• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

کینیڈا سے قادیانیوں کے پندرہ سوالات اور ان کا جواب ...قادیانیت کا مکروہ چہرہ ۔۔۔۔ قسط نمبر2

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانیت کا مکروہ چہرہ !

کینیڈا سے قادیانیوں کے پندرہ سوالات اور ان کا جواب

قسط نمبر 2

۲:…نئے نبی‘ نئی شریعت اور نئی کتاب کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے‘ جب پہلے نبی کی نبوت‘ دین‘ شریعت اور کتاب منسوخ ہوجائے ‘ جبکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین‘ کتاب‘ نبوت اور شریعت قیامت تک کے لئے ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو:

۱:… ”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔“ (المائدہ:۳)

ترجمہ:… ”آج میں پورا کرچکا تمہارے لئے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین۔“

۲:… ”انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون۔“ (الحجر:۹)

ترجمہ:… ”ہم نے ہی اتاری ہے یہ نصیحت اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔“

۳:… ”وما ارسلناک الا رحمة للعالمین۔“ (الانبیاء:۱۰۷)

ترجمہ: …”اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو مہربانی کر کر جہان کے لوگوں پر۔“

۴:… ”یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔“ (الاعراف:۱۵۸)

ترجمہ:… ”اے لوگو! میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف۔“

۵:… ”وما ارسلناک الا کافة للناس بشیراً و نذیراً۔“ (سبا:۲۸)

ترجمہ:… ”اور جو تجھ کو ہم نے بھیجا سو سارے لوگوں کے واسطے خوشی اور ڈر سنانے کو۔“

۶:… ”ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ۔“ (آل عمران:۸۵)

ترجمہ:…”اور جو کوئی چاہے سوا دین اسلام کے اور کوئی دین‘ سو اس سے ہرگز قبول نہ ہوگا۔“

ان تمام آیات میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین و شریعت کو مدار نجات‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی کتاب کی قیامت تک حفاظت و صیانت‘ آپ کی ذات کو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لئے رحمت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب انسانوں کے لئے نبی‘ رسول‘ بشیر اور نذیر بناکر بھیجے جانے کا اعلان فرمایا گیا‘ تو معلوم ہوا کہ جس طرح امت کو صدیوں سے نبی و رسول کی ہدایت و راہ نمائی کی ضرورت تھی‘ آج بھی برقرار ہے اور اس کا انتظام بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت‘ رسالت‘ دین ‘ شریعت اور کلامِ الٰہی یعنی قرآن پاک کی شکل میں فرما رکھا ہے۔

۳:… اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ پہلے انبیاء اور ان کی شریعتوں کی مثال چراغ کی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و شریعت کی مثال سورج کی ہے اور جب سورج نکل آتا ہے تو نہ صرف یہ کہ سارے چراغ بے نور ہوجاتے ہیں‘ بلکہ ان کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی‘ لہٰذا اگر سورج نکلنے کے بعد کوئی ”عقل مند“ یہ کہے کہ اب چراغ کیوں نہیں جلائے جاتے؟ اور انسانیت کی راہ نمائی کے لئے چراغوں سے روشنی کیوں نہیں حاصل کی جاتی؟ اور سورج کی موجودگی میں چراغوں سے روشنی حاصل نہ کرنا انسانیت کو روشنی سے محروم رکھنے کی سازش کے مترادف ہے‘ بتلایا جائے کہ ایسے ”عقل مند“ کو کیا نام دیا جائے گا؟ اور اس شخص کے اس ”حکیمانہ مشورہ“ کو مانا جائے گا؟ یا اسے کسی دماغی ہسپتال میں داخل کیا جائے گا؟

۴:… ایک لمحہ کے لئے اگر قادیانی بزرچ مہروں کی اس برخود غلط ”دل سوزی“ کو مان بھی لیا جائے تو سوال پیدا ہوگا کہ اگر واقعی اس کی ضرورت تھی؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی تیرہ صدیاں اس سے خالی کیوں گزریں؟ اور اس طویل ترین دور میں امت کو نئے نبی کی ضرورت کیوں محسوس نہیں ہوئی؟ اسی طرح پھر مرزا غلام احمد قادیانی کے بعد قادیانی امت کو اس ”خیر“ سے کیوں محروم رکھا گیا؟ اور قادیانیوں کو غلام احمد قادیانی کے بعد کسی نئے نبی کی ضرورت کیوں محسوس نہ ہوئی؟

۵:… اگر انسانیت کی راہ نمائی کے لئے نبوت کی ضرورت تھی‘ تو نئی نبوت کے ساتھ ساتھ نئی شریعت کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی گئی؟ اس لئے اگر نبوت و شریعت کی ضرورت تھی‘ تو پھر چشم بد دور مرزا غلام احمد قادیانی نے ظلّی اور بروزی نبی ہونے کا دعویٰ کیوں کیا؟ کھل کر صاحبِ شریعت ہونے کا دعویٰ کیوں نہ کیا؟ ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین۔

۲:… ”جب حضرت محمد اور ان کے پیروکار اپنا آبائی مذہب تبدیل کرکے مسلمان ہوسکتے ہیں تو ایک مسلمان کیوں اپنا مذہب تبدیل نہیں کرسکتا؟ دوسرا مذہب اختیار کرنے پر اسے مرتد قرار دے کر اس کے قتل کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ کیا اس حکم سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ مذہبی تبدیلی کی اجازت دینے سے حضرت کو مسلمانوں کی تعداد میں کمی کا خدشہ تھا‘ کیا یہ حکم اس امر کا غماز نہیں ہے کہ حضرت نے مذہب کے فروغ کے لئے ”اسلام بذریعہ تبلیغ“ کے بجائے ”خاندانی یا موروثی اسلام“ کو ترجیح دی‘ کیونکہ بذریعہ آبادی اسلام پھیلانے کا یہ سب سے آسان اور موثر فارمولا تھا‘ جیسے جیسے آبادی بڑھے گی‘ مسلمان خود بخود بڑھتے چلے جائیں گے‘ جو تبدیلی چاہے‘ اسے قتل کردیا جائے‘ کیا یہ انصاف کے تقاضوں کے منافی نہیں؟“

