مولانا عبید اللہ سندھی ؒ پر انکارحیات عیسیٰ علیہ السلام کے الزام کا جواب
ایڈووکیٹ محمد قاسم نقشبندی
لاہور کے ایک صاحب نے اپنے رسالے نام نہاد کلمہ حق کے شمارہ ۷:ص ۸۹،۹۰ پر یہ اعتراض کیا ہے کہ مولانا عبید اللہ سندھی نے اپنی تفسیر ’’الہام الرحمن‘‘ میں حیات عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا ہے اور مولانامحمد لدھیانوی مرحوم نے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کرنے والے کو کافر کہا اب دیوبندی یا تو مولانا کے فتوے کو غلط ٹھرائیں یا مولانا عبید اللہ سندھی کی تکفیرکریں(ملخصا)معا ذ اللہ۔
الحمد للہ ! ہمیں نہ تو مولانا لدھیانوی کے فتوے کی تغلیط کی ضرورت ہے نہ امام انقلاب ؒ کی تکفیر کی
۔پہلی بات تو یہ کہ اس اعتراض کا جواب ہمارے علماء کئی سال پہلے دے چکے ہیں
اس کے بعد بندہ عرض کرتا ہے ’’الہام الرحمن‘‘ کو مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کی تفسیر کہا حالانکہ یہ مولانا کی اپنی تصنیف یا تفسیر نہیں بلکہ ’’موسی جار اللہ ‘‘ کی تالیف ہے جس کے متعلق ان کادعوی ہے کہ یہ حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’املائی تفسیر ‘‘ ہے۔
حضرت صوفی عبد الحمید خان سواتی ؒ لکھتے ہیں کہ:
’’مولانا عبید اللہ سندھی کی طرف منسوب اکثر تحریریں وہ ہیں وہ ہیں جو املائی شکل میں ان کے تلامذہ نے جمع کی ہیں ۔مولانا کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی تحریرات اور بعض کتب نہایت دقیق و عمیق اور فکر انگیز ہیں اور وہ مستند بھی ہیں۔لیکن املائی تحریروں پر پورا اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔اور بعض باتیں ان میں غلط بھی ہیں جن کو ہم املا کرنے والوں کی غلطی پر محمول کرتے ہیں مولانا کی طرف ان کی نسبت درست نہ ہوگی‘‘۔
(مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کے علوم و افکار :ص ۷۸)
۔لہٰذا ان املائی تفاسیر میں جو بھی قرآن و سنت کے خلاف بات ہوگی اسے یا تو ان دونوں کی ذاتی خیالات کہا جائے گا یا اسے کاتب کی غلطی تصور کیا جائے گا۔حضرت سواتی ؒ مزید لکھتے ہیں کہ:
’’پوری کتاب من و عن مولانا سندھی ؒ کی طرف منسوب کرنا بڑی زیادتی ہوگی۔ اور اس کو اگر علمی خیانت کہا جائے تو بجا ہوگا کچھ باتیں اس کی مشتبہ اور غلط بھی ہیں جن کے مولانا سندھی ؒ قائل نہیں تھے۔اور نہ وہ باتیں فلسفہ ولی اللہی سے مطابقت رکھتی ہیں‘‘۔(عبید اللہ سندھی ؒ کے علوم و افکار :ص۶۸)
انکار حیات عیسیٰ علیہ السلام بھی انہی غلط اور مشتبہ باتوں میں سے ایک بات ہے ۔ اسی طرح ان کے ایک اور شاگرد عبد اللہ لغاری کی املائی تفسیر ’’المقام المحمود‘‘ بھی ہے جو گمراہیوں اور غلط عقائد کا مجموعہ ہے جس سے نیچریت صاف چھلکتی ہے اس کی نسبت بھی حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کرنا ہرگز درست نہیں۔حضرت سواتی صاحب ؒ نے عبید اللہ سندھی ؒ کے علوم و افکار :ص۸۴ پر اس املائی تفسیر کو بھی غیر مستند مانا۔اور پھر یہ دونوں غیر مستند املائی تفاسیر تضادات کا مجموعہ ہے ایک ہی تفسیر میں ایک جگہ کچھ لکھا جبکہ دوسری تفسیر میں اسی مقام کی تفسیر بالکل الٹ لکھی گئی ہے لہٰذا اذا تعارضا تساقطا۔ یہ تضاد و تعارض بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ان کتابوں کے مولفین نے خود اپنی ذہنی اختراعات کو ان کتابوں میں شامل کیا یا بعد کے لوگوں کی تدلیسات ہیں
