• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزائی آرٹیکل "نبی جہاں فوت ہوتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے" کا جواب

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
نبی جہاں فوت ہوتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے


بسم اللہ الرحمن الرحیم

حدیث مرفوع ہے أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ قَالَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ خَلِيلِيَ يَقُولُ: مَا مَاتَ نَبِيُّ قَطُّ فِي مَكَانٍ إِلا دُفِنَ فِيهِ .(طبقات الكبری جلد 2 صفحہ 224 دار الکتب العلمیہ بیروت)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا کہ ”دفن نہیں کیا گیا کوئی نبی مگر اس مقام میں جہاں اس کی وفات ہوئی“۔

لیکن جب ہم مرزا قادیانی کے متعلق پڑھتے ہیں تو ہمیں ملتا ہے مرزا قادیانی لاہور میں بحالت ہیضہ اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں اور ان کی لاش کو بغیر لاہور میں دفنائے ''دجال کے گدھے'' پر لاد کر قادیان لے جایا جاتا ہیں جہاں انکو دفنا دیا جاتے ہے۔ اسی ضمن میں جب قادیانی احباب کو کہا جاتا ہے انبیاء وہیں دفن ہوتے ہیں جس مقام پر انکی وفات ہو تو قادیانی اس کا کوئی مسکت جواب دینے کے بجائے کچھ حیلہ تراشتے ہیں جو یہاں تراشے گئے ہیں۔ ان کا جواب حاضر ہے۔

پہلی بات جو کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ مذکورہ مضمون کی حدیث کو ضعیف کہا گیا ہے:
"ایک ضعیف حدیث پیش کی جاتی ہے کہ ” نبی جہاں فوت ہوتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے“(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الجنائز ۔ باب ذکر وفاتہ صلی اللہ علیہ و سلم)"۔

لیکن ہم نے جو روایت پیش کی ہے وہ طبقات الكبری کی ہے جو سند کے لحاظ سے صحیح ہے۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب احکام الجنائز میں اس کو صحیح کہا ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے جا ہے۔

دوسرا عذر جو بحر الرائق شرح کنز الدقائق کے حوالہ سے کیا جاتا ہے کہ:
"روایت ہے حضرت یعقوب مصر میں فوت ہوئے۔ بعد میں آ پ ارض شام کی طرف اٹھا کر لائے گئے۔ (تاکہ تدفین ارضِ شام میں کی جا سکے)" ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ بحر الرائق میں رُوي (روایت ہے) کا لفظ آیا ہے حالانکہ وہاں اس کی کوئی سند نقل نہیں اس لیے استدلال باطل ہے۔ البحر الرائق میں (اگر چہ کوئی مستند روایت مذکور نہیں) لیکن وہاں جو بات ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کہیں کسی کو مرنے کے بعد دفن کر دیا جائے تو آیا کچھ عرصے کے بعد اسکے باقیات یا اسکی میت کو اس قبر سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ تو اگر (بالفرض صحت روایت) اس بات کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی وفات کہیں اور ہوئی اور اسکے بعد انکا جسم کہیں اور منتقل کیا گیا تو یہاں یہ بات ہو رہی ہے کہ ان کو دفن تو وہیں کر دیا گیا تھا جہاں ان کی وفات ہوئی تھی ، پھر کچھ عرصے یا کچھ سالوں کے بعد انکی پہلی قبر سے انھیں دوسری جگہ منتقل کیا گیا ۔ لہذا انھیں پہلی بار وہیں دفن کیا گیا جہاں انکی وفات ہوئی تھی اور حدیث میں یہی ہے کہ جہاں انکی وفات ہو وہاں دفن کیا جائے۔

تیسرا عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ
"اس حدیث کو درست ماننے کی صرف یہی ایک صورت ہو سکتی ہے کہ یہ مانا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم صرف اپنے متعلق یہ بات بیان فرما رہے ہیں۔ اور یہ تشریح بعد از قیاس بھی نہیں ہے ۔ایک حدیث ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” نَحْنُ مَعْشَرَ الْاَنْبِیَاءِ لَا نَرِثُ وَلَا نُوْرَثُ مَاتَرَکْنَاہُ صَدَقَةٌ “ (بخاری کتاب المغازی حدیث بنی نضیر) یعنی ہم انبیاء کا گروہ ہیں نہ ہم وارث بنتے ہیں اور نہ کوئی ہمارا وارث بنتا ہے جو کچھ ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔جبکہ قرآن کریم میں ہے کہ ”وَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاؤدَ “ (النمل:17) کہ حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے۔ بظاہر پیدا ہونے والے اس اختلاف کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا قول دور کرتا ہے کہ یُرِیْدُ بِذَالِکَ نَفْسَہُ (بخاری کتاب المغازی حدیث بنی نضیر) کہ اس مذکورہ حدیث میں آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خاص ذات مراد ہے"۔

