کہتے ہیں او مولویو عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان سے اتار لاؤ اوئے ختم نبوت کے مجاہدوں اگر عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان سے اتار لاؤ تو ہم جھوٹے وغیرہ وغیرہ
اب ان کے اس مطالبے کی قرآن کے مطابق کیا حیثیت ہے ؟ ملاخط فرمائیں سورہ اعراف آیت 187 :۔
" يَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلسَّاعَةِ أَيَّانَ مُرۡسَٮٰهَاۖ قُلۡ إِنَّمَا عِلۡمُهَا عِندَ رَبِّىۖ لَا يُجَلِّيہَا لِوَقۡتِہَآ إِلَّا هُوَۚ ثَقُلَتۡ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِۚ لَا تَأۡتِيكُمۡ إِلَّا بَغۡتَةً۬ۗ يَسۡـَٔلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِىٌّ عَنۡہَاۖ قُلۡ إِنَّمَا عِلۡمُهَا عِندَ ٱللَّهِ وَلَـٰكِنَّ أَڪۡثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعۡلَمُونَ " قیامت کے متعلق تجھ سے پوچھتے ہیں کہ اس کی آمد کا کونسا وقت ہے کہہ دو اس کی خبر تو میرے رب ہی کے ہاں ہے وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کر دکھائے گا وہ آسمانو ں اور زمین میں بھاری بات ہے وہ تم پر محض اچانک آجائے گی تجھ سے پوچھتے ہیں گویا کہ تو اس کی تلاش میں لگا ہوا ہے کہہ دو اس کی خبر خاص الله ہی کے ہاں ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے ۔
اب آپ سوچیں گے کہ بات عیسیٰ علیہ السلام کے نزول من السماء کی ہو رہی ہے تو میں نے قیامت کے بارے میں قرآن کا فیصلہ کیوں آپ لوگوں کے سامنے پیش کر دیا تو سنیں کیوں ایسا کیا میں نے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی دس بڑی نشانیان بیان کی ہیں جن میں سے ایک نزول عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام ہے ملاخط فرمائیں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :۔
" حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ - وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا - سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ الْغِفَارِيِّ، قَالَ: اطَّلَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ، فَقَالَ: «مَا تَذَاكَرُونَ؟» قَالُوا: نَذْكُرُ السَّاعَةَ، قَالَ: " إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّى تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ - فَذَكَرَ - الدُّخَانَ، وَالدَّجَّالَ، وَالدَّابَّةَ، وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَنُزُولَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَأَجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَثَلَاثَةَ خُسُوفٍ: خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَآخِرُ ذَلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْيَمَنِ، تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ "
حُذیفہ بن اسید الغفاری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مجلس میں تشریف لائے اور ہم آپس میں بات چیت کررہے تھے۔ آپ نے پوچھا کیا بات ہورہی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا ہم قیامت کا ذکر کررہے تھے۔ فرمایا وہ ہرگز قائم نہ ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں ظاہر نہ ہوجائیں ۔ پھر آپ نے وہ دس نشانیاں یہ بتائیں : (1) دُھواں،(2)دجال،(3) دابتہ الارض، (4) سورج کا مغرب سے طلوع ہونا(5) عیسیٰ ابنِ مریم کا نزول،(6)یاجوج و ماجوج، (7)تین بڑے خَسَف( زمین دھس جانا)، ایک مشرق میں، (8)دوسرا مغرب میں، (9) تیسرا جزیرۃ العرب میں، (10) سب سے آخر میں ایک زردست آگ جو یمن سے اٹھے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی۔
اب یہاں اس حدیث رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کا نزول من السماء قیامت کی بڑی نشانیوں میں بیان کیا گیا ہے تو اب کوئی قیامت کا منکر اٹھ کر کہے اوئے مولویو اور مجاہدوں قیامت کو لے آؤ اگر قیامت کو لے آؤ تو ہم جھوٹے تو ایسے لوگوں کو کو بس اتنا کافی ہے کہ وہ اس آیت کے مصداق ہیں " ختم اللہ علی قلوبھم " بلکل اسی طرح کا مطالبہ مرزائیو کا ہے جب قیامت کا علم صرف اللہ کے پاس ہے تو قیامت کی نشانیاں کب وقوع پذیر ہونگی اس کا علم بھی صرف اللہ کو ہے ۔ اس لئے آپ مرزائیوں کا مطالبہ بھی ویسا ہے جیسے کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے تھے تو یہاں مرزائی ایسا مطالبہ کرکے خود کو کفار مکہ کی اولاد ثابت کرتے ہیں جو کہ وہ حقیقت میں ہیں ، اللہ ہم سب کو ان مرزائیو کے شر سے محفوظ رکھے آمین ۔
