• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قرآنِ کریم میں بیان کردہ نارِ نمرود کے واقعہ کی الحادی تنقیص کا جواب

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اِسلام کی سربُلندی کے لیے کوشاں سوشل میڈیا گروپ "آپریشن ارتقائے فہم و دانش" میں ایک تحریر میری نظر سے گزری، جسے کسی Gung Ho صاحب نے اِس گروپ میں پوسٹ کیا تھا اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی تھی کہ:

"یہ Pakistani Freethinkers سے لی گئی تحریر ھے
اہل علم اسکا جواب دیں میرا علم محدود ھے آپ کی مدد چاہیے۔"

یہ تحریر قرآنِ کریم میں بیان کردہ ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والے نارِ نمرود کے واقعہ کی الحادی تنقیص ہے (یہ تحریر ہر گز علمی تنقید نہیں ہو سکتی)۔ اِس میں مُلحد مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ محمد الرسول اللہ (ﷺ) چونکہ عبرانی وسریانی سے ناواقف تھے، لہٰذا آپ (ﷺ) نے یہ سارا واقعہ یہودِ مدینہ کی زُبانوں سے سُن کر اُس کو منظم عربی متن میں ڈھالا اور الہامی قرآن کا حصہ بنا ڈالا۔ موصوف کے بقول یہ بات ہی نبوتِ محمدیہ (ﷺ) پر سب سے بڑا سوالیہ نشان قائم کرنے کے لیے کافی ہے کہ محمد (ﷺ) یہودیوں سے قصے سُن سُن کر قرآن بناتے رہے۔ میں بجائے اِس کے کہ مزید تبصرہ کے لیے گہرائی میں جاؤں، مناسب رہے گا کہ مُلحد مصنف کی تحریر کا ہی کچھ حصہ یہاں درج کر دیا جائے تاکہ قارئین معترض کی اصل تحریر کے متن اور اِس کے مندرجات سے براہِ راست واقف ہو سکیں اور اُس تحریر کا ردّ پڑھتے ہوئے اُن کے اذہان میں کوئی ابہامات باقی نہ رہیں۔

مُلحد معترض لکھتا ہے کہ:

"دوسرا قصہ حضرت ابراہیم کے آگ سے بچ جانے کا:
یہ قصہ قرآن میں مکمل طور پر ایک جگہ نہیں ملتا بلکہ تھوڑا تھوڑا متفرق مقاموں پر جا بجا آیا ہے۔ سورہ بقرہ ، سورہ انعام، سورہ انبیا، سورہ مریم، سورہ شعرا، سورہ عنکبوت، سورہ صافات، سورہ زخرف اور سورہ ممتحنہ میں ٹکڑوں کی شکل میں یہ قصہ موجود ہے۔ لیکن انبیا کے حالات میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں، مثلاً قصص الانبیا اور عرائس المجالس وغیرہ، ان میں ایک ترتیب و سلسلہ کے ساتھ اس کا بیان ہوا ہے۔ اس کے مطالعے کے بعد اس میں شک کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی کہ یہ قصہ خواہ قرآن میں ہو یا حدیث میں دوسری کتابوں میں، سب کا سب یہودیوں کی ایک پرانی کتاب سے ماخوذ ہے جس کا نام ‘‘مدراش رباہ’’ (Midrash Rabba) ہے۔

