• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

"وارث فقر" مصنف صوفی مسعود احمد صدیقی لاثانی سرکار آف فیصل آباد

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
"وارث فقر" مصنف صوفی مسعود احمد صدیقی لاثانی سرکار آف فیصل آباد
یہاں پر ہم وارث فقر کتاب کے ہائی لائٹیڈ صفحات کو اپ لوڈ کر رہے ہیں اور ہر صفحہ کی یونیکوڈ بھی لگا رہے ہیں تا کہ کتاب کی افادیت بڑھ جائے ۔ یاد رہے کہ اس کتاب میں کفریات و توھینات کثرت سے ہیں لہذا علماء سے مشاورت کے کرے اس کتاب کو پڑھیں ۔
مکمل کتاب وراث فقر پی ڈی ایف میں یہاں سے ڈاونلوڈ کریں

فیس بک گروپ سے


آرچیو سے
 
آخری تدوین :

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 5
انتساب
میں اپنی اس تصنیف کو اپنے روحانی والدین حضور نبی کریم سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ طاہرہ مطہرہ السلام اللہ علیھا اور اپنے مرشد سید ولی محمد شاہ صاحب المعروف چادر والی سرکار رحمتہ اللہ علیہ کے نام کرتا ہوں جنہوں نے میری اس اعلیٰ انداز سے روحانی تربیت فرمائی اور اس فقیر کی روح کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کر کے اور اپنا روحانی فرزند اور وارث بناتے ہوئے مکمل نورانی بنا کر ایک نوری بچہ کی صورت میں اپنی نورانی گودمیں اٹھا کر سید الاولین والآخرین ﷺ ہم سب کے آقاومولائے کل کی بارگاہ اقدس میں فرزندی میں قبول فرمانے کے لئے پیش کیا۔ آپ ﷺ نے انتہائی شفقت فرماتے ہوئے مجھے میرے مرشد پاک سید ولی محمد شاہ صاحب المعروف چادر والی سرکار کی گود مبارک سے اپنی گود میں لیتے ہوئےاور محبت و شفقت سے چومتے ہوئے اپنی فرزندی میں قبول فرما یا اور ام المومنین صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ صدیقہ السلام اللہ علیھا کے نوری ہاتھوں میں پکڑاتے ہئے ارشاد فرمایا اورکہ میں اپنے اس روحانی فرزند کو پرورش اور تربیت کے لئے آپ السلام اللہ علیھا کے حوالے کرتا ہوں آج سے آپ میرے اس فرزند کی روحانی والدہ ہیں۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ السلام اللہ علیھا نے بخوشی اسی ظرح جیسا کہ رسول پاک ﷺ نے اس فقیر کے ماتھے کو چومتے ہئے اپنی گودِاقدس میں لیا تھا اسی طرح میری روحانی والدہ محترمہ نے قبول فرمایا اور پھر میری کئی سال تک کائنات کی سب سے حبیب ترین ہستیوں نے اپنی نگرانی میں پرورش و تربیت فرما کر باطنی علوم اور بے شمار انعامات عطا فرما کر بالغ نوری بچہ کی صورت میں اللہ رب العزت کی بارگاہِ اقدس میں مزید تربیت اور ابدی قرب کے لئے پیش کیا۔
میں اپنے خالق و مالک و معبود و حبیب کا ہر وقت انتہائی شکر گزار ہوں کہ اس نے اپنا انتہائی فصل و کرم فرمایااورمسلسل فرما رہا جو کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا اور میرا مالک اپنے اس فقیر پر ایسے ایسے راز منکشف فرما رہا ہے اور اپنے فصل و کرم سے اپنے لازوال اور ابدی خزانوں سے عطا فرما رہا ہے کہ ان عظیم ترین احسانات اور عطاؤں نے سالہا سال سے مجھے مسلسل حیرت زدہ کر رکھا ہے کہ میں اپنے مالک و معبود کا عمر بھر شکر ادا کرتا رہوں پھر بھی اس کے شکر کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔

