• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

پیش لفظ (کتاب ، اہم پیشگوئیاں اور ان کا جائزہ)

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
اہم پیش گوئیاں اور ان کا جائزہ
پیش لفظ



اللہ تعالی نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کھلے عام دعوت اسلام کا حکم دیا تو آپ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور قبائل قریش کو نام بنام بلایا جب ساری قوم جمع ہو گئی تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تم نے مجھے سچا پایا ہے یا کبھی جھوٹ بولتے بھی دیکھا ہے؟ حاضرین نے بیک زبان آپ کو یہ جواب دیا
ماجربنا علیک الا صدقا (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 706)
ہم نے ہمیشہ آپ کو سچا ہی پایا ہے
انہوں نے یہ بھی کہا
انت عندنا غیرمتھم و ما جربنا علیک کذبا قط (طبقات ابن سعد جلد 1 صفحہ 156)
ہم نے آپ پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی اور ہم نے آپ کو کبھی جھوٹ کہتے نہیں پایا.
یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی علی الاعلان دعوت کا پہلا بنیادی قدم تھا جس میں آپ نے خدا کا پیغام سنانے سے پہلے پوری قوم کے روبرو اپنی ذات کو پیش کیا کہ وہ آپ کے کردار و عمل کے بارے میں کوئی قابل اعتراض پہلو ہو تو سامنے لائیں. تاریخ گواہ ہے کہ قوم نے گو آپ کے پیغام کی مخالفت کی لیکن آپ کی سیرت و کردار کے کسی پہلو کو وہ نشانہ اعتراض نہ بنا سکے سب نے آپ کی عفت و عصمت اور صدق و امانت کی بر سر عام گواہی دی.
قرآن کریم میں بھی یہ چیلنج موجود ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا گیا ہے کہ آپ ان سے پوچھیں کہ میری ایک طویل عمر (چالیس سال) تم میں گذری ہے اس عرصہ میں کوئی ایسی بات تم نے دیکھی ہو جو اخلاق و شرافت اور دیانت و امانت کے خلاف ہو تو پیش کرو.
فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلقون (یونس 16)
سو میں رہ چکا ہوں تم میں ایک عمر اس سے پہلے کیا پھر تم نہیں سوچتے
اس سے واضح ہوتا ہے کہ پیغمبر کا کردار دعوی نبوت سے پہلے بھی پاک صاف اور بے داغ ہوتا ہے اور جب وہ دعوی نبوت کرتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی کتاب زندگی قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ وہ اسے اخلاق و شرافت عفت و عصمت اور امانت و دیانت کے اعلی سے اعلی پر تولیں.
ہندوستان میں انگریزی اقتدار کے دور میں قادیان کے مرزا غلام احمد بن مرزا غلام مرتضی نے دعوی نبوت کیا تو قوم اسکے ماضی اور اسکے خاندان کو کچھ پہلے سے جانتی تھی اس دعوی کے بعد لوگوں نے اسے کچھ اور جاننے کی بھی کوشش کی مگر انہیں سخت مایوسی ہوئی کیونکہ مرزا غلام احمد کی سابقہ زندگی ایک گمنامی کی زندگی تھی کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ در پردہ کون کون سے گل کھلا رہا ہے اور اپنے لئے کیا کچھ سوچ رکھا ہے. خود مرزا غلام احمد کا اعتراف دیکھئے اس نے لکھا ہے
”مجھے کوئی نہیں جانتا تھا نہ کوئی موافق تھا نہ مخالف، کیونکہ میں اس زمانہ میں کچھ چیز نہ تھا اور ایک احد من الناس اور زاویہ گمنامی میں پوشیدہ تھا...اس زمانہ میں در حقیقت میں اس مردہ کی طرح تھا جو قبر میں صدہا سال سے مدفون ہو اور کوئی نہ جانتا ہو یہ قبر کس کی ہے“(روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 460-461)
ہاں ہمیں یہ تسلیم کرنے میں جھجک نہیں کہ مرزا بشیر احمد نے اپنے باپ کو اس دور کچھ تعارف ضرور کرا دیا تھا کہ مرزا غلام احمد اپنے دادا کی پنشن کے پیسے لے کر ادھر اُدھر ضرور پھرا تھا (سیرت المہدی جلد اول صفحہ 38-39 روایت نمبر 49) یہی زندگی خاندان والوں کے سامنے تھی جن سے شرم کے باعث وہ گھر نہ آیا تھا اسی باقی زندگی لوگوں کے سامنے نہ تھی کہ وہ اس کے اخلاق و شرافت اور اس کے کردار کی گواہی دے سکیں اور اسے ایک اچھا اور شریف آدمی کہہ سکیں.