اب ان کے اس مطالبے کی قرآن کے مطابق کیا حیثیت ہے ؟ ملاخط فرمائیں سورہ اعراف آیت 187 :۔
" يَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلسَّاعَةِ أَيَّانَ مُرۡسَٮٰهَاۖ قُلۡ إِنَّمَا عِلۡمُهَا عِندَ رَبِّىۖ لَا يُجَلِّيہَا لِوَقۡتِہَآ إِلَّا هُوَۚ ثَقُلَتۡ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِۚ لَا تَأۡتِيكُمۡ إِلَّا بَغۡتَةً۬ۗ يَسۡـَٔلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِىٌّ عَنۡہَاۖ قُلۡ إِنَّمَا عِلۡمُهَا عِندَ ٱللَّهِ وَلَـٰكِنَّ أَڪۡثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعۡلَمُونَ " قیامت کے متعلق تجھ سے پوچھتے ہیں کہ اس کی آمد کا کونسا وقت ہے کہہ دو اس کی خبر تو میرے رب ہی کے ہاں ہے وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کر دکھائے گا وہ آسمانو ں اور زمین میں بھاری بات ہے وہ تم پر محض اچانک آجائے گی تجھ سے پوچھتے ہیں گویا کہ تو اس کی تلاش میں لگا ہوا ہے کہہ دو اس کی خبر خاص الله ہی کے ہاں ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے ۔
اب آپ سوچیں گے کہ بات عیسیٰ علیہ السلام کے نزول من السماء کی ہو رہی ہے تو میں نے قیامت کے بارے میں قرآن کا فیصلہ کیوں آپ لوگوں کے سامنے پیش کر دیا تو سنیں کیوں ایسا کیا میں نے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی دس بڑی نشانیان بیان کی ہیں جن میں سے ایک نزول عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام ہے ملاخط فرمائیں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :۔
" حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ - وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا - سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ الْغِفَارِيِّ، قَالَ: اطَّلَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ، فَقَالَ: «مَا تَذَاكَرُونَ؟» قَالُوا: نَذْكُرُ السَّاعَةَ، قَالَ: " إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّى تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ - فَذَكَرَ - الدُّخَانَ، وَالدَّجَّالَ، وَالدَّابَّةَ، وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَنُزُولَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَأَجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَثَلَاثَةَ خُسُوفٍ: خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَآخِرُ ذَلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْيَمَنِ، تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ "
حُذیفہ بن اسید الغفاری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مجلس میں تشریف لائے اور ہم آپس میں بات چیت کررہے تھے۔ آپ نے پوچھا کیا بات ہورہی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا ہم قیامت کا ذکر کررہے تھے۔ فرمایا وہ ہرگز قائم نہ ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں ظاہر نہ ہوجائیں ۔ پھر آپ نے وہ دس نشانیاں یہ بتائیں : (1) دُھواں،(2)دجال،(3) دابتہ الارض، (4) سورج کا مغرب سے طلوع ہونا(5) عیسیٰ ابنِ مریم کا نزول،(6)یاجوج و ماجوج، (7)تین بڑے خَسَف( زمین دھس جانا)، ایک مشرق میں، (8)دوسرا مغرب میں، (9) تیسرا جزیرۃ العرب میں، (10) سب سے آخر میں ایک زردست آگ جو یمن سے اٹھے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی۔
اب یہاں اس حدیث رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کا نزول من السماء قیامت کی بڑی نشانیوں میں بیان کیا گیا ہے تو اب کوئی قیامت کا منکر اٹھ کر کہے اوئے مولویو اور مجاہدوں قیامت کو لے آؤ اگر قیامت کو لے آؤ تو ہم جھوٹے تو ایسے لوگوں کو کو بس اتنا کافی ہے کہ وہ اس آیت کے مصداق ہیں " ختم اللہ علی قلوبھم " بلکل اسی طرح کا مطالبہ مرزائیو کا ہے جب قیامت کا علم صرف اللہ کے پاس ہے تو قیامت کی نشانیاں کب وقوع پذیر ہونگی اس کا علم بھی صرف اللہ کو ہے ۔ اس لئے آپ مرزائیوں کا مطالبہ بھی ویسا ہے جیسے کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے تھے تو یہاں مرزائی ایسا مطالبہ کرکے خود کو کفار مکہ کی اولاد ثابت کرتے ہیں جو کہ وہ حقیقت میں ہیں ، اللہ ہم سب کو ان مرزائیو کے شر سے محفوظ رکھے آمین ۔