اس قصے کا موازنہ بھی کلیئر ٹسڈل نے اپنی کتاب میں کافی تفصیلی کیا ہے، لیکن اس سے قطع نظر ہم براہ راست نتیجے تک پہنچتے ہیں ۔ جب ہم اس قصے کویہودیوں کی کتابوں اور قرآن سے ملا کردیکھتے ہیں تو برائے نام فرق پاتے ہیں جس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ محمد نے اسے ان کتابوں سے نقل نہیں کیا بلکہ یہودیوں کی زبانی سن سنا کر اسے تسلیم کرلیا اور قرآن میں شامل کردیا ۔۔۔ اب سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ یہ افسانہ کہاں سے پیدا ہوگیا؟ واضح ہو کہ توریت، کتاب پیدائش، باب 15، آیت 7، میں جہاں خلیل اللہ کی ہجرت کا ذکر لکھا ہے، وہاں خدا نے ان سے فرمایا، ‘‘ میں خداوند ہوں جو تجھ کو کلدانیوں کے اور سے نکال لایا’’۔ بابلی زبان میں ‘‘اور’’ کے معنی ہیں شہر۔ اس بابلی لفظ ‘‘اور’’ کا ہم شکل ایک اور کلدانی لفظ ‘‘اُر’’ ہے جس کے لغوی معنی شعلہ و آتش کے ہیں۔ مدتوں بعد ایک عبرانی مفسر جوناتھن بن عزئیل (Jonathan Ben Uzziel) نے توریت کا ترجمہ کلدانی زبان میں کیا۔ یہ شخص زبان بابلی زبان سے بالکل ناواقف تھا۔ اس کو ان دونوں لفظوں کے درمیان التباس واقع ہوا اور اس نے بابلی ‘‘اور’’ کو کلدانی ‘‘اُر’’ سمجھ لیا اور آیت کا ترجمہ یوں کردیا، ‘‘ میں خداوند ہوں جو تجھ کو کلدانیوں کے آگ کے تنور سے نکال لایا۔’’ اب یہ صاحب جب اس آیت کی شرح کرنے بیٹھے تو مطلب حل نہ ہوا ، چنانچہ ہمارے جمعہ کے خطیبوں کی طرح انھوں نے اپنی واعظانہ شرح میں یہ تمام قصہ بیان کرڈالا۔ اب یہ غور طلب بات ہے کہ کسی ناواقف شخص کا اس قسم کی غلطی سے متاثر ہوجانا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن حیف کہ اس فرضی افسانے کو خاتم الانبیا حق سمجھ لے جس کا یہ دعویٰ ہو کہ اللہ نے وحی کے ذریعہ انھیں یہ ‘‘فرضی افسانہ’’ سنایا اور اس پر یہ اضافی دعویٰ کہ یہ قصہ لوح محفوظ میں مندرج ہے۔ افسوس، اس غلطی سے اہل یہود کے معمولی محققین تک محفوظ ہیں لیکن لوح محفوظ نہیں۔"

آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ یہ ساری تحریر ہی "چونکہ ۔ چنانچہ" کی قیاس آرائیوں پر کھڑی ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اِس تحریر کا مصنف زمین و آسمان کے قلابے ملانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے۔ تاہم اُس کا المیہ یہ ہے کہ اُس کا اپنا علم محدود ہے اور اُس کی ساری تحقیق انٹرنیٹ پر موجود اِسلام مخالف چند ویب سائٹس پر انحصار کر رہی ہے۔ اِن میں ایک اہم ترین (اور بدنام ترین) ویب سائٹ Answering Islam کے نام سے موجود ہے۔ اِسلام مخالف اکثر مواد یہیں سے اُٹھا کر ترجمہ کے بعد بدنامِ زمانہ الحادی گروپوں میں "گراؤنڈ بریکنگ ریسرچ" کے دعویٰ کے ساتھ پیش کر دیا جاتا ہے اور سادہ لوح قارئین اِس کو من و عن تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور اپنا ایمان گنوا بیٹھتے ہیں۔

اِن مُلحدوں کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ جب یہ قرآنِ کریم کا موازنہ یہودی و مسیحی کُتب سے کرتے ہیں تو یہ دُوسروں کی تحقیق پر ہی انحصار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ یہ خود نہ تو یہودی صحآئف کی زُبانوں مثلاً عبرانی(Hebrew)، سریانی (Syriac/Yeddish)، آرامی (Aramaic) وغیرہ سے واقفیت رکھتے ہیں اور نہ ہی مسیحی صحیفے کی زُبان ریختہ یُونانی (Koine Greek) سے کسی قسم کی آشنائی کے حامل ہوتے ہیں۔ لہٰذا اِن کی نام نہاد تحقیق کو منہدم کرنے کے لیے محض اِن زُبانوں کا ہلکا سا علم ہی "ڈائنامائیٹ" کا کام سرانجام دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور مذکورہ بالا اعتراض کا حوالہ جاتی ابطال مکمل ثبوتوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ بحث تھوڑی خشک اور علمی طور پر گہری ثابت ہو گی، لہٰذا اِس کے نتائج تک پہنچنے کے لیے آپ کی توجہ اور تحمّل دونوں درکار ہوں گے۔