جواب:… دین و مذہب کی تبدیلی پر سزائے ارتداد کے اسلامی قانون پر اگر کسی کو بالفرض‘ اعتراض کا حق ہوتا تو اس کے حق دار وہ لوگ تھے جو کسی آسمانی دین و مذہب کے پیروکار ہوتے؟ یا ان کے دین و مذہب کی کوئی اساس و بنیاد ہوتی‘ جیسے یہود و نصاریٰ وغیرہ۔ رہے وہ لوگ جن کے دین و مذہب کی کوئی اساس و بنیاد ہی نہیں ‘ بلکہ ان کا وجود ہی برخود غلط ہے‘ ان کو اس بحث میں حصہ لینے یا اس پر اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟

۲:… کیا کسی ملک کی قانون ساز اسمبلی اور عوام کے نمائندہ ایوان کی جانب سے جارح اقوام‘ افراد‘ چوروں اور ڈاکوؤں کے خلاف قانون سازی پر‘ چوروں اور ڈاکوؤں یا جارح اقوام کو یہ حق دیا جائے گا کہ وہ یہ اعتراض کریں کہ ہمارے خلاف قانون کیوں بنایا گیا ہے؟ اور ہماری آزادی پر قدغن کیوں لگائی گئی ہے؟ یا اسی طرح ملک کے اُچکوں‘ بدمعاشوں اور سماج دشمنوں کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ یہ کہیں کہ ہماری چوری‘ بدمعاشی اور ڈاکا زنی پر سزا کا قانون پاس ہوا ہے تو چوری‘ ڈکیتی اور بدمعاشی سے توبہ کرنے والوں کے خلاف بھی سزا کا قانون بنایا جائے؟ لہٰذا جس طرح جارح اقوام‘ چوروں‘ ڈاکوؤں اور بدمعاشوں کو‘ ان کی بدمعاشی اور بدامنی کے خلاف قانون سازی پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں‘ ٹھیک اسی طرح سارقین نبوت‘ مرتدوں اور زندیقوں کے خلاف قانون ارتداد کی ترتیب و نفاذ پر‘ ان مرتدین کو بھی دین و دیانت اور عقل و شریعت کی رو سے کسی قسم کے اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے‘ بلکہ ان کا تحفظ‘ چوروں‘ بدمعاشوں اور ڈاکوؤں کے تحفظ کے مترادف‘ اور ان کی سرکوبی بدمعاشوں کی سرکوبی کی مانند ہے۔

۳:… جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنا مذہب بدل کر مسلمان ہوں تو ان پر سزائے ارتداد کا اجرا نہیں ہوتا‘ تو… نعوذباللہ!… مسلمانوں کے مرتد ہوکر یہودی‘ عیسائی یا کسی دوسرے دین کو اپنانے پر یہ سزا کیونکر جاری ہوتی ہے؟ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ:

الف:… بائبل میں بھی مرتد ہونے والے کی سزا قتل ہی ہے‘ چنانچہ خروج: باب ۲۲‘ آیت: ۲۰ میں ہے:

”جو کوئی واحد خداوند کو چھوڑ کر کسی اور معبود کے آگے قربانی چڑھائے وہ بالکل نابود کردیا جائے۔“

ب:… جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ یہودی‘ عیسائی یا دوسرے مذاہب کے لوگ اپنا مذہب بدلیں تو ان پر سزا ئے ارتداد کیوں جاری نہیں کی جاتی؟ اصولی طور پر ہم اس سوال کا جواب دینے کے مکلف نہیں ہیں‘ بلکہ ان مذاہب کے ذمہ داروں‘ بلکہ ٹھیکے داروں کا فرض ہے کہ وہ اس کا جواب دیں۔

تاہم قطع نظر اس کے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ طرزِعمل صحیح ہے یا غلط؟ …اتنی بات تو سب کو معلوم ہے کہ دنیائے عیسائیت… یہودیت بھی اپنے باطل و منسوخ شدہ دین کے بارہ میں شدید تعصب کا شکار ہے‘ اس لئے کہ اگر وہ اپنے دین و مذہب کے معاملہ میں تنگ نظر اور متعصب نہ ہوتی تو آج دنیا بھر کے مسلمان اور امت مسلمہ‘ ان کے ظلم و تشدد کا نشانہ کیوں ہوتی؟

اس سے ذرا اور آگے بڑھئے! تو یہودیت کے تعصب کا اس سے بھی اندازہ ہوگا کہ انبیائے بنی اسرائیل کا قتلِ ناحق‘ ان کی اسی تنگ نظری کا شاخسانہ اور تشدد پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے‘ ورنہ بتلایا جائے کہ حضراتِ انبیائے کرام کا اس کے علاوہ کون سا جرم تھا؟ صرف یہی ناں کہ وہ فرماتے تھے کہ پہلا دین و شریعت اور کتاب منسوخ ہوگئی ہے اور اب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہمارے ذریعہ نیا دین اور نئی شریعت آچکی ہے اور اسی میں انسانیت کی نجات اور فوز و فلاح ہے۔

اسی طرح یہودیوں اور عیسائیوں کے ذمہ قرض ہے‘ وہ بتلائیں کہ حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہما السلام کو کیوں قتل کیا گیا؟ آخر ان معصوموں کا کیا جرم تھا؟ اور کس جرم کی پاداش میں ان کا پاک و پاکیزہ اور مقدس لہو بہایا گیا؟

اس کے علاوہ یہ بھی بتلایا جائے کہ حضرت عیسیٰ روح اللہ کے قتل اور ان کے سولی پر چڑھائے جانے کے منصوبے کیوں بنائے گئے؟

مسلمانوں کو تنگ نظر اور سزائے ارتداد کو ظلم کہنے والے پہلے ذرا اپنے دامن سے حضرات ِانبیائے کرام علیہم السلام اور لاکھوں مسلمانوں کے خونِ ناحق کے دھبے صاف کریں اور پھر مسلمانوں سے بات کریں۔

