دوستو مرزا قادیانی نے عبداللہ آتھم والے مناظرے میں اپنے ایمان کی از روئے قرآن چار علامتیں بیان کیں۔ معاملہ کچھ یوں ہوا کہ چونکہ اس کا دعوی تھا حضرت عیسی علیہ السلام کے مثیل ہونے کا بلکہ اس کا کہنا تھا کہ '' مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مسیح ابن مریم میرے زمانے میں ہوتا تو وہ کام جو میں کرسکتا ہوں وہ ہرگز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہورہے ہیں وہ ہرگز نہ دکھلا سکتا'' روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 60
دوستو مرزے کی اس تحریر سے جہاں اللہ پاک کے ایک پاک پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بد ترین گستاخی کی گئی ہے وہیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دعوی ان کے مثیل ہونے کا مگر کمالات ان سے زیادہ بتانا کسی بھی عقل مند انسان کو یہ بات آسانی سے سمجھا سکتا ہے کہ مرزا قادیانی جھوٹ کا پلندہ تھا۔ اور ویسے بھی کسی بھی اللہ کے سچے نبی نے کبھی کسی دوسرے پیغمبر کی توہین نہیں کی۔ خیر یہ الگ موضوع ہے تو چونکہ مرزا کا یہ دعوی تھا کہ وہ اپنے کمالات اور نشانات یعنی معجزات میں حضرت عیسی علیہ السلام سے بھی آگے ہے (نعوذباللہ) تو ایک دن آتھم والے مناظرے میں پادریوں نے چپکے سے کچھ لولہے لنگڑے اندھے وہاں بٹھا دیئے اور مرزے سے کہا کہ اگر تم واقعی سچے ہو تو ان پہ ہاتھ پھیرو اگر یہ ٹھیک ہوگئے تو ہم اپنے عقیدے کی اصلاح کریں گے اور آپ کو سچا مان لیں گے ۔ یہ بات سن کے مرزے کا کیا حال ہوا ہوگا اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں، کیونکہ اس سے ایسا کچھ ہونا ناممکن تھا لیکن ان کو بھی ٹالنا تھا تو مرزا قادیانی نے وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قرآن پاک سے ثابت شدہ معجزات کا صاف انکار کرتے ہوئے اپنی سچائی اور ایمان کی چار علامتیں بیان کیں۔ میرا یہاں مرزائی پادریوں سے سوال ہے کہ مرزا قادیانی کی سچائی کی وہ علامات قرآن پاک کی کونسی سورۃ میں ہیں ہمیں بھی بتایا جائے۔ لیکن بحرحال وہ چار علامتیں جو مرزا قادیانی نے قرآن سے اپنے بارے بتائیں وہ درج ذیل ہیں
1۔ فصاحت و بلاغت
2۔فہم قرآن
3۔استجابت دعا (یعنی دعاوں کا قبول ہونا)
4۔ امور غیبیہ کی پیش گوئیاں
وہاں تو مرزا قادیانی نے اپنی ذلت سے بچنے کے لیے یہ بہانہ گھڑا کیونکہ وہ فی الفور مریضوں کو ٹھیک نہیں کر سکتا تھا لیکن چلو اگر سچا تھا تو دعا ہی مانگ دیتا ان کے لیے کیونکہ دعا کے قبول ہونے کا تو اس کا بھی دعوی تھا۔ لیکن مرزا ساپ کے ڈرامے بھی عجیب تھے اگر دعا مانگ بھی دیتا اور ہمیشہ کی طرح قبول نہ ہوتی تو اس نے کہہ دینا تھا کہ وہ مسلمان نہیں تھے اس لیے قبول نہیں ہوئی یا وہ ڈر گئے تھے
