• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزاقادیانی کے دعوی باطلانہ ّّ ظل اور بروز ٗٗٗ کی حقیقت (پارٹ 5)

عبیداللہ لطیف

رکن ختم نبوت فورم
آسمانی نکاح اور مرزاقادیانی کی ظلیت:۔
محترم قارئین ! آئیے ایک اور انداز سے آنجہانی مرزاغلام احمد قادیانی کی ظلیت کا جائزہ لیتے ہیں ۔ سیّدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نبی کریم علیہ السلام کی پھوپھو زاد تھیں اور ابتدا میں ہی اسلام قبول کر چکی تھیں ۔
زمانہ جاہلیت میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کا درجہ دیا جاتا تھا اللہ رب العزت نے اس رسم بد کا خاتمہ کرنے کے لئے نبی کریم علیہ السلام کو حکم دیاکہ اپنے منہ بولے بیٹے زید رضی اللہ عنہ جوکہ غلام بھی تھے کا نکاح سیّدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے کر دیں ۔ اس حکم کی بنیاد پر سیّدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا نکاح زید رضی اللہ عنہ سے کر دیا گیا لیکن دونوں میاں بیوی کے درمیان نباہ نہ ہو سکا اور طلاق ہو گئی تو رب کائنات نے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ کے ساتھ شادی نہ کرنے کی رسم کے خاتمہ کرنے کے لیے رب ذوالجلال نے خودہمارے پیارے پیرومرشد امام الانبیاء ﷺ کا نکاح مبارک سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے عرش بریں پر کر دیا ور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا تازندگی نبی کریم علیہ السلام کے عقد میں رہیں ۔ اسی لیے سیّدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا بڑے فخر سے کہا کرتیں تھیں کہ تمہاری شادی تمہارے خاندان نے کی اور میری شادی اللہ تعالی نے ساتوں آسمانوں کے اوپر کی مسلم شریف میں سیّدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ
((زَوَّجَکُنَّ اَھَا لِیْکُنَّ وَزَوَّ جَنِیْ اللّٰہُ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمٰوٰتٍ))
(صحیح مسلم کتاب النکاح)
ترجمہ:۔ تمہاری شادی تمہارے خاندان نے کی اور میری شادی اللہ تعالی نے ساتوں آسمانوں کے اوپر کی ۔
محترم قارئین ! نبی رحمت علیہ السلام کا نکاح ام المومنین سیّدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کہ ساتھ اللہ رب العزت نے عرش بریں پر کیا تو وہ تا زندگی آنحضرت ﷺ کے عقد میں رہیں ۔ اس کے برعکس آنجہانی مرزاقادیانی نے بھی دعوی کیا تھا کہ میرا نکاح محمدی بیگم کے ساتھ اللہ تعالی نے کردیا ہے لیکن وائے حسرت کہ وہ تا زندگی مرزاقادیانی کے نکاح میں نہیں آئی ۔ اس واقعہ کی تفصیل بھی مرزاقادیانی کی زبانی ہی ملاحظہ کریں چنانچہ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ
’’پیش گوئی کا جب انجام ہویدا ہو گا ۔۔۔۔قدرت حق کا عجب ایک تماشا ہو گا
جھوٹ اور سچ میں ہے جو فرق وہ پیدا ہوگا ۔۔۔۔کوئی پا جائے گا عزت کوئی رسوا ہوگا‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 133طبع جدید)
یہ شعر درج کرنے کے بعد اسی اشتہار میں آگے چل کر مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ
’’یہ لوگ جو مجھ کو میرے دعویٰ الہام میں مکار اور دروغ گو خیال کرتے تھے اور اسلام اور قرآن شریف پر طرح طرح کے اعتراض کرتے تھے اور مجھ سے کوئی نشان آسمانی مانگتے تھے تو اس وجہ سے کئی دفعہ ان کے لیے دعا بھی کی گئی تھی۔ سو وہ دعا قبول ہو کر خدا تعالیٰ نے یہ تقریب قائم کی کہ والد اس دختر کا ایک اپنے ضروری کام کے لیے ہماری طرف ملتجی ہوا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ نامبردہ (احمد بیگ) کی ایک ہمشیرہ ہمارے ایک چچا زاد بھائی غلام حسین نام کو بیاہی گئی تھی۔ غلام حسین عرصہ پچیس سال سے کہیں چلا گیا ہے اور مفقود الخبر ہے۔ اس کی زمین ملکیت جس کا ہمیں حق پہنچتا ہے، نامبردہ (احمد بیگ) کی ہمشیرہ کے نام کاغذاتِ سرکاری میں درج کرا دی گئی تھی۔ اب حال کے بندوبست میں جو ضلع گورداسپور میں جاری ہے، نامبردہ یعنی ہمارے خط کے مکتوب الیہ (احمد بیگ) نے اپنی ہمشیرہ کی اجازت سے یہ چاہا کہ وہ زمین جو چار ہزار یا پانچ ہزار روپیہ کی قیمت کی ہے، اپنے بیٹے محمد بیگ کے نام بطور ہبہ منتقل کرا دیں چنانچہ ان کی ہمشیرہ کی طرف سے یہ ہبہ نامہ لکھا گیا۔ چونکہ وہ ہبہ نامہ بجز ہماری رضامندی کے بیکار تھا، اس لیے مکتوب الیہ (احمد بیگ) نے بتمامتر عجز و انکسار ہماری طرف رجوع کیا، تا ہم اس ہبہ پر راضی ہو کر اس ہبہ نامہ پر دستخط کر دیں۔ اور قریب تھا کہ دستخط کر دیتے لیکن یہ خیال آیا کہ جیسا کہ ایک مدت سے بڑے بڑے کاموں میں ہماری عادت ہے جنابِ الٰہی میں استخارہ کر لینا چاہیے۔ سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیا گیا۔ پھر مکتوب الیہ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا۔ وہ استخارہ کیا تھا گویا آسمانی نشان کی درخواست کا وقت آ پہنچا تھا جس کو خدائے تعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کر دیا۔
اس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص (احمد بیگ) کی دختر کلاں (محمدی بیگم) کے نکاح کے لیے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور یہ نکاح تمھارے لیے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار 20 فروری 1888ء میں درج ہیں لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی، وہ روزِ نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لیے کئی کراہت اورغم کے امر پیش آئیں گے۔
پھر ان دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کے لیے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دخترِ کلاں (محمدی بیگم) کو جس کینسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجام کار اسی عاجز کے نکاح میں لاوے گا اور بے دینوں کو مسلمان بناوے گا اور گمراہوں میں ہدایت پھیلا دے گا۔ چنانچہ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے: کذبوا بٰایٰتنا وکانوا بھا یستھزؤن فسیکفیکہم اللّٰہ ویردھا الیک لا تبدیل لکلمات اللّٰہ ان ربک فعال لما یرید۔ انت معی وانا معک عسٰی ان یبعثک ربک مقامًا محمودًا۔ یعنی انھوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور وہ پہلے سے ہنسی کر رہے تھے سو خدا تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لیے جو اس کام کو روک رہے ہیں، تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اُس کی اِس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا۔ کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔ تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے۔ تُو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں اور عنقریب وہ مقام تجھے ملے گا جس میں تیری تعریف کی جائے گی یعنی گو اوّل میں احمق اور نادان لوگ بدباطنی اور بدظنی کی راہ سے بدگوئی کرتے ہیں اور نالائق باتیں منہ پر لاتے ہیں لیکن آخر خدا تعالیٰ کی مدد کو دیکھ کر شرمندہ ہوں گے اور سچائی کے کھلنے سے چاروں طرف سے تعریف ہوگی۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 132,133طبع جدید)