ج:… یہ تو طے شدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت و راہ نمائی کے لئے حضراتِ انبیائے کرام اور رسل بھیجنے کا سلسلہ شروع فرمایا‘ جس کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی تو اس کی انتہا‘ تکمیل اور اختتام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ہوئی۔

سوال یہ ہے کہ ان تمام انبیائے کرام علیہم السلام کے دین و شریعت اور کتب کی کیفیت یکساں تھی یا مختلف؟

اگر بالفرض تمام انبیائے کرام کی شریعتیں ابدی و سرمدی تھیں‘ تو ایک نبی کے بعد دوسرے نبی اور ایک شریعت کے بعد دوسری شریعت کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ مثلاً: اگر حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت ابدی و سرمدی تھی اور اس پر عمل نجاتِ آخرت کا ذریعہ تھا تو اس وقت سے لے کر آج تک تمام انسانوں کو حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت کا تابع ہونا چاہئے تھا‘ اگر ایسا ہے تو پھر یہودیت و عیسائیت کہاں سے آگئی؟

لیکن اگر بعد میں آنے والے دین‘ شریعت‘ کتاب اور نبی کی تشریف آوری سے‘ پہلے نبی کی شریعت اور کتاب منسوخ ہوگئی تھی… جیسا کہ حقیقت بھی یہی ہے… تو دوسرے نبی کی شریعت اور کتاب کے آجانے کے بعد سابقہ شریعت اور نبی کی اتباع پر اصرار و تکرار کیوں؟

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب دوسرا نبی‘ شریعت اور کتاب آجائے اور پہلا دین‘ شریعت اور کتاب منسوخ ہوجائے‘ تو اس منسوخ شدہ دین‘ شریعت‘ کتاب اور نبی کے احکام پر عمل کرنا یا اس پر اصرار کرنا خود بہت بڑا جرم اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت کے مترادف ہے۔

اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی ملک کے قانون میں ترمیم کردی جائے یا اس کو سرے سے منسوخ کردیا جائے اور اس کی جگہ دوسرا جدید آئین و قانون نافذ کردیا جائے‘ اب اگر کوئی عقل مند اس نئے آئین و قانون کی بجائے منسوخ شدہ دستور و قانون پر عمل کرتے ہوئے نئے قانون کی مخالفت کرے‘ تو اسے قانون شکن کہا جائے گا یا قانون کا محافظ و پاسبان؟

لہٰذا اگر کسی ملک کا سربراہ ایسے عقل مند کو رائج و نافذ جدید آئین و قانون کی مخالفت اور اس سے بغاوت کی پاداش میں باغی قرار دے کر بغاوت کی سزا دے‘ تو اس کا یہ فعل ظلم و تعدی ہوگا؟ یا عدل و انصاف؟ کیا ایسے موقع پر کسی عقل مند کو یہ کہنے کا جواز ہوگا کہ اگر جدید آئین و قانون کو چھوڑنا بغاوت ہے تو منسوخ شدہ آئین و قانون کو چھوڑنا کیونکر بغاوت نہیں؟ اگر جدید آئین سے بغاوت کی سزا موت ہے تو قدیم و منسوخ شدہ آئین کی مخالفت پر سزائے موت کیونکر نہیں؟

د:… جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ گزشتہ انبیائے کرام علیہم السلام کے ادیان اور ان کی شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں‘ اس سلسلہ میں گزشتہ سطور میں عقلی طور پر ثابت کیا جاچکا ہے کہ سابقہ انبیأ کی شریعتوں پر عمل باعث نجات نہیں‘ ورنہ نئے دین‘ نئی شریعت اور نئے نبی کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی؟ تاہم سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ہر ایک نے اپنے بعد آنے والے دین و شریعت اور نبی کی آمد سے متعلق اپنی امت کو بشارت دی ہے اور ان کی اتباع کی تلقین بھی فرمائی ہے‘ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

”و اذ اخذ اللّٰہ میثاق النبیین لما آتیتکم من کتاب و حکمة ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتوٴمنن بہ و لتنصرنہ۔“ (آل عمران:۸۱)

ترجمہ:… ”اور جب لیا اللہ نے عہد نبیوں سے کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور علم‘ پھر آوے تمہارے پاس کوئی رسول کہ سچا بتاوے تمہارے پاس والی کتاب کو تو اس رسول پر ایمان لاؤگے اور اس کی مدد کروگے۔“

اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت انجیل کے علاوہ خود قرآن کریم میں بھی موجود ہے کہ:

”ومبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد۔“ (الصف:۶)

ترجمہ:․․․ ”اور خوشخبری سنانے والا ایک رسول کی جو آئے گا میرے بعد‘ اس کا نام ہے احمد۔“

اسی طرح بائبل میں استثنا‘ باب: ۱۸‘ میں ہے:

”خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا‘ تم اس کی سننا۔“

اسی طرح اسی باب میں مزید ہے:

”اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں‘ میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔“ (استثنا‘ باب: ۱۸‘ آیت: ۱۷‘۱۸)

چنانچہ سابقہ انبیائے کرام میں سے کسی نے یہ نہیں فرمایا کہ میری نبوت اور دین و شریعت قیامت تک کے لئے ہے اور میں قیامت تک کا نبی ہوں‘ دنیائے یہودیت و عیسائیت کو ہمارا چیلنج ہے کہ اگر کسی نبی نے ایسا فرمایا ہے‘ تو اس کا ثبوت لاؤ:”قل ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین۔“ ہمارا دعویٰ ہے کہ صبح قیامت تک کوئی یہودی اور عیسائی اس کا ثبوت پیش نہیں کرسکے گا۔

جب کہ اس کے مقابلہ میں آقائے دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لئے نبی بناکر بھیجا گیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی اور خاتم النبیین فرمایا گیا‘ جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:

۱:… ”قل یا ایھا الناس انی رسول اللّٰہ الیکم جمیعاً۔“ (الاعراف:۱۵۸)

ترجمہ:… ”تو کہہ: اے لوگو! میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف۔“

۲:… ”وما ارسلناک الا رحمة للعالمین۔“ (الانبیاء:۱۰۷)

ترجمہ:… ”اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو مہربانی کرکر جہان کے لوگوں پر۔“