صفحہ 6
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الصلوۃ والسلامُ علیک یا حبیب اللہ
اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد و ثنااور سید الاولین والآخرین حبیب کبریا محمد مصطفیٰ ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں درودوسلام عرض کرنے کے بعد یہ فقیر (مسعود احمد صدیقی المعروف لاثانی سرکار) بیان کرتا ہے۔ اللہ جل شانہ کے احسانات میں سے عظیم ترین احسان جو اس ذات پاک نے انسانیت پر فرمایا ہی ہے کہ ان کی راہنمائی کے لئے ان میں سے انبیاء کرام علیھم السلام کو مبعوث فرما کر اپنی معرفت اور کتاب و حکمت کی تعلیم کا نورانی سلسلہ جاری فرمایا اور مشیتِ ایزوی کے تحت جب نبوت ورسالت کا سلسلہ امام الانبیاء و المرسلین سیدنا محمد مصطفیٰ ؤ کی ذاتِ اقدس پرختم ہا تو ان کی امت کے علماء عارفین اور فقراء کاملین کو نیا بت ووراثت انبیاء کے منصب پر فائز فرما کر فیصانِ نبوت کے تسلسل کو دوام اور ہمیشگی عطا فرمادی۔یہ فراثت اللہ تعالیٰ کے ان برگزیدہ بندوں کے حصہ میں آئی جنہیں اس نے روحانی فیوص و برکات سے نواز کر اپنی معرفت و حقیقت کے زیور سے آراستہ فرماتے ہوئے اپنے قرب ووصل سے نوازا۔ ان کے قلوب وارواح ذکرِ الٰہی کے انوار سے منور اور ان کے افکارونظریات اور اؑمال و افعال سنت و شریعتِ مطہرہ کے تقاضوں کے عین مطابق ہوتے ہیں۔
ہر طرح کے علم کی روح علمِِ باطن ہے، جو تمام علوم کا مغز ہے اور یہ علم مقربین کو حاصل ہوتاہے۔روحانیت یاروحانی فیص کا تعلق باطنی علم سے ہے اور اس کے متعلق باطنی علم رکھنے والے ہی بتا سکتے ہیں۔ علماء ظاہر کے پاس ظاہری علم ہوتا ہے اور وہ اسی حاصل کردہ (کم وبیش) علم سے ہی دلائل دے سکتے ہیں جبکہ فقراء کے پاس عینی مشاہدات اور براہ راست رسول کریم ﷺ اور اللہ جل شانہ سے حاصل شدہ شکوک و شبہات کے پاک علم ہوتا ہے اورپھر وہ اسی سے دلائل دیتے ہیں۔ ظاہری علما ء میں سے اکثر تو گمراہی میں ہیں جو صحیح راستہ بھینھیں بتا سکتے جبکہ اللہ کے فقیر راستہ بتانے بھی ہیں اور راستہ دیکھاتے بھی ہیں اور منزل مقصود تک پہنچات بھی ہیں۔ ظاہری علم رکھنے والے علماء علم ظاہرکی حقیقت کو دلائل سے جانتے ہیں اور اہلِ باطن بے دلیل جانتے ہیں۔ باطن والے جو باریکیاں اور نکات اور معرفت الٰہی کی برکتوں کو جانتے ہیں وہ ظاہری عالم نہیں جانتے۔
٭ فقراء (مقربین وواصلین) تجلیاتِ الٰہیہ میں رہتے ہیں یعنی کبھی تو وہ خود انوارالٰہی میں گم (غرق) ہوتے ہیں۔ اور کبھی اللہ و رسول ﷺ کی طرف سے ان پر مختلف انواروتجلیات کا نزول ہوتا ہے یوں کہا جاسکتا ہے کہ علماء ظاہراکثر مجاہدات و حجابات میں ہیں اور عارفین، مقربین واصلین اکثرمشاہدات یا نورانی پردوں کے پیچھے سے کلام وزیارت کے نوازے جاتے ہیں اور کبھی بے حجاب زیارت و کلام اور قرب ووصل کی عظیم ترین نعمت سے نوازے جاتے ہیں۔
٭عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ بے علم اللہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ پہلے علم ہونا ضروری ہےپھر اس کا یقین اتنا پختہ ہو کہ وہ اس کے مطابق چلےگا تو پھر وہاں تک پہنچے گا۔ جبکہ یہاں معاملہ ہی الگ ہے۔ اللہ جل شانہ پہلے اپنے اس فقیر کو نواز رہا ہے پھر اس فیض و کرم کے متعلق علم دے رہا ہے۔ یعنی وہ نواز نواز کر خود ہی علم دے رہا ہے۔ خود ہی سکھا رہا ہے اور سمجھا رہا ہے۔ابتداء ہی سے ہر چیز عطاء پہلے ہورہی ہے اور اس کے بارے میں علم بعد میں ہو رہا ہے۔ ایک ایک چیز کے ساتھ علم کے

