• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مقابل ہے آئینہ!

فاطمہ صراط

رکن ختم نبوت فورم
مقابل ہے آئینہ!

یہ قدرت کے فیصلے ہیں کہ کس سے کیا کام لینا ہے!اپنے عملی سفر کی شروعات سے شاید میرے سان گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ مجھے نبوت محمدیہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے باغی اور منکرین ختم نبوت َقادیانیوں سے مدت العمر برسر پیکار رہنا پڑے گا میں حضور شفیع المذنبیین سید المرسلین خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا نہایت ادنیٰ امتی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے دربار کی عزت و ناموس اور عظمت کے تحفظ میری اولین ایمانی ذمہ داری ہے۔ اگر مولائے کائنات صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے مجھ عاجز کو عملی محاذ پر سپاہی بنا کر متعین فرمایا ہے تو اس مییں میرا کوئی کمال نہیں، یہ سب میرے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی کرم فرمائی اور نگاہ التفات ہے ، البتہ اس اعزاز پر نازاں ہونے کا حق مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔
ظہور اسلام کے ساتھ ہی طاغونی توانائیاں اپنے پورے کروفر کے ساتھ فعال ہو گئیں تھیں ۔۔۔۔

"یہ( نادا ن) چاہتے ہیں کہ پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں لیکن اللہ اپنے نور کو کمال تک پہنچا کر رہے گا ، اگرچہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو"
(الصّف :8)
چنانچہ میشت ایزدی اپنے رسل کے غلبے کو یقینی بنانے کے لیے سدا متحرک رہی ہے۔ انبیاء کی مخالف قوتیں اپنے تمام کروّفر کے باوجود اپنے ہی قدموں میں ڈھیر ہونے لگتی ہیں ۔ خوش نصیب ہیں وہ مومنین جو اس مبازرت میں آزمائشوں اور ابتلاؤں کے انعامات سے سرفراز کیے جاتی ہیں کہ یہی تب و تاب جاودانہ ان کا صلہ وثمر ہے ۔
؎کچھ نہیں مانگتا بس آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی چوکھٹ کے لیے
اپنے شانوں سے جدا اپنا یہ سر مانگتا ہوں