مرزاغلام احمد قادیانی کا بیٹا مرزابشیر احمداپنی کتاب سیرت المہدی میں اسی واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح کی حقیقی ہمشیرہ مراد بی بی، مرزا محمد بیگ ہوشیارپوری کے ساتھ بیاہی گئی تھیں۔ مگر مرزا محمد بیگ جلد فوت ہو گئے اور ہماری پھوپھی کو باقی ایام زندگی بیوگی کی حالت میں گزارنے پڑے۔ ہماری پھوپھی صاحبِ رویا و کشف تھیں۔ مرزا محمد بیگ مذکور کے چھوٹے بھائی مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری کے ساتھ حضرت مسیح موعود کے چچیرے بھائیوں یعنی مرزا نظام الدین وغیرہ کی حقیقی بہن عمر النساء بیاہی گئی تھیں، ان کے بطن سے محمدی بیگم پیدا ہوئی۔ مرزا نظام الدین و مرزا امام الدین وغیرہ پرلے درجہ کے بے دین اور دہریہ طبع لوگ تھے اور مرزا احمد بیگ مذکور ان کے سخت زیر اثر تھا اور انھیں کے رنگ میں رنگین رہتا۔ یہ لوگ ایک عرصہ سے حضرت مسیح موعود سے نشانِ آسمانی کے طالب رہتے تھے کیونکہ اسلامی طریق سے انحراف اور عناد رکھتے تھے اور والدِ محمدی بیگم یعنی مرزا احمد بیگ ان کے اشارہ پر چلتا تھا۔ اب واقعہ یوں ہوا کہ حضرت مسیح موعود کا ایک اور چچا زاد بھائی مرزا غلام حسین تھا جو عرصہ سے مفقود الخبر ہو چکا تھا، اور اس کی جائداد اس کی بیوی امام بی بی کے نام ہو چکی تھی۔ یہ امام بی بی مرزا احمد بیگ مذکور کی بہن تھی۔ اب مرزا احمد بیگ کو یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مسمات امام بی بی اپنی جائداد اس کے لڑکے مرزا محمد بیگ برادر کلاں محمدی بیگم کے نام ہبہ کر دے۔ لیکن قانوناً امام بی بی اس جائداد کا ہبہ بنام محمد بیگ مذکور بلا رضا مندی حضرت مسیحِ موعود نہ کر سکتی تھی۔ اس لیے مرزا احمد بیگ بتمام عجز و انکساری حضرت مسیح موعود کی طرف ملتجی ہوا کہ آپ ہبہ نامہ پر دستخط کر دیں۔ چنانچہ حضرت صاحب قریباً تیار ہو گئے۔ لیکن پھر اس خیال سے رک گئے کہ دریں بارہ مسنون استخارہ کر لینا ضروری ہے۔ چنانچہ آپ نے مرزا احمد بیگ کو یہی جواب دیا کہ میں استخارہ کرنے کے بعد، دستخط کرنے ہوں گے تو کر دوں گا۔ چنانچہ اس کے بعد مرزا احمد بیگ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا۔ وہ استخارہ کیا تھا، گویا آسمانی نشان کے دکھانے کا وقت آن پہنچا تھا جس کو خدا تعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کر دیا۔ چنانچہ استخارہ کے جواب میں خداوند تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے یہ فرمایا کہ ’’اس شخص کی دخترِ کلاں کے نکاح کے لیے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور یہ نکاح تمھارے لیے موجبِ برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا، اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار 20 فروری 1886ء میں درج ہیں۔ لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روزِ نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا، اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی، اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لیے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے۔‘‘ اس وحی الہامی کے ساتھ حضرت مسیحِ موعود نے نوٹ دیا کہ ’’تین سال تک فوت ہونا روز نکاح کے حساب سے ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ کوئی واقعہ اور حادثہ اس سے پہلے نہ آئے بلکہ مکاشفات کے رُو سے مکتوب الیہ (یعنی مرزا احمد بیگ) کا زمانۂ حوادث جن کا انجام معلوم نہیں، نزدیک پایا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔‘‘ جب استخارہ کے جواب میں یہ وحی ہوئی تو حضرت مسیح موعود نے اسے شائع نہیں فرمایا بلکہ صرف ایک پرائیویٹ خط کے ذریعہ سے والدِ محمدی بیگم کو اس سے اطلاع دے دی کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ وہ اس کی اشاعت سے رنجیدہ ہوگا۔ لہٰذا آپ نے اشاعت کے لیے مصلحتاً دوسرے وقت کی انتظار کی۔ لیکن جلد ہی خود لڑکی کے ماموں مرزا نظام الدین نے شدتِ غضب میں آ کر اس مضمون کو آپ ہی شائع کر دیا اور علاوہ زبانی اشاعت کے اخباروں میں بھی اس خط کی خوب اشاعت کی۔ تب پھر حضرت مسیحِ موعود کو بھی اظہار کا عمدہ موقعہ مل گیا۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 114، 115 از مرزا بشیر احمد ایم اے)