اہل اسلام جب قادیانیوں سے یہ کہتا ہے کہ عقیدہ ختم نبوت اور نزول عیسی علیہ السلام جیسے علمی موضوعات پر بحث کرنے سے پہلے خود مرزا غلام احمد کے اخلاق و کردار پر بحث ہونی چاہیے تاکہ اسکے صدق و کذب اور اس کی شرافت و دیانت کو ایک عام فرد بھی جان سکے تو اس کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے. اس کے بجائے وہ کہہ دیتے ہیں کہ مرزا غلام احمد نے جتنی پیشگوئیاں کیں ہیں وہ سب درست ثابت ہوئیں ہیں ان میں سے کوئی بھی غلط نہ نکلی اس سے زیادہ اس کی صداقت کا اور کیا نشان ہو سکتا ہے. قادیانی مبلغین مرزا غلام احمد کے کردار پر بحث سے بچنے کیلئے مرزا غلام احمد کی پیشگوئیوں کا موضوع چھیڑ سامنے لاتے ہیں کہ مرزا غلام احمد کی صداقت کا معیار اُسکی پیشگوئیاں ہیں اور اسی معیار پر اس کو پرکھنا چاہیے. مرزا غلام احمد نے بھی بچاؤ کا یہ راستہ اختیار کیا تھا اس نے لکھا
” بد خیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کیلئے ہماری پیشگوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ہو سکتا “ (روحانی خزائن جلد ۵- آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 288)
یہ اور کس محک امتحان سے بچنے کی کوشش ہے؟ اس محک امتحان سے کہیں اسے اخلاق و شرافت اور امانت و دیانت کے شکنجے میں نہ کسا جائے.
اس سے پتہ چلتا ہے کہ انکے ہاں مرزا صاحب کے صدق کو کذب کا سب سے بڑا پیمانہ ان کی اپنی پیشگوئیاں ہیں جو اس نے مختلف اوقات میں کیں.
” توریت اور قرآن نے بڑا ثبوت نبوت کا صرف پیشگوئی کو قرار دیا ہے“ (روحانی خزائن جلد ۱۲- اِستفتاء: صفحہ 111)
مرزا غلام احمد کی یہ بات غلط ہے. قادیانی کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے اصلی تورات میں یہ بات موجود ہو ہم کہتے ہیں کہ قرآن تو اصلی ہے اس میں سے ہی کہیں دکھا دیں کہ قرآن نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کا سب سے بڑا ثبوت صرف آپ کی پیشگوئیوں کو قرار دیا ہو.
سو اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزا غلام احمد نے اپنے سیاہ کردار سے توجہ ہٹانے کیلئے پیشگوئیوں کو موضوع بحث بنانے کی راہ اپنائی ہے تاکہ اس میں مغالطہ دیا جا سکے اور تاویل و تعبیر کے ذریعہ اپنی بات کو لائق قبول بنایا جا سکے. پھر مرزا غلام احمد نے اسکے لئے جو عیارانہ چال چلی وہ بھی دیکھیں
” خدا تعالیٰ کے نشانوں کو جو میری تائید میں ظہور میں آ چکے ہیں آج کے دن تک شمار کیا جائے تو وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہوں گے“ (روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 48)
مرزا صاحب نے اسی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے.
” خدا نے میری سچائی کی گواہی کے لئے تین لاکھ سے زیادہ آسمانی نشان ظاہر کئے “ (روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 168)
ظاہر ہے وہ کون نادان ہو گا جو مرزا غلام احمد کے تین لاکھ نشانات کی تحقیق میں اپنی زندگی قربان کرے گا اسلئے جب بھی کوئی شخص اس کی ایک پیشگوئی کو غلط بتائے گا تو وہ فوراً ان تین لاکھ نشانات کا نام لے گا کہ وہ تو ظہور میں آئی تھی پھر ایک پیشگوئی کے پورا نہ ہونے سے کونسی قیامت آ گئی اور اس طرح اسکے دجل و مکر کا کھیل چلتا رہے گا اور قادیانی عوام اپنی جان و مال اور اپنی عزت و ابرو اس پر اور اسکے خاندان پر قربان کرتے رہیں گے.
مرزا غلام احمد کے اسی بیان کی روشنی میں کہ اسکے صدق و کذب جاننے کیلئے اسکی پیشگوئیو ں کو دیکھا جائے. ہم نے اسکی اٹھارہ اہم پیشگوئیوں کا سرسری جائزہ لیا ہے اور ہم پوری دیانتداری سے کہتے ہیں کہ مرزا غلام احمد کی کوئی ایک پیشگوئی بھی درست نہیں نکلی. قادیانیوں کے لیے اس سے زیادہ لائق عبرت وقت اور کونسا ہو گا کہ مرزا غلام احمد خدا کے نام پر جو بھی پیشگوئی کرتا رہا اللہ تعالی اسے اسکی ہر پیشگوئی میں ناکام و نامراد کرتا رہا. اگر وہ اپنے دعوی میں سچا ہوتا تو خدا اسے کبھی بھی ناکامی سے دو چار نہ کرتا. اللہ تعالی کا اپنے سچے رسولوں کے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ وہ کبھی بھی اس کے کئے گئے وعدے کو جھوٹا نہ کرے گا. قرآن کریم میں ہے