کون نہیں جانتا کہ انسانیت کا واحد نجات دہندہ دین اسلام ایک ہمہ گیر نظام ہے۔ اللہ نے اگر اسے اپنا آخری پیغام قرار دیا ہے ، اسے جوہر آئینہ ایام کی صفت سے متصف کیا ہے تو لازمی بات ہے کہ اس نقش کو مٹانے کی مساعی بھی انفرادی نہیں، اجتماعی ہی متشکل ہونا تھی ۔ کفر کو ملت واحدہ ہونے کی "توفیق" صرف و صرف دین اسلام کی بدولت ہی ملی ہے اور جس گھڑی وادی فاران میں طیبہ کا چاند چمکا تھا، اسی ساعت عالم کفر نے قلعہ بند ہونے کی ٹھان لی تھی۔ یہ سلسلہ جس کا آغاز مکہ کے " دارلندوہ" سے ہوا تھا تو عہد موجود کی یورپی یونین تک پھیلتا چلا گیا ہے۔ وہ یہود و نصاریٰ جو ازلوں سے ایک دوسرے کے لہو کے پیاسے ہیں، دین اسلام کے انہادام کی سازش میں ایک دم متفق و متحد ہیں۔سیاسی،تعلیمی، فکری ،عسکری ، اخلاقی، تمدنی ، تہذیبی، معاشی ۔۔۔۔غرض ہر پہلو سے ملت اسلامیہ کو زک پہنچانے کی کو شش ہمیشہ استمرار آشنا رہی ہے ۔ اور اس حوالے سے ایک حربہ ابتداء ہی سے استعمال کیا گیا ، جی ہاں! مسلمانوں کی مرکزیت کو پارہ پارہ کرنے ک لیے متوازی نبوت قائم کرنے کا مجرب نسخہ بار بار برتا گیا اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ مسلمانوں نے اپنی بے عملیوں کے ادوار میں کم و بیش ہر جنگ میں میمنہ میسرہ کے زخم کھائے ہیں ،سلطنوں کے فرمانرواؤں نے غلامی کے عذابوں تک کو سہہ لیا ہے ، خوشحالی سے بد حالی تک کی مسافرت کو اپنی تقدیر بنا لیا ہے ، عملی تفوق کو ذہنی پستیوں میں مبدل کر لینے کی اذیت برداشت کر لی ہے ، غرض ہر میدان میںسبکسری کی قسمت کو قبول کر لیا ہے ، لیکن ایک منور نقطے کی اس ڈیڑھ ہزار سال میں حفاظت کا ایسا حق ادا کیا ہے کہ مذاہب عالم اور بنی نوع انساں کی تاریخ میں اس کی نظیر ڈھونڈنے سے نہیں ملتی ۔ اور نور کا وہ نیوکلیس حضور خاتم النبین صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی پاکیزہ شخصیت سے لامحدود اور غیر مشروط محبت ، احترام اور عقیدت ۔
ھکومتیں ، ریاستیں بنتی ٹوٹتی رہتی ہیں ۔ زوال سے دوچار مسلم امت کو دیکھ کر بھلے ہی آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں ، دل سیپارہ ہوتا ہے لیکن اس آئین مسلم پر ملت بیضاء کو عامل پا کر روح کے معبد میں جنت کے چراغوں کی قطار سی جل اٹھتی ہے اور طنطنہ آدم کو ایک نیا وقار ، ایک تازہ اعتبار عطا ہونے لگتا ہے کہ حغور شافع محشر صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے پیروکاروں نے آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے جڑی عقیدت پر مفاہمت کے عنوان سے بھی منافقت کے پاؤں نہیں ٹکنے دیے ۔
مستشرقین نے اپنی ذہنی عیاری کا ثبوت دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کو ہمیشہ " پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم" لکھا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو امتیاز ہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم قیامت تک کے لیے پوری انسانیت کے نبی اور رسول ہیں ۔ اور وہ گرہ جو انسانیت کو ایک جادے پر گامزن دیکھنے کے روادار نہیں ، جو اپنے مخصوص مفادات اور مذموم عزائم کی وجہ سے نہیں چاہتے کہ انسان فوز و فلاح کے ارمغان سے ہمکنار ہو وہ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے پروگرام میں روڑے اٹکانے لے لیے بڑی باریک تدبیریں اختیار کرتے رہتے ہیں ۔ اور ان میں سے ایک تدبیر یہ ہے کسی طرح اس دائرے سے منسلک نقطہ ماسکہ کا اعتبار آپ صلی اللہ علیہ و الہ اسلم سے چھن جائے۔