جس اصل لفظ پر یہ بحث قائم کر کے موصوف نے قرآنِ کریم پر اعتراض گھڑا ہے وہ کُلدانی (Chaldean) زُبان کا لفظ "אוּר" (اُور - Uwr) ہے۔ اِس لفظ کا لغوی معنی ہے "شعلہ" (Flame)۔ بائبل کے "عہدنامہ قدیم" (Old Testament) کی معروف ترین لغت Brown-Driver-Briggs Lexicon کے مطابق "شعلہ" کے معنی کا حامل یہ لفظ "مذکر" ہے۔ مزید برآں، ولیم ہالیڈے کے شہرہ آفاق A Concise Hebrew and Aramaic Lexicon of the Old Testament کے صفحہ 7 پر موجود اندراج کے مطابق "اُور" جمع کا صیغہ ہے اور اِس کا معنی "آگ کی روشنیاں اور تپش" ہے۔ یہ لفظ انہی معانی کے ساتھ عہدنامہ قدیم کی کتاب "یسعیاہ" (Isaiah) کے باب 50، فقرہ 11 میں واقع ہوا ہے۔ لہٰذا جو صاحب اِس لفظ کا ترجمہ "شہر" کر رہے ہیں، اُن کے علم کی حقیقت کی قلعی یہیں کھل جاتی ہے۔ اِسی طرح اِسی لفظ کی ایک دوسری شکل "אוֹר" (اور - Owr) بھی ہے، جس کا معنی "روشن ہونا" ہے اور یہی لفظ اِس بابِ لغت کا مصدر بھی ہے (جس کو عبرانی میں "قال کامل" - Qal Perfect - کہتے ہیں)۔ اب عبرانی و کُلدانی زُبان کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جانا کہ "اُر" اور "اور" دو علیحدہ ابواب کے باہم مختلف معنی کے حامل الفاظ ہیں، جن کے انفرادی معانی "آگ" اور "شہر" کے ہیں، سوائے ٹامک ٹوئی کے کچھ بھی نہیں۔ شہر کے لیے عہدنامہ قدیم (Old Testament) میں استعمال کیا گیا لفظ اصل میں "עִיר" (عیر - Eer) ہے ("ع" اور "الف" کا فرق ملحوظِ خاطر رہے)، جس کو موصوف "اور" کے ساتھ 'خلط' کر رہے ہیں۔ اِسی طرح "آگ/آتش" کے لیے یہودی صحائف کے طول و عرض میں استعمال ہونے والا لفظ "אֵשׁ" (ایش - Aysh) ہے، جس کو اپنی دائمی جہالت کے باعث مُلحد مصنف نے پچھلے لفظ کی طرح "اُر" کے ساتھ خلط ملط کر کے پیش کر دیا ہے۔

چونکہ یہ بحث کثیل لغوی، لسانی اور انشاءپردازی کے تصورات پر مبنی ہے، اِس لیے ہم اِس کو محض لسانی حدود تک ہی محدود رکھیں گے اور اِس واقعے کے حوالے سے کسی دیگر پہلو کی طرف موجودہ گفتگو میں جانے سے گریز کریں گے، کیونکہ مذکورہ بالا حوالہ جات ہی سبھی اعتراضات کی دُھلائی کے لیے کافی ہوں گے۔

جہاں تک عہدنامہ قدیم کی کتابِ پیدائش کے باب 15، فقرہ 7 کا تعلق ہے تو وہاں وارِد ہونے والا لفظ "اُر" درحقیقت "اِسمِ معرفہ" (Proper Noun) ہے (بحوالہ مذکورہ بالا لغاتِ عہد نامہ قدیم)۔ اِس نام سے ملتے جُلتے نام کی ایک اور اہم شہری ریاست "اُروک" بھی قدیم عراق میں موجود تھی۔ واضح رہے کہ قدیم عراق کو آثارِ قدیمہ اور تاریخ میں "میسو پوٹیمیا" کے نام سے پکارا جاتا ہے اور یہ ابتداً "سومیری" لوگوں کی تہذیب کا گہوارہ اور پانچ شہری ریاستوں پر مشتمل مصر (Egypt) کے ہم پلّہ ایک مکمل تہذیبی سلطنت تھا۔