فلا تحسبن اللہ مخلف وعدہ رسلہ (ابراہیم 47)
سو مت خیال کر کہ اللہ خلاف کرے گا اپنا وعدہ اپنے رسولوں سے
اس سے پتا چلتا ہے کہ اللہ اپنے پیغمبر کی پیشگوئی کو ضرور پورا کرتا ہے. پیغمبر خدا کے بتانے پر پیشگوئی کرتے ہیں اور اس میں تخلف کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا. مرزا غلام احمد بھی یہ تسلیم کرتا ہے کہ
”ممکن نہیں کہ خدا کی پیشگوئی میں کچھ تخلف ہو“ (روحانی خزائن جلد ۲۳- چشمہ مَعرفت: صفحہ 91)
مرزا غلام احمد یہ بھی مانتا ہے کہ
” اور ممکن نہیں کہ نبیوں کی پیشگوئیاں ٹل جائیں “ (روحانی خزائن جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 5)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ خدا کا پیغمبر جب کسی بات کی پیشگوئی کرے تو وہ ضرور پوری ہوتی ہے. اللہ اپنے پیغمبر کی لاج رکھتا ہے اور اسے کبھی بھی ناکام نہیں کرتا.
ہاں جو لوگ خدا کے نام پر جھوٹی آواز لگاتے ہیں اور خدا کا نام لے لے کر پہلودار پیشگوئیاں کرتے ہیں اللہ انکی ہر بات جھوٹی کرتا ہے اور ایک عام آدمی کو بھی یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا کہ یہ جھوٹا اور دھوکے باز ہے جو خدا کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے. مرزا غلام احمد نے بہت سی پیشگوئیاں کیں قادیانی کہتے ہیں ان میں سے کچھ تو پوری ہوئیں. ہم کہتے ہیں کہ مرزا غلام احمد کے جھوٹا ہونے کیلئے اس کی ایک پیشگوئی کا غلط ہونا ہی کافی ہے٭ اور یہاں تو اس کی سب پیشگوئیاں غلط نکلیں اور پیشگوئیاں کا جھوٹا نکلنا کیا ذلت و رسوائی کا سبب نہیں جو مرزا غلام احمد کو اسی دنیا میں دیکھنا پڑا. مرزا غلام احمد لکھا ہے
”کسی انسان کا پنی پیشگوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی ہے“ (روحانی خزائن جلد ۱۵- تریَاق القلوُب: صفحہ 382)
پیش نظر رسالہ میں مرزا غلام احمد کی ان اٹھارہ پیشگوئیوں کا جائزہ لیا گیا ہے جن پر قادیانی علماء کو بڑا ناز ہے اور وہ بڑے فخر کے ساتھ ان پیشگوئیوں کا پورا ہونا بیان کرتے ہیں. ان میں سے بعض مضامین پاک و ہند کے مختلف رسائل خصوصاً مادر علمی دار العلوم دیوبند کے ترجمان ماہنامہ دار العلوم میں شائع بھی ہوئے ہیں اور اہل علم نے بھی انہیں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے اور رد قادیانیت کیلئے ایک عمدہ اور مؤثر ہتھیار بتایا ہے.
قادیانی علماء سے تو ہمیں امید نہیں کہ وہ حقائق کو کھلے دل سے تسلیم کر لیں کیونکہ جماعتی عصبیت اور مالی محبت نے انکے دل و دماغ پر پوری طرح قابو پا لیا ہے. یہ لوگ چند روزہ عیش و عشرت کو ہمیشہ کی آرام دہ زندگی پر ترجیح دینے کا تہیہ کر چکے ہیں. البتہ قادیانی عوام سے کچھ امید ہے کہ وہ ہمارے پیش کردہ حقائق میں غور کریں اور اگر مرزا غلام احمد اپنی ہر پیشگوئی میں جھوٹا نکلے تو تحقیق حق تسلیم کرتے ہوئے پوری جرات سے قادیانیت کا طوق اپنے گلے سے نکال باہر کریں گے. اللہ تعالی مسلمانوں کو قادیانی مکر و فریب سے بچائے اور قادیانیوں کو خاتم النبین سید الانبیاء و المرسلین رحمۃ العالمین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی غلامی نصیب کرے آمین ثم امین

فقط- محمد اقبال رنگونی عفا اللہ عنہ

12 ربیع الاول 1421 ہجری

------------------------------------------------------------------------------
٭ مرزا قادیانی نے یہ بھی لکھا ہے ” اگر ثابت ہو کہ میری سو۱۰۰ پیشگوئی میں سے ایک بھی جھوٹی نکلی ہو تو میں اقرار کروں گا کہ میں کاذب ہوں “(روحانی خزائن جلد ۱۷- اربعین: صفحہ 461)
 
آخری تدوین :
Top