الجواب: یہ قادیانی دجل کا شاہکار ہے کہ وہ ہر اس بات کی باطل تاویل کرتے ہیں جس پر مرزا قادیانی جھوٹا ثابت ہوتا ہے۔ مذکورہ حدیث میں کہیں بھی یہ قید نہیں کہ یہ بات حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف اپنے متعلق ارشاد فرمائی اور نہ ہی ایسی تاویل کی کوئی ضرورت ہے۔ رہی بات انبیاء علیہم السلام کی وراثت کی بات تو یہ بھی جھوٹ ہے کہ یہاں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خاص ذات مراد ہے۔ حدیث کے الفاظ مصنف نے خود نقل کیے ہیں ”ہم انبیاء کا گروہ ہیں“ اور "گروہ" کا لفظ شاہد ہے کہ یہاں بات صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہو رہی۔ مصنفہ مرزائی آرٹیکل کو اس بات کی تاویل کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیوں کے مرزا قادیانی نبوت کے اس معیار کہ "انبیاء نہ کسی (مالی) وارث ہوتے ہیں نہ ان کا کوئی (مالی) وارث ہوتا ہے" پر بھی کھرے نہیں اترتے۔ مزید تفصیل یہاں دیکھیں۔

حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ حضرت عیسی صلی اللہ علیہ و سلم آسمان سے نازل ہونے کے بعد جب زمین پر پینتالیس سال گزار لیں گے اس کے بعد ان کی وفات ہو گی اور وہ مقبرہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں دفن ہوں گے۔ مشکوٰۃ شریف میں ہے:

عن عبد الله بن عمرو قال قا ل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ينزل عيسى بن مريم إلى الأرض فيتزوج ويولد له ويمكث خمسا وأربعين سنة ثم يموت فيدفن معي في قبري فأقوم أنا وعيسى بن مريم في قبر واحد بين أبي بكر وعمر (مشکوٰۃ شریف :جلد پنجم :حدیث نمبر 77)

حضرت عبداللہ ابن عمرو کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ”حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم زمین پر اتریں گے تو وہ نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی دنیا میں ان کی مدت قیام پینتالیس برس ہوگی پھر ان کی وفات ہو جائے گی اور وہ میری قبر یعنی میرے مقبرہ میں میرے پاس دفن کئے جائیں گے ( چنانچہ قیامت کے دن ) میں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دونوں ایک مقبرہ سے ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے درمیان اٹھیں گے“۔

اس حدیث کی سند پر ہمیں بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ یہ حدیث مرزا قادیانی نے اپنے لیے(محمدی بیگم کے نکاح پر) بطور دلیل پیش کی تھی۔ دیکھیں(روحانی خزائن جلد ۱۱- ضمیمہ رسالہ انجام آتھم صفحہ: 337) اور مرزا قادیانی کا دعویٰ تھا کہ ”خدا نے مجھے مسیح موعود مقرر کرکے بھیجا ہے اور مجھے بتلا دیا ہے کہ فلاں حدیث سچی ہے اور فلاں جھوٹی ہے“(روحانی خزائن جلد ۱۷- اربعین: صفحہ 454) ظاہر ہے مرزا قادیانی نے جو روایت اپنی دلیل یا تصدیق کے لیے پیش کی وہ یقیناً صحیح ہو گی۔ پھر لطف یہ کہ محمدی بیگم کے نکاح پر یہ روایت بطور تصدیق پیش کی گئی مگر پھر بھی آسمانی نکاح مخص آسمانی ہی رہا، اور سلطان محمد مرزا صاحب کی آسمانی منکوحہ کو اپنی دلہن بنا کر قادیان سے شان کے ساتھ لے گیا، قصہ پھر صحیح۔

