حسن انور
رکن ختم نبوت فورم
اسلام علیکم،
دوستو آج میں جس نکتہ پہ روشنی ڈالنا چاہ رہا ہوں، ممکن ہے آپ اس سے اختلاف کریں، آزادیِ رائے اور اختلاف رائے سب کا حق ہے، مگر اختلاف ہونا اور گستاخ ہونا دو الگ باتیں ہیں، اگر ہم پسندیدگی کی عینک اتار کر دیکھیں تو یہ جاننا زیادہ مشکل نہیں کہ کون اختلاف کر رہا ہے کون گستاخی اور کون بغض نکال رہا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں متنازع سکالرز کی کمی نہیں رہی، جن کا ہر دور میں علماء اہلسنت نے رد کیا اور عوام کو صحیح و غلط کی حقیقت سے آگاہ رکھا۔
میں زیادہ دور نہیں جاتا آپ مولانا مودودی صاحب کو لیں۔ علما کا ان سے اور ان کا علما سے بہت اختلاف رہا، پر کیا آپ کو یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے علما کو گالیاں دی ہوں لعنت کی ہو یاں مغلظات کہی ہوں۔
یہی کچھ ڈاکٹر اسرار صاحب کا حال رہا، انہوں نے اپنے عقائد کے حساب سے دین کی خدمت کی اور اپنی راۓ کا کھل کر اظہار کیا مگر علما کو اپنے دشمن مان کر نہیں چلے
غامدی صاحب کے نام سے بھی سب بخوبی واقف ہوں گے۔ ان کی تعلیمات تو بلکل ہی مختلف ہیں کسی بھی پہلو کو لیں۔ انہوں نے بھی اپنے خیالات کا ہر طرح سے کھل کے اظہار کیا بہت کچھ کہا اور سنا پر کیا پھر علما پہ تعن و تشنیع کی؟ ان کو گالیاں بکیں؟ لعنتیں کی؟
اب دیکھیں کیا ہی حسیِن اتفاق ہے کہ مرزا اول و دوم دونوں ہی علما کو اپنا دشمن گردانتے ہیں، لعنتیں کرتے ہیں اصلاح کی آڑ میں بغض کا برملا اظہار کرتے ہیں۔۔۔ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے۔ اتنی بڑی بات کی شباہت ہونا کیا اتفاق ہے بس؟
دونوں نے دین کو آسان کرنے کی بات کی، دونوں نے عوام کو علما سے دور کرنے کی بات کی، دونوں نے لفظ مولوی کو ایک گالی بنانے کی کوشش کی دونوں نے ہی شروع میں عوام کی صرف اور صرف اصلاح کی بات کی،
اور کیا آپ جانے ہیں کہ دجال بھی شروعات میں مسیحا ہونے کا ہی دعوا کرے گا۔
پھر کہوں گا کہ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ سب کچھ اتفاق۔
فیصلہ آپ کا
انصاف آپ کا
ایمان آپ کا
حسن انور
دوستو آج میں جس نکتہ پہ روشنی ڈالنا چاہ رہا ہوں، ممکن ہے آپ اس سے اختلاف کریں، آزادیِ رائے اور اختلاف رائے سب کا حق ہے، مگر اختلاف ہونا اور گستاخ ہونا دو الگ باتیں ہیں، اگر ہم پسندیدگی کی عینک اتار کر دیکھیں تو یہ جاننا زیادہ مشکل نہیں کہ کون اختلاف کر رہا ہے کون گستاخی اور کون بغض نکال رہا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں متنازع سکالرز کی کمی نہیں رہی، جن کا ہر دور میں علماء اہلسنت نے رد کیا اور عوام کو صحیح و غلط کی حقیقت سے آگاہ رکھا۔
میں زیادہ دور نہیں جاتا آپ مولانا مودودی صاحب کو لیں۔ علما کا ان سے اور ان کا علما سے بہت اختلاف رہا، پر کیا آپ کو یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے علما کو گالیاں دی ہوں لعنت کی ہو یاں مغلظات کہی ہوں۔
یہی کچھ ڈاکٹر اسرار صاحب کا حال رہا، انہوں نے اپنے عقائد کے حساب سے دین کی خدمت کی اور اپنی راۓ کا کھل کر اظہار کیا مگر علما کو اپنے دشمن مان کر نہیں چلے
غامدی صاحب کے نام سے بھی سب بخوبی واقف ہوں گے۔ ان کی تعلیمات تو بلکل ہی مختلف ہیں کسی بھی پہلو کو لیں۔ انہوں نے بھی اپنے خیالات کا ہر طرح سے کھل کے اظہار کیا بہت کچھ کہا اور سنا پر کیا پھر علما پہ تعن و تشنیع کی؟ ان کو گالیاں بکیں؟ لعنتیں کی؟
اب دیکھیں کیا ہی حسیِن اتفاق ہے کہ مرزا اول و دوم دونوں ہی علما کو اپنا دشمن گردانتے ہیں، لعنتیں کرتے ہیں اصلاح کی آڑ میں بغض کا برملا اظہار کرتے ہیں۔۔۔ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے۔ اتنی بڑی بات کی شباہت ہونا کیا اتفاق ہے بس؟
دونوں نے دین کو آسان کرنے کی بات کی، دونوں نے عوام کو علما سے دور کرنے کی بات کی، دونوں نے لفظ مولوی کو ایک گالی بنانے کی کوشش کی دونوں نے ہی شروع میں عوام کی صرف اور صرف اصلاح کی بات کی،
اور کیا آپ جانے ہیں کہ دجال بھی شروعات میں مسیحا ہونے کا ہی دعوا کرے گا۔
پھر کہوں گا کہ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ سب کچھ اتفاق۔
فیصلہ آپ کا
انصاف آپ کا
ایمان آپ کا
حسن انور