1۔اب دیکھتے ہیں کہ مرزا ساپ کی فصاحت و بلاغت اور قرآن فہمی کا کیا حال تھا مثالیں تو بہت ساری ہیں مگر دو چار مثالیں ہی پیش کرتا ہوں پہلی مثال ایک ایسی کتاب سے جس کا الہامی ہونے کا بھی دعوی تھا مرزے کا یہ کتاب ہے جہاز المسیح المشہور اعجاز المسیح
اس کے ٹائٹل پیج پہ مرزا قادیانی کی فصاحت و بلاغت کا عجیب و غریب نمونہ درج ہے۔ لکھا ہے
'' فی سبعین یوما من شھر الصیام ''
اس کا معنی بنتا ہے ماہ رمضان کے ستر دنوں میں سے۔ شاید مرزا ساپ کو معلوم ہی نا ہو کہ ماہ رمضان سمیت کسی بھی مہنے کے ستر دن نہیں ہوتے اور یہاں اگر تاویل کی جائے کچھ تو مرزا ساپ کا فصاحت و بلاغت کا دعوی منہ کے بل گرتا ہے کیونکہ تاویل فصاحت و بلاغت کے منافی ہے۔ وہ ایک اندھے کی مثال ہے کہ وہ ایک برتن میں روزانہ بکری کی ایک منگنی رکھ کے تاریخ کو یاد رکھتا جب کوئی اس سے پوچھتا کہ آج تاریخ کیا ہے تو وہ مینگنیاں گن کے بتا دیتا ایک بار بکری نے اس برتن میں کافی ساری مینگنیاں کردیں اور کسی نے تاریخ پوچھی تو اس نے کافی ساری مینگنیاں گن کے کہا کہ آج چالیس تاریخ ہے سائل نے کہا جناب مہینہ تو چالیس دن کا ہوتا ہی نہیں تو آپ نے چالیس تاریخ کیسے کردی تو اندھے نے جواب دیا کہ میں نے تو ابھی رعایت کردی ہے ورنہ اگر ساری مینگنیاں شمار کی جائیں تو تاریخ تو ستر تک پہنچ چکی ہے شاید مرزا ساپ بھی اسی کے شاگرد تھے۔(ماخوذ از سیف چشتیائی)
پھر آگے لکھتا ہے ''مقام الطبع قادیان ضلع گورداس پور'' روحانی خزائن جلد 18 کتاب اعجاز المسیح ٹائٹل پیج
اب مرزا ساپ سے کوئی پوچھے کہ کونسی عربی ہے جس میں پ اور گ ہوتا ہے؟ کیا کہنے فصاحت و بلاغت کے۔
2۔ مرزا ساپ کی قرآن فہمی اور فصاحت و بلاغت کا اگلا نمونہ روھانی خزائن جلد 18 صفحہ 389 پر ملاحظہ فرمائیں یہاں مرزا ساپ نے سورۃ توبہ اور سورۃ الصف کی دو آیات کا ایک ایک حصہ لے کے اسے ایک آیت بنا کر پیش کیا اور پھر نیچے اس کا ترجمعہ بھی عربی الفاظ کے مطابق نہیں لکھا۔ اور اس کے بعد اسکی ذریت کو جب اسکی غلطی کا پتہ چلا تو انہوں نے نیچے دونوں سورتوں کا حوالہ دے دیا کہ آدھی عبارت کسی اور آیت کی ہے اور آدھی عبارت کسی اور آیت کی ۔
لکھا ہے
'' یریدون ان یطفعو نور اللہ بافواھھم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکفرون ''
جبکہ اس جگہ لفظ لیطفعو ہے نا کہ ان یطفعو دیکھیں سورۃ الصف آیت 8
جبکہ سورہ توبہ آیت 32 میں یریدون ان یطفعو نور اللہ بافواھھم کے الفاظ ہیں لیکن اس سے آگے آیت کے الفاظ اور ہیں پوری آیت یوں ہے
'' یریدون ان یطفعو نور اللہ بافواھھم ویابی اللہ الا ان یتم نورہ ولو کرہ الکفرون ''