جو عبارت الہام الرحمن کی نقل کی ہے اس کے متعلق ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ یہاں موسی جار اللہ کو حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ کا منشاء سمجھنے میں غلطی ہوئی وہ یوں کہ دراصل حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رفع الی السماء کا انکار نہیں فرمارہے ہیں بلکہ حضرت علیؓ کے رفع السماء پر اس آیت سے روافض کے استدلال کا رد کررہے ہیں جسے شاگرد نے اپنی غلط فہمی کی بنیاد پر حیات عیسی ٰ علیہ السلام کی نفی پر محمول کرکے اسے یہاں اپنے الفاظ میں نقل کردیا ہماری اس توجیہ کاقرینہ خود عبارت میں موجود ہے وہ اس طرح کہ موسی جاراللہ حضرت سندھی ؒ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ اس آیت سے مع الجسد رفع الی السماء کا استدلال و عقیدہ فتنہ شہادت عثمانؓ کے بعد اس وقت وجود میں آیا جب خوارج نے حضرت علیؓ کو شہید کردیا۔اور حفاظتی نکتہ نظر سے حضرت علیؓ کی قبر کو عوامی نظروں سے پوشیدہ رکھنا پڑا۔اور یہ استدلال و عقیدہ ان لوگوں کی ذہنی اختراع کا نتیجہ تھا جو یہودی و صابی تھے۔اگر اس پہلو سے عبارت کا جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہے کہ حضرت علیؓ کے رفع الی السماء کی روایات کے ناقل وہی لوگ تھے جو یہودی و صابی تھے ورنہ ایک عام مسلمان کی طرف سے بھی اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اسلام کے ایک متفقہ عقیدے کو یہودیوں کا عقیدہ قرار دے پھر عبید اللہ سندھی ؒ جیسی شخصیت سے تو ہر گز ا سکا تصور ممکن نہیں۔
مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کے مایہ ناز شاگرد اور عقیدہ حیات عیسیٰ علیہ السلام :
حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ کے ان دو شاگردوں کے علاوہ قریبا حضرت سندھیؒ کے تمام قابل اعتماد شاگرد حیات عیسیٰ علیہ السلام کے قائل تھے جن میں پیش پیش حضرت شیخ القرآن مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کو حضرت سندھی ؒ نے بچپن میں ہی اپنی تربیت میں لے لیا تھا اور خود اپنے ہاتھ سے فراغت کی سند عطا کی بعد میں حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ سے نکاح بھی کیا گویا حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ حضرت لاہوری کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ سوتیلے والد بھی تھے ۔حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’حیات مسیح کے بارے میں مولانا عبید اللہ سندھی وہی عقیدہ رکھتے تھے جو دوسرے علماء دیوبند کا ہے ۔مگر افسوس کہ موسی جار اللہ اپنی بات مولانا سندھی کے نام سے کہہ کر لوگوں کو مغالطہ دے رہا ہے ۔مولانا سندھی کے نظریات و عقائد وہی ہیں جو میں نے حاشیہ قرآن میں لکھ دئے ہیں‘‘۔
(خدام الدین کا احمد علی لاہوری ؒ نمبر :ص ۲۰۶)
اس حاشیہ تفسیر کا کیا مقام ہے علامہ خالد محمود صاحب کی زبانی سنئے :