۳:… ”ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللّٰہ و خاتم النبیین۔“ (الاحزاب:۴۰)

ترجمہ:… ”محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے‘ لیکن رسول ہے اللہ کا اور خاتم النبیین۔“

۴:… ”وما ارسلناک الا کافة للناس بشیراً و نذیراً۔“ (سبا:۲۸)

ترجمہ:… ”اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا‘ سو سارے لوگوں کے واسطے خوشی اور ڈر سنانے کو۔“

اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فرمایا:

۱:… ”انا خاتم النبیین لا نبی بعدی۔“ (ترمذی‘ ج:۲‘ ص:۴۵)

ترجمہ:… ”میں خاتم النبیین ہوں‘ میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔“

۲:… ”انا آخر الانبیاء و انتم آخر الامم۔“ (ابن ماجہ‘ ص:۲۹۷)

ترجمہ:… ”میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔“

۳:… ”لو کان موسیٰ حیاً ما وسعہ الا اتباعی۔“ (مشکوٰة‘ ص:۳۰)

ترجمہ:․․․ ”اگر موسیٰ علیہ الصلوٰة و السلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔“

اب جب کہ قرآن کریم نازل ہوچکا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے‘ تو ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم‘ اللہ کے آخری نبی ہیں اور قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب ہے‘ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین و شریعت کا سکہ قیامت تک چلے گا‘ اس لئے جو شخص اس جدید و رائج قانون اور آئینِ الٰہی کی مخالفت کرے گا اور سابقہ منسوخ شدہ دین و شریعت یا کسی خود ساختہ مذہب‘ جیسے موجودہ دورکے متعدد باطل و بے بنیاد ادیان و مذاہب… مثلاً: ہندو‘ پارسی‘ سکھ‘ ذکری‘ زرتشتی اور قادیانی وغیرہ… میں سے کسی کا اتباع کرے گا‘ وہ باغی کہلائے گا۔ دین و شریعت‘ قرآن و سنت اور عقل و دیانت کی روشنی میں اس کی سزا وہی ہوگی جو ایک باغی کی ہونی چاہیے‘ اور وہ قتل ہے۔

اسی لئے قانونِ ارتداد پر قادیانیوں کی طرف سے یہ اعتراض خالص دجل و فریب اور دھوکا ہے کہ:

”کیا اس حکم سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ تبدیلی مذہب کی اجازت دینے سے حضرت کو مسلمانوں کی تعداد میں کمی کا خدشہ تھا‘ حضرت نے مذہب کے فروغ کے لئے اور اسلام بذریعہ تبلیغ کے بجائے خاندانی یا موروثی اسلام کو ترجیح دی‘ کیونکہ بذریعہ آبادی اسلام پھیلانے کا یہ سب سے آسان اور موثر فارمولا تھا‘ جیسے جیسے آبادی بڑھے گی‘ مسلمان خودبخود بڑھتے چلے جائیں گے‘ جو تبدیلی چاہے اسے قتل کردیا جائے۔“

کیونکہ یہ قانون مسلمانوں کی تعداد بڑھانے کے لئے نہیں‘ بلکہ اسلام دشمنوں کی راہ روکنے کے لئے ہے‘ اس لئے کہ کسی ملک میں انسداد بغاوت اور جرائم کی روک تھام کا قانون کسی ملک کے شریف شہریوں کے خلاف نہیں‘ بلکہ بدمعاشی کی روک تھام کے لئے وضع کیا جاتا ہے۔

اگر قادیانی فلسفہ کو تسلیم کرلیا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ کسی جرم کی روک تھام پر قدغن لگانا یا اس پر کڑی سزاؤں کا نفاذ‘ اس کی علامت ہے کہ اس ملک کے شریف شہریوں کے بدمعاش اور جرائم پیشہ ہونے کے خوف سے وہ قوانین نافذ کئے گئے ہیں؟ حالانکہ مہذب دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا‘ بلکہ ہر نیک دل حکمران اور شفیق باپ اپنی رعایا اور اولاد کو برائی کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے‘ بعض اوقات ازراہ خیر خواہی ان کو سزا بھی دیتا ہے اور معاشرہ کے بدکرداروں کے خلاف قانون سازی کرتا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر سخت سے سخت تدبیر کرتا ہے ۔

اس سے ذرا مزید آگے بڑھئے تو اندازہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے بھی کفر و شرک پر عذاب و عِقاب اور جہنم کی شدید سزا کا قانون مرتب فرمارکھا ہے‘ کیا نعوذ باللہ! اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے ماننے والوں کی تعداد میں کمی کا اندیشہ تھا؟ اور اس نے بھی ان کی تعداد بڑھانے کے لئے اس فارمولا کو ترجیح دی ہے؟ اور بذریعہ آبادی اپنے ماننے والوں کی تعداد بڑھانے کے آسان اور موثر فارمولا پر عمل کیا ہے؟ کہ جیسے جیسے آبادی بڑھے گی‘ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے خود بخود بڑھتے چلے جائیں گے؟ بتلایا جائے کہ کیا ایسا کہنا عقل و دیانت کے مطابق ہے؟ قانون ارتداد پر اعتراض کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ ان کا یہ اعتراض کہاں تک جاتا ہے؟

دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں سرے سے جرم و سزا کا کوئی قانون ہی نافذ نہیں ہونا چاہئے‘ اگر ایسا ہو تو کیا اس سے معاشرہ انارکی‘ طوائف الملوکی‘ انتشار‘ تشدد اور بدامنی کی لپیٹ میں نہیں آجائے گا؟ جو لوگ ایسا مطالبہ کریں‘ کیا سمجھا جائے کہ وہ انسانیت کے دوست ہیں یا دشمن ؟

۳:… ”حضرت محمد نے اپنے خاندان یعنی آلِ رسول کو زکوٰة کی رقم دینے سے کیوں منع کیا ہے؟ کیا اس سے خاندانی بڑائی اور تکبر کی نشاندہی نہیں ہوتی؟ کیا رسول کا خاندان افضل اور باقی سب کمتر ہیں؟ بحیثیت انسان میں خاندانی افضیلت یا بڑائی تسلیم نہیں کرتا۔ خود حضرت محمد کا قول ہے کہ تم میں افضل وہ ہے جس کے اعمال اچھے ہیں‘ تو پھر یہ قول ان کے اپنے خاندان پر کیوں لاگو نہیں ہوتا؟“