محترم قارئین ! آپ یہ تو ملاحظہ کر چکے ہیں کہ کس طرح مرزاقادیانی نے اپنے رشتہ داروں کو ان کی مجبوری کی وجہ سے بلیک میل کرنے کی کوشش کی اب آپ اس وقت مرزاقادیانی کی عمر اور محمدی بیگم کی عمر کاتذکرہ بھی مرزاقادیانی کی زبانی ہی ملاحظہ فرمائیں چنانچہ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ
’’کانت بنتہ ھذہ المخطوبۃ جاریۃ حدیثۃ السن عذراء وکنت حینئدٍ جاوزت الخمسین۔
(ترجمہ) محمدی بیگم ابھی نوخیز لڑکی ہے اور میری عمر پچاس سال سے زائد ہے۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 574 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 574 از مرزا قادیانی)
محترم قارئین ! ہمارا اس جگہ مرزاقادیانی کی مرزااحمد بیگ اور مرزاسلطان بیگ کے بارے میں پیشگوئیوں کو زیربحث لانا مقصد نہیں یہاں پر صرف اور صرف مرزاقادیانی کے آسمانی نکاح کو زیر بحث لانا مقصود ہے چنانچہ اس بارے میں مرزاقادیانی کا الہام ملاحظہ کریں جو درج ذیل ہے :
’’یہ بھی الہام (ہوا) ہے ویسئلونک احق ھو قل ای وربّی انّہ لحقّ وما انتم بمعجزین۔ زوجنا کھا لا مبدل لکلماتی۔ وان یروا اٰیٰۃ یعرضوا و یقولوا سحر مستمر۔
اور (لوگ) تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا (محمدی بیگم سے نکاح والی) یہ بات سچ ہے؟ کہہ ہاں! مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے۔ ہم نے خود اس (محمدی بیگم) سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا ہے۱۔ میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا اور نشان دیکھ کر منہ پھیر لیں گے اور قبول نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ کوئی پکا فریب یا پکا جادو ہے۔‘‘
(آسمانی فیصلہ صفحہ 40 مندرجہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 350 از مرزا قادیانی)
محترم قارئین! مرزاغلام احمد قادیانی کا نکاح تازندگی محمدی بیگم سے نہیں ہوسکا بلکہ مرزاسلطان بیگ سے ہوا اور وہ تازندگی اس کے نکاح میں رہی ۔
۱؂؂ محترم قارئین ! اسی تناظر میں میں آنجہانی مرزاقادیانی کی ایک اور تحریرپیش کرنا چاہتا ہوں جونہ صرف مرزاقادیانی کی سلطان القلمی (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)
(پچھلے صفحے کابقیہ حاشیہ ) کا نادر نمونہ ہے بلکہ اسے پڑھ کر کئی اور سوالات بھی جنم لیتے ہیں چنانچہ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ
’’اور یہ امر کہ اس الہام میں یہ بھی تھا کہ اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھا گیا ہے یہ درست ہے مگر جیساکہ ہم بیان کر چکے ہیں اس نکاح کے ظہور کے لئے جوآسمان پر پڑھا گیا ایک شرط بھی تھی جو اسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ کہ ایتھاالمرأۃ توبی توبی فان البلاء علی عقبک پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا تو نکا فسخ ہو گیایاتاخیر میں پڑھ گیا۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 133مندرجہ قادیانی خزائن جلد22صفحہ 570)
محترم قارئین !اگرہم مرزا قادیانی کی اس مندرجہ بالاتحریر کاجائزہ لیتے ہیں تودرج ذیل سوال پیدا ہوتے ہیں
