• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا غلام احمد کے امراض خبیثہ میں متبلا نہ ہونے کی پیشگوئی

مرتضیٰ مہر

رکن ختم نبوت فورم
مرزا غلام احمد کے امراض خبیثہ میں متبلا نہ ہونے کی پیشگوئی

مرزا غلام احمد کو ہسٹیریا ،مرگی اور مراق کا مرض تھا، انکی پیشگوئی غلط نکلی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرات انبیاء کرام کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ہر قسم کے جسمانی عیوب اور امراض خبیثہ سے محفوظ رکھا اور ان پر کبھی ایسی بیماری نہیں آئی جو دوسروں کے لئے پیغمبر کی حاضری میں نفرت کا باعث بنے اور انکی خدمت میں آنے سے رکاوٹ کا موجب ہو اور پھر یہ عیب ہمیشہ کا ہو اور جس سے انکے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل سکے کہ یہ خدا تعالیٰ کا پیغمبر نہیں ہو سکتے جبھی تو اس قسم کے امراض خبیثہ کا ابدی شکار ہو گئے. اگر پہلے کسی پیغمبر کو کوئی ابتلاء پیش آیا بھی تو وہ ابدی اور دائمی نہ تھا وقتی اور عارضی تھا اور اس مدت کے گزرتے ہی ابتلاء کی یہ کیفیت بھی دور ہو گئی تھی.
مرزا غلام احمد نے جب دعویٰ نبوت کیا تو ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ اسے خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ کبھی امراض خبیثہ میں مبتلا نہیں کیا جائے گا اسکو کوئی ایسی بیماری نہیں ہو گی جا قابلِ عار سمجھی جائے. مرزا غلام احمد نے اس بات کو ایک پیشگوئی کے طور پر پیش کیا اور اپنے مخالفین کو بڑے تحدی کے ساتھ اسکی خبر سنائی.
مرزا غلام احمد نے کہا
”خدا تعالیٰ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر کوئی خبیث مرض دامن گیر ہو جائے جیسا کہ جذام اور جنون اور اندھا ہونا اور مرگی تو اس سے یہ لوگ نتیجہ نکالیں گے کہ اس پر غضب الٰہی ہو گیا اس لئے پہلے سے اُس نے مجھے براہین احمدیہ میں بشارت دی کہ ہر ایک خبیث عارضہ سے تجھے محفوظ رکھوں گا اور اپنی نعمت تجھ پر پوری کروں گا“ (روحانی خزائن جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 67)
آئیے ہم دیکھیں کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی صحیح نکلی یا جھوٹی. کیا مرزا صاحب کو کبھی کوئی خبیث مرض نہیں لگا ؟اور کیا وہ مرض ہمیشہ نہیں رہا؟ کیا مرزا صاحب کے خدا نے انہیں جھوٹی بشارت تو نہیں دی تھی؟ آئیے اب قادیانیوں کے اس مجموعہ امراض(مرزا غلام احمد) کو دیکھیں.
پچیس سال سے ہسٹیریا اور مرگی کا مرض

1) مرزا صاحب کو ہسٹیریا کا مرض تھا اور آپ کو مرگی کے دورے بھی پڑتے تھے مرزا صاحب کی بیوی کہتی ہے.
” حضرت مسیح موعود کو پہلی دفعہ دورانِ سر اور ہسٹیریا کا دورہ...بشیر اوّل کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا رات کو سوتے وقت آپ کو اتھو آیا اور پھر اسکے بعد طبعیت خراب ہو گئی مگر یہ دورہ خفیف تھا پھر اس کے کچھ عرصہ بعد... حضرت صاحب کی طبعیت خراب ہو گئی... (حضرت صاحب نے فرمایا -مصنف)میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اُٹھی ہے اور آسمان تک چلی گئی پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا اور غشی کی سی حالت ہو گئی... اسکے بعد سے آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہو گئے... ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے تھے اور بدن کے پٹھے کھنچ جاتے تھے خصوصاً گردن کے پٹھے اور سر میں چکر ہوتا تھا” (سیرت المہدی جلد 1 حصہ اول صفحہ14 روایت نمبر 16)
مرزا صاحب کو یہ دورے رمضان میں بھی پڑتے تھے. اور مرزا صاحب روزہ نہیں رکھتے تھے مرزا صاحب کی بیوی سے سنئے.
