مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی صداقت کے نشان گنواتے ہوئے ایک عجیب قسم کا ”نشان“ گنوایا ہے۔ جو مرزا غلام احمد قادیانی کا نشان کم اس کی حماقت کی دلیل زیادہ ہے۔ ہوا یہ کہ مرزا غلام قادیانی کو کسی نے ٹوپی دیتے ہوئے اس کے مرید کو دوراہہ کے مقام کو لدھیانہ بتا دیا اور مرزا قادیانی سمیت اس کے سب مرید وہیں اتر گئے۔ مزید تفصیل آپ مرزا غلام قادیانی کی ہی زبانی پڑھئے گا۔ مگر مرزا قادیانی نے اس موقعہ پر ایک الہام فٹ کر دیا اور اس کو اپنی صداقت کا ایک نشان بنا دیا۔انّا للہ و انّا الیہ راجعون! واہ! پنجابی مسیح کے معجزات!
”تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب ہم دوراہہ کے اسٹیشن پر پہنچے تو لدھیانہ جہاں ہم نے جانا تھا اس جگہ سے دس کوس باقی رہ گیا۔ رات قریباً دس بجے گذر گئی تھی تب میرے ہمراہی شیخ عبد الرحیم نے ایک انگریز سے پوچھا کہ کیا لدھیانہ آگیا۔ اُس نے ہنسی سے یا کسی اور غرض سے کہا کہ آگیا۔ اور ہم اِس بات کے سننے سے سب کے سب ریل پر سے اُتر آئے۔ اور جب ہم اُتر چکے اور ریل روانہ ہوگئی تب ہمیں پتہ لگا کہ یہ دوراہہ ہے لدھیانہ نہیں ہے۔ اوروہ ایسی جگہ تھی کہ بیٹھنے کے لئے بھی چارپائی نہیں ملتی تھی اور نہ کھانے کے لئے روٹی۔ تب ہمیں بہت رنج اور افسوس او ر ہم وغم ہوا کہ ہم غلطی سے بے ٹھکانہ اُتر آئے اور ساتھ ہی یاد آیا کہ ضرور تھا کہ ایسا ہوتا۔ تب سب کے دِل سرور اورخوشی سے بھر گئے کہ خدا تعالیٰ کا الہام پوراہوا۔ اس واقعہ اور نشان کے گواہ شیخ حامد علی اور شیخ عبدالرحیم اور فتح خاں ہیں اگرچہ یہ دونوں ان دِنوں میں اپنی بدقسمتی سے سخت دشمن ہیں مگر چونکہ یہ بیان بالکل سچا ہے اِس لئے اگر ان دونوں کو حلف دی جائے توممکن نہیں کہ جھوٹ بولیں مگر شرط یہ ہے کہ حلف نمونہ نمبر ۲ کے موافق ہوگی۔ اب دیکھو کہ نشان اسے کہتے ہیں جس میں ایسے سخت مخالف گواہ ٹھہرائے گئے“۔(روحانی خزائن جلد ۱۵- تریَاق القلوُب: صفحہ 293)
”تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب ہم دوراہہ کے اسٹیشن پر پہنچے تو لدھیانہ جہاں ہم نے جانا تھا اس جگہ سے دس کوس باقی رہ گیا۔ رات قریباً دس بجے گذر گئی تھی تب میرے ہمراہی شیخ عبد الرحیم نے ایک انگریز سے پوچھا کہ کیا لدھیانہ آگیا۔ اُس نے ہنسی سے یا کسی اور غرض سے کہا کہ آگیا۔ اور ہم اِس بات کے سننے سے سب کے سب ریل پر سے اُتر آئے۔ اور جب ہم اُتر چکے اور ریل روانہ ہوگئی تب ہمیں پتہ لگا کہ یہ دوراہہ ہے لدھیانہ نہیں ہے۔ اوروہ ایسی جگہ تھی کہ بیٹھنے کے لئے بھی چارپائی نہیں ملتی تھی اور نہ کھانے کے لئے روٹی۔ تب ہمیں بہت رنج اور افسوس او ر ہم وغم ہوا کہ ہم غلطی سے بے ٹھکانہ اُتر آئے اور ساتھ ہی یاد آیا کہ ضرور تھا کہ ایسا ہوتا۔ تب سب کے دِل سرور اورخوشی سے بھر گئے کہ خدا تعالیٰ کا الہام پوراہوا۔ اس واقعہ اور نشان کے گواہ شیخ حامد علی اور شیخ عبدالرحیم اور فتح خاں ہیں اگرچہ یہ دونوں ان دِنوں میں اپنی بدقسمتی سے سخت دشمن ہیں مگر چونکہ یہ بیان بالکل سچا ہے اِس لئے اگر ان دونوں کو حلف دی جائے توممکن نہیں کہ جھوٹ بولیں مگر شرط یہ ہے کہ حلف نمونہ نمبر ۲ کے موافق ہوگی۔ اب دیکھو کہ نشان اسے کہتے ہیں جس میں ایسے سخت مخالف گواہ ٹھہرائے گئے“۔(روحانی خزائن جلد ۱۵- تریَاق القلوُب: صفحہ 293)