11۔ جیساکہ مندرجہ بالا تحریر سے واضح ہوتا ہے کہ مرزا صاحب قادیانی اس نکاح کا تذکرہ کر رہے ہیں جو آسمانوں پر پڑھا گیا تھا اور آخر میں لکھتے ہیں کہ وہ نکاح فسخ ہو گیا یا تاخیر میں پڑ گیا ۔جی ہاں جو نکاح آسمانوں پر پڑھا گیا تھا وہ فسخ ہو گیا ۔تو شریعت محمدی میں نکاح فسخ ہونے کے درج ذیل اسباب ہوتے ہیں۔
(۱) شوہر اس حد تک نادار ہوکہ بیوی کے اخراجات واجبہ ادا کرنے کی صلاحییت نہ رکھتا ہو ۔
(۲)شوہر مکمل طور پر نامرد ہو اور اپنی بیوی کے حقوق زوجیت اداکرنے کے قابل نہ ہو ۔
(۳۳)شوہر ایسا ظالم ہو کہ زود وکوب ،عدم خبر گیری وغیرہ سے بیوی کا عرصہ حیات تنگ کیے رکھتا ہو ۔
(۴)شوہر دین اسلام کو ترک کر کے مرتد ہو جائے ۔
اب ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ ان میں سے کس وجہ سے یہ آسمانی نکاح فسخ ہوا ۔
22۔ مرزا قادیانی نے دوسری بات جو اس تحریر میں بیان کی ہے وہ یہ کہ جو نکاح آسمانوں پر پڑھا گیا تھا وہ تاخیر میں پڑ گیا ۔ ہم پوچھ سکتے ہیں کہ یہ کونسی منطق ہے کہ ایک طرف تو نکاح پڑھا جا چکاتھا وہ تاخیر میں کیونکر پڑگیا ؟ تاخیر میں تو تبھی پڑ سکتا ہے جب ہواہی (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)
تصویر کشی اور مرزاقادیانی کی ظلیت:۔
محترم قارئین! شریعت محمدی ﷺ میں تصویرکشی نہ صرف حرام بلکہ اس بارے میں سخت وعیدیں بھی نازل ہوئی ہیں چنانچہ فرمان رسول ﷺ ہے کہ
(( اِنَّ اَشَدَّالنَّاسِ عَذَاباً عِنْدَاللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الْمُصَوِّرُوْنَ))
(صحیح بخاری ،کتاب الباس،باب عذاب المصورین یوم القیمۃ :۵۹۵۰)
ترجمہ:۔ اللہ تعالی کے ہاں قیامت کے دن تصویر بنانے والے کو سخت ترین عذاب ہو گا۔
(( اِنَّ الَّذِیْنَ یَصْنَعُوْنَ ھَذِہِ الصُّوَرَ یُعَذَّبُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُقَالُ لَھُمْ اَحْیُوْامَاخَلَقْتُمْ ))
(صحیح بخاری ،کتاب الباس،باب عذاب المصورین یوم القیمۃ :۵۹۵۱)
(پچھلے صفحے کابقیہ حاشیہ ) نہ ہو اور جب نکاح پڑھا جا چکاہو تووہ تاخیر میں کیسے پڑ سکتا ہے ؟
33۔ مرزا صاحب قادیانی نے اسی تحریر میں محمدی بیگم کے اس کی زوجیت میں نہ آنے کی وجہ ایک شرط بتائی ہے اور اسی شرط کے بارے اپنا الہام کچھ یوں بیان کیا ہے کہ ایتھاالمرأۃ توبی توبی فان البلاء علی عقبک اس الہام کا ترجمہ مرزا صاحب کے الہامات پر مشتمل ’’تذکرہ ‘‘ نامی کتاب کے صفحہ 108پرکچھ یوں موجودہے کہ
’’اے عورت توبہ کر توبہ کر کیونکہ تیری نسل پر مصیبت آنیوالی ہے ۔‘‘
مرزا صاحب اس تحریر میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے اس الہام میں موجود توبہ والی شرط کو پورا کر دیا تو یہ نکاح فسخ ہو گیا ۔دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ محمدی بیگم کا مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھ جو آسمانی نکاح ہوا تھا وہ مرزااحمد بیگ اور اس کے خاندان کے لیے ایک عذاب تھا جو توبہ کی وجہ سے فسخ ہو گیا اور اگر کسی عورت کا نکاح شریف النفس ،نیک اور پاکباز شخص سے ہو تو وہ عذاب نہیں ہو سکتا بلکہ عورت اور اس کے خاندان کے لیے نکاح تبھی (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)
ترجمہ:۔ یقیناًان تصویروں کے بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور کہا جائیگا جن کو تم نے بنایاتھا انہیں زندگی بھی عطاکرو۔
((لَا تَدْ خُلُ الْمَلٰءِکَۃُ بَیْتاً فِیْہِ کَلْبٌ وَلَا تَصَاوِیْرُ ))
(صحیح بخاری ،کتاب الباس،باب التصاویر:۵۹۴۹)
ترجمہ :۔رحمت کے فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔
محترم قارئین !یہ تو تھے تصویر کے بارے میں نبی کریم علیہ السلام کے احکامات اب مرزاقادیانی کا موقف بھی تصویر کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں چنانچہ مرزاقادیانی کے ملفوظات پر مشتمل کتاب درج ہے کہ
’’ایک شخص نے دریافت کیا کہ تصویر کی وجہ سے نماز فاسد تو نہیں ہوتی ۔جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
(پچھلے صفحے کابقیہ حاشیہ ) عذاب ہوگا جب جس شخص سے اس عورت کا نکاح ہوا ہو وہ بدکردار ،آوارہ،بدچلن اور عیاش طبیعت کا مالک ہو اب قادیانی حضرات کو خود فیصلہ کرنا ہو گا کہ اگر تو یہ نکاح توبہ کی وجہ سے فسخ ہواہے تو کیا مرزاقادیانی ایک بدکردار ،آوارہ،بدچلن انسان ثابت نہیں ہوتا اگر یہ نکاح والی پیشگوئی بغیر کسی شرط کے تھی اور وہ پوری نہیں ہوئی تو تب بھی مرزاقادیانی کذاب ٹھہرتا ہے کیونکہ اس نے خود اپنی کتاب انجام آتھم صفحہ 223مندرجہ قادیانی خزائن جلد 11صفحہ 223پر محمدی بیگم کے ساتھ اپنے نکاح کو نہ صرف تقدیر مبرم قرار دیا ہے بلکہ اسی نکاح کو اپنے صدق اور کذب کا معیار بھی بنایا ہے بلکہ ایک مقام پر تقدیر مبرم کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے ایک کا نام معلق ہے اور دوسری کو مبرم کہتے ہیں اگر کوئی تقدیر معلق ہوتو دعااور صدقات اس کو ٹلادیتی ہے اور اللہ تعالی اپنے فضل سے اس تقدیر کو بدل دیتا ہے اور مبرم ہونے کی صورت میں وہ صدقات اور دعا اس تقدیر کے متعلق کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی ۔‘‘
(ملفوظات جلد 3صفحہ 24طبع جدید )
کفار کے تتبع پر تو تصویر ہی جائز نہیں۔ہاں نفس تصویر میں حرمت نہیں بلکہ اس کی حرمت اضافی ہے ۔اگر تصویر مفسد نماز ہو تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا پھر روپیہ پیسہ نماز کے وقت پاس رکھنا مفسد نہیں ہوسکتا اس کا جواب اگر یہ دو کہ روپیہ پیسہ کا رکھنا اضطراری ہے میں کہوں گا کہ اگر اضطرارسے پاخانہ آجاوے تو مفسد نماز نہ ہوگا اور پھر وضو کرنانہ پڑے گا ۔
اصل بات یہ ہے کہ تصویر کے متعلق یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا اس سے کوئی دینی خدمت مقصود ہے یا نہیں ۔ اگر یونہی بے فائدہ تصویررکھی ہوئی ہے اور اس سے کوئی دینی فائدہ مقصود نہیں تو یہ لغو ہے اور خداتعالی فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِّ اللَّغْوِ مُعْرِ ضُوْنَ ۔(المومن :۴)لغو سے اعراض کرنا مومن کی شان ہے اس لیے اس سے بچنا چاہیے لیکن ہاں اگر کوئی دینی خدمت اس ذریعے سے بھی ہو سکتی ہے تو منع نہیں ہے کیونکہ خداتعالی علوم کوضائع کرنا نہیں چاہتا مثلًا ہم نے ایک موقع پر عیسائیوں کے مثلث خدا کی تصویر دی ہے جس میں روح القدس بشکل کبوتر دکھایا گیا ہے اور باپ اور بیٹے کی بھی جداجداتصویر دی ہے جس میں اس سے ہماری غرض یہ تھی کہ تا تثلیث کی تردید کر کے دکھائیں کہ اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے وہی حقیقی خدا ہے جو حیّ و قیّوم ازلی وابدی غیر متغیر اور تجسم ۱سے پاک ہے اسطرح پر اگر خدمت اسلام کے لیے کوئی تصویر ہو تو شرع کلام نہیں کرتی جو امور خادم شریعت ہیں ان پر اعتراض نہیں ہے ۔
کہتے ہیں کہ حضرت موسیؑ ٰ کے پاس کل نبیوں کی تصویر یں تھیں۲۲۔قیصر روم کے پاس جب صحابہ گئے تو انہوں نے آنحضرتﷺ کی تصویر اس کے پاس دیکھی تھی۳۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 171,172)
۱؂؂ محترم قارئین !ایک طرف تو مرزاقادیانی اللہ تعالی کوغیرمجسم قراردیتاہے تو دوسری طرف اللہ تعالی کے بارے میں کچھ یوں اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’قیوم العالمین ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے لئے (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)