تو مرزا ساپ کی قرآن فہمی اور فصاحت و بلاغت کا نمونہ دیکھیں کہ مرزا ساپ کو علم ہی نہیں تھا کہ دونوں آیات کیسے ہین اور ان میں فرق کیا ہے، آدھا حصہ ایک کا اور بقیہ آدھا دوسری آیت کا پکڑا اور ایک آیت بنا دی اور اب اسکی ذریت اسکی غلطیاں نکالتی پھرتی ہے۔
3۔ اب مرزا ساپ کی قرآن فہمی اور فصاحت و بلاغت کا ایسا نمونہ کہ آپ اس کی جہالت سے یقینا حیران رہ جائیں گے۔ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 264 پر لکھا ہے '' لم یلد کا لفظ جس کے یہ معنی ہیں کہ خدا کسی کا بیٹا نہیں کسی کا جنایا ہوا نہیں''
یہ سورۃ اخلاص جو قرآن پاک کی ایک چھوٹی سی سورۃ ہے جو کہ تقریبا ہر مسلمان کو زبانی یاد ہوتی ہے بمع ترجمع کے اور یہاں مرزا ساپ لم یلد کے معنی بتاتے ہیں کہ خدا کسی کا بیٹا نہیں
جبکہ اس کا معنی ہے خدا کسی کا باپ نہیں۔ دوستو آپ اندازہ کریں اس کذاب کی جہالت کا یہ حال ہے اسکی قرآن فہمی اور فصاحت و بلاغت کا۔ یہ اس کی بے شمار ایسی جہالتوں میں سے چند ایک درج کی ہین اختصار کی خاطر۔
اب چلتے ہیں کہ اسکی دعائیں قبول ہوتی تھیں یا نہیں
1۔ اپریل 1901 کو مرزا قادیانی نے ایک الہامی دعا کی ''اے میرے رب میری عمر میں اور میرے ساتھی کی عمر میں خارق عادت زیادت فرما'' تذکرہ نیو ایڈیشن صفحہ 331
ساتھی بمعنی بیوی کیونکہ اصل عبارت عربی کی ہے جس میں زوجی کا لفظ ہے جو بیوی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اب دیکھیں کہ 100 سال کے لگ بھگ تو عام لوگوں کی عمریں ہوجاتی ہیں اب خارق عادت زیادہ تب ہوتی جب کوئی دو سو سال یا اس سے بھی زیادہ عمر ہوتی مرزا اور اسکی بیوی کی لیکن دونوں میں سے کسی کی بھی خارق عادت زیادہ نہ ہوئی مرزا قادیانی کی 68 سال اور تقریبا اتنی ہی اسکی بیوی کی ہوئی۔
2۔ پھر تذکرہ کے صفحہ 497 پر اسکی ایک دعا درج ہے '' یا الہی میری عمر 95 برس کی ہوجاوے'' اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس دعا کا بھی الہامی دعا ہونے کا دعوی ہے لیکن یہ بھی پوری نہ ہوئی
3۔ پھر سیرت المھدی کی روایت نمبر 839 میں درج ہے کہ مرزا قادیانی نے ایک سال کچھ طلباء کے لیے دعا کی کہ ''خدا تم سب کو پاس کرے'' مگر وہ سب پاس نہ ہوئے خود اسکا بیٹا اسی روایت میں اقرار کرتا ہے کہ کچھ طلباء اسی سال پاس ہوئے کچھ اس سے اگلے سال اور کچھ پھر بھی پاس نہ ہوئے۔
نیز عبداللہ آتھم کی پیش گوئی کی معیاد میں جب آخری دن تھا تو ساری ذریت قادیانیت اور مرزا خود دعاوں اور ٹوٹکوں میں مصروف رہا کہ یا اللہ آتھم مرجائے مگر اللہ پاک نے مرزا کو عیسائیوں کے ہاتھوں بھی ذلیل کروایا۔ یہ فقط چند ایک مثالیں ہیں ورنہ اس ایک لمبی لسٹ ہے
4۔ اب چلتے ہیں امور غیبیہ کی پیش گوئیاں