جواب:… عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ اگر کسی کٹر سے کٹر مخالف میں بھی کوئی خوبی اور کمال نظر آئے‘ تو اس کا اعتراف کرنا چاہئے‘ مگر باطل پرستوں کے ہاں اس کے برعکس یہ اصول ہے کہ جب کسی سے پرخاش‘ بغض‘ عداوت یا دلی نفرت ہو‘ تو انہیں اس کی خوبیوں میں بھی سو‘ سو نقائص نظر آتے ہیں اور نہ صرف اس کے محاسن و خوبیوں کو نقائص و معائب بناکر پیش کیا جاتا ہے‘ بلکہ ان پر حرف گیری کی جاتی ہے۔ قادیانیوں کے مذکورہ اعتراض میں بھی ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عداوت کا یہی فلسفہ کارفرما ہے۔

ورنہ اگر دیکھا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لئے زکوٰة و صدقات کو حرام قرار دے کر جہاں امت کے غرباء اور فقراء پر احسان فرمایا ہے‘ وہاں اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لئے تنگی اور مشکلات پیدا فرمائی ہیں‘ اس لئے کہ:

۱:… زکوٰة تو ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر واجب ہے اور اس کی ادائیگی اس کے ذمہ فرض ہے‘ اگر زکوٰة و صدقاتِ واجبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کے لئے حلال ہوتے تو ہر مسلمان کی خواہش ہوتی کہ میری زکوٰة سیّد دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم‘ آپ کے خاندان اور آل و اطہار کے مصرف میں آئے‘ اس سے ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کا خاندان تو آسودہ حال ہوسکتا تھا‘ مگر اس کے ساتھ‘ ساتھ مسلمان غرباء اور فقراء مالی تنگی اور تنگ دستی کا شکار ہوجاتے‘ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات‘ آل‘ اولاد اور خاندان کے مفادات کی قربانی دی اور اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو مشقت میں ڈال کر امتِ مسلمہ کے غرباء اور فقراء کے منافع کو پیش نظر رکھا۔

۲:… اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے اور اپنی آل و اطہار کے لئے ہدیہ و عطیہ قبول کرنے میں بھی اپنی ذات اور اپنے خاندان کے مالی منافع کو مزید محدود فرمادیا ہے‘ کیونکہ ہدیہ و عطیہ دینے کی نہ تو ہر مسلمان میں استعداد و استطاعت ہوتی ہے اور نہ ہی ہر کسی کو اس کا ذوق ہوتا ہے۔ نتیجتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان مالی تنگی اور عسر کے ساتھ ساتھ زہد و تکشف کا خوگر رہے گا‘ اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش اور دلی دعا تھی‘ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس کی دعا فرمائی کہ:

”اللہم اجعل رزق آل محمد قوتاً، متفق علیہ“ (مشکوٰة‘ص:۴۴۰)

ترجمہ: … ”اے اللہ! میرے خاندان کا رزق بقدر کفایت ہو۔“

۳:… دیکھا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لئے زکوٰة و صدقات کو حرام قرار دینے کا راز یہ تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی ذات یا اپنے خاندان کے لئے صدقات و زکوٰة لینا حلال قرار دیتے‘ تو احتمال تھا کہ اسلام دشمن اور قادیانیوں جیسے ملاحدہ وغیرہ یہ اعتراض کرتے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے …نعوذباللہ!… زکوٰة و صدقات کا حکم اپنی ذات اور اپنے خاندان کی مالی آسودگی کے لئے دیا ہے‘ جب ہی تو… نعوذباللہ!… وہ زکوٰة پر پل رہے ہیں۔ اسی حکمت کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰة کے مصرف کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

”توخذ من اغنیائہم وترد فی فقرأہم۔“ (ابوداؤد‘ ص:۲۳‘ ج:۱)

ترجمہ:… ”(مالِ زکوٰة) ان کے اغنیاء سے لے کر ان کے فقرأ پر خرچ کیا جائے۔“

چنانچہ اس حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعتراض و بدگمانی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا اور واضح کردیا کہ زکوٰة و صدقات کے اجراء سے مقصود اپنی ذات یا خاندان کی معاشی آسودگی نہیں‘ بلکہ ان کے فوائد و منافع‘ زکوٰة و صدقات دینے والے مسلمانوں کے غریب و فقیر متعلقین ہی کی طرف لوٹائے جائیں۔

۴:… چونکہ جو لوگ بلا ضرورت مانگ کر یا زکوٰة و صدقات پر زندگی گزارنے کے عادی ہوجاتے ہیں‘ عموماً ان میں تقویٰ‘ طہارت‘ حمیت‘ غیرت‘ شجاعت اور دوسرے اخلاق فاضلہ برقرار نہیں رہتے یا کم از کم کمزور پڑ جاتے ہیں‘ اور عام مشاہدہ بھی یہی ہے کہ عام طور پر ایسے لوگوں کی ہمتیں پست ہوجاتی ہیں‘ وہ محنت‘ مشقت اور کسبِ مال سے جی چراتے ہیں‘ عیش کوشی‘ راحت پسندی اور آرام طلبی ان کی طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے‘ سستی و کاہلی ان کے رگ و ریشہ میں سرایت کرجاتی ہے جس کی وجہ سے ایسے لوگ معاشرہ میں بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے۔ اس لئے اندیشہ تھا کہ کہیں خاندانِ نبوت کے دشمن اس کو آڑ بنا کر ذاتِ نبوی کے خلاف زبان طعن کھول کر اپنی دنیا و آخرت نہ برباد کر بیٹھیں۔

انسانوں کے دین و ایمان کی بربادی کے اسی خطرہ کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آل و اطہار اور خاندان کے لئے زکوٰة و صدقات کو حرام قرار دے کر اپنی آل‘ اولاد اور خاندان پر معاشی وسعت کے دروازے بند کرکے ایک طرف ان کے لئے معاشی تنگی پیدا کی تو دوسری طرف بہت سوں کے ایمان و اسلام کو بربادی سے بچالیا۔

