (نوٹس)دربارہ ۲۲ستمبر۱۸۹۵ء ۵۷سے۶۴تک آخرکتاب
توسیع دفعہ۲۹۸
۴۔ التماس شامل آریہ دھرم ایضاً ۲۲ستمبر۱۸۹۵ء ۱سے۴تک آخرکتاب
۵۔ درخواست شامل آریہ دھرم ایضاً ۲۲ستمبر۱۸۹۵ء ۶۹سے۷۲تک آخرکتاب
۶۔ خط دربارہ توسیع دفعہ ۲۹۸ ۲۱ اکتوبر۱۸۹۵ء ۱ سے۸تک
۷۔ آئینہ کمالات اسلام فروری ۱۸۹۳ء ۱۷ سے۲۰تک اور۵۱۱سے۵۲۸ تک
۸۔ نورالحق حصہ اول (اعلان) ۱۳۱۱ ھ ۲۳سے۵۴تک
۹۔ شہادۃالقرآن(گورنمنٹ کی توجہ کے لائق) ۲۲ستمبر۱۸۹۳ء الف سے ع تک آخرکتاب
۱۰۔ نورالحق(حصہ دوم) ۱۳۱۱ھ ۴۹سے۵۰تک
۱۱۔ سرالخلافہ ۱۳۱۲ھ ۷۱سے۷۳تک
۱۲۔ اتمام الحجہ ۱۳۱۱ھ ۲۵سے۲۷تک
۱۳۔ حمامۃالبشرٰی ۱۳۱۱ھ ۹۳سے۴۲تک
۱۴۔ تحفہ قیصریہ ۲۵مئی ۱۸۹۷ء تمام کتاب
۱۵۔ ست بچن نومبر۱۸۹۵ء ۱۵۳سے۱۵۴تک اورٹائیٹل پیج
۱۶۔ انجام آتھم جنوری۱۸۹۷ء ۲۸۳سے۲۸۴تک آخرکتاب
۱۷۔ سراج منیر مئی۱۸۹۷ء صفحہ۷۴
۱۸۔تکمیل تبلیغ مع شرائط بیعت ۱۲۱جنوری۱۸۸۹ء صفحہ۴حاشیہ اورصفحہ۶شرط چہارم
۱۹۔ اشتہارقابل توجہ گورنمنٹ اور ۲۷فروری۱۸۹۵ء تمام اشتہاریکطرفہ
عام اطلاع کے لیے
۲۰۔ اشتہاردربارہ سفیرسلطان روم ۲۴مئی۱۸۹۷ء ۱ سے۳تک
۲۱۔ اشتہارجلسہ احباب برجشن ۲۳جون۱۸۹۷ء ۱ سے۴تک
جوبلی بمقام قادیاں
۲۲۔ اشتہارجلسہ شکریہ جشن ۷جون۱۸۹۷ء تمام اشتہاریک ورق
جوبلی حضرت قیصرہ دام ظلہا
۲۳۔ اشتہارمتعلق بزرگ ۲۵جون۱۸۹۷ء صفحہ۱۰
۲۴۔ اشتہارلائق توجہ گورنمنٹ ۱۰دسمبر۱۸۹۴ء تمام اشتہار ۱ سے۷تک
معہ ترجمہ انگریزی
(کتاب البریہ ص۵تا۸اشتہارمورخہ۲۰ستمبر۱۸۹۷ء مندرجہ روحانی خزائن جلد۱۳ص۶تا۹)
اے منصف مزاج لوگو! ان تحریروں پر غور کرنے کے بعد کیا یہ بات واضح نہیں ہو جاتی کہ مرزا غلام احمد قادیانی عیسائی انگریزوں کا نہ صرف ایجنٹ تھا بلکہ مسلمانوں کا اول نمبر دشمن بھی۔یہی وجہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی متنبی اپنی کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ ص 28مندرجہ روحانی خزائن ج 15 ص 156 پر رقم طراز ہیکہ
’’ میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے میری اور میری جماعت کی پناہ اس سلطنت کو بنا دیا ہے۔ یہ امن جو اس سلطنت (برطانیہ) کے زیر سایہ ہمیں حاصل ہے نہ یہ مکہ معظمہ میں مل سکتا ہے اور نہ مدینہ میں اور نہ سلطان روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ میں۔۔۔۔۔۔۔اور جولوگ مسلمانوں میں سے ایسے بدخیال جہاد اور بغاوت کے دلوں میں مخفی رکھتے ہوں میں ان کو سخت نادان اور بدقسمت ظالم سمجھتا ہوں۔۔۔۔۔۔تم چاہو دل میں مجھے کچھ کہو ، گالیاں نکالو یا پہلے کی طرح کافر کا فتویٰ لکھو مگر میرا اصول یہی ہے کہ ایسی سلطنت سے دل میں بغاوت کا خیال رکھنا یا ایسے خیال جن سے بغاوت کا احتمال ہو سکے سخت بدذاتی اور خدا تعالیٰ کا گناہ ہے۔ ‘‘
ایک اور مقام پر مرزا قادیانی انگریز گورنر کے نام خط میں رقم طراز ہے کہ