اِس وضاحت کے بعد اب مصنف کی اِس جہالت پر کیا کہا جائے کہ اُس نے "اسمِ معرفہ" کو "اِسمِ نکرہ" بنا ڈالا اور اِس پر ایک ایسا قیاس قائم کر دیا جس کی نہ تو کوئی تاریخی حقیقت ہے اور نہ ہی لسانی ولغوی حیثیت۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی اسمِ معرفہ آلِ اسرائیل کے کئی لوگوں کا نام بھی تھا، جس کا حوالہ خود بائبل میں موجود ہے (دیکھیے 1 تواریخ، باب 11، فقرہ 35)۔

اب آخر میں اِس بحث کو حتمی اختتام تک پہنچانے کے لیے ہیگل (Hegel) کے فلسفہءِ تاریخ پر مبنی قیاس کی ہلکی سی ضرورت ہے۔ ہیگل کا فلسفہءِ تاریخ ماضی کے استخراج کے حوالے سے "ممکن اور ناممکن" (Possibility and Impossibility) کے تصور پر قائم ہے، جبکہ ذرائع تاریخ (Historical Sources) اور فلسفہءِ غالب امکان (Probability) کی قبولیت کا معیار بھی یہ اوّلین اصول ہی ہے۔ ملحدین کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اُن کا کلیۃً جھکاؤ "Possibility" کی بجائے "Probability" کی طرف ہوتا ہے، جس سے فلسفہءِ تاریخ کا بنیادی اصول ہی پامال ہو جاتا ہے، اور نتائج بھی پھر "لولے لنگڑے" ہی نکلتے ہیں، جو الحادی افکار کی مکمل ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں، اور درحقیقت یہی ملحدین کی منشاء ہوتا ہے۔

اگر اِسمِ معرفہ یعنی حضرت ابراہیم کے شہر کے نام "اُر" کے متعلق بھی تحقیق کی جائے تو تمہید کےطور پر دیکھنا ہو گا کہ یہ امر بھی "ممکنات" کے اصول پر کھڑا ہے یا نہیں؟ فی الحقیقت دورِ قدیم سے ماضی قریب تک عموماً شہروں اور دیہاتوں کے نام یا تو کسی واقعہ کی طرف نسبت سے رکھے جاتے تھے یا پھر اہم شخصیات سے منسوب کیے جاتے تھے۔ درحقیقت یہ اصول آج بھی پامال نہیں ہوا اور پوری طرح سے آج کے معاشرہ پر بھی لاگو ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ لہٰذا بائبل کے مصنفین کی جانب سے حضرت ابراہیم کے شہر کو "آگ کے شعلوں اور روشنیوں" کا شہر کہہ کر مخاطب کیا جانا اور اِس کا ذکر بائبل کی تحریر کے دور میں، جو کہ 1000 ق م کے بعد کا واقعہ ہے، بطور اِسمِ معرفہ کر کے اِسی نام متعیّن سے کر دیا جانا ہر گز اچنبھے کی بات نہیں، بلکہ عین قرینِ حقیقت ہے۔ اِس کا بہترین قیاس بائبل کے اندر موجود معروف ناموں سے کیا جا سکتا ہے، کیونکہ بائبل قدیم انبیاء کے نام اُن کے اوصاف، پیشہ یا بعثت کے پہلوؤں کو سامنے رکھ کر رقم کرتی ہے۔ مثال کے طور پر پہلے انسان کو "آدم" (אָדָם) محض اِس لیے کہا گیا کیونکہ عبرانی میں "آدمہ" (אדמת) مٹی اور دُھول کو کہتے ہیں، جبکہ انسان مٹی سے بنایا گیا تھا، لہٰذا پہلے انسان کو "آدم" یعنی "مٹی کا بنا ہوا" کہا گیا اور یہی اُس کا نام ٹھہرا۔ اِسی طرح کی ایک اور مثال لفظ "اُردن" (יַרְדֵּן - یردین) سے دی جا سکتی ہے جس کا لغوی معنی ہے "پست جگہ، نیچے جانے والا"۔ بنی اسرائیل دریائے اُردن کے نیچے کی طرف تیز بہاؤ اور اِس کے مضافات کی سطح زمین پاقی علاقوں کی نسبت گہری ہونے کی وجہ سے اِس خطہ کو "یردین" کے نام سے ہی پکارا کرتے تھے۔ لہذا اِس جگہ کا مستقل نام ہی "یردین/اُردن" قرار پا گیا اور آج اِسی نام سے وہاں ایک ملک قائم ہے۔ اِن قیاسات پر نارِ نمرود کے قرآنی بیان کی صداقت کا معیار اِس لیے بھی قائم کیا جا سکتا ہے کیونکہ حضرت ابراہیم والے واقعہ کی تفصیل یہودی "مِدراش" میں موجود ہے، اور یہ بالکل اُسی آیت کی تفسیر ہے جس کے حوالے سے اِس ساری بحث کا غیرحقیقی نتیجہ نکالنے کی کوشش ملحد مصنف نے کی ہے۔ اُوپر پیش کردہ تحقیق کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیّاں ہو جاتی ہے کہ معترض نے اپنی تحریر میں نہ صرف علمی "ڈنڈی" ماری ہے، بلکہ اُس کا "جوناتھن بن عُزیل" نامی یہودی مفسّر کے متعلق دعویٰ بھی جہالت و غفلت کا نتیجہ ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اہلِ زُبان علماء خود اپنی زُبان کے متعلق مغالطوں کا شکار رہیں، جبکہ دو ہزار سال بعد ایک ایسا شخص اُٹھ کر اُس کی تصحیح کر دے جو خود سِرے سے وہ زُبان جانتا ہی نہیں؟