۵:… پھر اس کا بھی امکان تھا کہ کہیں میرا خاندان محض قرابت نبوی کی وجہ سے لوگوں کی زکوٰة و صدقات کو اپنا حق نہ سمجھ بیٹھے‘ یا کہیں اس کی نگاہ لوگوں کے مال زکوٰة و صدقات پر ہی نہ ٹک جائے‘ اس لئے زکوٰة و صدقات کو سرے سے ان پر حرام قرار دے دیاگیا۔

۶:… اس کے علاوہ عین ممکن ہے کہ خاندانِ نبوت پر زکوٰة و صدقات حرام قرار دینے کی یہ حکمت ہو کہ میرا خاندان ذلیل دنیا اور معمولی رزق کی خاطر مسلمانوں کی نگاہ میں ذلیل و خوار نہ ہوجائے‘ یا لوگوں کی زکوٰة و صدقات پر تکیہ کرکے حصولِ رزق میں کاہل و سست نہ پڑ جائے‘ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر زکوٰة و صدقات کو حرام قرار دے کر انہیں محنت و مجاہدہ سے بقدر کفایت رزق حاصل کرنے اور امور آخرت کی طرف متوجہ فرمایا۔

حیرت ہے کہ قادیانیوں کو ایک طرف آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس زہد و تکشف اور اپنی ذات سے لے کر اپنی آل‘ اولاد اور خاندان کے لئے کفاف و قناعت کے طرز عمل پر تو اعتراض ہے‘ مگر دوسری طرف اُنہیں مسیلمہ پنجاب مرزا غلام احمد قادیانی کے اس بدترین کردار اور مال بٹورنے کے سو‘ سو غلیظ حیلوں ‘بہانوں اور بیسیوں قسم کے چندوں پر کوئی اعتراض نہیں۔

اگر قادیانی امت تعصب اور عناد کی عینک اتار کر ایک لمحہ کے لئے اپنے انگریزی نبی مرزا غلام احمد قادیانی کی مالی حالت پر غور کرتی‘ تو اس پر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی کہ سیالکوٹ کی عدالت میں کلر کی کرنے والے ایک معمولی شخص کی فیملی‘ رائل فیملی کیسے بن گئی؟ اور اس کا خاندان دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں کیسے شامل ہوگیا؟ اور اس کے پاس اس قدر وافر مقدار میں مال و دولت کہاں سے آگئی؟ اور ان کی زمینوں اور جائیدادوں کی اسٹیٹس کہاں سے نازل ہوگئیں؟ بلاشبہ قادیانی امت خود ہی مرزائی نبوت کی شریعت کی روشنی میں بتلاسکتی ہے کہ یہ سب قادیانی چندہ مہم کی برکت ہے‘ کیونکہ قادیانی شریعت میں تو قبر بھی چندہ کے عوض فروخت ہوتی ہے‘ اس لئے کہ جو قادیانی وقف زندگی‘ وقف جدید‘ وقف فلاں‘ وقف فلاں کا چندہ نہ دے سکیں‘ انہیں قادیانی ”بہشتی مقبرہ“ میں دفن ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ جس کا معنی یہ ہے کہ جو قادیانی‘ بہشتی مقبرہ کا چندہ نہ دے پائے دوسرے لفظوں میں وہ جہنمی مقبرہ میں دفن ہوگا‘ گویا مرزا جی کو چندہ نہ دینے والے قادیانی اس دنیا میں ہی جہنمی ہیں۔

قادیانیو! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کے زکوٰة و صدقات استعمال نہ کرنے پر تو تمہیں اعتراض ہے‘ لیکن افسوس! کہ تمہیں اپنے نبی کے کنجریوں کی کمائی ہضم کرنے اور اُسے شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کرجانے پر کوئی اشکال نہیں‘ آخر کیوں؟ قادیانیو! تمہارا نبی زندگی بھر دونوں ہاتھوں سے چندہ سمیٹتا رہا اور ساری زندگی مالی تنگی کا رونا بھی روتا رہا‘ سوال یہ ہے کہ آج اس کی فیملی اور خاندان رائل فیملی کیسے بن گیا؟

قادیانیو! تمہارے نبی کی ساری زندگی دوسروں کے مال پر نظر رہی‘ جبکہ ہمارے نبی آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دنیائے دنی سے دامن چھڑانے میں گزری‘ چنانچہ آپ نے فرمایا: ہمیں تمہارے مال کی نہیں ایمان و اعمال کی ضرورت ہے۔

قادیانیو! تمہارے ہاں غریب کی کوئی حیثیت نہیں‘ چندہ دینے والے تمہارے ہاں بہشتی ہیں اور غریب جہنمی ہیں‘ اور تم قبروں کو بیچتے ہو‘ جبکہ ہمارے نبی اور ان کے امتیوں نے قبر فروشی کا کاروبار نہیں کیا‘ بلکہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”…فمن مات وعلیہ دین ولم یترک وفاءً فعلیَّ قضاء ہ ومن ترک مالاً فلورثتہ‘ متفق علیہ۔“ (مشکوٰة‘ ص: ۳۶۳)

ترجمہ: ”اگر کوئی مسلمان فوت ہوجائے اور اس پر کوئی قرضہ ہو تو اس کا میں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ذمہ دار ہوں اور اگر مال چھوڑ جائے تو اس کا مال اس کے وارثوں کا ہے۔“

ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لا نورث ما ترکناہ صدقة‘ متفق علیہ۔“ (مشکوٰة‘ ص:۵۵)

ترجمہ:… ”ہم جماعت انبیاء جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ ہمارے خاندان میں بطور وراثت تقسیم نہیں ہوتا‘ بلکہ وہ صدقہ ہے۔“

قادیانیو! بتاؤ!!! مرزا غلام احمد کی جائیداد اس کے خاندان کے علاوہ کہاں خرچ کی گئی؟ اگر قادیانیوں میں ذرہ برابر بھی شرم و حیا‘ یا عقل و دانش کی کوئی رمق ہوتی تو وہ نبی اُمّی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات پر اعتراض کرنے کی بجائے دنیا کے پجاری اور انگریز کے حواری نبی مرزا غلام احمد قادیانی پر دو حرف بھیج کر اس سے اظہار برأت کرتے۔

۴:… ”حضرت محمد نے جہاد کا حکم کیوں دیا؟ جہاد کو اسلام کا پانچواں ضروری رکن کیوں قرار دیا؟“

جواب:… دیکھا جائے تو اس اعتراض کے پیچھے بھی مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی امت کی انگریز حکومت کی نمک خواری کا جذبہ کار فرما ہے‘ ورنہ مرزائیوں اور تمام دنیا کو معلوم ہے کہ جہاد کا حکم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے‘ اس لئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ مرزائیوں‘ قادیانیوں اور ان کے باوا غلام احمد قادیانی کا اسلام اور قرآن پر نہ صرف یہ کہ ایمان نہیں‘ بلکہ ان کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

۲:… اگر قادیانی‘ قرآن کریم کو مانتے ہوتے اور اسے اللہ کا کلام سمجھتے ہوتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے از خود جہاد کا حکم دینا ہوتا تو مکی دور میں اس کا حکم دیتے‘ جبکہ مسلمان کفار و مشرکین کے ظلم کی چکی میں پس رہے تھے‘ اگر جہاد کا معاملہ آپ کے قبضہ میں ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثاروں کو صبر کی تلقین کیوں فرماتے؟ حبشہ کی ہجرت کی اجازت کیوں دی جاتی؟ اپنا آبائی گھر چھوڑ کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کیوں فرماتے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کفار اور مشرکین مکہ کے مظالم کیوں برداشت کرتے؟

۳:… اس سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم میں جس طرح مسلمانوں کو جہاد پر آمادہ کرنے اور اس طرف متوجہ کرنے کے لئے فرمایا ہے‘ اس سے صاف اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم مسلمانوں کے لئے قلت تعداد کے باعث ثقیل تھا‘ اور ان کے لئے جہاد کا حکم بجالانا کسی قدر مشکل تھا‘ چنانچہ مندرجہ ذیل آیات میں مسلمانوں کو جہاد کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:

الف:… ”اذن للذین یقاتلون بانہم ظلموا‘ وان اللہ علی نصرہم لقدیر۔“ (الحج:۳۹)

ترجمہ:…”حکم ہوا ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں‘ اس واسطے کہ ان پر ظلم ہوا اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔“

ب:… ”یا ایھاالنبی حرض المومنین علی القتال‘ ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مأتین‘ وان یکن منکم مائة یغلبوا الفا من الذین کفروا بانہم قوم لایفقہون۔“ (الانفال:۶۵)

ترجمہ:… ”اے نبی شوق دلا مسلمانوں کو لڑائی کا‘ اگر ہوں تم میں بیس شخص ثابت قدم رہنے والے تو غالب ہوں دو سو پر اور اگر ہوں تم میں سے سو شخص تو غالب ہوں ہزار کافروں پر اس واسطے کہ وہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے۔“

ج:… ”کتب علیکم القتال وہو کرہ لکم‘ وعسٰی ان تکرہوا شیئًا وہو خیرلکم‘ وعسٰی ان تحبوا شیئًا وہو شرلکم‘ واللہ یعلم وانتم لاتعلمون۔“ (البقرہ:۲۱۶)

ترجمہ:…”فرض ہوئی تم پر لڑائی اور وہ بری لگتی ہے تم کو‘ او ر شاید کہ تم کو بری لگے ایک چیز اور وہ بہتر ہو تمہارے حق میں اور شاید تم کو بھلی لگے ایک چیز اور وہ بری ہو تمہارے حق میں اور اللہ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔“

ان آیات اور اسی طرح کی دوسری متعدد آیات سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہاد کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے نہیں‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا‘ چونکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد تھوڑی تھی‘ اور وہ ایک عرصہ سے کفار کے مظالم کی چکی میں پس رہے تھے‘ اور مسلمان بظاہر کفار کی تعداد اور قو ت و حشمت سے کسی قدر خائف بھی تھے‘ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ان کو جہاد پر آمادہ کیا جائے اور باور کرایا جائے کہ وہ کفار کی عددی کثرت سے خائف نہ ہوں بلکہ مسلمانوں کا ایک فرد کفار کے دس پر بھاری ہوگا۔

۴:… اسی طرح یہ بھی واضح کیا گیا کہ مسلمانوں کو یہ احساس بھی نہیں رہنا چاہئے کہ اب تک تو ہمیں کفار کے مظالم پر صبر کی تلقین کی جاتی رہی اور ان کی جانب سے دی جانے والی تکالیف و اذیتوں پر صبر و برداشت کا حکم تھا تو اب جوابی‘ بلکہ اقدامی کارروائی کا حکم کیونکر دیا جارہا ہے؟ تو فرمایا گیا کہ یہ صبر و برداشت ایک وقت تک تھی‘ اب اس کا حکم ختم ہوگیا ہے اور جہاد و قتال کا حکم اس لئے دیا جارہا ہے کہ اب تمہارے صبر کا امتحان ہوچکا اور کفار کے مظالم کی انتہا ہوچکی۔

نیز یہ کہ چونکہ اس وقت کفار‘ مشرکین اور ان کے مظالم‘ اشاعتِ اسلام میں رکاوٹ تھے اور وہ فتنہ پردازی میں مصروف تھے‘ اس لئے حکم ہوا کہ : ”وقاتلوہم حتی لاتکون فتنہ“ یعنی کفار سے یہاں تک قتال کرو کہ کفر کا فتنہ نابود ہوجائے۔

اسی طرح اس مضمون کو دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا گیا:

الف:… ”یایھاالنبی جاہد الکفار والمنافقین واغلظ علیہم ومأوٰہم جہنم وبئس المصیر۔“ (التوبہ :۷۳)

ترجمہ:…”اے نبی! لڑائی کر کافروں سے اور منافقوں سے اور تند خوئی کر ان پر اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔“