’’اور تیسرا امر جو قابل گزارش ہے وہ یہ ہے کہ میں گورنمنٹ عالیہ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ فرقہ جدیدہ جو برٹش انڈیاکے اکثر مقامات میں پھیل گیا ہے جس کا میں پیشوا اور امام ہوں گورنمنٹ کے لیے ہرگز خطرناک نہیں ہے اور اس کے اصول ایسے پاک اور صاف اور امن بخش اور صلح کاری کے ہیں کہ تمام اسلام کے موجودہ فرقوں میں اس کی نظیر گورنمنٹ کو نہیں ملے گی۔ جو ہدایتیں اس فرقہ کے لیے میں نے مرتب کی ہیں جن کو میں نے ہاتھ سے لکھ کر اور چھاپ کر ہر ایک مرید کو دیا ہے کہ ان کو اپنا دستور العمل رکھے وہ ہدایتیں میرے اس رسالہ میں مندرج ہیں جو 12جنوری 1889ء میں چھپ کر عام مریدوں میں شائع ہوا ہے۔ جس کا نام تکمیل تبلیغ مع شرائط بیعت ہے جس کی ایک کاپی اسی زمانہ میں گورنمنٹ میں بھی بھیجی گئی تھی۔۔۔۔۔۔میں بار بار اعلان دے چکا ہوں کہ میرے بڑے اصول پانچ ہیں اول یہ کہ خدا تعالیٰ کو واحدلاشریک اور ہر ایک منقصت موت اور بیماری اور لاچاری اور درد ار دکھ اور دوسری نالائق صفات سے پاک سمجھنا ، دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کے سلسلہ نبوت کا خاتم اور آخری شریعت لانے والا اور نجات کی حقیقی راہ بتلانے والا صرف سیدنا ومولانا محمد مصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم کو یقین رکھنا ۔ تیسرے یہ کہ دین اسلام کی دعوت محض دلائل عقلیہ اور آسمانی نشانوں سے کرنا اور خیالات غازیانہ اورجہاد (اس جہاد کے خلاف نہایت سرگرمی سے میرے پیرو فاضل مولویوں نے ہزاروں آدمیوں میں تعلیم کی ہے اور کر رہے ہیں جس کا بہت بڑا اثر ہوا ہے۔ مرزا) اور جنگجوئی کوا س زمانہ کے لیے قطعی طور پر حرام اور ممتنع سمجھنا اور ایسے خیالات کے پابند کو صریح غلطی پر قرار دینا ۔ چوتھے یہ کہ اس گورنمنٹ محسنہ کی نسبت جس کے ہم زیر سایہ ہیں یعنی گورنمنٹ انگلشیہ کوئی مفسدانہ خیالات دل میں نہ لانا اور خلوص دل سے اس کی ا طاعت میں مشغول رہنا پانچویں یہ کہ بنی نوع سے ہمدردی کرنا اور حتی الوسع ہر ایک شخص کی دنیا اور آخرت کی بہبودی کے لیے کوشش کرتے رہنا اور امن اور صلح کاری کا مویدہونا اور نیک اخلاق کو دنیا میں پھیلانا۔ یہ پانچ اصول ہیں جن کی اس جماعت کو تعلیم دی جاتی ہے اور میری جماعت جیسا کہ میں آگے بیان کروں گا جاہلوں اور وحشیوں کی جماعت نہیں ہے بلکہ اکثر ان میں اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ اور علوم مروجہ کے حاصل کرنے والے اور سرکاری معز ز عہدوں پر سرفراز ہیں اورمیں دیکھتا ہوں کہ انھوں نے چال چلن اور اخلاق فاضلہ میں بڑی ترقی کی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ تجربہ کے وقت سرکار انگریزی ان کو اول درجہ کے خیرخواہ پاوے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غرض یہ ایک ایسی جماعت ہے جو سرکار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کردہ اور مورد مراحم گورنمنٹ ہے۔‘‘
(اشتہار ’’بحضور لیفٹیننٹ گورنر بہادر دام قبلہ ‘‘ مندرجہ مجموعہ اشتہارات ج 2 ص 197تا1955 طبع چہارم)
محترم قارئین ! ان تحریروں کا مطالعہ کرنے سے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس سے مرزا قادیانی اور اس کی جماعت عیسائیوں کی آلہ کار تو ثابت ہوتی ہے لیکن قادیانیوں کے یہودیوں کے ایجنٹ ہونے کا کیا ثبوت ہے تو آئیے ان کے یہودیوں کے ایجنٹ ہونے کے ثبوت بھی ملاحظہ فرمائیں:
مرزا محمد حسین صاحب بی کام مرزائیوں کے خلیفہ ثانی مرزابشیر الدین محمود ابن مرزا غلام احمد قادیانی کے خاندان کی تمام مستورات کے اتالیق رہے ہیں اور اس لحاظ سے وہ ان کے گھر کے بھیدی ہیں۔ مرزا محمد حسین نے ’’فتنہ انکار ختم نبوت‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے اس کتاب کے صفحہ 99 پر رقم طراز ہیں:
’’ ایک باہمت اور دیدہ ور نوجوان عالم شفیق مرزا نے لاہوری جماعت کے مبلغ مقیم لندن شیخ محمد طفیل کے ذریعے یروشلم سے اسرائیلی میگزین ’’المجلہ اسلامیہ‘‘ (انگریزی اور عربی) منگوا لیا۔ اس میگزین کا ایڈیٹر اجو یعقوب یوشع تھا۔ یہ اسرائیل کی وزارت ادیان یروشلم کی زیر نگرانی شائع ہوتا ہے۔ اس کے اگست 1972ء کے پرچہ میں تیرہ صفحات کا مضمون تھا، جو جماعت ربوہ کے متعلق تھا اور تعریفی لہجہ میں لکھا گیا تھا۔ مقالہ نگار کا نام عبداﷲ اخودتھا۔ اس مقالہ سے ظاہر تھا کہ یروشلم سے کسی نہ کسی صورت میں ربوہ کا رابطہ ضرور ہے۔ تعلق کی یہ نوعیت تھی کہ جو مبلغ نائیجیریا یا افریقہ کے کسی ملک میں جاتے وہ وہاں سے اسرائیل پہنچ کر اپنے پرانے مشن کا چارج لے کر تقسیم ملک سے پہلے قادیان کے ساتھ اور پاکستان بننے کے بعد ربوہ سے موثر تعلق قائم رکھنے کے پابند سمجھے جاتے تھے۔‘‘
محترم قارئین! قادیانیوں کے مبلغ کو بھی ربی کہا جاتا ہے اور یہودی بھی اپنے مبلغ کو ربی ہی کہتے ہیں۔ اسی طرح یہودی بھی انبیاء کی گستاخیاں کرتے رہے بلکہ کئی انبیاء کو قتل بھی کیا اور قادیانیوں نے بھی قدم قدم پر انبیاء علیہم السلام کی گستاخیاں کی ہیں، جس کی تفصیل ان شاء اﷲ آگے آئے گی۔ تیسری بات یہ کہ اسرائیل کی فوج میں کوئی بھی غیر یہودی بھرتی نہیں ہوسکتا ماسوائے قادیانیوں کے۔ اس حوالے سے مولانا سمیع الحق اپنی کتاب ’’قادیان سے اسرائیل تک‘‘ کے ص221 پر رقم طراز ہیں:
’’مسلم اکابرین اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ اسرائیل کی تاسیس میں قادیانیوں کا معتدبہ حصہ ہے اور یہ تحریک اور صیہونیت ایک ہی ٹہنی کے پتے ہیں اسرائیل میں قادیانی مشن یہودیوں کو قادیانی بنانے کے لیے نہیں ہے بلکہ اسے ایسے اڈے کی حیثیت حاصل ہے جہاں سے اسرائیل کے لیے مسلمان ملکوں کے خلاف جاسوسی کی جاتی ہے اور جو عرب مسلمان اسرائیل میں موجود ہیں ان کے حوصلے پست کیے جاتے ہیں تاکہ اسرائیل کے خلاف ان کی قوت مزاحمت سرد پڑجائے قادیانی رضاکار عرب مجاہدین کی سیاسی اور گوریلا سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انھیں اسرائیلی فوج میں ملازمت کا حق حاصل ہے لیکن عربوں کو قطعاً نہیں ہے۔ اس امر کا انکشاف لوویل یونیورسٹی امریکہ کے شعبہ سیاسیات کے چیئرمین آئی ٹی نومانی نے اپنی تصنیف ’’اسرائیل اے پروفیل‘‘ ص 75 پر مقدس سرزمین میں مذہب کے زیر عنوان کیاہے۔ یہ کتاب پال ہال لندن سے شائع ہوئی ہے۔
اسی طرح 19744ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران صیہونی پریس نے قادیانیوں کی اعانت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ حکومت اسرائیل نے قادیانی مبلغ جلال الدین قمر کو یقین دلایا کہ اسرائیل کے حلیف ان کی ہر سطح پر مدد کریں گے اور ان کے حق میں آواز اٹھائیں گے۔برطانوی پارلیمنٹ کے بعض یہودی اراکین نے بھی قادیانیوں کے حق میں بیانات دیے۔ قادیانی مشن لندن نے اس تحریک کے دوران عالمی پریس کے رد عمل کو کتابی صورت میں مدون کیا ہے، اس میں جیوش پریس کے تبصرے مطالعے کے لائق ہیں۔‘‘