صفحہ 7
باب کھل رہے ہیں اور یہ علم اسطرح کا ہے کہ اس سے بڑے بڑے مسئلے فوران اسی وقت حل ہو رہے ہیں۔ ان کے دلائل اسی وقت ذہن میں آجاتے ہیں۔ یہ کونسی چیز ہے۔ کہاں کا علم ہے؟ جہاں بڑے بڑے عالموں فاضلوں کو کچھ پتہ نہیں چل رہا، بے بس نظر آتے ہیں۔ پہلے میرے قبلہ مرشد اکمل حضورمیں صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے عین الیقین کروایا اور پھر حضور نبی کریم ﷺ اور اللہ جل شانہ نے حقیقت کے متعلق مشاہدات کروا کر عین الیقین کروایا اور یہی اصل علم ہے۔ اس علم کی حیثیت یہ ہے کہ تھوڑا بھی ظاہر کے بہت زیدہ علم پر بھاری ہے۔
٭کتاب میں تحریر کردہ ان تمام حالات وواقعات اور باطنی عطاؤں یعنی جن کا علمِ لدنی، مشاہدات اور تجربات کے ذریعے اس فقیر کو عین الیقین اور حق الیقین کروایا گیا اور اس علم سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ فقرا، درویشوں میں سے کون کس مقام پر تھا۔ اور وہاں انہوں نے کیا معاملہ دیکھا اور کس مقام پر وہ کتنا جانتے تھے۔ یعنی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انھیں کس مقام (سٹیج) پر کیا معاملہ پیش آیا ہوگا۔ اسی طرح سے حضور رحمتہ اللعالمین ﷺ ، صحابہ و اولیا کرام کے حالات واقات اور اقوالِ مبارکہ سے بھی اسی طرح کی باتوں کا پتہ چلتا ہے۔ جس ولی درویش کے سیتھ جو معاملات پیش آتے وہ انہیں کو درست سمجھتا ہے۔ ہر ولی درویش نے اپنے اپنے تجربات کی بنا پر بات کی ہے جو کہ حرفِ آخر نہیں جس کا جو تجربہ اور مشاہرہ یا کیفیت تھی اور جہ جس مقام تک پہنچا اس نے اس طرح کی بات کی ہے۔ ہمارے مشائخ نے بہت سی باتیں بتایں۔ پہلے ذہن اتنا ہی قبول کرتا تھا۔ لیکن بعد میں ان باتوں کے مفہوم اور ان کی گہرائی کا پتہ چلہ اس لئے ان کی بعض باتوں میں بظاہر اختلاف نظر آتا ہے۔
اللہ و رسول ﷺ کی جانب سے اس فقیر کو حکم ہے کہ جو خزانے، عطائیں اور انعامات عطا ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں ان کے متعلق کھل کر بتاؤ۔ اس فیض کو آگے پھیلاؤ تاکہ لوگوں کے عقائد ٹھیک ہوں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ آج کے دور میں فیض نہیں ہو سکتا یہ پہلے وقتوں کی اور کتابوں کی باتیں ہیں، ان کہ پتہ چلے کہ آج بھی صحیح اولیاء کرام اور فقراء کے در سے اللہ ورسول ﷺ کے خزانے اور ان کا حقیقی فیض جاری و ساری ہے۔ اللہ جل شانہ نے اپنے حبیب ﷺ کے فیض وکرم کے چرچے خود کیے ہیں اللہ و رسول ﷺکی جانب سے جب تک حکم اور منظوری نہ ہو کوئی بھی حقیقی درویش فقیر ہرگز وہ کام نہیں کرتا۔
٭انبیاء مرسلین ، اولیاء کاملین وفقراء کے وجود بابرکت سے انوار و تجلیات ، باطنی وارداتوکیفیات، روحانی علوم و معارف، اور اسرارورموز طالبان حق کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہیں۔
٭اس فقیر نے اکثر اوقات اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں عرضیں کیں، سوال کیے۔ علم الیقین کے بعد اپنے قلبی اطمینان کے لئے مشاہدات طلب کیے تاکہ عین الیقین اور حق الیقین حاصل ہو جائے۔ اور اس عظیم بارگاہ سے جواب عطاہوئے، یہ وہی علم ہے۔ اللہ جل شانہ کا فرمان! "اور یاد کرہ جب عرض کی ابراہیمؑ نے ! اے میرے رب دکھا مجھے کہ جو کیسے مردوں کو زندہ فرماتا ہے۔ فرمایا! (اے ابراہیم)کیا تم اس پر یقین نہیں رکھتے۔عرض کی کیوں نہیں (ایمان تو ہے) لیکن (یہ سوال اس لئے ہے) تاکہ میرا دل مطمئن ہو جائے"(سورہ:البقرہ)
۔ابتداء ہی سے ہر چیز عطاء پہلے ہورہی ہے اور اس کے

