• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

معجزہ، کرامت ، نشان کی شرعی حیثیت

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
معجزہ، کرامت ، نشان کی شرعی حیثیت

معجزہ اور کرامت پر محترم جناب ڈاکٹر طاہر القاوری اپنی کتاب فلسفہ معراج النبی ﷺ میں بہت نفیس تحقیق بیان کرتے ہیں میں آپ کی خدمت میں من و عن پیش کر رہا ہوں :
"

خارقِ عادت اَفعال کی اَقسام
اِس کارخانۂ قدرت میں اَن گنت دُنیائیں آباد ہیں۔ اِنسان اَشرفُ المخلوقات ہے لیکن اِس کائنات میں وہ تنہا ہی مخلوقِ خدا نہیں۔ خالقِ کائنات کی مخلوقات کا شمار ممکن ہی نہیں۔ نجانے اِن خلاؤں میں گردش کرنے والے اَربوں کھربوں سیّاروں میں زِندگی کن اَشکال اور کن مراحل میں اِرتقاء پذیر ہے! اگر ہم صرف اِس کرۂ ارضی پر بسنے والی مخلوقات، چرند، پرند، حشرات الارض اور آبی مخلوقات کی دُنیاؤں کی سیر کو نکلیں اور اِن مخلوقات کے معمولات کا مُشاہدہ کریں تو صنّاعِ اَزل کی قوّتِ تخلیق کے تصوّر کا ہلکا سا پرتو بھی ذہنِ اِنسانی کی تنگناؤں میں سماتا نظر نہیں آتا۔ اِسی طرح اِس کرۂ ارضی پر خلافِ معمول رُونما ہونے والے واقعات کا تسلسل بھی حیطۂ شعور میں آنا ممکن نہیں، یہ سلسلہ اِس حیرت کدے میں اَزل سے جاری ہے اور اَبد تک جاری رہے گا، البتّہ نبوّت کی طرح معجزات کا دروازہ بھی نبی آخرالزّماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدّسہ کے بعد بند ہو چکا ہے۔ واضح رہے کہ تصرّفاتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سِلسلہ آج بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا کہ قیامت کے دِن بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے پرچم شفاعت کے سائے تلے اَولادِ آدم کو رِدائے عافیّت نصیب ہو گی۔

اِنسانی زِندگی میں دو طرح کے اَفعال وُقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ایک وہ اَفعال جو معمول کے مطابق اِنجام پاتے ہیں اور تھوڑا سا غور و فکر کرنے سے اُن کی توجیہہ ممکن ہوتی ہے۔ ہماری روز مرہ کی زندگی میں ان افعال و واقعات کی اَن گِنت مثالیں پائی جاتی ہیں جیسے کسی شخص کا بیماری کی وجہ سے فوت ہو جانا۔ دُوسرے وہ اَفعال جو معمول سے ہٹ کر بلکہ خلافِ معمول ہوتے ہیں اور اُن کی کامل توجیہہ کسی طور پر بھی ممکن نہیں ہوتی۔ اُنہیں خارقِ عادت اَفعال کہا جاتا ہے۔ یہ خلافِ معمول واقعات مختلف لوگوں سے مختلف شکلوں میں صادِر ہوتے ہیں۔ ان خلافِ معمول واقعات کو چار مختلف اَقسام میں تقسیم کیا گیا ہے :

  1. معجزہ
  2. اِرھاص
  3. کرامت
  4. اِستدراج
1۔ معجزہ
جب کسی نبی اور رسول کو خِلعتِ نبوّت و رِسالت سے سرفراز کیا جاتا تو کفّار و مُشرکین دعویٰ نبوّت کی صداقت کے طور پر اُس سے دلیل طلب کرتے۔ اِس پر قدرتِ خداوندی سے جو خارقِ عادت واقعہ اُس نبی یا رسول کے دستِ حق پرست سے صادِر ہوتا اُسے معجزہ کہتے ہیں۔

2۔ اِرھاص
وہ خلافِ معمول واقعات یا عجائبات جن کا ظہور کسی نبی یا رسول کی وِلادتِ باسعادت کے وقت یا پیدائشِ مبارکہ سے پہلے ہوتا، اِرھاص کہلاتے ہیں۔ اُن واقعات کا رُونما ہونا اِس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ پیدائش ایک غیرمعمولی پیدائش ہے۔ مثلاً حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وِلادتِ پاک سے پہلے دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آسمان سے سِتارے سائبان کی طرح زمین پر اُتر آئے ہیں اور کعبہ کے بت سجدہ ریز ہو گئے ہیں۔ سیدۂ کائنات بی بی آمنہ رضی اللہ عنھا کا اِرشادِ گرامی ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کے وقت میں نے سرزمینِ مکہ سے ہزاروں میل کے بُعد پر واقع شام کے محلات دیکھے اور یہ کہ میں نے اپنے اِرد گرد خوشبوئیں محسوس کیں۔ کفّار و مشرکینِ مکہ چونکہ لڑکیوں کو زِندہ درگور کر دیتے تھے اِس لئے اِس ظلم کے مستقل خاتمے کی علامت کے طور پر جس سال سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی، اُس سال شہرِ مکہ میں کوئی لڑکی پیدا نہ ہوئی۔ آمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے میں ربِّ کائنات نے سب کو فرزند عطا فرمائے۔ گویا کارکنانِ قضا و قدر زبانِ حال سے اِعلان کر رہے تھے کہ والی کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کسی عام اِنسان کی آمد نہیں۔ یہ تمام خارقِ عادت واقعات اِرھاص کہلاتے ہیں۔