’’مولانا احمد علی صاحب ؒ نے حضرت شاہ ولی اللہ اور مولانا عبید اللہ سندھی کی تعلیمات کی روشنی میں قرآن پاک کا ایک مختصر اور جامع حاشیہ تحریر فرمایا آپ نے اس میں سورت سورت اور رکوع رکوع کے عنوان خلاصے اور مقاصد نہایت ایجاز اور سادہ زبان میں ترتیب دئے جہاں جہاں مضمون ایک موضوع پر جمع دکھائے دئے ان کو موضوع دار اور طویل اور مفصل فہرست اپنے حاشیہ قرآن سے بطور مقدمہ شامل فرمائی عصری تقاضہ تھا کہ اختلاف سے ہر ممکن پرہیز کیا جائے اس لئے آپ نے ترجمہ قرآن پر ہر مسلک کے علماء کی تائید حاصل کی آپ کی پوری کوشش تھی کہ قرآن پاک کا ایک مجموعہ حاصل قوم کے سامنے رکھ سکیں۔ آپ جب یہ مسودے تیار کرچکے تو انہیں لیکر دیوبند پہنچے۔دیوبند میں ان دنوں محدث کبیر حضرت مولانا سید انور شاہ شیخ التفسیر حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اورشیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کا دور دورہ تھا۔آپ نے یہ سب مسودات ان حضرات کے سامنے رکھ دئے اور بتایا کہ انہوں نے یہ قرآنی محنت مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کی تعلیمات کی روشنی میں سر انجام دی ہے مولانا سندھی ؒ پرچونکہ سیاسی افکار غالب تھے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ خالص دینی نقطہ نظر سے بھی اس قرآنی خدمت کا جائزہ لیا جائے اگر اکابر دیوبنداس کی تصدیق فرمادیں تو وہ اسے شائع کردیں گے وگرنہ وہ یہ مسودات یہی چھو ڑ جائیں گے پھر ان کی انہیں کوئی حاجت نہیں ہوگی۔
اکابر نے ان کی تصدیق کی اور حضرت شیخ التفسیر مرکز دیوبند سے تصدیق لے کر لاہور واپس ہوئے اس ترجمے اور تحشئے کی نہ صرف اشاعت کی بلکہ درس و تدریس میں بھی قرآن کریم کا ذوق ہزاروں مسلمانوں کے دل و دماغ میں اتاردیا‘‘۔
(خدام الدین کاشیخ التفسیر امام احمد علی لاہوری نمبر :ص ۲۰۶)
ایسی مستند تفسیر کے مقابلے میں موسی جار اللہ اور عبد اللہ لغاری کی کیا حیثیت ہے ؟حضرت لاہوری کے علاوہ حضرت سندھیؒ کے دیگر قابل اعتماد شاگرد مثلا:خواجہ عبد الحئی فاروقی(تفسیر الفرقان فی معارف القرآن :ج۱:ص ۶۸۳،مولانا سلطان محمود صاحب ؒ (ضرورت رسالت :حصہ دوم )،مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ (قصص القرآن جلد چہارم :ص ۱۱۹)نے بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کو مندرجہ بالا حوالوں میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ،اب مولوی نصیر الدین سیالوی ہی کی زبانی :
’’اگر سرفراز کی بات صحیح ہوتی تو حضرت گھوٹوی کے تلامذہ کو یہ بات معلوم ہوتی اور ان سے مخفی نہ رہتی‘‘۔(عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ:ج۱:ص ۵۱)
تو اگر سندھی رحمۃ اللہ علیہ کا عقیدہ وہی ہوتا جو میثم صاحب ثابت کرنا چاہتے ہیں تو یقیناًان کے شاگردوں کو بھی یہ بات معلوم ہوتی اور اس عقیدے کا اظہار کرتے نہ کہ اس کے خلاف بیان کرتے۔
حیات عیسیٰ علیہ السلام پر حضرت سندھی ؒ کی اپنی تصریح:
’’فائدہ دوم!امام ولی اللہ وہلوی ؒ ’’تفہیمات الٰہیہ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالی نے بذیعہ الہام سمجھایا ہے کہ تجھ پر دو جامع اسموں کا نور منعکس ہوا ہے ۔اسم مصطفوی اور اسم عیسوی علیہما الصلوت والتسلیمات تو عنقریب کمال کے افق کا سردا ربن جائے گا اور قرب الٰہی کی اقلیم پر حاوی ہوجائے گا ۔تیرے بعد کوئی مقرب الٰہی ایسا نہیں ہوسکتا جسکی ظاہری و باطنی تربیت میں تیرا ہاتھ نہ ہو۔یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں‘‘۔
(رسالہ عبیدیہ اردو ترجمہ محمودیہ:ص۲۷)
یہاں حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے واضح طور پر نزول عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ لکھایہ تالیف ان کے آخری ایام ۱۳۳۹ھ کی ہے لہٰذا ان کی اپنی اس تحریر کے ہوتے ہوئے کسی غیر معتبر املائی تفسیر کی کوئی حیثیت نہیں۔