صفحہ 8
"اور اس طرح دکھاتے ہیں ہم ابراہیم (علیہ السلام) کو بادشاہت آسمانوں اور زمین کی تاکہ وہ (پختہ) یقین لانے والوں میں ہو جائے"۔ (سورہ: الانعام)
اس فقیر نے کسی مدرسہ سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ اور نہ ہی ان روحانی علوم کو حاصل کرنے میں کسی ظاہری استاد معلم سے مدد حاصل کی۔ لیکن اللہ ورسول ﷺ اور ان کے درویشوں محبوبوں کے ساتھ تعلق ہے۔ ان کی کامل نسبت حاصل ہے۔ اگر میں لکھنا چاہوں تہ بہت سی کتابیں لکھ سکتا ہوں۔
فقیر اس کتاب کو دس ابواب پر مرتب کیا ہے۔ پہلے باب میں شانِ فقر اور فقراء کی شان کے متعلق تحریر کیا ہے۔
دوسراباب فقر کی حقیقت اور فقراء کی حقیقت پر مشتمل ہے۔ ترستے باب میں حبیب فقیر کے روحانی ارتقائی سفر کو بیان کیا ہے۔ جس میں آپ سالک فقیر کی فناء اور بقاء کی منازل اور ان کی تفصیل کے متعلق جان سکیں گے۔ چوتھا باب فقراء کی اقسام اور ان کے درجات کے متعلق ہے۔ پانچویں باب میں اللہ جل شانہ کے محبوب و حبیب فقراء کے باطنی قرب ووصل کی نوعیت کو بیان کیا ہے۔ چھٹے باب میں اللہ جل شانہ اور رسول اللہ ﷺ کے نائبین ووارثین کے اختیارات اور تصرفات کی نوعیت کا ذکر ہے۔ ساتویں باب میں اس فقیر نے اپنے مالک کے فرمان "فاما بنعمت ربک فحدث" کو بجا لاتے ہئے بطورِ تحدیثِ نعمت اللہ رب العالمین، رحمتہ اللعالمین و سید العالمین حبیب مکرم محمد رسول اللہ ﷺ اور ان کے محبوبوں ، حبیبوں کی جانب سے ہونے والی کثیر نعمتوں ، عطاؤں کا ذکر کیا ہے تاکہ ان عطاؤں میں مخفی روحانی نکات سے راہِ حق کے طالب استفادہ کر سکیں۔ آٹھویں باب میں ایسے روحانی نکات بیان کئے ہیں جن کے متعلق عین الیقین کروایا گیا۔ نواں باب اللہ جل شانہ اور حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ سے سالکین ، وابسگان و متعلقین اور انسانیت کی رہنمائی کے لیے باطنی طور پر ملنے والع احکامات پر مشتمل ہے۔ دسواں باب متفرقات کے نام سے ہے جس میں مختلف روحانی موضوعات کے متعلق تحریر کیا ہے۔ اس فقیر نے اپنی تصنیف میں جو کچھ بیان کیا ہے اللہ ورسول اللہ ﷺ نے جو مجھے دکھایا، مشاہدہ کرایا پھر اس میں سے عین الیقین اور حق ال یقین ہو جانے کے بعد بحکمِ الٰہی اس کا کچھ حصہ کتابوں میں تحریر کیا ۔ یعنی جو علوم و معار اس فقیر پر وارد ہے ان میں سے اس کتاب میں لکھا گیا تاکہ اس روحانی علم سے اہلِِ سلسلہ اور طالبینِ راہِ طریقت و حقیقت فادہ اٹھائیں۔ اپنے خالق و مالک کی بارگاہ میں عرض ہے کہ یا رب العالمین اگر بیان کرنے میں کوئی کمی بیشی رہ گئی ہو تہ آپ کے حضور آپ کے حبیبوں اور محبوبوں کے صدقہ سے معافی کا طلب گار ہوں۔
والسلامُ عَلیٰ من اتبع الھدٰی
"اور سلامتی ہو اس کے لئے جس نے ہدایت کی پیروی کی"
(صوفی مسعود احمد صدیقی لاثانی سرکار)
 
Top