1۔ مرزا کی بیوی حاملہ ہوئی تو اس نے اشتہار دیا کہ ایک شوخ و شنگ لڑکا پیدا ہوگا مگر جب وضع حمل ہوا تو وہ لڑکی نکلی
2۔مرزا قادیانی نے محمدی بیگم کے بارے بے شمار پیشگوئیاں کیں کہ وہ اس کے یعنی مرزا کے نکاح میں آئے گی بلکہ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ خدا نے میرا نکاح بھی پڑھا دیا اور مجھے مبارک باد بھی دی ہے مگر محمدی بیگم کبھی اسکے نکاح میں نہ آئی اور مرزا جہنم واصل ہوگیا
3۔ مرزا قادیانی کے ایک مرید کی بیوی حاملہ ہوئی تو اس نے کہا کہ لڑکا پیدا ہوگا پھر اس لڑکے کے نو عدد الہامی نام بھی بتا دیے مگر وہاں بھی لڑکی پیدا ہوئی تو مرزے نے کہا کہ ضروری نہیں کہ اسی حمل سے لڑکا پیدا ہوتا مگر اس کے بعد اس عورت کو کبھی کوئی اولاد نہ ہوئی اور وہ جہان فانی سے کوچ کرگئی۔
4 مرزا نے کہا کہ ایک کنواری اور ایک بیوہ 2 عورتیں میرے نکاح میں آئیں گی مگر وہ بکر و ثیب کبھی اسکے نکاح میں نہ آسکیں اور مرزا قادیانی دنیا سے کوچ کرگیا
5۔ اسی طرح مرزا قادیانی نے محمدی بیگم کے خاوند سلطان احمد کے بارے پیش گوئی کی کہ وہ میری زندگی میں ہلاک ہوگا مگر وہ مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد تقریبا چالیس سال تک زندہ رہا۔(حوالہ جات مانگنے پر مہیا کیسے جاسکتے ہیں)
تو دوستو آپ نے دیکھا کہ مرزا نے جو اپنے ایمان اور سچائی کی چار نشانیاں قرآن کی طرف منسوب کرکے بتائی تھیں اس میں بھی وہ جھوٹا اور بے ایمان ثابت ہوا۔ کیا اب بھی کسی کو شک ہوگا اس کے جھوٹے ہونے میں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آقا کا غلام
دوستو مرزے کی اس تحریر سے جہاں اللہ پاک کے ایک پاک پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بد ترین گستاخی کی گئی ہے وہیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دعوی ان کے مثیل ہونے کا مگر کمالات ان سے زیادہ بتانا کسی بھی عقل مند انسان کو یہ بات آسانی سے سمجھا سکتا ہے کہ مرزا قادیانی جھوٹ کا پلندہ تھا۔ اور ویسے بھی کسی بھی اللہ کے سچے نبی نے کبھی کسی دوسرے پیغمبر کی توہین نہیں کی۔ خیر یہ الگ موضوع ہے تو چونکہ مرزا کا یہ دعوی تھا کہ وہ اپنے کمالات اور نشانات یعنی معجزات میں حضرت عیسی علیہ السلام سے بھی آگے ہے (نعوذباللہ) تو ایک دن آتھم والے مناظرے میں پادریوں نے چپکے سے کچھ لولہے لنگڑے اندھے وہاں بٹھا دیئے اور مرزے سے کہا کہ اگر تم واقعی سچے ہو تو ان پہ ہاتھ پھیرو اگر یہ ٹھیک ہوگئے تو ہم اپنے عقیدے کی اصلاح کریں گے اور آپ کو سچا مان لیں گے ۔ یہ بات سن کے مرزے کا کیا حال ہوا ہوگا اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں، کیونکہ اس سے ایسا کچھ ہونا ناممکن تھا لیکن ان کو بھی ٹالنا تھا تو مرزا قادیانی نے وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قرآن پاک سے ثابت شدہ معجزات کا صاف انکار کرتے ہوئے اپنی سچائی اور ایمان کی چار علامتیں بیان کیں۔ میرا یہاں مرزائی پادریوں سے سوال ہے کہ مرزا قادیانی کی سچائی کی وہ علامات قرآن پاک کی کونسی سورۃ میں ہیں ہمیں بھی بتایا جائے۔ لیکن بحرحال وہ چار علامتیں جو مرزا قادیانی نے قرآن سے اپنے بارے بتائیں وہ درج ذیل ہیں
1۔ فصاحت و بلاغت
2۔فہم قرآن
3۔استجابت دعا (یعنی دعاوں کا قبول ہونا)
4۔ امور غیبیہ کی پیش گوئیاں
وہاں تو مرزا قادیانی نے اپنی ذلت سے بچنے کے لیے یہ بہانہ گھڑا کیونکہ وہ فی الفور مریضوں کو ٹھیک نہیں کر سکتا تھا لیکن چلو اگر سچا تھا تو دعا ہی مانگ دیتا ان کے لیے کیونکہ دعا کے قبول ہونے کا تو اس کا بھی دعوی تھا۔ لیکن مرزا ساپ کے ڈرامے بھی عجیب تھے اگر دعا مانگ بھی دیتا اور ہمیشہ کی طرح قبول نہ ہوتی تو اس نے کہہ دینا تھا کہ وہ مسلمان نہیں تھے اس لیے قبول نہیں ہوئی یا وہ ڈر گئے تھے
1۔اب دیکھتے ہیں کہ مرزا ساپ کی فصاحت و بلاغت اور قرآن فہمی کا کیا حال تھا مثالیں تو بہت ساری ہیں مگر دو چار مثالیں ہی پیش کرتا ہوں پہلی مثال ایک ایسی کتاب سے جس کا الہامی ہونے کا بھی دعوی تھا مرزے کا یہ کتاب ہے جہاز المسیح المشہور اعجاز المسیح
اس کے ٹائٹل پیج پہ مرزا قادیانی کی فصاحت و بلاغت کا عجیب و غریب نمونہ درج ہے۔ لکھا ہے
'' فی سبعین یوما من شھر الصیام ''
اس کا معنی بنتا ہے ماہ رمضان کے ستر دنوں میں سے۔ شاید مرزا ساپ کو معلوم ہی نا ہو کہ ماہ رمضان سمیت کسی بھی مہنے کے ستر دن نہیں ہوتے اور یہاں اگر تاویل کی جائے کچھ تو مرزا ساپ کا فصاحت و بلاغت کا دعوی منہ کے بل گرتا ہے کیونکہ تاویل فصاحت و بلاغت کے منافی ہے۔ وہ ایک اندھے کی مثال ہے کہ وہ ایک برتن میں روزانہ بکری کی ایک منگنی رکھ کے تاریخ کو یاد رکھتا جب کوئی اس سے پوچھتا کہ آج تاریخ کیا ہے تو وہ مینگنیاں گن کے بتا دیتا ایک بار بکری نے اس برتن میں کافی ساری مینگنیاں کردیں اور کسی نے تاریخ پوچھی تو اس نے کافی ساری مینگنیاں گن کے کہا کہ آج چالیس تاریخ ہے سائل نے کہا جناب مہینہ تو چالیس دن کا ہوتا ہی نہیں تو آپ نے چالیس تاریخ کیسے کردی تو اندھے نے جواب دیا کہ میں نے تو ابھی رعایت کردی ہے ورنہ اگر ساری مینگنیاں شمار کی جائیں تو تاریخ تو ستر تک پہنچ چکی ہے شاید مرزا ساپ بھی اسی کے شاگرد تھے۔(ماخوذ از سیف چشتیائی)
پھر آگے لکھتا ہے ''مقام الطبع قادیان ضلع گورداس پور'' روحانی خزائن جلد 18 کتاب اعجاز المسیح ٹائٹل پیج