وما علینا الا البلاغ المبین
ایڈووکیٹ محمد قاسم نقشبندی
لاہور کے ایک صاحب نے اپنے رسالے نام نہاد کلمہ حق کے شمارہ ۷:ص ۸۹،۹۰ پر یہ اعتراض کیا ہے کہ مولانا عبید اللہ سندھی نے اپنی تفسیر ’’الہام الرحمن‘‘ میں حیات عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا ہے اور مولانامحمد لدھیانوی مرحوم نے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کرنے والے کو کافر کہا اب دیوبندی یا تو مولانا کے فتوے کو غلط ٹھرائیں یا مولانا عبید اللہ سندھی کی تکفیرکریں(ملخصا)معا ذ اللہ۔
الحمد للہ ! ہمیں نہ تو مولانا لدھیانوی کے فتوے کی تغلیط کی ضرورت ہے نہ امام انقلاب ؒ کی تکفیر کی
۔پہلی بات تو یہ کہ اس اعتراض کا جواب ہمارے علماء کئی سال پہلے دے چکے ہیں
اس کے بعد بندہ عرض کرتا ہے ’’الہام الرحمن‘‘ کو مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کی تفسیر کہا حالانکہ یہ مولانا کی اپنی تصنیف یا تفسیر نہیں بلکہ ’’موسی جار اللہ ‘‘ کی تالیف ہے جس کے متعلق ان کادعوی ہے کہ یہ حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’املائی تفسیر ‘‘ ہے۔
حضرت صوفی عبد الحمید خان سواتی ؒ لکھتے ہیں کہ:
’’مولانا عبید اللہ سندھی کی طرف منسوب اکثر تحریریں وہ ہیں وہ ہیں جو املائی شکل میں ان کے تلامذہ نے جمع کی ہیں ۔مولانا کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی تحریرات اور بعض کتب نہایت دقیق و عمیق اور فکر انگیز ہیں اور وہ مستند بھی ہیں۔لیکن املائی تحریروں پر پورا اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔اور بعض باتیں ان میں غلط بھی ہیں جن کو ہم املا کرنے والوں کی غلطی پر محمول کرتے ہیں مولانا کی طرف ان کی نسبت درست نہ ہوگی‘‘۔
(مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کے علوم و افکار :ص ۷۸)
۔لہٰذا ان املائی تفاسیر میں جو بھی قرآن و سنت کے خلاف بات ہوگی اسے یا تو ان دونوں کی ذاتی خیالات کہا جائے گا یا اسے کاتب کی غلطی تصور کیا جائے گا۔حضرت سواتی ؒ مزید لکھتے ہیں کہ:
’’پوری کتاب من و عن مولانا سندھی ؒ کی طرف منسوب کرنا بڑی زیادتی ہوگی۔ اور اس کو اگر علمی خیانت کہا جائے تو بجا ہوگا کچھ باتیں اس کی مشتبہ اور غلط بھی ہیں جن کے مولانا سندھی ؒ قائل نہیں تھے۔اور نہ وہ باتیں فلسفہ ولی اللہی سے مطابقت رکھتی ہیں‘‘۔(عبید اللہ سندھی ؒ کے علوم و افکار :ص۶۸)
انکار حیات عیسیٰ علیہ السلام بھی انہی غلط اور مشتبہ باتوں میں سے ایک بات ہے ۔ اسی طرح ان کے ایک اور شاگرد عبد اللہ لغاری کی املائی تفسیر ’’المقام المحمود‘‘ بھی ہے جو گمراہیوں اور غلط عقائد کا مجموعہ ہے جس سے نیچریت صاف چھلکتی ہے اس کی نسبت بھی حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کرنا ہرگز درست نہیں۔حضرت سواتی صاحب ؒ نے عبید اللہ سندھی ؒ کے علوم و افکار :ص۸۴ پر اس املائی تفسیر کو بھی غیر مستند مانا۔اور پھر یہ دونوں غیر مستند املائی تفاسیر تضادات کا مجموعہ ہے ایک ہی تفسیر میں ایک جگہ کچھ لکھا جبکہ دوسری تفسیر میں اسی مقام کی تفسیر بالکل الٹ لکھی گئی ہے لہٰذا اذا تعارضا تساقطا۔ یہ تضاد و تعارض بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ان کتابوں کے مولفین نے خود اپنی ذہنی اختراعات کو ان کتابوں میں شامل کیا یا بعد کے لوگوں کی تدلیسات ہیں