جب حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی-ناشر) کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا دوسرا رمضان.... آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ ہوا اسلئے باقی چھوڑ دئیے اور فدیہ ادا کر دیا اسکے بعد رمضان آیا دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کر دیا اسکے بعد جو رمضان آیا تو تیرہواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب پھر آپ کو دورہ پڑا آپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا...الخ“ (سیرت المہدی جلد1 حصہ اول صفحہ 59 روایت نمبر 81)
مرزا صاحب کو اس کے بعد بھی دورے پڑتے رہے اور وہ اس طرح روزہ سے بچتے رہے. پھر کبھی ان روزوں کی قضا نہیں کی بلکہ ہمیشہ فدیہ دے کر کام چلاتے رہے یہ کس شریعت کا مسئلہ ہے یہ نہ پوچھیے. بس اتنا یا د رکھئے کہ مرزا صاحب کو دورے پڑتے رہے ہم قادیانیوں کی اس بات کی تردید نہیں کرتے کہ مرزا صاحب نے اسلئے روزے کی قضا نہیں کی کہ انہیں کبھی صحت ملی نہ تھی آپ ہمیشہ دورے میں ہی رہتے تھے. اور دورے کی کیفیت بڑی عبرت ناک ہوتی تھی مرزا صاحب کو جب دورے پڑتے تو سارے گھر والے پریشان ہو جاتے تھے اور اس کے پیر باندھ دیتے تھے. مرزا صاحب کا بیٹا مرزا بشیر احمد اپنے ایک بھائی کی یہ کیفیت لکھتا ہے.
”چہرہ پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک جاتا تھا اور وہ کبھی اِدھر بھاگتا تھا اور کبھی اُدھر کبھی اپنی پگڑی اُتار کر حضرت صاحب کی ٹانگوں کو باندھتا تھا اور کبھی پاؤں دبانے لگ جاتا تھا“ (سیرت المہدی جلد1 حصہ اول صفحہ 26 روایت نمبر 36)
مرزا صاحب کو یہ بیماری تقریباً 25سال سے تھی اور اتنے عرصہ کی یہ بیماری کیا کہلاتی ہے اسے آپ خود مرزا صاحب سے سن لیں تاکہ کسی قادیانی کو یہ کہنے کی تکلیف نہ ہو کہ یہ بات ہم نے کہی ہے. مرزا صاحب لکھتے ہیں
”مجھے دو بیماریاں مدت دراز سے تھیں ایک شدید درد سر جس سے میں نہایت بیتاب ہو جاتا تھا اور ہولناک عوارض پیدا ہو جاتے تھے اور یہ مرض قریباً پچیس۲۵ برس تک دامنگیر رہی اور اس کے ساتھ دوران سر بھی لاحق ہو گیا اور طبیبوں نے لکھا کہ ان عوارض کا آخری نتیجہ مرگی ہوتی ہے چنانچہ میرے بڑے بھائی مرزا غلام قادر قریباً دو ماہ تک اسی مرض میں مبتلا ہو کر آخر مرض صرع (مرگی-ناشر) میں مبتلا ہو گئے اور اسی سے اُن کا انتقال ہو گیا“ (روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 376)
اب یہاں پہنچ کر مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی پھر سے پڑھیں

خدا نے مجھے بشارت دی کہ ہر ایک خبیث عارضہ سے تجھے محفوظ رکھوں گا
کیا یہ بشارت صحیح تھی؟ نہیں.
مرزا صاحب کی یہ بیماری عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی. مرزا صاحب نے لکھا
” مجھے دو مرض دامنگیر ہیں. ایک جسم کے اوپر کے حصّہ میں کہ سردرد اور دورانِ سر اور دورانِ خون کم ہو کر ہاتھ پَیر سرد ہو جانا نبض کم ہو جانا. دوسرے جسم کے نیچے کے حصّہ میں کہ پیشاب کثرت سے آنا اور اکثر دست آتے رہنا. یہ دونوں بیماریاں قریباً بیس20برس سے ہیں“ (روحانی خزائن جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 435)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ مرزا صاحب ہسٹیریا اور مرگی کے پرانے مریض تھے اور یہ مرض اپنے پورے عروج پر تھا اور کبھی کوئی ایسا وقت نہ آتا تھا کہ مرزا صاحب اس بیماری سے نکل پاتے ہوں اگر ایسا ہوتا تو مرزا صاحب روزے کی قضا ضرور کرتے انکا روزے کی کبھی قضا نہ کرنا بتاتا ہے کہ ان کا یہ مرض عارضی نہ تھا مستقل تھا.