کتاب پیدائش کے باب 15، فقرہ 7 کی تفسیر یہودی عُلماء کی اکثریت زمانہ قدیم سے بالکل وہی کرتی آ رہی ہے، جو قرآنِ کریم میں مذکور ہے۔ "مدراش" درحقیقت یہودی صحائف کے متعلق ترتیب دئیے گئے "اصولِ تفسیر" اور "تفسیرِ تناخ و مِشناء" (Tanakh and Mishna - تحریری و زُبانی شریعت) کا ہی نام ہے۔ "مدراش" کے عمل کو ترتیب اور تشکیل دینے کا علمی نام "تالمود" (Talmud) ہے جبکہ اِسی عمل کی تکمیل کو "گیمارہ" (Gemara) کہتے ہیں۔ دُوسرے لفظوں میں یہودی تالمود بھی مذکورہ بالا بائبلی حوالہ کی تفسیر بالکل یہی کرتی ہے، جس کا ذکر قرآنِ کریم میں حضرت ابراہیم کے "نارِ نمرود" والے واقعہ کی صورت میں موجود ہے۔ مزید عرض کرتا چلوں کہ حضرت ابراہیم کو آگ میں پھینکے جانے والی تفسیر صرف "مِدراش ربّاح" (מדרש רבה) نامی مِدراش میں ہی موجود نہیں، بلکہ یہودی تالمود کی دیگر کئی کُتب (مدراشیم) کا حصہ بھی ہے، لہٰذا مدراش رباح کے نام سے مخصوص کر کے کیا گیا یہ دعویٰ بھی مُلحد مصنف کے محدود علم کی طرف ہی اشارہ کرتا ہے، جس کا مرتکب محض یہ ملحد معترض ہی نہیں ہوا، بلکہ Clair Tisdall نامی متعصب عیسائی مصنف، جس کی طرف مُلحد معترض نے اپنی تحقیق کا حوالہ لوٹایا ہے، بھی اپنی اِسلام مخالف تحریروں میں اِسی گمراہی کا مجرم قرار پاتا ہے۔

اُمید ہے کہ یہ تحریر سب قارئین کے ابہامات اور اعتراضات کے ازالہ کے لیے شافی و کافی ثابت ہو گی۔ اگر کسی قاری کو مزید رہنمائی یا سوالات کے جوابات درکار ہوں، تو اِن شاء اللہ میری خدمات حاضر رہیں گی۔

(سیّد وقاص حیدر)
https://www.facebook.com/groups/1560242590882170/permalink/1727932460779848/
 
Top