جو عبارت الہام الرحمن کی نقل کی ہے اس کے متعلق ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ یہاں موسی جار اللہ کو حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ کا منشاء سمجھنے میں غلطی ہوئی وہ یوں کہ دراصل حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رفع الی السماء کا انکار نہیں فرمارہے ہیں بلکہ حضرت علیؓ کے رفع السماء پر اس آیت سے روافض کے استدلال کا رد کررہے ہیں جسے شاگرد نے اپنی غلط فہمی کی بنیاد پر حیات عیسی ٰ علیہ السلام کی نفی پر محمول کرکے اسے یہاں اپنے الفاظ میں نقل کردیا ہماری اس توجیہ کاقرینہ خود عبارت میں موجود ہے وہ اس طرح کہ موسی جاراللہ حضرت سندھی ؒ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ اس آیت سے مع الجسد رفع الی السماء کا استدلال و عقیدہ فتنہ شہادت عثمانؓ کے بعد اس وقت وجود میں آیا جب خوارج نے حضرت علیؓ کو شہید کردیا۔اور حفاظتی نکتہ نظر سے حضرت علیؓ کی قبر کو عوامی نظروں سے پوشیدہ رکھنا پڑا۔اور یہ استدلال و عقیدہ ان لوگوں کی ذہنی اختراع کا نتیجہ تھا جو یہودی و صابی تھے۔اگر اس پہلو سے عبارت کا جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہے کہ حضرت علیؓ کے رفع الی السماء کی روایات کے ناقل وہی لوگ تھے جو یہودی و صابی تھے ورنہ ایک عام مسلمان کی طرف سے بھی اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اسلام کے ایک متفقہ عقیدے کو یہودیوں کا عقیدہ قرار دے پھر عبید اللہ سندھی ؒ جیسی شخصیت سے تو ہر گز ا سکا تصور ممکن نہیں۔
مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کے مایہ ناز شاگرد اور عقیدہ حیات عیسیٰ علیہ السلام :
حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ کے ان دو شاگردوں کے علاوہ قریبا حضرت سندھیؒ کے تمام قابل اعتماد شاگرد حیات عیسیٰ علیہ السلام کے قائل تھے جن میں پیش پیش حضرت شیخ القرآن مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کو حضرت سندھی ؒ نے بچپن میں ہی اپنی تربیت میں لے لیا تھا اور خود اپنے ہاتھ سے فراغت کی سند عطا کی بعد میں حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ سے نکاح بھی کیا گویا حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ حضرت لاہوری کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ سوتیلے والد بھی تھے ۔حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’حیات مسیح کے بارے میں مولانا عبید اللہ سندھی وہی عقیدہ رکھتے تھے جو دوسرے علماء دیوبند کا ہے ۔مگر افسوس کہ موسی جار اللہ اپنی بات مولانا سندھی کے نام سے کہہ کر لوگوں کو مغالطہ دے رہا ہے ۔مولانا سندھی کے نظریات و عقائد وہی ہیں جو میں نے حاشیہ قرآن میں لکھ دئے ہیں‘‘۔
(خدام الدین کا احمد علی لاہوری ؒ نمبر :ص ۲۰۶)
اس حاشیہ تفسیر کا کیا مقام ہے علامہ خالد محمود صاحب کی زبانی سنئے :
’’مولانا احمد علی صاحب ؒ نے حضرت شاہ ولی اللہ اور مولانا عبید اللہ سندھی کی تعلیمات کی روشنی میں قرآن پاک کا ایک مختصر اور جامع حاشیہ تحریر فرمایا آپ نے اس میں سورت سورت اور رکوع رکوع کے عنوان خلاصے اور مقاصد نہایت ایجاز اور سادہ زبان میں ترتیب دئے جہاں جہاں مضمون ایک موضوع پر جمع دکھائے دئے ان کو موضوع دار اور طویل اور مفصل فہرست اپنے حاشیہ قرآن سے بطور مقدمہ شامل فرمائی عصری تقاضہ تھا کہ اختلاف سے ہر ممکن پرہیز کیا جائے اس لئے آپ نے ترجمہ قرآن پر ہر مسلک کے علماء کی تائید حاصل کی آپ کی پوری کوشش تھی کہ قرآن پاک کا ایک مجموعہ حاصل قوم کے سامنے رکھ سکیں۔ آپ جب یہ مسودے تیار کرچکے تو انہیں لیکر دیوبند پہنچے۔دیوبند میں ان دنوں محدث کبیر حضرت مولانا سید انور شاہ شیخ التفسیر حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اورشیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کا دور دورہ تھا۔آپ نے یہ سب مسودات ان حضرات کے سامنے رکھ دئے اور بتایا کہ انہوں نے یہ قرآنی محنت مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کی تعلیمات کی روشنی میں سر انجام دی ہے مولانا سندھی ؒ پرچونکہ سیاسی افکار غالب تھے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ خالص دینی نقطہ نظر سے بھی اس قرآنی خدمت کا جائزہ لیا جائے اگر اکابر دیوبنداس کی تصدیق فرمادیں تو وہ اسے شائع کردیں گے وگرنہ وہ یہ مسودات یہی چھو ڑ جائیں گے پھر ان کی انہیں کوئی حاجت نہیں ہوگی۔
اکابر نے ان کی تصدیق کی اور حضرت شیخ التفسیر مرکز دیوبند سے تصدیق لے کر لاہور واپس ہوئے اس ترجمے اور تحشئے کی نہ صرف اشاعت کی بلکہ درس و تدریس میں بھی قرآن کریم کا ذوق ہزاروں مسلمانوں کے دل و دماغ میں اتاردیا‘‘۔
(خدام الدین کاشیخ التفسیر امام احمد علی لاہوری نمبر :ص ۲۰۶)
ایسی مستند تفسیر کے مقابلے میں موسی جار اللہ اور عبد اللہ لغاری کی کیا حیثیت ہے ؟حضرت لاہوری کے علاوہ حضرت سندھیؒ کے دیگر قابل اعتماد شاگرد مثلا:خواجہ عبد الحئی فاروقی(تفسیر الفرقان فی معارف القرآن :ج۱:ص ۶۸۳،مولانا سلطان محمود صاحب ؒ (ضرورت رسالت :حصہ دوم )،مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ (قصص القرآن جلد چہارم :ص ۱۱۹)نے بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کو مندرجہ بالا حوالوں میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ،اب مولوی نصیر الدین سیالوی ہی کی زبانی :
’’اگر سرفراز کی بات صحیح ہوتی تو حضرت گھوٹوی کے تلامذہ کو یہ بات معلوم ہوتی اور ان سے مخفی نہ رہتی‘‘۔(عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ:ج۱:ص ۵۱)
تو اگر سندھی رحمۃ اللہ علیہ کا عقیدہ وہی ہوتا جو میثم صاحب ثابت کرنا چاہتے ہیں تو یقیناًان کے شاگردوں کو بھی یہ بات معلوم ہوتی اور اس عقیدے کا اظہار کرتے نہ کہ اس کے خلاف بیان کرتے۔
حیات عیسیٰ علیہ السلام پر حضرت سندھی ؒ کی اپنی تصریح:
’’فائدہ دوم!امام ولی اللہ وہلوی ؒ ’’تفہیمات الٰہیہ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالی نے بذیعہ الہام سمجھایا ہے کہ تجھ پر دو جامع اسموں کا نور منعکس ہوا ہے ۔اسم مصطفوی اور اسم عیسوی علیہما الصلوت والتسلیمات تو عنقریب کمال کے افق کا سردا ربن جائے گا اور قرب الٰہی کی اقلیم پر حاوی ہوجائے گا ۔تیرے بعد کوئی مقرب الٰہی ایسا نہیں ہوسکتا جسکی ظاہری و باطنی تربیت میں تیرا ہاتھ نہ ہو۔یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں‘‘۔
(رسالہ عبیدیہ اردو ترجمہ محمودیہ:ص۲۷)
یہاں حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے واضح طور پر نزول عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ لکھایہ تالیف ان کے آخری ایام ۱۳۳۹ھ کی ہے لہٰذا ان کی اپنی اس تحریر کے ہوتے ہوئے کسی غیر معتبر املائی تفسیر کی کوئی حیثیت نہیں۔
وما علینا الا البلاغ المبین