3۔ کرامت
کرامت اُن خارقِ عادت اَفعال کو کہتے ہیں جو مومنین، صالحین اور اولیائے کرام کے ہاتھوں سے صادِر ہوتے ہیں۔ تاریخِ اِسلام اَولیاء و صوفیاء کی کرامات سے بھری پڑی ہے۔ مثلاً سیدنا سلیمان علیہ السلام کے صحابی حضرت آصف برخیا کا پلک جھپکنے سے قبل ملکہ سبا کا تخت آپ کی خدمت میں پیش کر دینا، امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا دورانِ خطبہ منبر پر ہی میدانِ جنگ کا مشاہدہ کرنا اور لشکرِ اسلام کے سپہ سالار کو عسکری ہدایات دینا اور حضرت خواجۂ اجمیر رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر لاکھوں ہندوؤں کا قبولِ اِسلام اُن کی کراماتِ جلیلہ میں سے ہے۔

4۔ اِستدراج
یہ وہ خلافِ عادت اَفعال ہوتے ہیں جو کسی کافر، مُشرک، فاسق، فاجر اور ساحر کے ہاتھ سے صادِر ہوں۔ مثلاً : حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں سامری جادوگر نے سونے کا بچھڑا بنا کر اُس کے منہ سے آواز پیدا کر لی جس کے نتیجے میں بنی اِسرائیل نے اُس کی پرستش شروع کر دی۔ اِسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دعوائے نبوّت کو چیلنج کرتے ہوئے فِرعون کے دربار میں جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں زمین پر پھینکیں تو وہ اَژدھا بن گئیں۔ اِس قبیل کے تمام اَعمال اِستدراج کی ذیل میں آتے ہیں۔

حقیقتِ معجزہ
جہاں عقل عاجز آ جاتی ہے وہاں سے معجزے کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ معجزہ ربِّکائنات کی قدرت اور جلالت کا اِظہار ہوتا ہے۔ یہ وہ خارقِ عادت واقعات ہوتے ہیں جو اللہ کے برگزیدہ نبیوں اور رسولوں سے صادِر ہوتے ہیں۔ اُن کا بظاہر کوئی سبب نظر آتا ہے اور نہ کوئی اُن کی علّت دِکھائی دیتی ہے۔ یہ عقل کے دائرۂ اِدراک اور حیطۂ شعور میں نہیں آتے، لیکن جب اِنسان اپنے سر کی آنکھوں سے اُن کا ظہور ہوتے دیکھتا ہے تو سرِتسلیم خم کرنے کے سِوا اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہتا اور وہ کہہ اُٹھتا ہے کہ یہ معجزہ اللہ کے نبی سے صادِر ہوا ہے، اِس لئے یہ حق ہے۔ وہ لوگ جو معجزات و کرامات کے ردّ و قبول کا مِعیار اپنی سوچ، عقل، تجربہ اور مطالعہ کو قرار دیتے ہیں نہ صرف بہت بڑے اِعتقادی مغالطے کا شکار ہو جاتے ہیں بلکہ علم کے تکبّر میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اگر لکڑی آگ کے الاؤ میں گر کر جلا نہ کرے تو عقل کبھی بھی ذہنِ اِنسانی کی یہ رہنمائی نہ کرے کہ آگ جلانے والی شئے ہے۔ اِس لئے کہ جو بات مُشاہدہ اور تجربہ کے خِلاف ہو عقل اُسے ہرگز ہرگز تسلیم نہیں کرتی۔ مثلاً : اللہ کے برگزیدہ نبی سیدنا اِبراھیم علیہ السلام بے خطر آتشِ نمرود میں کود پڑیں اور آگ گلزار بن جائے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام قُمْ بِاذْنِ اﷲِ کہیں تو قبر سے مُردہ اُٹھ کھڑا ہو، حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض اپنی آنکھوں سے لگائیں تو آپ علیہ السلام کی بِینائی لوٹ آئے، حضرت صالح علیہ السلام پہاڑ پر اپنی چھڑی مبارک ماریں تو اُس کے اندر سے اُونٹنی برآمد ہو جائے، حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک درباری پلک جھپکنے سے پہلے اور جسم کو غائب کئے بغیر ہزاروں میل دُور سے ملکہ بلقیس کا تخت لا کر حاضر کر دے یا پھر انگشتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھے اور چاند دو ٹکڑے ہو جائے، ڈوبتے سورج کی سمت دستِ اَقدس اُٹھائیں تو وہ غروب ہونے کے بعد واپس لوٹ آئے اور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اَطہر کے لمس سے کھجور کا مرا ہوا درخت پھر سے زِندہ ہو جائے تو عقل اپنے دامنِ شعور کو تارتار نہیں کرے گی تو اور کیا کرے گی! ورائے عقل سرزد ہونے والے اِنہی واقعات کو معجزہ کہتے ہیں۔ عقل اِن معجزات کو سمجھنے سے معذور ہے۔"
 
آخری تدوین :
Top