ظاہر ہے کہ یہ مکرہ سازش اسی صورت میں بامراد ہو سکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے مقابل جدید نبوت کی عمارت تعمیر کر لی جائے ، جیسے ابرہہ نے یمن میں بیت اللہ کا حریف شاندار کلیسا ایجاد کر لیا تھا۔ ہمارا پختہ اعتقاد ہے کہ جس رب نے خانہ کعبہ کو جالا بخشا ہے ، اسی رب نے اپنے آخری نبی کریم علیہ الصلوٰ ۃ اولسلام کو آسمانی رعب سے نوازا ہے ۔ سو تاریخ گواہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ذات کی نفی کر کے نئی نبوت کے اثبات کی جرات شاید و باید ہی کسی نے کی ہو۔ ننانوے اعشاریہ نو فیصد مدعیان نبوت نے آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کو تسلیم کر کے اپنی جعلی نبوت کاچراغ جلانے کی کوشش کی ہے ۔
مسلیمہ جیسا بد صورت مسعی بھی آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی توسیع کا ادعا لے کر منظر پر ابھرا تھا۔ لیکن قدرت نے مسلمانوں کاایسا Mind set مرتب فرما دیا ہے کہ کسی امتی، ظلی ، بروزی، تشریعی ، غیر تشریعی، کسی بھی نوع کے مدعی نبوت کو قبول کرنے کی گنجائش نہیں رہ گئی ۔ختم نبوت کے عقیدے سے یہ محبت اس درجہ مثالی ہے کہ اسے آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا زبردست معجزہ کہنا چاہیے ۔
لیکن یہ دلچسپ توارد ہے کہ ہر مدعی نبوت نے منہ کی کھائی ہے ، پھر بھی طالع آزمائی کا شوق ماند نہیں ہوا ۔ اس سلسلے کی آخری اور بھرپور کاوش استعماریت کے سائبان میں پروان چڑھائی گئی اور مشرقی پنجاب بھارت کے ایک گاؤں قادیان سے مرزا غلام احمد نامی ایک شخص کو دریافت کیا گیا۔ "احمدیت" کے ٹائٹل سے ایک تحریک اس کے وجود سے جاری کی گئی ۔ یہ مخبوط الحواس شخص سیالکوٹ کی کچہری میں اہلمد ٹائپ معمولی اہلکار تھا ۔ کتب بینی کے شوق اور ناظرانہ کاروائیوں نے اسے مذہبی حلقوں میں مناسب تعارف کی فضاء مہیا کر دی تھی ۔ برطانوی راج 1857ء کے بعد اگرچہ مقامی باشندوں کے جسموں میں اپنےپنجے جاڑ چکا تھا لیکن ذہنوں کی تسخیر کا اہم مرحلہ ہنوز باقی تھا ۔ فرنگی کو منجی ثابت کرنے اور سے رحمت خداوندی کا عکس جتانے کے لیے مرزا قادیانی نے اپنے دور کے "میڈیا" کو وقف کر دیا ۔ فنڈز کی کمک چونکہ کبھی معطل نہیں ہوئی لہذٰا تلوار کے جہاد کے خلاف ان کا "قلمی جہاد" بھی کبھی نہیں رکا، زمانے نے کروٹ لینا ہی ہوتی ہے، یہ جدل ایک جبر ہے ، جس سے مفر ممکن نہیں مگر مفاد عاجلہ کو قبلہ یقین کرنے والے ابنائے وقت اپنے حال کوسنوارنے کے لیے ماضی اور استقبال دونوں کی نفی کر بیٹھتے ہیں ۔ آنجہانی مرزا قادیانی اور ان کے متعین سے بھی یہی غلطی ہوئی ۔26 مئی 1908ء کو مرزا قادیانی نہایت عبرتناک موت سے ہمکنار ہوا۔ ان کی موت کے صرف 39 سال 2 ماہ اور 19 دن 14 اگست 1947ء کو مسلمانوں کی آزاد سرزمیں کا وائسرائے ایک انگریز نہیں بلکہ ایک سچا مومن گورنر جنرل تھا۔ بس اتنی ہی دیر باقی تھی آزادی میں ، لیکن مرزا قادیانی نے یہ سوچا تھا کہ ظل سبحانی فرنگی صاحب بہادر ابدالآباد تک یہاں حکمراں رہے گاور یونہی ان کی مذہبی پیشوائیت اسی طرح قائم و دائم رہے گی ، جس طرح فرعون کے دربار میں ہامان کی پاپائیت کا طوطی بولتا تھا ۔ افسوس مرزا قادیانی نے فروان کے انجام کو فراموش کر دیا ۔ جی جناب 63 برس پہلے جغرافیہ بدلا تو تاریخ کا طلسم بھی ٹوٹ گیا قادیانی اکابرین سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ "حضرت مسیح موعود" نے شبانہ روز مجاہدے کے بعد انگریز سامراج کی مدحت بلکہ مداہیت میں جو " پچاس الماریاں "تخلیق فرمائی ہیں ، اس بار ندامت کو کس خلیج میں غرق کریں؟ ان کا ایسا سوچنا بلا جواز نہیں تھا کہ سارا منظر ہی تبدیل ہو چکا تھا ۔ انگریز کے عطا فرمودہ خطاب ، عتاب بن چکے تھے ۔ مرزا قادیانی کے خاندان کی بقا انگریز کے "خود کاشتہ پودے" کی بقاء کے ساتھ مشروط تھی ۔ یہاں "خلافت" نے نسل در نسل منتقل ہونا تھا ، اور یہ مسند کوئی معمولی نہیں ، ایک ہیڈ آف دی سٹیٹ سے بھی بڑھ کر پروٹوکول ایک "خلیفہ" کو ملتا ہے ۔ ایک برطانوی انگریز آئن ایڈم سن نےA man of God کے نام سے قادیانی خلیفہ مرزا طاہر کی سوانح حیات تحریر کی ہے۔ اس کے پندھرویں باب کا مطالعہ کر لیجیے اور دیکھیے کہ "خاندان مسیح و موعود" میں خلافت کا عہدہ پانے کے لیے کیسی شدید تڑپ موجود ہے ۔ مختصر یہ کہ مرزا قادیانی کی اولاد نے سادہ لوح مریدوں کے بیش بہا چندوں کی بدولت عیش و تنعیم سے بھرپور زندگی گزاری ہے ۔(اور گزار رہی ہے) ۔ یوں اس سلسلے کا قیام اور استحکام سیدھا سیدھا معاشی مسئلہ ہے ۔ مگر جب اس کے بانی کے پیدا کردہ لٹریچر پر نظر ڈالی جاتی ہے تو یہاں 3÷ 4 حصہ برٹش حکومت کی تعریفوں سے مزیّن ملتا تھا۔ صرف تعریفوں سے نہیں ، حد درجہ خواندگی اسلوب میں ملکہ برطانیہ کی قصیدہ خوانی ملتی تھی ، جسے دیکھ پڑھ کر عقل سلیم کے حامل بعض قادیانی نوجوانوں کا خون کھول اٹھتا تھا ۔سو حل اس پیچیدگی کا یہ ڈھونڈا گیا کہ ایسی تحریروں کو ممکن حد تک بلیک آؤٹ کیا جائے۔ علاوہ ازیں مرزا قادیانی کی شخصیت سے وابستہ مضحکہ خیزیاں بھی ذیادہ تر ان کی اپنی کتب اور باقی قادیانی لٹریچر میں محفوظ ہو گئیں تھیں ۔تصویر کے اس رخ کو چھپا کر "بانئ سلسلہ احمدیت" کو ایک "مقدس ہستی" کے بہروپ میں پیش کرنا ، ناگزیر ہو گیا تھا ۔اس طرح cosmeticsکا بڑا فنکارانہ استعمال کر کے مرزا قادیانی کو ایک برگزیدہ اور بے پناہ عالم کے گیٹ اپ میں پورٹرے کر دیا گیا۔ سادہ لوح قادیانیوں نے انھیں سچ مچ کا"مہدی معہود" اور" مسیح موعود" یقین کر لیا ۔بلاشبہ تیز ترار رجحان ساز قادیانیوں (آج کی زبان میں انھیں سٹیک ہولڈرز کہیے ) کو اس حوالے سے کامیابی ہوئی کہ آخر کلاکاری بھی کوئی چیز ہے ۔اس ساری نوٹنکی میں بنیادی کردار ادا کرنے والا ایک ہی ہنر تھا کہ "معترضہ احمدیہ لٹریچر" کسی طرح اپنوں اور غیروں کی دسترس سے اتنا دور کر دیا جائے کہ کوئی چاہے بھی تو اس "روحانی خزینے" تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔ نیز بطور نعم البدل نئے لٹریچر کا سیلاب اس شدت سے بہا دیا جائے کہ کسی کو اس سے فرصت ہی نہ ملے۔
ایک چال قادیانیوں نے چلی، ایک تدبیر اس عاجز کے ذہن میں قدرت نے ڈال دی کہ ردّ قادیانیت کے لیے بالکل نیا ،مؤثر ،کارگر اور دندان شکن زاویہ تراشہ جائے کہ ان کے لیے کوئی جائے فرار نہ رہ جائے ۔سو،میں نے دن رات ایک کر کے اصل قادیانی لٹریچر جمع کیا۔ اور پھر ان کی اپنی چھاپی ہوئی کتب کے عکس تیار کیے ۔یوں ایک یکسر منفرد کتاب "ثبوت حاضر ہیں!" کے عنوان سے قارئین کی نظر کر دی ۔اس کی پہلی جلد 1997ء میں منصہ شہود پر آئی تو قادیانی ایوانوں میں بھونچال برپا ہوگیا۔ متعدد قادیانی حضرات کو اس بہانے اسلام قبول کرنے کی سعادت عطاء فرما دی ۔تمامم علمی حلقوں نے ناچیز کی اس کاوش کو بے حد سراہا لیکن مجھے یہ اضطراب برابر مضطرب رکھتا تھا کہ میرا کام ہنوز ادھورا ہے ۔اس دوران میں تحقیق و تدقیق کا عمل جاری رہا۔ یوں "ثبوت حاضر ہیں!" کی مزید جلدیں نئے حوالوں کے ساتھ سامنے لانے کی توفیق ملنے لگی ۔اس وقت تیسری جلد آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔ ان اوراق میں میرا تبصرہ نہ ہونے کے برابر ہے ،بس یہ جانیے !

"مقابل ہے آئینہ!"

خاکپائے مجاہدین ختم نبوت
محمد متین خالد

E mail: fatehqadyaniat@hotmail.com
 
Top