تیس سال سے کثرت پیشاب کا مرض
2)مرزا صاحب کو کثرت پیشاب کی بیماری نے بھی بُری طرح پریشان کر رکھا تھا اور اس کی یہ بیماری بھی بہت پرانی تھی. مرزا صاحب نے اپنے جن پرانے امراض کا ذکر کیا ہے اس میں کثرت پیشاب کا مرض بھی ہے. مرزا صاحب لکھتے ہیں
”مسیح موعود زرد چادروں میں اترے گا ایک چادر بدن کے اوپر کے حصہ میں ہوگی اور دوسری چادر بدن کے نیچے کے حصہ میں ہوگی...یعنی ایک سر کی بیماری اور دوسری کثرت پیشاب اور دستوں کی بیماری“ (روحانی خزائن جلد ۲۰- تذکرۃ الشہادتین: صفحہ 46)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں
” دوسرے جسم کے نیچے کے حصّہ میں کہ پیشاب کثرت سے آنا اور اکثر دست آتے رہنا. یہ دونوں بیماریاں قریباً بیس20برس سے ہیں“ (روحانی خزائن جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 435)
مرزا صاحب اس بیماری کی وجہ سے دن رات میں کتنی مرتبہ بیت الخلاء جاتے تھے. وہ بھی ملاحظہ کریں
مجھے”دوسری بیماری بدن کے نیچے کے حصہ میں ہے جو مجھے کثرت پیشاب کی مرض ہے جس کو ذیابیطس بھی کہتے ہیں. اور معمولی طور پر مجھ کو ہر روزہ پیشاب بکثرت آتا ہے اور پندرہ15 یا بیس20دفعہ تک نوبت پہنچ جاتی ہے. اور بعض اوقات قریب سو100دفعہ کے دن رات میں آتا ہے “ (روحانی خزائن جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 373)
مرزا صاحب ایک اور جگہ اس کا اعتراف کرتے ہیں
” وہ بیماری ذیابیطس ہے کہ ایک مدت سے دامنگیر ہے اور بسا اوقات سُو سو دفعہ رات کو یا دن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرت پیشاب سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں.“ (روحانی خزائن جلد ۱۷- اربعین: صفحہ 471)
مرزا غلام احمد کو یہ بیماری تقریباً 20سے زائد سال سے تھی اسکا اعتراف خود اس نے حقیقت الوحی ص 363پر کیا ہے.*
دق اور سل کی بیماری
3) مرزا صاحب کو ایک اور بیماری نے بھی بُری طرح جکڑ رکھا تھا یہ بیماری دق اور سل کی بیماری تھی. مرزا صاحب کی بیوی کہتی ہے
”ایک دفعہ تمہارے دادا کی زندگی میں حضرت مرزا صاحب کو سل ہو گئی اور چھ ماہ تک بیمار رہے اور بڑی نازک طبیعت ہو گئی. حتی کہ زندگی سے ناامیدی ہو گئی“ (سیرت المہدی جلد 1 حصہ اول صفحہ 49 روایت نمبر 66)
یعقوب علی قادیانی کہتے ہیں
”حضرت اقدس نے اپنی بیماری کا بھی ذکر کیا ہے یہ بیماری آپ کو حضرت غلام مرتضیٰ صاحب کی زندگی میں ہو گئی تھی.... اس بیماری میں آپ کی حالت بہت نازک ہو گئی تھی “ (حیات احمد جلد 2صفحہ79)
یاد رہے کہ دق اور سل اس بیماری کو کہتے ہیں جو پھیپھڑوں کے خراب ہونے کے باعث لگتی ہے اور اس کی وجہ سے منہ سے خون آنے لگتا ہے.
مراق کی بیماری
4)مرزا صاحب جس بیماری کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان رہا کرتے تھے وہ مراق کی بیماری تھی. مراق کی بیماری بڑی خطرناک بیماری ہے.
مراق مالیخولیا کی ایک قسم ہے اس سے پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں اور آدمی جنون میں بکواس کرنے لگتا ہے. ہندوستان کے معروف حکیم غلام جیلانی مراق کے مریض کے بارے میں لکھتے ہیں
”مریض ہمیشہ سست و متفکر رہتا ہے اس میں خودی کے خیالات پیدا ہو جاتے ہیں ہر ایک بات میں مبالغہ کرتا ہے“(مخزن حکمت طبع دوم ماخوذ از قادیانی مذہب صفحہ 143)
حکیم محمد اعظم خان صاحب لکھتے ہیں
مریض کے اکثر اوہام اس کے کام سے متعلق ہوتے ہیں جس میں مریض زمانہ صحت میں مشغول رہا ہو مثلاً مریض صاحب علم ہو تو پیغمبری اور معجزات و کرامات کا دعویٰ کرتا ہے خدائی کی باتیں کرتا ہے اور لوگوں کو اسکی تبلیغ کرتا ہے. (اکسیرِ اعظم جلد 1صفحہ188)
مرا غلام احمد کے دست راست اور خلیفہ خاص حکیم نور الدین لکھتے ہیں
مالیخولیا کا کوئی مریض خیال کرتا ہے کہ میں بادشاہ ہوں کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ میں خدا ہوں کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ میں پیغمبر ہوں....(بیاضِ حکیم نور الدین قادیانی جلد 10صفحہ 212)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ مراق ایک خطرناک مرض ہے. یہ پاگل پن ہے اس کا مریض کبھی دعویٰ نبوت کرتا ہے تو کبھی خدائی کا دعویٰ بھی کر دیتا ہے اب جس شخص میں یہ مرض پایا جائے اسے پاگل نہ کہیں اور کیا کہیں گے کیا مرزا غلام احمد کی تحریرات میں یہ سب دعوے موجود نہیں حکیم نور الدین کے سامنے اس کی سب سے بڑی شہادت مرزا غلام احمد کی ذات تھی جس نے اس بیماری کی وجہ سے نبوت کا دعویٰ تک کرنے سے گریز نہ کیا. آئیے یہ بھی دیکھیں کہ مرزا غلام احمد نے اس مرض مراق سے کتنا وافر حصہ پایا تھا. مشہور قادیانی ڈاکٹر میر محمد اسمعیل قادیانی کہتے ہیں کہ
”میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود سے سنا کہ مجھے ہسٹیریا ہے بعض اوقات آپ مراق بھی فرمایا کرتے تھے “(سیرت المہدی جلد 1 حصہ دوم صفحہ 340 روایت نمبر 372)
مرزا صاحب کہتے ہیں ”میرا تو یہ حال ہے کہ باوجود اس کے کہ دو بیماریوں میں ہمیشہ سے مبتلا رہا ہوں پھر بھی آج کل میری مصروفیت کا یہ حال ہے کہ رات کو مکان کے دروازے بند کر کے بڑی بڑی رات تک بیٹھا اس کام کو کرتا رہتا ہوں حالانکہ زیادہ جاگنے سے مراق کی بیماری ترقی کرتی ہے اور دوران سر کا دورہ زیادہ ہوتا ہے“ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 565 طبع جدید)
مرزا صاحب مراق کے مرض کو مسیح موعود کی علامت سمجھتے تھے. انکا کہنا ہے کہ
”دیکھو میری بیماری کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پیشگوئی کی تھی جو اسی طرح وقوع میں آئی آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح جب آسمان سے اُترے گا تو زرد چادریں اس نے پہنی ہوئی ہونگی تو اسی طرح مجھ کو دو بیماریاں ہیں ایک اوپر کے دھڑکی اور ایک نیچے کے دھڑ کی یعنی مراق اور کثرت بول“ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 32-33 طبع جدید)
ایک مرتبہ مرزائی خلیفہ اول مولوی نور الدین نے مرزا سے کہا
”حضور غلام نبی کو مراق ہے. تو حضور نے فرمایا کہ ایک رنگ میں سب نبیوں کو مراق ہوتا ہے اور مجھ کو بھی ہے“ (سیرت المہدی جلد1 حصہ سوم صفحہ 822 روایت نمبر 969)
قادیانی سے شائع ہونے والے ایک رسالہ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ مرزا غلام احمد کو مراق کا مرض تھا.
”مراق کا مرض حضرت مرزا صاحب میں موروثی نہ تھا بلکہ یہ خارجی اثرات کے ماتحت پیدا ہوا “ (رسالہ ریویو قادیان صفحہ 10اگست 1926ء)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ مرزا صاحب مراقی تھے اور یہ مرض ان میں دن بدن بڑھتا رہا اسی مرض کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو کبھی خدا. کبھی بادشاہ.کبھی نبی و رسول اور کبھی مسیح و مہدی کہتے تھے اور پھر انکے نادان مرید انکے ہاتھ پر بیعت کرتے تھے کسی کو یہ سوچنے کی فرصت نہ مل سکی کہ مرزا صاحب کا دعویٰ نبوت اور دعویٰ مسیحیت یہ سب مراق کے کرشمے ہیں اور مالیخولیا کے مریض اسی قسم کی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں. مرزا صاحب کی کتابیں اور انکے دعوے دیکھیں تو آپ ہماری اس بات کی تائید کریں گے کہ مرزا صاحب پر واقعی مراق کا بہت گہرا اثر تھا. اب آپ ہی بتائیں کہ کیا اس قسم کے مراقی کو خدا کا نبی مانا جا سکتا ہے ؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ مرزا صاحب کی بیوی کو بھی مراق تھا. اور یہ دونوں میاں بیوی اس مرض کے پوری طرح شکار تھے. مرزا غلام احمد نے بھری عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا
میری بیوی کو مراق کی بیماری ہے کبھی کبھی وہ میرے ساتھ ہوتی ہے.(قادیانی اخبار الحکم 10اگست 1901 ء)
عبرت کا مقام یہ ہے کہ مرزا صاحب کے بیٹے (والد مرزا طاہر) کو بھی مراق کی بیماری تھی ڈاکٹر شاہنواز قادیانی کہتے ہیں
”جب خاندان میں اسکی ابتداء ہو چکی تو اگلی نسل میں بے شک یہ مرض منتقل ہوا چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح(مرزا بشیر الدین) نے فرمایا کہ مجھ کو بھی کبھی کبھی مراق کا دورہ ہوتا ہے“ (رسالہ ریویو قادیان صفحہ 11اگست 1926 ء)
ہم اس وقت مرزا غلام احمد کے بیمار خاندان پر بحث نہیں کر رہے ہیں بتلانا صرف یہ ہے کہ مرزا صاحب مراق کے مریض تھے اسکا اعتراف خود انہوں نے بھی کیا ہے. اب جو شخص اس مرض میں مبتلا ہو اور وہ کوئی دعویٰ کرے تو اسکے دعویٰ کی تردید کے لئے کسی اور وکیل کی ضرورت نہیں رہتی. مراق کی بیماری ہی اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے کہ مدعی مہدویت و نبوت اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے اور اس کی کوئی بات بھی لائق اعتبار نہیں ہوگی.قادیانیوں کے مشہور ڈاکٹر شاہنواز قادیانی کا قابلِ عبرت بیان ملاحظہ کیجئے
”ایک مدعی الہام کے متعلق اگر ثابت ہو جائے کہ اسکو ہسٹیریا یا مالیخولیا یا مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعوے کی تردید کے لئے پھر کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ یہ ایسی چوٹ ہے جو اسکی صداقت کی عمارت کو بیخ وبن سے اُکھاڑ دیتی ہے“ (رسالہ ریویو آف ریلیجنز قادیان صفحہ 7.اگست 1926 ء)
ہمارا بھی اس پر صاد ہے. قادیانیوں کو مرزا غلام احمد کی تحریرات اور اس کے بیانات سے بڑا اور کونسا ثبوت چاہیے. ان میں کوئی پڑھا لکھا موجود ہے تو اسے قادیانی ڈاکٹر کے اس بیان کی روشنی میں مرزا غلام احمد کا طوق اپنے گلے سے فوراً نکال باہر پھینک دینا چاہیے اور واقعی یہ ایسی چوٹ ہے جس نے قادیانی عمارت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینک دیا ہے.
سو مرزا صاحب نے کہا کہ اسے خدا نے بذریعہ وحی بتایا ہے کہ اسے کبھی کوئی خبیث عارضہ نہیں ہو گا لیکن ہم مرزا غلام احمد اور قادیانی زعماء کی زبانی یہ واضح کر چکے ہیں کہ مرزا صاحب کو ہسٹیریا، مالیخولیا اور مرگی تینوں قسم کی بیماریاں تھیں. یہ ایک ایسی خدائی ضرب ہے جو ہمیشہ قادیانیوں پر پڑتی رہے گی اور یہ چوٹ کبھی ختم نہ ہو گی. جو قادیانی ان شواہد کے ہوتے ہوئے اپنی بات پر ہی اڑتے ہیں اور ایک مراق کے مریض کو خدا کا نبی جانتے ہیں وہ صرف اس دنیا میں ہی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے بلکہ آخرت کی رسوائی اور ہمیشہ کی ذلت کا طوق بھی اپنے گلے میں ڈال رہے ہیں. ہاں جو قادیانی اپنی آنکھوں سے تعصب کی پٹی اُتار پھینکیں اور کھلے دل سے ان حقائق کا مطالعہ کریں تو ہمیں یقین ہے کہ انہیں اپنی زندگی میں ایک تاریخی فیصلہ کرنے میں ذرا بھی دیر نہ ہوگی. اور وہ سب کچھ چھوڑ کر اس ذات اقدس(صلی اللہ علیہ و سلم) کا دامن تھام لیں گے جنکی اطاعت و اتباع میں ہی دونوں جہاں کی کامیابی و کامرانی ہے.فاعتبر وایا اولی الابصار


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* ”ذیابیطس تخمیناً بیس برس سے ہے جو مجھے لاحق ہے“ (روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 377)
 
Top