مرزا غلام احمد قادیانی کا مرید خاص بلکہ بقول خود مرزا کی جوتیوں کا غلام مفتی صادق اپنی کتاب ’’ذکر حبیب ‘‘میں لکھتا ہے کہ
’’سب سے پہلا فوٹو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لیا گیا وہ غالبًا 1901 ؁؁ء میں اس ضرورت کے لیے تھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یورپ میں اشاعت کے واسطے ایک کتاب تصنیف کرنے کا ارادہ کیاتھا جس کا ترجمہ مولوی محمد علی صاحب نے انگریزی میں کرنا تھا اور تجویز ہوئی کہ چونکہ یورپ میں ایسے قیافہ شناس اور مصوران تصاویر بھی ہیں جو صرف تصویر کو دیکھ کر کسی شخص کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرتے ہیں اس واسطے ضروری ہو گاکہ اس کتاب کے ساتھ مصنف اور مترجم کی تصاویر بھی لگا دی جائیں ۔ اس غرض کے لیے لاہور سے ایک فوٹوگرافر منگوایا گیا جس نے جو مطلوبہ تصویریں تھیں الگ الگ لیں مگر بعد میں دوسرے احباب کی درخواست پر ایک گروپ فوٹو بھی لیا گیا۔
اس کے بعد گویا کہ تصاویر کے لینے کی اجازت پاکر کئی ایک فوٹو لیے جاتے رہے ۔ جن میں سے ایک گروپ فوٹو ایسا تھا جن میں (عاجز)میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں بیٹھا ہوا تھا اور بعد میں فوٹو گرافر کو کہہ کر یہ دو فوٹو میں نے پلیٹ پر سے الگ کرائے اور احمد صادق کا نام اس پر لکھ کر چھپوائے گئے ۔‘‘
(ذکر حبیب از مفتی صادق صفحہ 372,373)
محترم قارئین !شاید ہی کوئی قادیانی گھرانہ ہو جس میں مرزاقادیانی اور اس کے نام نہاد خلیفوں کی تصاویر آویزاں نہ ہوں۔
(پچھلے صفحے کابقیہ حاشیہ ) بے شمار ہاتھ بے شمار پیر اور ہر ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لاانتہا عرض و طول رکھتا ہے اور تندوی (تیند وے) کی طرح اس و جود اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں‘‘
(توضیح مرام صفحہ 75مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ90) (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)
محترم قارئین !آپ مرزاقادیانی کے مرید خاص اور بقول خود حضرت صاحب (مرزاقادیانی) کی جوتیوں کے غلام یعنی مفتی صادق کی تحریر اور مرزاقادیانی کی اجازت کے بعد قادیانیوں کے متفقہ عمل کو تو ملاحظہ کر ہی چکے ہیں اب اسی ضمن میں مرزاقادیانی کی ایک اور تحریر بھی ملاحظہ فرمائیں جس سے مرزاقادیانی کے قول فعل میں تضاد کی جھلک بھی واضح نظر آئے گی لیکن اس سے پہلے یہ بھی یاد رہے کہ مفتی صادق وہی شخص ہے جس کا نام اس فہرست میں 65ویں نمبر پر شامل ہے جو اصحاب بدر کے مقابل مرزاقادیانی نے اپنی کتاب انجام آتھم مندرجہ قادیانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۳۲۵تا۳۲۸ پر درج کی ہے اب مرزاقادیانی کی تحریر ملاحظہ فرمائیں چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ
’’میں اس بات کاسخت مخالف ہوں کہ کوئی میری تصویر کھینچے اور اس کو بت پرستوں کی طرح اپنے پاس رکھے یا شائع کرے میں نے ہر گز ایسا حکم نہیں دیا کہ کوئی ایسا کرے
’’وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرہ ذرہ ہے اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے وہ فرماتا ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا‘‘
(تجلیات الٰہیہ صفحہ 4مندرجہ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 396)
دوسری طرف اگر مرزاقادیانی عقیدہ تثلیث کی نفی کرتا ہے تو خود ہی اس کے برعکس اپنے آپ کو اللہ تعالی کا بیٹا قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالی کی طرف سے الہام ہواہے کہ
اے مرزا ! اَنْتَ مِنِّییْ بِمَنْزِ لَۃِ ولَدِیْ