ب:… ”قل ان کان آبائکم وابنائکم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال ن اقترفتموہا وتجارة تخشون کسادہا ومساکن ترضونہا احب الیکم من اللہ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی اللہ بامرہ‘ واللہ لایہدی القوم الفٰسقین۔“ (التوبہ: ۲۴)

ترجمہ:… ”تو کہہ دے اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور برادری اور مال‘ جو تم نے کمائے ہیں اور سودا گری‘ جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور حویلیاں جن کو پسند کرتے ہو‘ تم کو زیادہ پیاری ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور لڑنے سے اس کی راہ میں‘ تو انتظار کرو یہاں تک کہ بھیجے اللہ اپنا حکم اور رستہ نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو۔“

ان آیات سے بھی واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہاد کا حکم اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوا ہے‘ بلکہ اس میں شدت کی تاکید ہے‘ اور جو لوگ اپنی محبوبات و مرغوبات کو چھوڑ کر جہاد کا حکم بجا نہیں لائیں گے‘ وہ اللہ کے عذاب کا انتظار کریں۔ بتلایا جائے کہ اگر اللہ کا رسول‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا مسلمان اس حکم الٰہی کو بجا لائیں اور نصوص قطعیہ کی وجہ سے اُسے فرض جانیں تو اس میں اللہ کے نبی ‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور مسلمانوں کا کیا قصورہے؟ نیز یہ بھی بتلایا جائے کہ جو لوگ طبعی خواہش اور نفس کے تقاضا کے خلاف سب مرغوبات و محبوبات کو چھوڑ کر اللہ کا حکم بجا لائیں‘ وہ قابلِ طعن ہیں یا وہ‘ جو دنیاوی مفادات اور انگریزوں کی خوشنودی کی خاطر اللہ کے حکم کو پس پشت ڈال دیں؟

بلاشبہ قادیانیوں کا یہ اعتراض ”اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کے زمرے اور مصداق میں آتا ہے۔

۵:… اس سے ہٹ کر مشاہدات‘ تجربات‘ عقل اور دیانت کی روشنی میں اگر دیکھا جائے‘ تو اللہ کے باغی کفار‘ مشرکین اور معاندین کے خلاف جہاد یا اعلان جنگ عین قرین ِ قیاس ہے۔

اس لئے کہ دنیا کے دو پیسے کے بادشاہوں میں سے کسی کے خلاف اس کی رعایا کا کوئی فرد اعلان بغاوت کردے تو پہلی فرصت میں اس کا قلع قمع کیا جاتا ہے اور ایسے باغی کے خلاف پورے ملک کی فوج اور تمام حکومتی مشینری حرکت میں آجاتی ہے تاآنکہ اس کو ٹھکانے نہ لگادیا جائے۔ اور مہذب دنیا میں ایسے باغیوں سے کسی قسم کی رعایت برتنے کا کوئی روادار نہیں ہوتا‘ اور نہ ہی ان کے حق میں کسی کو سفارش کرنے کی اجازت ہوتی ہے‘ بلکہ اگر ایسے باغی گرفتار ہوجائیں اور سو بار توبہ بھی کرلیں تو ان کی جان بخشی نہیں ہوتی‘ اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی قوم‘ برادری یا افراد‘ خالق و مالک کائنات اور رب العالمین سے بغاوت کریں‘ اور نعوذباللہ! اس کو چھوڑ کر وہ کسی دوسرے کو رب‘ الٰہ اور مالک مان لیں یا خالق کائنات کے احکام سے سرتابی کریں‘ تو کیا اس رب العالمین اور مالک ارض و سما کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی فوج کے ذریعہ ان شوریدہ سروں کا علاج کرے اور ان کو ٹھکانے لگائے؟ دیکھا جائے تو جہاد کا یہی مقصد ہے‘ اور یہ عدل و انصاف کے عین مطابق ہے۔

۶:… پھر جہاد صرف شریعت محمدی ہی میں شروع نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل دوسرے انبیاء کی شریعتوں میں بھی مشروع تھا‘ جیسا کہ بائبل میں ہے:

”پھر ہم سے مڑ کر بسن کا راستہ لیا اور بسن کا بادشاہ عوج اورعی# میں اپنے سب آدمیوں کو لے کر ہمارے مقابلہ میں جنگ کرنے کو آیا‘ اور خداوند نے مجھ سے کہا: اس سے مت ڈرو کیونکہ میں نے اس کو اور اس کے سب آدمیوں اور ملک کو تیرے قبضہ میں کردیا ہے‘ جیسا تونے اوریوں کے بادشاہ سیحون# سے جو حسبون# میں رہتا تھا کیا‘ ویسا ہی تو اس سے کرے گا؟ چنانچہ خداوند ہمارے خدا نے لبسن کے بادشاہ عوج کو بھی اس کے سب آدمیوں سمیت ہمارے قابو میں کردیا اور ہم نے ان کو یہاں تک مارا کہ ان میں سے کوئی باقی نہ رہا‘ اور ہم نے اسی وقت اس کے سب شہرلے لئے اور ایک شہر بھی ایسا نہ رہا جو ہم نے ان سے نہ لے لیا ہو… اور جیسا ہم نے سیحون# کے بادشاہ سیحون کے ہاں کیا ویسا ہی ان سب آباد شہروں کو مع عورتوں اور بچوں کے بالکل نابود کر ڈالا۔“ (استثنا‘ باب:۳‘ آیت:۱ ‘۲‘۳ اور ۶)

اسی طرح باب :۲‘ آیت: ۱۰ تا ۱۴ میں ہے:

”جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا‘ اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لئے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گزار بن کر تیری خدمت کریں‘ اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کریں بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو‘ تو اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کردے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا‘ لیکن عورتوں اور بال بچوں اور چوپائیوں اور اس شہر کے سب مال اور لوٹ کو اپنے لئے رکھ لینا اور تو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھ کو دی ہو‘ کھانا۔“


(جاری ہے)

کینیڈا سے قادیانیوں کے پندرہ سوالات اور ان کا جواب ...قادیانیت کا مکروہ چہرہ ۔۔۔۔ قسط نمبر1
 
Top