محترم قارئین!قادیانیوں اوراسرائیل کاگٹھ جوڑکتنامضبوط تھااورہے اس کااندازہ تاریخ احمدیت کی درج ذیل تحریر سے بھی ہوتا ہے جس میں قادیانی مبلغ چودھری شریف کی اسرائیلی صدر اسحٰق بن صفی سے ملاقات کا تذکرہ بڑے فخرومباحات سے کیا گیا ہے۔چنانچہ مورخ احمدیت دوست محمد شاہد رقمطرازہے کہ
’’حکومت اسرائیل کے پریزیڈنٹ(اسحٰق بن صفی)نے آپ (چودھری شریف)کوپیغام بھیجا کہ اپنے وطن روانہ ہونے سے پہلے مجھے مل کرجائیں چنانچہ آپ نے ان کی دعوت قبول کرلی اور28نومبر1955؁ء کو ان سے ملاقات کی اورانہیں جماعت احمدیہ کاشائع کردہ جرمن کاترجمہ قرآن مجیدبطورتحفہ دیاجسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔اس تقریب کافوٹو بھی لیاگیاجودنیا کے مختلف ممالک میں شائع ہوا۔حضرت خلیفۃالمسیح الثانی نے اس کاذکراپنے خطبہ جمعہ۵ستمبر۱۹۵۸؁ء (مطبوعہ الفضل۳اکتوبر۱۹۵۸؁ء) میں بھی فرمایاہے ۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد4صفحہ587حاشیہ نمبر95طبع جدید)
مرزاغلام احمد کے پوتے مرزا مبارک احمد نے اپنی کتاب Our Foreign Missionss(ہمارے بیرونی مشن) میں چودھری شریف کی اسرائیل سے روانگی اور صدر سے ملاقات کو ان الفاظ میں رقم کیا ہے:

''Anohter small incident, which would give readers some idea of the position our mission in israel occupies, is that in 1956 when our missionary, Choudry Mohammad Sharif ,returned to the Headquarters of the movement in pakistan, the President of Israel sent word that he (our missionary) should see him before embarking on the journy back. Choudhry Mohammad Sharif utilized the opportunity to present a copy of the Germantranslation of the Holy Quran to the President , which he gladlyaccepted. This interview and what transpired at it was widely reported in the Israeli press, and a brief account was also broadcast on the radio.''
ترجمہ:۔قارئین ! ایک چھوٹے سے واقعے سے ہمارے مشن کی پوزیشن کا اندازہ لگا سکیں گے جو اسے اسرائیل میں حاصل ہے۔1956ء میں جب ہمارے مشنری چودھری شریف تحریک کے ہیڈ کوارٹر پاکستان آنے لگے تو اسرائیل کے صدر نے انھیں پیغام ارسال کیا کہ وہ جانے سے قبل انھیں ملیں۔ چودھری محمد شریف نے موقع سے فائدہ اٹھا کرقرآن حکیم کے جرمن ترجمے کی ایک کاپی انھیں پیش کی، جو آپ نے بخوشی قبول کی۔ یہ انٹرویو اوراس کے احوال اسرائیلی پریس میں اور اسرائیلی ریڈیو نے نشر کیے۔
(آور فارن مشنز از مرزا مبارک احمدصفحہ 79‘80 طبع چہارم شائع کردہ نصرت آرٹ پریس ربوہ)
محترم قارئین ! ان تمام دلائل اور ثبوتوں سے یہ بات پایہ تکمیل تک پہنچ جاتی ہے کہ قادیانی نہ صرف عیسائیوں کے ایجنٹ بلکہ یہودیوں کے بھی آلہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام اورجہاد وقتال کے مخالف ہی نہیں بلکہ اوّل نمبردشمن بھی ہیں۔
 
Top