ترجمہ؛تو مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے-
(بحوالہ تذکرہ صفحہ548ازمرزاقادیانی طبع چہارم)
۲؂ ،۳؂؂ کیا کوئی قادیانی ان دونوں باتوں کا ثبوت دے سکتا ہے کہ موسی علیہ السلام کے پاس تمام انبیاء علیہ السلام کی تصاویر تھیں اور قیصر روم کے پاس نبی کریم علیہ السلام کی تصویر تھی یا پھر آنجہانی مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی عادت خبیثہ کے تحت محض افتراء کیا ہے ۔
اور مجھ سے زیادہ بت پرستے اور تصویر پرستی کا کوئی دشمن نہیں ہوگا۔ ‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ صفحہ 194مندرجہ قادیانی خزائن جلد 21صفحہ366)
محترم قارئین !اب آپ ایک بار پھر مفتی صادق کی تحریر پڑھیں اور خود فیصلہ کریں کے ان دونوں میں سے کون کذب بیانی کا مظاہرہ کر رہا ہے جبکہ اصحاب بدر کے مقابل جن لوگوں کے ناموں کی مرزاقادیانی نے اپنی کتاب ضمیمہ انجام آتھم میں فہرست دی ہے ان کے لئے مرزاقادیانی دعا کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’یہ تمام اصحاب خصلت صدق و صفا رکھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ تعالی بہتر جانتا ہے بعض بعض سے محبت اور انقطاع الی اللہ اور سرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں اللہ تعالی سب کو اپنی رضاکی راہوں میں ثابت قدم کرے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 41مندرجہ قادیانی خزائن جلد 11صفحہ 325)
اب آ پ مفتی صادق کی تحریر کو دوبارہ ملاحظہ فرمائیں چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ
’’سب سے پہلا فوٹو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لیا گیا وہ غالبًا 1901 ؁؁ء میں اس ضرورت کے لیے تھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یورپ میں اشاعت کے واسطے ایک کتاب تصنیف کرنے کا ارادہ کیاتھا جس کا ترجمہ مولوی محمد علی صاحب نے انگریزی میں کرنا تھا اور تجویز ہوئی کہ چونکہ یورپ میں ایسے قیافہ شناس اور مصوران تصاویر بھی ہیں جو صرف تصویر کو دیکھ کر کسی شخص کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرتے ہیں اس واسطے ضروری ہو گاکہ اس کتاب کے ساتھ مصنف اور مترجم کی تصاویر بھی لگا دی جائیں ۔ اس غرض کے لیے لاہور سے ایک فوٹوگرافر منگوایا گیا جس نے جو مطلوبہ تصویریں تھیں الگ الگ لیں مگر بعد میں دوسرے احباب کی درخواست پر ایک گروپ فوٹو بھی لیا گیا۔
اس کے بعد گویا کہ تصاویر کے لینے کی اجازت پاکر کئی ایک فوٹو لیے جاتے رہے ۔ جن میں سے ایک گروپ فوٹو ایسا تھا جن میں (عاجز)میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں بیٹھا ہوا تھا اور بعد میں فوٹو گرافر کو کہہ کر یہ دو فوٹو میں نے پلیٹ پر سے الگ کرائے اور احمد صادق کا نام اس پر لکھ کر چھپوائے گئے ۔‘‘
(ذکر حبیب از مفتی صادق صفحہ 372,373)
مزید ایک مقام پر مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ
’’ اور میرا مذہب یہ نہیں ہے کہ تصویر کی حرمت قطعی ہے ۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ فرقہ جن حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے تصویریں بناتے تھے ۔اور بنی اسرائیل کے پاس مدت تک انبیاء کی تصویریں رہیں جن میں آنحضرت ﷺ کی بھی تصویر تھی ۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ صفحہ 195مندرجہ قادیانی خزائن جلد 21صفحہ366)
قادیانی دوستو! کیا تم میں سے کوئی شخص مرزاقادیانی کی مندرجہ بالا تحریر میں بیان کی گئی باتوں کا ثبوت پیش کر سکتا ہے یا پھر کرشن قادیانی نے یہاں پر بھی اپنی فطرت کے مطابق افتراء الی القرآن کا مظاہرہ کیا ہے ؟
 
Top