اب مرزا ساپ سے کوئی پوچھے کہ کونسی عربی ہے جس میں پ اور گ ہوتا ہے؟ کیا کہنے فصاحت و بلاغت کے۔
2۔ مرزا ساپ کی قرآن فہمی اور فصاحت و بلاغت کا اگلا نمونہ روھانی خزائن جلد 18 صفحہ 389 پر ملاحظہ فرمائیں یہاں مرزا ساپ نے سورۃ توبہ اور سورۃ الصف کی دو آیات کا ایک ایک حصہ لے کے اسے ایک آیت بنا کر پیش کیا اور پھر نیچے اس کا ترجمعہ بھی عربی الفاظ کے مطابق نہیں لکھا۔ اور اس کے بعد اسکی ذریت کو جب اسکی غلطی کا پتہ چلا تو انہوں نے نیچے دونوں سورتوں کا حوالہ دے دیا کہ آدھی عبارت کسی اور آیت کی ہے اور آدھی عبارت کسی اور آیت کی ۔
لکھا ہے
'' یریدون ان یطفعو نور اللہ بافواھھم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکفرون ''
جبکہ اس جگہ لفظ لیطفعو ہے نا کہ ان یطفعو دیکھیں سورۃ الصف آیت 8
جبکہ سورہ توبہ آیت 32 میں یریدون ان یطفعو نور اللہ بافواھھم کے الفاظ ہیں لیکن اس سے آگے آیت کے الفاظ اور ہیں پوری آیت یوں ہے
'' یریدون ان یطفعو نور اللہ بافواھھم ویابی اللہ الا ان یتم نورہ ولو کرہ الکفرون ''
تو مرزا ساپ کی قرآن فہمی اور فصاحت و بلاغت کا نمونہ دیکھیں کہ مرزا ساپ کو علم ہی نہیں تھا کہ دونوں آیات کیسے ہین اور ان میں فرق کیا ہے، آدھا حصہ ایک کا اور بقیہ آدھا دوسری آیت کا پکڑا اور ایک آیت بنا دی اور اب اسکی ذریت اسکی غلطیاں نکالتی پھرتی ہے۔
3۔ اب مرزا ساپ کی قرآن فہمی اور فصاحت و بلاغت کا ایسا نمونہ کہ آپ اس کی جہالت سے یقینا حیران رہ جائیں گے۔ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 264 پر لکھا ہے '' لم یلد کا لفظ جس کے یہ معنی ہیں کہ خدا کسی کا بیٹا نہیں کسی کا جنایا ہوا نہیں''
یہ سورۃ اخلاص جو قرآن پاک کی ایک چھوٹی سی سورۃ ہے جو کہ تقریبا ہر مسلمان کو زبانی یاد ہوتی ہے بمع ترجمع کے اور یہاں مرزا ساپ لم یلد کے معنی بتاتے ہیں کہ خدا کسی کا بیٹا نہیں
جبکہ اس کا معنی ہے خدا کسی کا باپ نہیں۔ دوستو آپ اندازہ کریں اس کذاب کی جہالت کا یہ حال ہے اسکی قرآن فہمی اور فصاحت و بلاغت کا۔ یہ اس کی بے شمار ایسی جہالتوں میں سے چند ایک درج کی ہین اختصار کی خاطر۔
اب چلتے ہیں کہ اسکی دعائیں قبول ہوتی تھیں یا نہیں
1۔ اپریل 1901 کو مرزا قادیانی نے ایک الہامی دعا کی ''اے میرے رب میری عمر میں اور میرے ساتھی کی عمر میں خارق عادت زیادت فرما'' تذکرہ نیو ایڈیشن صفحہ 331
ساتھی بمعنی بیوی کیونکہ اصل عبارت عربی کی ہے جس میں زوجی کا لفظ ہے جو بیوی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اب دیکھیں کہ 100 سال کے لگ بھگ تو عام لوگوں کی عمریں ہوجاتی ہیں اب خارق عادت زیادہ تب ہوتی جب کوئی دو سو سال یا اس سے بھی زیادہ عمر ہوتی مرزا اور اسکی بیوی کی لیکن دونوں میں سے کسی کی بھی خارق عادت زیادہ نہ ہوئی مرزا قادیانی کی 68 سال اور تقریبا اتنی ہی اسکی بیوی کی ہوئی۔