چونکہ مرزا قادیانی نہ آسمان سے نازل ہوئے نہ انھوں نے (بعد از نزول) نکاح کیا نہ وہ دعوی مسیحیت کے بعد پینتالیس سال زمین پر رہے اور نہ ہی وہ مقبرہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس فوت ہوئے اس لیے امت مرزائیہ کے خواجہ تاشوں کا یہ فرض بنتا تھا کہ وہ اس حدیث کو بھی ضعیف ثابت کریں یا پھر اپنی تاویلات کی زنبیل سے اس کی کوئی تاویل کریں۔ چونکہ وہ اس روایت کو ضعیف تو ثابت کر نہیں سکتے تھے اس لیے انھوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور اس حدیث کی تاویل یوں کی۔

"اگر اس حدیث کے بھی صرف ظاہری معنی کئے جائیں تو کون غیرت مند مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر اکھیڑنے کی جرأت کرے گا؟ یہ نہیں کہہ سکتے کہ قبر کے قریب ہوں گے کیونکہ حدیث کے الفاظ ” فِیْ قَبْرِیْ “ بتاتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر میں ہی تدفین ضروری ہے"۔

الجواب: حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ گواہ ہیں کہ یہاں لفظ ”قبر“ بمعنی ”مقبرہ“ (Tomb) کے ہیں۔ اور عربی زبان میں قبر کے یہ معانی مستعمل ہیں یہاں دیکھیں۔ اس لیے اس حدیث کے ظاہری معانی لینے میں کوئی حرج نہیں۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے

عن عائشة قالت قلت: يا رسول الله! إني أرى أني أعيش بعدك فتأذن لي أن أدفن إلى جنبك! فقال: "وأنى لك بذلك الموضع! ما فيه إلا موضع قبري وقبر أبي بكر وعمر وعيسى ابن مريم .(کنز العمال جلد 14 صفحہ 620 روایت نمبر 39727)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے قرائن سے محسوس ہوتا ہے کہ میں آپ کے بعد زندہ رہوں گی تو کیا آپ مجھے اپنے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہارے لئے یہ جگہ کیسے ہو سکتی ہے؟ اس میں تو ابو بکر اور عمر اور عیسی ابن مریم کی قبر جگہ ہے“۔

یہاں خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ قبر کو ”مقبرہ“ کے معنی میں استعمال کیا ہے اور یہ روایت بھی مرزا قادیانی کے جھوٹا ہونے پر شاہد ہے۔

عربی کلام میں اس مضمون کی مثال مصنف ابن ابی شیبہ کی یہ روایت بھی ہے۔

حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّه بِنْ مَسْعُودٍ، قَالَ: «ادْفِنُونِي فِي قَبْرِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ» ۔( مصنف ابن ابی شیبہ جلد 3 صفحہ 33 روایت نمبر11855)

یہاں بھی لفظ ”قَبْرِ“ بمعنی مقبرہ کے آیا ہے۔ نیز لفظ ”فی“ قربت کے معانی میں بھی آتا ہے۔ اس لیے اس حدیث کے ظاہری معانی لینے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نہ گستاخی ہے نہ ہتک عزت جیسے مصنفہ مرزائی آرٹیکل نے لکھا۔ مذکورہ معانی کی تصدیق مرزا قادیانی بھی کرتا ہے۔ ملاحظہ ہو:

”فرض کے طور پر اگر اس حدیث کو جو نصوص بینہ کے مخالف صریح پڑی ہوئی ہے صحیح بھی مان لیں اور اس کے معنے کو ظاہر پر ہی حمل کریں تو ممکن ہے کہ کوئی مثیل مسیح ایسا بھی ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کے پاس مدفون ہو“۔(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 351تا352)

یہاں مرزا قادیانی کے الفاظ ” اس(حدیث-ناقل) کے معنے کو ظاہر پر ہی حمل کریں“ اور ”روضہ کے پاس مدفون ہو “ قابل غور ہیں۔ اس لیے مرزا قادیانی کا پہلے لاہور میں نہ دفن ہونا اور پھر لاہور سے قادیان لے جا کر مدفون ہونا بھی اس کے جھوٹا ہونے کی ایک صریح علامت ہے۔

والسلام على من اتبع الهدى
 
Top