2۔ پھر تذکرہ کے صفحہ 497 پر اسکی ایک دعا درج ہے '' یا الہی میری عمر 95 برس کی ہوجاوے'' اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس دعا کا بھی الہامی دعا ہونے کا دعوی ہے لیکن یہ بھی پوری نہ ہوئی
3۔ پھر سیرت المھدی کی روایت نمبر 839 میں درج ہے کہ مرزا قادیانی نے ایک سال کچھ طلباء کے لیے دعا کی کہ ''خدا تم سب کو پاس کرے'' مگر وہ سب پاس نہ ہوئے خود اسکا بیٹا اسی روایت میں اقرار کرتا ہے کہ کچھ طلباء اسی سال پاس ہوئے کچھ اس سے اگلے سال اور کچھ پھر بھی پاس نہ ہوئے۔
نیز عبداللہ آتھم کی پیش گوئی کی معیاد میں جب آخری دن تھا تو ساری ذریت قادیانیت اور مرزا خود دعاوں اور ٹوٹکوں میں مصروف رہا کہ یا اللہ آتھم مرجائے مگر اللہ پاک نے مرزا کو عیسائیوں کے ہاتھوں بھی ذلیل کروایا۔ یہ فقط چند ایک مثالیں ہیں ورنہ اس ایک لمبی لسٹ ہے
4۔ اب چلتے ہیں امور غیبیہ کی پیش گوئیاں
1۔ مرزا کی بیوی حاملہ ہوئی تو اس نے اشتہار دیا کہ ایک شوخ و شنگ لڑکا پیدا ہوگا مگر جب وضع حمل ہوا تو وہ لڑکی نکلی
2۔مرزا قادیانی نے محمدی بیگم کے بارے بے شمار پیشگوئیاں کیں کہ وہ اس کے یعنی مرزا کے نکاح میں آئے گی بلکہ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ خدا نے میرا نکاح بھی پڑھا دیا اور مجھے مبارک باد بھی دی ہے مگر محمدی بیگم کبھی اسکے نکاح میں نہ آئی اور مرزا جہنم واصل ہوگیا
3۔ مرزا قادیانی کے ایک مرید کی بیوی حاملہ ہوئی تو اس نے کہا کہ لڑکا پیدا ہوگا پھر اس لڑکے کے نو عدد الہامی نام بھی بتا دیے مگر وہاں بھی لڑکی پیدا ہوئی تو مرزے نے کہا کہ ضروری نہیں کہ اسی حمل سے لڑکا پیدا ہوتا مگر اس کے بعد اس عورت کو کبھی کوئی اولاد نہ ہوئی اور وہ جہان فانی سے کوچ کرگئی۔
4 مرزا نے کہا کہ ایک کنواری اور ایک بیوہ 2 عورتیں میرے نکاح میں آئیں گی مگر وہ بکر و ثیب کبھی اسکے نکاح میں نہ آسکیں اور مرزا قادیانی دنیا سے کوچ کرگیا
5۔ اسی طرح مرزا قادیانی نے محمدی بیگم کے خاوند سلطان احمد کے بارے پیش گوئی کی کہ وہ میری زندگی میں ہلاک ہوگا مگر وہ مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد تقریبا چالیس سال تک زندہ رہا۔(حوالہ جات مانگنے پر مہیا کیسے جاسکتے ہیں)
تو دوستو آپ نے دیکھا کہ مرزا نے جو اپنے ایمان اور سچائی کی چار نشانیاں قرآن کی طرف منسوب کرکے بتائی تھیں اس میں بھی وہ جھوٹا اور بے ایمان ثابت ہوا۔ کیا اب بھی کسی کو شک ہوگا اس کے جھوٹے ہونے میں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آقا کا غلام

آخری تدوین
: